منورعلی ملک کے ستمبر 2019 کےفیس بک پرخطوط
میرا میانوالی—————-
رٰضی اللہ تعالی عنہ —————
جناب عمر ابن الخطاب کا دور خلافت تھا – ایک دن ان کا چھوٹا صاحبزادہ روتا ھؤا آیا اور کہنے لگا
“ابو جی ، حسن اور حسین کہتے ھیں تم ھمارے غلام ھو “جناب عمر کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، کہا “ ھاں بیٹا ، وہ ٹھیک کہتے ھیں – ھم ان کے غلام ھیں – جاؤ یہی بات ان سے لکھوا لاؤ ۔ اور جب میں مروں تو وہ کاغذ میرے کفن میں رکھ دینا “-
از راہ کرم اس پوسٹ پر فرقہ وارانہ اختلافی کمنٹ نہ دیں – اس سے اتحاد کا سبق سیکھیں یہ واقعہ 1963 میں جب ھم سنٹرل ٹریننگ کالج لاھور میں پڑھتے تھے , اتحاد بین المسلمین کے ایک جلسے میں ایک شیعہ عالم دین سے سنا تھا – مولانا عبدالستارخان نیازی بھی اس اجلاس میں شریک تھے -رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک–1ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
سلام یا حسین ————–❤️
علامہ اقبال کا فارسی شعر —————–
بہر حق در خاک و خوں غلطیدہ است
تا بنائے لآالہ گردیدہ است❤️
مفہوم —– جناب حسین نے خاک اور خون کا گارا بنا کر دین حق کی بنیاد تعمیر کردی –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک–1ستمبر 2019
دسمبر1980 میں میں عیسی خیل سے ٹرانسفر ھو کر گورنمنٹ کالج میانوالی آیا تو یہاں فیس والی ٹیوشن کا رواج تھا – فزکس ، کیمسٹری اور بیالوجی کے پروفیسرصاحبان اپنے گھروں میں ایف ایس سی کی ٹیوشن پڑھا رھے تھے – مجھ سے پہلے یہاں انگلش کے تین پروفیسر صاحبان تھے – پروفیسرملک سلطان محمود اعوان اور پروفیسرسیدمحمد حنیف شاہ تو ٹیوشن نہیں پڑھاتے تھے – پروفیسر سرورنیازی صاحب ایف ایس سی کے بچوں بچیوں کے دوچار گروپس کو انگلش کی ٹیوشن پڑھا رھے تھے –
سرور نیازی صاحب چونکہ پہلے ھی بہت مصروف تھے ، اس لیے بی اے کی ٹیوشن کے لیے لوگ میرے پاس آنے لگے – مجھے ٹیوشن پڑھانے کا کوئی شوق نہ تھا ، مگر در پہ آئے سوالی کو انکار کرنا مجھے نہیں آتا – میں نے بی اے کے بچوں بچیوں کو پڑھانا شروع کر دیا – بعد میں ھمارے کالج میں ایم اے کی کلاسز شروع ھوئیں تو ایم اے کے سٹوڈنٹس بھی میرے ھاں آنے لگے – یہ سلسلہ میری ریٹائرمنٹ کے بعد بھی چلتا رھا -2010 میں میں اپنے بیٹے پروفیسر محمد اکرم علی ملک کے ساتھ لاھور منتقل ھوا تو یہ سلسلہ ختم ھوگیا – صحت کے بعض مسائل کی وجہ سے میں نے ٹیوشن پڑھانا ھمیشہ کے لیے ترک کردیا – پڑھنے لکھنے کاکام بحمداللہ اب بھی کر رھا ھوں –
میں نے کبھی ٹیوشن فیس نہ مقرر کی ، نہ مانگی – سٹوڈنٹس جو کچھ دے دیتے تھے میں نے اس پہ کبھی اعتراض نہیں کیا – جو نہیں دیتے تھے میں نے کبھی پوچھا نہیں تھا ، کیونکہ میں کسی غریب سٹوڈنٹ کو شرمندہ نہیں کرنا چاھتا تھا –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک–2 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
—اپنا شعر ————————
یہ قافلہ اب کبھی نہ لوٹے گا، حکم تھا میر کارواں کا
سفر کا آغاز تھا مدینہ ، سفر کا انجام کربلا تھا
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک–2 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
یہ واقعہ دو چار سال پہلے بھی لکھا تھا – وھی پیغام یاد دلانے کے لیے آج پھر لکھ رھا ھوں –
1998 کی بات ھے – بی اے کی بچیوں کا ایک گروپ میرے پاس انگلش پڑھنے کے لیے آتا تھا – ایک نئی بچی اس گروپ میں شامل ھوئی – اس نے پہلے ھی دن 300 روپے فیس دے دی – اگلے ماہ کی پہلی تاریخ کو اس نے کہا<“سر، اس دفعہ میں پندرہ تاریخ کو فیس دے سکوں گی ، کیونکہ اس ماہ مجھے تنخواہ پندرہ تاریخ کو ملے گی “<
میں نے کہا “بیٹا ، آپ کوئی جاب کر رھے ھیں “
بچی نے کہا “ جی ، سر ۔ میں ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی ھوں “-
میں نے کہا “ کتنے پیسے ملتے ھیں ؟“
بچی نے کہا “سر ، تین سو روپے“-
مجھے پسینہ آگیا – یہ سوچ کر کانپ اٹھا کہ ایک غریب بچی صرف میری ٹیوشن فیس کمانے کے لیے پورا مہینہ روزانہ پانچ گھنٹے سکول میں کام کرتی ھے — میں نے اسے پچھلے ماہ کی فیس کے تین سو روپے واپس دیتے ھوئے کہا “ بیٹا ، آپ نے یہ بات پہلے بتا دینی تھی – آپ میرے بچے ھیں ، میں آپ سے کوئی فیس نہیں لوں گا “-
اس پوسٹ میں پیغام یہ ھے کہ اپنے ارد گرد نظر رکھا کریں – تعلیم کے شوقین غریب بچوں کی مدد کرتے رھا کریں – یونیفارم، کتابیں ، یا فیس کے پیسے انہیں دیتے رھا کریں – ضروری نہیں کوئی مانگنے کے لیے آپ کے در پہ آئے ، ھمارے آبا ؤاجداد تو خود چل کر غریبوں کے در پہ جاتے اور ان کی مدد کرتے تھے – اللہ کو ایسی ازخود مدد زیادہ پسند ھے –
کل کی پوسٹ ان شآءاللہ اساتذہ کرام اور سٹوڈنٹس سے مخاطب ھوگی –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک–3 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
—اپنا شعر ———————
کل بھی ھم مسلماں تھے، آج بھی مسلماں ھیں
اپنے آج اور کل میں فرق کربلا کاھے
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک–3 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
بہت واہ واہ ھوئی کل کی پوسٹ پر – بہت سے لوگوں نے کہا سر ، آپ گریٹ ھیں -اللہ کے بندو، گریٹ میں نہیں ، گریٹ وہ بچی ھے جو اپنی ٹیوشن فیس کمانے کے لیے پورا مہینہ روزانہ پانچ گھنٹے ایک پرائیویٹ سکول میں کام کر رھی تھی – اصل گریٹ ایسے ھی غیور ، خوددار اور حساس غریب لوگ ھوتے ھیں میں ٹیوشن پڑھانے کا مخالف نہیں ، کیونکہ آج کے دور میں یہ ٹیچرز کی ضرورت بلکہ مجبوری بن گئی ھے – بجلی اور گیس کے بل دیکھیں ، یا بازار میں چیزوں کی مہنگائی ، تنخواہ دار طبقے کے لیے اپنی سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھنا مشکل ھو گیا ھے – ٹیوشن ورک ھو یا کوئی اور جزوقتی کام ، ان حالات میں عیب نہیں –
ایک دن صبح سویرے فیصل آباد میں ھم رکشا پر سوار ھوئے تو باتوں باتوں میں سفید ریش بزرگ رکشا ڈرائیور نے کہا “ جی ، میں ایک پرائمری سکول میں ٹیچر ھوں ، سکاول کھلنے سے پہلے اور چھٹی کے بعد رکشا چلاکر چار پیسے کمالیتا ھوں کیونکہ تنخواہ میں گذارا نہیں ھوتا — میری نظر میں ایک گریٹ انسان وہ ٹیچر بھی تھا –
ٹیچربھائیوں سے صرف یہ گذارش کرتا ھوں کہ ٹیوشن پڑھنے کے لیے آنے والے بچوں کے مالی حالات سے باخبر رھیں – یتیم یا مزدوروں اور بے روزگار لوگوں کے بچوں کو پڑھائیں ضرور مگر ان سے فیس نہ لیں – کسی غریب بچے کو فیس نہ دے سکنے پر پڑھانے سے انکار نہ کریں –
سٹوڈنٹس بچوں سے بھی یہ گذارش ھے کہ جہاں تک ھوسکے اپنے غریب ساتھیوں کی مدد کرتے رھا کریں – ان کی یونیفارم ، کتابوں اور فیس وغیرہ کا خرچ مل جل کر اٹھا لیا کریں – یاد رکھیں ایسے نادار لوگوں کی دعائیں آپ کے لیے کامیاب مستقبل کی ضمانت بن سکتی ھیں – آپ کے بہت سے مسائل ایسی ھی دعاؤں کے منتظر رھتے ھیں — صرف سوچنا نہیں ، ان باتوں پر عمل کرنا ھے —
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک–4 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
جب مرحوم ڈاکٹرغلام سرورخان نیازی گورنمنٹ کالج میانوالی کے پرنسپل تھے ۔ داؤدخیل سے ایک یتیم بچہ ایف ایس سی میں داخلہ لینے کے لیے ھمارے کالج میں آیا- وہ میرا محلے دار تھا – میں ذاتی طور پر جانتا تھا کہ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ھے – میں نے ڈاکٹر صاحب سے بات کی تو انہوں نے اس کی فیس بھی معاف کردی اور لائبریرین محمداسلم خان نیازی سے کہہ کر اسے سرکاری بک بینک سے کتابیں بھی دلوادیں –
صرف یہی نہیں ، جب وہ بچہ ایف ایس سی کے بعد راولپنڈی میڈیکل کالج میں داخل ھؤا تو ڈاکٹر صاحب ھرماہ کی پہلی تاریخ کو اس کے خرچ کی رقم مجھے دے دیتے اور میں یہ رقم منی آرڈر کے ذریعے اسے بھجوا دیتا -“>ڈاکٹر صاحب کے دو کزن ( ڈاکٹراسلم خان اور ڈاکٹر افضل خان نیازی) راولپنڈی میں رھتے تھے – ڈاکٹر صاحب نے بتایا ایک دن میرے کزن نے کہا “بھائی جان ، آپ یہ زحمت کیوں گوارا کرتے ھیں – ھم راولپنڈی ھی میں رھتے ھیں – آپ اس بچے سے کہہ دیں وہ ھرماہ آکر مجھ سے پیسے لے لیا کرے –
ڈاکٹرصاحب نے کہا “ نہیں ، خان صاحب ، میں نہیں چاھتا کہ میری زندگی میں وہ بچہ کسی کے در پہ جاکر ھاتھ پھیلائے – اس کا خرچ میں خود اسی طرح بھیجتا رھوں گا –
بحمداللہ اب وہ بچہ سینیئرمیڈیکل آفیسر ھے –
اب سمجھے آپ کہ گریٹ انسان کیسے لوگ ھوتے ھیں – ؟؟؟؟؟رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک–5 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
جب مرحوم ڈاکٹرغلام سرورخان نیازی گورنمنٹ کالج میانوالی کے پرنسپل تھے ۔ داؤدخیل سے ایک یتیم بچہ ایف ایس سی میں داخلہ لینے کے لیے ھمارے کالج میں آیا- وہ میرا محلے دار تھا – میں ذاتی طور پر جانتا تھا کہ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ھے – میں نے ڈاکٹر صاحب سے بات کی تو انہوں نے اس کی فیس بھی معاف کردی اور لائبریرین محمداسلم خان نیازی سے کہہ کر اسے سرکاری بک بینک سے کتابیں بھی دلوادیں –
صرف یہی نہیں ، جب وہ بچہ ایف ایس سی کے بعد راولپنڈی میڈیکل کالج میں داخل ھؤا تو ڈاکٹر صاحب ھرماہ کی پہلی تاریخ کو اس کے خرچ کی رقم مجھے دے دیتے اور میں یہ رقم منی آرڈر کے ذریعے اسے بھجوا دیتا ->ڈاکٹر صاحب کے دو کزن ( ڈاکٹراسلم خان اور ڈاکٹر افضل خان نیازی) راولپنڈی میں رھتے تھے – ڈاکٹر صاحب نے بتایا ایک دن میرے کزن نے کہا “بھائی جان ، آپ یہ زحمت کیوں گوارا کرتے ھیں – ھم راولپنڈی ھی میں رھتے ھیں – آپ اس بچے سے کہہ دیں وہ ھرماہ آکر مجھ سے پیسے لے لیا کرے –
ڈاکٹرصاحب نے کہا “ نہیں ، خان صاحب ، میں نہیں چاھتا کہ میری زندگی میں وہ بچہ کسی کے در پہ جاکر ھاتھ پھیلائے – اس کا خرچ میں خود اسی طرح بھیجتا رھوں گا –
بحمداللہ اب وہ بچہ سینیئرمیڈیکل آفیسر ھے –
اب سمجھے آپ کہ گریٹ انسان کیسے لوگ ھوتے ھیں – ؟؟؟؟؟رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک–5 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
ھمارے فیس بک کے ساتھی عمران احمد نے یہ پکچر بھیجی ھے – پکچر خود بول رھی ھے – معاملہ یہ ھے کہ داؤدخیل کے محلہ حسین آباد کا گورنمنٹ پرائمری سکول صاحبداد عمارت سے محروم ھے – (میں نے داؤدخیل کا یہ علاقہ نہیں دیکھا ، شاید کوئی نئی آبادی ھے)-
سرکاری اداروں کا یہ حال صرف پاکستان ھی میں ھوتا ھے – عوام کو خوش کرنے کے لیے حکومت ادارے بنا دیتی ھے – نہ عمارت ۔ نہ کوئی اور سہولت , سالہا سال یہ ادارے یونہی اپنی بے سرو سامانی کا رونا روتے رھتے ھیں -میں نے صدر ایوب خان کے دور میں ٹھٹھی سکول میں ھیڈماسٹر کا منصب سنبھالا – آٹھ کلاسز کے لیے صرف دوکمرے —–!!!!! ضلع کی سرکار سے رابطہ کیا تو کہا گیا “اوپر“ سے حکم تھا ، بس اب گذارہ کریں – ھمارے پاس نہ پیسے ھیں ، نہ اختیارات – ھم دعا ھی کر سکتے ھیں –
اللہ کے فضل سے ھم نے گاؤں کے لوگوں کے تعاون سے60 فٹ لمبا ، 15 فٹ چوڑا برآمدہ سا بنا کر اس میں دیواریں کھڑی کر کے 5 کمرے بنا لیے – ایک کلاس کو عمارت کے سائے میں پناہ دے دی – 5 سال بعد سرکار کو بھی خدا نے توفیق دے دی ، دو کمرے اور بن گئے – بہت مشکل وقت تھا –
مگر اب کم ازکم وزیراعظم کے حلقہءانتخاب میں تو ایسا نہیں ھونا چاھیئے – (داؤدخیل وزیراعظم عمران خان کے حلقہءانتخاب میں واقع ھے ) – مقامی ایم پی اے امین اللہ خان میرے عزیز ھیں – ان سے گذارش ھے کہ وہ ذاتی دلچسپی لے کر یہ مسئلہ حل کرائیں – اس سکول کو عمارت اور دوسری سہولیات جلد فراھم کی جائیں -رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-6 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
اٹھ کر سلام کیجیے ————————-
پاک فوج کے سب سے پہلے شہید
میجر رضا شاہ
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک–6 ستمبر 2019
قول حسین عالی مقام
جس کا اللہ کے سوا کوئی نہیں ، اس پر ظلم نہ کرو ، کیونکہ اس کا انتقام اللہ لیتا ھے –
محرم میں شہدائے کربلا کی عزاداری کی روایت عراق ، شام ، ایران سے ھوتی ھوئی تقریبا تین سو سال پہلے برصغیر میں پہنچی – بھارت کا شہر لکھنؤ عزاداری کا سب سے بڑا مرکز ھؤا کرتا تھا – میرانیس اور میرزا دبیر جیسے لیجنڈ مرثیہ نگار اسی سرزمین کے چشم و چراغ تھے –
عزاداری کی روایت بھارت اور پاکستان میں دونوں جگہ آج بھی برقرارھے ، اور ھمیشہ رھے گی – شہیدوں کے پاک لہو سے لکھے گئے تاریخ کے ان صفحات کا باربار مطالعہ ھی اس قوم کو زندہ رکھنے کی ضمانت بن سکتا ھے –
چند ایک انتہائی حساس مقامات کے سوا پاکستان میں بحمداللہ ، محرم میں سنی شیعہ اتحاد اور بھائی چارے کی فضا ھمیشہ برقرار رھی ھے –
اللہ کے فضل سے اس معاملے میں ضلع میانوالی کا ماحول ھمیشہ مثالی رھا ھے – پچھلے سال محرم کے حوالے سے میری پوسٹ پر کمنٹ دیتے ھوئے داؤدخٰیل کے کچھ نوجوانوں نے بتایا کہ محرم کے جلوسوں میں سیکیوریٹی کے فرائض سنی نوجوان بڑے احترام سے ادا کرتے ھیں –
آئندہ دوتین دن کی پوسٹس ان شآءاللہ محرم ھی کے حوالے سے ھوں گی -رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک–7 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
اپنا کلام ——————-
حسین سا اور کون ھوگا
حسین صبرورضا کا پیکر
اکیلا میدان جنگ جا کر
جوان بیٹے کی بوٹیاں چن کے
ایک چادر میں باندھ لایا
حسین سا اور کون ھوگا
————————
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک–7 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
عزاداری کے مرکز کو امام باڑہ (آج کل امام بارگاہ ) کہتے تھے- ھمارے بچپن کے دور میں چونکہ علاقے میں تعلیم عام نہ تھی ، اس لیے مقامی زبان میں امام باڑہ یا امام بارگاہ کی بجائے عزاداری کے مرکز کو “تڈی“ کہتے تھے – “تڈٰی“ دراصل تعزیت کے لیے بیٹھنے والی جگہ کو کہتے ھیں ، جہاں آج کل دریاں ، پرانے زمانے میں چٹایاں بیٹھنے کے لیے استعمال ھوتی تھیں – لفظ “تڈی“ آج کل طنز کے طور پر بولا جاتا ھے – بچہ اگر کسی بات پر ضد کر رھا ھو ، رو رھا ھو تو کہا جاتا ھے “تڈی گھتی بیٹھااے“-
لیکن ھمارے زمانے میں یہ لفظ عزاداری کی مجلسوں کے لیے مخصؤص تھا ، اس لیے یہ مقدس سمجھا جاتا تھا -داؤدخٰیل میں تین جگہ عزاداری کا اھتمام ھوتا تھا – محلہ علاؤل خیل میں سید گل عباس شاہ کی امام بارگاہ ، محلہ داؤخیل میں شاہ غلام محمد کی امام بارگاہ اور محلہ شریف خیل میں ماسٹرسید کرم حسین کے خاندان کی امام بارگاہ -<
داؤدخیل کے سادات غریب تھے ، اس لیے باھر سے ذاکر بلانے کی بجائے مقامی ذاکروں پر اکتفا کیا جاتا تھا – بات خلوص کی ھے ، چھوٹے یا بڑے ذاکر سے کوئی فرق نہیں پڑتا – مقامی ذاکر زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے ، پھر بھی ان کی زبان میں اثر اور آواز میں بے پناہ سوز تھا —- وہ کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے –
اللہ معاف کرے بڑے ذاکروں کے بارے میں تو مشہورومعروف شاعر اھل بیت جوش ملیح آبادی نے صاف کہہ دیا تھا –
خون اھل بیت میں لقمے کو تر کرتا ھے تو
عشرہ ء ماہ محرم عید ھے تیرے لیے
جوش صاحب کا یہ طنز ان ذاکروں پر تھا ، جو معاوضے کے لیے سودابازی کرتے ھیں –
سات محرم تک مجلس عزا دن کو ھوتی تھی – سات محرم سے رات کو —- مجالس میں ساٹھ ستر فی صد حاضرین سنی ھوتے تھے – اتحاد اور اخوت کی ایک مثالی فضا تھی اس دور میں -رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک–8 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
اپنی شاعری کی کتاب “جوتم سے کہہ نہ سکا“ میں سے –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک–9 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
—–شام غریباں —————— اپنا کلام
لوگ کہتے ھیں شام غریباں
ھے یہ دراصل شام سکینہ
آج مٹی پہ سوئی ھے معصوم
جس کا بستر تھا بابا کا سینہ
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک–10ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
قائداعظم کے آخری لمحات ————————-
قائداعظم کے آخری لمحات کے بارے میں ان کے ذاتی معالج کرنل ڈاکٹر الہی بخش کی کتاب “نامعلوم وجوھات“ کی بنا پر 1949 میں شائع نہ ھو سکی – یہ کتاب 27 سال بعد 1976 میں شائع ھوئی –
ڈاکٹرالہی بخش لکھتے ھیں کہ قائداعظم کو لے کر خصوصی طیارے میں میں ، محترمہ فاطمہ جناح ، ایک نرس اور کچھ ملازمین 4.10 بجے کراچی پہنچے ۔ قائداعظم کے ملٹری سیکریٹری کرنل نولز (انگریز) ایمبولینس کے ساتھ ھوائی اڈے پر موجود تھے – ایمبولینس کے ساتھ کوئی نرس نہ تھی – ھم قائداعظم کو لے کر گورنر جنرل ھاؤس روانہ ھوئے – نو ، دس میل کا فاصلہ تھا ، تقریبا چارمیل چل کر ایمبولینس کے انجن نے جواب دے دیا – ڈرائیور نے کہا ابھی ٹھیک کر دیتا ھوں – پندرہ بیس منٹ بعد ڈرائیور نے بھی جواب دے دیا تومحترمہ فاطمہ جناح نے ملٹری سیکریٹری کرنل نولز کو دوسری ایمبولینس لانے کے لیے بھیج دیا – تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ بعد وہ ایمبولینس لے کرآئے – قائداعظم کوان کے کمرے میں پہنچا دیاگیا- میں نے مدد کے لیے ایک اور ماھر ڈاکٹر (ڈاکٹرشاہ) سے فون پر رابطہ کیا – وہ نہ ملے – ان کے گھربھی گیا ، کسی کو کچھ پتہ نہ تھا وہ کہاں ھیں – تقریبا دو گھنٹے بعد وہ آئے – انہوں نے قائداعظم کو انجیکشن لگانے کی کوشش کی – انجیکشن کا وقت گذر چکا تھا – قائداعظًم نیم بیہوشی کی حالت میں تھے – میں نے قریب جا کر کہا :
“Sir, you are going to live.”
قائداعظم نے کہا ” .No, I am not””>تقریبا آدھ گھنٹہ بعد بابائے قوم خالق حقیقی کے دربار میں حاضر ھوگئے –
یہ کہانی بہت سے سوالات کو جنم دیتی ھے – ایک کتاب محترمہ فاطمہ جناح نے بھی لکھی تھی – وہ بھی بچیس تیس سال بعد اس وقت شائع ھوئی جب محترمہ اس دنیا میں موجود نہ تھیں – حقیقت حال تو رب جانے صرف اتنا کہا جا سکتا ھے کہ کچھ خفیہ ھاتھ اس وقت حرکت میں تھے – کچھ لوگ نہیں چاھتے تھے کہ قائداعظم اس دنیا میں رھیں –
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا———————————————- رھے نام اللہ کا ——– منورعلی ملک ——
پاکستان میں نے اور فاطی (بہن فاطمہ جناح) نے مل کر بنایا —– قائداعظم
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک–11 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے
بابا جی (قائداعظم محمدعلی جناح) کا ذکر چھڑا ھے تو ان کی سیاسی عظمت و بصیرت کے حوالے سے ایک اور واقعہ یاد آگیا – یہ واقعہ ھمارے بزرگ دوست ، معروف شاعر مرحوم سید سوز زیدی نے سنایا تھا -زیدی صاحب بتاتے ھیں کہ تحریک پاکستان جب عروج پر تھی ، ھم اس وقت کالج میں پڑھتے تھے ، اور مسلم لیگ یوتھ ونگ سے وابستہ تھے – جوانی کے جوش میں ھم چاھتے تھے کہ قائداعظم مذاکرات کے سست رفتار عمل کی بجائے ھمیں انگریز حکومت سے دو دو ھاتھ کرنے کی اجازت دے دیں ، ھم دوچار جلوس نکالیں، دھرنے دیں ، بے شک ھم میں سے دوچار شہید ھو جائیں ، کچھ جیل چلے جائیں ، تنگ آکر انگریز حکومت ھمارا مطالبہ مان لے گی – مطالبہ تھا —- پاکستان کا مطلب کیا ، لآالہ الااللہ – مسلمانوں کے لیے ایک الگ آزاد ریاست –
زیدی صاحب نے بتایا کہ ھم دس پندرہ سٹوڈنٹ رھنما وفد کی صورت میں بمبئی (آج کا ممبئی) قائد اعظم کی رھائش گاہ پر حاضر ھوئے – صبح کا وقت تھا – قائداعظم کوٹھی کے لان میں چہل قدمی (walk) کر رھے تھے – ھمیں دیکھ کر ھماری طرف آئے اور پوچھا کیا بات ھے – ھم نے کہا “سر، انگریز حکومت بہت مکار ھے – وہ مذاکرات سے بات نہیں مانے گی – آپ ھمیں اجازت دیں ، ھم سڑکوں پر آکر ھر قربانی دینے کے لیے تیار ھیں –
ھماری بات سن کر بابا جی نے کچھ سوچ کر کہا “ بیٹا ، میرے ساتھی لیڈر اتنے مخلص نہیں ھیں کہ میری خاطر جیل چلے جائیں – سب مجھے چھوڑ کر بھاگ جائیں گے – مجھے اللہ پہ بھروسہ ھے، میں ان شآءاللہ پاکستان لے کر دکھاؤں گا – آپ لوگ جائیں ، اپنی تعلیم پر توجہ دیں – یہی آپ کا اولیں فرض ھے — رھے نام اللہ کا — رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک–12 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
اندھیری رات —- آبادی سے میلوں دورویران صحرا میں . یوسف نامی ایک خانہ بدوش عرب کا خیمہ —- شدید آندھی اور بارش – ایک مسافر نے پناہ کی درخواست کی – یوسف نے اسے اندر بلا لیا ، کھانا کھلایا ، سونے کے لیے اپنا بستر اسے دے دیا ، اور خود زمین پر لیٹ گیا – سحر کے وقت یوسف نے مسافر کو جگا کر کہا ، میرا گھوڑا باھر تیار کھڑا ھے ، وہ لے لو اور فورا یہاں سے نکل جاؤ –
مسافرحیران —- یوسف نے کہا “تم نے مجھے نہیں پہچانا ، لیکن میں نے تمہیں آتے ھی پہچان لیا تھا – تم میرے بیٹے کے قاتل ھو – تمہیں پناہ دینا اور کھانا کھلانا میرا فرض تھا ٠ لیکن اکلوتے بیٹے کے قاتل سے انتقام لینے کی خواھش نے مجھے رات بھر سونے نہ دیا – ابھی اندھیرا ھے ، نکل جاؤ – کہیں ایسا نہ ھو کہ صبح کی روشنی میں تمہیں سامنے دیکھ کر میں انتقام کی خواھش پر قابو نہ پا سکوں ، اور تمہیں قتل کر دوں “-
یہ کہہ کر یوسف نے اس مہمان کو رخصت کردیا ، پھر بیٹے کی روح سے مخاطب ھو کر کہا “بیٹا ، میں مجبور تھا ، مہمان کو قتل کر کے اپنے آباؤاجداد کی روایت سے بغاوت نہیں کر سکتا تھا — مجھے معاف کردینا “-
کیا بڑے لوگ تھے –رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-13 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
دشمن کی کمزوری سے فائدہ نہ اٹھانا اسلام کا امتیازی وصف ھے – بہت عرصہ ھؤا انگریزی میں Saladin’s Gift کے عنوان سے ایک نظم پڑھی تھی – قصہ یہ تھا کہ جب سلطان صاح الدین ایوبی عیسائی شہنشاہ رچرڈ کے خلاف جنگ میں مصروف تھے تو اچانک دیکھا کہ بادشاہ رچرڈ کا گھوڑا زخمی ھو کر گر گیا –
شاہ رچرڈ بہت دلیر انسان تھا ، اس لیے اسے رچرڈ شیر دل کہتے تھے – گھوڑا گرگیا تو رچرڈ پیدل لڑنے لگا — یہ دیکھ کر سلطان صلاح الدین ایوبی نے فورا ایک اعلی نسل کا گھوڑا شاہ رچرڈ کے لیے بھجوا دیا – کہتے ھیں سلطان کی اس بے مثل مروت سے متاثر ھو کر شاہ رچرڈ نے صلح کا اعلان کرتے ھوئے اپنی فوج کو واپس بلا لیا –رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-14 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
ھمارے قبائلی علاقے کے لوگوں کو طاقت سے قابو میں لانے کی ناکام کوشش انگریز حکومت دوسوسال تک کرتی رھی – بنوں میں فوجی چھاؤنی بھی قائم کی ، ریاست کی پوری قوت استعمال کی مگر غیور قبائیلیوں نے ھر حربہ ناکام بنا دیا – وہ آزاد ھی رھے –
ایک دن ایک انگریز فوجی افسر گھوڑے پر سوار ، وزیرستان کے علاقے سے گذررھا تھا – اس کے ساتھ ایک مسلح مسلمان سپاھی پیدل چل رھا تھا – اچانک پہاڑکی چوٹی سے ایک گولی آکر سپاھی کو لگی اور وہ جاں بحق ھو گیا -“>انگریز بہت مکار لوگ تھے – اس انگریز فوجی افسر نے اپنے خفیہ ذرائع سے تفتیش کرائی تو پتہ چلا کہ فائر کرنے والا فلاں قبائلی سردار کا بیٹا تھا – انگریز افسر اس قبائلی سردار سے ملا اور کہا کہ کل آپ کے بیٹے کے فائر سے میرا مسلمان سپاھی ھلاک ھو گیا – مسلمان کے قتل کے بارے میں آپ کا قرآن کیا کہتا ھے –
سردار نے کہا قتل کا بدلہ قتل ھی ھے – یہ کہہ کر اس نے اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا “کل تم نے فلاں وقت کسی پر گولی چلائی تھی “-
بیٹے نے کہا “جی ھاں ، ایک فرنگی افسر پر فائر کیا تھا ، گولی اس کے ساتھ والے سپاھی کو لگی تھی –
سردار نے کہا وہ سپاھی مسلمان تھا – تمہیں پتہ ھے مسلمان کے قتل کے بارے میں قرآن کیا کہتا ھے – یہ کہہ کر سردار نے پستول نکالا تو بیٹے نے اس کے ھاتھ سے پستول لے لیا اور کہا “باباجی ، قرآن کے حکم کی تعمیل میں خود کردیتا ھوں – آپ اگر مجھے ماریں گے تو ھم پٹھانوں کی روایت کے مطابق میرا بیٹا میرے قتل کے انتقام میں آپ کو مارڈالے گا – یہ کہہ کر اس نوجوان نے پستول اپنی کنپٹی سے لگا کر فائر کردیا –
اقبال نے ایسے ھی لوگوں کے بارے میں کہا تھا —————–
یہ غازی ، یہ تیرے پراسرار بندے
جہیں تونے بخشا ھے ذوق خدائی
دونیم ان کی ٹھوکرسےصحراودریا
سمٹ کر پہاڑان کی ھیبت سے رائی
یہ واقعہ میرے والد محترم نے اس انگریز کرنل کی لکھی ھوئی کتاب میں سے پڑھ کر ھمیں سنایا تھا -رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-15ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
نوائے شرر ———————— مبارک باد
میانوالی سے شائع ھونے والے روزنامہ “نوائے شرر“ کی 28 ویں سالگرہ پر چیف ایڈیٹر رانا امجد اقبال اور ان کے بھائیوں کو مبارک باد – اس اخبار کا اجراء میانوالی کے نامور شاعر اور صحافی رانا شرر صہبائی نے کیا تھا – ان کے سعادت مند بیٹوں کی ھمت قابل تحسین ھے کہ انہوں نے اپنے مرحوم والد کے لگائے ھوئے اس شجر کو زندہ و سرسبز رکھا ھؤا ھے – یوں اس اخبار کی صورت میں شررصہبائی صاحب کا نام روزانہ ھزاروں لوگوں کی نظر سے گذرتا ھے – والد کے نام کو زندہ رکھنے کا یہ طریقہ ھر لحاظ سے مستحسن ھے –
اخبار چلانا آسان کام نہیں – مگر خلوص ناممکن کام کو بھی ممکن بنا دیتا ھے – رب کریم رانا امجد اور ان کے بھائیوں کو اس سعادت مندی کا اجرعظیم عطا فرمائے —-رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک–15 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
یہ کیا ھو رھا ھے ———— ؟؟؟
بہت دکھ ھؤا ایک مقامی اخبار میں یہ خبر دیکھ کر کہ اس سال انٹرمیڈئیٹ کے امتحان میں گورنمنٹ کالج عیسی خیل کے 150 میں سے صرف 4 سٹوڈنٹ کامیاب ھوئے – خبرمیں بتایا گیا ھے کہ اس وقت کالج میں 6 لیکچرر کام کر رھے ھیں اور ھر سال پانچ عارضی لیکچرر بھی متعین ھوتے ھیں -ڈگری کالج میں صرف 6 لیکچررز———— !!!! — جب ھم وھاں تھے، اس وقت یہ انٹرکالج تھا ، پھر بھی ھم 12 لوگ تھے ——– اور یہ عارضی لیکچرر کیا ھوتا ھے ؟؟؟
عجیب صورت حال ھے – ادھر میٹرک کے امتحان میں گورنمنٹ ھائی سکول ٹولہ بانگی خیل کے83 سٹوڈنٹس میں سے ایک بھی پاس نہیں ھو سکا – اسی علاقے کے ایک اور سکول (نام یاد نہیں) کے بھی تقریبا سو میں سے صرف دو سٹوڈنٹ پاس ھو سکے –
زیادہ افسوس اس بات کا ھے کہ یہ تینوں ادارے وزیراعظم کے انتخابی حلقے میں واقع ھیں – ان اداروں کی ناقص کارکردگی کی مکمل تحقیقات ھونی چاھئیں – صرف ٹیچرز کو قربانی کا بکرا نہ بنایا جائے – ایسے معاملات میں بہت کچھ قصورمحکمہ تعلیم کا بھی ھوتا ھے – مکمل تحقیقات کے بعد ھی یہ مسئلہ مستقل طور پر حل ھو سکتا ھے – وماعلینا الاالبلاغ-رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-16 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
سرکاری تعلیمی اداروں کی ناقص کارکردگی آج بھی ھمارا موضوع ھے ————-کاش ھماری سرکار اور ٹیچرز کو یہ احساس ھوتا کہ ان اداروں میں غریب بچے پڑھتے ھیں ، جو پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بھاری بھرکم فیس ادا نہیں کر سکتے – ان بچاروں کو تو صبح اچھا بھلا ناشتہ بھی نصیب نہیں ھوتا – زیادہ تر بچے کتابیں بھی پچھلے سال کے بچوں سے نصف قیمت پر خرید کر گذارہ چلاتے ھیں – ٹیوشن فیس تو کجا، ان کو توجیب خرچ کے چارپیسے بھی نصیب نہیں ھوتے -ان میں سے کئی بچے بہت اعلی صلاحیتوں کے حامل بھی ھوتے ھیں ، مگر انہیں اعلی تعلیم کے مواقع میسر نہیں ھوتے – یوں کئی ڈاکٹر قدیرخان ، علامہ اقبال اور محمدعلی جناح صرف غریبی کی وجہ سے ھوٹلوں پر برتن دھوکر اور ورکشاپوں میں مزدوری کر کے عمر بھر صرف دووقت کی روٹی ھی کماتے رھتے ھیں – یقین کیجیئے ان غریب بچوں میں کئی اسی لیول کے ذھین اور صاحب کردار ھوتے ھیں ، مگر ————————-جس ملک میں بجٹ کا صرف دو یاتین فی صد تعلیم کے لیے مختص ھو ، وھاں تعلیمی سہولتوں اور غریب بچوں کی امداد کے لیے پیسہ کہاں سے آئے ؟ زیادہ تر پیسہ تو سرکار کی عیاشیوں اور “اداروں“ کی “ضروریات “ پر خرچ ھو جاتا ھے – 72 سال سے یہی حال ھے – اللہ رحم کرے –
یہ تلخ موضوع چھڑ ھی گیا ھے تو اب سنتے جائے – میں نے زندگی کے ساٹھ سال تعلیم ھی کے میدان میں بسر کیے ھیں ، اس لیے مجھے اس موضوع پر بولنے کا حق حاصل ھے – بہت سے دکھ آپ کے ساتھ شیئر کرنے ھیں — شاید یہ باتیں آپ کے کسی کام آجائیں -رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-17 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
گذشتہ دو دن کی پوسٹس پر کمنٹس میں اکثر دوستوں نے تعلیمی اداروں کی ناقص کارکردگی کا ذمہ دار ٹیچرز کو قراردیا ھے ، میں ان سے متفق ھوں اور ٹیچرز کی کارکردگی کے بارے میں الگ مفصل پوسٹ بھی لکھوں گا ، لیکن بربادی کی تمام تر ذمہ داری ٹیچرز پر ڈالنا مناسب نہیں –
بات گورنمنٹ کالج عیسی خیل کے انتہائی ناقص ریزلٹ سے شروع ھوئی تھی – اس پوسٹ پر کمنٹ میں کامران خان نے بتایا کہ چارسال سے یہ کالج انگلش کے لیکچرر ز سے محروم ھے – اسی وجہ سے فیل ھونے والے تمام طلبہ انگلش ھی میں فیل ھوئے –
حیرت کی بات ھے – انگلش ایسا مضمون نہیں جو سٹوڈنٹس گھر پہ بیٹھ کر پڑھ سکیں – چار سال سے انگلش کا کوئی لیکچرر موجود نہ ھونے میں قصؤر تو محکمہ ء تعلیم کا ھے ، ٹیچرز کا نہیں -لیکچررزکا انتخاب پبلک سروس کمیشن کرتا ھے – سال میں صرف ایک بار ٹیچرز بھرتی کیے جاتے ھیں – اس کی بجائے اگرضلعی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دے کر لیکچررز کا انتخاب کرایا جائے تو کسی کالج میں کوئی پوسٹ خالی نہ رھے – میں ذاتی طورپہ جانتا ھوں کہ اس وقت میانوالی میں دس پندرہ ایم اے انگلش نوجوان بے روزگار پھررھے ھیں – اگر ضلعی سطح پر بھرتی کا نظام ھوتا تو عیسی خٰیل کالج چارسال لیکچررز سے محروم نہ رھتا
نظام بدلنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ھے ، یہ کام ایک ھفتے میں بھی ھو سکتا ھے – مگر جہاں قانون ساز حضرات اسمبلیوں میں ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے میں مصروف ھوں وھاں قانون سازی کیسے ممکن ھے -رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک – 18 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
تعلیم کا بیڑا غرق کرنے میں نظام تعلیم کا کردار بھی بہت افسوسناک ھے – سرکاری تعلیمی اداروں میں سرکاری نظام تعلیم ناٍفذ ھے – یہ نظام ھے کیا ، 50 سال اس نظام سے وابستہ رھنے کے باوجود میں اس نظام کو سمجھ نہیں سکا – تعلیمی پالیسیاں ماھرین تعلیم کی بجائے بیوروکریٹ بناتے ھیں – ان کا ایک اپنا طریقہ کارھے ، جس کا تعلیم سے زیادہ تعلق مفادات سے ھے – جب مٰیں انگریزی اخبار پاکستان ٹائیمز میں کالم لکھتا تھا تو میں نے کئی کالم لکھ کر نظام تعلیم کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا – اس پر کچھ لوگوں نے احتجاج بھی کیا تھا ، مگر بہت سے لوگوں نے کالموں کا یہ سلسلہ پسند کیا تھا –
یہاں میرٹ کا معیار ذھانت یا صلاحیت نہیں , صرف امتحان میں حاصل کردہ نمبر ھوتے ھیں – دیکھیں نا ، آج کل میڈیکل یا انجینیئرنگ کالج میں داخلے کے لیے ایف ایس سی میں 80-90 فی صد سے زیادہ نمبر لینے پڑتے ھیں – اتنے نمبر کیوں اور کیسے ملتے ھیں ، وہ ایک الگ قصہ ھے – جب ھم سٹوڈنٹ تھے تو میٹرک یا ایف اے ، ایف ایس سی میں فرسٹ ڈویژن (صرف 60 فی صد نمبر) لینے والے کو بھی لوگ دیکھنے آیا کرتے تھے – سیکنڈ ڈویژن والوں کو بھی آسانی سے مٰیڈیکل یا انجینیئرنگ کالج میں داخلہ مل جاتا تھا – اور وہ آج کے 90 فی صد نمبر لینے والوں سے بہتر ڈاکٹر اور انجینیئر ھوتے تھے –رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-19 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
سوشل میڈیا پر آج یہ پکچر نظر سے گذری – یہ بچہ میانوالی کا ھے – اس کے والد اور دو چچا نابینا ھیں – یہی بچہ اپنے گھر کا واحد کفیل ھے – گولیاں ٹافیاں بیچ کر گھر کا خرچ چلاتا ھے – بچے کی ھمت قابل داد ، لیکن کیا اس باھمت بچے کے لیے کچھ کرنا ھمارا فرض نہیں بنتا — ؟؟؟؟ ذراسوچیئے –
پکچر کے ساتھ اس بچے کا اٰیڈریس نہیں لکھا ھؤا تھا – کسی دوست کو معلوم ھو تو کمنٹ میں بتا دیں –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-19 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
الحمدللہ-سرفخر سے بلند ھو گیا کل کی پوسٹ پر میانوالی کے لوگوں کا رسپانس دیکھ کر – سب لوگوں نے اس باھمت بچے کی حوصلہ افزائی کے لیے اس کا ایڈریس مانگا ھے –
علی ھمایوں ، سید اسیر کاظمی , ملک ظفرحسین ، اور پیارے بیٹے شاھان نیازی کا ممنون ھوں کہ انہوں نے اس بچے کا مکمل ایڈریس فراھم کر دیا – میانوالی سٹی اور فکس اٹ نامی دو تنظیموں نے بھی اس بچے کی فیملی سے ملاقات کرکے معلومات حاصل کیں -بچے کا نام رومان ھے ایک دوساتھیوں نے اس کا نام سبحان بتایا ھے – اس کے نابیا والد کانام ظہوراحمد ھے – ان کا گھر مسجد لو ھاراں کے جنوب سے مغرب کو جانے والی گلی ( جامع مسجد شمع صدیقیہ اور ڈاکٹر محمد ظہیرالدین کے کلینک والی گلی) میں واقع ھے – مسجد لوھاراں سے اس گلی میں جائیں تو ایک چھوٹا سا چوک آتا ھے جہاں سے سڑک نیچے اترتی ھے ، وھیں دائیں ھاتھ والا گھر ان کاھے –
اللہ آپ سب کو سلامت رکھے ، ایک باھمت غریب بچے کے لیے جس تڑپ اور خلوص کا مظاھرہ آپ نے کیا ، اللہ رب العزت اس کے اجروثواب سے آپ کو مالامال کردے-میرا میانوالی زندہ باد -رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-20 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
–جیوے میرا پاکستان ——————
سسی کا دیس —— تھل روھی
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک20 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
تعلیم کے ساتھ کھلواڑ میں دوسرے عوامل کے علاوہ بہت بڑا حصہ ٹیچرز کا بھی ھے- ھمارے بچپن میں ٹیچرز کو ذمہ داری کا احساس تھا , اگرچہ وہ زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے ۔ اکثراساتذہءکرام مڈل جے وی (مڈل ُپی ٹی سی) یا مڈل ایس وی تھے- ھمارے پہلی کلاس کے ٹیچرماسٹر نواب خان ، دوسری کلاس کے ماسٹر درازخان ، تیسری کلاس کے ماسٹر سردار خان ، چوتھی کلاس کے ماسٹر عبدالحکیم ، پانچویں کلاس کے ماسٹر شاہ ولی خان سب مڈل پاس تھے – وہ بھی اردو مڈل (انگریزی اختیاری مضمون تھا ، کئی لوگ یہ مضمون نہیں لیتے تھے) – آٹھویں کلاس کے ماسٹر رب نواز خان انگریزی مڈل تھے – ان ٹیچرز میں کوئی بھی میٹرک نہ تھا یہ تمام اساتذہ ءکرام بہت دیانت دار ، لائق اور محنتی تھے – سکول ٹائیم کے بعد اور چھٹیوں میں بھی کسی ٹیوشن فیس کے بغیر سٹوڈنٹس کو روزانہ پڑھاتے تھے – امتحان سے دوتین ماہ پہلے آٹھویں اور دسویں کلاس اپنے گھر پہ شام کے بعد بھی پڑھاتے تھے –
جے وی ٹیچر کی تنخواہ 50 روپے ماھانہ تھی ، 3 روپے ھرسال اضافہ ھوتا تھا – ایس وی ٹیچر کی تنخواہ 60 روپے ماھانہ تھی ، جس میں 4 روپے سالانہ اضافہ ھوتا تھا –
اپنے بے لوث ، فرض شناس اساتذہ کے نقش قدم پر چلتے ھوئے ھم بھی جب ٹیچر بنے تو شام کے بعد اور چھٹیوں میں کلاس لیا کرتے تھے-
آج کل یہ احساس اور جذبہ کہاں ھے ؟ ——————————
ھزاروں ھی شکوے ھیں کیا کیا بتاؤں
اس لیے پوسٹس کا یہ سلسلہ مزید کچھ دن چلتا رھے گا –رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک–21 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
آج دل بہت اداس ھے ——–
آج علی بیٹے (محمدعلی ملک) کی سالگرہ ھے — وہ تو آج سے 9 سال پہلے 18 سال کی عمر میں یہ دنیا چھوڑکر سرحدحیات کے اس پار جا بسا ، مگر لاھور میں ھم ھر سال اس کی سالگرہ مناتے ھیں “>علی بیٹا اسلام آباد کے ایک پرائیویٹ ھسپتال میں اس دنیا میں وارد ھؤا — ابھی وہ صرف دودن کا تھا ، میں شام کے بعد ھسپتال آیا تو اس نے آسمان سر پہ اٹھا رکھا تھا – اس کی بے تحاشا چیخ پکار سے والدہ ، نانی پھوپھی سب لوگ پریشان بیٹھے تھے – میں نے بچے کو اٹھا لیا اور کہا “بیٹا ، کیا بات ھے؟“
علی بیٹا رونا دھونا بھول کر مسکرا دیا – یہ اس کے پیار کا اظہار تھا –
عجیب پیار تھا ھم دونوں کا آپس میں – وہ تین سال اسلام آباد میں رھے ، میں ھرماہ میانوالی سے اسلام آباد صرف اس کو دیکھنے کے لیے جایا کرتا تھا – پھر وہ لاھور چلے گئے تو میں ھرماہ وھاں بھی جاتا رھا – بہت خوش ھوتا تھا مجھے دیکھ کر —- اپنے اکرم چاچو سے تو اس کی بہت گہری دوستی تھی – کیا خبر تھی کہ وہ یوں اچانک چلا جائے گا ——- بس یہی سوچ کر دل کو تسلی دے لیتے ھیں ، کہ جس نے دیا تھا ، اس نے واپس لے لیا – ھم کیا کر سکتے ھیں –
الفاظ ساتھ نہیں دے رھے – پتہ نہیں کیا لکھنا تھا ، کیا لکھ دیا – اس دعا پہ بات ختم کرتا ھوں کہ رب کریم کسی کو جوان اولاد کی موت کا دکھ نہ دے —–
پکچر ———– شیزان ریسٹورنٹ ، فورٹریس سٹیڈیم لاھور میں علی بیٹے کی سالگرہ ، 2015
شرکاء میں اور علی بیٹے کے اکرم چاچو(پروفیسرمحمداکرم علی ملک) —
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-22 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
اچھے ٹیچرز آج بھی ھیں – بحمداللہ میرے لیے یہ بات قابل فخر ھے کہ میرے کچھ سٹوڈنٹ بھی کامیاب ٹیچرثابت ھوئے ھیں – وہ بھی تعلیم و تدریس کو عبادت سمجھ کر اپنے فرائض سرانجام دے رھے ھیں – خوبیاں خامیاں ھر انسان میں ھوتی ھیں ، مجھ میں بھی بہت ھیں ، لیکن ٹیچرکو اپنے سٹوڈنٹس کے سامے رول ماڈل (مثالی شخصیت) ھونا چاھیے – اپنی کمزوریوں کو کلاس روم میں نہ آنے دیا جائے –
گذشتہ پوسٹ پر کمنٹ میں آفتاب خان نے درست کہا کہ اصل ٹیچر تو پیدائشی ٹیچر ھوتا ھے – جی ھاں کچھ لوگوں کو رب کریم ٹیچر ھی بنا کر بھیجتا ھے – ان کی زبان میں ایک خاص تاثیر اور شخصیت میں ایک خاص کشش ھوتی ھے – سٹوڈنٹس ان سے محبت کرتے ھیں ، اس لیے ان کی بات آسانی سے سمجھ بھی لیتے ھیں ، اس پر عمل بھی کرتے ھیں -پیدائشی ٹیچر ھونا تو اللہ کا خاص احسان ھے ، اپنی محنت سے بھی انسان کامیاب ٹیچر بن سکتا ھے – بس یہ بات یاد رھنی چاھیے کہ اللہ نے اس کام کو آپ کے رزق کا وسیلہ بنا دیا ھے تو پھر رزق کو حلال کر کے کھائیں – ٹیچر کا کام تو ایسا ھے کہ اگر دیانتداری سے کیا جائے تو رزق کے ساتھ بے حساب عزت بھی ملتی ھے – اور یہ افسروں یا سیاست دانوں کی طرح عارضی عزت نہیں ، دائمی عزت ھوتی ھے – اگر آپ کو عزت نہیں صرف پیسہ چاھیے تو ٹیچنگ کی بجائے کوئی اور دھندا کر لیں – قوم کا مستقبل برباد نہ کریں –رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-23 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
کل پیدائشی ٹیچرز (born teachers) کا ذکر چھڑا تھا – یہ وہ لوگ ھوتے ھیں جنہیں رب کریم کچھ خصوصی صلاحیتں عطا کر کے اس دنیا میں بھیجتا ھے – ان کی شخصیت میں ایک خاص کشش ھوتی ھے ، جس کی وجہ سے سٹوڈنٹس ان کی بات غور سے سنتے اور آسانی سے سمجھ لیتے ھیں – آج سے ذکر ایسے ھی چند محترم ٹیچرز کا ، جن سے تعلیم حاصل کرنے کا اعزاز مجھے نصیب ھؤا –
داؤدخیل کے سر گل خان نیازی پانچویں کلاس میں ھمارے انگلش ٹیچر تھے – (ھمارے بچپن کے دور میں انگلش کی تعلیم پانچویں کلاس سے شروع ھوتی تھی ) – سرگل خان جو کچھ پڑھاتے دل میں اتر جاتا — ٹیچر کی حیثیت میں ان کا تقرر عارضی تھا -کچھ عرصہ بعد سکندرآباد فرٹیلائیزر فیکٹری کی انتظامیہ میں ایک ذمہ دار عہدے پر فائز ھو گئے – لیکن ملازمت کے دوران بھی فارغ وقت میں گھر پر کلاس لگاتے رھے – اب بھی سکندرآباد ھاؤسنگ کالونی میں یہی کارخیر سرانجام دے رھے ھیں – میرے سکول ٹیچرز میں سے صرف سر گل خان ھی بحمداللہ اس وقت اس دنیا میں موجود ھیں – کبھی کبھی سکندرآباد جا کر سلام کر لیتا ھوں – بہت خوش ھوتے ھیں -کچھ عرصہ پہلے ان کے ھاں حاضر ھؤا – کچھ دیر بعد جب واپس جانے لگا تو سرگل خان بھی میرے ساتھ گھر سے نکلے – میں نے کہا کہیں جانا ھے ؟ ھنس کر فرمایا “ ھاں یار ، ادھر ایک چھوٹی سی کلاس کو اس وقت پڑھاتا ھوں –
اللہ اکبر —- !!!! 80 سال سے اوپر عمر میں بھی باقاعدہ وہ کام کر رھے ھیں ، جس کے لیے خالق نے انہیں اس دنیا میں بھیجا-رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-24 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
ماشآءاللہ-یا خدا میرے ٹیچر سلامت رھیں
سر گل خان کے صاحبزادے ، سکندرآباڈ کے سینیئر صحافی اکرم نیازی نے بتایا ھے کہ سر کی عمر اس وقت 92 سال ھے ، اور وہ اب بھی روزانہ صبح 9 سے 11 اور شام 5 سے9 بجے تک کلاسز کو پڑھاتے ھیں – رب کریم میرے استاد محترم کو بے حساب اجر خیر سے مالا مال کردے – اور اس سرزمین کے تمام ٹیچرز کو ایسا ھی ذوق و شوق عطا فرمائے –—-– بشکریہ- منورعلی ملک-25 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
ھمارے آٹھویں کلاس کے انگلش ٹیچر سید ممتازحسین کاظمی بھی born teacher تھے – وہ پروفیسر اقبال کاظمی صاحب کے چھوٹے بھائی تھے – ان کی شخصیت میں سچے تیچرز والی ایک چمک تھی ، جس کی وجہ سے وہ کلاس میں آتے ھی پوری کلاس کی توجہ کا مرکز بن جاتے تھے – اندازتدریس ایسا تھا کہ نالائق اور بھگوڑے سٹوڈنٹس بھی کچھ نہ کچھ انگریزی سیکھ لیتے تھے – انگلش میں تحریر و تقریر پر انہیں عبورحاصل تھا – بہت زندہ دل اور خوش مزاج انسان تھے – ھروقت ھنستے ھنساتے رسر ممتاز شاہ صاحب داؤدخیل میں چند دوسرے ٹیچرز کے ساتھ ھمارے محلے ھی میں رھتے تھے – دوپہر کے بعد میں اور محلے کے دوتین لڑکے ان سے پڑھنے کے لیے جایا کرتے تھے – شاہ صاحب کے اندازتدریس نے میرے انگریزی سیکھنے کے شوق کو عشق بنا دیا – بہت کچھ سیکھا ان سے ، جو آگے چل کر بہت کام آیا –
ٹیچر کی حییت میں شاہ صاحب کا تقرر عارضی تھا – ایک آدھ سال بعد محکمہ لوکل گورنمنٹ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے منصب پہ سرفراز ھوئے – ڈائریکٹر رٰیٹائر ھوئے – بہت کامیاب اور مقبول افسر بھی ثابت ھوئے ، مگر پتہ نہیں کیوں میرا دل کہتا ھے کاش وہ ٹیچر ھی رھتے – افسر کی حیثیت میں ان کی پہچان محدود ھوگئی – ٹیچر ھوتے تو آج دنیا کے کونے کونے میں ان کے سٹوڈنٹس بٰیٹھے انہیں یاد کر رھے ھوتے – یہ دیکھ کر اطمینان ھوتا ھے کہ ان کے صاحبزادے پروفیسر عامر کاظمی ٹیچر ھی بنے – فارسی کا ایک قول ھے
آنچہ پدر نتواند پسرتمام کند ( جو کام باپ مکمل نہ کر سکے بیٹا کردیتا ھے ) – کچھ ایسا ھی معاملہ لگتا ھے یہ بھی- -رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک- 26 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
میانوالی کے مشہور و معروف شاعر ، ادیب اور دانشور سید نصیر شاہ کے بڑے بھائی سید محمد مسعود شاہ نویں ، دسویں کلاس میں ھمارے ریاضی (میتھس) ٹیچرتھے- ان کی شخصیت اور انداز تدریس میں ایک عجیب سی دلکشی تھی – یہ خصوصیت رب کریم کی خاص عطا ھوتی ھے ، شاہ جی کی زبان سے میتھس جیسا خشک مضمون بھی شاعری کی طرح ھمارے دل و دماغ کو روشن کر گیا – میتھس مجھے زھر لگتا تھا ، جب شاہ جی کی کلاس میں پہنچا تو آنکھیں کھل گئیں – میتھس مجھے بھی اچھا لگنے لگا –
شاہ جی میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی (ھیڈماسٹر) کے منہ بولے بھائی بھی تھے ، انتظامی معاملات میں دست راست بھی – وہ ھمارے ھاں مہمان خانے میں رھتے تھے – شام کے بعد وہ مجھے میتھس بھی پڑھایا کرتے تھے – ھمارے زمانے کا میتھس کوئی ایسا ویسا میتھس نہ تھا – حساب ، الجبرا ، جیومیٹری کی تین بھاری بھرکم کتابیں ۔ ھر کتاب میں 100 مشقیں ، دماغ کی لسی بن جاتی تھی یہ سب کچھ کرتے ھوئے – لیکن شاہ جی کے اعجازتدریس نے میتھس کو بھی ھمارا پسندیدہ مضمون بنا دیا – جب میں ٹھٹھی سکول میں ھیڈماسٹر تھا تو گیارہ سال انگلش کے علاوہ میتھس بھی پڑھاتا رھا –
شاہ جی بہت عرصہ داؤدخیل سکول میں رھے ، پھر ھیڈماسٹر بن کر گورنمنٹ ھائی سکول ڈھوک علی خان چلے گئے – کچھ عرصہ بعد گورنمنٹ ھائی سکول دریاخان (ضلع بھکر) کے ھیڈماسٹر / پرنسپل متعین ھوئے – وھیں سے ریٹائر ھو کر مستقل طور پر دریاخان میں مقیم ھو گئے –رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-27 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا ، وہ شان سلامت رھتی ھے
مجاھد ملت مولانا عبدالستارخان نیازی
عدالت سے جیل واپسی —— 1953
کیس —- تحفظ ختم نبوت ,
فیصلہ —— سزائے موت، جو بعد میں عمر قید میں تبدیل کردی گئی
باعزت رھائی ————– 1955
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-28 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
نویں کلاس میں ھیڈماسٹر راجہ الہی بخش صاحب ھمیں انگلش پڑھاتے تھے – انہیں بھی قدرت نے ٹیچر ھی بنا کر اس دنیا میں بھیجا تھا – انگلش گرامر کے بے مثال ٹیچر تھے – ان کا یہ معمول تھا کہ روزانہ جو کچھ پڑھانا ھوتا ڈائری میں لکھ لیتے تھے – الفاظ ، تراکیب ، جملے ، مشقیں سب کچھ ڈائری میں لکھ دیتے تھے – ڈائری کلاس میں نہیں لاتے تھے – صرف اپنی یاد داشت کے لیے لکھتے تھے – کہا کرتے تھے کہ میری ڈائری پڑھ کر میٹرک کا سٹوڈنٹ بھی میٹرک کو انگلش پڑھا سکت
انگلش گرامر پڑھانے کا طریقہ ھم نے ان سے سیکھا ، اور عمر بھر اسی پر عمل کیا – اس طریقے سے نکمے سٹوڈنٹس بھی گرامر شوق سے پڑھتے ھیں – راجہ صاحب سے اپنی عقیدت کے اظہار کی خاطر میں نے بی اے کے لیے اپنی کتاب Ali English Composition کا انتساب ان کے نام کیا –
راجہ الہی بخش صاحب کالاباغ کے معروف پراچہ خاندان کے بزرگ تھے – باقی سب خاندان کا ذریعہء معاش کاروبار تھا ، راجہ صاحب کو اللہ نے ٹیچر بنایا تھا ، ٹیچر ھی بنے – ریٹائرمنٹ کے بعد کالاباغ سے کندیاں منتقل ھوگئے – بہت یاد آتے ھیں -رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-29 ستمبر 2019
میرا میانوالی–
–قابل غور————————-
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-29 ستمبر 2019
میرا میانوالی—————-
آج لکھنا تو کچھ اور تھا ، مگر کچھ دوستوں نے راجہ الہی بخش صاحب کے انگلش گرامر پڑھانے کا طریقہ دریافت کیا ھے – آج ان کے سوال کا جواب –
محترم راجہ صاحب گرامر کا کوئی اصول بتا کر اس کی چند مثالیں بلیک بورڈ پر لکھ دیتے تھے – اس کے بعد اس اصول کے استعمال کی مشق کے لیے چند جملے ھمیں ھوم ورک کے طور پہ دے دیتے تھے -اگلے دن کلاس کا مانیٹر صبح سویرے ھماری ھوم ورک کی کاپیاں اکٹھی کر کے ھیڈماسٹرراجہ صاحب کے آفس میں پہنچا دیتا تھا – ھیڈماسٹر صاحب ھر سؤڈنٹ کا ھوم ورک چیک کر کے غلطیوں کی اصلاح کر دیتے تھے – ھوم ورک نہ کرنے والوں یا لاپرواھی سے کام کرنے والوں کو سزا ملتی تھی – سزا کے لیے راجہ صاحب نے بید کی نفیس سی چھڑی رکھی ھوئی تھی –
مجھے صرف ایک دفعہ لفظ opened کے غلط سپیلنگ پہ سزا ملی تھی – میں نے جلدی میں opend لکھ دیا تھا – راجہ صاحب نے کہا “اگر کوئی اور لڑکا یہ غلطی کرتا تو میں معاف کردیتا – مگر تمہارے والد صاحب سے تو ھم نے انگریزی سیکھی ھے ، اس لیے تم سے اس غلطی کی توقع نہیں تھی “-
راجہ صاحب گرامر کے اصولوں کی وضاحت ایسے دلنشیں انداز میں کرتے تھے کہ نالائق سٹوڈنٹس بھی آسانی سے سمجھ لیتے تھے – بہت عظیم استاد تھے – جو کچھ سکھا گئے آج بھی کام آ رھا ھے -اک آسمان تھا جو تہہ خاک سوگیا- رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک30 ستمبر 2019