ظفر نیازی کی اردو پوسٹس حصہ 1
ZAFAR NIAZI
URDU POSTS FOR THE MONTH
OF DECEMBER 2016
یہاں میانوالی میں ایسے لوگوں نے بھی انگریزی بول چال سکھانے کی اکیڈمیاں کھول رکھی هیں جو خود انگریزی میں ڈھنگ کے دو فقرے نہ بول سکتے هیں اور نہ لکھ سکتے هیں. مزے کی بات یہ هے کہ یہ لوگ اپنے نام کے ساتھ ‘پروفیسر’ بھی لکھتے هیں.
کبھی اندھوں میں کانے راجے هوا کرتے تھے ، اب تو اندھوں میں اندھے ،بہرے اور گونگے مہاراجے هیں.1دسمبر 2016
قدرت اور تاریخ کی درجہ بندی!
آج کل ایک رواج چل پڑا ہے کہ دیکھا جائے کہ کس کے مقابلے میں کون کہاں کھڑا ہے۔۔ کس کے مقابلے میں کون اوپر ہے اور کون نیچے۔کس نے کس کو پیچھے چھوڑدیا اور کون کس سے آگے نکل گیا۔ کون خوش نصیب ہے اور کون بد قسمت۔ ہم اس پیمانے پر ایک دوسرے کی درجہ بندی کرتے ہیں۔اسی درجہ بندی کے نتیجے میں هم جیتنے والے پر خوش نصیب کا لیبل چپکا دیتے هیں اور هارنے والے کے ماتھے پر بدنصیب کا ٹھپہ لگا دیتے هیں. موازنے کے اس میدان میں ہم اپنی اپنی میراث اور اثاثے لیکر میدان میں اترتے ہیں۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ کسی کی سائیکل کسی کی چمکتی دمکتی کار سے ہار جاتی ہے، کسی کا موبائل ماڈل کسی اور کے موبائل ماڈل سے شکست کھا جاتا ہے. کسی کے کچے گھر میں جلتے مٹی کے دیے کسی کے محل نما گھر کی آنکھیں خیرہ کرتی روشنیوں سے پٹ جاتے هیں. کسی کے بدن پر لپٹے میلے کچیلے بے جوڑ چیتھڑے کسی کے بدن پر کڑکڑاتی کلف لگی پوشاک کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ پھر ہم شکست کھا کر اپنے اپنے زخم گننے میں لگ جاتے ہیں اور ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم صرف پٹنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ ہم دنیا کی سٹیج پر محض شکست کا سامان ہیں ، ہم فقط راستوں کےپتھر ہیں جن کے مقدر میں صرف گزرنے والوں کی ٹھوکریں ہیں۔
لیکن قدرت اور تاریخ کی درجہ بندی هماری درجہ بندی سے بہت مختلف هوتی هے. قدرت کیی ساری تقسیم کے پیچھے ایک ہی قانون اور اصول ہے اور وہ ہے کردار کی جانچ پڑتال۔ قدرت کسی کو تنگی سے جانچتی ہے تو کسی کو فراخی سے۔ کسی کو نواز کر پرکھا جاتا ہے تو کسی کو محروم کرکے۔ کسی کی آنکھوں میں حسرت اتار کر اس کی شناخت کرائی جاتی ہے تو کسی کے لبوں پر مسکراہٹیں بکھیر کر اس کی پہچان کرائی جاتی ہے۔ کسی کے دامن میں پھول بھر کر اس کا ظرف دیکھا جاتا ہے تو کسی کے دامن کو خار میں الجھا کر اس کا ردعمل دیکھا جاتا ہے۔ ہمارے رویے اور ہمارے عمل ردعمل ہماری شناخت بنتے ہیں۔ یہی رویے اور عمل ردعمل ہمارے لیبل بن جاتے ہیں۔ یہی رویے اور عمل ردعمل دیکھ کر قدرت کسی پر یا تو خوش نصیب کا لیبل چسپاں کر دیتی ہے یا کسی پر بدبخت کا ٹھپہ لگا دیتی ہے!
قدرت اور تاریخ انسانوں کے مال و متاع کی کثرت یا قلت کی بنیاد پر نہیں، بلکہ رویوں اورر عمل ردعمل کی بنیاد پر انسانوں کی درجہ بندی کرتی ہے۔2 دسمبر 2016
معرفت کے پیکر اور جہالت کےمجسمے :
بغداد کے ایک نواحی جنگل میں ایک بزرگ ریاضت میں مصروف هیں. اچانک ایک سفیدد روشنی نمودار هوتی هے اور ساتھ ایک آواز بلند هوتی هے کہ آج سے تیرے لئے سب حلال هے. بزرگ نے اعوذ و با الله من الشیطن الرجیم پڑھا اور روشنی غائب هو گئی. کچھ دیر بعد پھر روشنی نمودار هوئی اور پھر ایک آواز بزرگ سے مخاطب هو کر بولی کہ تجھے تیرے علم نے بچا لیا. بزرگ نے جواب دیا اے لعین مجھے میرے علم نے نہیں بلکہ میرے رب نے تجھ سے بچایا.
یہ بزرگ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمته الله علیه تھے. یہ معرفت کے درجہ کمال پر فائز تھے. ان کی معرفت کے پیچھے علم هی کھڑا تھا اور اس معرفت کے درجے پر وہ علم کی سیڑھیاں چڑھ کر هی پہنچے تھے. علم هی نے ان کو رب کی طرف رستہ دکھایا اور علم نے هی انہیں بتایا تھا کہ جو چیز نبی کی امت پر حرام هو چکی وہ کبھی کسی صورت حلال نہیں هوسکتی. علم نے هی انہیں یہ شعور دیا کہ بچانے والی ذات صرف الله کی هے. رب کی طرف صرف ایسے علم سے هی پہنچا جا سکتا هے جو عمل میں تبدیل کردیا جاۓ. تمام صوفیا اور عارف علم کے سمندروں میں غوطه زن هو کر هی معرفت کے اوج کمال پر فائز هوۓ.
دوسری طرف آج کے وہ جہالت کے مجسمے هیں جو صوفیا کی پوشاک پہن کر اپنے مریدوںں کے ایمان سے کھیل رهے هیں. یہ شعبدہ باز دل و دماغ کی جہالت پر لوگوں کی ضعف اعتقادی اور لاعلمی کا غلاف چڑھا کر اپنے صوفی هونے کا ڈگونگ رچاۓ هوۓ هیں. علم ان کے قریب سے بھی نہیں گزرا تو ان معرفت کی زبوں حالی کا کیا عالم هوگا. ان کی اپنے ایمان کی کشتیوں میں سیکڑوں سوراخ هیں اور انہوں نے اپنے ساتھ سینکڑوں هزاروں لوگوں کو سوار کر رکھا هے. یہ خود تو ڈوبیں گے هی ساتھ سوار سیبکڑوں هزاروں کو بھی ڈبوئیں گے.
آپ اسی کی کشتی میں بیٹھئیے جو سمندر کی گہرائی بھی جانتا هے اور طوفان میں کشتی کوو سنبھالنے کا فن بھی جانتا هے. جس کی کشتی میں کوئی سوراخ نہیں اور جو تہ تک ڈوب کر واپس سطح پر اٹھنے کا هنر بھی جانتا هے.
اپنے مقدر پر جہالت کی مہر نہ لگائیں! — ۔3 دسمبر 2016
یپلز پارٹی کی چھمک چھلو یعنی بلاول زرداری بھی 2018 میں وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رهی هے.
بلی کے خواب میں چھیچھڑے سنا تھا ،اب چھمک چھلو کے خواب میں سنگھاسن بھی سن لیا.
میرا پیپلز پارٹی والوں کو مشورہ هے کہ وہ اپنی اس چھمک چھلو سے لیڈیز پراڈکٹس میں ماڈلنگگ کروائیں اور پہلا اشتہار ‘ویٹ کریم ‘ کا هونا چاهئیے .ایک خبر کے مطابق قطری شہزادے نے مریم صفدر سے خصوصی ملاقات کی خواهش کی هے جسے قبول کر لیا گیا هے.
میاں صاحب ،تو هے بڑا چالاک! تو منی ٹریل ثابت کرکے چھوڑے گا .لیکن مجھے ڈر هے کہہ تو قطری شہزادے کو کیپٹن صفدر کے هاتھوں مرواۓ گا. باز آ جا چھچھورے پن سے! 4 دسمبر 2016
کچھ غیرت ان دھشتگروں کے لئے بھی:
امن کی فاختائیں پالنے والے جھنگ میں دھشتگرد مسرور جھنگوی کے الیکشن جیتنے پر چیخ چیخ کرر امن کی دهائیاں دے رهے هیں.یہ نام نہاد امن پرست اپنے موجودہ اور سابقہ حکمرانوں یعنی ان دھشت گردوں سے کیوں آنکھیں بند کر لیتے هیں جو هماری موجودہ اور آنیوالی کئی نسلوں پر بدحالی اور ذلت و رسوائی کے بم برسارهے هیں.جو همارے حال اور مستقبل کے گلے کاٹ رهے هیں.جو همارے بچوں کے خوابوں کے رستے میں ناکامی اور نامرادی کی بارودی سرنگیں بچھا رهے هیں.اور جو همارے حقوق پر استحصال کا تیزاب چھڑک رهے هیں. ان پر بھی لعنت بھیج دیجئیے، ان پر بھی چیخئیے ،ان کو بھی نیست و نابود کرنے کا مطالبہ کیجئیے،ان سے بھی کم از کم اتنی نفرت تو کیجئیے کہ جتنی مسرور جھنگوی سے کررهے هو.
کچھ غیرت ان عوام کش دھشت گردوں کے لئے بھی دکھا دیجئییے! 5 دسمبر 2016
آج کے وقت کو کل کی فکر میں صرف کرنا آج کے حق پر شبخون مارنے کے مترادف هے. اس عادت میں مبتلا لوگ اپنے هر آج کی زندگی کے پل ایک اجنبی کل کے حوالے کردیتے هیں ،ایسا کل جس کی اصلیت اور کردار کا کسی کو علم نہیں هوتا. اکثر یہی هوتا هے یہ کل همارے آج کے یہ پل لے کر رفو چکر هوجاتا هے اور لوگ کف افسوس ملتے ره جاتے هیں.
میرے آنگن کے اوپر سے هر شام اپنے اپنے گھروں کو لوٹتے مطمئن پرندوں کے سریلے لہجےے مجھے یہی یاد کراتے هیں آج کا وقت اچھا گزر سکتا هے اگر اجنبی کل سے اپنے آج کو دور رکھا جاۓ. 6 دسمبر 2016
آپ اپنے تعزیتی بیانات تیار رکھئیے:
کل پھٹنے والےاے ٹی آر 42 نامی طیارے کو ناقابل پرواز قرار دیکر گراؤنڈ کیا جا چکا تھا.. لیکن انسان دشمن عناصر اس طیارے کو رن وے پر لے آۓ.ٹکٹ بک کئیے اور 47 لوگوں کو موت کے اس کیبن میں سوار کردیا. طیارہ موت کے ان مسافروں کو لے کر بلند هوا اور پھر فضا میں 47 انسانوں کے بدن ٹکڑے ٹکڑے هو کر بکھرے اور زمین پر مسخ شده اعضا کا ملبہ آ گرا. پھر وهی ریکارڈ شده تعزیتی بیانات کا قبیح سلسلہ شروع هو گیا.
یہ حادثه نہیں بلکہ سیدھا سادہ قتل عام هے.حادثے مہذب معاشروں میں هوتے هیں جہاںں انسان کی حفاطت کی هر ممکن کوشش کی جاتی هے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا.. پاکستان جیسے جنگل میں انسانوں کی منظم چیر پھاڑ کی باقاعده منصوبہ سازی کی جاتی هے . ایسے کئی قتل عام پاکستان کے ائیر پورٹس، جہازوں ،پلوں،عمارتوں،شاهراهوں،ٹرینوں اور هسپتالوں کی شکل میں تیار کھڑے هیں.یہ قتل عام اپنی عمر پوری کر چکے هیں اور کسی وقت بھی کسی کی موت بن کر پاکستان کے اخباروں اور میڈیا چینلز پر حادثوں کے نام سے لکھ دیے جائیں گے. .اس قتل عام کا انجام بھی اسی جیسے باقی قتل عام جیسا هوگا ،یعنی اس کو حادثه قرار دے کر اپنا جرم دھو دیا جاۓ گا. مرنے والوں کے ورثا کے نام 10،15 لاکھ کے چیک جاری کرکے مجرم باعزت اپنے جرم سے باعزت بری هو جائیں گے. ره گئی عوام تو وہ بھی ان 47 مقتولین کے لئے چند تعزیتی بیانات دے کر ا نہی مجرموں کے جلسوں میں رقص کرنے پہنچ جاۓ گی. وهاں گلے پھاڑ پھاڑ کر ان کے نعرے لگاۓ گی اور 47 جلے هوۓ مقتولین کی یاد کو ان مجرموں کے ساتھ سیلفیاں بنوا کر تاریخ میں دفنا دے گی.
آپ اگلے قتل عام تک اپنے تعزیتی بیانات تیار رکھئیے!
-میں ایک ایسی فضائی پرواز کا بے تابی سے منتظر هوں جس میں پاکستان کے تمام سابقہ اور موجودہ حکمران اپنے بچوں سمیت سوار هوں اور اس جہاز کا پائلٹ جہاز کو پوری رفتار سے K2 کی چوٹی سے ٹکرا دے. 8 دسمبر 2016
آئی ایس او 9001:2016 سرٹیفائیڈ بے شرم :
میں نواز شریف اور اس کے خاندان ،زرداری خاندان اور ان جیسے اور بے شرموں کی بےے شرمی دیکھ کر سر پیٹ کر ره جاتا هوں. بہت سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا هوں کہ ان لوگوں میں رتی برابر بھی شرم باقی نہیں رهی. ان لوگوں نے ٹرانسپلانٹ کے ذریعے اپنی رگوں سے شرم کی آخری رتی بھی نکلوا دی هے اور اپنی رگوں میں دنیا کی سب سے قیمتی اور سب سے اچھی کوالٹی کی بے شرمی بھروا لی هے. اب یہ بے شرم اپنے منہ پر پھینکے گئے تھوک کو شہد سمجھ کر چاٹ لیتے هیں.یہ بے شرم خود کو پڑنے والی لعنت اور پھٹکار کو اپنی قصیدہ گوئی سمجھ کر اس سے لطف اندوز هوتے هیں. یہ بے شرم اپنے سر پر پڑنے والے جوتے اپنے سر کی مالش سمجھ کر سکون محسوس کرتے هیں.بیچ چوراهے ان بے شرموں کے کپڑے اتار دیے جائیں تو یہ اپنے اوپر مجذوبیت طاری کر کے مجذوب بن جاتے هیں.
یہ دنیا کے بے مثال بے شرم هیں. آپ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے بے شک انن کے منہ پر تھوک کی پچکاریاں خالی کردیں، ان پر لعنت پھٹکار کی بارش کردیں ،ان کے سروں پر غلاظت بھرے جوتے برسائیں یا بیچ چوراهے ان کے کپڑے اتار دیں، آپ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے. یہ ISO 9001:2016 سرٹیفائیڈ بے شرم هیں اور ان کی بے شرمی کی لائف ٹائم گارنٹی هے.– 9 دسمبر 2016
زنده هونے کا یقین اور زنده هونے کا وهم :
دنیا میں دو طرح کے لوگ بستے هیں.ایک وہ جو پورے هوش و حواس اور شعور کے ساتھھ زنده هیں.دوسرے وہ جو زنده هونے کے وهم میں مبتلا هیں. پہلی قسم کے لوگ زندگی کے ظاهر اور باطن دونوں سے پوری طرح واقف هیں.یہ لوگ ایک واضح مقصد سامنے رکھ کر کسی واضح سمت میں قدم رکھتے هیں.یہ گزرے کل کی کسوٹی پر آج کو پرکھتے هیں اور آج کے آئینے میں آنیوالے کل کے عکس اتارتے هیں.یہ اپنی وراثت میں زندگی کو درپیش سوالات کے جوابات چھوڑ کے جاتے هیں.یہ اپنی قبروں کو اپنے کردار سے مرکز نگاہ رکھتے هیں.
دوسری قسم کے لوگ بے مقصد و بے سمت زندگی کے میدان میں حالات کے جھونکوں سےے کبھی ادھر کبھی ادھر بھٹک رهے هیں.یہ وہ خس و خاشاک هے جس کو زمانے کی هوا اڑا اڑا کر یہاں وهاں بکھیر دیتی هے. کبھی یہ خس و خاشاک گزرنے والوں کے پیروں سے چمٹ کر اپنا سفر طے کرتی هے تو کبھی اس کو اٹھا کر کوئی اسے اس کی منزل یعنی کچرے کے ڈھیر پر پھینک آتا هے. زنده هونے کے وهم میں مبتلا ان لوگوں کی زندگی محض لا شعوری حرکت تک محدود هے. یہ لوگ اپنی وراثت میں اپنی وجود کے آگے سوالیہ نشان چھوڑ کر جاتے هیں.ان کی قبریں هولناک تنہائیوں کی آماجگاه بن جاتی هیں.
زندگی کے حسن سے لطف اندوز هونے کے لئے یقین اور هوش و حواس کے ساتھ زنده هوناا ضروری هے. زندگی اپنے حسن کو ان لوگوں کے سامنے هی کھولتی هے جن کے دل اس یقین کے ساتھ دھڑکتے هیں کہ چاند اور ستاروں کے درشن کے لئے سورج کا بجھنا ضروری هے!
بلدیاتی الیکشن کے بعد اب چئیرمین ،ڈپٹی چئیرمین کا بازار سج چکا. ضمیروں کے سودے هوں گے،وفاداریوں کی بولی لگے گی ،بڑی بڑی مونچھوں والے غیرت مند اپنی غیرت کی نیلام کریں گے، اور پھر کوئی جواری ،شرابی ،زانی ،سودخور، چوراچکا، لچا لفنگا چئیرمین یا ڈپٹی چئیرمین بن کر وکٹری کا نشان عوام کو دکھا رها هوگا. اور پھر عوام ان بدقماشوں کے گلے میں هارڈالے گی اور وضو کرکے مصلے پر بیٹھ کر عمر فاروق اور امام حسین کی راه دیکھنے لگ جاۓ گی. 10 دسمبر 2016
چیف جسٹس صاحب ،سچ سچ بتا : چیف جسٹس پاکستان ظھیر جمالی صاحب ،تو هر کیس کی سماعت کے دوران کوئی نہ کوئی بکواس کردیتا هے. کبھی بکواس کرتا هے کہ ملک کا کوئی ادارہ ٹھیک کام نہیں کررها. کبھی توبکواس کرتا هے کہ کسی بڑے مجرم کو نہیں پکڑا جاتا. کبھی بکواس کرتا هے کہ پتہ نہیں یہ نظام کب ٹھیک هوگا. چیف جسٹس توکمال کی چیز هے. تیرا جواب نہیں! میں سمجھا تھا نواز شریف اور زرداری پاکستان کے سب سے بڑے خبیث هیں لیکن تو نے ان دونوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا هے. تیری عدالت میں تیرے سامنے نواز شریف، اس کے بچوں اور ان کے وکیلوں کے جھوٹ در جھوٹ کے انبار لگ گئے. نوازز شریف کے خاندان کے سفید جھوٹ اور ننگے جرائم چیخ چیخ کر تجھے غیرت دلا رهے هیں کہہ تو ان سب سے بڑے مجرموں کو پکڑ لیکن مجال هے جو تیری غیرت کے کانوں پر جوں ذرا سی انگڑائی بھی لے. تو اب یہ بکواس کررها هے کہ پانامه لیکس پرجو سماعت هو چکی وہ کالعدم هے اور کیس نئے سرے سے زیرو پوائنٹ سے شروع هوگا. چیف جسٹس صاحب ،سچ سچ بتا تو اس بار کتنے میں بکا هے؟ تیرے منہ میں خنزیر کی کوئی ھڈی ڈالی گئی هے یا پورے کا پورا خنزیر ٹھونسا گیا هے؟ یا تجھے لاس ویگاس کے کسی قحبہ خانے کی فری لائف ٹائم ممبرشپ دی گئی هے؟ یا کیا نواز شریف نے مریم صفدر کو نذرانے کے طور پر تجھے نکاح میں دینے کا وعدہ کیا هے؟ میں اور میری قوم تیرے جواب کے منتظر هیں!
اور هاں،تیرے جیسے بدفطرت کے منحوس چہرے پر سنت رسول هونا سنت رسول کی بےے حرمتی هے. تو یہ داڑھی صاف کرادے!
جو پر سکون رهنے میں سنجیدہ هوں وہ سر کے نیچے پتھر رکھ کر خاک پر چین کی نیند سوتے هیں اور جو بے سکونی کے پیچھے بھاگتے هیں ان کی راتیں مخمل و حریر پر کروٹیں بدلتے گزر جاتی هیں.
حرص اور سکون ایک دل میں نہ کبھی رهے هیں نہ کبھی رهیں گے. مجھے وهی پتھر عزیزز هے جس پہ سر رکھ کر میں چین کی نیند سو جاؤں وہ مخمل و حریر نہیں جور میری آنکھوں سے نیند نچوڑ کر ان میں رتجگے بھر دے.
وہ زندگی هی کیا کہ جس میں نیند کا بھی انتظار کرنا پڑے!
11 ربیع الاول کی دنیا:
آج سے 1446 سال پہلے آج هی کے دن دنیا ایسی هی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی جیسی آجج کے 111 ربیع الاول کو هے. جہالت ،بت پرستی ،معاشرتی فساد بگاڑ اور گناہ و جرم اپنے عروج پر تھے. طاقتور کمزور کو نگل رها تھا. حسب و نسب کے پیمانے سماج کو جنگل کی شکل میں تبدیل کر چکے تھے. پھر12 ربیع الاول 571 ء کو دنیا کے منظرنامے پر ایک روح کو عرش سے فرش پر انسانی قالب میں اتاراجاتا هے. یہ قالب اسی تباه حال معاشرے میں پرورش پاتا هے. 40 سال کے اس زمین پر قیام کے بعد یہ فقیدالمثال انسان غار حرا میں بیٹھے هیں اور ایک پیغام رساں آ کر کہتے هیں: پڑھ اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا.
یہ اس انقلاب کا نقطہ آغاز تھا جس نے عرب کے بوسیدہ معاشرے کو ایک ایسی سلطنت میںں ڈھالا جس نے قیصر و کسری’ کے عروج کے سورج بھجا دیے اور جس نے فخر اور فضیلت کے معیار هی بدل کے رکھ دیے. اس انقلاب کی بنیاد مساوات اور عدل پر رکھی گئی اور اس بنیاد کو علم و عقل و کردار کے اوزاروں سے سیدھا بھی کیا گیا اور اٹھایا بھی گیا. عجمی اور عربی ،گورے اور کالے اور امیر اور غریب کے پیمانے توڑ دیے گئے. اور انسان کی تکریم کی درجہ بندی کو اس کے کردار سے جوڑ دیا.
آج 1446 سال بعد برقی قمقموں اور روشنیوں میں لپٹے درودیوار کے پیچھے کا منظر 1111 ربیع الاول 571 سے کچھ زیادہ مختلف نہیں. وهی فساد بگاڑ ،وهی قتل و غارت ،وهی حسب و نسب کا فخر ،عزت و تکریم کے وهی متعصب پیمانے اور وهی گناهوں کا رواج. کعبے میں رکھے لات و عزی’ کے بتوں کو انسانی شکل میں ڈھال کر جگہ جگہ سجا دیا گیا هے.
همیں اپنے ایمان پر نظر ثانی کرنی هوگی. کیا هم واقعی نبی کریم سے محبت کا اظہار کررهےے هیں؟. کیا همارے اعمال همارے محبت کے دعوے کی تصدیق کرتے هیں؟ کہیں هم اپنی محبت کے جھوٹے دعوے کو برقی قمقموں اور روشینوں میں لپیٹ کر دھوکه دهی کے مرتکب تو نہیں هو رهے ؟
آقا صلی الله علیه واله وسلم سے عقیدت میں چراغاں ضرور کرنا چاهئے ،لیکن ان کی حیاتت طیبه کے پر نور خدوخال کو همیں اپنی زندگیوں میں عملی طور پر شامل بھی کرنا هوگا !
ثبوت کے بغیر دعوے درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور وہ بھی اس عدالت میں جہاں ثبوتت هماری دلیلیں نہیں بلکہ الله پاک کا علم هے.
الله پاک هم سب کو نبی رؤف و کریم صلی الله علیه واله وسلم کے رستے پر چلنے کی توفیق عطاا فرماۓ، آمیں! 11 دسمبر 2016
تو هے کوئی سمجھنے والا :
ایک خدا ،ایک رسول اور ایک قرآن کو ماننے کے دعوے کرنے والے نہ اپنی مسجدیں ایکک کرسکے. نہ اپنی نمازیں ایک کرسکے، نہ اپنے سحری و افطار ایک کرسکے ، نہ اپنی جنازہ گاهیں ایک کرسکے ،نہ اپنے جنازے ایک کرسکے ،نہ اپنے قبرستان ایک کرسکے ،نہ اپنی اسلام کی تشریح ایک کرسکے ، نہ کفر کے فتوے ایک کرسکے.
سب نے اپنے اپنے پیشوا بنا رکھے هیں اور سب نے اپنا اپنا مخصوص حلیه بنا رکھا هے. ایکک حلیے کے پیروکار دوسرے حلیے والوں کو اپنے حلیے میں تبدیل کرکے انہیں گمراہی سے بچانے کی فکر میں هیں.
میں نہ سنی هوں نہ شیعه ،نہ بریلوی هوں نہ دیوبندی ،نہ اهل حدیث هوں نہ وھابی نہ کوئیی اور مسلک هے میرا. میں ایک خدا کو مانتا هوں، اس کے آخری رسول صلی الله علیه واله وسلم کا امتی اور پیروکار هوں اور اسی قرآن کو ماننے والا هوں جو میرے نبی کریم صلی الله علیه واله وسلم پر اتارا گیا.
مجھے کیا ضرورت پڑی هے کہ میں کسی حلیے سے پہچانا جاؤں، میرے اسلام کا حواله کسیی مخصوص گروہ سے وابستگی هو، میرے ایمان کی شناخت کچھ مخصوص الفاظ اور جملے هوں.
میری فلاح کا ایک هی رستہ هے اور وہ هے الله اور اس کے رسول صلی الله علیه واله وسلمم کی پیروی. اس لئے میں نے اس راستے کے باقی سارے پتھر هٹا دیے هیں. میں جب کوئی نیکی کرنا چاهوں تو اس کے لئے کسی اور کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں اور برائی سے بچنا چاهوں تو کسی اور کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں. یہ سب کچھ مجھے سمجھانے کے لئے قرآن اور حدیث کافی هیں.
اور هاں قرآن اور حدیث سمجھنا مشکل نہیں کیونکہ الله پاک نے فرمایا هے:
اور بے شک هم نے قرآن کا سمجھنا آسان کردیا تو هے کوئی سمجھنے والا! 12 دسمبر 2016
و سانسوں کا سفر:
آدم علیه السلام سے لیکر اب تک کے ابھی جنم لینے والے انسان تک انسانوں کے کئی رجسٹرر بھر چکے هیں. اربوں کے آگے سابقہ یا مرحوم لکھا جا چکا هے اور جو موجود هیں ان کی روانگی کی تاریخیں اور وقت مقرر هو چکے هیں. جو جا چکے ان میں نمرود سے لیکر فرعون تک ،شداد سے لیکر قارون تک ،سکندر سے لیکر هرقل تک اور نپولین سے لیکر هٹلر تک جیسے طاقت و سطوت کے پہاڑ بھی هیں اور دنیا کے فٹ پاتھوں پر چادروں میں لپٹے دم توڑنے والے بے وطن بھی هیں. عیش و آرام اور تنگ دستی کے باسی دونوں اپنے بدن هی دنیا سے لے جا سکے ،باقی سب دھرے کا دھرا ره گیا.
زندگی صرف دو سانسوں ،پہلی سانس اور آحری سانس ،کا درمیانی فاصلہ هے. ایک سانس سےے دوسری سانس کے بیچ آپ زنده هیں. دوسری سانس تک نہ پہنچ سکے تو آپ کا قصہ ختم. ان دو سانسوں کے درمیان هی کہیں آپ کا مقام کھڑا هے. انہی دو سانسوں کے بیچ کوئی موسی’ کے روپ میں گیا تو کوئی فرعون کا لبادہ اوڑھ کر گیا. کوئی ابراهیم کی صورت رخصت هوا تو کوئی نمرود کے حلیے میں روانہ هوا.ان دو سانسوں کے بیچ هی نوح کے 950 سال سمٹ کر ایک سانس پر جا پہنچے تبھی تو نوح علیه السلام نے عزرائیل سے وقت نزاع فرمایا کہ میری زندگی ایک مکان کے ایک دروازے سے دوسرے دروازے تک ختم هو گئی. ان دو سانسوں نے هی دنیا کو بدلا هے اور ان دو سانسوں نے هی کره ارض کے خدوخال تراشے. سمجھنے کی بات صرف یہ هے کہ ان دو سانسوں کے بیچ سالوں کے فاصلے رکھ دیے گئے هیں. آپ کی آخری سانس کے وقت یہ سالوں کے فاصلے سمٹ کر آپ کی پہلی سانس سے جڑ کر صفر هو جاتے هیں. آپ 50 سال جئیں یا 1000 سال اپنی آخری سانس پر آپ اپنی پہلی سانس تک سمٹ جاتے هیں.تو اتنی مختصر زندگی میں نہ ختم هونیوالی خواهشیں پالنے کا کیا فائدہ ؟ 13 دسمبر 2016
نواز شریف صاحب، قوم جاننا چاہتی ہے:
میاں صاحب، آپ پر چوری اور ہیرا پھیری کا الزام لگا۔ اس کے جواب میں آپ نے اپنیی صفائی میں پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں اپنا بیان دیا کہ رقم کہاں سے آئی اور کہاں گئی، کس طرح آئی اور کس طرح گئی۔ پھر آپ سپریم کورٹ میں جا کر کہتے ہیں کہ آپ کا قومی اسمبلی والا بیان سیاسی ہے۔ جناب عالی آپ نے قوم کو عجیب مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ اب یہ قوم آپ کے سابقہ تمام ریکارڈ،بیانوں اور حلفوں کو سیاسی سمجھنے لگی ہے۔
قوم کو آپ کے شجرہ نسب پر بھی شک ہو چکا ہے۔ آپ نے اپنی جو ولدیت قوم کو بتائی ہے اس پر قوم کیسے یقین کرلے۔ عین ممکن ہے آپ نے اپنے والدین کے خانے میں جو نام لکھے وہ سیاسی شطرنج کی بساط پر بچھائے گئے مہرے ہوں اور آپ کے ڈی این اے کا کھُرا کہیں اور جا کے نکلتا ہو ۔ آپ نے اپنے بچوں کے ناموں کے آگےجو میاں نواز شریف لکھوایا ہے وہ عین ممکن ہے سیاسی قلابازی ہو اور آپ کے بچے آپ کی بے نامی جائیدادوں کی طرح بے نامی هی ہوں .عین ممکن هے کہ یہ بچے کسی اور کے هوں اور آپ نے پارک لین کے فلیٹس کی طرح ان کو ناجائز طور پر اپنے نام رجسٹر کروا لیا هو۔آپ کے مذہب کے خانے میں جو اسلام لکھا ہوا ہے عین ممکن ہے کہ یہ بھی آپ کا سیاسی داؤ پیچ ہو۔ ہو سکتا ہے آپ کے ایمان کی سرنگیں کسی شیو، کسی رام، کسے ہنومان کے مندر میں جا نکلتی ہوں، اسی لئے تو آپ نریندر مودی اور جندال خاندان کی آنکھوں کے تارے ہیں۔ آپ کی پاکستان سے محبت کے فلک شگاف دعوے قوم کیسے تسلیم کرلے جبکہ آپ کے دل و دماغ پر سیاست کا دبیز زنگ چڑھ چکا ہے۔
میاں صاحب، قوم جاننا چاہتی ہے کہ آپ کی حقیقت کیا ہے؟ قوم کس طرح آپ کے قولل پر یقین کرلے؟ قوم کو کیسے پتہ چلے گا کہ کب آپ سچ بولتے ہیں اور کب آپ سیاسی بیان دیتے ہیں؟ بس یہی قوم کو سمجھا دیجئے!
مبارک هو:
بابر کروز میزائل قوم کو مبارک هو. یہ میزائل اگر پاکستان کے هسپتالوں پر مارا جاۓ توو هسپتال جدید ترین طبی سہولیات سے آراستہ هو جائیں گے اور وهاں زیر علاج تمام مریض صحت یاب هو کے نکلیں گے. اسے اگر پاکستان کے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر داغا جاۓ تو یہ ادارے کیمبرج اور هارورڈ یونیورسٹیز میں تبدیل هو جائیں گے. اسے اگر پاکستان کی عدالتوں پر گرایا جاۓ تو عدالتوں سے کوئی مجرم باعزت بری نہیں هوگا. اور اگر پاکستان کے بھوکے ننگے لوگوں کو اس میزائل سے نشانہ بنایا جاۓ تو یہ بھوکے ننگے لوگ مال و دولت سے مالا مال هو جائیں گے.
قوم کو یہ کرشماتی میزائل مبارک هو! 14 دسمبر 2016
زندگی کی یہی رِیت ہے:
دنیا میں کسی چیز کو دوام حاصل نہیں۔ سانس لیتی تخلیق سے لیکر بے سانس تصویروں تک ہرر چیز اپنے وقت کے ساتھ آنکھوں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ نہ ہمارے جاہ ہ جلال کو وقت سے جیتنے کی ہمت دی گئی ہے اور نہ وقت کو ہماری شکستہ حالی کو اپنی حد سے آگے طول دینے کا اختیار دیا گیا ہے۔ صحرا کے سکوت اور شہرکی سماعتیں چیرتے ہنگامے اپنے اپنے سفر طے کرکے رخصت ہوجاتے ہیں۔ پہاڑوں کے مغرور سر اور سمندروں کے بسیط سینے وقت کے ساتھ زمین کے ساتھ ہموار ہو جاتے ہیں۔ حسن و شباب کے مہتاب صفت چہروں سے وقت رنگ و نور کی تہیں کھرچ کے رکھ دیتا ہے۔ روح اور دل پر حملہ آور ہوتے دکھ اور صدمات بھی اپنا پنا وقت پورا کرکے اپنی تلخی کھو دیتے ہیں۔
جہاں آج سے سالوں پہلے ویرانی کے ڈیرے تھے وہاں اب چمکتے دمکتے شہر آباد ہیں۔ جہاںں شہر کی رونقیں برپا تھیں وہاں اب شہر خموشاں کے باسی آسودہ خاک ہیں۔ قدرت یکسانیت کو پسند نہیں کرتی۔ قدرت ہر رنگ ہر انداز کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ قدرت نہ کسی کو ہمیشہ کانٹوں پر بچھاتی ہے اور نہ کسی کو ہمیشہ پھولوں پہ لٹاتی ہے۔ نہ ہمیشہ خوشی نے کسی کے پاس رہنا ہے اور نہ کسی نے ابد تک غم کی ہاہوں میں سسکنا ہے۔ وقت بدلے گا کیوں کہ وقت کو قدرت نے ایک جگہ ٹھہرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔
زندگی کی یہی رِیت ہے
ہار کے بعد ہی جیت ہے
تھوڑے آنسو ہیں تھوڑی ہنسی
آج غم ہے تو کل ہے خوشی
زنگی کی یہی رِیت ہے!
وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ—— سورہ آل عمران 140
اور یہ دن ہیں کہ ہم ان کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں – 15 دسمبر 2016
نا مکمل انصاف :
آج 16 دسمبر هے. آج هی کے دن 19711 میں سول اور ملٹری قیادت کی سر توڑ تگ وو دو نے پاکستان کی پسلیوں سے مشرقی پاکستان کی پیدائش کو ممکن بنایا. بھٹو کی هوس اقتدار اور فوجی قیادت کی بے راه روی همارے وجود کے ٹکڑوں پر اختتام پذیر هوئی. پھر اسی بھٹو نے حمودالرحمن کمیشن بنا کر اس بندر بانٹ کی وجوہات فوجی قیادت میں ڈھونڈنے کی ذمه داری کمیشن کو سونپی. رپورٹ تیار هوئی اور پھر اسے خفیه کے سردخانے میں رکھ دیا گیا. بھٹو نے پاکستان کی بندر بانٹ کا ذمه دار فوجی قیادت کو سمجھا ،لیکن اس بندر بانٹ کا سب سے بڑا ذمه دار وہ خود تھا. وہ وزیر اعظم بن گیا اور عوام کا منہ روٹی کپڑے اور مکان کے لولی پاپ سے بند کردیا. حمودالرحمن کمیشن نے جنرل ٹکا اور جنرل گل حسن سمیت کئی جرنیلوں کو ذمه دار قرار دیا.
یہ سانحہ پاکستان کی بقا پر لگا سوالیہ نشان هے. یہ سانحہ دوباره رونما هونے سے روکنے کے لئےے بھٹو سمیت اس سانحہ کے ذمه دار جرنیلوں کو قبروں سے نکال کر پھانسی دی جاۓ. نا مکمل انصاف کو مکمل کیا جاۓ اور پاکستان کی بقا پر لگے اس سوالیہ نشان کو هٹایا جاۓ.
پاکستان زنده باد!
مجھے اپنے بچوں کا ماتم کرنا هے :
آج ساری قوم بشمول میڈیا اے پی ایس کے شہیدوں کے غم میں نڈھال هے اور ایسا هوناا بھی چاهئییے کیونکہ یہ بہت خاص طبقے کے بچے تھے. لیکن میں آج ان عام بچوں کا ماتم کررها هوں جو لاوارث لمحوں کے مقتول هیں. مجھے دکھ هے ان بچوں کے قتل کا کہ جن کی زندگی اور موت کے بیچ 10 منٹ کا فاصلہ تھا لیکن ان کے گھر اور هسپتال کے درمیان ایک گھنٹے کی خلیج حائل تھی. مجھے افسوس هے ان بچوں کے قتل کا جن کو دهشت گردوں کے بچوں کے شبہ میں باجوڑ کے مدرسے میں ڈرونی خنجر سے ٹکڑے ٹکڑے کرکے مدرسے کی دیواروں اور چھت پر ٹانک دیا گیا .مجھے تکلیف هے ان بچوں کے قتل کی جو تھر کی تپتی ریت پر چشمے پھوٹنے کی حسرت لئے ریت پر اپنی ننھی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اسی ریت میں دھنس گئے. مجھے درد هے ان بچوں کے قتل کا کہ جن کی روٹی مانگتی آنکھیں ان کے والدین نے غربت کے مارے خود اپنے هاتھوں سے همیشه کے لئے بند کردیں. اور میرے ضمیر پر بوجھ هے ان بچوں کے قتل کا کہ جو سرکاری پروٹوکول اور جلوسوں کے بیچ پھنس کر نکل تو آۓ لیکن اپنی زندگی سے هاتھ دھو کر.
آپ اپنے بچوں کا ماتم کریں ، مجھے اپنے بچوں کا ماتم کرنا هے تاکه توازن برقرار رهے کیونکہہ پاکستان کو توازن کی بہت ضرورت هے. 16 دسمبر 2016
جان کی امان پاؤں تو ایک سوال هے.
پارلیمانی سال 16 -2015 کے دوران تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کی قومیی اسمبلی میں حاضری صرف 5 فی صد رهی. اب بھی عمران صاحب نے فرمایا هے کہ جب تک نواز شریف اسمبلی نہیں آتے وہ بھی اسمبلی نہیں جائیں گے.
عمران صاحب کی اسمبلی کی تنخواہ 22 لاکھ روپے هے. کیا عمران صاحب یہ تنخواہ لے رهےے هیں؟ اگر تنخواہ لے رهے هیں تو کیا یہ تنخواہ عمران صاحب کی اسمبلی میں حاضری کے لحاظ سے عمران صاحب کے لئے حلال هے؟ اگر یہ تنخواہ عمران صاحب کے لئے حرام هے تو نواز شریف اور عمران صاحب میں کیا فرق هے؟ 17 دسمبر 2016
عمران خان کا المیہ:
25 اپریل 19966 کوعمران خان نے لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ پارٹیی کو انصاف اور قانون کی بالادستی کا چولا پہنایا گیا اور اس کا رخساروں پر میرٹ کا غازہ لگایا گیا۔ پارٹی نے بیٹھنا سیکھنا، بیٹھنے سے چلنے پر آئی اور پھر 2013 کے الیکشن سے پہلے پارٹی نے سرپٹ دوڑنا شروع کیا۔ پارٹی نے اچھا پرفارم کیا اور کے پی کے میں حکومت بھی بنائی۔ لیکن آہستہ آہستہ پی ٹی آئی ریورس گئیر میں آنے لگی۔ دوسری پارٹیوں کے درختوں سے ٹوٹے ہوئے گلے سڑے پھل پی ٰٹی آئی نے اپنی جھولی میں ڈالنے شروع کردئے۔ اب ماشاءاللہ اس کی جھولی ایسے ٹوٹے ہوئے گلے سڑے پھلوں سے بھر چکی ہے۔ میں ہمیشہ عمران خان کے چلسوں میں سب سے پہلی قطار دیکھتا ہوں۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ اس فرنٹ رو میں کیا کوئی نیا چہرہ، نیا آدمی نطر آتا ہے یا نہیں۔ مجھے تجسس تھا اس پہلی صف میں نئے دور کا کوئی نیا نمائندہ دیکھنے کا۔ لیکن مجھے مایوسی ہوئی کیونکہ عمران کی اس پہلی صف میں وہی گلے سڑے پھل جیسے جہانگیر ترین، شاہ محمود، چوہدری سرور، شیخ رشید، غلام سرور خان وغیرہ ہی نظر آئے۔ مجھے اس قطار میں کوئی نوجوان، کوئی نیا چہرہ نظر نہیں آیا۔ اس پرانی صف کے ساتھ دور موجود کی نئی جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ پھر پے درپے کے الٹے سیدھے بیانات اور فیصلے بھی عمران پر لگے سوالیہ نشانات بن کر اس سے چپک چکے ہیں۔ اگر عمران کو اگلے الیکشن میں کچھ بہتر کرنا ہے تو اسے اپنی پہلی صف کے چہرے تبدیل کرنا ہوں گے اور وہاں نئے چہرے بٹھانے ہوں گے۔ اور پھر جس اسمبلی کو دھاندلی کی پیداوار اور ناجائز اسمبلی کہا اس میں بیٹھنے اور اس سے غیر حاضر ہو کر تنخواہیں لینے کا چال چلن چھوڑنا ہوگا۔ ورنہ انجام وہی ہوگا جو عمر رسیدہ گھوڑوں کے ساتھ جنگ لڑنے کا ہوتا ہے۔
ایک امریکی لاہور آیا اور
ٹیکسی میں بیٹھا ۔
جس کا ڈرائیور پٹھان تھا ۔۔
امریکی بولا : یہ شاہی قلعہ کتنے دن میں بنا ؟؟
پٹھان : ایک ماہ میں ۔۔
امریکی ایسا ہمارے ملک میں تو دو ہفتے میں بن جاتا ہے ۔۔
تھوڑا آگے جانے کے بعد پھر سے پوچھا
یہ واپڈا ہاوس کتنے دن میں بنا ؟؟
پٹھان : دو ہفتے میں ۔۔
امریکی : ہمارے ملک میں تو تین دن میں بن جاتا ہے ۔۔
مینار پاکستان کے پاس سے گزرا تو امریکی بولا
یہ کتنے دن میں بنا ؟؟
پٹھان : کوئی پتا نہیں صاحب صبح تک تو نہیں تھا ۔۔۔ 17 دسمبر 2016
کبھی سیاستدان سیاست کے حمام میں ننگے هوا کرتے تھے اب تو بیچ چوارھے سربازار ننگے کھڑے هو کر کہتے هیں کہ هماری بھی کوئی عزت هوتی هے !
اور عوام ان ننگے عزت داروں کے ساتھ تصویریں بنوا کر اپنی عزت کے حوالے دے رهیی هوتی هے.
دودھ ملا پانی بیچنے والوں کی اخلاقی گراوٹ کا رونا رونے والے بے لباس عزت داروں کا روناا بھی رو لیا کریں.
اس جسم کو کیا نام دیا جاۓ:
آقا صلی الله علیه و سلم نے فرمایا هے مسلمان ایک هی جسم کی مانند هیں.جب جسم کے کسیی ایک حصے میں درد هوتا تو تکلیف پورے جسم کو محسوس هوتی هے.
آج اس جسم کی زخمی زخمی حالت دیکھی اور پھر اس جسم کے مختلف حصوں کا حال دیکھا توو سوچ چکرا کر ره گئی. آج اس جسم کے بازوؤں سے لہو رس رها هے لیکن اس جسم کے لب مسکرا رهے هیں. آج اس جسم کے سینے میں تیر و سناں گڑے هیں لیکن اس جسم کے رخسار اطمینان کی سرخی سے دمک رهے هیں. آج اس جسم کے سر پر پے درپے ضربیں برسائی جا رهی هیں لیکن اس جسم کی آنکھوں میں نیند کا خمار اترا هوا هے. آج اس جسم کیی پیٹھ پر بارود برسایا جا رها هے لیکن اس جسم کی زبان ساغر و مینا کے بوسے لے رهی هے.. اس جسم کے اپنے اعضا ایک دوسرے کے لئے اجنبی بن چکے. اس جسم کے حصوں کا ایک دوسرے سے رابطہ منقطع هو چکا. اس جسم کے ایک حصے پر کیا بیت رهی هے دوسرے حصوں تک اس خبر کے پہنچتے پہنچتے اس خبر کے اثرات رستے میں هی دم توڑ دیتے هیں. اس جسم کے حصوں کے بیچ بے حسی اور غیریت کی دبیز دیواریں کھڑی هو چکی هیں. اب سوال یہ اٹھتا هے کہ جب اس جسم کی کیفیت وه نہ رهی جو میرے آقا نے بتائی هے تو اس جسم اور اس جسم کی اکائیوں کو کیا نام دیا جاۓ؟ 18 دسمبر 2016
69 سالوں میں پاکستان نے یہ ترقی کی کہ همارے جہاز بغیر انجن، ایندھن اور پائلٹ کے کالے بکرے کی گردن کاٹنے سے بھی آڑ سکتے هیں.
اس جیسی ٹیکنالوجی دنیا میں پاکستان کے سوا کسی کے پاس نہیں. کچھ عرصہ بعد کالے بکرےے کی گردن کاٹنے کی بھی ضرورت نہیں رهے گی بلکہ کالے بکرے کو چھری صرف دکھائی جاۓ گی اور پاکستان کے جہاز آڑ کر منزل پر پہنچ جائیں گے.
بدلا هے پاکستان ، بدلیں گے سارا جہان!
استقبال کس کارنامے پر:
سنا هے پیپلز پارٹی والے آصف علی زرداری کی پاکستان واپسی پر ان کے تاریخی استقبال کیی تیاریاں کررهے هیں. زرداری فوج کے خلاف بڑھکیں مارنے کے بعد پاکستان سے بغیر صندوق اٹھاۓ بھاگ گیا تھا. اب قوم کو یہ بھی بتایا جاۓ کہ بیرون ملک ره کر زرداری نے ایسا کونسا کارنامه سرانجام دیا هے کہ اس کا استقبال کیا جارها هے. کیا زرداری نے فلسطین کو آزاد کرالیا هے؟ یا کشمیر کو بھارتی چنگل سے چھڑا لیا هے؟ یا پاکستان کو دنیا کی پہلے نمبر یا دوسرے نمبر کی معیشت بنا دیا هے ؟ آخر یہ استقبال کس کارنامے پر کیا جا رها هے ؟ 19 دسمبر 2016
احمقوں کا ترقی کا فلسفہ:
نواز شریف تیسری بار ہماری حماقت کے صلے میں وزیراعظم ہے۔ پہلے دن سے لے کر آجج تک اس احمق کے دماغ میں ترقی کا ایک ہی تصور سمایا ہوا ہے اور وہ ہے موٹر وے۔ اس کی ترقی موٹروے پر ایسی چڑھی کے پھر کبھی موٹر وے سے نہیں اتری۔ اس کے دماغ میں ایک موٹر وے مکمل ہوتے ہی دوسرا موٹر وے سر اٹھانے لگتا ہے۔ دنیا کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور ڈی این اے ڈی کوڈنگ سے کہیں آگے جاچکی ہے۔ دنیا مریخ سے اگلی دنیا کی سمت نکل چکی ہے۔ دنیا سمندروں کی تہہ پر بیٹھ کر آسمان کی وسعتیں کنگھال رہی ہے اور یہ احمق سڑکیں سر میں بسائے پاکستان کی ترقی کے خواب دکھا رہا ہے۔
دنیا ایک سے بڑھ کرا یک یونیورسٹی پیدا کررہی ہے، ایک سے بڑھ کر ایک ہسپتال تخلیقق کررہی ہے اور ایک سے بڑھ کر ایک انڈسٹریل ایمپائر کھڑی کررہی ہے۔لیکن کیا کیا جائے اس احمق کے دماغ کا کہ جس میں نہ کسی یونیورسٹی کا خاکہ بنتا ہے اور نہ کسی ہسپتال کا ڈیزائن ابھرتا ہے۔ نہ اس احمق کے دماغ میں کسی سلیکان ویلی کا نقشہ جنم لیتا ہے اور نہ کسی ٹاہو رینو انڈسٹریل سنٹر کے خدوخال واضح ہوتے ہیں۔ اس فرسودہ دماغ میں سوائے موٹر وے کے کوئی اور شئے جنم نہیں لیتی۔ اور یہ چیز ثابت کرتی ہے کہ یہ احمق اس دنیا کے ساتھ چلنے کے بالکل ہی قابل نہیں۔ یہ پتھر کے دور کا انسان ہے جو آج کے ہائی ٹیک الٹراماڈرن دور کے تقاضوں سے کوئی واقفیت نہیں رکھتا۔ یہ وہ احمق ہے جو پیدل ہوتے ہوئے آواز کی رفتار سے تیز دوڑتی دنیا کا پیچھا کرنے کا خواب دیکھ رہا اور قوم اس خواب کی تعبیر اپنی خالی کھوپڑیوں میں سجائے اس احمق کے پیچھے پیچھے بھاگ رہی ہے۔ 20 دسمبر 2016
سوال یہ هے :
پاکستان میں آۓ دن نئے نئے جھنڈے منظر عام پر آ رهے هیں.سیاست اور مذهب نانن سٹاپ بچے پیدا کررهے هیں.هم غریب پر بچے پیدا کرنے کی قدغن لگانے کی کوشش کرتے هیں اور اسے خاندانی منصوبہ بندی کے سبز باغ دکھاتے هیں لیکن سیاست اور مذهب کو کھلا چھوڑ دیا کہ وہ جتنے بچے چاهیں پیدا کر سکتے هیں.پھر کوئی موقع پرست کچھ ایسے بچے اکٹھے کرکے ایک ٹوله بنا لیتا هے اور پھر اس ٹولے کا اپنا جھنڈا لٹکا دیا جاتا هے. پاکستان کے گلیاں کوچے ان جھنڈوں سے بھرتے جا رهے هیں.هر جھنڈے کے نیچے اکٹھے هونیوالے دوسرے تمام جھنڈوں کو دشمن کے جھنڈے سمجھ کر انہیں اکھاڑنے کے چکر میں هے. دوسرے کے جھنڈے کے نیچے کھڑے لوگ وطن دشمن بھی هیں اور کافر مشرک بھی. یوں پاکستان دنیا کا ایسا ملک هے جس میں جتنے محب وطن هیں اتنے هی وطن دشمن بھی هیں.پاکستان میں جتنے مسلمان هیں ٹھیک اتنے هی کافر مشرک بھی هیں.
اب سوال یہ اٹھتا هے کہ پاکستان میں کون کس پر قابض هے؟ محب وطن وطن دشمنوں پر یاا وطن دشمن محب وطن پر؟ مسلمان کافروں اور مشرکوں پر مسلط هیں یا کافر مشرک مسلمانوں پر قابض هیں؟
کتنا اجاڑ ماحول هے کہ میں اور آپ کسی ڈھنگ کے آدمی کو دیکھنے ،ملنے اور سننے کو ترس گئے هیں!
نہ آنکھوں کو ٹھنڈک دینے والے چہرے هیں اور نہ سماعتوں میں رس گھولنے والے لہجےے هیں. نہ دل میں سکون بھرنے والے دلنواز هیں اور نہ فکر جگانے والے دانا هیں. نہ راه دکھانے والے رهبر هیں اور نہ زخموں پر مرهم رکھنے والے چاره گر هیں.
کتنا اذیت ناک هے اس قحط سالی میں زنده رهنا! 21 دسمبر 2016
سورج پر برف نہ جمائیں:
ہمارے بہت سے پابند شریعت اور عابد زاہد لوگ صبح و شام امریکہ اور مغرب کا پانسہ پلٹنےے اور ان کے صفحہ ہستی سے مٹنے کے لئے مصلے پر بیٹھ کر بد دعائیں مانگ رہے ہیں۔ٹھیک ہے امریکہ اور مغرب نے بہت سے غلط کام کئے ہیں۔ امریکہ اور مغرب نے بہت سے بے گناہ لوگوں کا خون بہایا ہے۔ بہت سے اسلامی ممالک میں افراتفری پھیلائی ہے۔ لیکن اس ظلم و ستم اور افراتفری میں اسلامی دنیا نے بھرپور طریقے سے امریکہ اور مغرب کا ساتھ دیا ہے۔عراق، ایران، لیبیا، مصر، شام اور پاکستان میں کھیلے جانیوالا خاک اور خون کا کھیل امریکہ نے انہی اسلامی لوگوں کے ساتھ مل کر کھیلا۔
لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیا کریں یہ عابد زاہد لوگ۔ امریکہ اور مغرب نے ہی کعبہہ کے گرد طواف کرنیوالوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔امریکہ اور مغرب نے ہی ہر سال روضئہ رسول پر حاضری دینے والوں کی تعداد بڑھائی ہے۔ امریکہ اور مغرب نے ہی اسلام کا پیغام ہر بندے تک پہچانے کو آسان بنایا ہے۔امریکہ اور مغرب نے ہی ہماری ماؤں بہنوں کو زچگی کے دوران موت کے منہ میں جانے سے بچایا ہے۔ امریکہ اور مغرب نے ہی ہمارے جنازوں میں لوگوں کی بروقت اور کثیر تعداد میں شرکت کو یقینی بنایا ہے۔
امریکہ اور مغرب سورج کی مثال ہیں۔ سورج کی تپش بڑھ بھی جاتی ہے لیکن ہماری زندگیی کا ہر پہلو سورج کے بغیر ڈھنگ سے زندہ رہنے کا تصور نہیں کرسکتا۔ اس کی تپش سے بچا جاسکتا ہے اگر بچنے کا بندوبست کرلیا جائے ۔ لیکن ان عابدوں زاہدوں سے گزارش ہے کہ وہ سورج پر برف جمنے کی بددعا نہ کریں کیونکہ سورج کی آگ ہی اس کا اثاثہ ہے اور یہ اثاثہ اس سے چھن گیا تو زندگی بہت مشکل میں پڑ سکتی ہے۔ 22 دسمبر 2016
جنون پر شگون کا شبخون:
شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ میں نے ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جس نے خضاب لگایاہوا تھا۔۔ میں نے اس بڑھیا سے کہا اے بڑھیا تو نے بالوں کا رنگ تو تبدیل کرلیا لیکن اپنی ٹیڑھی کمر کیسے سیدھی کرو گی؟
عمران خان نے شروع شروع میں جنون کا نعرہ لگایا۔ ظاہر ہے یہ جنون نئی نسل کا نمائندہہ تھا۔ مجھے بھی اس جنون میں بڑی کشش دکھائی دی اور مجھے امید لگی کہ شاید پاکستان کا نقشہ بدلنے کا وقت آگیا ہے۔ لیکن پھر عمران خان کے آس پاس کچھ ایسے لوگ جمع شروع ہونے ہوئے جنھوں نے عمران کو شگون دکھانے شروع کردیے۔ان شگونیوں نے عمران کو بتایا کہہ پارٹی کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جن کا ووٹ بینک ہے۔عمران اس دام فریب میں پھنسنےے لگا اور پھر جنون پر شگون کا شبخون پڑا اور عمران کے ارد گرد شگونی جمع ہونے شروع ہوگئے۔ جنون کو ناچ گانے پر لگا دیا گیا اور شگون نے سٹیج سنبھا ل لیا۔ شگون نے نعرے لگوائے اور جنون نے نعرے لگائے۔ اور آج یہ حالت ہے کہ جنون پیچھے رہ گیا اور شگون پی ٹی آئی پر مسلط ہوگیا۔
عمران صاحب، آپ نے اپنے ارد گرد جمع بوڑھوں کے بال رنگ چڑھا کر نئے کرلئے، انن کے خستہ حال چہروں پر میک اپ کرکے ان کی جھریاں بھی کچھ چھپا لیں، ان کی ادھ کھلی آنکھوں پر نئے ماڈل کے چشمے بھی چڑھا دیے اور ان کو جینز بھی پہنا دِیں لیکن آپ ان کی ٹیرھی کمریں کیسے سیدھی کریں گے؟ آپ ان کی فرسودہ فکر میں جدت کیسے لائیں گے؟ آپ ان کی بوسیدہ روایات میں نئی جان کیسے ڈالیں گے؟ آپ ان کے کردار کی ٹیڑھی کمریں کیسے سیدھی کریں گے؟ آپ ان کی ڈولتی دھڑکنوں کو روانی کیسے دیں گے؟
عمران صاحب، یہ نہیں ہوسکتا کہ ٹیڑھی کمروں والے نئے پاکستان کی بنیاد ڈالیں ۔ یہ نہیںں ہو سکتا کہ ملبے کے ڈھیر سے برج خلیفہ تعمیر کیا جائے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ گلے سڑے پھلوں سے تازگی نچوڑی جائے۔ یہ نہیں ہوسکتا، یہ نہیں ہوسکتا عمران صاحب! 23 دسمبر 2016
اپنی قدر کئجئے:
ایک کوا نہر کے کنارے ایک درخت پر بیٹھا تھا۔ اس نے نہر میں سامنے سےایک ہنس کوو گزرتے دیکھا۔ کوا ہنس کا سفید رنگ اور اس کو پانی میں تیرتا دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھر کر بولا کہ یہ ہنس دنیا میں سب سے خوش پرندہ ہوگا۔ ہنس آگے بڑھا اور تیر کر نہر کے دوسرے کنارے پر پہنچا۔ وہاں ہنس نے نہر کے کنارے ایک درخت پر ایک طوطے کو بیٹھا دیکھا۔ طوطے کے رنگ برنگے جسم کو دیکھ کر ہنس نے ٹھنڈی آہ بھری اور دل ہی دل میں کہا کہ یہ طوطا کتنا خوبصورت ہے یہ دنیا میں سب سے خوش رہنے والا پرندہ ہوگا۔ طوطا آڑا اور اڑتے اڑتے ایک گھر کی دیوار پر جا بیٹھا۔ گھر میں پنجرے میں بند ایک مور دیکھ کر طوطا حیران رہ گیا۔ مور کے چمکتے رنگ برنگےبدن پر کھلتے بند ہوتے پر اور مور کی کلغی دیکھ کر طوطا احساس کمتری میں کھو کر خود سے کہنے لگا کہ مور انتا خوبصورت ہے تو یہ کتنا خوش ہوگا۔ اسی اثنا میں ایک کوا اڑتا ہوا آیا اور گھر کی منڈیر پر بیٹھ گیا۔ وہ ادھر ادھر اڑ اڑ کر بیٹھ اٹھ رہا تھا۔ کوے کی یہ آزادانہ اڑان دیکھ کر مور افسردہ ہوگیا اور خود سے کہنے لگا کہ یہ کوا کتنا خوش نصیب ہے کہ جہاں مرضی آئے اڑ کر چلا جاتا ہے اور ایک میں ندنصیب ہوں کہ ایک ہی جگہ قید ہو کر رہ گیا ہوں۔
دنیا میں ہر وقت ہر شخص کسی ایسی چیز کا خواب دیکھ رہا ہوتا ہے جو کسی اور کے پاس ہوتیی ہے اور وہ چیز جس کے پاس ہوتی ہے اسی کو اپنے سے زیادہ خوش اور خوش نصیب سمجھ لیا جاتا ہے۔ ہم سب نے دوسروں کے خواب اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں ۔ ہماری اپنی چیزیں دوسروں کے خواب بن چکے ہیں ۔هم اپنی خوبصورتی دوسروں میں ڈھونڈتے هیں.هم اپنی خوبصورتی چھیل کر دوسروں کا رنگ روپ اپنے اوپر ملنا چاهتے هیں. یوں ہم بہت کچھ اپنے پاس ہوتے بھی احسا س محرومی کا شکار ہیں۔او ریوں ہم اپنی چیزوں کی بے قدری کے مرض میں مبتلا ہو کر اپنی خوشی اور سکون پر ناقدری کے خنجر چلا چلا کر انہیں لہولہان کررہے ہیں۔ اپنی چیزوں کی قدر کیجئے اور دوسروں کے مقدر کو اپنے خواب نہ بنائیں – 24 دسمبر 2016
چئیرمین نیب (NAB ) کے نام:
چئیرمین صاحب ،میں بھی ایک کرپشن کرنا چاهتا هوں. میں نواز شریف کا پورے کا پوراا خاندان ان کے کتے بلیوں سمیت هتھیانا چاهتا هوں. پھر آپ سے پلی بارگین میں کتے اور بلیاں واپس کردوں گا.
چئیرمین صاحب ،کیا ایسا ممکن هے؟ بے شک سارے کتے اور بلیاں آپ خود رکھ لیئجئے گا.
پی ٹی آئی میں کتنا میرٹ هے اس کا منہ بولتا ثبوت پی ٹی آئی کا ضلعی صدر امجد علی هے. یہ سینٹرل ماڈل سکول میں میرا 1988 تک کلاس فیلو رها. یہ همارے سکول کا نالائق ترین سٹوڈنٹ تھا. یہ الله میاں کا ایسا کٹا تھا جسے بھینس کی طرف هانکا جاتا لیکن یہ کٹا گاۓ کو جا کر چمٹ جاتا.
باقی آپ خود سمجھدار هیں، سمجھ جائیں!
5 دسمبر – عجیب اتفاق :
آج تین جنم دن هیں.ایک حضرت عیسی’ علیه السلام کا جو مردے زنده کرتے تھے. دوسراا قائد اعظم کا جنھوں نے ایک دم توڑتی قوم کو زنده کیا اور پاکستان کی شکل میں زنده کیا. اور تیسرا ایک لگڑ بھگڑ یعنی نواز شریف کا جس نے اپنے جبڑے پاکستان کے گلے میں گاڑے هوۓ هیں.. اگر پاکستان کو زنده رکھنا هے تو اس لگڑ بھگڑ کی جلد از جلد برسی کا بندوبست کرنا هوگا. اس کے جنم دن کے مناۓ جانے کا مطلب هے پاکستان کے انتقال کا بندوبست کرنا . 25 دسمبر 2016
پگ:شرافت سے کمینگی تک:
پگ یعنی پگڑی کبھی عزت ،وقار،غیرت اور شرافت کی علامت هوا کرتی تھی. یہ اپنے قبیلےے کے اس شخص کے سر پر رکھی جاتی تھی جو اپنے قبیلے میں سب سے زیادہ شریف اور غیرت مند هوا کرتا تھا. پھر یوں هوا کہ یہ پگ شریفوں کے سروں سے سرکنا شروع هو گئی. شریفوں نے بہت کوشش کی اس کو اپنے سروں پر قائم رکھنے کی لیکن شاید شریفوں کے سروں پر اس کا وقت پورا هو چکا تھا. یہ پگ شریفوں کے پیروں میں حتمی طور پر گر پڑی اور اسے ایک نئے طبقے نے اٹھا کر اپنے سر پر رکھ دیا. یہ طبقہ کمینوں ،لچوں،سودخوروں،جواریوں،شرابیوں،زانیوں اور پرلے درجے کے بدکاروں پر مشتمل هے. عوام نے بھی اس انقلابی تبدیلی کا باھیں پھیلا کر گرمجوشی سے استقبال کیا. اب یہ طبقہ اپنے اپنے قبیلے کی نمائندگی کررها هے. قبیلے کا کوئی فرد کسی دوسرے فرد کی عزت ،جان یا مال هتھیا لے تو یہ پگ باندھے عزت دار ایسے هتھیارے کی مدد کو پہنچ جاتے هیں اور ان کو باعزت طریقے سے اس جرم سے آزاد کرالیتے هیں.یہ عزت دار ذره سی بات پر کسی کے سر میں گولیاں اتار دیتے هیں ،جیل جاتے هیں اور پھر صلح میں اپنی بہن یا بیٹی تاوان کے طور پر دے کر جیل سے باھر آجاتے هیں.
یہ پگ مجھے بلوچستان کے مشتاق رئیسانی کی پگ لگی تصویر دیکھ کر یاد آئی. مجھے نبی کریم صلیی الله علیه وسلم کا قول مبارک بھی یاد آرها هے کہ قرب قیامت میں گھٹیا ترین اور کمینے ترین لوگ اپنے اپنے قبیلے کے سردار هوں گے. یقیناً وقت قیامت کے دروازے تک پہنچ چکا هے. 26 دسمبر 2016
اتذہ- پاکستان کے سب سے بڑے مجرم:
ابراہم لنکن نے کہا تھا کہ ہماری آج کی نسل کے کلاس رومز کی فلاسفی ہماری اگلی نسل کیی حکومت کی فلاسفی ہوگی۔
آج ہم پاکستان کے نامساعد حالات کا رونا لے کر بیٹھے ہیں اور ہماری الزام کی انگلیاںں حکمرانوں پر ٹکی ہوئی ہیں۔ ہمیں پاکستان کی شکستہ حالی کے ملزموں میں ایک ہزار آپشنز دئے جایئں تو ہم بغیر توقف کے حکمرانوں کے آپشن پر ٹِک لگا دیتے ہیں۔ ہم نے پاکستان کی ہر مصیبت کا ذمہ دار اپنے حکمرانوں کو ٹھہرا دیا ہے اورخود اپنے دامن کو اس الزام تراشی کے صابن سے دھو کر مطمئن ہو کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ میری نظر میں پاکستان کی بنیادوں میں تخریب کاری کا بارود ہمارے اساتذہ رکھ رہے ہیں۔ ہمارے اساتذہ نے تعلیم کو محض درسی کتابوں کو سمجھا دینا سمجھ رکھا ہے۔ اساتذہ کی اکثریت کلاس رومز میں جاکر اپنے موضوع پر لیکچر دے کر اپنے فرض سے باحسن سبکدوش ہو جاتی ہے۔ ہم نے اپنے کلاس رومز کی فلاسفی پر کبھی توجہ دینے کی زحمت گوارا ہی نہیں کی۔ ہم نے اپنے کلاس رومز کا کلچرتبدیل کرنے کا کبھی سوچا ہی نہیں۔ ہم نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ ہمارے کلاس رومز میں کل کے فیصلہ ساز بیٹھے ہیں، کل کے پالیسی میکرز بیٹھے ہیں، کل کے اہل اختیار بیٹھے ہیں۔ ہمارے پڑھے ہوئے بچے ڈاکٹر، انجنئیر، بزنس مین، افسر، عالم، استاد، جج بن جاتے ہیں اور پھر انہی کے ہاتھوں ہم ذلیل ہونا شروع ہوجاتے ہیں، کیوں؟ کیوں کہ ہم نے ان کو معاشرے کے تناظر میں رکھ کر پڑھایا ہی نہیں۔ ہم نے انہیں ان کی ذمہ داریوں کا شعور ہی نہیں دیا۔ ہم نے انہیں ان کے مشن کی صحیح سمت ہی نہیں بتائی۔ اساتذہ خود کو قوم کا معمار تو کہتے ہیں لیکن اپنی تعمیر کو عصری، زمینی اور قدرتی آفات سے محفوظ رکھنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے۔ یوں تعمیر کی گئی عمارت آس پاس رہنے والوں کے لئے وبال جان بن جاتی ہے۔ اپنے کلاس رومز کی فلاسفی بہتر کیجئے، آپ کو اگلی نسل کے حکمران پر الزامات کی انگلیاں اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
خورشید شاه کے هوتے پاکستان کی قومی اسمبلی میں فرینڈلی اپوزیشن هے. آصف زرداری اسمبلی گیا تو رومینٹک اپوزیشن هوگی. عین ممکن هے اسمبلی میں سرعام بوس و کنار شروع هو جاۓ. اور عین ممکن هے اسمبلی میں قابل اعتراض مناظر بھی نظر آئیں.
مشتری هوشیار باش! 27 دسمبر 2016
اس نفرت کو هوا دیجئیے:
پاکستان کے هر روڈ کی طرح میانوالی سے لے کر چشمہ تک کا روڈ میرے اور آپ عوام کےے ٹیکسوں کے پیسے سے بنا هے. اس روڈ کی تعمیر میں نہ خبیث اعظم نواز شریف کا ایک روپیہ لگا هے اور نہ اس کے باپ میاں شریف کا. لیکن آج اس خبیث کی میانوالی آمد پر عوام کو اپنے اس روڈ پر چلنے سے روک دیا گیا اور انہیں گردوغبار سے اٹے کچے رستوں پر ڈال دیا گیا. ایک لحاظ سے ان لوگوں کے منہ پر چپکی گردوعبار دیکھ کر خوشی بھی هوئی کہ اپنی ذلت و رسوائی کے عہد نامے پر انگوٹھے لگانے والوں کے منہ هیں هی اس گردوغبار کے قابل.. دکھ اس بات کا هے کہ ان قصورواروں کے ساتھ کئی بے قصور بھی اس ذلت سے دوچارر هوتے هیں. یہ ایک مثال کافی هے یہ سمجھانے کے لئے کہ یہ خبیث پاکستان کے عوام کو کیا سمجھتے هیں. اب یہ توقع رکھنا کہ ایسے خبیث کو خبیث نہ کہا جاۓ تو ایسا هر گز نہیں هو سکتا.
مجھے ایسا پاکستان نہیں چاهئیے کہ جس میں روڈ کے مالک روڈ سے اتار دیے جائیں اور ایک چورر اور ڈاکو کے قافلے کو گزرنے دیا جاۓ. ایسے خبیثوں سے نفرت کیجئیے اور اس نفرت کو هوا دیجئیے. اس نفرت کو گھر گھر پہنچائیے. اسی نفرت سے هماری نجات کی بنیاد پڑنی هے. اسی نفرت پر هماری بقا کا دارومدار هے. اسی نفرت کی کوکھ سے هی وہ پاکستان جنم لے گا جس کو دنیا میں آنے سے نواز شریف جیسے خبیثوں سے آپ کی عقیدت و محبت نے روک رکھا هے. وہ پاکستان جس میں آپ کو کسی حاکم کے لئے پکے روڈ سے کچے راستے پر نہیں ڈالا جاۓ گا.
جب تک برے لوگوں سے نفرت نہیں کرو گے ،اچھے لوگوں کے لئے ترستے رهو گے!! 28 دسمبر 2016
2017 کیا واقعی نیا سال هے؟
پوری دنیا کی طرح دنیا کے اس حصے کے لوگ بھی نئے سال کے لئے باھیں پھیلا کر کھڑےے هیں. مبارک باد کے پیغامات کا تبادلہ کیا جا رها هے. لیکن یہ سب سراب کو سمندر سمجھنے والے توهم پرستوں کا وهم هے. نئے سال وهاں طلوع هوتے هیں جہاں انسان کے شعور کی نبض چل رهی هو. جہاں سوچ کی دھڑکن رواں هو. جہاں نظریات اور تصورات کا ارتقا رو بہ عمل هو.
پاکستان جیسے معاشرے میں نئے سال کا کیا تصور ؟ یہ استعمال شده چیزوں کا لنڈا بازار هے.. شعور اور سوچ ،نظریات و تصورات ،کردار و گفتار سمیت یہاں هر چیز استعمال شده هے جسے جھاڑ کر همارے سامنے لٹکا دیا جاتا هے. جو چیزیں باقی دنیا زائدالمعیاد قرار دے کر پھینک دیتی هے وہ هم اٹھا کر فروخت کے لئے پیش کردیتے هیں. همارے سال بھی اس استعمال شده مال جیسے هیں. همارے پچھلے سال کے ماتھے اور پیٹھ پر اگلے سال کا نمبر لگا دیا جاتا هے اور یوں هم نئے سال میں داخل هوتے هیں. همارا 2017 همارا 2000 هے، 1980 هے اور 1960 هے. هم نے کیا نیا دیکھا کہ نئے سال کا تصور کر لیا؟ هم نے کونسا نیا نظریہ دیا دنیا کو؟ هم نے کون سا نیا شعور دیا دنیا کو؟ هم نے کونسا نیا رخ دیا انسانی ترقی کا؟ هم نے دنیا کو مشکل سے نکالنے کا کونسا نیا راستہ نکالا ؟
استعمال شده سال کو نئے سال کے طور پر آپ منائیں تو منائیں، میں ابھی نئے سال کا انتظارر کررها هوں. 29 دسمبر 2016
کون سی عوام جو….. :
پاکستان کے سیاسی مداریوں سے جب بھی ان کی بداعمالیوں کا جواب مانگا جاۓ وہ کہتے هیںں کہ همارا احتساب عوام کرتی هے ووٹ کے ذریعے. اسی احتساب کے نتیجے میں عوام کتوں سےتنگ آ کر خنزیروں پر انگوٹھے لگا دیتے هیں اور پھر خنزیروں سے اکتا کر واپس کتوں کی طرف پلٹ آتے هیں. پچھلے تمام الیکشنز عوام اسی طرح کتوں اور خنزیروں کے درمیان پل بنی هوئی هے.
یہ سیاسی مداری کون سی عوام کا حواله دیتے هیں؟ تو جناب یہ وہ عوام هے جو ان سیاسیی مداریوں کے جلسوں میں جاتی هے اور جلسے کے بعد کھانا کھلتے هی کھانے پر کتوں کی طرح جھپٹ پڑتی هے. یہ وہ عوام هے کہ جو ان سیاسی مداریوں کو گالیاں دیتی هے اور پھر ان کے ساتھ چند سیلفیاں بنوا کر ان کے قصیدے بیان کرنے لگتی هے. یہ وہ عوام هے جو چپڑاسی یا کلرک یا سپاهی کی نوکری کے وعدے پر ان سیاسی مداریوں کے جوتے اپنی زبانوں سے چاٹ کر چمکاتی هے. یہ وہ عوام هے کہ اگر کوئی سیاسی مداری ان کے ناقص علاج کے نتیجے میں مرنے والے بچے کی فاتحه پڑھنے آ جاۓ تو ان کا ووٹ اسی سیاسی مداری کا هو جاتا هے.
یہ هے وہ عوام جو ان سیاسی مداریوں کا احتساب کرتی هے. اسی احتساب کا پھل نواز شریفف اور آصف زرداری جیسے درندوں کی شکل میں یہ عوام اٹھا کر 2017 میں داخل هو رهی هے.
الله خیر بیڑے پار!
کون سی عوام جو….. :
پاکستان کے سیاسی مداریوں سے جب بھی ان کی بداعمالیوں کا جواب مانگا جاۓ وہ کہتے هیںں کہ همارا احتساب عوام کرتی هے ووٹ کے ذریعے. اسی احتساب کے نتیجے میں عوام کتوں سےتنگ آ کر خنزیروں پر انگوٹھے لگا دیتے هیں اور پھر خنزیروں سے اکتا کر واپس کتوں کی طرف پلٹ آتے هیں. پچھلے تمام الیکشنز عوام اسی طرح کتوں اور خنزیروں کے درمیان پل بنی هوئی هے.
یہ سیاسی مداری کون سی عوام کا حواله دیتے هیں؟ تو جناب یہ وہ عوام هے جو ان سیاسیی مداریوں کے جلسوں میں جاتی هے اور جلسے کے بعد کھانا کھلتے هی کھانے پر کتوں کی طرح جھپٹ پڑتی هے. یہ وہ عوام هے کہ جو ان سیاسی مداریوں کو گالیاں دیتی هے اور پھر ان کے ساتھ چند سیلفیاں بنوا کر ان کے قصیدے بیان کرنے لگتی هے. یہ وہ عوام هے جو چپڑاسی یا کلرک یا سپاهی کی نوکری کے وعدے پر ان سیاسی مداریوں کے جوتے اپنی زبانوں سے چاٹ کر چمکاتی هے. یہ وہ عوام هے کہ اگر کوئی سیاسی مداری ان کے ناقص علاج کے نتیجے میں مرنے والے بچے کی فاتحه پڑھنے آ جاۓ تو ان کا ووٹ اسی سیاسی مداری کا هو جاتا هے.
یہ هے وہ عوام جو ان سیاسی مداریوں کا احتساب کرتی هے. اسی احتساب کا پھل نواز شریفف اور آصف زرداری جیسے درندوں کی شکل میں یہ عوام اٹھا کر 2017 میں داخل هو رهی هے. الله خیر بیڑے پار!
پیر اور ملا کی دیوار :
میرے آقا صلی الله علیه وسلم نے اپنے وقت آخر فرمایا : میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جاا رها هوں، ایک قرآن اور دوسری سنت. تم جب تک ان پر عمل پیرا رهو گے گمراہ نہیں هوگے. وقت کے ساتھ ساتھ اس پیغام کی تشریح بدلتی گئی اور پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ قرآن و سنت کے درمیان پیر اور ملا کھڑے هو گئے. لوگوں کے ذهن میں بٹھایا گیا کہ قرآن و سنت تک بغیر پیر و ملا کے پیچھے چلے نہیں پہنچا جا سکتا. قرآن و سنت کو عوام کی فہم و فراست سے بالاتر قرار دے دیا گیا اور یہاں تک کہا گیا کہ جس کا کوئی پیر نہیں ،اس کا پیر شیطان هے. اس خوف کے مارے لوگ اپنے اپنے پیر ڈھونڈنے نکل پڑے. بہت سوں نے اپنے ملا کا تجویز کرده پیر پکڑ لیا اور کچھ اپنے طور پر پیر کی تلاش میں نکل پڑے. لوگوں کے دل و دماغ میں قرآن و سنت کی بجاۓ پیر و ملا کی تصویریں گھومنے لگیں. قرآن و سنت سے رابطے کمزور پڑتے گئے اور پیر و ملا کی مجالس کی حاضریاں بڑھتی گئیں. ان پیروں اور ملاؤں نے اسلام کو اپنے پیروکاروں کے سامنے اس هاتھی کی شکل میں پیش کیا جسے کچھ اندھے ٹٹول ٹٹول کر اس کی شناخت کی کوشش کررهے تھے. یوں ایک اسلام کے کئی اسلام پیدا هو گئے اور اب سب کا اسلام اپنے اپنے پیر اور ملا کی حوالے سے پہچانا جاتا هے.
سوال یہ هے کہ جب قرآن و سنت کو پیر اور ملا کے بغیر سمجھا جا سکتا هے تو پیر اور ملا کوو اپنے اور قرآن و سنت کے بیچ کیوں کھڑا کیا جاۓ؟ پیر و ملا کی اس دیوار کو پھلانگے بغیر کیا ھدایت و نجات تک نہیں پہنچا جا سکتا ؟ کیا هماری نجات کے لئے قرآن و سنت کافی نہیں ؟ کیا قرآن و سنت کو پیر و ملا کے سمجھاۓ بغیر نہیں سمجھا جا سکتا ؟ اور اس بات کی کیا ضمانت هے کہ قرآن و سنت کی جو تشریح پیر و ملا کرے وہ تشریح وهی هے جو الله اور اس کے رسول اکرم صلی الله علیه وسلم نے کی هو؟
اور هاں الله پاک نے خود قرآن پاک کے بارے فرمایا هے: اور بے شک هم نے قرآن کاا سمجھنا آسان کردیا هے ،تو هے کوئی سمجنھے والا.
میں نے قرآن و سنت کو بغیر پیر اور ملا کے سمجھ لیا هے اور پیر و ملا کی بجاۓ قرآن وو سنت کے سہارے اپنی نجات کے لئے پرامید هوں. میری زندگی میں پیر و ملا کی ضرورت نہیں کیونکہ میرے پاس قرآن و سنت موجود هے. میں دیوار پھلانگنے کی مشکل میں نہیں پڑ سکتا! 30 دسمبر 2016
سرد موسم پہنچا هے تو
بہار بھی اب دور نہیں!
مانا کہ میری دھرتی پر دکھ اور غم کی فضا چھائی هے، مانا کہ میری دھرتی پر جھوٹ کے تناورر درختوں کے نیچے سچ کے پودے کملا رهے هیں، مانا کہ میری دھرتی پر اندھیروں نے روشنی کو ڈھانپ رکھا هے ،مانا کہ میری دھرتی پر ظلم نے انصاف کو قیدی بنایا هوا هے، مانا کہ میری دھرتی پر نفرت نے محبت کے پر کاٹ رکھے هیں، لیکن یہ سب آخر کب تک چلے گا؟ رات دن کا رستہ نہیں روک سکتی ،اندھیرا روشنی کو دبا کر نہیں رکھ سکتا ،جھوٹ سچ پر آخری فتح حاصل نہیں کر سکتا، ظلم انصاف پر فیصلہ کن غلبه حاصل نہیں کر سکتا،اور دکھ سکھ کی روح قبض نہیں کر سکتا.
گزرتے سال کو گزار لیا اور اگلے سال کا سامنا هے. یہ نیا سال ثابت هوتا هے یا پچھلے سالل کا عکس ،اس کا فیصلہ اگلے سال کے اختتام پر هی هو سکے گا. تب تک انتظار کیجئیے!
اور هاں اگلا سال نیا ثابت هو سکتا هے اگر هم اس گزرتے سال کو اپنے هاتھوں لگاۓ گئےے زخموں کی مرهم پٹی کرلیں اور اسے کوئی نیا زخم نہ دیں! 31 دسمبر 2016
اصل میں نیا سال انہی کا هوتا هے جو 1 جنوری کو پیدا هوۓ هیں. میرے سمیت باقی سب نے نئے سال کا خواه مخواہ کا کھپ ڈالا هوا هے. ????-ظفر نیازی-1 جنوری 2016
غلام فریدا دل اتھے دئیے جتھے اگلا قدر وی جانڑیں:
هم میں سے اکثر اپنے اپنے دل هتھیلیوں پر رکھے پھر رهے هوتے هیں کہ رستے میں جس نے دل مانگا اسے دے دیا. هماری سب سے قیمتی متاع دل هی هے اور هم اسے اتنا سستا کر چکے هیں کہ سامنے والے کی اوقات اور ظرف جانے بغیر اپنا دل اسے پیش کردیتے هیں.گنوار کی منڈیر پر جس طرح عقاب بیٹھا تھا اور اس گنوار نے عقاب کے پر اور ناخن هی کاٹ ڈالے یہ سوچ کر کہ یہ پر اور ناخن بہت بڑھے هوۓ تھے. بالکل اسی طرح کم ظرف اور اپنی اوقات سے بے خبر لوگ آپ کے دل کو ٹھوکریں مار مار اس کا حلیه بگاڑ دیتے هیں. پھر آپ اپنا ٹوٹا هوا دل لے کر شکوے کرنے بیٹھ جاتے هیں.کبھی آپ تقدیر کے پنوں کو اپنے دل کا مجرم ٹھہراتے هیں اور کبھی اپنے هاتھوں کی لکیروں کو کوستے هیں. جبکه قصور تو آپ کا اپنا هے کہ اپنا دل بے قدروں کے حوالے کردیتے هیں. آپ کیسے سمجھ لیتے هیں کہ جسے آپ دل دے رهے هیں وہ اسے سنبھال پاۓ گا؟ پہلے اپنی کوئی هلکی چیز کسی کو دے کر دیکھئیے کہ وہ اسے کیسے سنبھالتا هے. دل دینا آخری مرحلہ هوتا هے جس کے بعد یا تو آپ قائم ره سکتے هیں یا همیشه کے لئے ریزه ریزه هو سکتے هیں. کسی کا ظرف اور قدردانی جانے بغیر اسے دل دینا اپنے دل سے دشمنی هے اور اپنا دشمن آپ بننا احمقوں کا شیوہ هے.
غلام فریدا دل اتھے دئیے جتھے اگلا قدر وی جانڑیں! ظفر نیازی-4 جنوری 2016
زندگی ، تیری توقیر کی خاطر هم
کانٹوں سے الجھے انگاروں په چلے
کیسے رکھتے حالات کا رخ سیدھا
هم اپنی انا کے اشاروں په چلے
هر پھول هوا هے لہو لہو
یه کون سے نشتر بہاروں په چلے-ظفر نیازی-5 جنوری 2016
قیامت سے پہلے قیامت :
قدرت کا نظام جوڑوں پر مشتمل هے، ضد پر مشتمل هے اور متضاد پر مشتمل هے. زندگی کے تصور کو سمجھانے کے لئے موت کو زنده رکھنا ضروری هے. سکھ کی حقیقت واضح کرنے کے لئے دکھ کی افزائش نسل لازمی هے. نفع کو سمجھانے کے لئے نقصان میں ڈالنا ناگزیر هے.
تو پھر هم کیوں دنیا سے موت ،دکھ ،نقصان ،ظلم ،بیماری اور پریشانی ختم کرنے پر تلے هوۓ هیں؟ موت مار دی گئ تو زندگی کو کیسے پہچانا جاۓ گا؟ دکھ کو مٹا دیا گیا تو سکھ کی تمنا کون کرے گا؟ ظلم باقی نہ رها تو انصاف کدھر جاۓ گا؟ بیماری کی جڑ کاٹ دی گئ تو شفاء کی قدروقیمت کیا ره جاۓ گی؟
یہ جوڑے تو روزقیامت هی توڑے جانے هیں.هم قیامت سے پہلے کیوں قیامت کھڑی کرنا چاهتے هیں؟
هم جس ماڈل پر پیدا کئے گئے هیں وہ دنیا کا ماڈل هے اور هم اس ماڈل کو قیامت کے ماڈل میں تبدیل کرنے کے خبط میں مبتلا هیں. قیامت تو قیامت کے دن هی هونی هے تو ابھی دنیا کو دنیا هی رهنے دو!-
پپو نے لڑکی سے کہا: اگر میں تجھے I love you کہوں تو تم کیا کرو گی؟
لڑکی بولی کہ یہ سن کر تو میں خوشی سے مرجاؤں گی.
پپو کی آنکھیں بھیگ گئیں اور اس نے لڑکی سے کہا کہ جا بہن اپنی زندگی جی لے!
پاکستان کے کتنے هی سچے پیار اس ایک جملے نے سر اٹھاتے هی مار دیے.
????
اور کتنے معصوم ذبح هوں گے :
آج لودھراں میں کھلے پھاٹک نے 7 معصوم بچوں سمیت 99 انسانی جانوں پر زندگی کے دروازے اور ان کے گھر والوں پر امید کے دروازے بند کردیے. چلتی ٹرین نے 9 جانوں کو چیر کر ان کا لہو همارے ضمیر کے کالے منہ پر مل دیا هے.
ریلوے کا وزیر جب اپنے منہ بولے باپ نواز شریف کی حرام کی کمائی کے دفاع میں سارا سارا دن سپریم کورٹ میں بیٹھے گا تو ریلوے کے پھاٹک تو کھلے هی رهنے هیں. اب انصاف کا تقاضا هے کہ نواز شریف اور پوری کابینہ کو ان کے بچوں سمیت لودھراں کے اسی پھاٹک کے ریلوے ٹریک پر باندھ کر ان کے اوپر سے وهی ٹرین گزاری جاۓ. اس سے کم سزا سے انصاف نہیں هوگا.
قوم کا مردہ ضمیر پتہ نہیں کب جاگے گا؟ اور کتنے معصوم ذبح هوں گے اس ضمیر کے جاگنے تک؟ اور کتنے معصوم چیرے جائیں گے نواز شریف اور اس جیسے پاگل کتوں کو ٹھکانے لگانے تک؟ اور کتنے معصوم ، کتنے معصوم! ظفر نیازی-6 جنوری 2016
اندھوں کے شہر میں تم بیچتے هو آئینے
اور شکوہ نصیب سے چولہوں کی ٹھنڈ کا!
گلی گلی میں شور هے
نواز شریف چور هے
یہ شکل سے آدمی لگتا هے
حقیقت میں آدم خور هے
دھن دولت اس کا دین دھرم
اس کا قبلہ تخت لاهور هے
وہ ابلیس اب هوا پرانا
اب اس ابلیس کا دور هے – ظفر نیازی-1 جنوری 2016
انصاف نہیں منصف اندھے بن جاتے هیں:
ایک عام کہاوت هے کہ انصاف اندھا هوتا هے. انصاف اندھا نہیں هوتا. انصاف کو سب کچھ صاف شفاف اور واضح دکھائی دیتا هے. انصاف کو پتہ هوتا هے کہ لہو کس کے هاتھوں پر هے. انصاف کو پتہ هوتا هے کہ کس کی گردن پر کس نے چھری چلائی.انصاف کو پتہ هوتا هے کہ لوٹنے والے نے کتنا لوٹا اور کس سے لوٹا. لیکن جب یہی انصاف ان منصفوں کے سامنے آتا هے تو یہ منصف اندھے بن جاتے هیں. یہ منصف اپنے ضمیر اور ایمان کی انکھوں پر کالے دھن کی کالی پٹیاں باندھ لیتے هیں. اب یہ اندھے منصف انصاف کی بنیاد پر نہیں بلکہ کالے دھن کی یہ کالی پٹیاں مہیا کرنے والوں کی منشا سے فیصلے کرتے هیں. ایسے منصفوں پر انصاف کے طالب مدعی یا ملزم کی ساری دلیلیں اور سارے ثبوت بے اثر هو جاتے هیں.نہ یہ منصف انصاف کے طالب مدعی یا ملزم کے چہرے پر لکھی گئی ظلم کی تحریر پڑھ سکتے هیں اور نہ اس کے بدن پر چھاپے گئے زخم ان منصفوں کو دکھائی دیتے هیں. اور یوں اندھے منصفوں کی عدالتوں سے بڑے سے بڑے مجرم اور گنهگار اپنی باعزت بے گناهی کا سرٹیفکیٹ لے کر عدالت سے وکٹری کا نشان بناتے هوۓ نکلتے هیں.
اندھے منصفوں کا یہ کھیل جاری هے. بس اتنا حوصله اور امید هے کہ سیدنا امیرالمومنین حضرت علی رضی الله عنه نے فرمایا هے کہ معاشرے کفر پر قائم ره سکتے هیں لیکن ظلم پر نہیں. ظلم کا یہ کالا سامراج ضرور نیست و نابود هوگا. ظلم کرنے والے اور ظلم پر خاموش رهنے والے ضرور ملیا میٹ هوں گے. کیونکہ باب العلم کا فرمایا جھوٹ نہیں هوسکتا! ظفر نیازی-10 جنوری 2016
اک شوق هے جو همیں جڑنے نہیں دیتا
چٹخے هوۓ آئینوں میں خود کو مکمل دیکھنا!
الله پاک آپ سب کی قسمت اچھی کرے :
پاکستان ایک جنگل هے جہاں کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی کی گھات لگا کر بیٹھا هے. کوئی کب کسی کو غائب کردے کچھ اعتبار نہیں. غائب هونے والے کی قسمت اچھی هوئی تو غائب کرنے والے کے جبڑوں سے زنده بچ کر آ جاۓ گا. قسمت اچھی نہ هوئی تو غائب هونے والے کے لواحقین غائب هونے والے کو غائب کرنے والے کا رزق سمجھ کر اپنے نصیب کے خلاف شکایت درج کرا کر روز محشر کا انتظار کریں. جنگل میں انصاف کی توقع رکھنا حماقت هے.
الله پاک آپ سب کی قسمت اچھی کرے اور اس جنگل میں دندناتے پھرتے درندوں سے آپ کو محفوظ رکھے!
اپنی زندگی کی خود حفاظت کریں، جنگل کے قانون پر اعتبار نہ کریں.
اجڑی هوئی ان آنکھوں کی رونق بحال کیسے هو
روٹھے هیں تیرے خواب بھی تیرے روٹھنے کے بعد – ظفر نیازی-11 جنوری 2016
وقت مقرره کے قانون کو… :
کل کل کرتے کرتے کتنے هی کل بیت چکے لیکن ابھی تک وہ کل نہیں آیا جس کی راه میں آج اس دن بھی دیکھ رها هوں اور بیتے هوۓ هر کل بھی دیکھی هے. نہ جانے ابھی کتنے کل کی قربانی دینی هوگی کہ اس آج کی صبح طلوع هوگی جس کے دامن پر گزرے کل کے سیاہ دھبے نہیں هوں گے. سنا تھا هر چیز کا وقت مقرر هے اور هر چیز اپنے وقت مقرر پر رخصت هو جاتی هے لیکن میرے کل کا وقت مقرر اتنا طویل هو چکا هے کہ اب تو یاد بھی نہیں پڑتا کہ اس کل کا جنم کب هوا تھا. یہ کل کس آج کو رخصت هو گا ،اسی انتظار میں مدت سے میری نظریں کل پر ٹکی هیں.
آسمان والوں سے گزارش هے کہ میرے کل کی روح اب قبض کر هی لیں کیونکہ میرے آج کے صبر کا پیمانہ اب لبریز هو چکا هے. میرے کل کے تسلط سے اب میرے آج کو آزاد کرایا جاۓ کیونکہ میرے آج کی عمر کا ایک بڑا حصه کل کی بھینٹ چڑھ چکا هے. وقت مقرره کے قانون کو میرے کل پر بھی نافذ کیا جاۓ! ظفر نیازی-12 جنوری 2016
دیسی لبرلز اور مولوی:
آجکل دیسی لبرلز اور مولویوں کے بیچ لفظی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ دراصل دیسی لبرلز اور مولوی دونوں کے شوق ایک جیسے ہیں بس شوق کے اظہار کے طریقے مختلف ہیں۔
دیسی لبرلز اور مولوی دونوں ہی عورت کو کم سے کم کپڑوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ دیسی لبرلز سیدھی آنکھوں سے ایسی عورت کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ مولوی ترچھی آنکھوں سے ایسی عورت سے راحت حاصل کرتے ہیں۔
دیسی لبرلز سرعام عورت سے گلے ملتے ہیں جبکہ مولوی دیوار کی اوٹ میں یہ شوق پورا کرتے ہیں۔ دیسی لبرلز پیرس فیشن ویک کی فرنٹ رو میں بیٹھ کر حسیناؤں کے جلووں سے چین حاصل کرتے ہیں جبکہ مولوی اپنے حجرے کی کنڈی لگا کر یو ٹیوب پر یہی شوق پورا کرتے ہیں۔ دیسی لبرلز اپنی عورتوں کے پیٹ مرد ڈاکٹروں کے آگے کھلے رکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اور مولوی بھی عورت کی تعلیم کی مخالفت کرکے اپنی عورتوں کے پیٹ مرد ڈاکٹروں سے چیک کروانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
دیسی لبرلز بھی دسترخوان پر رکھے گوشت اور ہڈیوں کے حلال یا حرام ہونے کے چکر میں نہیں پڑتے اور مولوی بھی بغیر کسی تحقیق کے اس گوشت اور ہڈیوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
دیسی لبرلز اور مولوی دونوں کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ دونوں ہی اسلام کو بدنام کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ دونوں کے کرتوت دیکھ کر اسلام شرمندہ ہے اور مسلمان مشکل میں ہے۔ ان دونوں کا قلع قمع کئے بغیر اسلام کا صحیح تشخص بحال کرنا ممکن نہیں۔
اللہ تعالیٰ سب کو دیسی لبرلز اور مولوی کے شر سے محفوظ رکھے! – ظفر نیازی-13 جنوری 2016
پاکستان جنت هے اگر اسے پاکستانیوں سے خالی کرا لیا جاۓ.
پاکستانیوں کے هوتے هوۓ اسے جنت کہنا جنت کی توهین هے کیونکہ جنت میں شر نہیں هوتا.
آه محسن نقوی!
آج هی کے دن 19966 میں سماجی اور مذهبی جبر کے خلاف اٹھنے والی ایک انتہائی مؤثر اور خوبصورت آواز محسن نقوی کو اس ملک کے مکروہ اور گندے مکتبه فکر کی بے لگام درندگی نے اپنے تئیں خاموش کر دیا. لیکن یہ درندگی کے مسلک کے جاهل چیلے یہ بھول گئے کہ موت جبر کو آتی هے ،جبر کو للکارنے والوں کو نہیں. سچ سورج کی مانند هے اور سورج کو یہ جبر کے مبلغ گل نہیں کر سکتے.
محسن محبت ،دلجوئی،وفا،ایثار اور انسانیت کی آواز تھا. اس کا قصور یہی تھا کہ اس نے ایسی دھرتی پر جنم لیا جہاں مذہب کے نام پر انسانوں کی گردنیں کاٹنا جہاد سمجھا جاتا هے. لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابه کے بے لگام درندے آج بھی سرعام دندناتے پھر رهے هیں اور کفر کے فتوے بیچنے میں لگے هوۓ هیں.
محبت کے سفیر محسن نقوی کی خوشبو آج بھی میرے ساتھ ساتھ چلتی هے. محسن نقوی آج بھی میرا همسفر هے اور میری آخری سانس تک میرا همسفر رهے گا کیونکہ اس سے میرا دل کا رشتہ هے. دل کے رشتے کاٹنا اس جاهلیت کے جنگل کے جنگلی جانوروں کے بس کی بات نہیں. مجھے نفرت هے حق نواز جھنگوی اور ملا اعظم طارق جیسے جنگلی جانوروں سے جو انسانیت کے گلے پر چھریاں چلانے کی تبلیغ کرتے هیں. مجھے نفرت هے ان جنگلی جانوروں سے جو اسلام کی بدنامی کا باعث بن رهے هیں.
ظفر گورکھپوری نے سوال اٹھایا تھا:
اے ظفر روز محبت کا کوئی قتل کرے
اور گنہگار نہ کہلاۓ یہ قصہ کیا هے؟
محسن نقوی نے اس سوال کا جواب یوں دیا تھا:
گھر کس نے جلایا هے کسے کون بتاۓ
منصف هے یہاں آگ،گواهوں میں دھواں هے
لیکن میں ناامید نہیں. جبر اور خونریزی کے اس مذہب کے مقدر میں مٹنا هی لکھا هے اور یہ مذہب کا لبادہ اوڑھے جنگلی جانور اپنے پیشوا یزید کی طرح لعنت اور پھٹکار کے گڑھوں میں گاڑ دیے جائیں گے.
هر دور بے صدا میں هر ظلم کے خلاف
هم کو هی بولنا تھا کہ تصویر هم نہ تھے
یہ محبت بھی کر دیکھئیے:
اکثریت کی محبت جنس مخالف سے شروع هو کر اسی پر ختم هو جاتی هے. میں نے زندگی میں ٹوٹ کر محبت کی هے اور کر رها هوں. میرے محبت کی سرحدیں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک اور زمین سے آسمان تک پھیلی هوئی هیں. محبت کی اس وسیع وعریض دنیا میں میرا ایک هی محبوب هے اور وه هے خوبصورتی. میرا یہ محبوب کتنے هی روپ میں هر طرف جلوه افروز هے.
پھولوں کے لبوں پر چمکتی شبنم سے لے کر طلوع هوتے سورج کے گھونگٹ اٹھنے تک،سازوں کےنرم گداذ لہجوں سے لے کر گھر کے درودیوار پر بیٹھے پنچھیوں کی اپنائیت بھری نظروں تک،پرندوں کے رنگ روپ سے لے کر ان کی سر بکھیرتی بولیوں تک، رات کے کالے بدن پر لپٹی سفید چاندنی سے لے کر افق کے چہرے پر اترتی سرخی تک،بارش کے قطروں کی جھنکار سے لے کر ندی کے پانی میں رقص کرتے چاند تک ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورتی دعوت محبت دیتی هے اور میں اپنے محبوب کے تصور میں کھو جاتا هوں.
یہ ایسی محبت هے جس میں نہ بچھڑنے کا ڈر هے اور نہ محبوب کے بے وفا هونے کا صدمہ. نہ سماج کی شک بھری نظریں هیں اور نہ آس پاس والوں کی تہمتیں. یہاں صرف محبت هے اور کچھ نہیں.
هو سکے تو اس محبوب پر بھی دل هار کر دیکھئیے، یہ محبت بھی کرکے دیکھئیے! آپ روایتی محبت بھول جائیں گے! ! ظفر نیازی-15 جنوری 2016