قبر سے باہر پیر
حضرت ایوب طاہر کردی
محمد اکبر خان خنکی خیل کا واقع
فیس بک پر یہ تصویر دیکھی جس پر لکھا تھا کہ مدفون شخصیت کا یہ پیر قبر سے سو سال سے باہر ھے – تجسس ھوا – مذکورہ مدفون شخصیت ، حضرت ایوب کردی کا نام پہلے کبھی نہی سنا تھا – پک پوسٹ کرنے والے نے مقام وغیرہ کا ذکر بھی نہیں کیا تھا – فیس بک پر کئی عقیدت کے مارے الٹی سیدھی بھی ہانکتے رہتے ہیں – اچانک خیال آیا گوگل سے مدد لی جائے – گوگل کھولا تو مسئلہ حل ھوگیا – ساری وضاحت موجود تھی – اس کا اوریجنل انگلش ورشن آپ کیلئے کمنٹس میں دے رہا ہوں – مزید تصحیح یہ ھو گئی کہ یہ واقعہ ، ایک سو سال کا نہیں ، آٹھ سو سال پہلے کا ھے اور یہ قبر دمشق میں ھے –
بتایا جاتا ھے کہ علما کے دو گروہ کا آپس میں کسی مسئلے پر اختلاف ھو گیا اور وہ فیصلے کیلئے حضرت ایوب کردی کی خدمت میں حاضرر ھوئے – کردی صاحب نے کہا کہ میں اس بارے میں کل بتاوں گا ، آپ لوگ کل میرے پاس آئیں – وہ لوگ لوٹ گئے اور دوسرے دن حاضر ھوئے تو پتہ چلا کہ ایوب کردی صاحب رحلت فرما گئے ہیں اور ان کی تو تدفین بھی ھو چکی ھے – دونوں گروہ قبر پر فاتحہ کیلئے چلے گئے – وہاں ایک شخص نے کہا – آپ نے تو همارے درمیان فیصلہ کرنا تھا – اس آواز پر قبر سے پیر باہر نکل آیا –
اختلاف اس پر تھا کہ کرد لوگوں میں بھی اولیا اللە ھوتے ہیں کہ نہیں – ان کے سوال کے جواب میں یہ پیر باہر نکلا — حضرت ایوب طاہر ، خود کرد تهے اور ان کی یہ کرامت اس بات کا بین ثبوت تھا کہ کرد لوگ بھی ولی اللہ ھو سکتے ہیں اور یہ ان کے سوال کا جواب تھا – آٹھ سو سال سے وہ پیر ، اسی طرح قبر سے باہر ھے –
گوگل پر دو تین ویڈیوز بھی 8 اور 6 منٹ کی اسی موضوع پر هیں لیکن یو ٹیوب یہاں کھلتی نہیں ، میں وہ نہیں دیکھ سکا –
کسی نے دمشق میں خود اس جگہ کی زیارت کی ھو یا کسی کتاب کا حوالہ علم میں ھو تو ضرور عنایت کیجئیے گا –
اسی حوالے سے بتائی گئی ویڈیوز کے حوالے سے میڈم روبینہ ناز نے حضرت ایوب طاہر کردی کی تدفین کے موضوع پرر ایک ذرا مختلف وجہ بتائی ھے جسے آپ کمنٹس میں دیکھ سکتے ہیں – ان کا شکریہ – جو بات ہماری پوسٹ کا مرکزی نکتہ ھے وہ ھے قبر سے پیر کا آٹھ سو سال سے باہر رہنا – اس ویڈیو میں بھی اس کی تصدیق کی گئی ھے ساتھ میں یہ بھی اطلاع ھے کہ پیر کے ناخن بڑھتے ہیں اور اسے محکمہ اوقاف کے حکام کی نگرانی میں تراشا جاتا ھے –
اس کرامت نے مجھے محترم محمد اکبر خان مرحوم خنکی خیل کی ایک بات دلا دی –
محمد اکبر خان خنکی خیل کے بارے میں میں اپنی پچھلی کچھ پوسٹوں میں بتا چکا هوں ، کہ وہ غازی علم دین شہید کے میانوالی جیلل میں قیام کے دنوں میں غازی شہید کے لواحقین کے میزبان تھے – جب غازی کی میت کو لاہور ، گورکها رجمنٹ کی نگرانی میں سپیشل ٹرین کے ذریعے لایا گیا تھا تو اس وقت وہ بھی غازی کی میت کے ساتھ اسی ٹرین میں گئے تھے – مسجد وزیر خان کے مجذوب والی پوسٹ میں بھی آپ ان کا ذکر سن چکے ہیں – وہ بتاتے تھے کہ ایک دفعہ عصر کے وقت وہ کسی دور افتادہ علاقے کے میں واقع ایک مزار کو دیکھ کر فاتحہ کیلئے چلے گئے – مزار کا نام و مقام میں بھول گیا هوں – فاتحہ پڑھنے کے بعد ، بند آنکهوں سے انہوں نے قبر کی پائنتی پر پاتھ رکھا تو انہیں لگا کہ بجائے مٹی اور پتھر کے ، ان کا پاتھ زندہ انسان کے پیروں پر جا پڑا ھے – آنکھیں کھول کر دیکھا تو قبر تھی ، پیر نہیں تھے – انہوں نے پهر اسی طرح آنکهیں بند کر کے قبر پر پاتھ رکھے تو پهر اسی طرح پیر اور انگلیاں محسوس هوئیں – اب وہ خوفزدہ ھو کر آ گئے – میانوالی میں مولوی اکبر علی صاحب کی خدمت میں حاضر ھوئے اور سارا ماجرا بیان کیا – مولوی اکبر علی رحمت اللە علیہ ، دیو بند کے سند یافتہ جید عالم اور روحانی اعتبار سے بہت احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ، میانوالی زادے خیل کی جامعہ اکبریہ انہی کے نام نامی سے موسوم ھے – میں نو دس برس کا تھا جب ان کا انتقال ( 1956 شاید ) ھوا تھا اور میری خوش قسمتی ھے کہ میں نے ان کی زیارت بھی کی تھی اور ان سے ہمکلام ھونے کا شرف بھی حاصل ھوتا تھا ۔
محمد اکبر خان مرحوم کی ساری بات سننے کے بعد مولوی اکبر علی صاحب نے فرمایا کہ اہل مزار ، عصر کے وقت حاضری کو پسندد نہیں کرتے ۔
محمد اکبر خان مرحوم سن 1972/3 میں فوت ھوئے تھے – —-
واللہ اعلم بالصواب
ظفر خان نیازی،28نومبر2015