ایم فل کا مقالہ-شاعری کا تجزیاتی مطالعہ

الخیر یونیورسٹی اسلام آباد کیمپس کے ایم فل کے سٹوڈنٹس اکٹھے تھے – میانوالی کی ایک طالبہ کو ایم فل کیلئے کوئی نام نہیں سوجھ ریا تھا – اسلام آباد کے ایک ریسرچ فیلو / لیکچرر ثقلین ضیغم نے اسے تجویز دی ، چیک کرو ، ظفر خان نیازی کی شاعری پر کام ھوا ھے کہ نہیں – سٹوڈنٹ بولی ، میں نہیں جانتی ، میں نے تو نام ھی آج سنا ھے –
میانوالی کا کوئی اور نام مل ھی نہیں ریا تھا – سو میرا نام تجویز ھو گیا – الخیر یونیورسٹی کے اساتذہ کرام کی خیر ھو ، کمال مہربانی سے یہ ریسرچ ورک برائے ایم فل منظور کر لیا – وائس چانسلر ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے ایک ملاقات میں میری کئی پشتوں پر احسان جتاتے ھوئے فرمایا کہ آپ کا نام ریسرچ کیلئے منظور کیا ھے – سٹوڈنٹ نے فون پر مجھ سے رابطہ کیا – میں نے اس سے اتہ پتہ پوچھا تو اس نے شہر میانوالی میں جب اپنے گھر کے بارے میں بتایا تو معلوم ھوا ، میانوالی میں اس کا گھر میرے گھر سے 200 گز سے بھی زیادہ دور ھے –
اس بات پر تو خوشی ھوئی کہ کسی نے میرے کام کو اس قابل سمجھا لیکن یہ غلط فہمی جاتی رھی کہ ریڈیو پاکستان اسلام آباد پر سوغات اور دیگر پروگراموں کے ذریعے برسوں خدمت کرنے کے بعد بڑا نام کمایا ھے – اپنے شہر کے پڑوسی محلے والے ھی نہ جانتے هوں کہ آپ کون هیں اور کیا بیچتے هیں تو کسی خوش فہمی میں نہیں رینا چاہیئے –
ایک خیال آیا کہ معذرت کر لوں – پہلے بھی کسی کی اس موضوع پر حوصلہ افزائی نہیں کی تھی – میانوالی سے میرا تعلق بھی نیازی نام کے حوالے سے رہ گیا ھے – میں تو اب وہاں کے قبرستان میں دفن ھونے کی خواہش بھی نہیں رکھتا – وجہ؟ کمیٹی والے سارے شہر کا کوڑا کرکٹ اٹھا کر قبرستان کے پاس لا کر پھینک دیتے هیں اور کسی کو کوئی اعتراض نہیں – میں آخری بار اپنے پیارے نفیس طبع دوست چوہدری مختار جیلانی کی تدفین کے موقع پر اپنے اس قبرستان میں گیا تھا جو عید گاہ کے عقب میں ھے – اور دوست کے انتقال کے دکھ کے ساتھ ساتھ سوچتا رہ گیا تھا ، لوگ اپنے پیاروں کو خوشبووں میں رخصت کرتے هیں ، میرے شہر کی میونسپل کمیٹی سارے شہر کی غلاظت یہاں قبرستان کے قرب میں ڈھیر کر دیتی ھے – میں اپنی پوسٹوں میں اب اپنے اس میانوالی کو ڈهونڈتا هوں جو ظاہر اور باطن ، ہر اعتبار سے کھرا اور صاف تھا –
بات هو رهی تهی ریسرچ ورک کی – جب طالبہ سے تعارف هوا اور میانوالی میں خواتین کے حوالے مختلف مسائل کے ساتھ ان کی مشکلات یاد آئیں تو سوچا یہ کار خیر ھے اور میرے لئے اعزاز بھی ، سو اس کام کیلئے حامی بھر لی – اور اس اعزاز کو نبھانے کیلئے عزیز طالبہ سے اس کی خواہش کے مطابق تعاون کیا ، مطلوبہ کتابیں ، مضامین اخبارات کی کٹنگ وغیرہ مہیا کی – اور اب دو تین برس کے بعد اس کی ان تھک محنت کا صلہ اس ریسرچ پیپر کی صورت میں سامنے آیا ھے جسے یونیورسٹی نے منظور کر لیا ھے ، تو بہت خوشی ھوئی ھے – میانوالی کے ایک قدامت پسند روایتی گھرانے سے ایک خاتون کو جن مسائل کا سامنا ھے ، ان کا سامنا کرتے ھوئے اپنے مقصد میں کامیاب ھونا ، واقعی ایک بڑی کامیابی ھے –
میری طرف سے اس تحقیق پر عزیزہ نائرہ اسماء کو اس کامیابی پر دلی مبارکباد اور مستقبل کیلئے مزید کامیابی کی دعائیں —
مجھے خوشی اس بات کی ھے کہ میری شاعری میرے شہر کی ایک ذہین اور محنتی طالبہ کے کیریر کیلئے ترقی کا ایک زینہ بنے گی — ورنہ میرے لئے میری شاعری کتھارسس کے علاوہ اور کیا ھے اور میں اپنی شاعری اور اپنی حالت کے بارے میں اس سے زیادہ کیا کہہ سکتا تھا –
خواب ٹوٹے هیں تو دنیا سے خفا بیٹھا ھے
کر بھی کیا سکتا ھے اک عام سا شاعر آخر

ظفر خان نیازی –19فروری2016

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top