شیخ تور باہی قادری رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ (نزد ڈھوک محمد خان برلب کنارہ نالہ گمبھیر )
نیازی خاندان میں باہی کی اولاد کوہمیشہ سے فقیروں ، درویشوں اور اولیاء کرام سے بے حد محبت کرنے والے کی حیثیت سے جانا جاتا رہا ہے۔ باہی، نیازی کا بڑا بیٹا تھا لیکن ماردھاڑ ، جنگ و جدل سے دور رہنے والا، درویش صفت اور نیک لوگوں سے محبت کرنے والا تھا۔ چنانچہ اس کی اولاد میں اس کی یہی صفت چلی آ رہی ہے۔ نیازی قبیلے کے لوگ اپنے ہی خاندان کے باہی افراد کو متبرک جانتے اور درویش صفت ہونے کی وجہ سے ان کو قریب رکھتے۔ باہی کے دو بیٹے تھے ۔ یحییٰ باہی شہید اور عبدالکریم باہی۔
عبدالکریم باہی : تاریخ نیازی کے مطابق آپ بنفس نفیس وانا سے اپنے بیٹوں کو لائے اور علاقہ موسیٰ خیل میں آباد کیا۔ آپ موسیٰ خیل، لاوہ اور میانوالی کے تمام باہی خاندانوں کے جد امجد ہیں۔ آپ کا مزار وانا وزیرستان میں ہے۔ آپ کو ‘‘شین سترگے’’ یعنی سبز آنکھوں والا کہتے تھے۔ آپ ایک عارف کامل اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے اور چونکہ اس وقت یہاں کافر اقوام رہتی تھیں لہذا انہیں تبلیغ دین کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے۔
میری معلومات کے مطابق آپ حضرت شیخ شمس الدین رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ سے بیعت تھے اور سلسلۂ قادریہ میں آپ کو خلافت بھی عطا ہوئی تھی ۔ شیخ تور رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ آپ ہی کی اولاد میں سے تھے اور آپ کے پڑپوتے تھے۔ شجرہ کچھ یوں چلتاہے کہ شیخ توربن شیخ احمد بن شیخ بھائی بن شیخ عبدالکریم بن باہی بن نیازی ۔
تاریخ نیازی قبائل میں شیخ تور رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے متعلق تحریر ہے کہ:
‘‘آپ اپنے وقت کے روحانی پیشوا اور مبلغ دین تھے ۔ آپ کی تبلیغ سے غیر مسلم گکھڑوں اور ہندووں نے جوق در جوق دائرہ اسلام میں آنا شروع کیا اور تھوڑے عرصہ میں شمع دین کی روشنی پرگنہ کچھی کے ہر دیہات اور شہر میں پہنچ گئی ۔ نو مسلم لوگوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا حضرت طور یا تور باہی کا یہ کارنامہ اتنا بڑا ہے کہ اس کی تعریف الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا ہوں کہ جناب شیخ تور پرگنہ کچھی (میانوالی) میں دین اسلام کی وہی خدمت کر رہے تھے۔ جوہندوستان میں حضرت معین الدین چشتی اور لاہور میں داتا گنج بخش علی ہجویری نے کی۔ جناب کو عوام الناس نام کی نسبت یوں پکارا کرتے تھے ’’
شیخ تور کندھاں ٹور: شیخ طور وہ ہے جو مٹی گارے کی بنی ہوئی دیوار کو چلنے پر مجبور کرتے ہیں۔لب لباب اس چھوٹے سے فقرہ کا کچھ ایسا ہے کہ شیخ تور بے دین لوگوں کو دائرہ اسلام میں لانے اور سیدھی راہ دکھانے میں یکتا ہیں۔ شیخ تور سے بیسیوں کرامات منسوب ہیں۔ جن میں سب بڑی کرامت جو عوام میں آج بھی مشہور ہے وہ آپ کا دیوار پر بیٹھنا اور پھر دیوار کو چلنے کا حکم دینا پھر دیوار کا حرکت کرنا عین ممکن ہے کہ عقیدت و احترام کی وجہ یا پتھر دل لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی بدولت آپ کو کندھاں ٹور کہا گیا ہویعنی اے شیخ یہ تیری ہی بدولت ہے کہ بت پرست صنم آشنا جو بذاتِ خود بھی پتھر دل اور پتھر تھے انہیں تو نے موم کر کے اسلام سے روشناس کرایا ( یقینا ایسا ہی ہوگا) آپ کے والد شیخ احمد بھی اپنے وقت کے عارف کامل تھے جنہوں نے اپنے بیٹے شیخ تور کی روحانی تربیت پر خصوصی توجہ دی تھی۔
شیخ تور کے مزار پر حاضری دینے والوں کے لئے ضروری ہے کہ رات بسر کریں اورجو نذر و نیاز لے کر گئے تھے وہیں کھا کر آئیں۔ روایت ہے کہ جو دعا مانگی جائے گی فوراً قبولیت کا درجہ اختیار کرے گی۔ آپ کی اولاد قصبہ بوری خیل میں آباد ہے جہاں ان کی اولاد کو باعث برکت سمجھتے ہوئے بوری خیل پٹھان لے گئے تھے اور قصبہ موسیٰ خیل میں بھی آپ کی اولاد آباد ہے۔ شیخ تور باہی کافی عرصہ موسیٰ خیل میں مقیم رہے ۔ موسیٰ خیل کے شمال میں ایک جگہ ان سے منسوب ہے جو درختوں کے ایک جھنڈ میں پوشیدہ ہے یہاں آکر جناب یاد الٰہی میں مصروف رہا کرتے تھے یہ ایسی پر سکون اور آبادی سے دور تھی کہ جہاں کسی قسم کے دخل کا اندیشہ نہ تھا ۔ آپ کے دست مبارک پر مردہ دل کافر بیعت کر کے بیدار دل مسلمان بن جاتے تھے۔ یہ فیض آج بھی باہی بزرگ کی نسل میں جاری و ساری ہے۔ زائرین آتے ہیں اور مرادوں سے جھولیاں بھر کر لے جاتے ہیں۔میری معلومات کے مطابق آپ کا سلسلۂ خلافت اپنے پر دادا عبدالکریم باہی سے قادریہ سلسلے میں ہے’’
آپ کا مزار بہت خوبصورہے۔ آپ کی قبر کے بالکل ساتھ ہی آپ کے بیٹے شیخ مرزا رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مزار ت جگہ پر واقع ہے ۔ بن حافظ جی سے آپ ڈھوک محمد خان کی طرف چکڑالہ سے گزرتے ہوئے جائیں گے تو نالہ گمبھیر کے بالکل کنارے پر واقع شیخ تور رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مزار ہے۔
شیخ مرزا رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ: آپ اپنے والد بزرگوار کی طرح راہ طریقت کے مسافر تھے متقی ، پرہیز گاراور درویش تھے۔ والد محترم نے آپ کی تربیت پر خصوصی توجہ مبذول فرمائی تھی ۔ آپ نے بھی دین اسلام کی تبلیغ میں والد صاحب کے شانہ بشانہ حصہ لیا۔ سفر و حضر کی تکالیف برداشت کی تھیں۔والد صاحب کی وفات کے بعد آپ نے مستحق جانشین کا حق ادا کیا ۔ رشد و ہدایت کا سلسلہ عرصہ دراز تک جاری رہا۔ بے راہ لوگوں کو راہ مستقیم دکھائی۔ غیر مسلم افراد کو دائرہ اسلام میں لائے اور اس طرح زندگی کا بیشتر حصہ موسیٰ خیل کے عوام میں رہے ۔ آپ کی آخری آرام گاہ بھی اپنے والد محترم شیخ تور باہی کے پہلو میں واقع ہے ۔ آپ اپنے والد محترم سے سلسلۂ قادریہ میں مجاز تھے۔
تحریر-سید طارق مسعود کاظمی-مصنف کتاب سرزمین اولیا میانوالی