بُوڑھا درخت – افسانہ۔۔۔۔وقار احمد ملک
شہر سے کچھ فاصلے پر بابا معصوم شاہ کا صدیوں پرانا مزار دُور دُور تک پھیلے ہوئے ریت کے خاموش سمندر میں سکون کی نیند سو رہا ہے۔ سردیوں کی طویل راتیں اور گرمیوں کی تپتی دوپہریں اپنے سکوت اور طلسم کی وجہ سے جانی جاتی ہیں لیکن بابا معصوم شاہ کا مزار بارہ مہینے اور چوبیس گھنٹے سکوت کی بُکل اوڑھے اونگھتا رہتا ہے۔ شہر سے دو میل دوری کے فاصلے پر موجود اِس مزار کا کوئی مُجاور نہیں ہے۔مُجاوری کے فرائض گنبد کی بلند روشندان میں رہائش پزیر کبوتروں کی ایک جوڑی سرانجام دے رہی ہے۔ ان کی غٹر غوں ہی اس خاموش اور افسردہ مزار میں زندگی کی ایک موہوم سی جھلک پیدا کر دیتی ہے۔ مزار کو اُوپر سے ایک بلند گنبد نے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔چاروں طرف بوسیدہ اور بے رنگ ستون ایستادہ ہیں جن کے درمیان کوئی دروازہ یا دیوار نہیں ہے۔ صحرائی آندھیاں مزار کو شفاف ریت اور آم کے ایک بزرگ اکلوتے درخت کے پتوں سے اٹ دیتے ہیں اور یہی آندھیاں اور ہوائیں مزار میں جھاڑُو بھی لگا دیتی ہیں۔مزار کے شمالی طرف ایک کنال رقبہ پر مشتمل ایک کچا صحن مزار کی کشادگی میں اضافہ کر رہا ہے۔ صحن کی عین درمیان میں ایک بوڑھا اور پست قامت آم کا درخت سرسبز ہونے کے باوجود مزار کی ویرانی میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ شاید یہ دنیا کا واحد پھلدار درخت ہو گا جس کا کوئی مالی نہیں اور جس کے رسیلے پھل پتھروں کے حملوں سے محفوظ رہتے ہیں۔گرم صحرائی لُو درخت پر پھول اگاتی ہے، پھول سے امبیاں جنم لیتی ہیں اور امبیاں جواں ہو کر رسیلے اور میٹھے آم بن جاتی ہیں۔ کوئی بھولا بسرا ادھر آ نکلے تو ٹھیک ورنہ آم پک کر خود ہی نیچے گر جاتے ہیں اور میٹھا رس ریت میں شیر و شکر ہو جاتی ہے۔ مزار پر لوگوں کی آمد نہ ہونے کے برابر ہے۔مزار کی ویرانی کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ آبادی سے دوری، شکستگی، طلسماتی ماحول اور آم کے بوڑھے درخت پر جنوں کے بسیرے کی روایات لوگوں کو یہاں آنے سے روکنے کا باعث ہیں۔ اِس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ یہاں لوگ بالکل آتے ہی نہیں ہیں۔ مصیبت زدہ لوگ منت منوتی ماننے کے لیئے یا مزار پر چڑھاوے چڑھانے کے لیئے کبھی کبھار دیکھے جاتے ہیں ۔ایڈونچر کو پسند کرنے والے اور سکون کے متلاشی بھی کبھی کبھار یہاں آ نکلتے ہیں۔ منور کو اِس مزار سے دلی لگاؤ ہے۔ شہر جانے سے پہلے کبھی کبھی وہ یہاں آ نکلتا تھا۔ اکثر تو وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ آیا کرتا تھا لیکن اس کے گھر والے سال میں ایک دو مرتبہ ہی سلام کرنے آتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے بچپن کے دوستوں کو قائل کیا اور بابا معصوم شاہ کی من گھڑت کرامات سنا سنا کر اُن کو بھی بابا جی کا معتقد بنا دیا۔ منور کو مزار کا ہر موسم میں پسند تھا۔ سردیوں کی دوپہروں کو دور تک پھیلی ہوئی دھوپ، خزاں کی اداس شامیں، بہار کی رنگین صبحیں اور گرماکی تپتی ہوئی خاموش اور ویران دوپہریں منور کو وجدانی خوشی فراہم کرتیں۔ یہ اُنہی دنوں کی بات ہے جب مَنو اور منور میں جان پہچان پیدا ہوئی۔ ساون کا موسم میں موسلادھار بارش کے بعدٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ اجنبی پرندے نامانوس زبانوں میں نامعلوم گیت گنگنا رہے تھے۔بارش رکتے ہی منور اپنی دوستوں کے پاس گیا اور ان کو بابا معصوم شاہ کے مزار پر لے جانے کے جتن کرنے لگا۔ اُس دن کوئی بھی مزار پر آنے کو تیار نہ تھا۔ وہ دن ضائع کرنے والا نہیں تھا۔ چنانچہ منوراکیلا ہی مغرب کی سمت میں چل پڑا۔ چند میلوں کا فاصلہ تھوڑی دیر میں طے ہو گیا۔ اُن دنوں منور کی عمر بمشکل دس برس ہو گی۔ گیلی ریت اور کہیں کہیں نم مٹی کی بھینی بھینی خوشبو نے منور کے دل و دماغ پر سحر پھونک دیا۔ اُس روز مزار پر خلافِ معمول دو خواتین بھی آئی ہوئی تھیں۔اُن کے ساتھ ایک بچی جو منور سے تین برس چھوٹی ہو گی گہرے سبز کپڑوں میں ملبوس آم کے درخت کے نیچے پکے ہوئے آموں کو طرف للچائے ہوئے انداز میں بار بار دیکھ رہی تھی۔ وہ کافی دیر سے اس ٹھگنے درخت کے نیچے موجود تھی۔ منور نے درخت پر چڑھ کر ایک آم اتارا اور مَنو کو دے دیا۔ آم قدرے سخت تھا ۔مَنو نے اپنی ننھی منی انگلیوں سے آم کو پوپلا کرنا شروع کر دیا۔ نرم ہونے پر اس نے گٹھلی نکال کر چھلکا منور کو دے دیا۔ منور نے احتجاج کیا تو مَنو نے معصومانہ لہجے میں ڈرتے ڈرتے کہا کہ بڑے چھلکا لیتے ہیں اور چھوٹے گٹھلی کھاتے ہیں۔ منور نے کچھ اور آم بھی اُتارے۔ مَنو دو آم اپنی والدہ اور دادی کے لیئے بھی لے گئی۔ منور کو یہ سُن کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ یہ لوگ چاند کی ہر ساتویں تاریخ کو بابا معصوم شاہ کے مزار پر آتے ہیں۔ وہ لوگ یہاں کیوں آتے تھے اِس کا پتہ ننھی مَنو کو نہیں تھا۔مَنو سات سال کی ایک پوپلی سی لڑکی تھی۔ اُس کے رخسار اتنے سُرخ تھے کہ گالوں پہ لالی کا گماں ہوتا تھا۔ بال لمبے لمبے اور گھنگھریالے تھے۔ مَنو نے بالوں میں سرخ سرخ پونیاں باندھ رکھی تھیں۔ سبز کپڑے اور سرخ رنگ کی پونیاں رنگوں کا انتہائی دلکش امتزاج پیدا کرتی تھیں۔مَنو کی آنکھیں موٹی موٹی اور ناک ستواں تھی۔ آنکھوں پر بھاری پپوٹوں نے ایک سفید غلاف تان دیا تھا۔ مَنو اپنے علاقے کے واحد انگریزی میڈیم سکول کی تیسری جماعت کی طالبہ تھی۔ منور نے اب دوستوں کو مزار پر لے جانا بند کر دیا۔ پہلے بھی اُس کو کافی منتیں کرنی پڑتی تھیں۔ایک ماہ کے انتظار کے بعد چاند کی ساتویں تاریخ کو وہ دوبارہ مزار پر جانے کی تیاری کر رہا تھا جب اچانک اُس کے پاؤں میں چارپائی سے اُترتے ہوئے موچ آ گئی۔ منور سے چلا بھی نہیں جاتا تھا۔ اُس کو سَتاں کمہاری کے پاس لے جایا گیا جوپورے گاؤں کی واحد آرتھوپیڈک سرجن تھی۔ماسی سَتاں نے پاؤں پر کَس کر پٹی باندھی جس سے منور کو کچھ سکون محسوس ہوا۔ہلکا ہلکا دُکھ وہ اب بھی محسوس کر رہا تھا۔ اس دُکھن کا علاج صرف بابا معصوم شاہ کے پاس تھاجس کی طرف وہ گھر والوں سے نظریں چُرا کر لنگڑاتا ہوا چل پڑا۔ مَنو اپنی والدہ اور دادی کے ساتھ وہاں موجود تھی اور مزار کے جنوب میں کچھ فاصلے پر ریت کا ایک گھروندا بنا کر وقت گزارنے کا اہتمام کر رہی تھی۔ منور آم کے ٹھگنے درخت کے نیچے بیٹھ کر دکھتے ہوئے پاؤں کی پٹی کھولنے لگا۔ شدتِ درد سے اُس کا بُرا حال تھا۔ پاؤں سُوجا ہوا تھا۔آنکھوں میں نمی جھلک رہی تھی۔ منور نے جھکی نگاہوں سے ایک سایہ اپنی طرف آتا محسوس کیا۔ تھوڑی دیر میں مَنو اُس کے سامنے بیٹھی اُس کا پاؤں سہلا رہی تھی۔ مَنو نے آم کے درخت کے نیچے سے کچھ مٹی ملی ریت کچھ پڑھ کر منور کے پاؤں پر رگڑنا شروع کی۔یہ جانے مَنو کے لمس کا اثر تھا، مزار کی مٹی کی کرامت تھی یا پڑھے گئے کلام کی برکت کہ چند لمحوں ہی میں منور کا پاؤں بالکل ٹھیک ہو گیا۔تھوڑی دیر میں وہ آم کے مضبوط ڈالوں پر بیٹھا درخت پر لگے چند بچے کھچے آم نیچے پھینک رہا تھا۔انہوں نے مل کر تین آم کھائے ۔آموں کا بٹوارہ پہلے کی طرح ہی ہوا۔ مَنو نے تین گٹھلیاں لیں اور رس بھرے چھلکے پر منور نے گُزارا کیا۔ جانے سے پہلے مَنو نے ایک نوکیلے پتھر سے درخت کے موٹے تنے پر انگریزی کا حرف M کندہ کر دیا۔ ان لوگوں کے جانے کے بعدمنور کافی دیر بابا معصوم شاہ کے مزار پر موجود رہا۔ کبھی وہ مزار کے سرہانے بیٹھ جاتا، کبھی ستونوں کے سہارے کھڑا ہو کر دُور ریت میں غائب ہوتے تین نسوانی ہیولوں کو تکنا شروع کر دیتا۔ واپس آتے ہوئے منور نے بھی آم کے ٹھگنے درخت کے موتے تنے پر انگریزی کا حرف M کندہ کر دیا۔ یہ حرف پہلے سے قدرے بڑا تھا۔ دو M اُوپر نیچے واضح نظر آ رہے تھے۔ ایک ماہ اور گزر گیا۔ اس مرتبہ آم کا درخت بے ثمر ہو چکا تھا۔ لیکن انگریزی کے حروف تنے کی نشوونما سے مزید نمایاں ہو گئے تھے۔ مَنو کے پاس پچھلی عید کے موقع پر خریدی گئی نیل پالش کی چھوٹی سی شیشی پڑی تھی جو اس مرتبہ وہ بابا معصوم شاہ کے مزارپر لیتی آئی۔منور وہاں پہنچا تو مَنو اُوپر والے انگریزی کے حرف Mکو سُرخ کر رہی تھی۔ منور نے اُس سے پالش لے کر نچلے M کو بھی لال کر دیا۔ اگلے ماہ بھی مَنو وہی نیل پالش مزار پر لائی اور انگریزی کے حروف کو سُرخ کر دیا۔مریم کا بابا معصوم شاہ کے مزار پر یہ آخری چکر تھا۔ کیونکہ اس کے بعد وہ وہاں کبھی نہ آئی۔ منور اگلے تین ماہ چاند کے ساتویں تاریخ کو آتا رہا۔مزار کا سکون اور خاموشی اب کے منور سے برداشت نہ ہوتی تھیں چنانچہ اس نے بھی اب مزار کے الوداع کہا اور پھر کبھی یہاں نہ آ سکا۔ منور کا والد نیوی میں آفیسر تھا۔ چند ماہ بعد اس کے والد نے اپنے بیوی بچوں کو کراچی بلوا لیا۔ کراچی میں بھی بابا معصوم شاہ کا مزار اور مَنو کا معصوم چہرہ کافی عرصہ منور کے ذہن میں موجود رہا۔ جولائی اگست کے مہینے میں جب چھاجوں بھری بارشیں برسا کرتی تو منور سوچوں کے راستے اپنے گاؤں پہنچ جاتا۔ چشمِ تصور میں سرخ پونیوں اور سبز مخملی لباس کی میچنگ کو دیکھنا شروع کر دیتا۔ مَنو اس کے ہاتھ سے آم لیتے ہوئے پوچھا کرتی کہ تم کہاں چلے گئے ہو؟یہ لو اپنا رسیلا چھلکا اوررس بھری گٹھلی مجھے کھانے دو۔ ساون کے موسم میں تو آ جایا کرو۔ تم کو تو پتہ ہے کہ مجھ سے آم نہیں توڑے جاتے۔ میٹھے آم کھاتے کھاتے منور کے نمکین آنسو ٹپکنا شروع کر دیتے۔ منور نے انجینیئرنگ کی تعلیم مکمل کی تو باپ نے اُس کی نسبت وہاں ایک ڈاکٹر کی بیٹی سے طے کر لی۔ منور شادی اور منگنی سے پہلے آخری مرتبہ بابا معصوم شاہ کے مزار پر جانا چاہتا تھا لیکن باپ کی ضد اور حالات کی مجبوریوں نے منور کو مجبور کر دیا۔ منگنی والے دن منور کو بابا معصوم شاہ پر آنے والا خاندان بہت یاد آیا۔ پاکستان سٹیل میں نوکری ملتے ہی منور کی شادی کر دی گئی۔ میاں بیوی ایک خاموش زندگی گُزار رہے تھے۔ اس کی بیوی مریم نے بیالوجی میں ایم ایس سی کر رکھی تھی۔ کچھ عرصے بعد اس کو بھی مقامی کالج میں لیکچرار کی پوسٹ مل گئی۔ شادی کو سات سال ہونے والے تھے لیکن ابھی تک وہ بے اولاد تھے۔ اگست کے مہینے میں منور کی فرم میں ایک ہفتہ چھٹیاں تھیں۔ اُس نے چھٹیوں میں اپنے گاؤں آنے کا فیصلہ کر لیا ۔اُس کی بیوی بھی اس کے ساتھ آنے پر رضامند ہو گئی۔ گاؤں میں دونوں بہت خوش تھے۔ منور کے رشتے داروں اور پرانے دوستوں نے اس کی خوب آو بھگت کی۔ چند ایک رشتہ داروں کو اُن کے ہاں اولاد نہ ہونے کا ملال تھا۔ منور کی ممانی نے اُسے بابا معصوم شاہ کے مزار پر دیا جلانے کا مشورہ دیا۔ آج چاند کی ساتویں تاریخ ہے۔ ساون کا موسم زوروں پر ہے۔ دو ہفتوں کی سخت گرمی کے بعد آج ساون کے بادل نمودار ہوئے ہیں۔ شاید ساتھ والے علاقوں میں بارش ہو چکی ہے۔ ٹھنڈی ہوائیں گرد آلود چہروں کو تازگی بخش رہی ہیں۔ کالے اور سفید بادل سورج کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔ دلآویز موسم میں منور تیس سالوں بعد بابا معصوم شاہ کے مزار کی طرف جا رہا ہے۔ گاؤں کی گلیاں ویسی ہیہیں کہیں سے کچی کہیں سے پکی۔ گاؤں سے نکلتے ہی ریت کا ایک دور تک پھیلا ہوا سمندر شروع ہو جاتا ہے۔ نصف گھنٹے کی مسافت کے بعد منور بابا معصوم شاہ کے مزار کا احاطہ شروع ہو جاتا ہے ۔۔ مزار کو عبور کرکے منور صحن میں اُگے بوڑھے اور کبڑے آم کے درخت کی طرف رُخ کرتاہے۔ درخت کے نیچے گہرے سبز رنگ کے کپڑوں میں ملبوس مریم کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔ مریم اپنے ہاتھوں میں موجود ایک قیمتی نیل پالش سے درخت کی بوڑھی چھال پر کھُدے انگریزی کے بوسیدہ سے حروف لال کر چکی ہے۔بوڑھے درخت کی شاخیں درازقد مریم سے زیادہ دُور نہیں۔ مریم آسانی سے ایڑیوں کے بَل اُوپر اُٹھ کر ایک موٹا سا آم توڑ لیتی ہے۔رس بھرا رسیلا آم مریم کے خوبصورت ہاتھ میں پوپلا ہو رہا ہے۔ مریم اپنے کام میں اتنی محو ہے کہ ریتلی زمین پر ایک آدمی کے قدموں کی آہٹ کو نہیں سن پاتی۔ منور دبے پاؤں پیچھے سے آکر نرم نرم سنہری آم نقرئی انگلیوں سے چھین لیتا ہے۔ گٹھلی اور چھلکا الگ ہو جاتے ہیں۔کمسن مَنو گٹھلی چُوس رہی ہے اور رسیلا چھلکا منور کے لبوں کو مٹھاس دے رہا ہے۔ بوڑھے آم کے درخت پر ساون کے پکے ہوئے تازہ آموں کی خوشبو مہک بن کر ماحول کر معطر بنا رہی ہے۔ تھوڑے فاصلے پر کھڑا بابا معصوم شاہ کا مزارخاموشی اور سکون کی بُکل اوڑھے سو رہا ہے ۔ مزار کو اُوپر سے ایک بلند گنبد نے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔چاروں طرف بوسیدہ اور بے رنگ ستون ایستادہ ہیں جن کے درمیان کوئی دروازہ یا دیوار نہیں ہے۔کبوتروں کی جوڑی کہیں بلندی پر غٹر غوں غٹرغوں کا راگ الاپ کر مانوس اجنبیوں کا استقبال کرہی ہے