عطا اللہ ملک سے میرا تعلق نہ اتنا گہرا ہے کہ طرزِ تخاطب تو اور تم تک جا پہنچے اور نہ اتنا دور کا کہ تکلف آڑے آئے اور آپ آپ کی گردان ہوتی رہے۔ میں نے 1999 سے 2006 تک سنٹرل ماڈل سکول میں سات سال گزارے۔ اسی دوران پرنسپل گورنمنٹ کالج میانوالی کی درخواست ا ور اعلیٰ حکام کے احکامات پر دو سال کالج میں بھی عارضی ڈیوٹی پر رہا۔ باقی ماندہ دورانیے میں مَیں نے سنٹرل ماڈل میں کئی اساتذہ کے ساتھ کام کیا ان میں سے چند ایک تو دو دہائیں قبل میرے استاذ بھی رہ چکے تھے۔ میں جس دور میں سنٹرل ماڈل سکول میں موجود رہا وہ سکول کی شہرت اور کارکردگی کے لحاظ سے اوسط درجے کا زمانہ تھا۔ اس سے پہلے کی چار دہائیاں سکول کے شاندار ماضی کی عکاس تھیں لیکن اب یہ ادارہ سابقہ عروج برقرار نہ رکھ پایا تھا۔ یہ صرتِ حال کیوں رونما ہوئی اور کن لوگوں کی وجہ سے ہوئی اس کا تذکرہ یہاں مناسب نہیں۔ لیکن یہ بات بڑی معقول ہے کہ ان لوگوں کو یاد رکھا جائے جو اس دور میں بھی اپنی مقدور بھر کوشش کے ذریعے سے سکول کی سابقہ عظمت کو زندہ کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ ایسے کئی دوستوں میں عطااللہ ملک کا نام بلا شک و شبہ پہلے نمبر پر تھا۔
ملک صاحب ہر سال کسی کلاس کے انچارج ہوتے۔ اس کلاس کے ایک ایک بچے کی نصابی و غیر نصابی مشکلات کا ازالہ کرنا اپنا فرض سمجھتے۔ ان کے کئی شاگردوں نے بورڈ میں بھی کلیدی پوزیشنیں حاصل کیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کا نام شہر اور ضلع سے ہوتا ہوا ڈویژن بھر کے سکولوں میں جانا جانے لگا۔ جب ادبی مقابلوں کا سیزن شروع ہوتا تو ملک صاحب کی سرگرمیاں عروج پر ہوتیں۔ وہ اس کوشش میں سرگرداں ہوتے کہ سنٹرل ماڈل سکول کی نمائندگی کرنے والا ہر بچہ نمایاں کامیابی حاصل کرے۔ مجھے یاد پڑ رہا ہے کہ مظہر نیازی، طاہر غنی، عبدالرحمان عابدکے ساتھ مل کر میں بھی پورا پورا دن اور بعض اوقات شام تک سکول میں یا سکول کے ہاسٹل میں بچوں کی تیاری کراتے رہتے۔ میرے ذمے بیت بازی اور اردو مباحثہ ہوا کرتا تھا۔ ملک صاحب سائنس ٹیچر ہونے کے ناطے شاید سائنس کوئیز کی تیاری کرایا کرتے۔ لیکن ان کی دلچسپی ہر بچے اور ہر میدان میں برابر ہوتی۔
کھیلوں کا موسم شروع ہوتا تو ہم لوگوں گلابی جاڑے میں میدان میں ڈیرے جما لیتے۔ پورا پورا دن میدانوں میں گزر جایا کرتا۔ پی ٹی عبدالعزیز خان سینئر اور عبدالعزیز خان جونیئرکے ہمراہ ملک عطااللہ بھی میدان میں سرگرم دکھائی دیتے۔ ادبی اور سپورٹس مقابلوں میں ہمارا جامع ہائی سکول میانوالی کے ساتھ کانٹے کا جوڑ پڑتا۔ کیا دور تھا جب ہر آدمی پرخلوص انداز میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرتے ہوئے جیت کی لگن میں ڈٹ جاتا۔
ملک صاحب دھواں دھار طبیعت کے مالک انسان تھے۔ کسی کے ساتھ مخالفت چل نکلتی تو دور تک چلی جاتی اور جس کے ساتھ دوستانہ قائم ہوتا تو مراسم گہرائیوں کی حدوں کو چھونے لگتے۔ ان میں منافقت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ دشمنی کرتے تو کھل کر اور دوستی کرتے تو بھی علی الاعلان۔
محبت ہو تو بے حد ہو جو نفرت ہو تو بے پایاں
کوئی بھی کام کم کرنا ہمیں ہرگز نہیں آتا
ماضی کی گرد ہٹتی ہے توکئی واقعات جو بظاہر فراموش کر دیے گئے عیاں ہو جاتے ہیں۔ ملک صاحب اس وقت بھی جب میں سنٹرل ماڈل سکول میں تھا اور بعد میں بھی جب میرا تبادلہ گورنمنٹ کالج میانوالی میں ہو گیا مجھ سے بڑی محبت اور قدرے اپنائیت سے پیش آتے۔ جب بھی ملتے اپنے مخصوص انداز میں پشت پر چٹکی کاٹتے۔مجھے یاد آ رہا ہے کہ ایک مرتبہ سکول کے سالانہ فنکشن میں مَیں نے مزاحیہ خاکے تحریر کیے جن کو بچوں نے سٹیج پر پیش کیا۔ ایک خاکہ ملک صاحب کی خوش لباسی پر بھی تحریر کربیٹھا۔یہ سب کچھ ہلکے پھلکے انداز میں کیا گیا لیکن ملک صاحب کی طبع نازک پہ گراں گزرا اور وہ مجھ سے اچھے خاصے ناراض ہوئے۔ بعد میں میرے معذرت کرنے پر ان کی ناراضگی ختم ہوئی۔
ان کے شاگرد ملک صاحب سے جذباتی لگاؤ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیوشن اور پرائیویٹ کوچنگ کے میدان میں بھی انہوں نے تین دہائیوں تک اپنا تسلط قائم رکھااور ابھی تک قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ملک صاحب کو میں کوئی زیادہ نہیں جانتا لیکن جتنا جانتا ہوں وہ ایک مخلص، ایماندار، محنتی، جذباتی اور قابل استاد اور انسان ہیں۔ خوش لباسی میں شاید ہی سکول میں ان کے کوئی ہم پلہ ہو۔سکول لیول پر ہمارے ٹیچر غلام بشیر خان کے بعد جس ٹیچر نے سائنس کی تدریس میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی وہ عطااللہ ملک صاحب ہیں۔
ملک صاحب اپنی ساٹھ سالہ سروس مکمل کرنے کے بعد دوبرس قبل باعزت طور بطور پرنسپل گورنمنٹ سنٹرل ماڈل ہائی سکول ریٹائرڈ ہوئے۔ اس ادارے سے ان کو ایسا انس ہو چلا تھا کہ انہوں نے سنٹرل ماڈل کی خاطر پروموشن بھی چھوڑ دی تھی۔ ملک صاحب نے سنٹرل ماڈل سکول کے لیے بے پناہ خدمات سرانجام دیں۔ جواب میں سنٹرل ماڈل سکول نے بھی کسر نہیں چھوڑی اور اپنے سے محبت کرنے والے کو عزت، پیسہ، شہرت سب کچھ دلوایا۔
دعا ہے کہ مالک ملک صاحب کو ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی میں بھی پہلے جیسی خوشیاں اور سکون عطا فرمائے۔