کچھی۔ دے۔ سو۔ رنگ
فدائے ادب تونسوی کے نام سے میانوالی کے بہت کم لوگ واقف ہوں گےیہاں کے علمی ادبی حلقے بھی ان کے نام اور کام کے بارے کم معلومات رکھتے ہیں وہ ایک ادیب اور نثر نگار تھے شکاریات کے موضوع پر اخباروں میں انکی تحریریں چھپتی رہتی تھیں شکاریات پر نیا ادارہ نے انکی دو کتابیں چھاپی تھیں
وہ اردو اردو ادب اور اردو پر فدا تھے وہ صرف۔ اردو میں گفتگو کرتے وہ تونسہ شریف کے رہنے والے تھے سرائیکی ان کی مادری زبان تھی سرائیکی بولنے والوں کو بھی اردو میں جواب دیتے
اردو کے علاوہ پیران تونسہ شریف کے بھی دیوانے تھے اس دیوانگی کی ایک وجہ تھی
1910 میں تونسہ میں ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے ان کا نام دھیدو داس رکھا گیا علاقہ کے ایک معزز ہونے کی حیثیت سے تونسہ شریف کے پیر ان کے گھر تشریف لائے گھر والوں کی فرمائش پر پیر صاحب نے اس بچے کو گھٹی پلائی بقول ان کے یہ گھٹی ان کے سینے میں نور اسلام بن گئ بچبن میں انہیں مطا لعہ کا شوق ہوا روایتی ہندو گھرانہ ہونے کے با وجود انہیں کتابیں پڑھنے کی اجازت مل گئی ادبی اور اسلامی کتابوں کے مطالعہ سے ان کی فکر میں اور تبدیلی آئ
ایک ٹیچر کی حیثیت سے انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا ہندو گھرانے میں شادی ہوئ ان کے چار بیٹے ہوئے ان کے نام مشہور ہندو ادیبوں کے نام پر رکھے 1943 میں گھٹی رنگ لائ اور دھیدو داس سے ان کا اسلامی نام عبدالقدیر رکھا گیا1947 میں تقسیم ہند کے وقت ان کے گھر والے سمجھانے کے باوجود ہندوستان چلے گئے اور یہ تنہا رہ گئے 1970 میں ریٹائرڈ ہونے کے بعد ایک نیک دل ایجوکیشن افسر اپنے ساتھ سرگودھا لے آئے اور اچانک پر اسرار طریقے سے 1976 میں میانوالی پہنچ گئے پھر یہاں سے ہمارے محبت بھرےتعلقات کا اغاز ہوا۔ ان کو ایک تمباکو سٹور میں رہنے کی جگہ مل گئی آپ کی ملکیت لوہے کی چادرکا ایک صندوق تھا جس میں شکاریات کے قصوں پر مشتمل ایک موٹا سا رجسٹر تھا کسی تہور علی خان نے شیر کے شکار کے کئ قصے لکھوائے تھے
میانوالی میں بیٹھنے کے دو ٹھکانے تھے ایک بازار کے آغاز میں دائیں طرف ۔۔مدینہ میڈیکل سٹور تھا وہ سب ان سے پیار کرتے تھے ماسٹر یوسف (۔۔یوسف کالج۔۔۔ )کے بڑے بیٹے خالدلطیف صاحب کے یہ گن گاتے تھے خالد لطیف درویش مزاج شخصیت کے مالک تھے آپ کا دوسرا ٹھکانہ چیپ میڈیکل سٹور تھا ملک کلیم اللہ ان کا بڑا خیال رکھتے تھے
نیازی نیوز ایجنسی کے مالک عبدالحمید نیازی انہیں پڑھنے کے لئے کتابیں دیتے تھےیہ کتابیں لے کر فدائے ادب تونسوی ۔۔سول لائن روڈ (نادرہ کے دفتر کا روڈ) پر چلتے پھرتےکتابیں پڑھتے نظر اتے
آپ بہت سادہ مزاج اور سادہ لباس تھے درویشانہ زندگی تھی کل 14 روپے پنشن تھی یہی متاع زندگی تھی مستقل ایک ہی لباس تھا ایک سفید کرتہ ایک نیلا تہبند اور ایک کلاہ۔ ہفتے میں ایک دن کپڑے دھوتے خشک کرتے رہتے اور سارا دن اپنے ٹھکانے پر رہتے
میری ان سے بازار میں ملاقات ہوتی میں انہیں اپنے گھر لے آتا ان کی شکل بتاتی تھی کہ وہ کئ دن سے فاقہ سے ہیں تھے بڑے خود دار تھے کبھی کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کیا مجھے کہتے سلیم میں تین دن سے فاقے سے ہوں آج میں کھانا مانگ سکتا ہوں میں کہتاآپ پہلے کیوں نہیں بتاتے کہتے پہلے مانگنا جائز نہیں در اصل وہ جوانی میں پہلوان رہے تھے دیسی گھی کا کھانا پسند کرتے تھے کلیم اللہ ملک بھی ان اس ضرورت کا خیال رکھتے وہ نہ کسی سے مانگتے اور نہ ہی کسی کی کوئی چیز قبول کرتے میرے بڑے بھائی نے انہیں نئے کپڑے دینے چاہے ان سے کہا کہ میں ۔۔پوچھ ۔۔کر بتاوں گا یہ ان کی زندگی کا بڑا پر اسرار پہلو تھا وہ کون تھے جن سے کوئی چیزلینے کی منظوری لیتے اور بہت کم منظوری ملتی انہوں نے ہوا بھی نہیں لگنے دی کہ یہاں ان کا روحانی سرپرست کون ہے میں ان کے پسندیدہ
۔میں شامل تھا مگر وہ ہمیشہ کہتے یہ مت پوچھو ۔۔
وہ کثرت سے درود شریف پڑھتے بلکہ ہر وقت پڑھتے رہتے درود شریف پڑھتے پڑھتے ان کے ہونٹ سفید ہو جاتے بڑی شان سے کہتے کہ جب میں مروں گا تو دیکھنا کہ۔ میرے سینے پر۔ یا محمد۔ لکھا ہو گا
ایک دن مجھے بڑے پریشان نظر آئے میں پوچھا تو کہنے لگے سلیم آج مجھے خوب جوتے پڑھے میں پٹھانوں سے بہت ڈرتا ہوں ایک نوجوان پٹھان میرے پاس آیاکہنے لگا کہ مجھے ایک لڑکی کے نام۔ عشقیہ خط لکھ دو مرتا کیا نہ کرتا میں نے لکھ دیا۔۔۔۔ انہوں۔۔۔ نے مجھے بلا لیا اور خط دکھاتے ہوئے کہا ۔۔یہ آپ نے لکھا ہے میں نے کہا جی میں نے لکھا ہے کیوں لکھا ہے؟میں نے کہا کہ حضور یہ خط ڈر کے مارے لکھا ہے انہوں نے کان پکڑوائے اور خوب جوتے مارے اور کہا آئندہ خیال رکھنا۔۔۔وہ کون تھے خط کیسے پہنچا ۔۔۔کوئی ایسی روحانی شخصیت تھی جو ان کی مسلسل سرپرستی کر رہی تھی کبھی نہیں بتایا
ایکدن میرے گھر آئے اور مجھے کہا کہ اپنی ڈائری لے آو۔ میں آپ کو ایک نسخہ کیمیا لکھ دو ں۔۔۔انہوں نے میری ڈائری جو اب بھی موجود ہے۔۔۔لکھا۔۔۔ہر درد کی دوا ہے اسم محمد۔ ۔۔
مرنے سے پہلے اللہ انہیں محفوظ ہاتھوں میں پہنچا دیا یہ جولائ 1978 کا زمانہ تھا کہنے لگے کہ میں نے غلطی سے بہت سی کونین کی گولیاں کھالی ہیں سخت تکلیف ہے آپ کا گھر خالی پڑا ہے اور پنکھا بھی لگا ہوا ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کے گھر آجاتا ہوں گلی کلوریاں میں بڑے بھائ نے۔ نیا مکان بنوایا جو خالی تھا میں انہیں بخوشی گھر لے آیا دو راتیں بھی انہیں یہاں رہنانصیب نہیں ہوا رات کے تقریبا”آٹھ بجے تھے ہلکی ہلکی بوندا باری ہو رہی تھی مجھے چھوٹے بھائ کلیم حسن نے ا طلاع دی کہ فدائے ادب تونسوی اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں پیاروں کے پیارے اپنے منتظر ٹھکانے کو جا پہنچے
صبح ان کی نماز جنازہ کے بعدانہیں وانڈھی گھنڈ والی کے قبرستان میں حضرت میاں علی جن کے نام پر میانوالی کا نام ہے کی چار دیواری کے جنوب مغربی کونے کے ساتھ دفن کر دیا گیا
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را