HEADMASTER SYED MUHAMMAD AKRAM SHAH

 ہیڈ ماسٹر محمد اکرم شاہ صاحب

دورانیہ بطور ہیڈ شپ( 1975-1989) 

تاریخ پیدائش و وفات(1934–2008)

محکمہ تعلیم سے وابستہ اہل ترگ (میانوالی) کے لئے زبردست خدمات سر انجام دینے والی شخصیت گو کہ ان کا تعلق عیسی خیل سے تھا مگر کام سب سے منفرد کیا۔بڑے ہی رعب دار شخصیت کے مالک تھےنہ صرف اسٹاف پر بلکہ پورےاسکول (گورنمنٹ ہائی سکول ترگ نزد یونین کونسل ترگ) پر ان کا مکمل کنٹرول رہا۔سکول کے نظم و نسق کا منفرد انداز۔اپنے آفس میں صرف دو،تین کرسیاں رکھتے،اسٹاف کے لئے الگ جگہ بنا رکھی تھی اور درجہ چہارم کے لئے الگ۔موسم سرما میں بھی باہر ایک خوبصورت پلاٹ جس میں رنگ رنگ کے پھول کھلے ہوتے،اس میں ایک میز کے ساتھ دو،تین کرسیاں لگوا دیتے ،چاپلوسی،خوشامدی افراد اسے پسند نہیں تھے اور نہ اپنے قریب آنے دیتے، اصول پسند تھے اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا۔اس لئے کامیاب ٹھہرے۔اللہ پاک نے اسے قد کاٹھ، فربہ جسم ،دراز قد،جسمانی ساخت ایسی دی کہ ہر دل عزیز شخصیت بن گئے۔

ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی وہ لوگوں کے درمیان عزت والا ہو۔لوگ اس کی قدر کریں۔ اور اسے محبوب جانیں۔اسی تگ و دو میں انسان ساری زندگی لگا دیتا ہے۔ شخصیت کو بہتر بنانے اور خوبیوں کے لئے لوگ تگ ودو بھی کرتے ہیں۔اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے سب سے پہلے اپنے آپ کو تبدیل کرنا پڑتا ہے،جب ایک انسان اپنی شخصیت کو قبول کر لیتا ہے اس کے بعد اس کی اس خواہش کی تکمیل ہو سکتی ہے۔
ویسے انسان کوئی مکمل نہیں ہو سکتا،ہر کسی میں کوئی کمزوری یا عیب ہوتا ہے۔قدرت نے ہر انسان کو دوسرے سے مختلف بنایا ہے۔لوگ ایک دوسرے سے اسی وجہ سے ممتاز ہوتے ہیں۔جب انسان اپنا احترام کرنے لگتا ہے تووہ دوسروں کا احترام کرنا بھی سیکھتا ہے۔یوں انسان اپنے آپ پر اعتماد کرنے لگتا ہے۔اور اپنے کام پر اعتماد انداز سے سر انجام دیتا ہے۔اپنے کام میں کسی کی مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔
کسی بھی انسان کے عادات و اطوار اور رہین،سہن، سے اس کی شخصیت طے ہوتی ہےاور اس میں واضع جھلک نظر آتی ہے۔ وہ لوگ زندگی مختلف نشیب و فراز کے ذریعے گزارتے ہیں۔یہ لوگ بڑے انمول ہوتے ہیں،ایسے لوگ انسانیت کا درد بھی خوب رکھتے ہیں، ان میں انسانیت واضع نظر آتی ہے۔اور کچھ زندہ لوگ ہمارے اندر،اپنے کردار، کی وجہ سے وقت سے پہلے مر جاتے ہیں کیونکہ ان کا کوئی زندگی کا مقصد،نصب العین نہیں ہوتا،اپنی ذات تک محدود ہوتے ہیں،اپنے رشتے دار تک اسے بھول جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اچھے اور امیزنگ لوگ کبھی نہیں مرتے،اپنے کام کی وجہ سے،اپنی دیانتداری،پارسائی، کی بدولت،وہ اپنی مادی جسمانی صورت سے تو آزاد ہو جاتے ہیں لیکن ان کی یادیں،کردار،رویے، دلوں میں ہمیشہ گھر کئے رہتے ہیں اور ہم انہیں وقتآ فوقتآ یاد کرتے رہتے ہیں،وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ اس نے معاشرے کے لئے مثالی اور فلاحی کام کیا ہوتا ہے،ایسے لوگوں کی زندگی کا عکس،کردار،معاشرے میں واضع نظر آتا ہے۔انمول لوگ انمول کام ہی سر انجام دیتے ہیں۔ایسے لوگ لوٹ مار،کرپشن سے پاک ہوتے ہیں۔ایسے لوگ زندگی کو قوم کی امانت سمجھتے ہیں۔فقط دوسروں کے لئے ہی آسانیاں فراہم کرتے رہتے ہیں۔
ایسے لوگ انفرادی شخصیت اور خصوصیات کے مالک ہوتے ہیں۔ان کی خصوصیات کی بدولت سے، بڑی حد تک ہماری زندگی کا تعین کرتی ہیں،اور اس کے ارد گرد دنیا،معاشرے کو زیادہ اثر انداز کرتی ہیں،اللہ پاک نےانسان کو کسی مقصد کے تحت دنیا میں بھیجا ہے۔ بغیر مقصد کے کسی کا ظہور نہیں ہوا۔اور زندگی اگر کسی کے کام نہ آئے تو اس زندگی کا کیا فائدہ۔
بقول شاعر۔۔۔
ترا وجود تری شخصیت کہانی کیا
کسی کے کام نہ آئے تو زندگانی کیا
پھول بانٹنے والے اور خوشبوئیں بکھیرنے والے کبھی مرا نہیں کرتے۔ان کے لازوال کام ہی ان کو زندہ رکھتے ہیں۔۔معاشرے میں ان کی جھلک کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی رنگ،روپ میں نظر آ جاتی ہے۔

ہماری آج کی شخصیت ان کا تعلق تو ویسے عسیی خیل سے تھا۔مگر ترگ کے لئے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
محمد سید اکرم شاہ 1934 میں پیدا ہوئے۔ تعلیم سے بچپن سے ہی لگاو تھا۔ذہین تھے۔ہر کلاس میں پوزیشن لیتے رہے۔۔
آپ نے تعلیمی قابلیت بی۔اے۔بی۔ٹی تک حاصل کر رکھی تھی۔.تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے شعبہ تدریس کو اپنایا۔مختلف علاقوں میں تعلیمی خدمات سر انجام دینے کے بعد آپ گورنمنٹ ھائی سکول عسیی خیل میں کافی ٹائم بطور ٹیچر کام کیا۔ اور زبردست اپنے فرائض سر انجام دیئے۔وہ ایک ذہیں،قابل ریاضی کے ٹیچر تھے۔بتایا جاتا ہے کہ ان کے پڑھانے کا انداز بھی امیزنگ تھا۔اس دور میں ترگ میں ھائی سکول نہ تھا جس کی وجہ سے اس وقت کے طلبہ عسیی خیل پڑھنے کے لئے بائیسکل پر جاتے تھے۔بڑا مشکل دور تھا۔سردیوں میں عسیی خیل جانا اور بھی مشکل ۔پڑھنے والے طالب علم ان مشکلات سے کب گھبراتے تھے۔۔تعلیم کی لگن انہیں کبھی ہارنے نہ دیتی تھی۔جاڑے کے موسم میں ان کے ہاتھ،پاوں سن ہو جاتے تھے،راستے میں کہیں ایک جگہ پڑاو تھوڑا سا کرتے۔لکڑیاں اکٹھی کر کے آگ جلا کر سیک لیتے۔جب ہاتھ،پاوں گرم ہو جاتے توپھر سفر راہ باندھ لیتے۔اس دور کے طالب علم بڑی مشکل سے تعلیم حاصل کرتے رہے۔مالی حالت بھی اکثر کے کمزور تھے مگر آفرین ہے ان والدین پر جو تعلیم کی قدر جانتے ہوئے اپنے بچوں کو تنگی حالت کے باوجود پڑھنے کے لئے مدرسے بھیجتے رہے۔آج وہی بچے کہاں سے کہاں ترقی پا گئے ہیں۔یہ سب علم کی بدولت ہوا۔
گورنمنٹ ھائی سکول ترگ1973ء کو قائم ہو۔اس کے دو سال بعد 1975ء کوترگ کامقدر جاگ گیا اور محمد سید اکرم شاہ مرحوم بطور ہیڈ ماسٹر ترگ تعینات ہو گئے۔اس سے پہلے عسیی خیل سے ہی تعلق رکھنے والے قاضی محمد ھاشمی بطور ہیڈ ماسٹر تعینات ہوئے تھے۔
آج تک جتنی شخصیات کا بطور ہیڈ ماسٹر ذکر کیا ہے،ان سب میں محمد اکرم شاہ مرحوم ممتاز تھے،اپنے کام اور فرائض کی حوالے سے۔۔بڑے ہی رعب دار شخصیت کے مالک تھے۔جو آج کل گرلز ھائیر سکینڈری سکول،نزد یونین کونسل ترگ ہے پہلے 1993 تک لڑکوں کا رہا۔ہیڈ ماسٹر صاحب نے  سکول کو چلانے کا طریقہ کار مثالی رکھا۔سب سے اہم بات اپنے اسٹاف کے بیٹھنے کے لئے الگ جگہ بنا رکھی تھی اور درجہ چہارم کے اسٹاف کے لئے الگ مخصوص جگہ پر بینچ رکھا ہوتا وہاں درجہ چہارم کے ملازمین بیٹھتے۔ہیڈ ماسٹر کے پاس بھی دو،چند کرسیاں ہی لگی ہوتی تھیں۔بچوں کے والدین وغیرہ کے بیٹھنے کے لئے،یہ موسم گرما کی صورت حال تھی۔موسم سرما میں بھی بلکل پہلے جو ذکر کیا ہے یہی طریقہ کار تھا۔کمرے سے باہر ایک پلاٹ میں ہیڈ ماسٹر کا آفس بنا دیا جاتا۔میز کے ساتھ دو،چار کرسیاں لگا دی جاتی تھیں۔پلاٹ میں چاروں طرف رنگ رنگ کے پھول کھلے ہوتے، موسم بہار میں ہر طرف پھول ہی پھول کھلے ہوتے،جو سکول کی خوبصورتی میں اور اضافہ کرتے۔ہیڈ ماسٹر کو خودپھولوں اور پودوں سے پیار تھا جس کی وجہ سے ہر موسم کے پھول سکول میں کھلے ہوئے نظر آتے تھے۔ان کی شخصیت ہی ایسی تھی۔
بقول شاعر۔۔
درد دل معتبر بھی ہوتا ہے
شخصیت کا اثر بھی ہوتا ہے

درجہ چہارم کے ملازمین چند قدم کے فاصلے پر ایک بینچ پر بیٹھے ہوتے،ہیڈ ماسٹر صاحب کمروں کے سامنے سردیوں میں ایک پلاٹ میں آفس لگائے ہوتے،جہاں ہیڈ ماسٹر صاحب بیٹھتے سارا سکول کا میدان اور کلاسیں سامنے بیٹھی نظر آتیں۔مجال ہے جو کوئی طالب علم اپنی کلاس سے باہر ادھر آدھر بھاگ رہا ہوتا۔بڑا رعب ودبدبہ تھا۔بچوں کے پینے کا پانی اس کے آفس کے سامنے چند قدم کے فاصلے پر مسجد کے ساتھ نلکا تھا۔میں خود ان کے زیر سایہ چھٹی جماعت سے دہم تک پڑھتا رہا۔ہم اس وقت پانی پینے بھی بامشکل جاتے تھے ان کا اتنا رعب تھا۔نہ صرف اسٹاف پر بلکہ پورے سکول پر اس کا رعب تھا۔اصول پسند تھے جبھی تو کامیاب ٹھہرے۔ان کے اس رعب میں ان کی جسمانی ساخت،صحت نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔جتنا عرصہ بھی ہیڈ ماسٹر رہے سکول میں چھائے رہے۔ہم نے خود اپنے مشاہدے میں اسے دیکھا تھا وہ ایک قابل فرض شناس اور اصول پسند ہیڈ ماسٹر تھے،چاپلوسی اور خوشامدی افراد اسے پسند نہ تھے اور نہ ہی ان کو اپنے قریب آنے دیتے،یہی ان کی کامیابی کا سب سے بڑا طریقہ تھا۔ کبھی کوئی کرپشن وغیرہ کا کوئی اسکینڈل نہ بنا۔بے داخ کردار کے مالک رہے۔اصول پسندی کے ساتھ ساتھ اخلاق میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
بقول شاعر۔
ہر شخص بنا لیتا ہے اخلاق کا معیار
اپنے لئے کچھ اور،زمانے کے لئے اور
ہم لوگ تو اخلاق بھی رکھ آئے ہیں ساحل
ردی کے اسی ڈھیر میں آداب پڑے رہے۔

ہیڈ ماسثر اکرم شاہ وہ ایک نڈر اور بے باک انسان تھےان کے آفس میں میز پر ایک چھڑی/ڈنڈا ہر وقت پڑا ہوتا تھا۔ہم ڈنڈے سے بڑا ڈرا کرتے جب وہ پورے سکول کا وزٹ شروع کرتے تو سب کی جان پے بنی ہوتی دعا کرتے خیر سے ہیڈ ماسٹر صاحب کا وزٹ مکمل ہو،
ایک دفعہ وزٹ کرتے ہوئے ہماری کلاس شاید اس وقت ہم جماعت ہفتم میں پڑھتے تھے،معائنہ کلاس کا کرتے ہوئے ایک لڑکے ارشاد حسن جو محمد والا کا رہائشی تھا جو بعد میں فوج کی سروس کرنے کے بعد ریٹائر ہوا۔دبلا پتلا تھا ہیڈ ماسٹر صاحب نے اسے کھڑا کیا اور پھر مجھ پر نظر پڑی مجھے بھی فورآ کھڑا ہونے کو کہا۔ہیڈ ماسٹر کے ساتھ اس وقت ماسٹر خان امیر آرائیں وزٹ پر تھا۔
میں اور ارشاد حسن ڈرے ہوئے کہ ہمیں ساری کلاس میں سے کیوں کھڑا کیا ہم نے کیا، کیا ہے، ساتھ ساتھ ڈرے ہوئے تھے۔چند لمحوں کے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب بولے ہمارے ٹیچر سے جو اس وقت کلاس میں قائم دین بیٹھے ہوئے تھے۔
ہیڈ ماسٹر نے ہمارے کاندھے ہر ہاتھ رکھا اور بولے ساری کلاس میں یہ لڑکے صحت کے حوالے سے بہت کمزور ہیں،دبلے پتلے ہیں۔جب ان کا پریڈ ختم ہو تو میرے آفس ان دونوں لڑکوں کو بھیج دینا ساتھ ماسٹر خان امیر آرائیں سے کہا جب میرے آفس آجائیں تو ان کو ایک ایک طاقت کا سیرپ/شربت دینا۔بچارے کمزور ہیں تاکہ ان کی صحت بحال ہو ہمیں دونوں کو ایک ایک ہلکا ساپیار بھراگھونسا لگایا اور بولے کچھ کھایا پیا کریں۔واضع رہے کہ اس دور میں سکولوں کو مختلف ادوایات سر درد،بخار،ملیریا، کئی قسم کے امراض کے سیرپ ملتے یوں سمجھیں سکول میں میڈیکل سٹور بنا ہوتا۔ہم دونوں پھر پریڈ ختم ہونے کے بعد آفس گئے اور وہاں سے ایک ایک سیرپ ہمیں ملا۔دوسرے دن بچے پوچھتے سیرپ کیسا ہے ہم انہیں جواب میں کہتے بہت مزیدار ہے ہم دن میں دو بار اسے پیتے ہیں کہتے ہمیں بھی پینے کے دو۔ہم جواب میں ان سے کہتے آپ کوئی کمزور ہیں دبلے پتلے ہیں یہ سیرپ کمزورں کے لئے ہے۔۔

سکول چند کمروں پر مشتمل تھا۔سارا میدان اوپن,سکول کی چار دیواری نہ تھی،ہیڈ ماسٹر صاحب جہاں بیٹھتے تھے وہاں سکول کا کونہ کونہ نظر آتا ،مجال ہے کوئی طالب علم ادھر آدھر بھاگ رہا ہوتا۔بڑے بارعب شخصیت کے مالک تھے۔میں خود ان کے زیر سایہ جماعت چھٹی سے دہم تک پڑھتا رہا۔ اصول پسند تھے۔ان کے رعب میں ان کی جسمانی ساخت،قدو کاٹھ،بھاری بھرکم،فربہ جسم، نے اہم کردار ادا کیا۔جتنا عرصہ بھی سکول میں رہے چھائے رہے
ہم نے خود اپنے مشاہدے میں اسے جانا وہ ایک قابل فرض شناس اور اصول پسند ہیڈ ماسٹر رہے۔چاپوسی اور خوشامدی افراد کو اپنے قریب نہ آنے دیتے،نہ خود کسی کی خوشامد کی۔یہی اصول ان کی کامیابی کا سب سے بڑا راز تھا۔
ان کا دورانیہ ہیڈ ماسٹر 1975 تا1989 تک رہا،تر گ کے سکول کو قائم ہوئے ابھی چند سال ہی ہوئے تھےاپنی محنت،محبت ،دیانت داری اور خوبصورت شخصیت کی بدولت سکول کو بام وعروج تک پہنچا دیا۔سکول کی کارکردگی سالانہ،رزلٹ ہر سال شاندار آتا رہا۔معیار تعلیم اس قدر بلند ہوا کہ تحصیل بھر سے لڑکے گورنمنٹ ہائی سکول میں داخل ہونے لگے،کمرمشانی،مندہ خیل،برزی،کوٹ چاندنہ،کالا باغ،اللہ خیل،مٹھہ خٹک،کلوانوالہ، چھینہ پوڑہ،عیسی خیل،مہر شاہ والی،غرض ہر علاقے سے والدین اپنے بچوں کو ترگ سکول میں داخل کراتے،دیکھتے ہی دیکھتے سکول کا نام تحصیل،ضلع اور سرگودھا ڈویثرن میں معروف ہو گیا۔یہ سب ہیڈ ماسٹر صاحب کی علم دوست پالیسی کی بدولت پایہ تکمیل کو پہنچا۔
کسی ادارے کی کامیابی کے لئے ضروری ہے ہیڈ کے ساتھ ساتھ اسٹاف کا فرض شناس ہونا بے حد ضروری ہے،
ہیڈ ماسٹر صاحب کو بھی یہاں فرض شناس اسٹاف ملا۔جس نے ادارے کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔
ہیڈ ماسٹر صاحب کے ساتھ مندرجہ ذیل اسٹاف کام کرتا رہا،ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔
1=ماسٹرغلام شبیر خان رشیدے خیل،
2=ماسٹرعنایت اللہ خان،پنجے خیل
3=ماسٹر غلام رسول خان،اکوال
4=ماسٹر محمد اقبال خان اکوال
5=ماسٹرعنایت اللہ خان مرحوم عمرخیل
6=ماسٹرملک غلام شبیر خان آف رانجھے والا
7=ماسٹرفدا رسول شاہ قرشی،(خیرووال)
8=ماسٹردوست محمد شاہ قرشی مرحوم۔اسحاق آباد
9=ماسٹرمحمد دین شاہ قرشی مرحوم
10=ماسٹر قائم دین۔اٹک
11=ماسٹر محمد فاروق آف میانوالی
12=ماسٹراما ن اللہ خان،برزی
13=ماسٹر ملک خان امیر آرائیں
14=ماسٹر شبیر احمد خان پنجے خیل
15=ماسٹرمحمد رمضان خان،مانجھی خیل
16=ماسٹر محمد ہاشم شاہ قرشی مرحوم،(محلہ عمرخیل)
17=ماسٹرثناءاللہ خان مہار مرحوم
18=پی ای ٹی،محمد رمضان خان جالندھر خیل
19=ماسٹر رمضان خان نیازی۔ابراہیم خیل
20=ماسٹر محمد رفیق،فیصل آباد
21=ماسٹر محمد رمضان سائنس ٹیچر فیصل آباد
22=ماسٹرچودھری محمد حسین انگلش ٹیچر،فیصل آباد
23=ماسٹر قدرت اللہ خان آف روکھڑی
24=ماسٹرشیر بہادر موسی خیل
25=ماسٹرحاجی احمد خان عمرخیل
26=ماسٹرمرید احمد
27=ماسٹرفتح محمد جلار مرحوم۔
28=ماسٹر پی،ای،ٹی۔آحمد خان۔آرائیں۔(عمرخیل)

اس ادارے کو ہیڈ شپ کے ساتھ ساتھ خوبصورت اسٹاف ملا۔جس کی بدولت ادارے نے بام وعروج حاصل کیا۔ایسے خوبصورت پارسا،نیک سیرت انسان بہت کم اداروں کو ملتے ہیں جو دھرتی ماں کو مل جاتے ہیں،دھرتی کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیتے ہیں ایسے لوگ تاحیات امیزنگ رہتے ہیں جو تعلیمی اداروں کو ہر وقت،ہر دور میں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں اور یہی انمول ہیرے امیزنگ پاکستان کہلاتے ہیں۔
بقول شاعر۔۔۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
جن سے مل کر زندگی سے پیار ہو جائےوہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
ہیڈ ماسٹر محمد اکرم شاہ نے صحیح معنوں میں اپنا فرض ادا کیا جب تک تدریس سے وابستہ رہے اسی نہج پر کاربند رہے۔اتنے خوبصورت انسان تھے کہ آج تک کسی نے اس کے کردار /فرض پر تنقید نہ کی۔ان کی زندگی بے داغ رہی۔ترگ کو تعلیمی میدان میں عروج تک پہنچانے میں ہیڈ ماسٹر صاحب کا اہم کردار ہے۔ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔کسی بھی ترگ کی تعلیمی محفل میں،ہیڈ ماسٹرز کا ذکر ہو گا،کوئی محفل ترگ کی تعلیمی کارکردگی کا ذکر کرے گا اکرم شاہ کے بغیر وہ ذکر کارکردگی ادھوری ہو گی۔ترگ کے جتنے نامور لوگ ایجوکیشن میں یا پھر کسی اور فیلڈ سے گزرے ہیں وہ سب محمد اکرم شاہ صاحب کی علم کی بدولت اس مقام تک پہنچے ہیں۔
1975سے1989 تک کا ان کا تعلیمی سفر زبردست رہا۔اہل ترگ نے تعلیمی میدان میں ان کے دور میں ترقی کی ابتدا کی اور صحیح معنوں میں ترقی کی اڑان بھری۔ان سے فارغ التحصیل طالبعلم ہر فیلڈ میں زبردست اپنی خدمات سر انجام دیں۔اس دور میں اکثر طالب علموں کے مالی حالات ان اچھے نہیں تھے کہ میٹرک کے بعد کسی اعلی تعلیمی ادارے میں داخلہ لے کر اپنا تعلیمی سفر جاری رکھ سکتے سوائے چند ایک طالب علم کے۔اس دور میں بہت ذہین،قابل سٹوڈنٹ تھے۔مگر بعض مجبوریوں کے تحت آگے نہ پڑھ سکے۔تاہم وہی ذہین بچے اپنی زندگی سنوار گئے۔
1975سے1989 میں میٹرک پاس طالب عالموں کی کثیر تعداد نے پاک آرمی،پی،اے،یف ،عدلیہ،اور محکمہ تعلیم سے وابستہ ہو گئے تھے۔اور ہر ادارے میں سب نے زبردست اپنی خدمات سر انجام دیں۔پاک آرمی اور پی،اے،ایف۔تعلیم سے کافی ریٹائر ہو چکے ہیں مگر محکمہ تعلیم میں اب بھی کافی تعداد میں ٹیچرز صاحبان اپنے فرائض دل جمعی سے سر انجام دے رہے ہیں جو اکرم شاہ کے دور میں پڑھے ہیں۔ملک وقوم کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔ان افراد کی تعداد بہت زیادہ ہیں دامن وقت گنجائش نہیں کہ ان کے نام درج کر سکوں پاک آرمی،پی،اے،ایف ،صحت،وغیرہ میں تاہم کچھ شخصیات کے نام یہاں درج کر رہا ہوں جو محمد اکرم شاہ صاحب سے فارغ التحصیل ہوئے۔
ان کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں۔
1=شبیر احمد خان سابق پرنسپل گورنمنٹ ہائیر سکینڈری سکول کمرمشانی
2=غلام رسول خان سابق ہیڈ ماسٹر گونمنٹ ہائی سکول ترگ سٹی
3=جاوید حسن خان مرحوم سابق ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ بوائز ہائی سکول ترگ
4= نادر خان سابق پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج عیسی خیل
5=ملک شیر محمد ایکسیئن سیئنر انجینئر
6=ملک نزیر ایکسئین بلڈنگ سیئنر انجینئرنگ
7=کرنل ڈاکٹر دوست محمد خان
8=ڈاکٹر محمد رفیق خان نیازی ایم ایس ہسپتال میانوالی
9=ڈاکٹر علم دین
10=ملک محمد رفیق بھنمب انجیئنر
11=حق داد خان انجینئر
12=حمیداللہ خان ایس ڈی او
13=سید رسول ترگوی میگزین ایڈیٹر روزنامہ پاکستان راولپنڈی
13=کرنل محمد احسان اللہ خان خٹک
14=عنایت اللہ خان ایڈووکیٹ پروسیکیوٹر جنرل پنجاب
15=زاہد حسن خان رانجھے خیل انجینئر
16=گل حیسن ترگ سابق ہیڈ ماسٹر موسی خیل(میانوالی)
17=غلام محمد خان نیازی پولیس آفیسر ڈیرہ اسماعیل خان/اسلام آباد
18=عصمت اللہ خان سابق ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول ترگ سٹی
19=نزیر احمد خان انچارچ سابق ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول چھینہ پوڑہ۔
19=عبدالغفار خان سابق ڈپٹی ڈائریکٹر کوالٹی کنٹرول پنجاب
20=ذوالفقار اللہ خان۔پرنسپل فائن فلاور ماڈل سکول ترگ
21=ہدایت اللہ خان چیر مین یونین کونسل ترگ


ہیڈ ماسٹر محمد اکرم شاہ کے بارے میں مختلف شخصیات کی آراء۔

ریٹائرمنٹ کے بعد بھی علم کی شمع روشن کیے رکھی۔آج اہل ترگ انہی کی تعلیمی خدمات کی بدولت اپنے ضلع میں ایک پہنچان اور مقام رکھتے ہیں-یہ چمکتا دمکتا ستارہ اپنی پوری راعنائی کے ساتھ28اپریل2008 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ان کے جنازہ میں اہل ترگ کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ان کی تعلیمی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔شخصیات کی آراء۔۔۔۔۔۔
1=جناب احمد خان سابق پی ای ٹی۔گورنمنٹ ہائی سکول ترگ سٹی=اکرم شاہ میرے استاد رہے ہیں۔بہت اچھے ٹیچر تھے۔ محنتی اور محبت سے پڑھانے والے،ایسے ٹیچرز اور ہیڈ بہت کم ملتے ہیں جو اپنا فرض عبادت سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔1978 میں ان کے ساتھ جب وہ گورنمنٹ ہائی سکول ترگ میں تعینات تھے، میں ان کے اسٹاف کا حصہ رہا۔یہ بھی میرے لئے ایک اعزاز ہےجس ٹیچر سے تعلیم حاصل کی پھر ان کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا۔وہ ایک زبردست انسان کے ساتھ ساتھ بطور ہیڈ بڑے بارعب و باکردار شخصیت کے مالک رہے۔ترگ کے لئے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے۔
2= جناب غلام رسول خان سابق ہیڈ ماسٹرگورنمنٹ ہائی سکول ترگ سٹی۔۔اکرم شاہ سے میں عیسی خیل میں نویں اور دسویں جماعت میں پڑھتا رہا۔ بہت اچھے اور قابل ٹیچر تھے۔ریاضی پڑھانے کا انداز بڑادلنشین تھا۔اس کے بعد ترگ میں جب وہ ہیڈ ماسٹر تھے ان کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا۔ریئس مدرسہ(منتظم اعلی)بھی زبردست رہے۔ان کا رعب دبدبہ نہ صرف طالبعلموں بلکہ اساتذہ کرام پر بھی رہا۔ اصول پسند،محنتی اور باکردار تھے۔
3= جناب غلام شبیر خان سابق ڈپٹی ایجوکیش آفیسر عیسی خیل=اکرم شاہ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ میں نے بطور ٹیچر ان کےساتھ کافی وقت گزرا،اسٹاف کے ساتھ ان کا رویہ اچھا رہا۔اور ان کو اسٹاف بھی مثالی ملا۔جہنوں نے ترگ کی تعلیمی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔خود بھی اکرم شاہ بہت اچھے ٹیچر رہے اور ترگ میں تو ان کا بطور ہیڈ شپ دورانیہ زبردست اور لاجواب رہا۔لوگ آج بھی ان کا ذکر بڑے فخر سے کرتے ہیں۔
4= جناب شبیر احمد خان سابق پرنسپل گورنمنٹ ہائیر سکینڈری سکول کمر مشانی۔۔۔محمد اکرم شاہ ایک زبردست،اصول پسند،باکردار انسان تھے۔عیسی خیل سے ان کا تعلق تھا،میں عیسی خیل میں ان سے نویں اور دسویں جماعت میں پڑھتا رہا۔پڑھانے کا انداز لاجواب اور مثالی تھا۔جب ترگ میں بطور ہیڈ ماسٹر رہے ان کے ساتھ کام کرنے میں بہت مزہ آیا۔فرض شناس ٹیچر کی بہت قدر کرتے تھے۔1975سے1989 میں تعلیمی میدان میں ترگ کو بام و عروج تک لے جانے میں اہم کردار ادا کیا۔ایسے انمول ہیرے، ہیڈ ماسٹر بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں
اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے۔
5=جناب نزیر احمد خان سابق انچارج ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول چھینہ پوڑہ۔۔۔۔۔۔اکرم شاہ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔بہت اچھے ٹیچر تھے۔ ترگ کے طالب علم ان سے نویں اور دسویں جماعت میں پڑھتے رہے،میں خود ان سے پڑھتا رھا ہوں۔بہت اچھے انداز سے پڑھاتے رہے،ان کی محنت کا یہ صلہ ہے کہ آج آج ترگ تعلیمی میدان میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔بطور ہیڈ ماسٹر بھی اچھے با اصول اور باکردار شخصیت کے مالک رہے۔
6=جناب ابوالحسن شاہ ٹیچر گورنمنٹ ہائی سکول ترگ سٹی۔۔اکرم شاہ ۔۔آپ کا تعلق عیسی خیل سے تھا۔آپ نے ترگ ہائی سکول کی باگ دوڑ اس وقت لی جب نیا نیا ہائی سکول بنا تھا۔چند کمرے پر مشتمل اور بغیر چار دیواری کے سکول تھا۔اکرم شاہ کی محنت کی بدولت مختلف علاقوں کے لڑکے کشاں کشاں ترگ سکول میں داخلہ لینے لگے،پھر پہلا سالانہ رزلٹ1976میں میٹرک کاآیا۔اس کی خوشی دیدنی تھی۔اس موقعہ پر آپ نے اپنی تقریر میں یاد گار کلمات کہے جو سچ ثابت ہوئے۔””ترگ میں سکول کو انشاءاللہ چار چاند لگا دوں گا اور یہ سکول دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے گا”” اکرم شاہ نے اپنے ان سنہرے الفاظ کوعملی جامہ پہنایا۔ہیڈ ماسٹرصاحب اعلی صفات کے مالک تھے۔ان کا رعب سارے سکول پر رہا۔اللہ ان کےدرجات بلند فرمائے۔
7=جناب احمد نواز خان ٹیچر گورنمنٹ ہائی سکول ترگ سٹی۔۔۔۔اکرم شاہ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔بہت اچھے ٹیچر،با اصول، اور اعلی صفات کے مالک تھے۔ وہ ایک مشن کے تحت تدریس کرتے رہے،اور بطور ہیڈ شپ بھی ان کی مثالی رہی۔بڑے بارعب شخصیت کے مالک تھےان کے دورانیہ میں ترگ نے تعلیمی میدان میں خوب ترقی کی۔علم کی جو چار سو روشنی اس وقت نظر آتی ہے یہ اکرم شاہ کی بدولت ہے یہ ان کی محنت،محبت اور خلوص کا صلہ ہے۔
8=جناب قمر العباس خان ٹیچر گورنمنٹ ہائی سکول ترگ سٹی= اکرم شاہ بہت قاہل اور فرض شناس ہیڈ ماسٹر تھے۔بڑا رعب اور دبدبہ تھا۔ہم ان کے زیر سایہ پانچ سال پڑھتے رہے۔ترگ میں ان کی تعلیمی خدمات مثالی ہیں۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔
9=جناب شیر رسول ٹیچر گورنمنٹ ہائی سکول ترگ سٹی۔
ہیڈ ماسٹر بہت دیکھے ہیں مگر اکرم شاہ جیسا نڈر،خود دار،فرض شناس،ہمدرد،علم دوست نہیں۔اسے اپنے پیشے سے بہت محبت تھی۔سبھی لوگ اس کے رعب اور دبدبے کی بہت تعریف کرتے ہیں۔اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے-آخر پر آپ سب سے گزارش ہے اکرم شاہ مرحوم کے لئے التماس فاتحہ۔۔۔۔۔۔۔آپ سب کی محبتوں کا شکریہ۔

تحریر وتحقیق -امداد حسین خان — ایک ہمہ جہت ادبی شخصیت

امداد حسین خان، ضلع میانوالی کی مردم خیز دھرتی، خاص طور پر علاقے “ترگ” سے تعلق رکھنے والے ایک معتبر اور باوقار ادبی شخصیت ہیں۔ وہ ایک شفیق استاد، صاحبِ اسلوب شاعر، جاندار کہانی کار اور منفرد انداز کے ناول نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں دیہاتی ثقافت، انسانی رویوں، اور معاشرتی اقدار کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ ان کا ادبی سفر نہ صرف میانوالی بلکہ لاہور جیسے ادبی مراکز میں بھی سراہے جانے لگا، جہاں ان کے ساتھ تعلق رکھنے والوں میں عطاالحق قاسمی، ڈاکٹر سُغریٰ صدف، محمد حامد سراج اور اسِم بخاری جیسے اہم ادیب شامل ہیں۔ امداد حسین خان کا شمار ان اہلِ قلم میں ہوتا ہے جنہوں نے علاقائی رنگ، سچائی، اور فطری جذبات کو کہانی اور نظم میں ڈھال کر اردو ادب کو نیا انداز دیا۔ ان کی خدمات اور تخلیقات میانوالی کی علمی شناخت کا روشن حوالہ ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top