مسعود ملک — ترگ (میانوالی) کی ایک لازوال آواز
(پیدائش: 1 ستمبر 1953 — وفات: 18 ستمبر 2006)
پاکستان کی غزل، نغمہ اور کلاسیکی موسیقی کی دنیا میں مسعود ملک ایک ایسا نام ہے جو بظاہر زیادہ مشہور نہیں ہوا، مگر سننے والوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے اپنی جگہ بنا گیا۔ نرم، تہذیبی اور سچے احساسات سے بھری ہوئی اُن کی آواز نے انہیں اُن سامعین میں امر کر دیا جو اصل فن کو پہچانتے ہیں۔
پیدائش، خاندان اور ابتدائی پس منظر
مسعود ملک 1 ستمبر 1953 کو ترگ، ضلع میانوالی کے ایک معزز اور تعلیم دوست گھرانے میں پیدا ہوئے۔اُن کے والد کا نام ملک شیر بہادر تھا، جو نہایت باوقار، بااثر اور شرافت پسند شخصیت تھے۔ گھر کے علمی ماحول نے مسعود ملک کی شخصیت میں ادب، نرمی، تہذیب اور فنونِ لطیفہ کی محبت پیدا کی — یہی اوصاف آگے چل کر اُن کی موسیقی میں جھلکے۔
تعلیم —
وہ ذہین، سنجیدہ اور محنتی طالب علم تھے۔انہوں نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے ایم ایس سی کیا۔اسی دور میں:
غزل گائی،طبلہ بجایا،شاعری لکھی،اور اپنی پہلی کمپوزیشن بنائی۔اُن کا پہلا باقاعدہ کمپوز کیا ہوا فن پارہ کلامِ اقبال کے چند اشعار پر تھا، جو یونیورسٹی میں بہت پسند کیا گیا۔
موسیقی کا آغاز — 25 سے 26 سالہ سفر
مسعود ملک کا عملی موسیقی کا سفر تقریباً ڈھائی دہائیاں طویل رہا۔ابتدا میں وہ محفلوں، کالج پروگراموں اور تقریبات میں گاتے رہے۔ان کی آواز، ٹھہراؤ اور کلاسیکی اسلوب نے انہیں جلد پہچان دلا دی۔
اُن کے مطابق:
“جب دل سے کوئی دعا نکلتی ہے، تو زندگی کیوں نہ ناز کرے۔”
یہ اُن کی پہلی کمپوزیشن کا مرکزی خیال بھی تھا۔
فنّی تربیت — مہدی حسن نے شاگرد بنایا
یہ بات اُن کے فن کی سب سے بڑی سند ہے کہ:
استاد مہدی حسن خاں صاحب نے انہیں شاگردی میں لیا۔
وہ کہا کرتے تھے:
“مہدی حسن صاحب کسی عام آدمی کو شاگرد نہیں بناتے تھے۔ آواز میں قابلیت نہ ہو تو وہ پاس بھی نہ آنے دیں۔”
اُن کے آئیڈیل گلوکار :
مہدی حسن
مکیش
استاد حسین بخش
وہ غزل کو ایک مسلسل نسل در نسل چلنے والی آوازوں کی زنجیر کہا کرتے تھے۔
شاعری، کمپوزیشن، اور طبلہ نوازی
مسعود ملک صرف گلوکار نہیں تھے بلکہ:
شاعر
غزل و نظم نگار
کمپوزر
قابل طبلہ نواز بھی تھے۔
وہ مانتے تھے کہ:
“طبلہ جتنی محنت مانگتا ہے، اتنی ہی محبت واپس دیتا ہے۔”
امریکہ (نیویارک) ہجرت — ٢٠٠٣
2003 میں وہ نیویارک منتقل ہوئے،جہاں انہوں نے:اردو و پنجابی شعرا کی نظموں کو کمپوز کیا،
محفلوں میں شرکت کی،
مقامی شعرا جیسے رندھیر سنگھ کے کلام کو گایا،
موسیقی کی محنت اور ریاض جاری رکھا۔
یہ اُن کے فن کا بہت سنہرا دور تھا۔
مشہور گیت، غزلیں اور آڈیو ریکارڈنگز
مسعود ملک کے چند گیت آج بھی موسیقی پلیٹ فارمز پر مشہور ہیں:
Hum Tum Honge, Badal Hoga
Imtehan Sheeshay Ka
انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ:
گیت “Hum Tum Honge” کی کمپوزیشن بھی مسعود ملک کی اپنی تھی۔یہ نغمہ ان کے کیریئر کا سب سے بڑا سنگِ میل ثابت ہوا۔
شاعری کی کتاب — مگر شائع نہ ہو سکی –انہوں نے اپنی شاعری کی ایک مکمل کتاب مرتب کی تھی،
جس میں:
غزلیں
نظمیں
رباعیات
شامل تھیں۔
مگر افسوس کہ یہ کتاب زندگی میں شائع نہ ہو سکی۔
وفات — 18 ستمبر 2006
امریکہ میں قیام کے دوران اُن کی صحت بگڑنے لگی۔بالآخر 18 ستمبر 2006 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
اُنہیں پاکستان لایا گیا اور اسلام آباد میں سپردِ خاک کیا گیا۔یوں 53 سالہ یہ باکمال فنکار خاموشی سے رخصت ہو گیا، مگر اپنی آواز، فن اور یادیں چھوڑ گیا۔
شخصیت — سادگی، مزاح اور عشقِ فن
مسعود ملک نہایت شائستہ، شریف اور مہذب انسان تھے۔اُن میں ملنساری، نرمی، خوش مزاجی اور فن کے لیے بے پناہ عشق پایا جاتا تھا۔
وہ اکثر ہنستے ہوئے کہتے تھے:
“قبروں سے نکل کر زندہ لوگوں کے بارے میں لکھا کرو!”
یہ جملہ اُن کے سچے فنکارانہ مزاج کا آئینہ دار ہے۔
خلاصہ — ایک گم نام مگر دلوں میں زندہ فنکار
مسعود ملک نے شہرت کے ہجوم میں جگہ نہ بنائی،لیکن دلوں میں جگہ ضرور بنائی۔
وہ ترگ میانوالی کا فخر تھے۔وقت گزر گیا، مگر اُن کی آواز آج بھی اُنہیں زندہ رکھے ہوئے ہے۔
