اپنا پرانا شعر۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید کے لیئے نئے جُوتوں کی خریداری کالاباغ سے کی جاتی تھی – ہمارے بچپن کے زمانے میں فرمے والی کھیڑی کا فیشن چل رہا تھا – بہت خُوبصورت اور پائدار چیز تھی – مردانہ حُسن کا زیور تھی یہ کھیڑی –
ویسے تو کالاباغ اور میانوالی کے سب کاریگر فرمے والی کھیڑی بنا لیتے تھے ، مگر کالاباغ کے چاچا پَشُو ، چاچا فقیر محمد اور چاچا ابراہیم یہ کھیڑی بنانے کے مشہور سپیشلسٹ تھے – سب سے اچھی فرمے والی کھیڑی 16 روپے میں ملتی تھی — لوگ کالاباغ جاکر اپنی پسند کے کاریگر کو پاؤں کا ناپ اور پانچ سات روپے ساہی (ایڈوانس) دے کر کھیڑی وصول کرنے کی تاریخ لے لیتے تھے – مقررہ تاریخ کو جاکر کھیڑی وصول کر لیتے تھے – بنی بنائی (ریڈی میڈ) کھیڑی بھی مل جاتی تھی ، مگر ساہی والی کھیڑی کی کوالٹی بہت بہتر ہوتی تھی –
یہ کھیڑی بنانے والے ماہرین دُنیا سے رُخصت ہو گئے تو فرمے والی کھیڑی کا رواج بھی ختم ہوگیا – اب پشاوری چپل کا فیشن برپا ہے – مگر حُسن میں فرمے والی کھیڑی اس سے ہزار درجے بہتر تھی – اب تو اس کی پکچر بھی نایاب ہے۔ جس نے یہ کھیڑی پہنی یا دیکھی ہو وہی جانتا ہے کہ یہ کیا لاجواب چیز تھی- پشاوری چپل اُس زمانے میں بھی بنتی تھی ، مگر بہت کم لوگ خریدتے تھے – وقت وقت کی بات ہے –
گنیش رام کا کنواں ریلوے لائین کی طرف جانے والے کچے راستے کے دائیں طرف، نور باز خان اربزئی کے کنوئیں کے جنوب میں تھا۔
ہمارے علاقے میں زمینداروں کے مشترکہ کنویں ہوتے تھے
درکھان پورا سال دیکھ بھال کرتا تھا
فنی خرابی درکھان ہی ٹھیک کرتا تھا جسے گندم کی فصل پر گندم دی جاتی تھی
کنویں کے مختلف پارٹس کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا تھا
مال
کانجنڑ
لوٹے
نثار
چکلی
ویلنڑ
ڈاند
لٹھ
وغیرہ وغیرہ——————– رہے نام اللہ کا — 2  اپریل 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شَوتِیر چاڑھنا (جُھولا جُھولنا) بھی ہمارے ہاں عید کا مخصوص رواج تھا – شوتیر موٹے رسے والی پینگ ہوتی تھی جو دروازے کی چوکاٹھ جیسے دس بارہ فٹ اونچے فریم سے لٹکی ہوتی تھی- اس کے پائدان پر دو نوجوان آمنے سامنے کھڑے ہو جاتے کوئی تیسرا آدمی شوتیر کو دھکا لگاتا – پھر وہ دونوجوان باری باری بازوؤں سینے ٹانگوں اور پاؤں کا زور لگا کر زیادہ سے زیادہ بلندی تک پہنچنے کی کوشش کرتے تھے- سب سے زیادہ بلندی تک جانے والی جوڑی فاتح قرار دی جاتی تھی – شوتیر بازی کے مقابلوں کے دوران میدان میں تماشائیوں کی خُوب رونق لگی رہتی تھی – تقریبا آج کے کرکٹ میچوں جیسا ماحول ہوتا تھا –
اس جُھولے کا نام شوتیر شاید اس لیئے تھا کہ اس کا دروازے کی چوکاٹھ جیسا فریم زمین میں دو شہتیر ( لکڑی کا گارڈر سمجھ لیں) گاڑ کر بنایا جاتا تھا –
شوتیر کی ٹیکنالوجی تو شاید آپ کی سمجھ میں نہیں سمائی ہوگی ، مگر امید ہے ذہن میں کُچھ خاکہ سا ضرور بن گیا ہوگا –
ہمارے محلے میں ربزئی قبیلے کے نوجوان شہتیر بازی کے شوقین بھی تھے ، ماہر بھی – محمد عظیم خان ربزئی اس فن کے سب سے بڑے ماہر تھے – چھوٹے قد کا یہ بندہ اکیلا ہی جُھولتا ہوا شہتیر کو دس پندرہ فٹ کی بلندی تک لے جاتا تھا – اس فن میں شہر کا کوئی نوجوان محمد عظیم خان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا –گذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ—————– رہے نام اللہ کا — 4  اپریل 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افطاری کی لمبی چوڑی دعوتوں کا رواج نہ تھا ۔ صرف قریبی رشتہ دار باہمی لین دین کی طرح آپس میں افطاری کی دعوتوں کا اہتمام کرتے رہتے تھے۔ اس اہتمام میں تکلف کا نام و نشان تک نہیں ہوتا تھا۔ پکوڑوں، سموسوں، دہی بھلوں جیسے چونچلے اس زمانے میں ہوتے ہی نہیں تھے۔ افطاری شام کا کھانا ہوا کرتی تھی۔ لوگ ویسے بھی سرشام کھانا کھانے کے عادی تھے، اس لییے افطاری طبیعت پر بوجھ نہیں بنتی تھی۔ افطاری کا کھانا مرغی یا بکرے کے گوشت کا سالن، تندور کی تازہ گرما گرم روٹی اور دودھی کا گڑ والا حلوہ ہوا کرتا تھا۔۔۔۔
تھا تو بہت سادہ لیکن ذائقے اور تقویت میں یہ کھانا آج کی کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ کیمیائی اثرات سے پاک دیسی گندم، گھر کا خالص دیسی گھی، دیسی مرغی یا دیسی بکرے کا گوشت، گھر میں پسے ہوئے مصالحہ جات ، سرخ پشاوری شکر یا گڑ اور پھر پکانے والی نیک بخت خواتین کے ہاتھوں کی برکت ۔۔۔۔۔ اس کھانے کی لذت آج بھی محسوس ہورہی ہے۔ کاش ایک بار پھر وہ زمانہ اور وہ لوگ واپس آجاتے تو آپ کو پتہ چلتا کہ آپ کیسی کیسی نعمتوں سے محروم رہے ہیں۔
پرانے وقتوں میں دیسی گندم ہوتی تھی جس کے پودے کا قد چھ فُٹ سے زیادہ ہوتا تھا اور اُس کا سٹہ کچھ چھوٹا تھا۔ تاہم سُننے میں آیا ہے کہ اُس گندم کی روٹی ایسی مزیدار ہوتی تھی جیسے بسکٹ، جس کو بغیر سالن کے بھی کھایا جا سکتا تھا -اس گندم کا سٹہ کچھ چھوٹا ہوتا تھا، اس پر مونچھوں جیسے بال بھی نہیں ہوتے تھے۔ گندم کے دانوں کا رنگ سفید کی بجائے سرخی مائل ہوتا تھا۔ اس لیئے اسے رتی کنڑک (سُرخ گندم) بھی کہتے تھے۔ اس کے پودے کا قد نارمل ہی ہوتا تھا، اس گندم کے آٹے کی روٹی کی خاصی دلکش appetising خوشبو اور بہت لذیذ ذائقہ ہوتا تھا۔ سالن کے بغیر بھی مزے سے کھائی جا سکتی تھی۔ بچپن میں ہم یہی روٹی کھایا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔5   اپریل 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیس بک پر قمرالحسن بھروں زادہ کی ایک خوبصورت تحریر نظر سے گذری تو اس موضوع پر اپنا مشاہدہ یاد اگیا۔ یہ واقعہ شاید چند سال پہلے بھی لکھا تھا، تاہم یہ واقعہ ایسا ہے کہ نوجوان نسل کی رہنمائی کے لیئے اس کا ذکر بار بار ہونا چاہیئے۔
ہوا یوں کہ ایک دفعہ بھلوال سے ایک نوجوان بچی میرے ہاں آئیں ۔ ان کی آمد کا مقصد اپنی چھوٹی بہن کو انٹرمیڈیٹ کی انگلش کے پیپر میں پاس کروانا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم دو یتیم بہنیں ہیں۔ اگر میری بہن ایف اے پاس کر لے تو اسے کسی پرائیویٹ سکول میں ملازمت بھی مل جائے گی اور کسی مناسب جگہ اس کی شادی بھی آسان ہو جائے گی۔
میں نے ان کاکام کردیا تو وہ دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہونے لگیں۔ میں نے کہا بیٹا ، شام ہوگئی ہے ، اجنبی شہر ہے ، اس وقت جانا مناسب نہیں۔ صبح چلے جانا۔
بچی نے کہا سر ، گھر میں میری بہن اکیلی ہے، اس لییے میں نے ابھی واپس ضرور جانا ہے۔ میانوالی میرے لیئے اجنبی شہر نہیں، چند سال پہلے میرے شوہر یہاں شناختی کارڈز کے محکمے میں ملازم تھے تو میں بھی یہاں رہ چکی ہوں۔ میں جانتی ہوں یہ غیرت والے لوگوں کا شہر ہے، میں ساری رات بھی سڑک پہ کھڑی رہوں تو مجھے کوئی نہیں چھیڑے گا۔
میانوالی کی یہ شہرت ہمیں ہر قیمت پر برقرار رکھنی چاہیئے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا میانوالی۔۔۔۔6  اپریل 2023 –منورعلی ملک۔۔۔میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غیر بھی تیرے ثنا خوان رسُولِ عَرَبی
بہت سے ہندو شعراء کی لکھی ہوئی نعتیں اور نعتیہ اشعار دیکھ کر حیرت بھی ہوتی ہے ، فخر بھی – فخر اس بات پر کہ ہم انہی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اُمت ہیں جن کی خُوبیوں کی غیر مسلم بھی گواہی دے رہے ہیں- چند مثالیں ملاحظہ کیجیئے :
شنکر لال ساقی ———–
جیتے جی روضہءاقدس کو نہ دیکھا میں نے
رُوح جنت میں بھی ہو گی تو ترستی ہوگی
نعت لکھتا ہوں مگر شرم مجھے آتی ہے
کیا مری اُن کے ثنا خوانوں میں ہستی ہوگی
مہاراج کرشن پرشاد ——–
کافر ہوں کہ مومن ہوں خدا جانے میں کیا ہوں
پر بندہ ہوں اُس کا جو ہے سُلطانِ مدینہ
دِلو رام کوثری ———–
کُچھ عشقِ محمد میں نہیں شرطِ مُسلماں
ہے کوثری ہندو بھی طلب گارِ محمد
راج پارس —————
مقدر میں لکھا ہو گا مدینہ جاؤں گا پارس
وہاں جا کر وہاں کی خاک میں تحلیل ہو جاؤں
ہری چند اختر ————
کس نے ذروں کو اُٹھایا اور صحرا کر دیا
کس نے قطروں کو ملایا اور دریا کر دیا
کس کی حکمت نے یتیموں کو کیا دُرِ یتیم
اور غلاموں کو زمانے بھر کا مولا کر دیا
بالمکند عرش ملسیانی ——-
ہے جبریل در کا غلام اللہ اللہ
نبوت کا یہ اہتمام اللہ اللہ
یہ شانِ مضامیں ، یہ آیاتِ رحمت
کلیم اللہ اللہ ، کلام اللہ اللہ
————————————-
صلی اللہ تعالی علی حبیبہ محمد و علی آلِ محمد
—————– رہے نام اللہ کا —7  اپریل 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترگ کے ظہوراحمد صاحب لمحہ ء موجود میں ضلع میانوالی کے اکلوتے خطاط ہیں – میرے علم کی حد تک یہ اس ضلع کی تاریخ میں تیسرے خطاط ہیں – ہمارے بچپن کے دور میں داؤدخیل سکول میں ہندو ماسٹر میوہ رام ہوا کرتے تھے – کمال کے خوشنویس تھے – سفید کپڑے پر ان کے لکھے ہوئے اقوالَ زریں اور اشعار داؤدخیل سکول کے سٹور روم میں شاید اب بھی موجود ہوں – پچاس سال تک وہ کمروں کی دیوارون کی زینت رہے –
ضلع میانوالی کے دوسرے خطاط ہمارے محترم دوست مرحوم عتیل عیسی خیلوی تھے – وہ مشہورَ زمانہ خطاط عبدالمجید پرویں رقم کے مقلد تھے – عبدالمجید پرویں رقم کا منفرد اعزاز یہ ہے کہ علامہ اقبال کی تمام کتابوں کی کتابت عبدالمجید پرویں رقم صاحب ہی نے کی – داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر بھی پرویں رقم صاحب کے فن کے چند خوبصورت نمونے نصب بیں – عتیل صاحب نے اپنی تمام کتابوں کی کتابت خود کی اس لیئے ان کی کتابیں عتیل کے حُسنِ کلام کے علاوہ حُسنِ کتابت سے بھی آراستہ ہیں –
ظہور صاحب شہرہ ء آفاق خطاط حافظ محمد یوسف سدیدی کے مقلد ہیں – سدیدی صاحب اپنے اندازِ خطاطی کے امام تھے – ظہور صاحب کی خطاطی میں سدیدی صاحب کا اثر واضح نظر آتا ہے – خطاطی صرف خوشخطی نہیں ، خاصا محنت طلب فن ہے ٠ خطاط کے لکھے ہوئے ایک حرف کو بھی جتنا غور سے دیکھیں اُتنا ہی دل میں اُترتا چلا جاتا ہے – یہ خُوبی ظہور احمد کے اندازِ قلم کاری کا طُرہ ء امتیاز ہے –ضلع میانوالی میں دُوسرے ہر فن کے تو بے شمار فن کار موجود ہیں مگر خطاطی ایسا نادر فن ہے کہ تقریبا ایک صدی میں یہاں صرف تین خطاط پیدا ہوئے —– ماسٹر میوہ رام — عتیل عیسی خیلوی — اور ظہور احمد ——– میں ظہور کے فن سے اتنا متاثر ہوں کہ خود فرمائش کرکے ان پر پوسٹ لکھ رہا ہوں – باکمال انسان ہیں – ایسے لوگوں کی قدر کرنی چاہیئے- حلقہ ء ادب کمر مشانی کے ساتھیوں سے گذارش ہے کہ حلقہ ء ادب کی لائبریری میں ظہور صاحب کے فن پاروں کی نمائش کا اہتمام کیا جائے-ظہور احمد صاحب گورنمنٹ ہائی سکول چاپری میں ایس ایس ای کے منصب پر فائز ہیں – اُردو ادب میں ُپی ایچ ڈی کے دو مراحل طے کر چکے ہیں – اللہ مزید اعزازات سے نوازے-***** پوسٹ میں شامل قرآن کریم کی آیت اور شعر جناب ظہور احمد کے کمال فن کی خوبصورت گواہی۔———— رہے نام اللہ کا —
ملک غلام حیدر ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر… یرے والد محترم… عمر تقریباً 72 سال اور الحمد للہ میانوالی کے سب سے پہلے خطاطوں میں شامل ہیں اور ان آخریوں میں بھی…8  اپریل 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید کے دن داؤدخیل ریلوے سٹیشن کے قریب محلہ کوارے خیل کے چند نوجوان سجے سجائے مَہارے اُونٹوں پر سوار ہوکر شہر کا چکر لگایا کرتے تھے – اُونٹوں میں سے مہارا نسل کے اُونٹ سپورٹس کار کی طرح بہت سمارت اور تیز رفتار ہوتے ہیں –
داؤدخیل میں مہارا اُونٹ صرف قبیلہ کُوارے خیل کے چند نوجوانوں نے شوقیہ رکھے ہوئے تھے – عید کے دن ان اُونٹوں کو دُلہن کی طرح سجا کر سارے شہر کا چکر لگانا ان کا محبوب شغل تھا – مہارے اُونٹوں کے گلے میں بندھی ٹَلیوں (گھنٹیوں) کی ٹَن ٹَن اور اُن کے پاؤں میں بندھے گھنگھروؤں کی چَھن چَھن عجیب سماں باندھ دیتی تھی – ٹلیوں اور گھنگھروؤں کی ان آوازوں کا مخصوص رِدم rhythm دیکھنے سننے والوں پر سحر طاری کر دیتا تھا – راہ چلتے لوگ رُک کر اور گھر بیٹھے لوگ گلیوں میں نکل کر یہ منظر دیکھا کرتے تھے –
مہارا اُونٹوں کے شہسوار ریلوے سٹیشن سے مین روڈ پر گورنمنٹ ہائی سکول داؤدخیل کی گراؤنڈ پہنچتے تو لوگوں کا ہجوم ان کا استقبال کرتا تھا – کچھ دیر وہاں رونق لگا کر یہ من چلے نوجوان اُونٹ بھگاتے ہوئے محلہ داؤخیل اور محلہ سالار کا چکر لگا کر واپس گھروں کو لوٹ جاتے تھے –———————- رہے نام اللہ کا —9  اپریل 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راتوں کے پچھلے پہر داودخیل کے اوٹھی(اونٹوں والے) پہاڑ سے پتھر لانے کے لیئے گھروں سے روانہ ہوتے تھے۔ شہر سے باھر نکلتے ہی ان میں سے کچھ لوگ انتہائی اونچے سروں میں ماھیئے گایا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک نوجوان اگر گاتا
انجنڑیں نا دھوں ماھیا
او گھڑی کیہری جیہری گھڑی یاد نہ توں ماہیا
تو جواب میں کوئی اور نوجوان یہ ماہیا الاپ دیتا
۔۔۔۔ انجنڑیں نا دھوں ماھیا
سڑ گئیاں ھڈیاں کوئلہ چنڑ گھن توں ماہیا۔
اور یونہی یہ سلسلہ چلتا رہتا تھا۔
رات کا پچھلا پہر، جوگ کی ہجر کے کرب سے لبریز دھن، اداس بول، جہاں جہاں یہ آواز سنائی دیتی دکھی دلوں پر قیامت گذر جاتی تھی۔ انتہائی درد انگیز دھن تھی۔ لوگ اس دھن کو اوٹھیاں آلی طرز کہتے تھے۔
عیسی خیل میں ہم کبھی کبھار فرمائش کرکے لالا عیسی خیلوی سے اس دھن میں ماہیئے سنا کرتے تھے۔ اب تو اتنے اونچے سروں میں لالا بھی نہیں گا سکتا ھوگا۔ کبھی ملے تو فرمائش کروں گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔

10  اپریل 2023 –منورعلی ملک۔۔۔

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشینوں کی اپنی مجبوریاں ہیں ——-
اپنی کل کی پوسٹ کا انگلش سے اردو ، اور پرسوں کی پوسٹ کا اردو سے انگلش میں ترجمہ نظر سے گذرا – یہ ترجمے Chat GPT نے اپنے طور پر کیئے ہیں – Chat GPT ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنے کا خودکار مشینی سسٹم ہے –
میری پوسٹس کے دونوں ترجموں میں زبان کی کُچھ غلطیاں ہیں – مثلا لفظ اوٹھی کا متبادل انگلش camel owner لکھنے کی بجائے صرف people لکھ دیا گیا — ایک جگہ among the tall trees لکھا ہے حالانکہ میری پوسٹ میں درختوں کا نام تک نہیں تھا-
میری کل کی English پوسٹ کا تمام تر اُردو ترجمہ Past Perfect Tense کی بجائے Past Indefinite Tense / Simple Past Tense میں کیا گیا ، جس سے پوسٹ کا مفہوم خاصا محدود ہوگیا – مثلا “ہوتا تھا” کی جگہ “ہُوا” ، “جایا کرتے تھے” کی جگہ” گئے” وغیرہ عجیب سا لگتا ہے –
اسی طرح بہت عرصہ پہلے میں ایم اے انگلش کی ایک کتاب پر کمپوزر سجاد شاہ کو نوٹس notes لکھوا رہا تھا تو سجاد شاہ نے کہا “ سر، یہ جملہ جو ابھی آپ نے بولا ہے اس کی کمپوزنگ کے نیچے کمپیوٹر نے لائین لگا دی ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جملہ زبان کے لحاظ سے غلط ہے “-
میں نے کہا کمپیوٹر کو گولی مارو میں نے جو بول دیا وہی درست ہے – سیدھی سی بات ہے میں نے جس ساخت sentence structure کا جُملہ بولا وہ sentence structure کمپیوٹر کے خزانے میں موجود نہیں – اس لیئے کمپیوٹر تو اسے غلط ہی کہے گا – جب کمپیوٹر مصنف سے بڑا ہوگیا تو کتابیں بھی یہ خود لکھے گا – فی الحال ایسی کوئی بات نہیں –
آج کی پوسٹ کا مقصد اپنی تعریف کرنا نہیں ، صرف یہ بتانا ہے کہ کمپیوٹر ہو یا کوئی اور مشین اُس پر بھروسا ایک حد تک ہی کرنا چاہیے –———————- رہے نام اللہ کا —12  اپریل 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید سے ہفتہ دس دن پہلے عیدکارڈ بھیجنے اور وصول کرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔
لاہور میں اردو بازار اور سرکلر روڈ عید کارڈوں کی طباعت اور خرید و فروخت کے بڑے مرکز تھے۔
دیہات میں کتابوں کاپیوں کی دکانیں تو ہوتی نہیں تھیں، کریانے کی دکانوں والے دکان کے باہر گلی میں منجی بچھا کر اس پر عیدکارڈوں کی نمائش سجا دیتے تھے۔ رنگا رنگ چھوٹے بڑے قسم قسم کے عید کارڈ ہوا کرتے تھے۔ زیادہ تر کارڈ بچے خریدتے تھے- پھولوں اور پرندوں کی پکچرز والے کارڈ بہت پسند کیئے جاتے تھے۔ کارڈ پر دل کی باتیں لکھنے کے بعد لفافے پر بھی ایک دو شعر اور کچھ باتیں لکھ دی جاتی تھیں۔ بچے عام طور پر یہ شعر لکھا کرتے تھے۔۔۔۔
چلا چل لفافہ کبوتر دی چال
لیا ساڈے سجنڑاں دا جلدی جواب
شیشی بھری گلاب کی پتھر پہ توڑ دوں
(اگلا مصرع اس وقت یاد نہیں آرہا)
اسی قسم کے سادہ و معصوم شعر کارڈوں کی زینت بنتے تھے۔ بچے اپنے نام آنے والے کارڈ بڑے فخر سے دوستوں کو دکھایا کرتے تھے۔ اب تو ایس ایم ایس، واٹس ایپ , ویڈیو چیٹ اور دوسرے جدید ذرائع سے عید کی خوشیاں ہاتھوں ہاتھ شیئر کی جاتی ہیں۔ پرانے دور کی سادگی اور معصومیت کی آج کے دور میں کوئی گنجائش نہیں۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ
اب تو عید مبارک بھی ان لوگوں سے کہا جاتا ہے جن سے کوئی غرض وابستہ ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔13  اپریل 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے ایک گیت میں کہا تھا۔۔۔۔۔
عیداں جو آسن ، گھر لوک ولسن
بڑی چاہ ہوتی تھی عید پر مل بیٹھنے کی۔ عید کے لیئے گھر واپس آنے والے پردیسی اور ان کے گھر والے پورا سال اس موقع کے منتظر رہتے تھے۔ حصول رزق کی خاطر دور دراز علاقوں میں مقیم لوگ اپنے والدین ، بہن بھائیوں، بچوں اور دوسرے رشتہ داروں سے ملاقات کے اس موقع کے لیئے تیاریوں میں مصروف رہتے تھے، اپنی ضروریات کی قربانی دے کر سب کے لیئے کچھ نہ کچھ ضرور خرید لیتے تھے۔ والدین کے لیئے جانمازیں ، تسبیحیں ، بہن بھائیوں اور کزنز کے لیئے کپڑے، بچوں کے لیئے کھلونے، جن کے لییے کچھ اور نہ خرید سکتے ان کے لییے مٹھائیاں۔۔۔
بھائی دوست اور بچے ریلوے سٹیشن پر ان کا پرتپاک استقبال کرتے تھے۔ کزنز اور دوست ان کے لیئے خصوصی دعوتوں کا اہتمام کرتے تھے۔ گھر کے دیسی ککڑ کا سالن اور گڑ کا دودھی والا حلوہ ان دعوتوں کے خاص آئیٹم ہوتے تھے۔ ان تین چار دنوں کی خوشیاں سال بھر کی جدائی کی تلافی کر دیتی تھیں۔ عید کے بعد مسافروں کی واپسی کا منظر خاصا اداس منظر ہوتا تھا۔ مسافروں کو دعاوں اور آنسووں کے ساتھ اللہ حافظ کہا جاتا تھا۔
اب توبہت سے لوگ تلاش رزق میں بیرون ملک مقیم ہیں، عید پہ بھی گھر واپس نہیں آسکتے۔ شکر ہے موبائل فون کی سہولت گھر والوں سے بات چیت تو کروا دیتی ھے۔ یہ بھی غنیمت ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔14  اپریل 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب کبھی بھی سنو گے گیت مرے۔۔۔۔
محمد رفیع اور لتا کا یہ گیت مجھے بہت پسند ہے –
اس کے ابتدائی بول ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم مجھے یوں بھلا نہ پاوء گے،
جب کبھی بھی سنو گے گیت مرے،
سنگ سنگ تم بھی گنگناوءگے
یہ بول مجھے اپنی کہانی لگتے ہیں۔ میرے گیت بھی بہت سے لوگ کبھی نہیں بھلا پائیں گے۔۔۔۔
میں نے تو گیت نگاری کا کبھی سوچا ہی نہ تھا۔ لیکن جس رب نے مجھے گیت نگاری کی صلاحیت عطا کی تھی اس نے اس صلاحیت کو بروئے کار لانے کے مواقع اور وسائل بھی فراہم کردیئے۔ میرے گیتوں کو دنیا بھر میں متعارف کرانے کے لیئے ان گیتوں کو اس دور کی مقبول ترین آواز(لالا عیسی خیلوی کی آواز) مہیا کردی۔ یہ پرسوز آواز میرے گیتوں کے مزاج کے عین مطابق تھی۔ اس لیئے میرے گیت بہت مقبول ہوئے۔
میں نے لچے لفنگے بکواس گیت کبھی نہیں لکھے ۔۔ محبوب کے زلف و رخسار کے قصے مجھ سے نہیں لکھے جاتے ۔۔۔ درد کی ایک لے ہر گیت میں شروع سے آخر تک چلتی ھے۔ بعض گیتوں کے ہر بند سے ایک دردناک منظر جھانکتا نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر۔۔۔۔
سنجھے گھر وچ عمر گذر گئ،
کملی راہواں ڈیہدی مر گئ،
غیراں آنڑں جنازہ چایا۔۔۔۔۔ توں نئیں آیا،
طعنے ظالم لوک مریندے،
اجڑ کے وی نئیں جیونڑں ڈیندے،
میں بہوں اوکھا وقت نبھایا۔۔۔۔۔ توں نئیں آیا
ہجر، انتظار اور شکوہ کے ایسے مناظر میرے ہر گیت میں موجود ہیں۔
ہجر انتظار اور شکوہ صرف محبوب کا نہیں، باپ یا بیٹے یا کسی بھی بچھڑے ہوئے ، روٹھے ھوئے عزیز کی جدائی کا ہو سکتا ھے۔ اس لیئے میرے گیت صرف عاشقوں کی فریاد نہیں، اور یہی خاصیت میرے گیتوں کی مقبولیت کا راز ھے۔
گیتوں میں منظر کشی کی چند مزید مثالیں ان شآءاللہ کل۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔15  اپریل 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب کبھی بھی سنو گے گیت مرے۔۔۔۔۔
میرے دو گیتوں میں قبرستان کا منظر ہے۔
،”بیٹھی دیوانی قبراں دے اوہلے” والے گیت میں انتظار کی کیفیت کی عکاسی کی گئی ہے۔ بہت المناک صورت حال ھے۔ انتظار کرنے والی کی اپنی زندگی کا چراغ بھی بجھنے کو ہے اور جس کا انتظار ہے وہ بھی اب اس دنیا میں واپس نہیں آئے گا۔ آس پھر بھی ہے کہ شاید وہ آجائے۔
قبرستان کا دوسرا منظر اردو قطعات اور سرائیکی ماہیوں پر مشتمل گیت ہے۔ گیت کا پہلا بند یہ ہے۔
اک خوبرو جوان جو گاوں کا مر گیا،
اک رات اس کی قبر پہ دیکھا یہ ماجرا،
اک مہ جبیں سیاہ لبادے میں سر کھلے،
لوح مزار چوم کے دیتی تھی یہ صدا،
۔۔۔۔۔ کتھے آ وسیا ایں ساڈی جھوک تباہ کر کے،
اس مختصر کہانی میں پانچ کردار ہیں۔۔۔۔ قبر کے پاس بیٹھی لڑکی، ایک درخت پہ بیٹھی کوئل، ایک راہ گیر مسافر، اور یہ قصہ بیان کرنے والا چشم دید گواہ۔ پانچواں کردار قبر میں دفن خوبرو جوان ہے جو گیت کے آخر میں دردناک ماہیئے کی صورت میں اپنے دکھ کا اظہار کرتا ھے۔
واقعہ تخیّل کی تخلیق ہے، مگر انداز بیاں ایسا ہے کہ سچا واقعہ لگتا ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔ 16  اپریل 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیلتہ القدر کی ویسے تو کوئی خبر نہیں رمضان المبارک کی کون سی رات ہوتی ہے، سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے صرف اتنا بتادیا تھا کہ لیلتہ القدر رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں (21، 23، 25، 27، 29) میں سے کوئی بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم ہمارے علاقے میں لوگ 27 کو ہی لیلتہ القدر سمجھتے تھے۔
اس رات کے لیئے مساجد کی خصوصی آرائش کی جاتی تھی ، اور متفرق عبادات کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔ نماز تراویح میں ختم قرآن پاک بھی اسی رات مکمل کیا جاتا تھا۔ دعائے ختم القرآن کے بعد مٹھائی بھی تقسیم کی جاتی تھی۔ نماز تراویح پڑھانے والے حافظ صاحب کو حق خدمت کے طور پر کپڑوں کا ایک جوڑا، پگڑی اور نمازیوں کی طرف سے کچھ نقد رقم دی جاتی تھی۔
نماز تراویح کے بعد حافظ صاحب کی قیادت میں 10 رکعت نماز نفل ادا کی جاتی تھی۔ نماز تہجد اور قبرستان میں جاکر اہل قبور کے لییے دعائے مغفرت بھی اس رات کے معمولات تھے۔ نماز عشاء سے پہلے اور نماز تراویح کے بعد نعت خوانی بھی ہوتی تھی۔
سحری کے وقت لوگ اس بابرکت رات کی حسین یادیں سمیٹ کر مسجد سے رخصت ہو جاتے تھے۔ اس موقع پر کئی بزرگوں کو یہ کہہ کر روتے ہوئے بھی دیکھا کہ پتہ نہیں اگلے سال ہم یہاں ہوں گے یا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔18  اپریل 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساڈی کیہڑی عید۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟
یہ بچہ عید کا چاند دیکھ کر خدا جانے کیا سوچ رہا ہے ؟

22  اپریل 2023 –منورعلی ملک۔۔۔

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید سے چند روز قبل اپنی گیت نگاری کا تذکرہ چل رہا تھا ۔ اس سلسلے میں مزید چند باتیں ۔
1979 میں ایک دفعہ لالاعیسی خیلوی اسلام آباد سے واپس آئے تو کہنے لگے یار بہت عرصہ سے آپ نے کوئی گیت لکھ کر نہیں دیا، آج مجھے آپ کا ایک گیت چاہیئے۔ میں نے کہا کوشش کروں گا۔ لالا نے کہا کوشش کو گولی مارو میں صبح اسلام آباد واپس چلا جاوں گا۔ گیت مجھے آج ہی چاہییے۔
لالا سے وعدہ کر کے میں عتیل صاحب کے ہاں پہنچا۔ ان سے کہا مجھے چائے کی ایک فل چینک لا دو اور ایک گھنٹے کے لییے مجھے تنہا چھوڑ دو۔ کوشش کرتا ہوں گیت بن گیا تو ٹھیک، نہیں تو نہ سہی ، میں کون سا لالا سے تنخواہ لیتا ہوں۔
ابھی سوچ رہا تھا کیا لکھوں کہ اچانک یہ الفاظ ذہن کی تختی پر نمودار ہوئے۔۔۔
سچی ڈس وے ڈھولا کل کیوں نئیں آیا۔
ان الفاظ کے ساتھ ہی ایک منظر ذہن میں آیا اور میں نے وہی منظر گیت کی شکل میں لکھ دیا۔ تقریبا 15-20 منٹ میں گیت مکمل ہو گیا۔
گیت لالا کو دکھایا تو وہ خوشی سے اچھل پڑے، کہنے لگے یہ ہوئی نا بات ۔ فورا ہارمونیم نکالا اور دھن بنانا شروع کردی۔ سہ پہر کا وقت تھا، مرحوم ناطق نیازی بھی آئے ہوئے تھے ۔ انہوں نے بھی گیت بہت پسند کیا۔ دس پندرہ منٹ میں گیت کی دھن بن گئی۔ اگلی صبح لالا اسلام آباد لوٹ گئے۔
کیسیٹ میں ریکارڈنگ سے پہلے لالا نے یہ گیت ایک ٹی وی پروگرام میں پیش کیا، بہت پسند کیا گیا۔ کچھ دن بعد یہ گیت رحمت گراموفون کے کیسیٹ میں ریکارڈ ہوکر منظر عام پر آیا تو تہلکہ مچ گیا۔ مقبولیت کے لحاظ سے اس گیت نے پچھلے سب ریکارڈ توڑ دیئے۔ لالا اپنے مہمانوں سے میرا تعارف بھی اسی گیت کے حوالے سے کرواتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔

25  اپریل 2023 –منورعلی ملک۔۔۔

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا گیت
رت ولی پکھواں دے جوڑے آگئے،
آتیڈے آونڑں دے ویلے آگئے
بھی بہت مقبول ھوا۔ اس گیت کے ہر بند میں بہار اور انتظار کا الگ منظر ہے۔
جب یہ گیت ریکارڈ ہو کر منظر عام پر آیا تو لالا عیسی خیلوی نے بڑے فخر سے مجھے بتایا کہ اس گیت کی ریکارڈنگ زبردست ہے۔ کیا کمال کا گیت لکھا ہے تم نے۔!!!!
لالا نے کیسیٹ سنایا تو میں نے بہت منہ بنایا کہ یہ کیا کردیا۔ بھیرویں کے علاوہ تمہیں اس گیت کی دھن کے لیئے کوئی اور راگ نہیں ملا ؟ گیت کا بیڑا غرق کردیا۔
لالا نے کہا “بھائی صاحب میں نے کبھی تمہارے لکھے ہوئے کسی لفظ پر اعتراض کیا ھے؟ اعتراض کرنے کا میرا حق بھی نہیں بنتا کیونکہ لکھنا تمہارا کام ہے جو تم مجھ سے بہتر جانتے ہو۔ اسی طرح دھن بنانا اور سر لگانا میرا کام ہے۔ اس میں مداخلت کرنا تمہارا حق نہیں بنتا۔ میں نے اس گیت کی جو دھن بنا دی وہی بہترین ھے”۔
لالا نے ٹھیک کہا تھا، گیت ہر سطح پر بہت پسند کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

26 اپریل 2023 –منورعلی ملک۔۔۔

 

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چچا جان (لالا عیسی خیلوی کے والدمحترم) نے کہا

” بیٹا، آپ کے گیت نے مجھے بہت رلایا”
میں نے کہا چچا جان کون سا گیت ؟
کہنے لگے وہ جو ہے۔۔۔۔۔۔۔
نت دل کوں آہدا ہاں کل ماہی آسی
کل ہم عیسی خیل سے روانہ ہوئے تو عطا بیٹے نے گاڑی کی ٹیپ پر یہی گیت لگا دیا۔۔ گیت کا پہلا بول سنتے ہی مجھے سیما بیٹی یاد آگئی اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔۔ پھر سفر کے دوران میں بار بار یہی گیت سنتا اور روتا رہا۔
سیما لالا کی چھوٹی بہن تھیں ۔ جوانی ہی میں اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ والد کو ان سے بے پناہ پیار تھا۔
ہم گیت کی بات کر رہے تھے تو لالا نے ہنس کر پوچھا کیا راز و نیاز کی باتیں ہو رہی ہیں؟
میں نے بتایا کہ چچا جان میرے گیت کی بات کر رہے ہیں ۔
لالا نے کہا افسوس کہ تم ریکارڈنگ کے وقت وہاں موجود نہ تھے۔ اس گیت نے تو رلا رلا کر میرا بھی برا حال کردیا۔ بار بار ریکارڈنگ روکنی پڑی۔ بڑی مشکل سے جذبات پر قابو پا کر ریکارڈنگ مکمل کی ، پھر بھی ایک آدھ ہچکی ریکارڈ بھی ہو گئی۔ میں نے بہت دکھی گیت گائے ہیں، مگر یار اس گیت میں خدا جانے کیا بات ہے کہ زباں پہ آتے ہی آنسو بہہ نکلتے ہیں۔
اس گیت کی دھن میانوالی کے سینیئر موسیقار استاد امیر حسین امیر نے بنائی تھی۔
گیت کے یہ آخری بول لکھتے وقت میں بھی آنسو ضبط نہ کر سکا تھا۔۔۔۔
جاں شام تھیندی ول گھر نوں وینداں،
پلکاں تے ہنجواں دے ڈیوے بلینداں،
گھر دے اندھاراں چہ یاداں گولینداں ،
وت دل کوں آہدا ہاں کل ماہی آسی
جاں رات ڈھلدی ترٹ آس ویندی،
نیندر وی دل کوں دلاسے نہ ڈیندی
تاراں دی جھلمل تن کوں سڑیندی،
وت دل کوں آہدا ہاں کل ماہی آسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔27  اپریل 2023 –منورعلی ملک۔۔۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top