زبان کی تاریخ قدیم ہے۔ دنیا بھر کے لسانیات اور بشریات کے ماہر اس بات پر متفق ہیں کہ زبان ایک لاکھ دس ہزار سال پہلے وجود میں آئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زبان دنیا کے کسی خطے میں پیدا ہوئی۔ اس بارے میں کئی نظریات پیش کئے گئے ہیں۔ ماہرین عموما” پاکستان کے خطے پوٹھوہار اور افریقہ کی سرزمین کو زبان کی پیدائش کے علاقے سمجھتے ہیں۔ پوٹھوہار دراصل وادی سندھ کا حصہ رہا ہے۔ وادی سندھ رکن سے کشمیر تک پھیلی ہوئی تھی۔ پوٹھوہار کا ایک نام تزک جہانگیری کے مطابق سطح مرتفع نمک تھا۔ 1001ء میں درہ خیبر سے آنے والے مسلمانوں نے اسے نیلاب کا نام دیا۔
جغرافیائی طور پر میانوالی میں کوہستان نمک کا ایک وسیع سلسلہ موجود ہے۔ ا قبل مسیح سے اسے نمک نکالا جا رہا ۔ یہاں کی کانوں ۔ ہے۔ تاریخی طور پر میانوالی گندھارا کا حصہ رہا ہے سرکپ کے احوال و آثار اب بھی موجود ہیں۔ میانوالی سے ہ میل دور شمال کی طرف دریائے سندھ کے کنارے روکھڑی کے کھنڈرات میں گندھارا کی واضح نشانیاں پائی جاتی ہیں۔ لسانیات کے معروف محقق اور گندھارا ریسرچ پراجیکٹ سنٹر سوات کے ڈائریکٹر جناب پرویز شاہیں لکھتے ہیں کہ میری تحقیق کے مطابق سرائیکی زبان خنجراب کے پہاڑوں سے لے کر رکن تک پھیلی ہوئی تھی اور یہ پشاچی خاندان کی زندہ و تابندہ باقیات میں سے ہے۔ چنانچہ اب یہ کافی حد تک طے شدہ بات ہے کہ سرائیکی قدیم زبان ہے۔ اس کا تعلق پشاچی خاندان سے ہے جو دراوڑی کی ایک شاخ ہے یہ سندھی زبان کی رہ سرائیکی شکل ہے جو موجودہ سندھی زبان کے وجود میں آنے سے پہلے کو ہستان نمک میں موجود تھی۔ آج کے دور میں میانوالی پنجاب کا آخری ضلع اور صوبہ سرحد کے اضلاع کرک بنوں اور ڈیرہ اسمعیل خان کی طرف سے پنجاب کا نقطہ آغاز ہے۔ یں مقام پر واقع ہے جسے زبانوں کا سنگم کہا جاتا ہے۔ یہاں زبانیں مل رہی ہیں اور جدا ہو رہی ہیں چنانچہ پڑوس کی مختلف زبانوں کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ میانوالی کے جنوب مشرق میں پنجابی ملی جلی زبان بولی جاتی ہے۔ شمال میں پوٹھوہاری لہجہ نمایاں ہے۔ شمال مغرب اور مغرب میں صوبہ سرحد کے پشتو بولنے والے اضلاع ہیں البتہ ڈیرہ اسمعیل خان میں سرائیکی بولی جاتی
ہے اور جنوب کی طرف سے وہ مسلسل سرائیکی بیلٹ سے جڑا ہوا ہے۔ میانوالی کی زبان تاریخی اور جغرافیائی اثرات کے نتیجے میں ارتقاء اور امتزاج کے مراحل سے گزر کر موجودہ شکل تک پہنچی ہے۔ اس کی اپنی منفرد شناخت ہونے کے باوجود یہ واضح طور پر داری سندھ کی زبانوں سے گہری مماثلت اور مشابہت رکھتی ہے۔ دادی سندھ جس کا پھیلاؤ شمالا” جنوبا ” زیادہ اور شرقا غربا” کم ہے کے نسبتاً لیے اور کم چوڑے علاقے میں سندھی کے علاوہ کئی زبانیں بولی جاتی ہیں جن کے نام ریاستی ، ملتانی، اچی’ ہند کو ہند کی دیره دالوی، جنکی، تھلی تھلوچی لہندی اور جگدای وغیرہ ہیں۔ اہل سندھ نے اس بالائی علاقے کی زبانوں کے لئے سرائیکی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جہاں تک وادی سندھ میں میانوالی کا تعلق ہے۔ اس خطے کی زبان کو بھی کئی نام دیئے گئے۔ ملکی، کمان، جنگی، تھلی لہندی اور ہند کو اور ہند کی قابل ذکر ہیں۔ میانوالی کی پرانی نسل یہاں کی زبان کو آج بھی ہند کو کہتی ہے۔ البتہ نئی پڑھی لکھی نسل میں سرائیکی کا نام مقبول ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے سرائیکی کا نام کیوں دیا گیا ہے۔ یہ نام اسے اہل سندھ نے دیا ہے۔ سندھی میں سرو (SIRO) کے معنی سریا سرے کے ہیں یہ لفظ شمال (ابھے) کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ دریائے سندھ کے بالائی سے (UP-STREAM) کو سرو کہتے ہیں۔ چنانچہ اس مفہوم میں دریائے سندھ کے منبع تک کا علاقہ سرد اور اس علاقے کی زبان سرائیکی ہے۔ ڈاکٹر ٹرمپ سرائیکی کو سندھی زبان کی جدید اور خالص ترین شکل قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر مہر عبدالحق لکھتے ہیں کہ سندھ کی لسانی تاریخ میں ۱۱۰۰ کا سال بہت اہم ہے وادی سندھ اس پرورش پانے گئی اور ایک حصے کی زبان سرائیکی کہلائی۔ سال سیاسی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ دونوں حصوں میں ایک ہی زبان مختلف زبانوں کے اثرات کے باوجود میانوالی زبان کا اپنا ایک مخصوص لجہ ہے اور یہ لچہ اس کی مخصوص شناخت ہے۔ بلاشبہ یہ سرائیکی ہے اور اظہار کے حوالے سے سرائیکی کا کھڑا لحجہ ہے۔ میانوالی زبان کی گرائمر، افعال اور افعال کی گردانیں، حروف، ضمائر اور اسماء ، محاورے، لوک روایات لوک گیت اور پانچ آوازیں یعنی پچ ڈگ اور ن وہی ہیں جو سرائیکی کی مخصوص شناخت خصوصیت اور تشخص کا اظہار کرتی ہیں۔ لندن یونیورسٹی کے مشرقی اور افریقی زبانوں کے مطالعہ کے شعبہ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر کرسٹوفر شیکل نے ۱۹۷۴ء میں سرائیکی علاقہ کی زبان کا مطالعہ کرنے کے بعد دی سرائیکی لینگوئج آف سنٹرل پاکستان کے نام سے تحقیقی مقالہ لکھا۔ اس میں انہوں نے میانوالی کی زبان کو سرائیکی قرار دیا ہے۔ انہوں نے سرائیکی بولنے والے علاقہ کو چھ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ میانوالی اور ڈیرہ اسمعیل خان کی زبان کو قریبی مشابہت کی بناء پر ایک ہی ذیل میں رکھتے ہوئے اسے سرائیکی کا شمالی لحجہ کہا ہے ۔ ڈاکٹر کرسٹوفر شیکل کا خیال ہے کہ یہ شمالی لهجه سرائیکی زبان کے وسطی لہجہ کے زیادہ قریب ہے۔ وہ ملتان اور مظفر گڑھ کی زبان کو سرائیکی کا وسطی لحجہ قرار دیتے ہیں۔
سرائیکی زبان کی جڑیں
اوپر کی بحث میں ہم ثابت کر چکے ہیں کہ سرائیکی بہت قدیم زبان ہے اس کی جڑیں ہزاروں سال پر پھیلی ہوئی لسانی تاریخ میں موجود ہیں۔ سرائیکی آج جس شکل میں موجود ہے۔ یقینی طور پر ہزاروں سال پہلے اس کی صورت کچھ اور ہو گی۔ ہندوستان کی قدیم ترین زبانوں میں منڈا (MUNDA) زبان بھی شامل ہے عین الحق فرید کوئی کی تحقیق ہے کہ آریاؤں کے آنے سے پہلے یہاں تین زبانیں موجود تھیں، جن میں سے ایک کا تعلق اسی منڈا قبیلہ سے تھا۔ سنتقال منڈاری زبان بولتے تھے اس قدیم زبان کے ان گنت الفاظ آج بھی سرائیکی زبان میں موجود ہیں ان میں بانا، پانی، پیچھا پیچی، سانڈھو ، سالا” ماسی بوہر برگر دھتورا، نم، ڈانگ سام کھانسٹری، دھڑا لپ، پیڑھی چپر الہار کثیرہ اور کنڈ وغیرہ منڈاری زبان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ منڈا قبیلے کی آخری گنتی ہیں (کوڑی) تھی۔ ہمارے ہاں آج بھی سو کو سوکھنے کی بجائے بیچ دیسہ (پانچ ہیں) کہتے ہیں۔ اسلام کے آنے کے بعد وادی سندھ میں عربوں کا اثر و رسوخ پھیلا۔ عربوں نے یہاں تقریبا ۱۳۰ سال حکومت کی۔
عربی زبان نے سندھ کی تہذیب اور زبان کو بہت حد تک بدل ڈالا اور اس پر واضح طور پر اسلام کی چھاپ نظر آنے لگی۔ عربوں کے بعد شمال جنوب سے آنے والے مسلمان حملہ آور اپنے ساتھ فارسی لائے۔ سید سلیمان ندوی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ عربی اور فارسی کا سب سے پہلے جن زبانوں سے رابطہ قائم ہوا وہ سندھی اور مثانی تھیں۔ اس کے بعد پنجابی اور پھر دہلوی (اردو) کا نام آتا ہے۔ سرائیکی میں عربی اور فارسی کے لاتعداد الفاظ شامل ہیں۔ کچھ تو اصلی شکل میں موجود ہیں اور کچھ بگڑ گئے ہیں کچھ ایسے الفاظ بھی ہیں جن کا تلفظ بدل گیا ہے۔ مثلا” بصل سے وصل ، قوم سے تھوم (لسن)) سے نسبی تعویز سے تویز یا تویت سراویل سے سلوار ، ایمان سے امان ، مسجد سے میت وغیرہ عربی کے بگڑے ہوئے الفاظ ہیں۔ فارسی الفاظ نے بھی علاقائی شکل اختیار کی جانور سے زناور یا جناور نزدیک سے نزیک شاباش شابش یا شابا۔ طباخ سے طبا خری خفتن سے خفتاں (سونے کا وقت) وغیرہ کی فارسی الفاظ کی چند مثالیں ہیں۔ سرائیکی کی گرایمر بنیادی تیج طور پر فارسی سے متاثر ہے۔