چاچا اورنگزیب بھڈوال (BHIDWAL) اور ہم.
تحریر: محمد قمر الحسن بھروں زادہ
اپریل کا آغاز تھا۔گرمیوں کے موسم کی نقاب کشائی کی تقریبات شروع ہو چکیں تھیں۔تھل میں چنے کی کٹائی کے سارے مراحل تقریبا مکمل ہو چکے تھے۔اکا دکا کسان جو اپنی سستی پہ موسم کی خرابی اور مزدوروں کے رویوں کے پردے ہمیشہ سےڈالتے آئےہیں انھی کی فصلیں ابھی کھلواڑہ کی زینت بن کر کولہوں پہ ہاتھ رکھ کر بیزاری کے عالم میں تھریشر کی منتظر تھیں۔
سرائے مہاجر، فتح پور،دلے والا، نورپور تھل ،جنڈانوالہ، منکیرہ اور حیدرآباد تھل کی منڈیوں میں چنے کی تجارت زوروں پہ تھی۔بارانی علاقوں کے زمیندار اب بازار، عدالت اور کچہریوں کا رخ کر چکے تھے۔وہ تمام ضرورتیں جن پہ تاخیر کے تمام حربے ایک ایک کر کے فنا ہو چکے ہوتے ہیں ان کی خریداری کا یہی وقت ہوتا ہے۔فصلیں اچھی ہوں تو کئی گلے شکوے جنھیں آپس میں بیٹھ کر بھی سلجھایا جا سکتا ہے کو عدالتوں اور کچہریوں میں لا کر رازق کا شکر بجا لایا جاتا ہے۔
پھر دور دراز کے ڈیروں اور دیہاتوں سے سفید تہبند گھسیٹتے سفید کلف لگی پگ پہنے زمینداروں کا شہر کی عدالتوں میں تانتا بندھ جاتا ہے۔
میں اور میرا چچا زاد بھائی 2016 میں پہلی بار اکٹھے حیدر آباد تھل جا رہے تھے۔بھکر سے فیصل آباد جانے والی ائیر کنڈیشنڈ ہائی روف گاڑی سرائے مہاجر رکی۔
ہم بھی تقریبا لپک کر سوار ہو گئے کیونکہ باہر گرمی اور شور برداشت سے باہر ہو رہے تھے۔
ابھی ہم سوار ہی ہوئے تھے ہی کہ سر سے لیکر ٹخنوں تک سفید لٹھے میں ملبوس انتہائی وضع دار شخصیت اور بارعب خدوخال کا حامل ایک ادھیڑ عمر شخص گاڑی میں سوار ہوا۔
سفید پوش زمیندار نے دھکم پیل اور رش سے بچنے کے لئے کھڑکی والی سائیڈ پہ بیٹھنے کی خواہش کا اظہار کیا جو ہم نے بلا تامل پوری کر دی۔وہ شخص ہمیں پھلانگتے ہوئے شیشے کے ساتھ والی سیٹ پہ تشریف لے گئے۔پھلانگنے کے دوران وہ میرون رنگ کے چمڑے کا سادہ کھسہ میری گود میں ہی چھوڑ گئے۔
میں نے مسکراہٹ کے ساتھ انھیں کھسہ واپس کیا تو وہ میری ران سہلانے لگ گئے۔
میں نے کہا چچا جان کوئی بات نہیں خیر ہے۔
کزن نے میری کمر میں کہنی ماری اور چچا جان کی اس ادا کو غلط رنگ دینے کی کوشش کرتے ہوئے میری طرف دیکھ کر مسکرایا۔
کیونکہ وہ اس بات سے قطعی طور پہ لاعلم تھا کہ چاچا جان پھلانگتے ہوئے اپنا پاوں میری ران پہ رکھ کر ہی پار اترے تھے اور اس تکلیف کا چاچا جان کو ادراک ہو گیا تھا تو وہ اسی خفت کو مشفقانہ طریقے سے مٹا رہے تھے
سفید پوش زمینداز چچا جان نے اپنے تعارف سے گفتگو کا آغاز کیا۔
میں اورنگزیب بھڈوال ہوں کچہری میں کوئی کیس پھنسا ہوا ہے اسی سلسلے میں بھکر گیا تھا۔
میں نے کہا چچا جی آپ تو مغل بادشاہ اورنگزیب کے ہم نام ہیں۔اور بھڈوال آپکی کاسٹ ہے ؟
انھوں نے کہا ہاں اور کیا تم بھڈوال قوم کی تاریخ جانتے ہو؟
میں نے نفی میں جواب دیا کہ نہیں چاچا جان نہیں جانتا۔
انھوں نے اپنی ناگواریت کا احساس دلاتے ہوئے کہا کہ کیا واقعی تم نے بھڈوال قوم کی تاریخ نہیں پڑھی؟
میں نے کہا چچا جان واقعی نہیں پڑھی۔
ساتھ کزن عنائیت نے لقمہ دیا کہ قسم اٹھوا لو چاچا جی نہیں پڑھی۔
چاچا جان تلملا اٹھے
اور چڑھائی کرتے ہوئے کہا کہ تم کتنے پڑھے ہوئے ہو؟
میں نے کہا چاچا جان بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ماسٹر کر رہا ہوں اور کیا بھڈوال کی تاریخ سلیبس کا حصہ ہے؟
انھوں نے پسپائی اختیار کی اور کہا یہ تو پتا نہیں لیکن تاریخ کی کتابوں میں بھڈوال قوم کا ذکر بارہا موجود ہے۔
میں نے کہا چاچا جی ہماری کوتاہی اور لاعلمی ہے کہ بھڈوال قوم کی تاریخ نہیں پڑھ پائے۔
آپ ہی بتا دیں۔
انھوں نے کہا مغل بادشاہوں کی جنگ و دوستی کی تاریخ بھڈوال قوم کے ذکر کے بنا مکمل ہو نہیں ہو سکتی۔اس سے زیادہ میں تمھیں کیا بتا سکتا ہوں اور حیرت ہے کہ تم پڑھے لکھے ہونے کے دعویدار ہو اور تم نے بھڈوال قوم کی تاریخ نہیں جانتے۔
کیونکہ چاچا نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا تھا اور اوپر سیل بمعہ مہر لگا دی تھی اسلئے میں جوابا مسکرا ہی پایا اور پوچھا چاچا جان مجھے کونسی کتاب پڑھنے پڑے گی بھڈوال قوم کی تاریخ کنگھالنے کے لئے۔؟
چاچا جان کیونکہ خود پڑھے لکھے نہیں تھے اسلئے کسی کتاب کا نام نہیں لے پائے۔
منکیرہ آ گیا۔کچھ دیر کے لئے سواریوں کے ردوبدل کی وجہ سے گفتگو کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔
پھر چاچا جان نے سلسلہ وہیں سے شروع کیا۔اور مجھ سے پوچھا کہ آپ کس قوم قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔
میں نے کہا بھروں اور اکثر جگہوں پہ بھریوں پکارا جاتا ہے۔
چاچا جان نے کہا زمیندار قوم ہے کیا؟
میں نے مسکرا کر کہا جی زمیندار اور ہم حیدرآباد تھل اپنی زمینوں پہ ہی جا رہے ہیں۔
چاچا نے ایک اور سوال داغ دیا کہ کیا بھروں یا بھریوں بڑی قوم ہے؟
میں نے بڑی کو تعداد کے تناظر میں لیا اور کہا جی ہاں میانوالی، خوشاب اور لیہ میں خاطر خواہ تعداد میں آبادہیں۔
چاچا جان کی سوئی کیونکہ کتاب پہ ہی اڑی ہوئی تھی انھوں نے کہا تمھاری قوم کا نام کتابوں میں ہے؟
مجھ سے شاید جواب بن پاتا یا نہ بن پاتا لیکن کزن نے برق رفتاری سے جواب دیا کہ چاچا کتابوں کا تو نہیں پتا البتہ ہماری قوم کا نام کاپیوں میں ضرور لکھا ہوا ہے۔
کزن کے اس جواب سے میں بے اختیار ہو کر قہقہے لگاتا رہا۔
چاچا جان سمیت اگلی سیٹ پہ موجود سواریاں پیچھے مڑ مڑ کر مجھے تکے جا رہی تھیں اور میں کھلکھلا کر ہنس رہا تھا۔
سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کتابیں پڑھنے کا ذوق تو ہم میں سرے سے ہی موجود نہیں ہے لیکن کتابوں میں موجود تاریخ سے ہم سبق سیکھنے کی بجائے صرف ذکر کو قابل فخر گردانتے ہیں۔اجتماعی طور پہ ایک گروہ کے طور پہ اور انفرادی طور پہ کسی گروہ یا قبیلے کے فرد کے طور پہ ہم صرف اپنی تاریخی حیثیت پہ اترانے کے ہی قابل رہ گئے ہیں۔ہمارے نزدیک کسی بھی قوم کو بڑا سمجھنے کا میعار اسکی موجودہ تعداد اور تاریخ میں موجود اسکے حوالہ جات اور افسانوی حدوں تک قصوں پہ مبنی ہے حالانکہ اسکو کو کسی قوم کی معاشرے کی بہتری و ترقی کے لئے اجتماعی اور مثبت عملی کردار کو ہونا چاہیے۔
ایک زمیندار خاندان کا نوجوان جو اگر دوسری، تیسری نسل سے بیکار ہے اور غریب مزارع یا مزدور کا استحصال کرتا آ رہا ہے تو وہ کیونکر اس نوجوان سے بہتر ہو سکتا ہے جو کئی نسلوں سے خون پسینے کی کمائی کھاتے آ رہے ہیں، محنت میں عظمت ہے، گنگناتے آ رہے ہیں۔
کیونکہ جینا تو عمل کے میدانوں میں ہوتا ہے تاریخ میں تو صرف مدفن ہوتا ہے۔