HEADMASTER AMANULLAH KHAN

HEADMASTER AMANULLAH KHAN

“‘ ہیڈ ماسٹر امان اللہ خان مرحوم کی تعلیمی خدمات””


تحریر=امدادخان ترگوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان کی زبان اور عمل کے پیچھے اس کی پوری شخصیت پوشیدہ ہوتی ہے۔بظاہر انسان کتنا ہی پرکشش،جاذب نظر دکھائی دے،اس کی اصل حقیت کا تعین اس کے اسلوب اور اظہار ہی سے ہوتا ہے اوریہی شخصیت کو نکھارنے میں اہم کردار بھی ادا کرتے ہیں،ہمارے ارد گردبہت سے لوگ بستے ہیں لیکن ان کی پہنچان اور حوالہ عمومی طور پر لوگوں پر مخفی رہتا ہے،وہ ان کے درمیان رہ کر بھی گمنام زندگی گزار دیتے ییں،دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کامیاب لوگ اپنی دنیا آپ بناتے ہیں اور پھریہ بھی حقیقت سے قریب تر مفروضہ کہ ہر پیدا ہونے والہ بچہ انفرادی عمل کا آئینہ دار ہوتا ہے۔۔
اگر ہم دنیا میں قوموں کی تعمیر و ترقی،معاشی و معاشرتی انقلابات کا مطالعہ مشاہدہ کریں تو ان قوموں اور شخصیات کی کامرانیوں کے پیچھے کوئی نہ کوئی رومال ماڈل ضرور نظر آئے گا،جو اس کی شخصیت اور کردار سازی کا محور اور بالغ نظری کا منبع ومرکز ہو گا۔ہمارے معاشرے میں بھی ایسے بہت سے افراد بستے ہیں جوبظاہر اعلی تعلیمی اسناد کے حامل نہیں،لیکن مجلسی علم اور اعلی صحبت کے زیر اثر شعور وآگہی،مثبت تنقیدی و فکری سوچ سے آراستہ وپیراستہ ہیں۔جو اپنی زندگی کو ایک مقصد کے لئے گزارنے کا تعین کر لیتے ہیں۔جو مخلوق خدا کی خدمت میں پیش پیش ہوتے ہیں،انہیں محسن انسانیت کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
25جون 1940میں مقرب خان کہ ہاں ایک بچے کی ولادت ہوئی چھ بہنوں کے اکلوتے بھائی کی پیدائیش کتنی اہمیت کی حامل ہوتی ہے یہ صرف وہی بہنیں اور بچے کے ماں،باپ بہتر محسوس اور جان سکتے ہیں جن کا کوئی بھائی/بیٹا نہیں ھوتا۔پیدائیش کہ موقعہ پر بتایا گیا کہ اس دور میں پشاوری گڑ کی بڑی قدر تھی،خیر قدر تو آج بھی ہے چینی کے مقابلے کافی مہنگا ہے دوسرا خالص پشاوری گڑ ملنا بھی نایاب ہو گیا ہے۔۔لوگوں اور اہل محلہ میں گڑ اور پتاشے بانٹے گئے۔
صلح و مشورے سے بچے کا نام امان اللہ خان رکھا گیا،ہمدردی اور محبت کا جزبہ ورثے میں ملا،علم سے شروع سے ہی لگاو تھا،مالی حساب سے ان کا گھرانہ خوشحال تھا۔ والدین کو امان اللہ خان کو سکول بھیجنے میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ ذہین تھے ہر کلاس میں تقریبا پوزیشن لیتے۔میٹرک امتیازی نمبروں سے پاس کی،پھر شاہ پور(خوشاب) سے ٹیچنگ کا کورس پاس کیا،ان دنوں ٹیچنگ کا کورس صرف شاہپور میں کرایا جاتا تھا۔بڑا مشکل دور تھا ٹریفک کی فراوانی نہ تھی،مگرامان اللہ خان مرحوم نےان مشکلات کے سامنے سر نہ جھکایا بلکہ ثابت قدم رہے اور کامیاب ٹھہرے۔محنت اور لگن کا جزبہ ہو تو کامیابی انسان کا مقدر بن جاتی ھے۔۔
ماشاءاللہ، بہت ہی خوبصورت منظر کھینچا – کیا کیا یاد کرا دیا لسوڑے کا درخت کتنا پیارا تھا میں 1975 سے 1981 تک اسی سکول میں پڑھا ہوں پانچویں کلاس میں ہیڈ ماسٹر صاحب نے وظیفہ کے امتحان کی خوب تیاری کروائی تھی صبح سے شام تک مصروف رکھتےتھے وظیفہ کا امتحان کالاباغ میں ہوا تھا ہیڈ ماسٹر صاحب خود دو دن ساتھ رہے اللہ تعالیٰ نے کامیابی دی اور وظیفہ لینے میں کامیاب ہوا یہ سب ہیڈ ماسٹر صاحب کی محنت کا نتیجہ تھا اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین

1987میں جب پرائمری سکول ترگ،،مڈل سکول بنا تو آپ کا تبادلہ گونمنٹ پرائمری سکول مانجھی خیل میں ہوا اور وہاں بھی بطور ہیڈ ماسٹر اپنی خدمات سر انجام دیں۔واضع رہے کہ یہ سکول سنٹر مانجھی خیل سکول کے نام سے مشہور تھا۔متعدد سکول اس کے ماتحت کام کرتے تھے۔اور آپ سب کی نگرانی کرتے تھے۔
گورنمنٹ پرائمری سکول مانجھی خیل کو صحیح معنوں میں بام عروج تک پہنچانے میں آپ کا کردار مثالی رہا۔ہر سال پنجم کا وظیفہ بچے اس سکول میں حاصل کرتے رہے،اس دور میں کامیاب سکول کی پہنچان یہی وظیفے کی صورت میں دیکھی جاتی۔یہاں بھی ہیڈ ماسٹر صاحب نے اپنی صلاحیتوں کو باروئے کار لاتے ہوئے سکول و تعلیم کی ترقی کے لئے اہم کردار ادا کیا۔تعلیم پر آپ نے کبھی سمجھوتہ نہ کیا۔اور نہ ہی چاپوس اور خاشامدی کو اپنے قریب آنے دیا۔ اور نہ ہی ایسے لوگ ان کو پسند تھے۔اچھے ٹیچرز فرض شناس کی خوب قدر کرتے،آپ کھرے اور کھوٹے کی پہنچان رکھتے،
گورنمنٹ مانجھی خیل سکول کا اسٹاف بھی امیزنگ ان کو ملا۔جن کی بدولت تعلیم کی کامیابی کا سفر پوری آب وتاب کے ساتھ جاری و ساری رہا۔ان اسٹاف کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں۔۔۔سرعمرخان،مانجھی خیل۔سر محمد نواز خان محمد خیل۔،.سر ملک فیض محمد بھمب ۔۔۔سر غلام مصطفے خان مرحوم رانجھے خیل،سر محمد فاروق خان،کالا، سر منظور احمد خان گجری خیل، سر اقبال اصغر خان رشیدے خیل، سر فیض محمد شاہ،قرشی،،سر عزیز اللہ جھالار۔سر افضال ھاشمی،عیسی خیل،سر امیر محمد آرائیں۔وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؛
ہیڈ ماسٹر امان اللہ خان مرحوم کی ضلع و تحصیل سطح کے افسران بالا تک سبھی ان کی قدر اور عزت کرتے،جب بھی محکمہ تعلیم کے افسران کا تحصیل عیسی خیل کا دورہ ہوتا،مانجھی خیل سکول ترگ کا وزٹ ضرور کرتے،پھر آپ کی مہمان نوازی بھی کمال کی ہوتی،کھانا کھلائے بغیر ان کو واپس نہ جانے دیتے۔سخاوت میں بھی بتایا جاتا ہے کہ مشہور تھے۔مالی حساب سے پوزیشن اچھی تھی،خوب خاطر تواضع اپنی جیب سے کرتے،اسٹاف میں بھی ہر دل عزیز تھے۔غریب اور نادار بچوں کی مالی معاونت بھی دل کھول کر کرتے،سکول کا کام کرتے ہوئے کبھی عار محسوس نہ کرتے۔ایک دفعہ سکول کا پرانا کمرہ گر گیا،آپ اسٹاف کے ہمراہ اہل ترگ کےصاحب استطاعت لوگوں سے ملنے کے لئے ڈور ٹو ڈور گئے۔اور اس مسئلے سے آگاہ کیا،جب تک کمرہ بن نہ گیا آپ نے ہمت نہ ہاری اور آرام سے نہ بیٹھے۔آپ ایک تنظیمی لحاظ سے بھی سر گرم رہتے تھے۔اساتذہ کرام کے مسائل حل کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے تھے۔
اس دور میں ہیڈ ماسٹرز کے بڑے اختیارات ہوتے،،سبھی ان کی قدر کرتے تھے،ان کے دور میں زیر سایہ پڑھنے والے بچے،استاد،ڈاکٹر ،شاعر،ادیب،انجینئرز غرض ہر ادارے میں کام کرتے ہوئے آپ کو نظر آئیں گے۔بچوں سے بے حد شفقت فرماتے،پڑھانے کا انداز بھی منفرد تھا۔سکول اسٹاف کی بہت قدر کرتے،کہا کرتے تھے یہ میرے زور بازو ہیں ان اسٹاف کے بغیر میں کچھ بھی نہیں ہوں۔تعلیم کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں ان کے بچے کمال کے ہوتے،مختلف کھیلوں میں ھی ان کے بچے ضلع و تحصیل میں انعامات حاصل کرتے۔۔۔ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیڈ ماسٹر امان اللہ خان مرحوم بالا آخر مانجھی خیل سکول کو بام وعروج تک پہنچانے کے بعد جون 2000 کو اپنے عہدے سے عزت،وقار کے ساتھ سبکدوش ہو گئے۔سکول اسٹاف نے ان کے اعزاز میں الوداعی شاندار تقریب منعقد کی جن میں شہر کی چیدہ چیدہ شخصیات کو بھی مدعو کیا گیا۔ معزز شخصیات نے ان کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ تقریب کے اختتام پرتمام اسٹاف عزت،وقار کے ساتھ امان اللہ خان مرحوم کو ان کے گھر چھوڑنے گئے۔اس طرح یہ درخشاں ستارہ اپنے فرائض منصبی سےبڑی شان کے ساتھ ریٹائر ہوا۔۔امان اللہ خان مرحوم وہ ہیڈ ماسٹر تھے جہنوں نے ساری زندگی تعلیم کی خدمت کی۔اور آخر دم تک اسی کوشش میں اپنی زندگی صرف کی۔ مانجھی خیل سکول میں آج بھی وہ کرسی ہیڈ ماسٹر منظور احمد خان نے سنبھال کر رکھی ہوئی ہے جو امان اللہ خان مرحوم کے زیر استعمال میں رہی۔۔ ان کی علم سے محبت کی وجہ سے۔۔۔ایسے لوگ عظیم اور امیزنگ پاکستان کہلاتے ہیں۔
بالا آخر ہیڈ ماسٹر امان اللہ خان 30 اپریل 2010 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ان کے جنازے میں کثیر تعداد لوگوں کی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی شرکت کی۔۔

“””مختلف شخصیات کی آراء ہیڈ ماسٹرصاحب مرحوم کے بارے میں””
سر محمد خان GHS ترگ=امان اللہ خان مرحوم بہت ہی محبت کرنے والے انسان تھے۔مجھے ان کی محبت ساری زندگی نہیں بھولے گئی،اور میرے استاد بھی تھے۔ہم ان کو ماموں کہ کر پکارتے بلکہ سگے ماموں جیسے تھے۔۔۔۔۔۔خاص کر ان کی ایک بات ہمیشہ یاد رہے گی جب میری پہلی تنخواہ آئی چار ماہ کی اکٹھی تو میں اس وقت گھر پر موجود نہیں تھا،کسی کو نہیں دی فرمایا میں خود اسے دوں گا اور پہلی تنخواہ کی خوشی اس کے چہرے سے دیکھنا چاہتا ہوں۔اللہ تعالی ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔آمیں۔
سر خورشید احمد شاہ ہیڈ ماسٹر GPS موسی خانہ آباد ترگ=امداد صاحب آپ کا خوبصورت لوگوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ بہت اچھا ہے۔اچھے لوگ کبھی مرتے نہیں،ہمیشہ زندہ رہتے ہیں،دلوں میں بھی اور یادوں میں بھی۔ہیڈ ماسٹر امان اللہ خان مرحوم سے میرا دو طرح کا تعلق رھا۔وہ میرےاستاد محترم تھے پرائمری سکول کے۔ یقین کریں میری زندگی میں اگر کوئی با کردارٹیچر کا تصور ابھرتا ہے تو وہ امان اللہ خان مرحوم ہیں۔ایک واقعہ یاد آیا آپ سے شیئر کرتا جاوں استاد محترم جوانی میں سگریٹ بھی پیتے تھے لیکن سکول یا کلاس میں کبھی بھی انھوں نے سگریٹ نہ پی۔۔ایک دفعہ خالی کمرے میں چھپ کر سگریٹ پی رہے تھے،میں کسی کام کے لئے چھٹی لینے کمرے میں چلا گیا انھوں نے تیزی سے سگریٹ پھینک دی۔تاکہ شاگرد کو محسوس بھی نہ ہو کہ وہ سگریٹ پی رہا ہے۔بہترین ٹیچر بھی تھے۔ سکول ٹائم کے بعد بچوں کو فری ٹیوشن پڑھاتے،ان سے میرا دوسرا تعلق بطور ٹیچر رہا وہ ہمارے ہیڈ تھے،حا لات پر کڑی نگاہ رکھتے،پڑھانے اور نہ پڑھانے والے ٹیچر میں فرق رکھتے تھے۔ افسران بالا سے تعلق جوڑے رکھتے۔۔اللہ تعالی استاد محترم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے،اور آخرت کی منازل آسان فرمائے۔آمین۔

سر منظور احمد خان ہیڈ ماسثرGPS بحثیت معلم امان اللہ خان کی شخصیت۔ مانجھی خیل ۔۔۔۔وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کہ مالک تھے۔وہ نہ صرف طلباء سے محبت و شفقت سے پیش آتے بلکہ غریب اور مستحق طلباء کو تعلیمی عمل میں مالی معاونت بھی کرتے۔اپنے اساتذہ کا حوصلہ بڑھاتے،ان کوشاباش دینا ان کا خاص وصف تھا۔ان کے اس وصف کی بدولت اساتذہ میں تدریس کے ساتھ لگن اور زیادہ پیدا ہوتی۔اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے۔آمین۔
سر محمد فاروق خان (ر) ٹیچرGPS مانجھی خیل=امان اللہ خان مرحوم پانچویں کلاس میں میرے استاد تھے پھر پرائمری سکول مانجھی خیل میں بطور ٹیچر ان کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا۔ان سے بہت کچھ سیکھا۔بہت ہی اچھے ٹیچر اور اچھے ہیڈ ماسٹر اور بہت ہی مخلص یونین لیڈر تھے۔اساتذہ کے مسائل کے حل کرنے میں بہت کوشش کرتے،اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے اور جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔آمین۔
سر نثار حسن خان نیازیGPS, وانڈھی بھمبانوالی=امان اللہ خان صاحب سے پڑھنے والے بہت سےطلباء محکمہ تعلیم سمیت بہت سے دوسرے اداروں میں کام کر رہے ہیں،امان اللہ خان سے ہم تیسری جماعت میں پڑھا کرتے تھے،صدام حسین خان جالندھر خیل،سہیل احمد خان مانجھی خیل،اویس شاہ کلرکGHSترگ، اور مجھ سمیت گورنمنٹ اور پرائیویٹ اداروں میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔اللہ پاک امان اللہ خان مرحوم کی مغفرت فرمائے۔آمین

سر محمد اقبال خانGESمہر شاہ والی ترگ=امان اللہ خان مرحوم بہت اچھے انسان تھے ۔سکول ٹائم کے بعد کلاس لیتے بغیر فیس کے،سکول کی تعمیر وغیرہ کی خود نگرانی کرتے،مانجھی خیل ترگ میں ہیڈ ماسٹر رہے اور سکول کا نظام بدل کر رکھ دیا ۔۔۔ہر لحاظ سے سکول کا نام روشن اور بلند کیا۔بہت ہی مخلص انسان اپنے پیشے سے محبت کرنے والے۔۔۔۔۔اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے۔آمین۔
سر عابد رضاخان صاحب =استاد محترم نہایت ہی نفیس۔۔ شریف النفس انسان اور کڑک دار لہجے کے مالک تھے۔اور خاص بات سگریٹ پینے کا انداز منفرد تھا،اب ایسے لوگ کہاں۔۔۔۔اللہ پاک اس ربیع الاول مہینے کے صدقے سرکارو دوجہاں کی افاضت عطا فرمائے۔آمین۔
سر محمد رمضان خان نیازی مانجھی خیل( ر) ٹیچر GHS ترگ=میرے ساتھی تھے۔ ہم نے شاہ پور (سرگودھا) میں ایک ساتھ ٹیچنگ کا کورس کیا،امان اللہ خان مرحوم ایک محبت کرنے والے،ہمدرد،انسان تھے۔وہ ٹیچر اور ہیڈ ماسٹر بھی کمال کہ رہے۔اپنے پیشے سے مخلص تھےایک اچھے ہیڈ کی جو خوبیاں ہوتی ہیں وہ سب ان میں موجود تھیں۔وہ تمام اساتذہ کی قدر کرتے۔۔اللہ تعالی امان اللہ خان کی مغفرت فرمائے۔آمین۔
جیند نیازی راولپنڈی= امان اللہ خان مرحوم بہت اچھے ٹیچر کے ساتھ بہت اچھے ہیڈ بھی تھے۔میرے والد محمد اسلم خان نیازی کے بہت گہرے دوست تھے۔نفیس انسان تھے۔لباس کے معاملے میں بھی خوب اپنا خیال رکھتے تھے۔ میرے والد صاحب جو بھی نئی جرسی یا کپڑا خوبصورت پہنتے۔والد صاحب سے کہتے یہ بہت اچھا ہے کہاں سے خریدا ہے۔پھر اس طرح امان اللہ خان بھی وہ کپڑے یا جوتے جس کلر کا پسند ہوتا لے لیتے۔اللہ پاک امان اللہ خان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔آمین-

ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top