روکھڑی —- میانوالی شہر سے شمال مغرب کی طرف دریائے سندھ کے مشرقی کنارے واقع ہے ۔ اس کا فاصلہ یہاں سے 10 کلومیٹر ہے ۔ اس کی کوئی واضح جہ تسمیہ معلوم نہیں ہو سکی ۔ آثار قدیمہ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ ایک اہم تاریخی مقام ہے ۔ روکھڑی کا تعلق کسی خاص زمانے یا تہذیب سے نہیں بلکہ اس میں کئی زمانے اور کئی تہذیبیں دفن ہیں ۔ روکھڑی میں ایک ساتھ کئی ٹیلے موجود ہیں ۔ مغرب میں ایک بہت بڑا ٹیلہ جو ۱۵۰ افٹ لمبا اور ۱۰۰۰ فٹ چوڑا ہے یہ واضح طور پر بدھوں کے دور سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس کے شمال میں ۲۵۰ فٹ کا ایک اور ٹیلہ موجود ہے ۔ یہاں پر کئی ایسے آثار دریائے سندھ کی چیرہ دستیوں کی نذر ہو چکے ہیں ۔ یا تو وہ زمین کی تہوں میں دفن ہیں یا دریائے سندھ ان کے نام و نشان تک بہا کے لے گیا ہے ۔ روکھڑی بنیادی طور پر بدھ تہذیب کا مظہر ہے ۔ یہاں ماضی میں ایک شہر نہیں تھا ۔ بلکہ ٹیکسلا کی طرح بدھوں کا کمپلیکس تھا۔ کبھی کبھار دریائے سندھ کی طغیانی اور عام طور پر بارشیں اس   کے اسرار سے پردہ   اٹھاتی رہتی ہیں ۔

روکھڑی تاریخ کی دسترس میں اس وقت آیا جب ۱۸۳۸ء میں یہاں سے بڑے سائز کی ایک اینٹ ملی۔ اس اینٹ کا ذکر ۱۸۶۸ء میں پر شیلے نے کیا۔ اس پر سرائیکی زبان میں ایک شعر کی شکل یہ میں تحریر کندہ تھی ۔ یہ تحریر مقامی برہمن نے پڑھی ۔ جس کا ترجمہ سرالیگزینڈر مسلم نے ۷۹-۱۸۷۸ء کی پنجاب کے دورے کی  رپورٹ میں چھایا ۔ شعر یہ تھا:

سل تھا پو تھا یہاں عبدو نام کمہار بال تلاں دی پاکھیاں سلطان سکندر دیوار

برہمن بھی اور سلطان سکندر حکیم صمد میں عبد و کمبھار نے انہیں بنائیں اور انہیں تلوں کی خشک جھاڑیوں پر پکایا ۔ مسلم کو برہمن پر اعتراض تھا کہ اس نے تحریر صحیح نہیں پڑھی اور ترجمے میں علاقائی روایت کے مطابق اس مضبوط دیوار (سد سکندری) کا ذکر کیا ہے جو سکند راہی عظیم فرمانروائی مقدونیہ نے بنوائیں تھی ۔ غلطی پر دونوں تھے۔ سلم بھی ۔ سلم سلطان سکندر کو سکندر اعظم سمجھ بیٹھا اور برہمن لفظ دیوار کی الماء کو درست نہ پڑھ سکا۔ لفظ دیوار اوٹ یا پختہ پردہ کے مفہوم میں نہیں ۔ اس سے مراد سرائیکی زبان کا لفظ دی وار ہے ۔ جو شاید روز کے مطابق اکٹھا لکھ دیا گیا تھا ۔ اس لفظ کا مطلب بار ، عمد یا زمانے کے ہیں ۔ گویا یہ اینٹ سلطان سکندر کے زمانے میں بنائی گئی ۔ حیات افغانی کا مصنف محمد حیات خان کهنز اس مفہوم کی تصدیق کرتا ہے اور اس نے اس لفظ کی الما بھی دیوار کی بجائے دی وار لکھی ہے ۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ اس اینٹ کی تیاری مسلمانوں کے عہد حکومت میں ہوئی ۔ اس اینٹ کا بنانے والا مسلمان ہے جس کا نام عبدو ، عبدل یا عبد اللہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ کس سلطان سکندر کے عہد میں بنائی گئی ۔ سکندر اعظم کو چھوڑ کر مسلمانوں کی تاریخ میں کم از کم تین سلطان ایسے گزرے ہیں جن کا نام سکندر تھا ۔ ان میں پہلا سلطان سکندر تغلق خاندان سے تعلق رکھتا تھا وہ محمد شاہ سوم کا بیٹا تھا ۔ اس کا عہد حکومت ۱۳۹۲ ء ہے ۔ دوسرا سکندر لودھی تھا جو ابراہیم لودھی کا بیٹا تھا وہ ۱۳۸۸ء میں حاکم بنا ۔ تیرا سلطان سکندر ابراہیم سوری کا بیٹا تھا اس نے ۱۵۵۴ میں حکومت کی ۔ موخر الذکر دونوں سکندر پٹھان قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور دریائے سندھ کے کناروں پر آباد پٹھان ان کی طاقت کا سرچشمہ تھے اس لئے یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ اینٹ دونوں میں سے کسی ایک کے عہد حکمرانی میں بنائی گئی ۔ حیات انسانی کے مصنف محمد حیات خان کھنڈ کا کہنا ہے کہ یہ دور سکندر لودھی کا تھا اس کا تعلق بہلول لودھی کے خاندان سے تھا اور ان کا وطن دریائے سندھ کا مغربی کنارا عمر خیل کڑی جسور وغیرہ تھا چنانچہ اس کے دور میں ایسی عمارتیں بنائی گئیں جن میں عبدو کمبھار کی اینٹیں استعمال کی گئیں۔ اس اینٹ کو ساڑھے چار سو سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے ۔ اس کی اہمیت اس وجہ سے بھی   ہے کہ اس پر سرائیکی زبان کا شعر موجود ہے ۔ اس زمانے میں ایک عام آدمی بھی اپنی ماں بولی میں شعر کہنے پر دسترس رکھتا تھا۔ عبد و کمبھار کی بنی ہوئی اسی قسم کی اینٹ میانوالی سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر مشرق میں نانگنی کے گاؤں سے ملی ہے ۔ تحریر اور اینٹ تو راقم الحروف کو دستیاب نہ ہو سکی ۔ البتہ یہ بڑے سائز کی اینٹ محفوظ ہے ۔ نانگنی میں ایک قلعہ کے آثار اب بھی موجود ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں پر راجہ سالونے کو کلارانی کے لئے ایک محل تعمیر کروایا تھا ۔ یہ قصہ سرکپ دور کا ہے ۔ اینٹ سے پتہ چلتا ہے کہ سولھویں صدی عیسوی تک اس علاقے کو تاریخی لحاظ سے بڑی اہمیت حاصل رہی  ہے۔

روکھڑی میں اس اینٹ کے انکشاف کے بعد دریائے سندھ نے طغیانیوں۔ کے ذریعے تاریخی رازوں سے پردہ اٹھانا شروع کر دیا ۔ ۱۸۶۸ء میں مشرقی کنارے نشانہ بنے ۔ دریا کے اس تخریبی عمل سے پرانی عمارات سٹوپے بدھ کے مجسمے وغیرہ ظاہر ہونے لگے دو حدود دیواریں منصہ شہود پر ابھریں جن کے ساتھ سنکو (Stucco) چونے کے بنے ہوئے گو تم بدھ کے خوبصورت مجتمے ، تانبے کے سکے اور عام استعمال کے مٹی کے برتن پڑے ہوئے ملے ۔ مسٹر پر سیٹلے نے یہ چیزیں جمع کیں ۔ مسٹر پر مسٹلے نے اینٹوں کے دو ستون بھی دیکھے جو روفٹ آٹھ انچ اونچے تھے اور ان کا قطر دو فٹ اور اڑھائی انچ تھا ۔ وہاں سے سنگ سرخ کی سلیں بھی ملیں۔ اس جگہ سے ملنے والے سکوں کا تعلق کشان شاہان دیما کیڈ نیز اور واس دیو کے عمد سے لے کر سمت دیو کے عمد )Vima Kadphases( تک چلا جاتا ہے وماکڈ فیز کا تعلق پہلی صدی عیسوی اور سمنت دیو کا نویں صدی عیسوی سے ہے پنجاب گز میٹیئر میں کھدائی کے دوران برآمد ہونے والی چھوٹی دیواروں ، پرانے سکوں، اینٹوں ، برتنوں اور مٹی کے پانیوں کا ذکر موجود ہے۔ ۱۸۶۸ء کی طغیانی کے دوران حاصل ہوئے گوتم بدھ کے مجھے جنوری اور مارچ ۱۸۶۹ء میں مسٹر پر سیٹلے اور اجرٹن کے ذریعے لاہور کے عجائب گھر میں پہنچے اس سال ساکا اور اسلام کے اولین دور کے سکے ملے مگر اب وہ عجائب گھر میں موجود نہیں ۷۹-۱۸۷۸ء میں اس رپورٹ کی ۱۹۱۵ء میں میانوالی گز شیر میں تفصیل موجود ہے۔ اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ روکھڑی میں دو دیواریں نظر آئیں ۔ بیرونی دیوار کے پاس اینٹوں میں کنگم نے اپنی رپورٹ میں روکھڑی کا ذکر کیا اور  کے دوستون ملے یہاں گو تم بدھ کے مجتنے دستیاب ہوئے ۔ ان دیواروں کی پیمائش پنجاب گورنمنٹ گزٹیئر میں درج ہے کہ اندرونی دیوار ۲۵ فٹ اور بیرونی ۳۸ فٹ ہے مگر دونوں دیواروں کے درمیان فاصلہ نہیں بتایا گیا ۔ کنکم لکھتا ہے کہ اندرونی گول دیوار کا قطر ۲۴ فٹ اور بیرونی دیوار کا ۴۰  فٹ ہے اور ان دونوں حدود دیواروں کے درمیان ۸ فٹ کا فاصلہ موجود ہے اندرونی دیوار کا تعلق سٹوپا سے ہے اور بیرونی اس کا احاطہ کرتی ہے ۔ دونوں دیواروں کے درمیان فاصلہ یاتریوں کے طواف کے لئے رکھا گیا تھا۔ بدھ مت میں مقدس مقامات کا طواف شامل ہے ۔ کم مزید لکھتا ہے کہ روکھڑی کے اس سٹوپا کا قطر تخت ہائی اور جمال گڑھی کے سٹوپا کے قطر سے کسی طرح کم نہیں ۔ حدود دیواریں بڑی بڑی اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں۔ یہ تمام جگہ پانی کی تمہ تک کھودی گئی-بنیادیں وہاں تک موجود تھیں۔

۱۹۲۵ء میں دریا نے ایک دفعہ پھر روکھڑی کا رخ کیا ۔ بڑے مغربی ٹیلہ سے شمال کی جانب آدھ میل کے فاصلہ پر موجود ٹیلہ دامن کشا ہو گیا۔ میانوالی کے ایس پی مسٹری ۔ ایف – لک نے اس نئی دریافت سے مادھو سروپ واٹس کو آگاہ کیا ۔وہ نئی دریافت ایک سٹوپا تھا اس کے بارے میں مسٹرواٹش لکھتا ہے : اگست ۱۹۲۵ء کے آغاز میں یہ سٹوپا صرف بنیاد تک پانی میں ڈوبا ہوا تھا اور ۲۵ اکتوبر کو جو چار سیڑھیاں نظر آ رہی تھیں اگست میں نظروں سے اوجھل تھیں ۔ مغربی کونے میں طاقچے میں بودھی ستوا کا ایک بے سر مجسمہ موجود تھا جو کلائی سے اوپر بازو بند پہنے ہوئے تھا ۔ مگر شمال اور مشرقی کی جانب اس سے ملنا جاتا کوئی مجسمہ موجود نہیں تھا ۔ حالانکہ یہ دونوں اطراف آمنے سامنے ہیں سٹوپا کا گول پائیدان دو سیڑھیوں پر مشتمل ہے جس کے محیط پر کور تین (Corinthian) ڈیزائن کے بہت سے چوکھٹے بنے ہوئے ہیں۔ بدھی ستوا چوکھٹے کے سامنے میڑھے سیڑھیاں  نی ہوئی ہیں جو پانی میں ڈوبی ہوتی ہیں ۔ ایک غوطہ خور نے بانس کی مدد سے گن کر بتایا کہ ان کی تعداد تقریبا چودہ ہے ۔ اس تعداد کو صحیح سمجھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ سٹوپا کا فرش اوپر والی سیڑھی سے تقریباً ۲ ارما فٹ ہے ۔ سیڑھی کی اونچائی و انچ ہے چوکور بنیاد کے اوپر کا حصہ ایک کارنس کی شکل کا ہے جس میں دندانے اور قوسیں بنی ہوتی ہیں ان پر بڑی صفائی سے چونے کا مسالہ لگایا گیا ہے جو سارے سٹوپا میں استعمال ہوا ہے جس کے آثار گول پائے اور گنبد پر اب بھی موجود ہیں ۔ یہ ساری عمارت کنجور پتھر سے بنائی گئی ہے۔ یہ پھر سیکیسر سے لایا گیا ہے جو میانوالی سے مشرق کی طرف تقریباً میں میل کے فاصلے پر موجود ہے۔ اس سٹوپا کے جنوب مغربی کونے میں ایک اور چھوٹا سا اینٹوں کا بنا ہوا سٹوپا موجود ہے جو بعد کی تعمیر ہے۔ فرض کریں کہ یہ ایک باقاعدہ نقشہ کے مطابق بنایا گیا ہے تو سٹوپا کے وہ   ھے جو نظر آ رہے ہیں اس کا چبوترہ پینتیس فٹ کا ہے اور گول پایہ کا قطر تئیس نٹ کا ہے۔ اس کا کوئی حصہ پانی کے اندر نہ ہو تو پھر بھی اس کا باہر بڑے حجم کا ہے طرز تعمیر کے لحاظ سے اسے کشان دور کی تعمیر کہا جا سکتا ہے۔ جس گہرائی میں یہ سٹوپا موجود ہے یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ عیسوی دور کے آغاز پر یہاں دیوار کی سطح موجودہ سطح زمین سے بہت نیچی تھی ، مسٹر واٹس مزید لکھتا ہے کہ روکھڑی میں دیہاتیوں سے مجھے مٹی کی پکی ہوئی دو مورتیاں ملیں ایک کا چہرہ لمبوترا ، گھنی بھنویں ، خوفناک مونچھیں اور شعلہ بار آنکھیں ہیں کان میں ٹکتا ہوا ایک بڑا سا بالا ہے۔ دوسری مورتی کی مشکل کشانوں سے ملتی ہے۔ اس کا انداز نشست بھی یورپیوں جیسا    ہے۔ مورتی کی پشت پر کشان دور کی آرائش صاف نظر آرہی ہے ۔ مسٹر واٹس نے جہاں بدھوں کی یہ مقدس عمارت پانی کے کچھ اندر اور کچھ    باہر دیکھی وہاں اسے مختلف رنگوں کے برتنوں کے ٹکڑے بھی ملے

 ۔ یہ برتن رنگ ، آرائش اور موٹائی میں مختلف تھے۔ اس کے علاوہ سیپ کی چوڑیاں ، پہلودار منکے اور دوسرے پتھر بھی ملے۔ یہاں سے ملنے والی اینٹیں ۱۲ ۱۸ ۳۷۱۰ اور ۱۴     ۲۹ سائز کی ہی تھیں۔تنظم اور واٹس کے بیانات سے، صاف ظاہر ہے کہ وہ مختلف سٹوپوں کا    ذکر کر رہے ہیں ۔ یہاں ایک سٹوپا نہیں کئی سٹوپے تھے ۔ جو باتو مٹی کی تہوں میں پوشیدہ ہیں یا دریا کی طغانیوں کی نذر ہو گئے ہیں۔ واش ک

ے بیان کردہ سٹوپا کا ذکر محفوظ یاد گاروں کی فہرست میں موجود ہے۔ یہ فہرست ۱۹۸۷ء میں پاکستان کے محکمہ آثار قدیمہ نے چھاپی لیکن آج کل روکھڑی میں کسی بھی سٹوپا کے آثار موجود نہیں ہیں ۔ متذکرہ سٹوپوں کی مدد سے یہ بات کافی یقین کے ساتھ کسی جا سکتی ہے کہ روکھڑی میں بدھوں کی مقدس عمارات کا ایک سلسلہ موجود تھا اور روکھڑی گویا ایک بدھ کمپلیکس تھا۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی ۔ روکھڑی میں قیمتی نوادرات کے خزانے دفن ہیں اور وقتا فوقتا” ان کا سراغ ملتا رہتا ہے۔ بارش کے دنوں میں روکھڑی کے ٹیلے کئی قدیم اشیاء کو اگل دیتے ہیں ۔ حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہاں سے ملنے والی چیزیں یا تو ضائع ہو رہی ہیں یا چالاک لوگ انہیں معمولی داموں خرید کر سمگل کر دیتے ہیں ۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جنہیں ان تاریخی اشیاء سے دلچسپی ہے ان میں ایک نام نوجوان آصف خان کا ہے ۔ وہ روکھڑی کا رہنے والا ہے ۔ چنانچہ اس نے بے شمار مجسمے مورتیاں روزمرہ استعمال کے برتن وغیرہ جمع کر لئے ہیں اور ان  کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔آصف خان کے پاس زیادہ اہم دو مہریں ہیں جن پر غالبا دیوناگری رسم الخط     میں کوئی تحریر ہے جسے پڑھا نہیں جا سکا ۔ مختلف چیزوں پر جو شکلیں اور علامتیں موجود ہیں ان میں آریاؤں کا نشان سواستیکا ترشول کی مختلف شکلیں ، دائرے و غیره قابل ذکر ہیں ۔ راقم الحروف کے پاس منکو ، مٹی اور پتھر کے مجتمے اور مورتیاں ہیں ۔ گوتم بدھ کا ایک مجسمہ چھونے اور ایک پتھر کا ہے ۔ مٹی کے روز مرہ کے استعمال کے برتنوں کے علاوہ گھوڑوں بیلوں وغیرہ کے لاتعداد کھلونے ہیں ۔ ایک خوبصورت چیز غالبا” کسی سٹوپا کا ماڈل ہے۔ یہ مٹی کا بنا ہوا ہے اور بناوٹ میں گول ہے اس کے دو طرف نیچے سے اوپر جاتے ہوئے دو اڑ رہا بنے ہوئے ہیں۔ پھر کے مجتمے کی خاص بات اس کے دائیں طرف کھدا ہوا دھرم چکر ہے۔ یہ دھرم چکر گوتم بدھ کے پہلے وعظ کی نشانی ہے جو اس نے سارناتھ (بنارس) میں دیا تھا۔ یہ بدھ      مت کی تبلیغ کے آغاز کی علامت ہے ۔ یہ علامت اشوک نے رواج دی تھی اور گندھارا آرٹ کی شناعت کی بھی علامت ہے ۔

سر جارج میکن گندھارا کے بارے میں رقمطراز ہیں :

 

 

 

 

“But even with this come and go of races many of the valleys, and especially those of the country east

of Kabul, retained for the great part their Hindu Hillmen. In fact, Kabul, Kandahar, Gandhara, the Kurram, the Derajat, and Yusufzai were all integral parts of Hellenic of Indian kingdoms, and occupied by the same people as held the Punjab and the Gangetic plain-viz. the earlier Aryan invaders from across the   Oxus.”(Sir George Macmunn, Afghanistan from Darius to Amanullah, Sang-e-Meel Publication, Lahore, 2002 p.II)

گندھارا آرٹ کیا ہے؟ یہ وہ فن سنگتراشی ہے جو یونانی ، روم اور ایران کے اثرات اور گوتم بدھ کی روحانی زندگی کے امتزاج کا مظہر ہے ۔ گندھارا موجودہ صوبہ سرحد اور ٹیکسلا پر مشتمل تھا ۔ یہاں پر پتھر وافر مقدار میں دستیاب ہونے کی وجہ سے سنگ تراشی کے فن کو بہت فروغ ملا ۔ چنانچہ گوتم بدھ کی زندگی کے مختلف ادوار کو پتھروں میں ڈھال کر لاقائی کر دیا گیا ۔ پنجاب اور سندھ میں پھر میسر نہ تھا اس لئے آگ پر پکائی ہوئی مٹی کی مورتیوں کو رواج ملا ۔ گندھارا آرٹ کا آغاز آخری صدی قبل مسیح میں پشاور سے ہوا اور ساتویں صدی عیسوی تک موجود رہا بہار (گیا) میں گوتم بدھ کی پوجا کنایہ ہوتی تھی ۔ مثلاً نشان پایا کاسہ گدائی یا اس درخت کی پوجا جہاں گوتم بدھ کو عرفان ہوا تھا ۔ اس کے بعد گندھارا میں گوتم بدھ کی پرستش کا آغاز ہوا اور یہاں پر گوتم بدھ کی خوبصورت مورتیاں اور پتھروں سے مجسمے بنائے جانے لگے ۔ راسخ العقیدہ بدھ گوتم بدھ ( شاکیہ منی ) کو قادر المطلق کی حیثیت سے پوجنے لگے سنگتراشی کی اعلیٰ روایات یونان سے آتی تھیں چنانچہ یونانی فن سنگتراشی نے بدھ مت کے ساتھ مل کر گندھارا آرٹ تخلیق کیا ۔ گوتم بدھ یونانی   دیوتا اپولو Apollo سے مانا جاتا ہے ۔

ہندوستان میں یونانی اثرات سکندر اعظم کے حملے سے پہلے ایران کے ذریعے یہاں پہنچنے شروع ہو گئے تھے ۔ ۳۲۷ ق ۔ م میں خود یہاں یونانی آپہنچے۔ سکندر اعظم کے جانے کے بعد یونانی اپنا اقتدار برقرار نہ رکھ سکے ۔ موریہ خاندان کا تیسرا بادشاہ اشوک ایک عظیم بدھ مبلغ کی حیثیت سے سامنے آیا اور اس نے بدھ مت کو سارے ہندوستان کا مذہب بنا دیا ۔ موریہ خاندان کے زوال کے بعد ۱۹۰ اور ۱۸۰ ق۔م کے دوران یونانی باختر کا بادشاہ ڈیمیٹریس (Demetrios) نے وادی سندھ اور سوراشٹر کو فتح کیا ایک اور باختری بادشاہ میندر نے ۱۵۰ ق۔ م میں اس علاقے میں اپنی حکومت قائم کی ۔ پار تھی بادشاہ متھری ونس نے ۱۳۸ – قم میں دو آب سندھ ساگر یعنی سندھ اور جہلم دریاؤں کے درمیانی علاقہ جس میں روکھڑی بھی شامل ہے پر قبضہ کیا۔ ٹیکسلا پار تھی حکومت کا دارالحکومت تھا ۔ پارتھیوں کے بعد ساکا جو پارتھی صوبہ سیستان میں مقیم تھے ۔ ٹیکسلا پر قابض ہو گئے یونانی حکمرانوں کے عہد اقتدار میں گندھارا آرٹ کی تخلیق ہوئی ۔ دوسری صدی کے آغاز پر کشان بادشاہ نے یونانی اقتدار کا خاتمہ کیا۔ گندھارا آرٹ نے کشان دور میں خوب فروغ پایا۔ ۴۵۶ میں سفید ہنوں کے حملے سے اس کی ثقافتی زندگی کی ترقی رک گئی لیکن اس آرٹ کے اثرات مابعد زمانے میں موجود رہے اور کے

یہ عرصہ مزید دو تین صدیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ روکھڑی سے ملنے والے گوتم بدھ کے مجتنے گندھارا آرٹ کا شکار ہیں

اور ٹیکسلا میں پائے جانے والے گوتم بدھ کے مجسموں سے میری مشابہت رکھتے ہیں روکھڑی کے یہ مجھے اس وقت لاہور عجائب گھر کے علاوہ کراچی کے نیشنل میوزیم میں موجود ہیں ۔ ان میں سے پانچ مجتمے اور ایک دینکر اجابک Jataka Dipankara کی پتھر کی سختی ۱۹۴۷ میں چندی گڑھ (بھارت) میں پہنچادی گئی ۔ روکھڑی سے مذہبی مجسموں کے علاوہ عام لوگوں سے متعلق اعلیٰ مجسمہ سازی کے نمونے بھی ملتے ہیں ۔ محتراشی کے یہ نمونے عام طور پر پہلی سے چھٹی صدی عیسوی کے شمار کئے جاتے ہیں ۔ روکھڑی کے یہ نوادرات کئی لحاظ سے مرکب ” جولیاں ”    مرہ مرادو (ٹیکسلا ) اور افغانستان کے ہڑا اور ہزارہ کے گڑھ موریاں اور ایک کے قریب مانسر کیمپ سے دو کلو میٹر جنوب مشرق میں واقع شاہ مور سے مشابہت رکھتے ہیں۔ ان علاقوں سے ملنے والے مجسموں وغیرہ کو سرجان مارشل نے انڈو افغان سکول آف آرٹ کا نام دیا ہے اور انہیں چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی کی تخلیق بتایا ہے ۔ اوپر کی تفصیل سے جیسا کہ ہم جان چکے ہیں کہ روکھڑی بدھوں کا کمپلیکس تھا ۔ یہاں سے ملنے والے گوتم بدھ کے مجسموں اور ان پر موجود علاقوں کا تعلق گندھارا تہذیب سے ہے ۔ اس کے باوجود روکھڑی کو گندھارا کی علاقائی حدود میں شامل نہیں کیا جاتا ۔ اس حوالے سے روکھڑی کا زمانہ دوسری صدی عیسوی یعنی کشان دور سے شروع کیا جاتا ہے اگر تاریخی حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو سکندر اعظم کے ۔ ساتھ ہی. میانوالی میں یونانیوں کے اثرات محسوس کئے جاسکتے ہیں ۔ میانوالی میں موجودہ پنیالہ اٹک یونانیوں کا پین کلائٹس تھا ۔ سکندر اعظم کا ایک باختری فوجی افسر آکسی آ ۔ ٹز پارا چنار سے دریائے کرم کے راستے اپنی کلائیٹس پہنچا تھا۔ موریہ خاندان کے زوال کے بعد ایک عرصے تک یہاں یونانیوں کی حکومت رہی یونانی باختری بادشاہ ڈیمیٹریس (Demetrios) نے ۱۱۰ اور ۱۸۰ ق ۔ م کے درمیان وادی سندھ پر فوج کشی کی اور بھڑیاونڈ کے تین سو سال بعد ٹیکسلا میں سرکپ شہر بسایا راکھش بھائیوں میں سے ایک کا قتل کیا تھا۔ جو انسانی گوشت کا رسیا تھا میانوالی کے علاقہ نمل ، موسیٰ خیل اور نانگتی وغیرہ میں سرکپ کے حوالے سے عام سننے کو کہانیاں ملتی ہیں ۔ یہاں ایسی قبریں موجود ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق سرکیوں سے ہے ۔ یہ قبریں خوبصورتی سے گھڑے ہوئے پتھروں سے بنائی گئی ہیں ۔ پارتھی بادشاہ متھری ونس نے باختریوں سے سندھ ساگر یعنی میانوالی کا علاقہ چھین لیا چنانچہ ان کا دارلحکومت بھی سرکپ یعنی ٹیکسلا رہا ۔ البتہ کڈ فیز اول Kad Phases – I جو کشان بادشاہ تھا، نے ٹیکسلا میں ایک نئے شہر سر سکھ کی بنیاد رکھی۔ کشان منگول تھے ۔ یہ قبیلہ یو ۔ چی کی ایک شاخ تھا کشان خاندان کا تیسرا بادشاہ کنشک تھا جو ۷۸ ۶ یا بقول مارشل ۱۲۰ء میں تخت نشین ہوا ۔

اس نے بدھ مت قبول کیا اور بدھ کی ماہیا نا شاخ کا پر جوش مبلغ بن گیا۔ پرش پورہ یا پشاور اس کا دار حکومت تھا۔ وہ پہلے آباؤ اجداد کی طرح مناظر فطرت کی پرسش کرتا تھا اور ہر مذہب کے جنوں سے وابستگی اور فریقگی کا اظہار کرتا اس کے سکوں پر ہندو ، یونانی، زرتشتی دیوتاؤں کی تصویر میں ہیں ۔ مذہب کی تبدیلی کے بعد اس نے ملک کے طول و عرض میں بہت سی بدھ خانقاہیں ، سٹوپے اور بت بنوائے جن کے آثار آج بھی موجود ہیں ۔ اس کے سکوں پر تصویروں اور بتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایشائے کوچک کے باشندوں کا لباس پسند کیا جاتا تھا ۔ کنشک کی مادری زبان ایرانی تھی اس دور کی زبان سنسکرت تھی۔ پالی نہیں تھی اس خاندان کے ایک اور بادشاہ جس کا نام ہو شک Huvishka تھا نے پچاس سال حکومت کی۔ اس کے   دور کے کتبے اور سکے آج بھی کثیر تعداد میں ملتے ہیں۔ روکھڑی سے نئے نوادرات کی دریافت سے نئے تاریخی حقائق سے پردہ اٹھ رہا ہے۔ اب روکھڑی کو گندھارا کی تسلیم شدہ حدود میں شامل نہ کرنے کے فیصلہ پر از سر نو غور کرنا پڑے گا ۔ اب بہت سی ایسی علامتیں اور شہادتیں مل رہی ہیں کہ جن سے واضح طور پر معلوم ہونے لگا ہے کہ گندھارا کی حدود روکھڑی تک یا ممکن ہے اس سے آگے بھی موجود رہی ہوں ۔لاہور میوزیم بلیٹن کی ایسوسی ایٹ ایڈیٹر محترمہ حمیرا عالم (جن کا تعلق میانوالی سے ہے) کے میوزیم بلیٹن میں ۱۹۸۹ء اور ۱۹۹۰ء میں دو تحقیقی مضامین چھے ہیں۔ ان میں سے ایک روکھڑی ضلع میانوالی میں “میش ماردینی کی مورتی” اور دوسرا لاہور عجائب گھر میں روکھڑی ضلع میانوالی کے سنکو کے مجسموں کا ذخیرہ ہے ان دونوں مضامین سے اس مضمون کے لئے پورا استفادہ کیا گیا ہے ۔ پہلے مضمون میں محترمہ حمیرا عالم نے روکھڑی سے ملنے والی میش ماردینی کی مورتی کا تاریخی تحقیقی تجزیہ پیش کیا ہے۔ یہ مورتی لوح سنگ میں کھدی ہوئی ہے۔ وہ سیدھی کھڑی ہوئی ہے۔ اس کے ایک ہاتھ میں ڈھال ہے اور دوسرے میں عصا ہے۔ اس کی ایک ٹانگ زمین سے اٹھی ہوئی ہے۔ اس گھسی ہوئی تختی میں مورتی کا چہرہ اور آنکھیں محفوظ ہیں۔ اس کے رخسار ابھرے ہوئے اور کانوں میں بالیاں نظر      آرہی ہیں۔ اس دیوی کو درگا پارتی ، بھورتی ، کالی اور دیوی بھی کہا جاتا ہے۔ اس دیوی نے بھینے کی شکل اختیار کئے ہوئے شیطان (Asura) کو قتل کیا۔ چنانچہ اسے میں مار دینی یا بھینے کی قاتلہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دیوی وشنو کی بہن اور شو کی بیوی ہے ۔ گپت دور میں وشنو اور شو کی پوجا کرنے والے فرقے ایک ساتھ موجود تھے ۔ میں مار دینی دونوں کے لئے برابر کی اہمیت رکھتی ہے ۔ اس مورتی کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ دونوں میں سے کس فرقے سے تعلق رکھتی ہے ۔ ساتویں صدی سے نویں صدی تک گیت فن وادی سندھ میں موجود تھا یہاں کچھ اثرات گندھارا اور کچھ گپت آرٹ سے لے کر ایک نیا مقامی فن تشکیل پذیر ہوا جس نے فن مجسمہ سازی کو متاثر کیا یہ مورتی اس فن کی نمائندہ   ہے۔ روکھڑی کے بارے میں عموما” یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ بدھوں کا شہر ہے اور گندھارا آرٹ کے نمونے یہاں بکثرت دستیاب ہیں۔ ایک طرح یہ اس آرٹ کا گہوارا ہے ۔ گپت دور کی اس مورتی کے ملنے کے بعد یہ تاثر کم ہو جاتا ہے یہ مورتی اس امر کا ثبوت ہے کہ یہاں پر ہندوؤں کا مندر بھی موجود تھا ۔ دراصل گپت دور میں بدھ مت ختم نہیں ہوا تھا بلکہ زوال پذیر ہوا تھا ۔ ۴۵۶ء میں سفید ہنوں کے حملے کے بعد گندھارا آرٹ کی ترقی یک لخت رک گئی اور گندھارا کی ثقافتی زندگی انجام کو پہنچ گئی ۔ گپت دور میں جدید برہمن مذہب تیزی سے ترقی کرنے لگا اور آٹھویں صدی میں ہندومت نے بدھ مت کی جگہ لے لی۔ بدھ مت اس لئے ہندوستان سے اٹھ گیا کہ وہ بتدریج برہمن مذہب میں شامل ہو گیا ۔ بدھ مت اس سے نکلا تھا ۔ اس میں صنم ہو گیا۔ بدھ مت کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بنی کہ اس میں خاص دیوتا نہ تھے جن کا مجسمہ وجود یہاں کے عوام الناس کی ضرورت تھا ۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بدھ مت نے برہمن دیوتاوں کو برقرار رکھا اور کوشش کی کہ ان برہمن دیوتاؤں کا درجہ معمولی راہبوں سے اوپر اور بدھ کے مقام کو پہنچتے ہوئے برگزیدہ انسانوں سے نیچے تسلیم کیا جائے لیکن عوام کے دلوں میں ان دیوتاؤں کی عظمت موجود تھی۔ شروع میں تو گوتم بدھ کو سب سے بڑا سمجھا جاتا تھا     گر آخر میں وہ صرف وشتو دیوتا کا ایک ادبار جانا جاتا تھا۔ یہ وہ دن تھے جب بدھ مت ہندوستان سے رخصت ہو رہا تھا اور روکھڑی میں میش مار دینی کی پوجا ہونے    گئی تھی۔

درگا کی مورتی کے علاوہ روکھڑی سے ملنے والے ایک سکے کا تعلق سمنت کے دور سے ہے۔ سمنت دیو ہندو شاہی کے اولین دور کا )Samanta Deva( عظیم بادشاہ گزرا ہے۔ اس کا عہد حکومت ۸۵۰ سے ۸۷۰ کے بیس سالوں پر محیط ہے۔ دراصل کابل مغلوں کی آمد سے پہلے صدیوں تک گندھارا کے نام سے بر صغیر میں شامل رہا۔ سفید ہنوں کے حملے کے بعد اور مسلمانوں کی آمد تک پنجاب اور کابل پر ہندو شاہی کی حکومت رہی۔ ان کا دارالحکومت اٹک کے قریب اوہند تھا۔ ان کی حکومت لما غن (Lama Ihan) سے لے کر دریائے چناب اور جنوبی کشمیر سے ملتان کی حدود تک پھیلی ہوئی تھی ۔ ساتویں صدی سے نویں صدی عیسوی تک اس علاقے پر کشمیر ہندوؤں کی حکومت اور ثقافت کے اثرات گہرے طور پر مرتب ہوئے۔ مشرق سے گپت آرٹ اور کشمیری اثرات نے اس علاقے کے آرٹ کو متاثر کیا ۔ درگا دیوی کا تعلق اسی ہندو شاہی کے دور سے ہے۔ افغانستان میں تھاپا سردار کے مقام پر میش ماردینی کی ایک بڑی مورتی ملی ہے وہ بھی ہندوشاہی کے دور سے تعلق رکھتی ہے اس زمانے کے بنے ہوئے ہندوؤں کے مندر اور مقدس مقامات تلاش کر لئے گئے ہیں جن میں مند نہ لوٹ کٹاس قلعہ کا فر کوٹ، ٹمل کا قلعہ    (مل کا قلعہ) میاں علی فقیران مورتی اور امب کے تین مندر قابل ذکر ہیں ۔ راجہ مل کا قلعہ جو قلعہ کا فر کوٹ کے نام سے معروف ہے دریائے سندھ    کے مغربی کنارے میانوالی کے اس پار اب بھی کو ہستان سیلمان (کوہ سرخ) کی چوٹی پر موجود ہے۔ اس میں شیو منوتی مندر اور قلعہ کی فصیلیں عہد رفتہ کی عظمت کی یاد دلاتی ہیں۔ قلعہ کے شمالی دروازے کے سامنے قدیم قبریں موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس قلعہ کو مہلب بن صفراء نے ۴۴) عربی (۶۵ – ۶۶۴) میں فتح کیا۔ اس کے بعد یہ قلعه دوباره آباد نہ ہو سکا ۔ روکھڑی میں ملنے والے بعض آثار کا تعلق بھی ہندو شاہی دور سے بتایا جاتا ہے ۔ یقینی طور اس دور میں اہل قلعہ اور روکھڑی کے درمیان      قریبی رابطہ ہو گا۔ یہ قلعہ حملہ آوروں کو روکنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ اس سارے تحقیقی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ روکھڑی کا تعلق گندھارا تہذیب سے ہے۔ اس کا زمانہ پہلی صدی عیسوی سے سولہویں صدی بھیسوی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس طویل عرصہ کی کئی صدیاں تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ روکھڑی کے سٹوپوں بتوں اور سکوں پر سولہویں صدی سے تعلق رکھنے والی عبدو کمہار کی اینٹ اس زمانے کی تاریخ تک پہنچے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اگر روکھڑی میں کھدائی کی جائے تو یقینی طور پر حقائق کے کئی جہاں آباد ہو جائیں گے    اور ہم کئی تاریخی حقیقوں کو پالیں گے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top