منورعلی ملک کے دسمبر 2019 کےفیس بک پرخطوط

میرا میانوالی————-

Image may contain: one or more people and people standing

ان شآءاللہ الکریم نماز ظہر کے بعد مکہ مکرمہ روانہ ھوں گے۔ نماز فجر کے بعد ایک بار پھر آپ کے لیے دعا کی۔ آگے ڈاھڈے کے دربار میں آج سے حاضری ھے۔ دعا کریں قبول ھوجاے۔

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-1 دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

Image may contain: 1 person, standingالحمدللہ ۔ عمرہ کل رات ادا ھو گیا۔ مزید توفیق کے لیے آپ کی دعائیں چاھیئں۔

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-  2دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

اساں کی کی ویس وٹاے یار تیرے ملنڑیں نوںImage may contain: 1 person, shoes and outdoor

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-2 دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

Image may contain: 3 people, beardمکہ مکرمہ میں 3 دن کا قیام تھا۔ زیادہ تروقت ںعبادات اور زیارات میں صرف ھوا۔ ان شآءاللہ کل ظہر کے بعد مدینہ واپس جانا ھے۔ دوستوں سے ملاقات آج نمازعشآء کے بعد تیسرے عمرے کی تکمیل کے بعد ممکن ھوگی۔

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-3 دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

عزیزساتھیو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ ۔ آج صحن کعبہ میں فجرکی نماز کے بعد آپ سب کی دعائیں رب کریم کی بارگاہ میں پیش کر دی ھیں –
وماتوفیقی الا باللہ-

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-4 دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

الحمدللہ الکریم –
قبلہ ء دین وایماں اور روح دین و ایماں کے دیار مقدس سے کل رات آٹھ بجے واپس اسلام آباد پہنچے – دل میں ذرا سا بھی ایمان ھو تو مکہ اور مدینہ چھوڑتے ھوئے ارمان تاں لگدا اے –
اپنا یہ شعر بار بار یاد آتا رھا ——————
اگرچہ شہر کا موسم بڑا سہانا ھے
مسافروں کو سفر پر ضرور جاناھےمسافروں کی اپنی مجبوریاں ھوتی ھیں ، ورنہ وھاں سے کون واپس آنا چاھتا ھے – ؟
اور اب گھر پہنچ کر کسی اور شاعر کا یہ شعر یاد آرھا ھے ————–

اٹھ کر تو آگئے ھیں تری بزم سے مگر
کچھ دل ھی جانتا ھے کہ کس دل سے آئے ھیں

مظہر بیٹے کو رب کریم اجر عظیم عطا فرمائے ، اس نے اس سفر کے دوران خدمت کا حق ادا کردیا – مسجد نبوی اور کعبتہ اللہ میں داخلے کے وقت میرے جوتے اتارنے اور باھر نکلتے وقت مجھے پہنانے کی خدمت کے ساتھ ساتھ اس نے میرے آرام و آسائش کا ھر لمحہ خیال رکھا ، میرے لیے ھر گھنٹہ بعد چائے ، میری پسند کا کھانا ، اور میری ضرورت کی ھر چیز مجھے بلا تاخیرفراھم کرتا رھا – چونکہ وہ بحمداللہ پہلے بھی کئی بار یہاں آچکا تھا ، اس لیے اسے یہاں کے ھر معمول اور ھر اھم جگہ کا علم تھا – ھمیں کہیں بھی کسی سے رھنمائی لینے کی ضرورت نہ پڑی – کہیں بھی اجنبیت کا احساس نہ ھؤا –
یہ سفر بلاشبہ میرے لیے حاصل ایماں تھا – ان شآءاللہ یہ ایمان افروز داستان مزید چند روز جاری رھے گی -رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-8 دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

اسلام آباد سے ھماری پرواز رات دس بجے روانہ ھوئی ، یہاں کے وقت کے مطابق ھم صبح 3.30 بجے مدینہ طیبہ پہنچے – وھاں صبح ڈیڑھ بجے کا وقت تھا – ائیرپورٹ سے سول ایوی ایشن کی ایک بس ھمیں ٹیکسی سٹینڈ لے گئی – ھم نے ٹیکسی ڈرائیور کو اپنے ھوٹل کا پتہ بتایا اور ٹیکسی میں بیٹھ گئے – یہ پرانے ماڈل کی بھاری بھرکم امریکی فورڈ (Ford) گاڑی تھی – نوجوان ڈرائیور عرب یا پاکستانی تو نہ تھا ملائیشئین یا بنگلہ دیشی لگتا تھا – ٹوٹی پھوٹی انگلش بول لیتا تھا –

جونہی کار ٹیکسی سٹینڈ سے نکل کر سڑک پر رواں ھوئی ڈرائیور نے ایک موبائیل فون دائیں ھاتھ میں لیا ۔ دوسرا بائیں ھاتھ میں اور بہ یک وقت دونوں فونز پر کسی سے گپیں لگانے لگا – گاڑی کا سٹئیرنگ بائیں پاؤں کے انگوٹھے سے کنٹرول کرتے ھوئے وہ 80-100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی بھگاتا رھا – اس کی توجہ گاڑی سے زیادہ موبائیل فون پر رھی – عجیب سی پرندوں جیسی زبان بول رھا تھا – بہت خوش لگتا تھا ، بار بار قہقہے لگا رھا تھا –

ھمیں بس اتنا اطمینان تھا کہ گاڑی کسی چیز سے ٹکرا بھی گئی تو اس بھاری بھرکم گاڑی کا کچھ نہ بگڑے گا – اور ھمارے گوڈے گٹے بھی بچ جائیں گے –

اللہ کا شکر ھے ڈرائیور کی تمام تر لاپرواھی کے باوجود ھم بخیریت منزل مقصود پر پہنچ گئے – ھوٹل مسجد نبوی کے قریب ھی تھا –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-9 دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

-مدینہ ائیرپورٹ ————

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک- 9 دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

ھمارے اس مبارک سفر کا اھتمام “ امطل ایوی ایشن سروسزاسلام آباد“ Amtul Aviation Services Islamabad نے کیا – اھتمام اتنا خوب تھا کہ سفر اور قیام کے دوران ذرا سی بھی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑا – مدینہ طیبہ اور مکہ مکرمہ میں ھماری رھائش کا بندوست حرمین شریفین کے قریب ترین ھوٹلوں میں کیا گیا – دیار مقدس آنے جانے والے جانتے ھیں کہ یہ بہت اھم بات ھے- نمازوں ، زیارات اور طواف میں آسانی بہت بڑی سہولت ھے –

صبح ڈیڑھ بجے مدینہ پہنچنے کے بعد ھم نے کچھ دیر اپنے ھوٹل میں آرام کیا – تہجد کی اذان ھوتے ھی مسجد نبوی کے احاطے میں قدم رکھا تو سبزگنبد پر نظرپڑی، دعا اور درود و سلام کے لیے ھاتھ اٹھائے – لرزتے لبوں اور برستی آنکھوں کے ساتھ ھدیہ درودوسلام پیش کرتے رھے – سرکار دوعالم کی شفقت کے سائے میں تحفظ کا احساس بہت ایمان افروز ھوتا ھے – گنبدخضری کے سائے میں ان پہلے چند لمحات کا سرور آج بھی رگ و پے میں محسوس ھوتا ھے –
بحمداللہ اپنا یہ شعر کام آگیا –
اب تو فقیر راہ کو در پر بلا ھی لیجیے
مانا کہ ھوں گناہ گار، ھوں تو غلام آپ کا

بحمداللہ فقیر راہ کی درخواست منظور ھوئی- تشکر اور مسرت کے جذبات کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں – مسجد میں داخل ھو کر پہلے نماز تہجد ، پھر نماز فجر ادا کی – دنیا کے ھر خطے سے آئے ھوئے لوگ وھاں موجود تھے – شیعہ ، سنی ، دیوبندی، بریلوی ، اھل حدیث سب ایک ھی امام کی اقتداء میں نماز ادا کرتے ھیں – فقہ اور عقائد کے اختلافات کو یہاں داخلے کی مجال نہیں –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-10 دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

میرے آقا غلام حاضر ھے
(بارگاہ رسالت مآب میں داخلے کا دروازہ باب السلام )

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-11 دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

مسجد سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ میں حاضری ————- مدینہ طیبہ
جناب حمزہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا اور تقریبا ھم عمر بھی تھے –
جوانی ھی سے قبیلے کے سرداروں میں شمار ھوتے تھے – جنگ احد میں شہید ھوئے –
ان کی جدائی کا صدمہ سرکار دوعالم عمر بھر محسوس کرتے رھے –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-12 دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

مدینہ منورہ میں پہلا دن ھم نے زیارات کے لیے مختص کر دیا – مظہر بیٹا چونکہ پہلے بھی یہاں آتا رھا ھے ، اس لیے وہ اھم زیارات کے بارے میں جانتا تھا – مسجد نبوی میں نماز ظہرادا کرنے کے بعد ھم زیارات مقدسہ کی جانب روانہ ھوئے –
جنت البقیع مسجد نبوی کے ساتھ ھی ھے – وھاں اھل بیت اطہار کی قبور ھیں ، ان قبور کی زیارت کی بہت خواھش تھی ، مگر وھاں داخلہ بند تھا -جناب حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی مسجد میں دورکعت نماز ادا کرنے کے بعد ھم نے جناب حمزہ کے مزار مبارک کی زیارت بھی کی – بالکل سادہ سی قبر ھے – مگراس کی ایک اپنی شان اور مقام ھے –

وھاں سے ھم مسجد قبا ء پہنچے – خانہ کعبہ کے بعد اسلامی تاریخ کی یہ سب سے پہلی مسجد ھے – اس کا سنگ بنیاد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے مبارک ھاتھوں سے رکھا تھا ، اور اس مسجد میں دورکعت نماز کو ایک عمرہ کے برابر قرار دیا –
مسجد قبا کے بعد ھم مسجد قبلتین پہنچے – یہ وہ مسجد ھے جہاں خانہ کعبہ کو قبلہ مقرر کرنے کا حکم الہی صادر ھؤا تھا – جب حضور ھجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو پہلے 14 ماہ قبلہ اول (بیت المقدس ) کی جانب رخ کر کے نماز پڑھتے رھے – دل میں ایک تڑپ سی تھی کہ کاش ھمارے آبائی شہر مکہ میں واقع خانہ ء کعبہ ھمارا قبلہ ھوتا – رب کریم نے اس حسرت کی تکمیل کر دی – عین نماز کے وقت یہ آیت نازل ھوئی کہ اللہ نے آپ کی خواھش کو دیکھ کر کعبہ کو نماز کے لیے قبلہ مقرر کر دیا – اس دن سے قیامت تک مسلمانوں کا قبلہ ، خانہ ء کعبہ ھی مقرر ھوگیا –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-13 دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

(وادی ء جنات میں ) Picture by Mazhar Ali Malik-

جنات سے ملاقات —— !!!!وادیء جنات کے بارے میں جو کچھ سنا تھا اس پہ یقین کرنا مشکل تھا – جب اپنی آنکھوں سے دیکھا تو ماننا پڑا کہ یہ وادی واقعی جنات کا مسکن ھے – ھم اس وادی میں داخل ھوئے تو اچانک گاڑی کا انجن بند ھو گیا ، اور وہ آگے کی بجائے الٹے قدموں پیچھے چلنے لگی – ایسا لگتا تھا کوئی طاقت گاڑی کو پیچھے دھکیل رھی ھے – ڈرائیور بار بار انجن اسٹارٹ کرنے کی کوشش کرتا رھا مگر گاڑی اسٹارٹ نہ ھوئی – تقریبا دوسو گز پیچھے جا کر گا ڑی اچانک رک گئی< – ڈرائیور نے جونہی اسٹارٹ کرنے کی چابی گھمائی گاڑی آگے چل پڑی – اب یہ پیچھے کی بجائے معمول کے مطابق آگے جارھی تھی – چار پانچ کلومیٹرآگے جاکر ڈرائیور نے واپسی کے لیے یوٹرن لیا تو گاڑی کا انجن ایک بار پھربند ھوگیا ، مگر گاڑی 80-100 کلومیٹر کین رفتار سے بدستور چلتی رھی – ڈرائیورنے انجن اسٹارٹ کرنے کی بہت کوشش کی مگر بے سود – انجن بند ھی رھا – تقریبا پانچ کلومیٹر آگے جا کر گا ڑی رک گئی – اب کی بار ڈرائیور نے انجن اسٹارٹ کیا تو گاڑی چل پڑی – ھم وادی ءجنات سے نکل آئےتھے – جنات کی مداخلت ختم ھو گئی -وادیء جنات مدینہ طیبہ سے تقریبا تیس کلو میٹر شمال مغرب میں واقع ھے – یہاں کوئی آبادی نظر نہیں آتی – گردونواح کے لوگ اور بیرون ملک سے زائیرین یہاں سیروتفریح اور معلومات کے لیے آتے جاتے رھتے ھیں –
روایت ھے کہ اس وادی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کچھ جنات کو آباد کیا تھا – یہ جنات مسلمان ھیں – نظر تو نہیں آتے ، مگر اپنے وجود کا احساس ضرور دلاتے رھتےھیں – کسی کونقصان نہیں پہنچاتے ، بس چھوٹی موٹی شرارتوں سے لوگوں کا دل بہلاتے رھتے ھیں –

سائنسدانوں کا خیال ھے کہ یہاں کوئی مقناطیسی قوت ھے جس کے اثر سے گاڑیاں چلتی اور بند ھوتی ھیں – مگر سائنسدانوں نے ابھی تک ریسرچ کرکے اپنے اس دعوے کا کوئی ثبوت فراھم نہیں کیا – واللہ اعلم بالصواب-

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-14 دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

وادی ء جنات کے بارے میں میں نے یہ نہیں کہا کہ مجھے وھاں جنات کی موجودگی کا یقین ھے – یقین تب ھوتا جب قرآن حکیم یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس وادی کا ذکر موجود ھوتا- میں نے اپنا ذاتی مشاھدہ بیان کردیا –

گاڑی کا انجن بند ھونے اور پھر بھی گاڑی کے رواں دواں رھنے کی وجہ جو بھی ھو یہ تماشا ھم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا – کچھ دوستوں نے کمنٹس میں اس امر کی سائنسی توجیہات بتا ئی ھیں – عین ممکن نے وھی درست ھوں – اس معاملے میں تحقیق بہر حال ھونی چاھیے – کیا خبر تحقیق سے سولر انرجی یا برقی قوت جیسی توانائی کی ایک نئی قسم منظرعام پر آجائے ، اور اس توانائی کو اللہ کی مخلوق کے فائدے کے لیے استعمال کیا جا سکے – واللہ اعلم بالصواب –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-15 دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

روضہ ء رسالت مآب پر حاضری صرف مقررہ اوقات میں ممکن ھے – عشآء کی نماز کے بعد ھم بھی دارالسلام پر لائین میں لگ گئے – بہت بڑا ھجوم تھا – ایک تنگ سی گلی تھی – نہر کے پانی کی طرح لوگوں کا ریلا ایک دروازے سے اندر داخل ھو کر دوسرے دروازے سے باھر نکل رھا تھا – ٹھہرنا ممکن نہ تھا – ھجوم تو تھا ھی ، اوپر سے یہ ستم بھی دیکھنے میں آیا کہ لوگ اپنے اپنے سمارٹ فون اٹھا ئے سیلفیاں بنانے میں مصروف تھے – کچھ لوگ تو پوری پوری موویز بنارھے تھے –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-16 دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

زیارات ، سیر و تفریح اور مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ آنے جانے کا تمام تر سفر ھم نے یوسف کی ٹیکسی کے ذریعے طے کیا – یوسف تیس پینتیس سال کا سمارٹ نوجوان ھے – مدینہ منورہ میں پہلی صبح ھم زیارات کے لیے روانہ ھونے لگے تو سامنے چوک میں کھڑی ٹیکسی کے ڈرائیور سے معاملہ طے ھؤا – یہ ڈرائیور یوسف تھا – پہلے ھم اسے عرب سمجھ کر اس سے انگلش میں باتیں کرتے رھے – پھر اس نے ھمیں اپنا بزنس کارڈ دیا تو یہ دیکھ کر ھم بہت خوش ھوئے کہ یوسف تو اپنا سندھی بھائی ھے – یوسف کے والدین تقریبا چالیس سال پہلے لاڑکانہ سے ھجرت کر کے مدینہ منورہ میں آباد ھو گئے – یوسف مینہ منورہ ھی میں پیدا ھؤا – مگر وطن کی محبت تو انسان کی فطرت میں شامل ھوتی ھے – اس لیے یوسف بھی پاکستان اور پاکستانیوں سے بہت پیار کرتا ھے -یوسف کی وجہ سے ھمیں یہ سہولت میسر تھی کہ جہاں بھی جانا ھوتا فون پہ رابطہ کرتے تو یوسف گاڑی لے کر فورا حاضر ھو جاتا – مدینہ سے مکہ اور مکہ سے مدینہ کا سفر بھی ھم نے اسی گاڑی میں طے کیا – مکہ سے واپس مدینہ آئے تو معلوم ھؤا کہ ھمارے سامان کا ایک تھیلا مکہ کے ھوٹل میں رہ گیا – یوسف سے بات کی تو اس نے مکہ جانے والی ایک ٹیکسی کے ڈرائیور سے کہہ کر وہ تھیلا منگوا دیا –

یوسف مظہر بیٹے کا اچھا خاصآ دوست بن گیا – جب ھم پاکستان واپس آنے لگے تو مدینہ ائیر پورٹ تک بھی یوسف نے ھمارا ساتھ دیا – سندھ دھرتی کے اس بیٹے کو رب سلامت رکھے بہت خوش اخلاق مخلص انسان ھے –
پکچر —- یوسف سندھی-رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-17 دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

یکم دسمبر کو مسجد نبوی میں ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد ھم یوسف کی ٹیکسی کار میں مکہ معظمہ روانہ ھوئے –
مدینہ طیبہ سے حج یا عمرہ کے لیے مکہ روانہ ھوتے وقت مدینہ سے چند کلومیٹر آگے مسجد شجرہ پہنچ کر عام لباس کی بجائے احرام باندھنا ضروری ھے – احرام دو چادریں ھوتی ھیں ، ایک کمر کے گرد لپیٹ کر دوسری کندھوں کے گرد لپیٹ دی جاتی ھے – یہ یونیفارم ھے حج یا عمرہ ادا کرنے والوں کی – اس کے بغیر نہ حج قبول ھوتا ھے ، نہ عمرہ —— میں نے پہلے بھی ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ ڈاھڈے کے دربار میں حاضری آسان نہیں ھوتی – کیا خبر کس بات پر ناراض ھو کر نمازیں، روزے سب نیکیاں ضبط کر لے – دربار میں حاضری کے لیے اوکھی سوکھی سب شرائط ماننا پڑتی ھیں – مکہ پہنچنے سے چار ساڑھے چار سو کلومیٹر پہلے ھی مقررہ سفید یونیفارم (احرام ) پہننا اسی لیے ضروری ھے – نیت حج یا عمرہ کی ھے تو مسجد شجرہ سے آگے عام لباس حرام – امیر ھو یا غریب ، پاکستانی ھو یا روسی , مدینہ سے مکہ جاتے ھوئے مسجد شجرہ پہچ کر مقررہ سفید یونیفارم سب کے لیے لازم – سب کا یہی ایک لباس -تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ھوئے-
مسجد شجرہ کو میقات بھی کہتے ھیں – میقات وہ مقام ھوتا ھے جہاں سے حج اور عمرہ کے نلیے احرام پہننا پڑتا ھے – مختلف مقمات سے مکہ جانے کے لیے مختلف میقاتیں ھیں – مدینہ سے مکہ جانے کی میقات مسجد شجرہ ھے – یہ مسجد شجرہ (درخت والی مسجد) اس لیے کہلاتی ھے کہ نبی ءاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے مکہ جاتے ھوئے یہاں ایک درخت کے سائے میں نماز ادا کی تھی, اور یہیں سے احرام زیب تن فرمایا تھا –

اب یہاں ایک عالیشان مسجد اور عازمین حج و عمرہ کی سہولت کے لے ایک چھوٹا سا بازار بھی ھے-پکچر ————– مسجد شجرہ

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-18   دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

ھم نمازعشآءسے کچھ دیر پہلے مکہ معظمہ پہنچے – سامان ھوٹل کے کمرے میں رکھ کر لبیک اللھم لبیک کہتے ھوئے , عمرے کی یونیفارم (احرام) میں ملبوس ھم حرم پاک پہنچے — خانہ ء کعبہ سامنے آتے ھی دل پر جو گذری وہ کیفیت الفاظ میں بیان نہیں ھو سکتی – برستی اںکھوں کے ساتھ لرزتے ھاتھ اٹھا کر دعا کی – نماز کے لیے صف بندی شروع ھو چکی تھی – صحن کعبہ میں نماز ادا کی – پھرعمرہ کے باقی لوازمات (طواف کعبہ ، سعی وغیرہ) مکمل کیے – تقریبا آدھ گھنٹے میں عمرہ مکمل ھوگیا – اس سعادت پر سجدہ ء شکر ادا کرنے کے بعد میں کعبہ کے عین سامنے ایک جھروکے میں کھڑا ھو کر دیر تک خانہ ءکعبہ کو دیکھتا رھا – دل یہ منظر دیکھنے سے رجتا ھی نہیں تھا – جب بھی نمازکے لیے حرم پاک میں حاضری ھوتی میں نماز کے بعد کچھ وقت نکال کر کعبہ کا دیدار کرتا رھتا – قرآن حکیم کی آیات اور تاریخ کے الفاظ ذھن میں گونجتے رھتے – ایک عجیب سی کیفیت ھوتی تھی –
سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-  19 دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

خوش نصیب لمحوں کی ایک یادگار——————-3 دسمبر 2019-یہ منظر آنکھ میں باقی ھے اب تک-نماز ظہر کے بعد کعبتہ اللہ کی زیارت —-

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-20 دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

مکہ معظمہ کے گردونواح سے فیس بک برادری کے کچھ دوست ھم سے ملنا چاھتے تھے – مگر ھمارے مکہ کے قیام میں کوئی جمعہ شامل نہ تھا – اس لیے چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے کئی دوست مکہ معظمہ نہ آسکے –

2 دسمبر کی شام پیرزادہ محمد شعیب شاہ ریاض سے تشریف لے آئے – محمد شعیب شاہ ضلع خوشاب کے مشہور قصبہ پیل (وادی ء سون) کے معروف پیر گھرانے کے فرد ھیں – بہت مخلص اور ملنسار نوجوان ھیں – خلوص کا اندازہ ان کی اس مہربانی سے کیجیے کہ اس پہلی ملاقات کے لیے تقریبا ایک ھزار میل سفر کر کے مکہ پہنچے- ھمارے بتائے ھوئے وقت کے مطابق ، عشآء کی نماز کے بعد حدود حرم پاک میں ملاقات ھوئی – ھم نے کھانا بھی مل کر کھایا – شاہ صاحب نے یہ خوشخبری بھی سنائی کہ فروری میں ان کی خانہ آبادی ھوگی – اللہ آباد رکھے ، اس شادی کے موقع پر پیل میں بہت سے دوسرے ساتھیوں سے ملاقات بھی متوقع ھے – رب کریم خلوص کے یہ رشتے سلامت رکھے – آمین  –رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-23 دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

3 دسمبر کی رات نماز عشآء اور تیسرا عمرہ ادا کرنے کے بعد ھم ھوٹل پہچے تو معظم عباس سپرا صاحب ملاقات کے لیے تشریف لائے – ھمارے لیے بہت سے خوبصورت تحائف بھی ساتھ لائے — معظم تقریبا 12 سال سے مکہ مکرمہ میں مقیم ھیں – میرے اولیں ٍفیس بک فرینڈز میں سے ھیں – فیس بک کی بہت معروف شخصیت ھیں – عبادات کے حوالے سے مستند احادیث پر مشتمل پوسٹس لکھ کر لوگوں کے ایمان و اعمال کی رھنمائی کرتے رھتے ھیں – یہ کار خیر وہ بہت عرصہ سے سرانجام دے رھے ھیں – روزانہ متعدد پوسٹس لکھتے ھیں -معظم سپرا سراپا محبت انسان ھیں – لالا عیسی خیلوی کے حؤالے سے مجھ سے متعارف ھوئے – اپنے خلوص سے انہوں نے بہت جلد اس تعارف کو مستقل دوستی کا روپ دے دیا – میرے بہت پیارے بیٹے ھیں – قدوقامت میں بھی منفرد ، محبت کرنے کے انداز میں بھی اپنی مثال آپ – بہت زندہ دل انسان ھیں – ھنسنا ھنسانا ان کا محبوب مشغلہ ھے — ان سے یہ پہلی ملاقات تھی، مگر معظم کا رویہ ایسا تھا جیسے روزانہ ملتے ھیں –

ھم نے کھانے کا کہا تو کہنے لگے کھا کر آیا ھوں – چائے کا پوچھا تو کہا چائے میں پیتا نہیں – ھم نے جوس کا ایک پیکٹ زبردستی ان کی جیب میں ڈال دیا – تقریبا ایک گھنٹے کی یہ مختصر سی ملاقات اپنی جگہ یادگار تھی –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-24 دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

حجاز مقدس کی سیر کے بعد اب آئیے ایک نظر اپنی پاک سرزمین پہ ڈالیں ——

حد نظر تک دھند ھی دھند ھے – کچھ پتہ نہیں چل رھا آگے کیا ھونے والا ھے ——- مشرف کی سزا —— رانا ثناءاللہ کی رھائی ، احسن اقبال کی گرفتاری —— اداروں کے درمیان کشمکش —- تاریخ میں پہلی بار عدلیہ اور ایسٹیبلشمنٹ کے مابین محاذآرائی ——- پٹواریوں اور کھلاڑیوں کی جگت بازیاں —- سرکاری ترجمانوں اور اپوزیشن لیڈروں کی توتو ، میں میں ، فردوس عاشق اعوان کی وضاحتیں ، اپوزیشن لیڈروں کی مذمتیں ، اب رانا ثناءاللہ کے آنے سے رونق کچھ اور بڑھ جائے گی –
مہنگائی ، بے روزگاری ، غیریقینی صورت حال —- دھند ھی دھند —– تبدیلی سرکار ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ تبدیلی کا عمل کیاں سے شروع کیا جائے – وعدے اور دعوے عمل کے منتظر، مگر سرکار مصر کہ پہلے “چوروں اور ڈاکؤوں“ سے نمٹنا ضروری – عوام کے اضطراب کا ایک ھی جواب “گھبرانا نہیں “ -عوام گھبراتے نہیں ، اپنی باری کا انتظار کرتے ھیں – 2008 کے انتخابات میں ق لیگ کا صفایا کر دیا ، 2013 کے انتخابات میں پی پی پی کا تختہ الٹ دیا ، 2018 کے انتخابات میں ن لیگ کو ٹھکانے لگایا ،— اب پی ٹی آئی سے نمٹنے کے لیے آستینیں چڑھا رھے ھیں – حالات یہی رھے تو حشر ان کا بھی وھی ھوگا —- اگلی باری خدا جانے کس کی ھوگی – حکومت کا تاج کس کے سرپہ سجے گا –

فیصلہ اداروں یا میڈیا نے نہیں ، عوام نے کرنا ھے ، دیکھیں کیا ھوتا ھے ————–پردہ اٹھنے کی منتظر ھے نگاہ

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-25 دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

علی بیٹے کی 9 ویں برسی ———–
بہت کچھ کہنا چاھتا ھوں ،

مگر لفظ پگھل کر آنسو بن جاتے ھی

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-27  دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

شدید سردی اور کچھ مصروفیات کی وجہ سے چند روز آپ کی محفل میں حاضری ممکن نہ رھی آئیے آج ایک بار پھر واپس چلتے ھیں عہد رفتہ کی اس حسین دنیا میں ، جو آپ کو تو خواب و خیال کی دنیا لگتی ھے ، مگر ھم نے وہ دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھی ھے ۔ بہت عرصہ اس دنیا میں رھے-کیا سہانا دور تھا – سادگی ، خلوص ، ھمدردی ، تعاون کا وہ دورجب ھمسائے کو بھی اپنی ماں کا جایا سمجھا جاتا تھا – رشتوں کی قدر کی جاتی تھی – معاشرے میں نہ کوئی غریب تھا ، نہ امیر- خالص دودھ ، گھی ، مکھن اپنے گھر کا ھوتا تھا ، کیمیائی کھاد سے پاک خالص ، توانائی سے بھرپور گندم اپنی بارانی زمین دے دیتی تھی – پیسے کی ضرورت محسوس ھی نہیں ھوتی تھی – دکانوں سئے سودا پیسے کی بجائے گندم کے بدلے مل جاتا تھا – لوگ غریب ، مگر مطمئن تھے – سادہ زندگی کی ھر ضرورت آسانی سے پوری ھوجاتی تھی – پھر پیسوں کے پیچھے کون بھاگتا –

اس مختصر سے تعارف کے بعد ان شآءاللہ کل سے اس جنت نما دنیا کا مفصل ذکر ھوگا – وہ دور تو اب لوٹ کر نہیں آئے گا ، لیکن اس دور کے کچھ اصول اگر ھم آج بھی اپنا لیں ، تو ھمارے بہت سے مسائل حل ھو سکتے ھیں –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-30 دسمبر 2019

میرا میانوالی————-

چاچا گلزار خان نے ایک دیرینہ مقدمے کی تاریخ بھگتانے کے لیے میانوالی عدالت میں پیش ھونا تھا – صبح سویرے ساتھ والے گھر سے ایک خاتون نے آکر کہا

“گلزار بھرا سنڑا اے توں اج میاں آلی وینا پیا ایں ، میڈا ھک نکا جیہا کم ھے ، جو کر سگیں تاں —–“
گلزار خان نے کہا “ بختاں بھینڑں ، تو ں حکم کر ، کم نکا ھووے یا وڈا ،اس گل کوچھوڑ “
بختاں نے کہا “لالا میں ھک مدھانڑیں گھنڑیں ھئی “ – یہ کہہ کر اس نے پچاس روپے کا نوٹ چاچا گلزار کے ھاتھ پہ رکھ دیا –
چاچا نے نوٹ واپس دیتے ھوئے کہا “ اے پیسے آپنڑیں کول رکھ – وڈی آئی نواب دی دھی – اساں بے غیرت ناں جو بھینڑاں کولو پیسے گھناں – تیڈی مدھانڑیں گھن آساں – کوئی ھورکم ھئیی تاں ڈس“
“لالا ھور کم تاں کوئی نی بھلا اے پیسے توں گھنیں ھا چا “
“پرے تھی کملی بلا – ھنڑن مار ای کھاسیں میڈے کولو “
بختاں ھنستی ھوئی واپس چلی گئی -“>چاچا گلزارخان گھر سے نکلنے لگا تو بائیں جانب والے گھر سے امیر خان نامی شخص آکراس سے ملا – امیر خان نے دوسو روپے اس کے ھاتھ پہ رکھتے ھوئے کہا “ لالا گلزار اے وی گھدی ونج – متاں کم آ ونجنی“
“یار پیسے تاں میڈے کول کافی ھن “ گلزار خان نے کہا –
امیر خان نے کہا “بھائی صاحب ، سفر اچ کوئی پتہ نی ھونا ، اے گھدی ونج – گھر نی گل اے – وت بعد اچ حساب کتاب کر گھنساں “-
—————————————————-
یہ کہہ کر امیرخان الٹے پاؤں واپس چلا گیا —————————–
خلوص اور تعاون کی ایسی مثالیں اب کہاں –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-31  دسمبر 2019

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top