منورعلی ملک کےفروری 2020 کےفیس بک پرخطوط
میرا میانوالی————
چاچا شہبازخان ——
جب میں گارڈن کالج راولپنڈی میں پڑھتا تھا ، ایک دن مری روڈ پر ھوا خوری کے لیے لیاقت باغ کی طرف جا رھا تھا – کمیٹی چوک پر کھڑا پولیس کا ایک سپاھی بڑے غور سے مجھے دیکھتا رھا ، پھر میرے قریب آکر کہا “ نوجوان کہاں کے رھنے والے ھو ؟“
میں نے ضلع میانوالی کانام لیا تو وہ بہت خوش ھؤا ، مجھ سے ھاتھ ملایا اور کہنے لگا “ میں نے تمہاری ٹور (چال ) سے ھی اندازہ کر لیا تھا کہ بندہ اپنے علاقے کا ھے “
میں نے مزید تفصیلی تعارف کرایا تو اس نے مجھ گلے لگا تے ھوئے کہا “او، تیری خیر – میں بھی داؤدخیل سے ھوں – میرا نام شہبازخان ھے – بہرام خیل ھوں – آپ کے دادا مولوی مبارک علی تو ھمارے شہر کے سردار تھے “-
پھر چاچا شہباز خان نے مجھے ایک ھوٹل سے چائے پلائی ، اور داؤدخیل شہر کا حال احوال پوچھتے رھے – اس کے بعد جہاں بھی ملاقات ھوتی چاچا شہبازخان مجھے چائے ضرور پلاتے – اچھی خاصی دوستی بن گئی – کچھ عرصہ بعد چاچا شہبازخان پنڈی سے میانوالی ٹرانسفر ھو گئے –
تقریبا 25 سال بعد جب میں لیکچررکی حیثیت میں میانوالی آیا تو ایک دن اچانک ملاقات ھوئی – چاچا شہباز خان اس وقت میانوالی کے تھانہ صدر میں متعین تھے – اکثر میرے ھاں آتے جاتے رھتے تھے – ریٹائرمنٹ کے بعد داؤدخیل منتقل ھو گئے – اب وہ اس دنیا میں موجود نہیں ، مگر میرے لیے وہ ناقابل فراموش انسان ھیں – بہت مخلص انسان تھے –—————-
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک -1 فروری 2020
میرا میانوالی————-
شہروں کے بازاروں میں کہیں کہیں کوئی بابا جی چھوٹی موٹی روزمرہ ضرورت کی چیزیں (بال پین ، رومال ، کھانے پینے کی چیزیں ) بیچنے کے لیے پھرتے نظرآتے ھیں – یہ وہ لوگ ھوتے ھیں جن کا کوئی اور ذریعہ معاش نہیں ھوتا – خودداری کی وجہ سے کسی کے آگے ھاتھ پھیلا کر بھیک بھی نہیں مانگ سکتے – جو سامان یہ بیچنے کے لیے لاتے ھیں ، اس پر ایک ایک دودوروپے منافع لے کر جتنی رقم بنتی ھے اسی میں گذارہ کر لیتے ھیں –
ایسے لوگوں کی خودداری کا بھرم قائم رکھنے کے لیے ان سے کچھ نہ کچھ ضرور خرید لیا کریں – بہتر ھے بال پین یا رومال جیسی چیزیں ایک سے زیادہ خرید لیں – آپ کی جیب سے معمولی سی رقم جانے کا آپ کو نقصان نہیں ھوگا – یوں سمجھیں آپ یہ رقم اپنے رب کو قرض دے رھے ھیں ، کیونکہ بے سہارا لوگوں کی امداد کا حکم اسی رب کریم نے دیا ھے –
کیا خبرآپ کی پریشانیوں کا علاج ایسے ھی کسی بے سہارا بزرگ کی دعا کا منتظر ھو –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-2 فروری 2020
میرا میانوالی————-
پائی خٰیل کے مہرخان المعروف بھرا خان میٹرک میں ھمارے کلاس فیلو تھے – ان کے بڑے بھائی صوبیدار مدت خان ھمارے سکول میں پی ٹی آئی تھے – اس زمانے میں سکول کے ڈرل ماسٹر کو پی ٹی آئی کہتے تھے – لفظ پی ٹی آئی فزیکل ٹریننگ انسٹرکٹر (Physical Training Instructor) کے مخفف کے طور پہ بولا جاتا تھا –
سیدھے سادے بھولے بھالے بھرا خان بہت پیاری شخصیت تھے – ان کے ایک بھائی شیرمحمدخان ایکسائیز آفیسرکی حیثیت میں مردان ، چارسدہ وغیرہ میں متعین تھے – بھرا خان کا بچپن ان کے ھاں مردان ، چارسدہ میں گذرا – ابتدائی تعلیم بھی ادھر ھی حاصل کی – پشتو بہت روانی سے بول لیتے تھے – اپنی سرائکی زبان بھی پشتو لہجے میں بولتے تھے –
بھرا خان کو پڑھنے لکھنے سے تو کوئی خاص دلچسپی نہ تھی – کلاس میں رونق لگائے رکھتے تھے – اتنے بھولے انسان تھے کہ کوئی کہہ دیتا فلاں لڑکے نے تمہیں گالی دی ھے ، تو بھرا خان سیدھے جاکراس لڑکے کا گریباں پکڑ لیتے – یہ چھیڑخانی زیادہ تر ھمارے کلاس فیلو سکندرخان امیرے خٰیل کرتے تھے – ھم لوگ کچھ دیر تماشا دیکھنے کے بعد فریقین کی صلح صفائی کروادیتے تھے – یہ ڈراما خاص طور پر ملک غلام عیسی کے ساتھ ھوتا تھا – غلام عیسی بہت شریف پڑھاکو لڑکے تھے ، کسی سے بات بھی نہیں کرتے تھے ، ھر وقت کتابوں میں مگن رھتے تھے – (بعد میں انجینیئربن گئے) –
بھرا خان نے میٹرک کے بعد ھاتھ کھڑے کر دئیے – آگے تعلیم حاصل کرنے کی بجائے گھر بیٹھ گئے – جوانی ھی میں دنیا سے رخصت ھو گئے – اللہ مغفرت فرمائے بہت پیارے انسان تھے – بہت یاد آتے ھیں
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-4 فروری 2020
میرا میانوالی————-
فروری کے آغازمیں مڈل کا امتحان ھوتا تھا – یہ روایت شاید آج بھی برقرار ھے –
ھمارے امتحان کا سنٹر گورنمنٹ ھائی سکول موچھ تھا – اس وقت یہ سکول ڈسٹرکٹ بورڈ (ضلع کونسل) کے زیر انتظام تھا اس لیے ڈی بی ھائی سکول کہلاتا تھا –
روانگی سے ایک دن پہلے سب لڑکے اپنا راشن (آتا ، گھی ، چینی وغیرہ) بستر اور کتابیں کلاس کے ٹیچر انچارج کے گھر پہنچا دیتے تھے – وھاں سے یہ سامان اونٹوں پر لاد کر موچھ پہنچایا جاتا تھا – ٹیچر اور لڑکے اونٹوں کے ھمراہ پیدل جایا کرتے تھے – آٹھ دس کلو میٹر کا فاصلہ تھا ، مگر اس زمانے میں آٹھ دس کلومیٹر پیدل چلنا کوئی مسئلہ نہ تھا -ھمارا قافلہ کلاس انچارج ماسٹر رب نواز خان صاحب کی قیادت میں صبح نو بجے داؤدخٰیل سے روانہ ھؤا – باقی لوگ تو پیدل تھے ، مجھے اونٹ پر بٹھا دیا گیا – مجھے یہ وی آئی پی پروٹوکول اس لیے ملا کہ ماسٹر صاحب میرے دادا جی کے سٹوڈنٹ رہ چکے تھے – میں نے اپنے دوست محمد صدیق خان کو بھی اپنے ساتھ اونٹ پہ بٹھا لیا –
نہر کا پل عبور کر کے ھمارا کارواں کوٹ بیلیاں ، بستی شاہ گل محمد سے ھوتا ھؤا تقریبا عصر کے وقت موچھ پہنچا – ھماری رھائش کا بندوبست محلہ خان جی خٰیل میں چاچا محمد خان نامی دکان دار کے ھاں تھا – دو بہہت بڑے ھال نما کمرے ھمارے لیے وقف تھے –
ھم آٹھ دس دن وھاں رھے – کھانے پینے کا سامان اور برتن ھم ساتھ لے گئے تھے — کھانا بنانے کے لیے ایک چاچا بھی ھمراہ تھا – پیپر کے بعد دوپہر کا کھانا کھا کر ھم لوگ شہر میں ادھر ادھر پھرتے رھتے تھے – شام کا کھانا کھاکر ماسٹر صاحب ھمیں اگلی صبح کے پیپر کی تیاری کے لیے ایک دو گھنٹے پڑھاتے تھے – بہت اچھا وقت گذرا – یادیں آج بھی تروتازہ ھیں –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-5 فروری 2020
میرا میانوالی————-
امتحان کا آخری پیپر دینے کے بعد ھم لوگ واپس داؤدخیل روانہ ھوئے – ماسٹرصاحب نے اجازت دے دی تھی کہ جس کا واپسی کا اپنا بندوبست ھے وہ جا سکتا ھے – باقی لوگ قافلے میں شامل ھوں گے –
اکثرلڑکوں کے بھائی یا کزن انہیں لینے کے لیے سائیکلوں پر آئے ھوئے تھے – (موٹرسائیکل اس زمانے میں نہیں ھوتا تھا) -محمد صدیق خان اور میں صدیق خان کے رشتہ دار کرم داد خان کے ساتھ سائیکل پر روانہ ھوئے – سامان تو اونٹوں پر جانا تھا ، اس لیے ھم سائیکل پر بآسانی سماگئے – کرم داد خان کا گھر ٹھٹھی میں تھا – ھم نے وھاں سے داؤدخٰیل تک پیدل جانے کا پروگرام بنالیا
ٹھٹھی پہنچ کر کرم دادخان کے ھاں کھانا کھا رھے تھے تو کسی نے داؤدخیل سے آکر بتایا کہ داؤدخٰیل میں مولوی جی صاحب ( میرے دادا جی ) کے خاندان کی ایک خاتون فوت ھو گئی ھیں – میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا —– “ امی !!! “ میں نے چیخ کر کہا، اور زاروقطار رونے لگا – امی اکثر بیمار رھتی تھیں – مجھے یقین تھا وھی اس دنیا سے رخصت ھو گئیں — امی تو میری کل کائنات تھیں –
کرم داد خان نے فورا ھمیں سائیکل پر بٹھایا اور ھم داؤدخیل روانہ ھوگئے – شہرمیں داخل ھوئے تو میں نے ایک راہ چلتے آدمی کو روک کر پوچھا کہ ھمارے خاندان میں کون فوت ھؤا ھے – اس نے جن خاتون کا نام لیا وہ ھماری دور کی رشتہ دار تھیں –
“ اللہ تیرا شکر ھے “ میں بے ساختہ چلا اٹھا – اس آدمی نے مجھے گھور کر دیکھا تو میرے ساتھیوں نے اشارے سے بتایا کہ بھائی صاحب اس وقت ھوش و حواس میں نہیں ھیں –
گھر پہنچ کر میں امی سے گلے لگ کر دیر تک روتا رھا – امی بھی رونے لگیں ، مگرھم دونوں کے آنسو خوشی کے آنسو تھے –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-6 فروری 2020
میرا میانوالی————-
موسم کے رنگ ———– سرمی تھی گئی ساوی پیلی
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-7 فروری 2020
میرا میانوالی————-
وتہ خیل کیسیٹ ھاؤس کے بانی لیاقت خان نے فون پر بتایا کہ اقبال بھرا کی زندگی کا سفر بھی تمام ھؤا –
محمد اقبال کوچوان عرف بالا کوچوان ھمارے پرانے ساتھی تھے – لالا عیسی خٰیلوی سے والہانہ عشق کے باعث وہ لالا کے ھر قریبی آدمی سے بہت محبت کرتے تھے -اقبال کوچوان بہت دکھی انسان تھے – والد کا سایہ بچپن ھی میں سر سے اٹھ گیا – والدہ نے غریبی کی وجہ سے دوسری شادی کر لی – والدہ کا پیار تو کم نہ ھؤا ، مگر سوتیلے بہن بھائیوں کے رویوں سے تنگ آکر اقبال نے والدہ سے بھی کنارہ کشی کر لی ، اور ماموں کے ھاں رھنے لگا –
ذریعہ معاش تانگہ تھا – میانوالی کے مشہور کوچوانوں میں شمار ھوتاتھا – پچیس تیس سال پہلے تانگے اس دنیا سے رخصت ھوئے تو اقبال بے روزگار ھو گیا – ان پڑھ تھا اس لیے ملازمت کا اھل نہ تھا ، اتنا سرمایہ بھی پاس نہیں تھا کہ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کر سکتا – ماموں خود غریب تھے – صرف بستر اور کھانا ھی فراھم کر سکتے تھے – مظہرنیازی صاحب ، بلوخٰیل کے ملک انوار اور کچھ دوسرے دوست حسب توفیق اقبال کی مالی مدد کرتے رھتے تھے –
دوستوں کے لیے اقبال کا تانگہ فری تھا – سیما بہن کی بیماری کے دوران لالا عیسی خیلوی بھی اقبال کے تانگے سے مستفید ھوتے رھے –
ایک دفعہ ھم اقبال کے تانگے میں ھسپتال سے واپس آرھے تھے ، میرا بیٹا محمد اکرم علی اس وقت پانچ سات سال کا تھا – نہر کے کنار پہنچے تو اقبال نے گھوڑے کی لگام اکرم کو تھما دی ، نہر کے کنارے تانگہ بھگانا بچے کے لیے ایک خوشگوار تجربہ تھا – ھم آج بھی بڑے پیار سے یہ واقعہ یاد کرتے ھیں –
اللہ مغفرت فرمائے ھمارا بہت اچھا ساتھی تھا – نہ بھولنے والا انسان تھا
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-8 فروری 2020
میرا میانوالی————-
6 فروری 2008 کو ٹی وی پر ابو کی شہادت کی خبر سنتے ھی دادا جی نے فورا سجدہ ء شکر ادا کیا
یہ الفاظ ھیں شہید میجر جنرل جاوید سلطان کی صآحبزادی کے جو انہوں نے اپنے والد کی شہادت کا ذکر کرتے ھوئے انگلش میں ایک مضمون میں لکھے -اللہ اکبر —- کتنے عظیم لوگ تھے یہ باپ بیٹا – بیٹے کی شہادت پر باپ کا سجدہءشکر عظمت کردار کی ایک نادر مثال ھے
جنرل جاوید سلطان خان نیازی ضلع میانوالی کے موضع غنڈی کے میجر سلطان اکبرخان کے صاحبزادے تھے – 1977 میں لیفٹننٹ کی حیثیت میں پاک فوج میں کمیشن ملا – بہت سے اھم عہدوں پر فائز رھے – کچھ عرصہ بھارت میں پاکستانی سفارت خانے کے ملٹری اتاشی بھی رھے – بہت دلیر اور فرض شناس افسر تھے – شہادت کے وقت جنرل آفیسرکمانڈنگ کی حیثیت میں کوھاٹ میں متعین تھے – 6 فروری 2008 کو وانا (وزیرستان) میں طالبان کے خلاف آپریشن کی نگرانی کرتے ھوئے ھیلی کاپٹر کے حادثے میں شہید ھوئے – اس حادثے میں فوج کے چند اور افسر بھی شہید ھوئے –
جنرل جاوید کے والد محترم میجرسلطان اکبر خان ھمارے بہت محترم دوست تھے – ایڈووکیٹ خورشید انور خان نیازی اور ملک نیک محمد کے لاء چیمبر میں ان کے ساتھ ملاقاتیں ھوتی تھیں – ان سے میرا تعارف پروفیسر محمد سلیم احسن نے کرایا جو اس محفل کے مستقل رکن تھے – سرورکائنات علیہ السلام سے والہانہ عشق میجر صاحب کے کردار کا سب سے نمایاں وصف تھا – محفل میں ذکر رسالت مآب کے علاوہ کسی اور موضوع پر بات نہیں کرتے تھے – سلیم صاحب سے ان کی بہت گہری دوستی تھی – سلیم صاحب سے نعتیہ شعر سنتے اور جواب میں نعتیہ ماھیے سناتے رھتے تھے –
گذرگیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-9 فروری 2020
میرا میانوالی————-
فیس بک کی دنیا ———–
اللہ آباد رکھے ، خاصی رونق لگی رھتی ھے اس دنیا میں – یہاں علم میں اضافہ بھی ھوتا ھے ، دوستوں کی خیرخبر بھی ملتی رھتی ھے – فکر انگیز شاعری بھی پڑھنے کو ملتی ھے – علم و دانش کے موتی بھی فکر ونظر کی دعوت دیتے نظر آتے ھیں — دلچسپ سیاسی چھیڑ چھاڑ بھی چلتی رھتی ھے -فیس بک کی ایک بڑی خوبی یہ ھے کہ یہاں شائستہ لہجے میں بات ھوتی ھے – اس کے مقابلے میں ٹویٹر، اللہ معاف کرے ، جابجا ننگی گالیاں اور فحش تصویریں دیکھنے میں آتی ھیں – پٹواریوں اور یوتھیوں کے درمیان گھمسان کی جنگ جاری ھے – وھاں بھی کچھ اچھے لوگ ھیں ، جو شائستہ انداز میں بات کرتے ھیں ، مگر مجموعی لحاظ سے ٹویٹر کا ماحول خاصا گرم اور آلودہ ھے –
فیس بک پر سیاسی گفتگو بھی لطیف طنزو مزاح تک محدود رھتی ھے – کمنٹس میں کبھی کبھار کوئی تلخ بات بھی دیکھنے میں آتی ھے ، مگر یہاں لوگوں کا ظرف اتنا وسیع ھے کہ ھنس کر برداشت کرلیتے ھیں – بات گالم گلوچ تک نہیں جاتی –
اللہ کرے محبت ، دوستی اور تعاون کا یہ ماحول برقرار رھے – اس ھنستی بستی دنیا کے بارے میں مزید کچھ باتیں ان شآءاللہ کل –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-10 فروری 2020
میرا میانوالی————-
ادھر ھم سوشل میڈیا (فیس بک ، ٹوئیٹر ، انسٹاگرام وغیرہ) کی افادیت کی بات کر رھے ھیں ، اور ادھر سنا ھے سوشل میڈیا کا مکو ٹھپنے کے لیے قانون سازی زیر غور ھے —- حکومت سے التماس ھے کہ خدارا پاکستان کو مقبوضہ کشمیر نہ بنائیں – حکمران فرشتے نہیں ھوتے – ان کی غلطیوں پر تنقید کرنا عوام کا حق ھے – حکومت کو جائز تنقید کا احترام کرتے ھوئے عوام کی شکایات کا ازالہ کرنا چاھیے – اگر سوشل میڈیا کی سکرین پر آنے کی اجازت نہ ملی تو لوگ سڑکوں پر آئیں گے – اور جب لوگ سڑکوں پر آتے ھیں تو کوئی حکومت ، کوئی ادارہ ان کا سامنا نہیں کر سکتا – پولیس اور فوج بھی ان کا راستہ نہیں روک سکتی -ججوں کی بحالی کی تحریک میں یہی ھؤا – ساری طاقت حکومت کے پاس تھی ، مگر نہتے لوگ جب سڑکوں پر نکلے تو حکومت کو ھی پیچھے ھٹنا پڑا – یہ کہانی اگر دوبارہ دہرائی گئی تو بہت خون خرابہ ھو سکتا ھے-
سوشل میڈیا کی وساطت سے حکومت پر تنقید کرنے والوں کو بھی شائستگی کا مظاھرہ کرنا چاھیے – گالم گلوچ سے معاملات سدھرتے نہیں ، بگڑتے ھیں – سوشل میڈیا پر مذھبی اختلافات کو ھوا دینے ولوں کی حوصلہ شکنی بھی ضروری ھے ، کیونکہ یہ آگ بھڑک اٹھی تو بہت کچھ جل کرراکھ ھو جائے گا –
یہ بھی یاد رھے کہ سوشل میڈیا صرف سیاسی بحث کا ھتھیار نہیں – اس کے بہت سے اور فوائد بھی ھیں – ان فوائد کا ذکر ان شآءاللہ اگلی پوسٹ میں ھوگا –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-16 فروری 2020
میرا میانوالی————-
سوشل میڈیا علم اور تفریح کا بہترین وسیلہ ھے – دوستی اور بھائی چارے کو فروغ دینے میں بھی سوشل میڈیا بہت اھم کردار ادا کرتا ھے – آپ کے فیس بک فرینڈز میں بے شمار ایسے لوگ ھیں جن سے آپ کی کبھی ملاقات نہیں ھوئی ، ان میں سے کئی لوگ ھزاروں میل دور بیرون ملک مقیم ھیں ، مگر وہ بھائیوں کی طرح آپ سے محبت کرتے ھیں ، اور میسینجر یا کمنٹس کے ذریعے آپ سے مسلسل رابطے میں رھتے ھیں ، آپ کے دکھ سکھ میں شریک ھوتے ھیں – آپ کے پیغام یا پوسٹ کے منتظر رھتے ھیں – آپ کے مسائل کے بارے میں کارآمد مشورے دیتے ھیں – اگر کچھ دن آپ آن لائین نہ ھوں تو پریشان ھو جاتے ھیں سوشل میڈیا پر سیاسی گپ شپ میں کچھ لوگ بہت جذباتی ھوکر گالم گلوچ پر اتر آتے ھیں – ایک دوسرے کے لیڈروں کو گالیاں دینے کے بعد براہ راست ایک دوسرے کو للکارنے لگتے ھیں ،
یہ آلودہ ماحول پچھلے دو تین سال میں کچھ زیادہ ھی زھریلا ھو گیا ھے – قصور عوام سے زیادہ لیڈروں کا ھے – اگر لیڈر اایک دوسرے کا احترام کریں تو ان کے ورکرز بھی دوسرے لیڈروں کا احترام کریں گے – مگر ھمارے ھاں صورت حال یہ ھے کہ اسمبلیوں میں بھی عوام کے مسائل پر غور وفکر کی بجائے ایک دوسرے کے کپڑے اتارے جارھےھیں – یہ کہنا غلط نہ ھوگا کہ تربیت کی ضرورت عوام کو نہیں ، لیڈروں کو ھے – قصؤر سوشل میڈیا کا نہیں ، سوشل میڈیا کے رھنماؤں کا ھے – میڈیا تو ایک اوزار ھے – چھری سے آپ پیاز بھی کاٹ سکتے ھیں ، کسی کا سر بھی – اس میں چھری کا کیا قصؤر –
لیذا نہایت ادب سے گذارش ھے کہ ضابطہ اخلاق سوشل میڈیا کی بجائے اپنے آپ پر نافذ کریں تو سب کچھ ٹھیک ھو جائے گا –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-17 فروری 2020
میرا میانوالی————-
میکسیکو کی ایک عدالت
ملزم —- 15 سال عمر کا بچہ
جرم —- چوری
جج : تم پر چوری کا الزام ھے – کیا چرایا تھا تم نےملزم لڑکا : ایک بریڈ (ڈبل روٹی) اور پنیر کا ایک پیکٹ –
جج : یہ چیزیں پیسوں سے خرید لیتے-
لڑکا : پیسے نہیں تھے میرے پاس-
جج ؛ گھر والوں سے لے لیتے –
لڑکا : گھر میں صرف بوڑھی ماں ھیں – وہ بیمار ھیں – روٹی اور پنیر انہی کے لیے چرایا تھا –
جج : تم روزی کمانے کے لیے کوئی کام کیوں نہیں کر لیتے –
لڑکا : ایک کار واش پہ کاریں دھونے کاکام کرتا تھا ۔ والدہ کی بیماری کی وجہ سے ایک دن چھٹی کی تو ملازمت سے نکال دیا گیا –
جج : کسی سے مدد مانگ لیتے
لڑکا : صبح سے مانگ رھا تھا – کسی نے مدد نہیں کی –
جج نے فیصلہ سنانا شروع کیا ——-
اس لڑکے نے روٹی چرائی – روٹی کی چوری بہت ھولناک جرم ھے – اس کے ذمہ دار ھم سب ھیں – اس لیے میں اپنے سمیت سب کو دس دس ڈالر جرمانہ کرتا ھوں – دس ڈالر جمع کرائے بغیر کوئی آدمی کمرہ عدالت سے باھر نہ جائے – یہ کہہ کر جج نے اپنی جیب سے دس ڈالر نکال کر میز پہ رکھ دیئے – پھر مدعی دکان دار سے مخاطب ھو کر کہا —- ایک مجبوروبے سہارا انسان کی مدد کرنے کی بجائے اسے عدالت میں لانے پر تم پر 1000 ڈالر جرمانہ عائد کیا جاتا ھے – یہ رقم کمرہ عدالت چھوڑنے سے پہلے ادا کرنی ھوگی –
جرمانے کی تمام رقم جمع ھو گئی تو جج صاحب نے اپنے دس ڈالرز سمیت وہ ساری رقم ملزم لڑکے کو دے دی –
اس سچے واقعے سے آپ کچھ نہ سیکھ سکیں تو آپ کی قسمت –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-18 فروری 2020
میرا میانوالی————-
آتے جاتے موسموں کا ذکر ——
ماہ و سال کا حساب کیلنڈر کہلاتا ھے – جنوری ۔ فروری ، مارچ وغیرہ والا حساب کتاب شمسی یا انگریزی کیلنڈر کہلاتا ھے – ھمارے ھاں زیادہ تر یہی کیلنڈر رائج ھے – 31 دسمبر رات بارہ بجے کے بعد نیا سال شروع ھوجاتا ھے -اسلامی کیلنڈر قمری کیلنڈر کہلاتا ھے ، کیونکہ اس میں ماہ و سال کا حساب چاند پر مبنی ھے – سال کا آغازیکم محرم سے ھوتا ھے – مہینے کا آغاز رویت ھلال (چاند نظرآنا) سے ھوتا ھے – یوں ھر مہینے کی پہلی تاریخ دن کی بجائے رات ھوتی ھے – اسلامی سال شمسی سال سے دس دن چھوٹا ھے – اس لیے اسلامی کیلنڈر موسموں کا پابند نہیں – عید کبھی سردیوں میں آتی ھے کبھی گرمیوں میں – اسلامی کیلنڈر ھمیں صرف رمضان المبارک ، عیدین اور محرم میں یاد آتا ھے – ورنہ کسی کو کچھ پتہ نہیں ھوتا کہ آج کون سے مہینے کی کون سی تاریخ ھے
ھمارے بچپن کے زمانے میں ماہ و سال کا حساب بکرمی کیلنڈر کے مطابق ھوتا تھا – یہ کیلنڈر ھندی یا پنجابی کیلنڈربھی کہلاتا تھا – اس کیلنڈرکے مطابق سال کا آغاز چیت سے ھوتا ھے – ، جو مارچ کے وسط سے شروع ھوتا ھے – بارہ مہینوں کے نام یہ ھیں –
١۔ چیتر
٢۔ وساکھ
٣۔ جیٹھ
٤، ھاڑ
٥، ساون
٦، بدھریوں
٧۔ اسیوں
٨، کتیوں
٩، منگھر
١٠۔ پوہ
١١۔ مانہہ
١٢، پھگن
ماہ و سال کا یہ حساب موسموں کی خبر بھی دیتا تھا – عموما ھر ماہ کا آغاز انگریزی کیلنڈر کے مہینے کے وسط سے ھوتا تھا – چٹے ان پڑھ لوگوں کو بھی اس کیلنڈر کی تاریخوں کا علم ھوتا تھا – بعض مہینوں سے کچھ محاورے بھی منسو ب تھے ، مثلا ادھ مانہہ تے بھگل بانہہ یعنی مانہہ کا مہینہ آدھا گذر جائے تو موسم اتنا گرم ھو جاتا ھے کہ جسم کے گرد لپیٹی ھوئی چادر یا شال اتار کر بغل میں دبانی پڑتی ھے –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-19 فروری 2020
میرا میانوالی————-
محمد محمود احمد ھاشمی کی یاد میں ————————-
اس تعزیتی نظم کا پہلا شعر محمود ھاشمی کی نماز جنازہ سے پہلے وارد ھؤا
تقریبا آدھ گھنٹہ بعد نظم مکمل ھو گئی –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-20 فروری 2020
میرا میانوالی————-
بارانی زمین سال میں صرف ایک ھی فصل دے سکتی تھی – زندگی کی بنیادی ضرورت روٹی ھے ، اس لیے سب لوگ گندم ھی کاشت کرتے تھے – ھمارے داؤدخیل میں کوئی سینکڑوں کنال کا مالک بڑا جاگیردار نہ تھا – آبائی زمین تقسیم در تقسیم ھوتی ھوئی فی کس پندرہ بیس کنال بنتی تھئ – چند لوگ ساٹھ ستر کنال کے مالک بھی تھے – کاشتکاری آسان کام نہیں – اس وقت ٹریکٹر ، ھارویسٹر وغیرہ کا تو نام و نشان بھی نہ تھا – بیلوں کی جوڑی اور لکڑی کے ھل سے کام چلایا جاتا تھا – اکثر لوگوں نے اپنی زمینیں آدھی فصل کے معاوضے پر کاشتکاروں کو دے رکھی تھیں -اکتوبر نومبر میں گندم کاشت کرنے کے بعد لوگ چار پانچ ماہ کے لیے ویہلے (فارغ) ھو جاتے تھے – لیکن وہ یہ فارغ وقت سو کر نہیں گذارتے تھے – چلتے پھرتے رھتے تھے – دوستوں ، رشتہ داروں سے میل ملاقات ، چھوٹا موٹا لین دین ، مویشیوں کے لیے چارہ لانا ، گھر کا سودا سلف خریدنا ، مصروفیت کے اس قسم کے بہت سے بہانے نکال لیتے تھے – بزرگ اپنے اپنے محلے کی چوکوں پر محفلیں سجاتے تھے – ان چونکوں کے بارے میں پہلے بہت کچھ لکھ چکا ھوں – ھمارے داداجی کی چوک کے علاوہ نمبرداردوست محمد خان سالار , حق دادخان نمبر دار، ٹھیکیدار شیرگل خان بہرام خیل ، سید گل عباس شاہ اور چاچا نورو موچی کی چوک ، اور چاچا گھیبہ سنار کی چوک دن بھر آباد رھتی تھیں –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-22 فروری 2020
میرا میانوالی————-
آج کی پوسٹ آصف کے نام ——-
آج لکھنا کچھ اور تھا – ڈاکٹر حنیف نیازی کی دلگداز پوسٹ میں یہ پکچر دیکھ کر اس موضوع پہ لکھنا واجب ھو گیا ، کیونکہ یہ سانحہ میرے داؤدخٰیل کا ھے –
دوتین دن پہلے اس نوجوان کو دن دہاڑے گولی مارکر قتل کر دیا گیا – یہ درندگی میرے داؤدخیل کا شیوہ تو نہ تھی – ضلع کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں داؤدخیل تو امن کا گہوارہ ھؤا کرتا تھا -قتل کس نے کیا ، کیوں کیا ، یہ تفصیلات میرے علم میں نہیں – اتنا کہہ سکتا ھوں کہ مقتول کا چہرہ بتا رھا ھے کہ اس سے کوئی بڑا جرم سرزد نہیں ھؤا ھوگا – یہ روشن چہرہ کسی ظالم کا نہیں ، ایک معصؤم مظلوم کا ھے –
اب دیکھنا یہ ھوگا کہ کیا ھمارا نظام انصاف اس بچے کو انصاف دلوا سکے گا – ؟؟؟
شدت غم سے کچھ سمجھ نہیں آرھا کیا لکھوں –
آصف بیٹا ، رب کریم تمہیں اپنی رحمت کا سایہ نصیب فرمائے ، اور تمہارے اھل خانہ کو صبرجمیل عطا کرے -رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-23 فروری 2020
میرا میانوالی————-
غریبی ایک احساس کا نام ھے – آج کل غریبی کا تصور بہت نرالا ھے – کرولا کار کا مالک لینڈ کروزر والے کے مقابلے میں خود کو غریب سمجھتا ھے – سادہ نوکیا فون والا سمارٹ فون والے کے مقابلے میں خود کو غریب سمجھ کراحساس کمتری میں مبتلا رھتا ھے – کرولا کار والا یہ سوچ کر شکر نہیں کرتا کہ جہاں لاکھوں لوگ بسوں اور ویگنوں پر دھکے کھاتے پھر رھے ھیں ، وھاں اس کے پاس اپنی گاڑی تو ھے – نوکیا فون والے کو یہ احساس نہیں ھوتا کہ جہاں لاکھوں لوگ فوری رابطے کی سہولت سے محروم ھیں ، وھاں اس کے پاس فوری رابطے کا وسیلہ تو ھے –
یوں اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ اپنے سے زیادہ مالدار لوگوں کو دیکھ کر اپنی “بدنصیبی“ کا رونا روتے رھتے ھیں جدید ٹیکنالوجی بلاشبہ ایک نعمت ھے ، اس سے حسب توفیق فائدہ اٹھانا ھر انسان کا حق ھے – اور لوگ فائدہ اٹھا بھی رھے ھیں – مانگنے والے گداگر اور کھوتا ریہڑیوں والے بھی موبائیل فون اٹھائے پھرتے ھیں – دیہات میں سائیکل والا خوش نصیب سمجھا جاتا تھا ، اب سائیکل تو خواب وخیال ھو گیا ، بچے بھی موٹر سائیکل دوڑاتے پھرتے ھیں –
آج کون ھے جو بھوکا سوتا ھے – پیشہ ور گداگروں کے سوا کون ھے جس کو سر پہ چھت کا سایہ میسر نہیں – مگر جس سے پوچھیں اچھا خاصا مالدار آدمی بھی یہی کہتا ھے “ بس جی ، برا حال ھے “-
سوچنے کی بات ھے ، آخر یہ احساس محرومی کب اور کہاں ختم ھوگا — ؟؟؟؟
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-24 فروری 2020
میرا میانوالی————-
جس کو دیکھیں اپنی حالت پہ ماتم کر رھا ھے – زمینوں اور کارخانوں کے مالکوں کی بھی نیندیں حرام ھیں – احساس کمتری اور احساس محرومی نے زندگی عذاب بنا رکھی ھے – سب کچھ ھوتے ھوئے بھی کچھ اور حاصل کرنے کے لیے تگ و دو جاری ھے – شکر کا لفظ بہت کم سننے میں آتا ھے –
یہ بے چینی ، ٹینشن ، اذیت رب کریم کی دی ھوئی نعمتوں پر شکر نہ کرنے کا نتیجہ ھے – اللہ تعالی نے تو صاف فرما دیا کہ اگر شکرکروگے تو اور زیادہ دوں گا ، اور ناشکری کروگے تو میرا عذاب بہت شدید ھے –
اسی عذاب شدید میں ھم سب مبتلا ھیں – رزق سے برکت اٹھ گئی ھے – کمائی جتنی بھی زیادہ ھو جائے ، پوری نہیں پڑتی – طرح طرح کی بیماریاں ، کاروبارمیں خسارے ، دشمنیاں ، مقدمہ بازیاں جینا عذاب بنا دیتی ھیں –
سب کوششیں ، بھاگ دوڑ ناکام ، جہاں اتنا کچھ کرلیا ایک بار اپنے اللہ کے وعدے پر یقین کر کے بھی دیکھ لیں – جو کچھ ھے اس پر شکر کرکے دیکھ لیں – دل میں ایمان ھو تو اللہ انسان کو تنہا نہیں چھوڑتا ، مایوس نہیں ھونے دیتا –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-25 فروری 2020
میرا میانوالی————-
کیا زمانہ تھا ، زندگی اتنی سادہ تھی کہ لوگ اپنی تمام ضروریات خود پوری کر لیتے تھے – گندم ، گھی ، دودھ ، مکھن سب کچھ اپنے گھر کا ھوتا تھا – کپڑا اور روزمرہ ضرورت کی چھوٹی موٹی چیزیں محلے کی دکانوں سے ادھار مل جاتی تھیں – یہ ادھار گندم کی فصل آنے پر بے باق کیا جاتا تھا – سب لوگ اپنے حال پر مطمئن تھے – جس سے پوچھوکیسی گذر رھی ھے ، ایک ھی جواب ، اللہ کا شکر ھے-
لوگ صحتمند بھی تھے – کینسر، دل کے امراض ، ھیپا ٹائیٹس ، ذیابیطس (شوگر) بلڈ پریشر وغیرہ کا نام بھی کسی نے نہیں سنا تھا – آج کے دورکی یہ ھولناک بیماریاں تو ناقص خوراک اور غیر فطری طرززندگی کی وجہ سے ھیں – لوگ ساری ساری رات جاگتے ھیں ، اور صبح اپنے اپنے کام پہ چلے جاتے ھیں – نیند پوری نہ ھونے کی وجہ سے جسم اور دماغ کی کارکردگی مسلسل کم ھوتی رھتی ھے –
یہ سب سامنے کی باتیں ھیں ، ھر شخص جانتا ھے ، مگراپنی غلط روش پر پھر بھی قائم رھتا ھے -نتیجہ یہی ھے کہ بیماری اور تنگدستی کے ھاتھوں ھر شخص نالاں ھے –
کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ ھم سب کچھ چھوڑ کر پرانے زمانے میں واپس چلے جائیں – لیکن ھم اتنا تو کر سکتے ھیں کہ سادگی ، محنت اور دیانت داری جیسے کارآمد اصؤل اپنا لیں یوں زندگی بہت آسان ھو سکتی ھے – سوچنے کی بات ھے –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-26 فروری 2020
میرا میانوالی————-
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-27 فروری 2020
میرا میانوالی————-
اللہ رازق ھے
دیہات میں وہ لوگ جن کی کوئی زمین ، جائیداد کاروبار نہ تھا ، صرف ایک مہینہ کام کرکے سال بھر کا رزق کما لیتے تھے – یہ لوگ اجرت پر گندم کی کٹائی کاکام کرتے تھے – اجرت کاٹی ھوئی گندم کا 1/10 (دسواں حصہ) ھوتی تھی – اس لیے یہ لوگ زیادہ سے زیادہ گندم کاٹنے کی کوشش کرتے تھے تاکہ سال بھر کا خرچ نکل آئے – کام میں پورا کنبہ شریک ھوتا تھا – پورا مہینہ صبح سے شام تک مصروفیت — خاصا مشقت طلب کام تھا ، مگر اپنے فائدے کے لیے بہرحال کرنا پڑتا تھا – مرد عورتیں ، بچے ، سب مل کر کام کرتے تھے -اپنے علاقے میں کوئی بڑا زمیندار نہ تھا ، اس لیے بہت کم لوگوں کو کام ملتا تھا – زیادہ تر لوگ اپنی فصل خود ھی کاٹ لیتے تھے – جن لوگوں کو اپنے گاؤں میں کام نہ ملتا وہ سرگودھا یا جنوبی پنجاب کے نہری علاقوں میں جا کر فصل کی کٹائی میں حصہ لیتے تھے – پورے پورے کنبے ایک ماہ کے لیے ادھر منتقل ھوجاتے تھے – بڑے زمیندار انہیں رھائش اور کھانا بھی فراھم کرتے تھے- ایک ماہ بعد یہ لوگ اپنے حصے کی گندم کے ساتھ واپس آتے تو جشن کا سماں بن جاتاتھا – موبائیل فون تواس دور میں تھا نہیں ، اس لیے گاؤں میں کسی کو علم نہیں ھوتا تھا کہ وہ لوگ کہاں ھیں ، کس حال میں ھیں – ان کی واپسی ایک خوشگوار سرپرائیز ھوتی تھی –
سرائیکی میں غالبا ان لوگوں کو لیہار کہا جاتا تھا – مگر ھمارے ھاں یہ لوگ اس لقب کو اپنی توھین سمجھتے تھے –
جو گندم یہ لوگ لاتے تھے ، کھانے کے علاوہ دوسری ضروریات زندگی کے لیے بھی کافی ھوتی تھی – جو چیز خریدنی ھوتی، پیسوں کی بجائے گندم دے کر خرید لیتے – بچوں کی شادیوں کے لیے بھی گندم بیچ کر نقد رقم لے لیتے تھے – یوں ایک مہینے کی محنت سے سارا سال آرام سے گذار لیتے تھے —–رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-28 فروری 2020
میرا میانوالی————-
گندم کی فصل کھیت سے گھر یا منڈی تک پہنچانے کا عمل تین مراحل میں مکمل ھوتا ھے – پہلا مرحلہ کٹائی ، دوسرا گہائی ( دانہ اور بھوسہ الگ کرنا) اور تیسرا مرحلہ بھرائی (گندم بوریوں میں بند کرنا) کہلاتا ھے – خآصآ طویل اور مشکل عمل ھوتا تھا – کٹائی ھاتھوں سے کی جاتی تھی – گہائی کٹی ھوئی فصل کو مویشیوں کے پاؤں تلے روند کر کی جاتی تھی – پھراڈاری کے ذریعے دانہ اور بھوسہ الگ کرکے گندم کی ڈھیری بنتی تھی – ڈھیری میں سے صدقہ خیرات اور دیہی کارکنوں کو مقررہ حصہ دے کر گندم بوریوں میں بھری جاتی تھی – اس عمل کے دوران خاصی چہل پہل لگی رھتی تھی آج کے دور میں ٹیکنالوجی نے کام بہت آسان کردیا ھے – کٹائی کاکام ھارویسٹر نام کی مشین سے لیا جاتا ھے – صفائی کاکام تھریشر سے – آج کل تو کمبائین نام کی مشین کٹائی اور گہائی کے علاوہ بھرائی کا کام بھی کر دیتی ھے –
ھارویسٹر، تھریشر اور کمبائین صرف بڑے زمیندار ھی افورڈ کر سکتے ھیں – عام لوگ کٹائی کا کام ھاتھوں سے کرنے کے بعد تھریشر کرائے پر لے کر گذارہ چلا لیتے ھیں – بھرائی کا کام بھی ھاتھوں سے کیا جاتا ھے – جس دن تھریشر پہ کام کروانا ھو لوگ دوستوں سے تعاون کی درخواست کرنے کے لیے کہتے ھیں “لالا ، تھریشرتے آویں “-
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-29 فروری 2020