منورعلی ملک کےجون2021 کےفیس بک پرخطوط
میرا میانوالی–
آج سے تقریبا پچاس سال پہلے ہمارے علاقے میں بجلی کی فراہمی شروع ہوئی تو بجلی کی چکاچوند روشنیوں سے خوف زدہ ہوکر بہت سے جانور اور پرندے اس علاقے سے ہجرت کر گئے –
ہمارے بچپن کے دَور میں داؤدخیل شہر کے مشرقی کنارے پر راتوں کے پچھلے پہر گیدڑ جمع ہوکر رات بھر لمبی لمبی چیخیں مارتے رہتے تھے – گیدڑ بہت بزدل جانور ہے – کتوں کے ڈر سے گیدڑ شہر میں تو داخل نہیں ہوتے تھے، باہر بیٹھ کر غم و غصہ کا اظہار کرتے رہتے – بچے ان کی چیخوں سے رات بھر ڈرتے رہتے تھے –
پہاڑ کا دامن بھیڑیوں کا بھی مسکن ہوا کرتا تھا – بہت ظالم اور خونخوار جانور ہے – کتے بھی اس کی دہشت سے ڈرتے ہیں – بھیڑیئے کو ہم بگیاڑ کہتے تھے – بگیاڑ اکیلا شکار نہیں کرتا ، پُوری فیملی مل کر رات کے پچھلے پہر شکار کو نکلتی تھی ، اور ایک آدھ بھیڑبکری کو چیر پھاڑ کر ساتھ لے جاتی تھی – عام لوگوں کے پاس اسلحہ نہیں ہوتا تھا – ڈانگ سوٹے سے بھیڑیوں کا مقابلہ خطرے سے خالی نہ تھا – اس لیے بھیڑیوں کو شکار کرنے کی آزادی حاصل تھی- ایک دفعہ ہمارے پڑوس میں چاچا غلام محمد خان بہرام خیل کے گھر سے بھی ایک بکری بھیڑیئے اٹھا کر لے گئے – گھر والے جاگ تو گئے مگر بھیڑیوں کی پُوری ٹیم کا مقابلہ کون کرتا –
نانیوں دادیوں سے سنا تھا کہ ہمارے پہاڑ کے دامن میں ایک آدھ شیر بھی رہتا تھا – داؤدخیل کے ایک بزرگ کلیم اللہ قریشی کا ذکر سنتے تھے کہ ایک دن آدھی رات کے قریب کلیم اللہ قریشی صاحب پہاڑ کے پار سے واپس آرہے تھے تو شیر نے ان پر حملہ کردیا – کلیم اللہ کے پاس کلہاڑی تھی – شیر کلیم اللہ کی ٹانگ بھنبھوڑنے لگا تو کلیم اللہ نے کلہاڑی کے پے درپے وار کرکے شیر کا سرپھاڑدیا – شیر تو مرگیا ، مگر کلیم اللہ بھی زیادہ خُون بہہ جانے کی وجہ سے بچ نہ سکے – صبح لوگوں نے دیکھا کہ ایک طرف شیر کی لاش ، دوسری طرف کلیم اللہ کی میت پڑی تھی –
——————— رہے نام اللہ کا ––بشکریہ-منورعلی ملک-3جون 2021
میرا میانوالی–
داؤدخیل کے پانی کو ہم جنت کا پانی کہا کرتے تھے – کنوئیں کا ہوتا یا گھر کے ہینڈ پمپ کا، پانی سو فی صد صاف شفاف ، ٹھنڈا اور صحت بخش ہوتا تھا- پھر نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ، یا شاید ہمارے گناہوں کی سزا کے طور پر آج سے تیس پینتیس سال پہلے داؤدخیل کا پانی سخت کڑوا اور بدذائقہ ہو گیا – اب صورت حال یہ ہے کہ لوگ شہر سے باہر نہر کے کنارے بلال مسجد کے ہینڈپمپ سے پانی لاتے ہیں – صبح سویرے اور دوپہر کے بعد وہاں لوگوں کی لائینیں لگی ہوتی ہیں –
ٹاؤن کمیٹی نے بھی نہر کے کنارے ٹیوب ویل لگا کر واٹرسپلائی سسٹم بنایا تھا ، مگر ایک تو وہ شہر کے لیے ناکافی ہے دوسرے اکثر کسی نہ کسی بہانے بند رہتا ہے –
صرف داؤدخٰیل ہی نہیں ، میانوالی میں بھی تقریبا یہی حال ہے ، بلکہ لاہور میں بھی پانی فلٹریشن پلانٹس سے لانا پڑتا ہے – جس زمانے میں ہم سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور کے سٹوڈنٹ تھے ، اس وقت پورے لاہور میں سرکاری واٹر سپلائی سسٹم کا پانی پینے کے لیئے استعمال ہوتا تھا – لوگ گلی کوچوں میں لگے سرکاری نلکوں سے پانی لیتے تھے – صاحب حیثیت لوگوں نے گھروں میں بھی ٹُونٹیاں لگوائی ہوئی تھیں –
ہمارا ایک گھر اسلام آباد میں ہے، وہاں بھی پینے کے لیے پانی فلٹریشن پلانٹ سے لانا پڑتا ہے – بیس پچیس سال پہلے تک وہاں بھی سرکاری واٹر سپلائی سسٹم کا پانی پیا جاتا تھا – کراچی والے بھی کئی سال سے رو رہے ہیں کہ پینے کا پانی نہیں ملتا – آج یہ حال , کل پتہ نہیں کیسا ہوگا –
محوِحیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
——————— رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-4جون 2021
گرمی کے موسم میں دوپہر سے شام تک نہر میں نہانا داؤدخیل کا کلچر ہوا کرتا تھا – بچے اور نوجوان دن بھر نہر کے پُل پر سے چھلانگیں لگاتے اور تیرتے رہتے تھے – یہ شُغل شاید اب بھی ہوتا ہو — نہر کے کنارے دن بھر میلہ لگا رہتا تھا – برف جیسے ٹھنڈے یخ بستہ پانی میں پانچ دس منٹ بعد سردی سے دانت بجنے لگتے تو لوگ پانی سے نکل کر نہر کے مغربی کنارے پر دُھوپ میں تپتی ریت پر لیٹ جا تے – چند منٹ بعد گرم ریت کی جلن محسوس ہوتی تو پھر بھاگ کر نہر میں گھُس جاتے تھے – تیرنا نہ جاننے والوں کو نہر سے ملحق راجباہ (چھوٹی نہر جسے ہم راج واہیا کہتے تھے) میسر تھی – چھوٹی نہر کاپانی بڑی نہر جیسا سرد تو نہیں ہوتا تھا ، پھر بھی اچھا خاصا ٹھنڈا ہوتا تھا –
بزرگوں کا نہانے کا اپنا طریقہ تھا- وہ اکیلے اکیلےجا کر نہر کے کنارے کوئی ایسی جگہ تلاش کرتے جہاں کوئی دیکھنے والا نہ ہو ٠ کپڑے اتارنے سے پہلے ادھر ادھر دیکھ کر اطمینان کر لیتے کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا – پھرتمام کپڑے آتار کر الف ننگے گَھم سے نہر میں کُود جاتے – باہر نکلنے سے پہلے بھی یہ احتیاط کرتے تھے کہ کوئی دیکھ نہ لے – اتنے تردد کی بجائے کوئی دھوتی یا کچھا وغیرہ بھی پہنا جاسکتا تھا ، مگر بزرگوں کا دستُور یہی تھا –
گذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ———————— رہے نام اللہ کا–بشکریہ-منورعلی ملک-5جون 2021
میرا میانوالی–
امن و سکون ، تعاون اور ہمدردی کا کیا سہانا دور تھا – ہمسائے بھی قریبی رشتہ داروں کی طرح ایک دوسرے سے ہمدردی اور تعاون کرتے تھے – کسی گھر میں کوئی فوت ہوجاتا تو دوتین دن اس گھر میں کھانا رشتہ دار اور ہمسائے فراہم کرتے تھے – گھر کے باقی کام کاج بھی وہی سنبھال لیتے تھے – جن کا کوئی بھی رشتہ دار شہر میں موجود نہ ہوتا ان کا کھانا اور گھر کے سارے کام ہمسائے کر دیتے تھے –
شادی بیاہ کے مواقع پر مہمانوں کے لیے چارپائیاں ۔ بستر اور روزمرہ ضرورت کی دُوسری چیزیں بھی ارد گرد کے گھروں سے آجاتی تھیں – اگر شادی بچی کی ہوتی تو جہیز میں بھی ہمسائے اور رشتہ دار حسب توفیق حصہ ڈالتے تھے – کپڑے، بستر ، برتن ، کچھ نہ کچھ ضرور دیتے تھے – سردی کا موسم ہوتا اور باہر سے آنے والے مہمان زیادہ ہوتے تو کچھ مہمانوں کو ارد گرد کے گھروں والے اپنے ہاں ٹھہرا لیتے تھے – ان کے کھانے پینے کا بندوبست بھی کر دیتے تھے – کوئی کسی کے لیئے اجنبی نہ تھا – ہمسائے کے بہن بھائیوں کو اپنے بہن بھائی اور مہمانوں کو اپنے مہمان سمجھا جاتا تھا –
عام حالات میں بھی سالن کی ایک ایک پلیٹ ارد گرد کے گھروں میں بھیجنے کا رواج عام تھا – کسی کے ہاں کوئی مہمان آجاتا تو دودھ ، انڈے ، مکھن , گائے کا خالص دیسی گھی حسب ضرورت ساتھ کے گھروں والے فراہم کر دیتے تھے –
ارد گرد کے کسی گھر میں کوئی بیمار ہوجاتا تو بیمار پُرسی کےلیئے جانا فرض سمجھا جاتا تھا – مریض کے لیے فروٹ یا کوئی اور کھانے پینے کی چیز بھی لے جاتے تھے – صاحب حیثیت ہمسائے اور رشتہ دار حسب توفیق کچھ نقد پیسے دے کر علاج میں بھی حصہ ڈالتے تھے –
امید ہے دیہات میں یہ حسین روایات اب بھی برقرار ہوں گی – شہروں میں تو اللہ معاف کرے بہت بُرا حال ہے –
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔–بشکریہ-منورعلی ملک-7جون 2021
خربُوزوں اور تر بُوزوں کا موسم ہے – پُرانے زمانے میں خربوزے کو کَچری اور تربُوز کو ہِدوانڑاں کہتے تھے – عیسی خیل کے لوگ تربُوز کو ٹِیٹکہ کہتے تھے (عجیب زبان ہے یہ بھی) – خربوزے اور تربُوزکے کھیت کو ہم “واڑی“ کہتے تھے –
دیسی خربُوزہ بہت میٹھا اور خوشبُودار ہوتا تھا – اس کی ہلکی سی مست خوشبو اپنی مثال آپ تھی – کمرے میں خربُوزہ پڑا ہوتا تو کمرہ مہک اُٹھتا تھا – خربُوزے کی یہ قسم ٹولے وال کہلاتی تھی ، کیونکہ اس کا اصل وطن ضلع میانوالی کی پشتون بیلٹ کے علاقے ٹولہ بانگی خیل اور ٹولہ منگ علی (منگلی) تھا – بعد میں ہمارے داؤدخٰیل کے گردونواح میں بھی کاشت ہونے لگا – صوبہ کے پی سے کلاچی والا لمبوترا خربوزہ بھی ہمارے علاقے میں کاشت ہوتا تھا – یہ بھی بہت میٹھا ہوتا تھا ، مگر ذائقے اور خوشبُو میں ٹولے کا خربُوزہ نمبر وَن تھا – اب ہمارے علاقے میں یہ خربوزہ صرف توحید آباد کے نواح میں کاشت ہوتا ہے – (وہاں ہمارے بہت پیارے ساتھی ماحی خان ہمارے چھاپے کے منتظر بیٹھے ہوں گے – پچھلے سال انہیں خبردار کردیا تھا- اگر موقع ملا تو چھاپہ ضرور ہوگا) –
آج کل شہروں میں خربوزے کے نام سے جو چیز بِک رہی ہے ، اللہ معاف کرے – نہ خوشبؤ ، نہ ذائقہ ، پتہ نہیں کیا چیز ھے – ضلع بھکر کے علاقے منکیرہ کا خربوزہ بہت خُوب ہوتا ہے ، مگر وہ کچھ دیر سے مارکیٹ میں آتا ہے –
بہت دلچسپ اور عجیب بات یہ ہے کہ گِیدڑ خربُوزہ بڑے شوق سے کھاتا ہے – اس لیے کھیت کی رکھوالی کرنی پڑتی تھی – ہمارے علاقے میں ایک محاورہ بھی تھا “ واڑی دا راکھا گِدڑ “ یعنی چور کو گھر کا محافظ بنادینا – اس محاورے کی تشریح ہمارے جگر حاجی اکرام اللہ خان بہت خُوب کر سکیں گے –
—————— رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-9جون 2021
میرا میانوالی–
کل کی پوسٹ میں ذکر زیادہ خربُوزے کا ہوا ، کمنٹس زیادہ تر ہدِوانڑیں (تربوز) کے بارے میں آئے – خربوزے کے بارے میں ایک اہم بات یہ بتادوں کہ یہ ہمارے آقا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ پھل تھا –
اور اب ذکر تربوز کا –
ہمارے علاقے کا دیسی ہدِوانڑاں ہلکے سبز رنگ میں گہری سبز دھاریوں والا گول ہِدوانڑاں ہوتا تھا – یہ زیادہ تر کنؤوں پر کاشت ہوتا تھا – پانچ سات میں سے ایک آدھ ہدِوانڑاں اندر سے لال اور میٹھا نکلتا تھا – باقی پانچ سات مویشیوں کی خوراک بنتے تھے – پکا ہِدوانڑاں بھی نہ زیادہ لال نہ زیادہ میٹھا ہوتا تھا – بس گذارہ ہی کرنا پڑتا تھا – آج کل جو سیاہی مائل سبز رنگ کے بھاری بھرکم گول تربُوز آرہے ہیں یہ تو اللہ کریم کی بہت بڑی نعمت ہیں – شہد سے زیادہ میٹھے – فریزر یا فریج میں ٹھنڈا کر کے کھائیں تو سر کے بالوں سے پاؤں کے ناخنوں تک ٹھنڈک اور توانائی کی لہر سی دوڑ جاتی ہے-
ہمارے علاقے میں نواب آف کالاباغ ملک امیرمحمدخان نے ایران کا تربُوز متعارف کرایا تھا – کدو کی طرح بہت ہلکے سبز رنگ اور موٹی چھال والا یہ بھاری بھرکم لمبوترا تربوز بھی بہت میٹھا اور خوش ذائقہ ہوتا تھا – اندر سے یہ لال نہیں ہلکے سے گلابی رنگ کا ہوتا تھا ، پھر بھی بے حد میٹھا اور لذیذ تھا – اس کا بیج ہمارے علاقے میں کاشت ہونے لگا تو یہ تربُوز مارکیٹ پر چھا گیا – اب بھی ملتا ہے ، کوالٹی کا علم نہیں –
تربوز کے فضائل بتاتے ہوئے نانیاں دادیاں یہ قصہ سناتی تھیں کہ ایک دن سخت گرمی میں دوپہر کے وقت ایک آدمی گھوڑے پر سوار کسی لمبے سفر پر جارہا تھا – ایک مُرغ بھی اس کی گود میں تھا – راستے میں شدید بھُوک اور پیاس لگی تو اس نے ایک کنوئیں سے بڑے سائیز کا ایک تربُوز لے لیا – تربُوز کھاکر اور اُس کے اندر کا پانی پی کر اپنی بھوک اور پیاس بجھائی ، بیج مُرغ کا دوپہر کا کھانا بن گیا ، اور تربُوز کے چھلکے (چَھوڈے) گھوڑے کی خوراک بن گئے – واللہ اعلم –
——————– رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک10جون 2021
میرا میانوالی–
جب ہم نے ہوش سنبھالا چائے کا دور شروع ہو چکا تھا – لیکن ابھی چائے پینے کا شوق جنون نہیں بنا تھا – کئی گھروں میں چائے بنتی ہی نہیں تھی – چائے صرف فوجیوں اور دوسرے سرکاری ملازموں کے گھروں تک محدود تھی – باقی گھروں میں ناشتہ لسی ، گھی یا مکھن اور روٹی پر مشتمل ہوتا تھا –
چائے انگریز کا تحفہ تھا – انگریز حکومت نے چائے کو متعارف کروانے کے لیے کئی اقدامات کیئے – ریلوے سٹیشنوں پر ٹی سٹال بنوائے – ان ٹی سٹالز کے نیلے رنگ کے سائین بورڈ پر سفید حروف میں چائے کے بہت سے فضائل لکھے ہوتے تھے – یہ بھی سنا کہ چائے کی دو بڑی کمپنیوں لپٹن اور بروک بانڈ کے کارندے گلی گلی پھر کر چائے کے چھوٹے پیکٹ مفت تقسیم کرتے تھے، اور ساتھ ہی چائے بنانے کا طریقہ بھی بتاتے تھے –
ہمارے گھر میں چائے ہمارے چچا ملک محمد اصغرعلی نے متعارف کرائی – موصوف چار سال تک دہلی کے حکیم اجمل خان طبیہ کالج میں پڑھتے رہے ( میانوالی کے لیجنڈ حکیم عبدالرحیم خان ان کے کلاس فیلو تھے)- چچا جی دہلی میں قیام کے دوران چائے کے عادی ہوئے ، تعلیم مکمل کرکےگھر داؤدخیل واپس آئے تو یہاں بھی چائے نوشی کی روایت برقرار رکھی – رفتہ رفتہ سارا گھر چائے کا عادی ہوگیا – ہمارے گھر کے علاوہ داؤدخیل کے کچھ اور گھروں میں بھی چائے کا رواج کچھ عرصہ سے چل رہا تھا –
کیا چائے ہوتی تھی- !!!! ——- لپٹن یا بروک بانڈ کا پیکٹ کھولتے ہی ماحول چائے کی مست خوشبُو سے مہک اُٹھتا تھا – چائے کی یہ اعلی درجے کی پتی ، گھر کی گائے بھینس کا سو فی صد خالص گاڑھا دودھ ، صاف شفاف تازہ پانی اور گڑ یا شکر ملا کر چائے بنتی تھی – ایک آدھ کلو چینی گھر میں وی آئی پی مہمانوں کی چائے کے لیئے رکھی ہوتی تھی – چینی کو ولائتی کھنڈ کہتے تھے – ایک ہلکے براؤن رنگ کی دیسی چینی بھی آئی تھی – مگر اس کا ذائقہ اچھا نہ تھا ، اس کی بجائے گڑ اور شکر کی چائے زیادہ پسند کی جاتی تھی – گھر کے لوگ گڑیاشکر کی چائے ہی پیتے تھے – ہماری ایک بزرگ رشتہ دار خاتون مٹی کی کٹوی (ہانڈی) میں چائے بناتی تھیں- اس چائے کا لُطف ہی کچھ اور تھا –
گذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ——————————- رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک11جون 2021
اب تو ہر جگہ ہر گلی بازار بنتی جا رہی ہے – داؤدخیل میں ہمارے بچپن کے زمانے میں ًمحلہ لمے خیل اور محلہ داؤخیل کے درمیان تقریبا بیس فٹ چوڑی ، آدھا کلومیٹر لمبی گلی بازار کہلاتی تھی- قیام پاکستان سے پہلے تو اس گلی میں ہندؤؤں کی دو تین دکانیں تھیں – ہندوؤں کے جانے سے وہ بھی بند ہوگئیں – جب ہم نے ہوش سنبھالا تو اس بازار میں صرف ایک دکان تھی – کرم داد خان داؤخیل کی یہ کریانے کی دکان چیزوں کی کوالٹی کے لیے مشہور تھی – یہاں ہر چیز ایک نمبر ملتی تھی – کرم داد خان خود بھی بہت صاف ستھرے خوش ذوق انسان تھے – شہر میں یہ اکلوتی دکان تھی جہاں جنرل سٹور کا تھوڑا بہت سامان کریم ، پاؤڈر ، ٹوتھ پیسٹ ، برش وغیرہ بھی دستیاب تھے –
ہمارے محلہ مبارک آباد ، اللہ خیل میں چاچا محمد اولیا کی دکان پہ کھانے پینے کے سامان کے علاوہ کپڑا اور سبزی فروٹ بھی ملتا تھا – چاچا اولیا درزی کاکام بھی کرتے تھے- کئی قسم کی مٹھائیاں بھی بنا لیتے تھے – اس محلے میں دوسری دکان دوبھائیوں چاچا غلام حسن اور ماسٹر عبدالحکیم کی تھی – محلہ امیرے خیل میں سوانس کے حاجی عبدالکریم اور چاچا غلام حسین خان برتھے خٰیل کی دکانیں تھیں – ًمحلہ علاؤل خٰیل اور انزلے خیل کے سنگم پر حاجی سلطان محمود المعروف حاجی کالا کی دکان ، اور سکول کے جنوب میں حاجی نورمحمد درکھان کی دکان تھی – سکول کے شمال میں محلہ لمے خیل میں چاچا عیسب خان کی دکان بھی مشہور تھی – محلہ سالار میں محمد بخش خان کی کپڑے کی دکان اور محلہ شریف خیل میں غلام سرور خان کی دکان اور آٹا پیسنے کی مشین تھی – سرور خان کبڈی کے بھی خاصے مشہور کھلاڑی تھے –
شہر بھر میں بس یہی دس بارہ دکانیں تھیں – آج تو ہمارے گھر کے سامنے والی جرنیلی سڑک بھی اچھا خاصا بازار بن گئی ہے – میانوالی کی تو تقریبا ہر گلی میں پلازے بن رہے ہیں –
محوِ حیرت ہوں کہ دُنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
—————————رہے نام اللہ کا–بشکریہ-منورعلی ملک-12جون 2021
میرا میانوالی–
کل دن کے پچھلے پہر شہزاد ہوٹل میں مرحوم سالار نیازی کی برسی تھی – اسی مقام پر ہر سال ١٣ جون کو جنابِ سالار نیازی کے صاحبزادے امیر عبداللہ خان سالار اور ان کے بھائی اپنے والدِمحترم کوایصال ثواب کے لیئے فاتحہ خوانی اور نعتیہ مشاعرہ کا اہتمام کرتے ہیں – صدارت کی ذمہ داری ہمیشہ میرے کندھوں پر ہوتی ہے – اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سالارصاحب کی طرح میں بھی داؤدخیلوی ہوں – دوسری وجہ یہ کہ سالار صاحب میرے والدِ محترم کے بہت عزیز دوست تھے – اس تعلق کی بنا پر مجھ سے بہت محبت کرتے تھے – وہ یہ محبت ورثے میں اپنے صاحبزادے امیر عبداللہ خان سالار کے سپرد کر گئے – امیر عبداللہ خان اسی تعلق کے حوالے سے مجھے “پتریر“ (چاچے دا جایا) کہتے ہیں اور مجھ سے بے پناہ پیار کرتے ہیں – ان کی اس محبت کی وجہ سے میں اس تقریب میں شمولیت اپنا فرض سمجھتا ہوں –
ایک سال اس تقریب میں میرے دائیں جانب محمدمغمودہاشمی ، بائیں جانب پروفیسر محمد فیروز شاہ تشریف فرما تھے – محمود اس تقریب کے سٹیج سیکریٹری تھے، فیروزشاہ صاحب مہمان خصوصی – تقریب کے بعد شدید بارش شروع ہوگئی – بارش لمبی ہونے لگی تو میں نے کہا میں نے تو عشآء سے پہلے گھر پہنچنا ہے – تیز برستی بارش میں محمود نے اپنے موٹر سائیکل پر مجھے میرے گھر پہنچا دیا – یہ محمود سے میری آخری ملاقات تھی –
کل کی تقریب میانوالی کے اہل علم ودانش کا ایک نمائندہ اجتماع تھی- سٹیج سیکریٹری کی ذمہ داری شیرمحمد ناظر صاحب نے نبھائی – سٹیج پر میرے ساتھ سینیئر صحافی رانا امجد اقبال ، سینیئر صحافی اور تاجر رہنما خواجہ سکندرحیات اور پروفیسر صیاءالدین خان تشریف فرما تھے – تقریب میں تمام مقامی شعراء کے علاوہ خوشاب سے عباسی صاحب بھی شریک ہوئے – بہت سے جانے پہچانے پیارے چہروں کے ہجوم میں ہمارے زندہ دل ۔ نیک دل پرانے دوست شمیر خان جلالی بھی زینت۔ محفل تھے – نوجوان عالمِ دین اور صحافی محمد امین سیالوی نے محفل کا اختتام کا درود وسلام سے کیا – بہت یادگار محفل تھی – پتریر کی خوشی دیکھنے کے لائق تھی – اشک بار آنکھوں سے بار بار مجھے گلے لگاتے رہے –
مرحوم سالار نیازی سینئر شاعر اور اللہ والے بزرگ تھے – نماز سے محبت کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی تقریب کے دوران کسی مسجد سے اذان کی آواز سبنائی دیتی فورا اُٹھ کر مسجد کو چل دیتے – ایک دفعہ جانے لگے تو کسی نے کہا سالارصاحب ، نماز بعد میں پڑھ لینا – سالار صاحب نے کہا اس محفل میں میں آپ کی دعوت پر آیا تھا ، مگر اب اللہ مُجھے بلارہا ہے ، میں اُدھر ہی جاؤں گا – یہ کہہ کر کُرسی صدارت چھوڑ کر مسجد کو چل دیئے –
نماز سے ان کی محبت اللہ کو ایک بار اتنی پسند آگئی کہ انہیں نماز کے بعد اس دنیا میں واپس نہ جانے دیا – مسجد سے نکلتے ہی ایک تیز رفتار کوچ کی زد میں آکر اس دنیا سے رُخصت ہو گئے – لب پہ آخری الفاظ تھے “اللہ ، اللہ ، اللہ“——-
———————– رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-14جون 2021
میرا میانوالی–
تُک ، تُک ، تُک ، تُک —-
یہ آواز دن بھر گاؤں میں یہ خبر دیتی رہتی تھی کہ آٹے کی مشین چل رہی ہے – ڈیزل انجن کے ایگزاسٹ پائیپ سے نکلنے والی یہ آواز دُور دُور تک سُنائی دیتی تھی – انجن کے زور سے گھؤمنے والا پٹہ بھاری بھرکم چکی کو گھُماتا تھا – چکی لکڑی کے پلیٹ فارم پر لگی ہوتی تھی – اس کے اُوپر گندم چکی میں ڈالنے کے لیئے لوہے کی ایک بڑی سی قیف (گھیرنی) لگی ہوتی تھی – اس کے ذریعے پانچ سات کلو گندم چکی میں ڈالتے تو وہ پِس کر آٹے کی شکل میں ایک پرنالے سے باہر نکلتی تھی – پرنالے کے آگے رکھا ہوا ٹین آٹے سے بھر جاتا تو اُسے خالی کر کے چکی میں مزید گندم ڈال دی جاتی تھی – یہ سلسلہ دن بھر چلتا رہتا تھا –
آٹے کی مشین سے گندم پِسوانے کے لیئے خواتین جاتی تھیں – شرم و حیا کا دور تھا – خواتین کو آتے جاتے دیکھ کر مرد راستے سے ہٹ جاتے تھے – مشین کے ارد گرد کوئی مرد نہیں جاتا تھا- خواتین خود اپنی اپنی گندم چکی میں ڈالتی اور آٹا سمیٹتی تھیں-
قیام پاکستان سے پہلے داؤدخٰیل میں دولت رام ہندو کی مشین شہر کی اکلوتی مشین تھی – یہ مشین محلہ لمے خیل اور داؤخیل کے سنگم پر چاچا دوسا کے گھر کے بالمقابل واقع تھی – قیامِ پاکستان کے بعد محلہ انزلے خیل میں محمد رمضان لوہار ، محلہ داؤخیل اور محلہ سالار کے سنگم پر چاچا مہر محمد کمہار ، محلہ شریف خٰیل میں غلام سرور خان اور ریلوے سٹیشن روڈ پر شاہنواز خان سالار (شنی خیل ) نے بھی آتے کی مشینیں لگا لِیں – محلہ داؤخٰیل میں چاچا شیرگُل خان نامی بزرگ بھی کہیں سے ایک گلا سڑا انجن لے آئے تھے ، جسے چلانے کے لیے خاصی مشقت کرنی پڑتی تھی – رب نواز خان المعروف ربُو کریلہ اس مشین کے ڈرائیور تھے ——————-
پسائی کا معاوضہ مُٹھی بھر آٹا ہوا کرتا تھا-
————————- رہے نام اللہ کا —––بشکریہ-منورعلی ملک-16جون 2021
آٹے کی مشین کا ایک متبادل تو ہاتھ سے چلنے والی پتھر کی بنی ھوئی چکی تھی جو تقریبا ہر گھر میں ہوتی تھی – اگر کسی وجہ سے محلے کی آٹے کی مشین نہ چل رہی ہوتی تو خواتین گھر میں اس چکی پر ایک دو کلو گندم پِیس لیتی تھیں – خاصا مشقت کا کام تھا ، اس لیئے زیادہ مقدار میں گندم پِسوانی ہوتی تو مشین پر جانا پڑتا تھا –
مشین کا ایک اور متبادل “پِہارا“ کہلاتا تھا – ایک بڑے ہال نما کمرے میں دس بارہ چکیاں لگی ہوتی تھیں – جن گھروں میں چکی نہیں ہوتی تھی ان گھروں کی خواتین اپنی گندم پِہارے پہ جا کر پِیس لیتی تھیں – پِسائی کا کام خود کرنا پڑتا تھا – یہ سہولت البتہ ہوتی تھی کہ دو دو خواتین آمنے سامنے بیٹھ کر مل کر چکی چلا لیتی تھیں ، کام ذرا آسان ہو جاتا تھا – پِہارے پر گندم پیسنے کے بعد کمرے کے ایک کونے میں رکھے ہوئے ٹین میں مٹھی بھر آٹا معاوضے کے طور پر ڈالنا پڑتا تھا –
محلہ امِیرے خٰیل میں چاچا صالح محمد کے گھر میں پِہارا تھا – وہاں دن بھر خواتین کا میلہ لگا رہتا تھا – مجھے پہارے کے بارے میں یہ معلومات وہیں سے ملیں – بچپن میں میں اپنی پڑوسن خاتون ماسی گُل بختے کے ساتھ وہاں تماشا دیکھنے جایا کرتا تھا –
چکی اس لحاظ سے متبرک چیز ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنی لختِ جگر سیدہ فاطمتہ الزہرا کو جہیز میں چکی بھی دی تھی، چکی کا آٹا مشین کے آٹے سے ذرا موٹا مگر توانائی سے بھرپُور ہوتا ہے –
—————————- رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-17جون 2021
میرا میانوالی–
ہمدم دیرینہ میاں نعیم کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مین بازار میانوالی میں چوک فتح محمد کے قریب میاں نعیم کی فوٹوگرافی کی دکان اہل علم و ادب کی بیٹھک ہوا کرتی تھی ۔ پروفیسر محمد فیروز شاہ، ابوالمعانی عصری اور پروفیسر گلزار بخاری اس بیٹھک کی زینت ھوا کرتے تھے۔ میاں نعیم خود بھی بہت اچھے شاعر اور صحافی ہیں۔ شاعری کے میدان میں ہم سب ایک ساتھ وارد ھوئے۔ ہم جب محلہ موتی مسجد میں رہتے تھے ان سے روزانہ ملاقات ہوتی تھی۔ یہ سلسلہ تقریبا 17 سال رہا۔ میاں صاحب کچھ عرصہ قبل فوٹو گرافی ترک کر کے گوشہ نشین ھو گئے۔ کبھی کبھی میرے ہاں تشریف لاتے ہیں تو گئے دنوں کی یادوں کی خوشبو سے ماحول معطر ہو جاتاہے۔ اللہ سلامت رکھے، ہمارے بہت پیارے ساتھی ہیں۔–بشکریہ-منورعلی ملک-18جون 2021
میرا میانوالی–
دادا جی کا پہلا تھپڑ آخری ثابت ھوا۔ اس کے بعد خوشخطی پر محنت میرا جنون بن گیا۔
ابھی میں نے سکول میں داخلہ نہیں لیا تھا۔ دادا جی گھر پر ہی مجھے ا ب پ ت وغیرہ لکھنا سکھا رہے تھے۔ لکڑی کی تختی پر دادا جی روزانہ صبح ا سے ی تک حروف کچی پنسل سے لکھ کر مجھے دے دیتے اور میں سیاہی میں قلم ڈبو کر ان حروف پر پھیر دیتا ۔ کچھ دن بعد دادا جی نے کہا اب یہ حروف خود لکھ کر دکھاو ۔
باقی تو سب ٹھیک تھا ، صرف ج چ ح خ میں نے الٹے لکھ دیئے۔ ان کی چونچ دائیں طرف اور دم بائیں طرف ھوگئی۔ یعنی مسئلہ صرف اتنا تھا کہ کبوتر شمال کی بجائے جنوب کی طرف منہ کیئے کھڑے تھے۔
دادا جی نے ایک بار پھر خود لکھ کر دکھایا، مگر میں نے پھر غلط لکھ دیا کیونکہ مجھے ایسا ہی اچھا لگتا تھا۔
اس خطا کی سزا وہ ایک تھپڑ تھا جس نے مجھے ایک لائق بچہ بنا دیا۔ جب سکول میں داخلہ لیا تو خوشخطی میں ہمیشہ 10/10، نمبر لیتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔–بشکریہ-منورعلی ملک19جون 2021
میرا میانوالی–
آج کل تو قلم کی جگہ کمپیوٹر یا موبائیل فون کے کی بورڈ keyboard نے لے لی ہے – بہت بڑی سہولت ہے – میں بھی روزانہ پوسٹس کی بورڈ سے لکھتا ہوں – لیکن قلم کی اپنی الگ اہمیت ہے – کمپیوٹر یا موبائیل فون کسی وجہ سے کام نہ کر رہا ہو ، اور کچھ لکھنا پڑجائے تو قلم ہی کام آتا ہے –
قلم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیجیئے کہ رب کریم نے قرآن حکیم میں قلم کی قسم کھائی ہے – قرآن کریم کی پہلی ہی سورت میں یہ بھی فرمادیا کہ اللہ علم قلم کے ذریعے سکھاتا ہے –
قلم سے لکھا ہوا قرآن کریم کروڑوں کی تعداد میں شائع ہو کر دنیا بھر میں اسلام کا تعارف بن گیا –
سکول میں تعلیم کے آغاز ہی میں لکھائی کو بہت اہمیت دی جاتی تھی – کچی پہلی کلاس سے ماسٹر صاحبان لکڑی کی تختی پر کانے (سرکنڈے) کے قلم اور کالی سیاہی (روشنائی) سے لکھنا سکھاتے تھے – خوشخطی پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی – ہمیشہ خوشخط ٹیچر کو پہلی کلاس کی تدریس پر مامُور کیا جاتا تھا – تختیاں ، دھونا، انہیں خشک کرنا بڑا شغل۔ہوا کرتا تھا ۔۔….
تختیوں پر پنسل سے کچی لکھائی ماسٹر صاحب کر دیتے تھے ، ہم لوگ سیاہی میں قلم ڈبو کر کچی لکھائی پر پھیر دیتے تھے تو وہ پکی لکھائی بن جاتی تھی – خوشخطی کے مقابلے، املاء کے ٹیسٹ، ٹیچر کبھی تختی پر شاباش یا 10/10 لکھ دیتے تو ہم بڑے فخر سے گھر والوں کو دکھایا کرتے تھے – مائیں یہ خبر پُورے محلے میں پھیلا دیتی تھیں – کیا سادہ لوگ اور پیارا زمانہ تھا – !!!!
کچی پہلی میں ہمیں خوشخطی سکھانے والے ماسٹر میوہ رام زبردست خوشنویس تھے – سفید کپڑے پر ان کے ہاتھ سے لکھے ہوئے اشعار شاید آج بھی گورنمنٹ ہائی سکول داؤدخٰیل کے سٹورروم میں موجود ہوں –
خوشخطی سیکھنا کوئی عیب نہیں – قائداعظم ، علامہ اقبال ، ڈاکٹرعبدالقدیر خان خوشخطی سیکھنے کے باوجود اتنے بڑے آدمی بن گئے –
تختی پر لکھنےکی مشق چوتھی کلاس تک چلتی رہتی تھی – چاقو یا بلیڈ سے کانے کو تراش کر قلم بنانا بھی ایک فن تھا – ہمارے کلاس فیلو خلیل ماچھی اس فن کے ماہر تھے – اللہ ان کو اجرعظیم عطافرمائے پُوری کلاس کے لیے قلم وہ گھر سے بنا کر لاتے اور مُفت تقسیم کرتے تھے –
————————— رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-20جون 2021
یادیں ———————– 1961
گورنمنٹ ہائی سکول داؤدخیل میں سید نصیر شاہ کا لکھا ہوا ڈراما “سومنات“ سٹیج ہونے کے موقع پر ٹیچرز اور سٹوڈنٹس کی ایک یادگار پکچر –
دائیں سے بائیں (کرسیوں پر) —— بھائی فتح خان نیکوخٰیل ، محمدامیرخان ، ملک عبدالعزیز ، ملک محمد انورعلی (ہیڈماسٹر) ، محمد مسعودشاہ (سیکنڈماسٹر) ملک قربان حسین ، عزیز اللہ خان ، ماسٹر عیسب خان ایس وی ٹیچر
(کرسیوں سے پچھلی صف ) —— عربی ٹیچر گلُ حسین شاہ کاظمی ، غلام سرور خان نیازی ڈرائنگ ماسٹر ، منورعلی ملک انگلش ٹیچر ، سیدمحمد رضا شاہ فارسی ٹیچر ، ماسٹر ممریز خان ایس وی ٹیچر، ماسٹر رب نواز خان ایس وی ٹیچر ، غلام قادر خان انگلش ٹیچر ، غلام مرتضی خان انگلش ٹیچر ، نوراحمد چشتی سائنس ٹیچر ، ملک محمد صفدرعلی ایس وی ٹیچر ، ملک غلام حُر اتراء ایس وی ٹیچر –
آخری صف میں کھڑے دوبزرگ۔۔۔۔۔ صوبیدار مدد خان ڈرل ماسٹر اور ماسٹر نواب خان ایس وی ٹیچر –
میرا میانوالی–
پہاڑے ………
آج کسی بچے سے 7×8 کا جواب پوچھیں تو وہ کیلکولیٹر کی مدد کے بغیر نہیں بتا سکتا – ہمارے بچپن کے دور میں 20 تک کا حساب دوسری جماعت کے ہر بچے کو زبانی یاد ہوتا تھا – یہ حساب پہاڑوں کی صورت میں یاد کرایا جاتا تھا – پہاڑوں کو انگلش میں Multiplication Tables کہتے ہیں –
ہمارے ہاں ویسے تو ذریعہ تعلیم اُردو ہے ، مگر پہاڑے خالص مقامی زبان میں سکھائے جاتے تھے – اُستاد صاحب بآوازِ بلند پہاڑے کہلواتے اور سُنتے تھے – کلاس کا مانیٹر پہاڑوں کی مشق کروایا کرتا تھا – مانیٹر اچھا خاصا نمبردار ہوتا تھا – جس کی شکایت لگا دیتا اس کی چھترول یقینی ہو جاتی تھی – بعض ماسٹر صاحبان چھترول کے تھوڑے بہت اختیارات مانیٹر کو بھی دے دیتے تھے – ماسٹر صاحب کی نگرانی میں ہاتھ سے ناک کاٹنے کا کام (بُجا) مانیٹر ہی کرتا تھا –
“ پہاڑے یاد کرو “ کے حُکم پر مانیٹر کی قیادت میں پُوری کلاس بلند آواز میں ایک خاص رِدم کے ساتھ پہاڑے دُہرایا کرتی تھی – مثلا سات کا پہاڑا یوں چلتا تھا –
سَت اِکی ست = 7
ست ڈونڑیں چَوڈان = 14
ست ترائے اِکی = 21
ست چَوک اٹھاوی = 28
سَتُو پنج پینتری = 35
ست چھک بِتالیں = 42
وغیرہ ، وغیرہ
20 تک یہ پہاڑے ہمیں آج بھی یاد ہیں – ماسٹر صاحب پہاڑوں کی یادداشت کا زبانی ٹیسٹ بھی لیا کرتے تھے –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
———————— رہے نام اللہ کا–بشکریہ-منورعلی ملک-22جون 2021
میرا میانوالی–
تیسری کلاس تک کاغذ پر لکھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی – لکھنے کا کام صرف کانے (سرکنڈے) کے بنے ہوئے قلم سے لکڑی کی تختی پر ہوتا تھا- چوتھی کلاس میں کُھلی لائینوں والی کاپی پر کانے کے قلم سے لکھنے کا آغاز ہوتا تھا –
پانچویں کلاس سے سٹیل , تانبے یا پیتل کی نِب والے ہولڈر Holder اور نیلی سیاہی سے لکھنے کی ابتدا ہوتی تھی – ہولڈر کی نب ضرورت کے مطابق تبدیل کی جا سکتی تھی – اُردو کے لیئے Z کی نب ، انگلش کے لیئے G کی نب اور رواں لکھائی کے لیے I کی نب استعمال ہوتی تھی – ہولڈر سیاہی کی دوات میں باربار ڈبو کر لکھنا پڑتا تھا – شیکسپیئر نے اپنے شہرہ آفاق ڈرامے اور غالب نے دیوان غالب ہولڈر ہی سے لکھا۔ 19 ویں صدی کے آخر تک تمام ادب ہولڈر ہی سے لکھا گیا۔
ہمارے بچپن کے دور میں پین Pen کے استعمال کی اجازت آٹھویں کلاس میں ملتی تھی – پین مختلف قسم کے ہوتے تھے ان میں سیاہی بھری جاتی تھی – کانے کے قلم اور ہولڈر کے برعکس پین جیب میں بھی رکھا جا سکتا تھا – اس پین کو انگلش میں فاؤنٹین پین Fountain pen یا انڈی پنڈنٹ پین Independent pen بھی کہا جاتا تھا ۔ مگر ہمارے ہاں صرف پین ہی کہتے تھے –
مجھے مختلف قسم کے پین جمع کرنے کا شوق تھا – جب میں نے آٹھویں کلاس کا امتحان دیا اس وقت میری جیب میں مختلف کمپنیوں کے بنے ہوئے 8 پین تھے –
پین نے ہولڈر کی جگہ لے لی ، پھر بال پوائینٹ پین نے سیاہی بھرنے والے پین کو آؤٹ کر دیا – اب تو بات بہت آگے نکل گئی ہے – قلم کی جگہ کی بورڈ نے سنبھال لی ہے –
—————————— رہے نام اللہ کا–بشکریہ-منورعلی ملک-23جون 2021
کل 24 جون 2021 کو ڈاکٹر حنیف نیازی کے تعلیمی ادارے “ دی ریڈر گروپ آف کالجز میانوالی کیمپس “ کی سالانہ تقریب راج محل مارکی میں منعقد ہوئی – یہ تقریب انتظامات اور حاضری کے حوالے سے حقیقی معنوں میں ایک شاندار تقریب تھی – بڑی تعداد میں نوجوانوں کے علاوہ معروف ماہرین تعلیم بھی اس تقریب کی زینت تھے –
ڈاکٹر حنیف خان ایک ویژنری نوجوان ، بلکہ میں تو کہوں گا جنونی نوجوان ہیں – ان کا جنون اپنے علاقے کے لوگوں کا ذہنی ، اخلاقی اور معاشی معیار بلند کرنا ہے – انہیں یقین ہے کہ
ذرا نم ہو تویہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
مٹی کی زرخیزی کا ایک خوبصورت نمونہ ڈاکٹر حنیف خود ہیں – وہ قریہ قریہ گاؤں گاؤں جاکر سکولوں کے بچوں کو بتاتے ہیں کہ انسان اگر چاہے تو کسی بھی میدان میں کمال حاصل کر سکتا ہے – ڈاکٹر حنیف دوسرے لوگوں کی کہانیاں نہیں سناتے ، اپنی سو فیصد سچی داستانِ جدوجہد سناتے ہیں – اس لیئے ان کی باتوں میں وزن بھی ہوتا ہے ، اثر بھی –
مجھے بتا رہے تھے “سر ، میری نظر میں اصل وی آئی پی مزدور ہے – اس لیے میں نے اپنے ادارے میں مزدوروں کے بچوں کو فیس میں 75 فیصد رعایت ، وظائف اور کئی دوسری مراعات دی ہیں “ –
مزدور کے وی آئی پی ہونے میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے – رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و ّّعلی آلہ وسلم کا ارشاد ہے “ الکاسب حبیب اللہ“ ( مزودر اللہ کا دوست ہے ) – اللہ کے دوست سے زیادہ وی آئی پی اور کون ہوگا –
ڈاکٹر حنیف کا ویژن علامہ اقبال کے الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ ہے –
جوانوں کو مری آہِ سحردے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نُورِ بصیرت عام کردے
اقبال کا نؤرِبصیرت عام کرنے کے لیے ڈاکٹر حنیف شب روز کوشاں ہیں – اللہ کریم انہیں اس کام کے لیے ہر قسم کی آسانیاں عطا فرمائے –
——————— رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-25جون 2021
میرا میانوالی–
میانوالی شہر میں نے پہلی بار نو دس سال کی عمر میں دیکھا – ہم یہاں وظیفے کا امتحان دینے آئے تھے – اس زمانے میں چوتھی کلاس پرائمری کی آخری کلاس ہوا کرتی تھی – ہم چار پانچ بچے کلاس ٹیچر ماسٹر عبدالحکیم صاحب کے ہمراہ شام کے قریب لاہور جانے والی ٹرین سے یہاًں پہنچے – امتحان دینے والوں میں میرے علاوہ عبدالغفورخان امیرے خٰیل ، اللہ داد خان کنوارے خیل ، احمد خان سالار اور دوتین دوسرے ساتھی شامل تھے ، اس وقت ان کے نام یاد نہیں آرہے –
ہمارا قیام عبدالغفور خان کے چچا عبداللہ خان تحصیلدار کے ہاں گھنڈ والی وانڈھی میں ریلوے لائین کے قریب ہوا – ایک ہی دن کا امتحان تھا ، اس لیئے ایک ہی رات یہاں رہنا تھا – امتحان ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کے آفس کے لان میں ( موجودہ ڈسٹرکٹ کونسل آفس ) میں ہوا – اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر ملک شیر بہادر امتحان کے سپرنٹنڈنٹ تھے – ایک ہی دن میں دو چار پیپر دے کر ہم فارغ ہو گئے – شام کی ٹرین سے واپسی سے کچھ دیر قبل ماسٹر صاحب نے ہمیں مین بازار کی سیر کرائی – سیر کیا تھی ، بس پرانی سبزی منڈی کے قریب چاچا پاکستانی کے کریانہ سٹور سے ماسٹر صاحب نے کچھ خریدنا تھا – وہاں سے ہم سیدھے واپس ریلوے سٹیشن آگئے – بازار کا یہ دورہ ہمارے لیے ویسا ہی تھا جیسا کسی شاعر نے کہا تھا ———-
بازار سے گذرا ہوں خریدار نہیں ہوں
اس دن تو ہم میانوالی بس اتنا ہی دیکھ سکے ——
چند دن بعد امتحان کا ریزلٹ آیا – عبدالغفورخان اور میں وظیفہ کے مستحق قرار پائے – چار روپے ماہانہ کے حساب سے یہ وظیفہ تین سال کے لیئے تھا – وظیفے کی رقم ہر تین ماہ بعد ملتی تھی – پہلی دفعہ میں نے وظیفے کے12 روپے لاکر امی کے ہاتھ پہ رکھے تو مجھے سینے سے لگا کر خوشی سے زار زار روتے ہوئے کہنے لگیں ، لوگو ، دیکھو ، اوروں کے جوان بیٹے بے روزگار پھر رہے ہیں اور میرا یہ ننھا سا لال اپنی کمائی لاکر مجھے دے رہا ہے – وہ 12 روپے امی نے وہیں کھڑے کھڑے مستحق لوگوں میں صدقہ کردیئے – پھر ہر تین ماہ بعد جو 12 روپے میں لاتا وہ صرف میری ضروریات پر خرچ کرتی تھیں – خود اس میں سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتی تھیں –
———————- رہے نام اللہ کا —-–بشکریہ-منورعلی ملک-26جون 2021
میرا میانوالی–
پارلی کندھی کی یادیں کبھی کبھی اچانک بے چین کر دیتی ہیں – ہمارے ہاں دریائے سندھ کے پار کا علاقہ ( کالاباغ، خٹک بیلٹ، کوٹ چاندنہ، جلالپور، خدوزئی، مندہ خیل ، برزی سیداں ، کمرمشانی ، مکڑوال ، سلطان خیل ، ترگ ، کلور ، کلوانوالہ عیسی خیل وغیرہ ) پارلی کندھی ( پرلا کنارا) کہلاتا تھا- ہم اپنے علاقے کو اُروارلی کندھی (اِدھر والا کنارا) کہا کرتے تھے –
پارلی کندھی سے میری وابستگی کی بہت سی وجوہات ہیں – پہلی تو یہ کہ ہمارا خاندان آج سے تقریبا دو سو سال پہلے ضلع اٹک (تحصیل پنڈی گھیب ) سے ہجرت کرکے خٹک بیلٹ کے گاؤں اعواناں والا میں آباد ہوا – ہمارے قبیلے کے بزرگ ملک محمد حیات کے اس گاؤں کے بزرگوں سے دیرینہ مراسم تھے – اعواناں والا سے ہمارے خاندان کی ایک شاخ مندہ خیل کے قبیلہ گگڑ خیل کی دعوت پر مندہ خیل منتقل ہو گئی- مندہ خیل میں قریشی ، ہاشمی خان سے چند رشتہ داریاں بھی بن گئیں –
کالاباغ کے بارے میں پہلے بتا چکاہوں کہ جب والد صاحب ایجوکیشن آفیسر تھے ہم چند سال کالاباغ میں رہے – کوٹ چاندنہ ، جلالپور ، خدوزئی میں والد صاحب کے کئی دوست رہتے تھے – خٹک بیلٹ میں بھی والد صاحب بہت معروف و محترم تھے کیونکہ وہ پشتو بہت روانی سے بولتے تھے – برزی سیداں کے بعض بزرگوں سے میرے ذاتی مراسم ہیں – کمر مشانی ، مکڑوال ، سلطان خیل ، ترگ ، کلور وغیرہ میں بھی بہت آمدورفت رہی – عیسی خیل میں تو زندگی کا اچھا خاصا عرصہ بسر ہوا – وہاں قیام کے بارے میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں – دوسرے شہروں کے بارے میں پہلے کچھ لکھا تھا ، اب مزید لکھنے کا ارادہ ہے ان شآءاللہ- یادوں کے قرض کی ادائیگی میری نظر میں ضروری ہے –
——————— رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک27جون 2021
میرا میانوالی–
مندہ خیل میں ہمارے بہت سے رشتہ دار رہتے تھے – پماری زیادہ تر آمد و رفت اپنی خالہ کے گھر ہوتی تھی – ہمارے خالُو ، مامُوں ملک نُورکمال بہت دریادل اور مہمان نواز تھے – وہ اللہ خیل (کمرمشانی) سکول میں ٹیچر تھے – ہم جاتے تو وہ قسم قسم کی نعمتوں کے ڈھیر لگا دیتے تھے – دیسی مُرغیاں ، انڈے، خالص دیسی گھی ، مردان کا سپیشل گُڑ ، کمر مشانی میں جو بھی فروٹ دستیاب ہوتا بڑی مقدار میں اٹھا لاتے تھے – سوموار کو کمر مشانی کے مشہورومعروف میلے میں مجھے بھی ساتھ لے جاتے تھے – میں جو چیز پسند کرتا دِلوادیتے تھے – کمر مشانی میں وہ اڈے کی مسجد کے قریب غلام خواجہ خان کی دکان سے گھر کا سودا خریدتے تھے – بہت بڑا کریانہ سٹور تھا – ہر چیز ایک نمبر ملتی تھی – غلام خواجہ خان کے بھائی سیف اللہ خان ماموں نورکمال کے بہت قریبی دوست تھے – سیف اللہ خان بھی سکول ٹیچر تھے –
ماموں ہر اتوار کو داؤدخیل آتے تھے – اس زمانے میں بسیں بہت کم تھیں ، اس لیئے ماموں سائیکل پر جناح بیراج کے راستے داؤدخیل آتے تھے – خالی ہاتھ کبھی نہیں آتے تھے – ایک دو مُرغیاں، انڈے ، خربُوزوں کے موسم میں ٹولے والے سپیشل خربُوزوں کا گٹو ، سردیوں میں پوپل کا گٹو ضرور ہمراہ لاتے تھے – پوپل اُنگلی کے سائیز کی مچھلی ہے جو ہمارے علاقے میں دریائے سندھ سے وافر مقدار میں ملتی ہے – اس کا سائیز ہمیشہ یہی رہتا ہے – اسے باجرے کے خشک آٹے میں لتھیڑ کر توے پر بھون کر کھاتے ہیں ، بے حد لذیذ اور مقوی غذا ہے ، سردی کابہترین علاج –
بچپن میں کبھی کبھی ماموں مجھے بھی سائیکل پر اپنے ہمراہ مندہ خیل لے جاتے تھے –
ریٹائرمنٹ کے بعد دمے کے مرض میں مبتلاہو گئے تو علاج کی سہولت کے لیئے مندہ خیل سے داؤدخیل منتقل ہوگئے – مرض قابو سے باہر ہو چُکا تھا – کچھ دن بعد اللہ نے اپنے پاس بُلا لیا – رب کریم اپنی رحمتِ خاص کا سایہ نصیب فرمائے – یقین ہے کہ دریا دلی اور مہمان نوازی کی بنا پر اللہ کریم ان کو جنت الفردوس میں خصوصی جگہ عطا فرمائے گا –
——————– رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-28جون 2021
میرا میانوالی–
مندہ خیل کا ذکر چھیڑا تو بچپن کی بہت سی خوبصورت یادوں سے دل و دماغ معطر ہو گئے –
ہمارے ماموں ملک نورکمال کا گھر محلہ گگڑ خیل میں دریا کے قریب واقع تھا – تین گھر تھے , ماموں کے گھر سے ملحقہ ان کے کزن ماموں محمد حسین کا گھر اور اس سے ملحق ماموں غلام قاسم کا گھر تھا – اسی محلے میں لوہڑے والی مسجد کے پیچھے ہمارے دادا جی کے کزن دادا نظام الدین کا گھر بھی ہوا کرتا تھا – شہر کے وسط میں لعلاں والی مسجد کے ساتھ ماموں شرف الدین اور کچھ دوسرے رشتہ داروں کے گھر بھی تھے –
دریا کی ایک شاخ شہر سے لگ کر بہتی تھی – اس کی چوڑائی تقریبا 200 میٹر اور گہرائی چار پانچ فٹ سے زیادہ نہ تھی ، اس لیے اس میں ڈوبنے کا خدشہ نہ ہونے کے باعث یہاں دن بھر بچوں اور نوجوانوں کا میلہ لگا رہتا تھا – عصر کے بعد ماموں ، میں ، بھائی احمد دین اور کچھ دوسرے کزن بھی شام تک دریا میں نہاکر دن بھر کی گرمی کا مداوا کر لیتے تھے – ٹھنڈے یخ پانی میں جاکر لگتا تھا گرمی کا موسم تو ادھر ہوتا ہی نہیں – سردی سے دانت بجتے رہتے ، جسم پر کپکپی طاری رہتی مگر شام سے پہلے ہم دریا سے باہر نہیں نکلتے تھے – صرف ہم نہیں سینکڑوں دوسرے بچے اور نوجوان بھی دریا میں دور دور تک شغل میلہ کرتے نظر آتے تھے – ماموں کمر مشانی سے جو آم اور تربوز لاتے تھے وہ بھی ہم لوگ دریا میں ٹھنڈے کر لاتے تھے، اور شام کے کھانے کے بعد کھایا کرتے تھے –
ہمارے بچپن کے دور میں تو دریا کے کنارے یہ رونق لگی رہتی تھی – اب پتہ نہیں کیا حال ہے – ہم تو اس شغل سے لطف اندوز ہونے کے لیئے گھر والوں سے ضد کرکے ماموں کے ہمراہ داودخیل سے مندہ خیل آجاتے تھے-
دنیا سے رخصت ہونے سے کچھ عرصہ قبل ماموں مندہ خیل والا گھر بیچ کر داؤدخیل منتقل ہوگئے – اب تو دل میں درد سا اٹھتا ہے اس گھر کو یاد کرکے –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ————————— رہے نام اللہ کا —––بشکریہ-منورعلی ملک-29جون 2021
میرا میانوالی–
مندہ خیل میں ماموں محمد حسین کے صاحبزادے بھائی احمد دین مجھ سے بہت پیار کرتے تھے – مجھ سے عمر میں پانچ سات سال بڑے تھے – بہت دلنشیں شخصیت تھے- سراپا محبت ، سراپا خلوص – بہت عرصہ مکڑوال کے قریبی گاؤں ونجاری کے سکول میں ہیڈماسٹر رہے – پھر مندہ خیل سکول میں ٹرانسفر ہو کر آگئے – ونجاری کے لوگوں نے بہت منت ترلے کیئے کہ نہ جائیں ، مگر بھائی احمد دین صحت کے مسائل کی وجہ سے ٹرانسفر کرانے پر مجبور تھے –
زبردست خوشنویس تھے – ان کے لکھے ہوئے چارٹ اور بینر ونجاری اور مندہ خیل سکول میں اب بھی موجود ہوں گے – ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد مسلسل سات آٹھ مرتبہ حج کیا – آخری حج میں ان کے گروپ میں مندہ خیل کے قبیلہ گگڑخیل کی ایک بزرگ خاتون بھی ہمسفر تھیں – حج سے واپس آکر انہوں نے بتایاکہ واپسی سے ایک دن پہلے ہم ناشتہ کرنے کے بعد کچھ چیزیں خریدنے کے لیے ہوٹل سے باہر جانے لگے تو بھائی احمددین نے کہا آپ لوگ جائیں ، میں ذرا آرام کرنا چاہتا ہوں –
وہ لوگ واپس آئے تو پنجرہ خالی پڑا تھا – جنت کا پرندہ اپنے مسکن کو واپس جا چکا تھا – مسجد نبوی میں جنازہ ہوا ، جنت البقیع میں تدفین –
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے ، یہ بڑے نصیب کی بات ہے