منورعلی ملک کے جولائی     2021 کےفیس بک پرخطوط

 

میرا میانوالی–

مندہ خیل میں ہمارے گھر کے قریب مسجد سے پچھلی گلی میں چاچا احمد خان بگلہ کی دکان تھی ( بگلہ ایک قبیلے کا نام تھا ) – احمد بگلہ کی دکان اس محلے کی اکلوتی دکان تھی- بچپن میں جو چیز لینی ہوتی ہم اسی دکان پر جایا کرتے تھے –
احمد بگلہ کے گھر میں کُونجوں کا ایک جوڑا ہوا کرتا تھا –
کُونجیں بڑی تعداد میں ہر سال سردی کے آغاز میں رُوس کے علاقے سائیبیریا سے تلاشِ رزق کی خاطر پاکستان کے دریاؤں اور جھیلوں پر اترتی ہیں ، اور موسم بہار کے آخری دنوں میں اپنے وطن کو لَوٹ جاتی ہیں – شوقین لوگ کونج کے پر کُتر کر اسے پالتو بنا لیتے ہیں – کُونج کے بارے میں سُنا ہے اکیلی نہیں رہ سکتی ، اس لیے کُونج پالنے کے شوقین جوڑا پالتے ہیں –
کُونج بہت خوبصورت مگر ظالم پرندہ ہے – غصے میں ہو تو جو بھی سامنے آئے سانپ کی طرح پُھنکارتے ہوئے اس پر حملہ کر دیتی ہے – اس کی لمبی ، مضبوط ، تیزدھار چونچ کا لگایا ہوا زخم چاقُو کے زخم سے کم گہرا نہیں ہوتا -چاچا احمد بگلہ کے گھر میں آئے دن کُونجوں کے ظلم وستم پر رولا ہوتا تھا –
کُونج بچوں کی تو جانی دشمن ہوتی ہے – احمد بگلہ کی کُونجیں محلے کے کسی بچے کو گھر میں نہیں گھُسنے دیتی تھیں – کہتے ہیں کُونج سانپ کو گھر میں نہیں گھسنے دیتی – سانپ کے ساتھ جو سلوک بھی کرتی ہو بچوں کو ایک آنکھ نہیں دیکھ سکتی –
اب تو بہت عرصہ سے مندہ خیل جانا نہیں ہوا – پتہ نہیں چاچا احمد بگلہ کے گھر میں اب کون رہتا ہے – اور وہ کونجیں تو یقینا مرکھپ گئی ہوں گی –
———————- رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-1جولائی    2021

میرا میانوالی–

ذکر مندہ خیل کا ہو تو مولانا محمد حیات کا ذکر واجب ہو جاتا ہے – ولی کامل کی تمام صفات ان کی شخصیت کی زینت تھیں – اتنا بڑا عالم ہونے کے باوجود نہ کوئی کروفر ، نہ شعلہ بیانی – نہ کوئی گدی ، نہ درگاہ ، نہ خانقاہ – فاضل دیوبند تھے ، مگر دیوبندی اور بریلوی دونوں ان کے معتقد تھے – پورے علاقے میں یکساں مقبول و محترم –
لباس ، گفتگو ، خوراک سب کچھ انتہائی سادہ – ان پڑھ دیہاتیوں سے ان کے مزاج کے مطابق انہی کی زبان میں بات کرتے تھے – سمندر جیسے علم کے باوجود علمیت کا مظاہرہ کبھی نہیں کرتے تھے – کوئی فتوے بازی نہیں ، سب فرقوں کا احترام کرتے تھے ، اس لیئے سب لوگ ان کا احترام کرتے تھے –
جمعہ کے دن دھیمی آواز اور نرم لہجے میں ان کا خطاب ریت پہ برستی ہلکی بارش کی طرح لفظ لفظ سامعین کے دلوں میں اترتا جاتا – خطاب میں کوئی گھن گرج ، کوئی للکار نہیں – تکبر اور تبحر کی بجائے لہجے میں عجزوانکسار – موضوع ہمیشہ عمل کی اہمیت – آغاز ہمیشہ قرآن پاک کی کسی آیت سے ہوتا – پھر نہایت سادہ الفاظ میں اس آیت کی تشریح – تقریبا ایک گھنٹہ کا خطاب ہوتا تھا –
مال و زر کی ہوس سے مکمل طور پر بے نیاز تھے – ایک دفعہ ایک بچی کو دم کروانے کے بعد میں کچھ پیسے نذر کرنے لگا تو ہنس کر فرمایا “ بیٹا ، میری عمر ٩٠ سال ہو گئی ہے – پتہ نہیں کس وقت بلاوا آجائے – وہاں جا کر میں اللہ کو یہی نوٹ دکھاؤں گا کہ یہ ہے میری دنیا کی کمائی ؟ مجھے پیسوں کی بجائے دعاؤں کی ضرورت ہے “ – یہ کہہ کر پیسے مجھے واپس دے دیئے-
دوبیٹیاں تھیں ، دونوں عالمہ فاضلہ ، خواتین کی دینی رہنمائی وہی کرتی تھیں – ایک بیٹی جوانی ہی میں جاں بحق ہو گئی – کچھ دن بعد ایک سادہ لوح مرید نے کہا “ مولوی صاحب ، ہمیں تو آپ پکی قبر بنانے سے بھی منع کرتے ہیں ، اور آپ کی بیٹی کا روضہ بن رہا ہے “-
ہنس کر کہا “بھائی صاحب ، اس عمر میں میں طلاق تو دے نہیں سکتا ، بچی کی ماں کہتی ہے میں تو بچی کی شاندار قبر بنواؤں گی – تمہیں اچھا نہیں لگتا تو اپنی کتابیں اٹھاؤ اور کہیں اور جا کر رہ لو، اب میں کیا کروں ؟۔۔۔۔۔۔۔
تقوی کا یہ اہتمام کہ وصیت نامے میں لکھوایا کہ میری کتابوں کی زکوات حساب لگا کر ادا کر دینا – اور تو کوئی مال و زر تھا ہی نہیں – کتابوں کی زکوات ہر سال دیتے رہے –
————————— رہے نام اللہ کا ——بشکریہ-منورعلی ملک-3جولائی    2021

میرا میانوالی–

کمر مشانی میں میں رہا تو کبھی نہیں پھر بھی مجھے یہ شہر اپنا سا لگتا ہے – بچپن میں ماموں ملک نور کمال کے ساتھ سائیکل پر مندہ خیل سے کمر مشانی بارہا آنا جانا رہا – کمر مشانی خوشحال اور خوش مزاج لوگوں کا شہر ہے – ضلع میانوالی کے بڑے کاروباری مراکز میں شمار ہوتا ہے – سُنتے تھے وہاں کوئی بھی نوجوان بے روزگار نہیں ، کسی نہ کسی کاروبار میں حصہ دار ہوتا ہے –
ماموں کے ساتھ ہماری آمدورفت کا مرکز یہاں ہیڈماسٹر سیف اللہ خان کا سکول اور ان کے بھائی غلام خواجہ خان کی دکان ہوا کرتی تھی – سیف اللہ خان ماموں کے بہت قریبی دوست تھے –
کمر مشانی میں کھانے پینے کی اچھی کوالٹی کی چیزیں بہت مناسب قیمت پر وافر مقدار میں دستیاب تھیں – سوموار کا میلہ بہت اچھا شاپنگ سنٹر اب بھی ہے –
جب میں گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں لیکچرر تھا ، کمر مشانی کے بہت سے لڑکے ہمارے سٹوڈنٹ تھے – اس کالج میں عیسی خیل سے زیادہ سٹوڈنٹ کمرمشانی کے ہوتے تھے ٠ سب کے نام تو یاد نہیں ، ان میں دلاسہ خان سٹوڈنٹ لیڈر کی حیثیت میں بہت نمایاں تھے – آج کل میانوالی میں رہتے ہیں – اب تو اچھے خاصے سفید ریش مولانا بن گئے ہیں – بس ڈرائیوروں کے ساتھ سٹوڈنٹس کے جھگڑوں میں سٹوڈٹنٹس کی قیادت دلاسہ خان ہی کرتے تھے –
بہت ذہین اور عمدہ تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال نوجوان احمد نوازنیازی شعروادب سے دلچسپی کی وجہ سے میرے بہت قریب تھے – کالج کے ایک ڈرامے میں مرکزی کردار احمد نواز نے بہت کامیابی سے نبھایا – یہ کردار بظاہر ایک ملنگ مگر دراصل آئر لینڈ کی تحریک آزادی کے لیڈر کا تھا- احمد نواز اب بھی فیس بک پر مجھ سے مستقل رابطے میں رہتے ہیں – میری پوسٹس پر بہت دلچسپ کمنٹس دیتے رہتے ہیں –
ڈرامے کے مرکزی کردار کا ذکر ہؤا تو محمد عظیم خان یاد آگئے – کمر مشانی کے محمد عظیم خان نے گورنمنٹ کالج میانوالی میں پروفیسر سرور خان کے لکھے ہوئے ڈرامے “بودلا“ میں مرکزی کردار ادا کیا تھا – کمال کے اداکار تھے – تعلیم سے فارغ ہو کر سکول ٹیچر بن گئے – جوانی ہی میں اللہ کو پیارے ہوگئے –
عیسی خیل کالج میں کمر مشانی کے اسلم خان بھی ہمارے سٹوڈنٹ تھے – ان کے والد کپڑے کا کروبار کرتے تھے – اظہر نیازی صاحب کے بارے میں تو الگ مفصل پوسٹ کچھ عرصہ قبل لکھی تھی – اسداللہ خان نامی ایک صاحب سے فیس بک پر بہت رابطہ رہا ، بہت اچھی پوسٹس لکھتے تھے – تقریبا ایک سال سے فیس بک پر نظر نہیں ارہے – اللہ کرے بخیریت ہوں –
کمر مشانی میں میں رہا کبھی نہیں ، پھر بھی اللہ جانے کیوں مجھے یہ اپنا شہر لگتا ہے ؟ ؟ ؟ –—– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-4جولائی    2021

میرا میانوالی–

ترگ سے میرا بالواسطہ تعلق تو بہت پرانا تھا – سردارعلی عباسی صاحب کے والد صاحب میرے والد صاحب کے استادِمحترم تھے – سردار علی صاحب مکڑوال سکول میں میرے کولیگ رہے – جب میں عیسی خیل سکول کی ساتویں کلاس میں پڑھتا تھا ترگ کے غلام دستگیر شاہ صاحب ہمیں سائنس پڑھاتے تھے – بہت خوش لباس اور نفیس مزاج انسان تھے – ریٹائرمنٹ کے بعد نظر سے محروم ہوگئے ، اس کے بعد کی کچھ خبر نہیں –
ترگ سے میرا براہِ راست تعلق 1970 میں گورنمنٹ مڈل سکول ترگ کی سالانہ ادبی تقریبات میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت میں ہوا – اس موقع پر میرا خطاب اہلِ ترگ نے بہت پسند کیا – ہیڈماسٹرصاحب عمرحیات خان ، ٹیچرز میں سے حاجی احمد خان صاحب اور امان اللہ خان میرے مستقل دوست بن گئے – جب بھی ترگ جانا ہوا الحمدللہ بہت عزت و احترام ملا –
حاجی احمد خان سے دوہرا تعلق اس وقت بنا جب ان کی دو صاحبزادیوں نے گورنمٹ کالج میانوالی کی ایم اے انگلش کلاس میں داخلہ لیا – حاجی صاحب کے بھائی پروفیسر شیرگل خان مرحوم اس کالج کے شعبہ ریاضی (میتھس) کے سربراہ تھے –
نیازاحمد بھمب نامی نوجوان میری سروس کے آخری دنوں میں ایم اے انگلش میں میرے سٹوڈنٹ رہے – بہت سُریلے گلوکار اور خوش اطوار نوجوان تھے – آج کل وہاں کسی سکول میں ٹیچر ہیں – فیس بُک پر ان کی خیر خبر ملتی رہتی ہے –
ترگ کے معروف پیر و مُرشد گھرانے کے صاحبزادے بشیر صاحب بھی گورنمنٹ کالج میانوالی میں میرے سٹوڈنٹ رہے – بہت نیک سیرت ، خوش اخلاق نوجوان ہیں – انگلش پڑھنے کے لیئے میرے گھر پر بھی آتے رہے-
گورنمنٹ ہائی سکول ترگ کے سابق پرنسپل محمد اکرم شاہ صاحب بھی میرے بہت اچھے دوست تھے –
ترگ کے ٹیچر دوست محمد شاہ صاحب بھی میرے بہت مہربان دوست تھے – بہت دلنشیں شخصیت تھے – پتہ نہیں اب کہاں ہیں – اور بھی بہت سے دوست ، ساتھی اور سٹوڈنٹ تھے اس وقت یہی چند نام ذہن میں آئے ہیں – اللہ سب کو سلامت رکھے –
——————– رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-5جولائی    2021

میرا میانوالی–

کلور عیسی خیل میانوالی روڈ پر عیسی خیل سے چار پانچ کلومیٹر شمال میں واقع ہے – یہاں آنے جانے کا اتفاق بہت کم ہوا – جب میں عیسی خیل سکول میں ساتویں جماعت کا سٹوڈنٹ تھا عیسی خیل کے چند کلاس فیلوز کے ساتھ کلور میں اپنے کلاس فیلو ملک محمد اکرم ہرایا کی دعوت پر دوچار مرتبہ یہاں آنے کا اتفاق ہوا – ہم پانچ سات دوست ہر ماہ باری باری اپنے گھر میں چائے پانی کا اہتمام کرکے مل بیٹھتے تھے-
جب میں عیسی خیل کالج میں لیکچرر تھا کلور سکول کے ایک ٹیچر ملک عزیز اللہ کی دعوت پر بھی ایک دو مرتبہ کلور آنا ہوا – ملک عزیز اللہ میرے پرانے دوست تھے – اسی زمانے میں کلور کے اشرف علی کلیار صاحب ہمارے ساتھ ہی عیسی خیل کالج میں وارد ہوئے – ان سے مختصر ساتعارف اپنے کزن مرحوم ملک لیاقت علی کی معرفت چند سال پہلے ہوا تھا – کالج سے ہم لوگ تو ایک ایک کر کے اپنی اپنی پسند کی جگہ ٹرانسفر ہو گئے ، کلیار صاحب گھر کا کالج کیوں چھوڑتے ، ساری سروس یہیں بسر کر دی ، پرنسپل ریٹائر ہوئے –
پروفیسر کلیار صاحب عربی کے پروفیسر تھے ، ان کا تعلیمی کیریئر نہایت شاندار تھا – یونیورسٹی کے پوزیشن ہولڈر تھے – نہایت زندہ دل ، یاروں کے یار انسان ہیں –
ریٹائرمنٹ کے بعد بندوق سنبھالی اور مرغابیوں کے تعاقب میں دریا کے کنارے جا بیٹھے – ستمبر اکتوبر میں پہلی مرغابی کی آمد سے لے کر مارچ اپریل میں آخری مرغابی کی روانگی تک بھائی صاحب زیادہ تر وقت دریا کے کنارے بسر کرتے ہیں- اپنے جیسے دوتین اور بزرگ بھی اس شغل میں ان کا ساتھ دیتے ہیں –
پروفیسر صاحب فیس بک کی بھی خاصی معروف شخصیت ہیں – میں نے ڈرتے ڈرتے جب فیس بک کی دنیا میں قدم رکھا ، پہلے قدم پر ہی ان سے ملاقات ہوگئی – گویا فیس بُک پہ کام کرنے کا شرعی جواز مل گیا – اس کے بعد چل سو چل ، میں تو آج تک رواں دواں ہوں یہ کبھی کبھی غائب ہوجاتے ہیں – بہت خوبصورت پوسٹس لکھتے ہیں – آج کل مختصر بحر میں طنزیہ مزاحیہ شاعری کر رہے ہیں —– اللہ سلامت رکھے میرے بہت پیارے بھائی ہیں –
—————— رہے نام اللہ کا ———بشکریہ-منورعلی ملک-6جولائی    2021

میرا میانوالی–

پرسوں (6جولائی2021 ) ارشد بیٹے نے بتایا کہ فضل دادخان تشویشناک حالت میں یہاں ٹراما سنٹر میں آئے ہیں – میں اسی شام تقریبا 8 بجے ٹراما سنٹر پہنچا- فضل داد کا بیٹا اصغر خان اور داود خیل سے ان کے قریبی دوتین اور لوگ ایک بیڈ کے گرد کھڑے تھے – بیڈ پر پڑا لمبے لمبے سانس لیتا ہڈیوں کا ڈھانچہ دیکھ کر دل بھر آیا – اس کی آنکھیں کھُلی تھیں ، مگر چراغِ زیست کی لَو اتنی دھیمی ہو چکی تھی کہ وہ ارد گرد کھڑے لوگوں کو پہچان نہیں سکتا تھا – اس کے قریب جا کر میں نے اپنے چہرے سے کورونا والا ماسک ہٹا کر کہا “ فضل داد خان ۔ اللہ تمہیں شفائے کاملہ عطا فرمائے ” –
میری آواز سُن کر اس کی بجھتی آنکھوں میں لمحہ بھر کو ایک چمک سی نمودار ہوئی جسے بے بسی کے آنسوؤں نے فورا بجھا دیا ———
اب میرے لیئے اپنے آنسُو روکنا مشکل ہورہا تھا ، اس لیئے میں وہاں سے واپس آگیا-
کل صبح سُنا کہ —–
وہ ہجر کی رات کا ستارہ، وہ ہم نَفَس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اُس کا نام پیارا ، سُنا ہے کل رات مر گیا وہ
بتایا گیا کہ رات تقریبا بارہ بجے پنجرے کا دروازہ لمحہ بھر کو کُھلا ، اور رُوح کا بے چین پنچھی پنجرے سے نکل کر آسمان کی وسعتوں میں گُم ہو گیا –
——————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-8جولائی    2021

میرا میانوالی–

مندہ خیل ، کمر مشانی ، ترگ اور کلور کے بعد اگلی منزل عیسی خیل بنتی ہے – عیسی خیل کا نام سُنتے ہی کچھ دوستوں کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں ، کہ اب چلے گی لالا عیسی خیلوی کی داستان – چند سال پہلے ایک دوست نے میری ایک پوسٹ پر کمنٹ میں کہا “ سر ، چھوڑیں باقی سب باتوں کو ، ہمیں بس لالا عیسی خیلوی کے بارے میں بتایا کریں“-

میں نے کہا “ بھائی صاحب ، میں نے لالا سے دوستی کے علاوہ بھی زندگی میں کچھ اچھے کام کیئے ہیں ، میں وہ بھی ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں ، کیونکہ لوگ اُن سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں – لالا سے دوستی کے بارے میں تو پُوری کتاب لکھ دی تھی – وہی کافی سمجھیں “-
پارلی کندھی (دریا پار) کے سب شہروں سے زیادہ میرا قیام عیسی خیل میں رہا – عجیب اتفاق ہے کہ میرے دادا جی ملک مبارک علی نے ٹیچر کی حیثیت میں اپنی سروس کا آغاز عیسی خیل سے کیا – 20 سال بعد میرے بابا جی ملک محمد اکبرعلی نے اسی سکول میں انگلش ٹیچر کی حیثیت میں سروس کا آغاز کیا – 25 سال بعد وہ ایک بار پھر ہیڈماسٹر کی حیثیت میں یہاں متعین ہوئے – میرے بڑے بھائی ملک محمد انور علی کی سروس کی ابتدا بھی اسی زمانے میں انگلش ٹیچر کی حیثیت میں عیسی خیل سے ہوئی – میں اس وقت ساتویں کلاس کا سٹوڈنٹ تھا -22 سال بعد انگلش کے لیکچرر کی حیثیت میں میری سروس کا آغاز بھی عیسی خیل ہی سے ہوا – ہم میں سے کسی نے بھی عیسی خیل میں تقرر کے لیے کوشش نہیں کی – یہ اللہ کے فیصلے تھے جن میں ہمارا کچھ اختیار نہ تھا –
ایک اور اتفاق دیکھئے، آج میرے بیٹے پروفیسر محمد اکرم علی ملک کی سالگرہ ھے۔ وہ عیسی خیل ہی میں اس دنیا میں وارد ھوئے ۔ اور اتفاق سے آج کی پوسٹ کا موضوع بھی عیسی خیل ہی ہونا تھا ۔
———————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-9جولائی    2021

میرا میانوالی–

عیسی خیل میں میرے قیام کے دو دَور تھے – پہلا دَور وہ تھا جب میں ساتویں کلاس کا سٹوڈنٹ تھا ، اور میرے باباجی ملک محمد اکبرعلی گورنمنٹ ہائی سکول عیسی خیل کے ہیڈماسٹر تھے – میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی بھی اسی سکول میں انگلش ٹیچر تھے –
ماسٹر نورمحمد ہماری کلاس کے ٹیچر انچارج تھے – وہ ہمیں اردو اور ریاضی پڑھاتے تھے – کھگلانوالہ کے فیض محمد خان نیازی ہمیں انگلش ، غلام حسین شاہ تاریخ ، جغرافیہ (معاشرتی علوم) اور اسلامیات ، غلام دستگیر شاہ سائنس اور مولانا شیر محمد خان عربی پڑھاتے تھے –
میرے کلاس فیلوز میں سے نجیب اللہ ہاشمی ، عطامحمد ہرایا، عبدالرزاق خان المعروف کالا خان ، محمد اکرم ملک ، سیدامدادحسین شاہ بخاری اور چوہدری یعقوب علی خان میرے قریبی دوست تھے – ہم لوگ ہر ماہ باری باری اپنے اپنے گھر میں ٹی پارٹی کا اہتمام کیا کرتے تھے – گھر والے ہماری اس معصوم سی عیاشی میں ہم سے بھرپُور تعاون کرتے تھے –
نجیب اللہ ہاشمی کالج کے پرنسپل کے منصب سے ریٹائر ہوئے ، عطامحمد ہرایا پولیس میں ڈی ایس پی کے عہدے سے ریٹائر ہو کر شیخوپورہ میں مقیم ہو گئے – عبدالرزاق خان واپڈا میں لائین سپرنٹنڈنٹ ریٹائر ہوئے – لالا عیسی خیلوی کے بہنوئی تھے —- کلُور کے محمد اکرم ملک فوج میں بھرتی ہوگئے – ریٹائر منٹ کے بعد جنوبی پنجاب کے کسی چک میں مقیم ہوگئے – سید امداد حسین بابا عادل شاہ بخاری کے سجادہ نشین بن گئے – چوہدری یعقوب علی خان راولپنڈی سے تھے – ان کے والد بوستان علی خان تحصیل عیسی خیل کے تحصیلدار تھے – ان کا کچھ پتہ نہیں کہاں تک پہچے –
کیا اچھا زمانہ تھا – انگریزحکومت نے ہر ہائی سکول کی ہر کلاس میں ایک چھوٹی سی کلاس لائبریری قائم کر رکھی تھی – ایک الماری میں اردو کی کتابیں ، دوسری میں کلاس کے معیار کے مطابق انگریزی کی کتابیں ہوتی تھیں – بچوں کی دلچسپی کے لیے انگریزی کی کتابیں دلچسپ کہانیوں پر مشتمل ہوتی تھیں – انگریزی زبان و ادب سے میرے عشق کا آغاز وہیں سے ہوا –
——————– رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک-10جولائی    2021

میرا میانوالی–

امی کا حکم تھا کہ ہر اتوار کو گھر آناہے – باباجی تو ہر اتوار کو میرے ساتھ نہیں جاسکتے تھے – اب مسئلہ یہ تھا کہ ساتویں کلاس کا بچہ ہر ہفتے اکیلا عیسی خیل سے داؤدخیل کیسے آتا جاتا رہے گا – اللہ نے مشکل حل کردی – وہ یوں کہ عیسی خیل سے ایک بس صبح پانچ بجے میانوالی روانہ ہوتی تھی – اس بس کے ڈرائیور کمر مشانی کے چاچا محمد خان ہمارے بابا جی کے سٹوڈنٹ رہ چکے تھے – ان سے بات ہوئی تو انہوں نے بابا جی سے کہا “ سر ، آپ فکر نہ کریں – بچے کو ہر ہفتے لانے لے جانے کا ذمہ میں لیتا ہوں“ –
ہر اتوار کو بس کی فرنٹ سیٹ میرے لیئے مختص ہوتی تھی – سیٹ پہ دوبندوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی ، مگر چاچا محمد خان میرے ساتھ کسی دوسرے بندے کو نہیں بیٹھنے دیتے تھے – میں اسی شام کو واپسی کے پھیرے پر بھی اسی بس پہ سوار ہوتا تھا – اگر فرنٹ سیٹ پہ کوئی اور بندہ بیٹھا ہوتا تو چاچا محمد خان اُسے کسی دوسری سیٹ پر منتقل کر دیتے تھے- اس زمانے میں بسوں میں اتنا رش نہیں ہوتا تھا ، عام طور پر چند سیٹیں خالی ہوتی تھیں – بہر حال فرنٹ سیٹ پر میرے سِوا کسی کو بیٹھنے کی اجازت نہ تھی –
گھر میں مجھے بہت کچھ کھلانے پلانے کے علاوہ امی مجھے کوئی نہ کوئی چیز ( حلوہ، بوائل انڈے ، میٹھا روٹ ، یا خالص دیسی گھی کی چُوری) ساتھ لے جانے کے لیے بھی بنا کر دے دیا کرتی تھیں-
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
———————- رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-11جولائی    2021

میرا میانوالی–

عیسی خیل شہر سے باہر میانوالی روڈ کے بائیں ہاتھ ایک چھوٹا سا پختہ اینٹوں کا بنا ہوا تالاب ہوا کرتا تھا جسے کِراڑی آلا تَلاہ (ہندو عورت والا تالاب) کہتے تھے – یہ تالاب ایک مالدار ہندو عورت نے مسافروں کے پانی پینے کے لیے اُس دور میں بنوایا تھا جب بسیں وغیرہ نہیں ہوتی تھیں – نواحی علاقوں سے لوگ پیدل عیسی خیل آتے تھے – گرمی کے موسم میں پیدل چلنے سے پیاس تو لگتی ہے – ایسیے تھکے ماندے پیاسے مسافروں کے لیے یہ تالاب ایک نعمت تھا – تالاب میں پانی دریائے کُرم سے آتا تھا –
اس قسم کے رفاہی کام ہندو بہت کرتے تھے – لاہور میں گنگا رام ہسپتال ، گلاب دیوی ہسپتال ، لکشمی بلڈنگ ؤغیرہ — میانوالی کا گورنمنٹ ہائی سکول جس عمارت میں ہے یہ عمارت ایک ہندو رائے موہن رام نے بنوائی تھی – قیامِ پاکستان سے پہلے یہاں رائے موہن رام سکول ہوا کرتا تھا – سکول کی عمارت میں رائے موہن رام کے نام کی تختی آج بھی موجود ہے-
جب میں عیسی خیل سکول میں ساتویں کلاس کا سٹوڈنٹ تھا ہم تین دوست ، عطامحمد ہرایا ، نجیب اللہ ہاشمی اور میں روزانہ شام سے کچھ دیر پہلے سیر کے لیے کراڑی والا تالاب تک جایا کرتے تھے – اس وقت یہ علاقہ بالکل ویران تھا – تھانہ ، اے سی آفس ، گورنمنٹ ہائی سکول ، کالج وغیرہ کی عمارتیں بہت بعد میں بنیں – اس سڑک پر شہر کی آخری عمارت سرکاری ریسٹ ہاؤس تھا، جو آج بھی موجود ہے – گورنمنٹ ہائی سکول اس وقت موجودہ گرلز ہائی سکول کی عمارت میں تھا – گرلز ہائی سکول کا اس وقت نام و نشاں تک نہ تھا –
کراڑی والا تالاب اب پتہ نہیں موجود ہے یا نہیں – ہم مسلمان رفاہی تعمیرات کرنے کی بجائے گرانے کے ماہر ہیں – لوگ اینٹیں بھی اُکھاڑ کر لے گئے ہوں گے –
————————- رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک-13جولائی    2021

میرا میانوالی–

گورنمنٹ ہائی سکول عیسی خیل کی ایک تقریب میں ڈپٹی کمشنر مہمانِ خصوصی تھے – نام یاد نہیں آرہا ، سفید شلوار قمیض پر سفید واسکٹ ، لمبی خوبصورت سفید داڑھی , سر پہ جناح کیپ ، بہت وجیہہ اور بارعب شخصیت تھے –
تقریب کا آغاز ایک سٹوڈنٹ نے تلاوتِ قرآنِ حکیم سے کِیا – میں نے حفیظ جالندھری کی معروف نعت حفیظ جالندھری کے انداز میں ترنم سے پڑھی – اس نعت کا پہلا شعر تھا
سلام اے آمنہ کے لال ، اے محبوبِ سبحانی
سلام اے فخرِ موجودات ، فخرِ نوعِ انسانی
پھر نویں کلاس کے سٹوڈنٹ محمد امیر نے ایک فارسی غزل خوبصورت انداز میں ترنم سے پڑھی – غزل کا پہلا شعر یہ تھا :
رَبُودہ فراقِ تو از من قرارم
بیا جانِ جاناں ، کہ در انتظارم
( تیرے ہجر نے میرا قرار چھین لیا ، اے میرے محبوب آ، کہ میں تیرا انتظار کر رہا ہوں)
یہ غزل سنتے ہوئے ڈپٹی کمشنر صاحب پر وجد طاری ہو گیا – اپنی سیٹ سے اُٹھے اور بہت خُوبصورت انداز میں یہ پُوری غزل سُنا کر سماں باندھ دیا – غزل سناتے ہوئے ان کی آنکھیں مسلسل بھیگتی رہیں – اللہ جانے کون سا دُکھ تھا اُن کے دل میں ——— ایسے درویش صفت افسر اب کہاں –
———————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-15جولائی    2021

میرا میانوالی–

عیسی خیل میں اپنے قیام کا پہلا دور تقریبا ایک سال رہا – بابا جی ڈپٹی ڈائریکٹر سکولز کی حیثیت میں پنڈی ٹرانسفر ہو گئے تو مجھے واپس داؤدخیل آنا پڑا ، اس وقت میں آٹھویں کلاس کا سٹوڈنٹ تھا – بھائی جان ملک محمد انورعلی ٹریننگ (بی، ایڈ) کے لیے لاہور چلے گئے – یوں عیسی خیل سے ہمارا تعلق معطل ہو گیا –
تقریبا 22 سال بعد گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں انگلش کے لیکچرر کی حیثیت میں میرا تقرر ہوا تو ملکہ ترنم نورجہاں کے الفاظ یاد آگئے ————–
لے آئی پھر کہاں پر ، قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گذرے تھے ہم جہاں سے
خواب و خیال میں بھی نہ تھا —— بابا جی سروس سے ریٹائر ہو کر داؤدخیل میں مقیم تھے – بھائی جان انور اب گورنمنٹ ہائی سکول داؤدخیل میں ہیڈماسٹر کے عہدے پر فائز تھے – میرے عیسی خیل میں تقرر پر دونوں بزرگ بہت خوش بھی ہوئے ، حیران بھی – حیران اس لیے کہ ہمارے دادا جی ، خود باباجی اور میرے بھائی ملک محمد انور علی کی سروس کا آغاز بھی عیسی خیل ہی سے ہوا تھا – سچی بات ہے میں تو اس تقرر پر خوش نہ تھا ، سوچا تھا کسی بڑے شہر میں تقرر ہوگا – بابا جی نے یہ کہہ کر مطمئن کردیا کہ یہ تقرراللہ تعالی کی مرضی سمجھ کر قبول کر لیا جائے – ان شآءاللہ اس میں کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوگا –
یوں 30 دسمبر 1975 سے عیسی خیل میں میرے قیام کے دوسرے دور کا آغاز ہوا —-
—————— رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-17جولائی    2021

میرا میانوالی–

میں30 دسمبر 1975 کو تقریبا ایک بجے گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں اپنی ملازمت کا آغاز کرنے کے لیے اپنی آمد کی اطلاع (Joining Report) دینے پہنچا تو کالج کا وقت ختم ہو چکا تھا – پھربھی قانون کے تحت میری حاضری اسی دن بعد دوپہر afternoon سے شمار ہو سکتی تھی – کالج کے آفس سپرنٹنڈنٹ نے میری Joining Report ٹائیپ کرکے دیتے ہوئے کہا “ پرنسپل صاحب اپنی رہائش گاہ پہ ہیں ، ان سے دستخط کروالیں تاکہ ہم آج ہی یہ رپورٹ ڈائریکٹر صاحب کو بھجوا دیں “
پرنسپل صاحب کا اسم گرامی ایس ایم اے فیروز تھا – سنجیدہ مزاج بزرگ تھے – ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو کہنے لگے اچھا ہوا آپ آگئے ، انگلش کا لیکچرر نہ ہونے کی وجہ سے لڑکوں نے ہڑتال کر رکھی تھی ، ضلعی انتظامیہ بھی بہت پریشان تھی – آپ کے آنے سے مسئلہ حل ہو گیا –
رپورٹ پر دستخط کرنے کو کہا تو صاف انکار کر دیا – فرمایا میں اس وقت کالج میں موجود ہوتا تو دستخط کر دیتا، اب گھر بیٹھے کیسے دستخط کر دوں – میں نے بہت کہا قانون میں کوئی رکاوٹ نہیں ، آپ کہیں بھی ہوں دستخط کر سکتے ہیں – دوسری بات یہ کہ یہ میری سینیارٹی کا سوال بھی ہے –
پرنسپل صاحب نے دستخط کرنے سے صاف انکار کردیا – ادھر گورنمنٹ کالج میانوالی میں سرورخان صاحب کی حاضری اسی دن شمار ہوئی ، اور وہ مجھ سے سینیئر ہو گئے –
بعد میں پتہ چلا کہ ان پرنسپل صاحب سے کوئی بھی خوش نہیں – اپنے قلم سے کسی کو فائدہ پہنچاتے ہوئے ان کے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں – واللہ اعلم – ان کے بارے میں لوگوں کی رائے اچھی نہیں تھی – اللہ انہیں معاف فرمائے – شکر ہے کہ ایک آدھ ماہ بعد وہ ٹرانسفر ہو گئے ورنہ ان کے ساتھ چلنا بہت مشکل تھا –
——————— رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-18جولائی    2021

میرا میانوالی–

گورنمنٹ کالج عیسی خیل نوزائیدہ کالج تھا – اس کی نہ اپنی الگ بلڈنگ تھی ، نہ مکمل سٹاف ، نہ دوسرے لوازمات – سرکار نے گورنمنٹ ہائی سکول عیسی خیل کی عمارت کی بالائی منزل کو کالج کا نام دے کر وہاں چند لیکچررز متعین کر دیئے تھے –
ہم سے پہلے وہاں صرف چار لیکچررز متعین تھے – ان میں سے دو تو زندہ و سلامت کالج میں موجود تھے – دو کے نام صرف کاغذوں میں نظر آتے تھے – موجود لیکچررز سیاسیات کے جناب محمد سلیم احسن اور تاریخ کے جناب چوہدری محمد رمضان تھے – کاغذوں میں موجود اردو کے لیکچرر جناب سید افتخار حسین شیراز بخاری اور اسلامیات کے جناب طاہرالقادری (پاکستان عوامی تحریک کے بانی) تھے – بخاری صاحب خدا جانے کس جُرم میں فیصل آباد کے کسی کالج سے معطل ہوئے تو ان کی پوسٹ عیسی خیل ٹرانسفر کر دی گئی تھی – وہ مہینے میں صرف ایک دن تنخواہ لینے کے لیئے آتے تھے – بہت زندہ دل ، خوش مزاج ، یاروں کے یار انسان تھے – جناب طاہرالقادری ان دنوں پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں تقرر کے لیئے کوشاں تھے – اس لیئے وہ زیادہ تر لاہور میں رہتے تھے –
اللہ معاف کرے شدید گرمی اور بجلی کی بندش لکھنے کی راہ میں حائل ہو رہی ہے ، آج کے لیے یہی لکھا کافی سمجھیں –
——————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-19جولائی    2021

میرا میانوالی–

عیسی خیل میں اپنے قیام کا قصہ چل رہا تھا ، عید کے بارے میں کچھ لکھنا یاد ہی نہ رہا – عیسی خیل کی داستان تو چلتی رہے گی ، آج کچھ ذکر عید کا –
عیدالفطر کی طرح عید الاضحی کا لُطف بھی بچپن میں نرالا ہوتا تھا – عیدالفطر پر نئے کپڑوں جُوتوں کا ذوق و شوق ، اور عیدالاضحی پر قربانی کے جانوروں سے عشق – قربانی کے جانور بکرے ، دُنبے وغیرہ زیادہ تر اپنے گھر کے ہی ہوتے تھے – لمبے پیچ دار سینگوں اور چھوٹے کانوں والے دیسی دُنبے چُرڑے کہلاتے تھے – ہمارے علاقے میں زیادہ تر یہی دُنبے پائے جاتے تھے – پہاڑی ہرن کی نسل کے ان دُنبوں کا گوشت چربی سے پاک ، صاف سُتھرا ، صحت مند ، مگر ذراسا سخت ہوتا تھا – پکانے والی مائیں بہنیں پکا کر اسے چکن جیسا نرم کر دیتی تھیں – اُن کے اپنے نُسخے اور طریقے تھے جو اُن کے ساتھ ہی رُخصت ہو گئے –
چھوٹے ٹیڈی بکروں کا نام و نشان تک نہ تھا – فُل سایئز کے سمارٹ صحت مند بکرے اس زمانے میں عام ملتے تھے – ان کے گوشت کا اپنا الگ مزا ہوتا تھا –
قُربانی کے جانوروں کی دیکھ بھال ، خدمت خاطر ، ٹہل سیوا بچوں کی سب سے بڑی دلچسپی ہوا کرتی تھی – عصر کے وقت ہم لوگ اپنے اپنے بکرے دُنبے لے کر گھر کے پچھواڑے وسیع و عریض میدان میں چَرانے کے لیے لے جاتے تھے – وہاں خود رو گھاس اور جھاڑیاں ( تَلہ ، دودھک وغیرہ ) جانور بڑے شوق سے کھاتے تھے – شام تک شغل میلہ لگا رہتا تھا – بکروں دُنبوں سے دوستی عشق کی حدود کو چُھونے لگتی تو عید کا دن آجاتا – اپنے جانُو دُنبے ۔ بکرے کے ذبح ہونے پہ یوں محسوس ہوتا چُھری ہمارے اپنے گلے پر پھر رہی ہے – بہت رونا دھونا ہوتا تھا – یہ رونے دھونے والی رسم اب بھی چل رہی ہے –
ہمارے گھر میں امجد بیٹے کی بچی علیزہ یہ رسم باقاعدہ نبھاتی ہے – اس سال معاملہ کُچھ مختلف تھا – لمبے سینگوں والا دُنبہ خاصا سرکش تھا – کسی کو نزدیک نہیں اںے دیتا تھا – عید کی صبح میں نے علیزہ سے کہا “بیٹا ، آج بھی رونا دھونا ہوگا ؟ “
بچی نے کہا “ آج نئیں رونا ، یہ والا دُنبہ دُڑِیاں (ٹکریں) مارتا ہے “-
تیز مزاج ، غصے والے لوگوں کے لیے اس معصوم سی بات میں بھی ایک سبق ہے –
وما علینا الاالبلاغ –
———————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک      -24جولائی    2021

میرا میانوالی–

گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں ہم 8 نوجوانوں کا تقرر دسمبر 1975 میں ہوا – عربی کے لیکچرر اشرف علی کلیار، اسلامیات کے منیر حسین بھٹی ، معاشیات کے ملک محمد یوسف چھینہ ، نفسیات کے حسین احمد ملک ، فزکس کے اکبرعلی رندھاوا ، کیمسٹری کے محمد اکبر خان ، ریاضی (میتھس) کے ملک عبالستار جوئیہ ، انگلش کا میں تھا – ایک آدھ دن آگے پیچھے ہم سب تقریبا ایک ساتھ وارد ہوئے – سیاسیات کے محمد سلیم احسن ، تاریخ کے چوہدری محمد رمضان اور اردو کے سید افتخارحسین شیراز بخاری پہلے سے وہاں موجود تھے –
ہم 11 لوگوں میں سے چار ( اشرف علی کلیار، سلیم احسن ، اکبر خان اور میں ) ضلع میانوالی سے تھے – ملک یوسف چھینہ بھکر ، اکبر رندھاوا جھنگ ، عبدالستار جوئیہ خوشاب اور بقیہ دوست ضلع سرگودہا سے تعلق رکھتے تھے –
سچی بات یہ ہے کہ عیسی خیل جیسی پس ماندہ ، دورافتادہ جگہ تقرر پر کوئی بھی خوش نہ تھا – گورنمنٹ کالج عیسی خیل شمال مغربی پنجاب کا آخری کالج تھا – یہاں زیادہ تر سرکار کے سیاسی مخالفین کو سزا کے طور پر بھیجا جاتا تھا – ہمارا معاملہ الگ تھا – اگر یہ تقرر نہ ہوتا تو ہم سب لوگ گھر پہ بے روزگار بیٹھے ہوتے – گریڈ 17 کی ملازمت معمولی ملازمت نہیں ہوتی – اسسٹنٹ کمشنر (اے سی) کابھی یہی گریڈ تھا – دلچسپ بات یہ کہ اس گریڈ کی ماہانہ تنخواہ 500 روپے اور سالانہ اضافہ increment 50 روپے تھا – 500 روپے میں دوچار افراد پر مشتمل کنبے کا گذارہ آسانی سے ہو جاتا تھا- چینی کی قیمت صرف ایک روپیہ فی کلو تھی – باقی چیزوں کا اسی حساب سے اندازہ لگا لیں –
اللہ بھلا کرے وزیراعظم بھٹو کا ، انہوں نے گریڈ 17 کے تمام ملازمین کی تنخواہوں میں پانچ increments کا اضافہ کردیا – یوں ہماری تنخواہ یکلخت 750 روپے ہوگئی – عیسی خٰیل جیسی ویران جگہ پر اتنی “دولت” کا کوئی مصرف ہماری سمجھ سے باہر تھا – بہر حال سب لوگ اس اچانک مہربانی پر بہت خوش تھے –
—————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-25          جولائی    2021

میرا میانوالی–

الحمد للہ فیس بک کی محفل میں میری آمد کی آج چھٹی (6 ویں) سالگرہ ہے – آپ کے بھائی ، میرے بیٹے پروفیسر محمداکرم علی ملک مجھے فیس بک پہ آنے کے لیئے کہتے رہتے تھے ، مگر میں فیس بک کو بچوں کی محفل سمجھ کر اسے نظرانداز کرتا رہا –
جولائی 2015 کے انہی دنوں میں ہم مری سے لاہور واپس آئے تو اکرم بیٹے نے اپنا Lenovo کا لیپ ٹاپ میرے حوالے کرتے ہوئے کہا “ ابو ، میں نے آپ کا فیس بک پیج ایک سال پہلے بنادیا تھا – لوگ تو شاید آپ کو پہلے ہی اس وادی میں ڈھونڈتے پھر رہے تھے – اب تک آپ کے فرینڈز کی تعداد 2000 ہو چکی ہے – میں کبھی کبھار آپ کا کوئی شعر پوسٹ کر کے ان سے آپ کے نام پر داد وصول کرتا رہا – لوگ یہ سمجھتے رہے کہ آپ ہی ان سے مخاطب ہیں – ان کے سوالات کے جواب دینا اور اُن کی فرمائشوں کی تکمیل کرنا میرے بس کا روگ نہیں – میری اپنی بھی بہت سی مصروفیات ہیں – آپ پلیز اپنے ان دوستوں کی طرف خود متوجہ ہوں ، یہ لیپ ٹاپ آج سے آپ کا ہوا “-
یوں 26 جولائی 2015 کو میں نے فیس بُک کی وادی میں قدم رکھا – الحمد للہ میری توقعات اور اندازوں سے کئی گنا زیادہ محبت اور احترام ملا- اس وقت صورت حال یہ ہے کہ میرے فیس بک فرینڈز کی تعداد 5000 ہے – یہ تعداد مکمل ہونے کے بعد فیس بُک نے ہاتھ کھڑے کردیئے کہ صاحب اس سے زیادہ فرینڈز کی گنجائش ہمارے ہاں نہیں ہے – پھر لوگ فالوورز کی راہ سے آنے لگے –
اس وقت فالوورز کی تعداد 9481 ہو چکی ہے – 1001 Friend Requests بھی بیں – اللہ کریم آپ سب کو بے حساب جزائے خیر عطا فرمائے – آپ کی محبت اور دعائیں میری زندگی کا رختِ سفر ہیں – فیس بک پہ اپنی آمد کی داستان کچھ دن چلے گی –
عیسی خیل کا دورہ فی الحال معطل – اِدھر سے فارغ ہو کر آپ کو پھر وہاں لے جاؤں گا –
———————— رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک-26               جولائی    2021

میرا میانوالی–

فیس بک پر سفر کے آغاز میں ہمارے خوش خوراک ساتھی حاجی اکرام اللہ نیازی ، معروف ماہرین تعلیم ظفرنیازی ، محمد فیاض ، پروفیسر مسرور جاوید اور فورٹ منرو ( ڈیرہ غازی خان ) سے میر ثناءاللہ خان بجارانی بلوچ کے علاوہ سینکڑوں دوسرے ساتھی میرے ہمسفر ہوئے – اس وقت 5000 فرینڈز اور 9481 فالورز میں پاکستان کے چاروں صوبوں کے علاوہ یورپ ، امریکہ، کینیڈا ، جنوبی افریقہ ، سعودی عرب اور عرب امارات میں مقیم سینکڑوں پاکستانی ہمارے ہم سفر ہیں ، چین اور جاپان سے بھی کچھ لوگ ہمارے کارواں میں شامل ہیں –
اس کارواں میں زیادہ تر تعداد میرے سابقہ سٹوڈنٹس اور لالا عیسی خیلوی کی آواز میں میرے گیتوں کے حوالے سے میرے غائبانہ fans کی ہے – ان کے علاوہ بہت سے لوگ کسی اور حوالے کے بغیر براہِ راست میری فیس بُک کی تحریروں سے متاثر ہوکر اس کارواں میں شامل ہوگئے – یہ سلسلہ ابھی جاری ہے –
اکثر لوگوں سے ابھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن ایسے لگتا ہے جیسے ہم مدتوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں – معظم عباس سپرا اور پیل پیراں (خوشاب) کے سید محمد شعیب شاہ سے الگ الگ پہلی ملاقات دسمبر 2019 میں عمرہ کے دوران مکہ مکرمہ میں ہوئی – اللہ سلامت رکھے یہ دونوں میرے بہت پیارے بیٹے ہیں – انہیں میری وہاں موجودگی کا علم میری پوسٹس سے ہوا – معظم تو رہتے ہی مکہ مکرمہ میں تھے ، شعیب شاہ تقریبا 1000 کلومیٹر سفر کر کے مکہ مکرمہ پہنچے – صبح انہیں ڈیوٹی پہ واپس بھی جاناتھا – عشآء کے وقت صحنِ حرم میں ملاقات ہوئی اور کچھ دیر بعد واپس چلے گئے- معظم اس سے اگلے روز عشآء کے بعد اُس ہوٹل میں ہم سے ملنے کے لیئے آئے جہاں ہم مقیم تھے – یہ دو ملاقاتیں مقدس یادیں بن گئیں –
——————– رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-27    جولائی    2021

میرا میانوالی–

پہلی اردو پوسٹ —– 2015
فیس بُک پہ لکھنے کا آغاز میں نے انگلش پوسٹس سے کیا – بحمداللہ میں انگلش اردو یکساں آسانی سے لکھ سکتا ہوں- انگلش میں لکھنے کا ایک اپنا لُطف ہے – میں اکثر کہتا ہوں کہ انگریزی نثر میں وہی حُسن ہے جو اردو شاعری میں ہے – بات دل میں اُترتی چلی جاتی ہے –
فیس بُک پر مسئلہ یہ ہے کہ اکثر لوگ انگریزی پڑھنے لکھنے سے گُریز کرتے ہیں – ان کی فرمائش پر اردو میں لکھنا ضروری ہوگیا – انگلش میں تو یہ سہولت تھی کہ کاپی پیسٹ کے چکر میں نہیں پڑنا پڑتا تھا – اردو میں لکھنے کے لیئے اس چکر کو سمجھنا ضروری تھا – اکرم بیٹے سے بات کی تو انہوں نے Hamariweb نامی سسٹم استعمال کرنے کا مشورہ بھی دیا ، طریقہ بھی سکھا دیا – اردو پوسٹس کے لیئے میں اسی سسٹم سے کام لیتا ہوں – فیس بُک پہ آمد کے بعد اردو میں میری پہلی پوسٹ یہ تھی ———————————
ایک بزرگ موبائیل فونز کی دکان پر گئے اور کہا میرا فون ٹھیک کام نہیں کر رہا – اسے ٹھیک کر دیں – دکان دار نے فون چیک کرنے کے بعد کہا “ باباجی، فون تو بالکل ٹھیک کام کر رہا ھے “
بابا جی یہ سُن کر اُداس ہو گئے – آہ بھر کر کہنے لگے “ اگر یہ فون ٹھیک ہے تو اس میں میرے بچوں کی کالیں کیوں نہیں آتیں – ؟“ ———————–
اُمید ہے بات آپ سمجھ گئے ہوں گے – ہمیں پروا ہو نہ ہو ہمارے والدین اگر اس دنیا میں موجود ہیں تو انہیں ہماری کالز کا انتظار رہتا ہے – اگر آپ کے والدین اللہ کے فضل وکرم سے اس دنیا میں موجود ہیں تو اس پوسٹ پر واہ واہ کہنے کی بجائے ابھی فون ملاکر انہیں سلام کر لیجیے- کیا خبر یہ سہولت کب تک آپ کی دسترس میں رہے – کیا پتہ آپ کے سب مسائل کا حل صرف والدین کی دعا کا منتظر ہو –
—————– رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-28   جولائی    2021

میرا میانوالی–

18 جولائی 2021 کی پوسٹ پر کمنٹ میں ڈاکٹر سید محمد ثقلین شاہ صاحب نے کہا —————
” سر میں آپ کی انگلش اور اردو تحریریں تین بڑے فیس بک گروپس میں آپ کی تصویر کے ساتھ روزانہ شیئر کرتا ہوں – ایک ڈاکٹرز کا گروپ PMC Face ہے , (پنجاب میڈیکل کالج میرا Alma Mater ہے) – دوسرا گروپ “حروف“ فیس بک ، اور تیسرا گروپ “حروف“ ؤاٹس ایپ ہے -ان گروپس میں پاکستان اور پاکستان سے باہر بسنے والے پروفیسرز ، ڈاکٹرز اور علم و ادب کے دلدادہ شامل ہیں – وہ سب لوگ آپ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں – اگر کسی دن میں آپ کی تحریر ان کے ساتھ شیئر نہ کروں تو مجھ سے باقاعدہ پوچھا جاتا ہے کہ آج سرملک منور صاحب کی تحریر شیئر کیوں نہیں ہوئی – گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مدینہ ٹاؤن کی پرنسپل صاحبہ اور نوٹنگھم ریڈیو برطانیہ کی اینکر پرسن صاحبہ نے آپ کے لیئے بہت عقیدتیں اور محبتیں بھیجی ہیں ، اور آپ کے انٹرویو کی خواہش کا اظہار کیا ہے “-
اللہ بھلاکرے ڈاکٹر صاحب اور ان تمام مہربان ساتھیوں کا جو ان گروپس سے وابستہ ہیں ، اور میری تحریریں شوق سے پڑھتے ہیں – اسی طرح کے بہت سے کرم فرما اور بھی ہیں – پیرس (فراس) سے منوراقبال خان روز اول سے میری ہر پوسٹ شیئر کر تے ہیں – پچھلے سال انہوں نے پیرس سے میرے لیئے ایک بہت خوبصورت گرم کوٹ بھی بھیجا تھا – قسمت کی بات ہے ان سے بھی ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی – پچھلےسال وہ پاکستان آئے تو میں اس وقت اہلیہ مرحومہ کے علاج کے سلسلے میں اسلام آباد میں مقیم تھا ، اس لیے ان سے ملاقات نہ ہوسکی –
دوتین سال قبل میں نے ایک پوسٹ میں اپنے ہسندیدہ پرفیوم کا ذکر کیا تو سعودی عرب سے ہمارے بہت پیارے ساتھی خٹک صاحب نے یہ پرفیوم بھجوا دیا – اللہ سلامت رکھے ان سے بھی ابھی تک ملاقات نہیں ہوسکی –
دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اور بھی بہت سے دوست مختلف طریقوں سے محبت کا اظہار کرتے رہتے ہیں – اللہ کریم سب کو بے حساب جزائے خیر عطا فرمائے ، اور ہماری یہ فیس بُک کی محفل رواں دواں ، شادو آباد رہے –
———————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-29           جولائی    2021

میرا میانوالی–

احتساب کی دعوت کے جواب میں شکوے شکایت تو کوئی نہیں ہوئے ، چند دوستوں نے مشورے اور تجاویز دی ہیں – دوچار ساتھیوں نے میرے گیت پوسٹ کرنے کی فرمائش کی ہے – شاید پہلے بھی کسی موقع پر عرض کیا تھا کہ میں نے کبھی اپنے گیت کی کاپی اپنے پاس نہیں رکھی – جس کاغذ پر لکھتا وہی کاغذ لالا کو دے دیتا تھا – اسی طرح کُچھ گیت ایوب نیازی کو بھی دیئے تھے – جب گیت میرے پاس ہیں ہی نہیں تو پوسٹ کیسے کرسکتا ہوں – اتنا وقت میرے پاس نہیں کہ کیسیٹ یا سی ڈی سے سُن کر گیتوں کے بول لکھتا رہوں – اس لیئے اس فرمائش کی تکمیل سے معذرت –
میری انگلش پوسٹس کے حوالے سے ایک فرمائش یہ ہے کہ روزانہ لکھا کریں – آپ کو یاد ہوگا کہ گذشتہ پانچ سال اردو پوسٹ کے علاوہ میں ایک انگلش پوسٹ بھی روزانہ لکھتا رہا – گذشتہ سال انگریزی ادب کی تاریخ لکھنے میں مصروف رہا – اب وہ کتاب ان شآءاللہ جلد منظرعام پر آجائے گی – سال بھر کی محنت کے بعد ذرا آرام کی ضرورت تھی اس لیئے کچھ عرصہ انگلش پوسٹس ہفتے میں صرف تین دن ( منگل ، جمعرات ، اتوار) کو لکھ رہا ہوں – اسلم شاہ صاحب نے انگلش پوسٹس کے ساتھ اردو ترجمے کی فرمائش کی ہے – بیٹا میں تو چاہتا ہوں کہ لوگ انگلش پڑھنے اور سمجھنے لگیں ، ترجمہ تو ظُلم ھوگا –
سب سے اہم تجویز کالاباغ سے محمد علی ملک کی تھی – اس پر انشآءاللہ کل لکھوں گا –
——————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-31      جولائی    2021

میرا میانوالی–

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top