منورعلی ملک کے اگست 2021 کےفیس بک پرخطوط
میرا میانوالی–
29 جولائی کی پوسٹ پر کمنٹ میں محمدعلی ملک نے کالاباغ کے باسیوں کے ہاتھوں دریائے سندھ کو آلُودہ کرنے کی مذموم روش کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کو کہا – پچھلے چند سال میں مَیں خود تو وہاں نہیں جاسکا ، لوگوں سے سُناہے کہ کالاباغ کے لوگ ہر قسم کی غلاظت اور کوڑا کرکٹ دریا میں ڈال کر اس کے پاک صاف ، ٹھنڈے میٹھے پانی میں زہر گھول رہے ہیں – اللہ جانے کون بے رحم لوگ ہیں – اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی ماررہے ہیں – دریا کنارے بستیاں تو دریا ہی کی وجہ سے بستی ہیں ، کیونکہ پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے – پانی آلُودہ ہو جائے تو بستیاں برباد ہو جاتی ہیں – لوگ ہجرت کر کے دوسرے علاقوں میں منتقل ہو جاتے ہیں –
دریائے سندھ صرف کالاباغ یا ضلع میانوالی ہی نہیں پُورے پاکستان کی آن ، شان اور پہچان ہے – یہ پاکستان کا سب سے بڑا دریا ہے اور دنیا کے سب سے بڑے دریاؤں میں شمار ہوتا ہے – صدیوں سے لاکھوں لوگوں کی زندگی اور کاروبار اس دریا سے وابستہ ہے – یہ اتنا بڑا دریا ہے کہ جہلم ، چناب ، راوی اور ستلج چاروں مل کر بھی اس کے برابر نہیں بنتے – اس دریا کے پاکیزہ ، ٹھنڈے میٹھے پانی کو آلُودہ کرنا اللہ تعالی کی بدترین ناشکری ہے – شکر کریں تو وہ اور زیادہ دیتا ہے ، ناشکری کریں تو بستیوں کا نام و نشان تک مٹا دیتا ہے –
آخر مسئلہ کیا ہے ؟ کالاباغ میں تو کچرے کو ٹھکانے لگانا بہت آسان ہے ، پہاڑ میں جابجا کھائیاں اور ویران وادیاں موجود ہیں جہاں کروڑوں ٹن کچرا سما سکتا ہے – سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنی بڑی سہولت کی موجودگی میں دریا ہی کو کوڑے کا ڈھیر بنانے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے – کالاباغ کے لوگ تو بہت باشعور ہیں پھر یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے ؟؟؟ اللہ ہدایت دے ہم سب کو –——————- رہے نام اللہ کا –—–بشکریہ-منورعلی ملک-1اگست 2021
میرا میانوالی–
آٹھ دس سال پہلے کی بات ہے ، آدھی رات کے قریب لالا عیسی خیلوی نے فون پر کہا :
“منور بھائی ، وہ جو بڑے غلام علی خان نے اردو ماھیا گایا ہے۔۔۔۔۔
باغوں میں پڑے جھُولے
تُم بُھول گئے ہم کو ،ہم تُم کو نہیں بُھولے
اسی طرز پر پانچ سات اردو ماھیئے چاہیئں ، صبح میں نے ریکارڈ کروانے ہیں –
“ یار کتنی بار کہا ہے منجی پِیڑھی ٹھوکنے والا کام مُجھ سے نہیں ہوتا ، کسی اور سے کروا لو“
“تیڈے جیہا کوئی ہور کر سگے ہا تاں تیکوں آکھاں ہا ؟؟؟“
“زیادہ مکھن نہ لا ، کاغذ قلم لبھ تے لِکھ “ –
” کاغذ قلم چائی بیٹھاہاں” لالا نے ہنس کر کہا۔
میں نے پانچ سات ماہیے دستی بنا کر لکھوا دیئے – لالا بہت خوش ہوا – کُچھ عرصہ بعد پروفیسر نصرت نیازی صاحبہ کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی لالا نے اُن ماھیوں کی تعریف کی کہ بہت اچھے تھے – پتہ نہیں لالا نے وہ ماہیئے کہاں ریکارڈ کروائے ، شاید وسیم سبطین صاحب بتا سکیں – مُجھے تو اب اُن میں سے ایک ماہیا بھی یاد نہیں –
آج کی پوسٹ ذائقہ بدلنے کے لیے ہے – کل سے پھر عیسی خیل کالج کے حوالے سے پوسٹس کا سلسلہ شروع ہوگا –——————— رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-2 اگست 2021
میرا میانوالی–
عیسی خیل میں شہروں والی سہولتیں تو دستیاب نہ تھیں ، پھر بھی ہم لوگ اس لیئے خوش تھے کہ شدید بے روزگاری کے اس دور میں ہمیں لیکچرر کی گزیٹڈ کلاس ون افسر کی ملازمت مل گئی تھی – یاد رہے کہ 1971 کی جنگ کے بعد مُلک شدید معاشی بُحران میں مبتلا تھا – چار سال سے لیکچررز کی اسامیوں پر بھرتی نہیں ہوئی تھی – 1974 میں بھٹو صاحب کی حکومت نے وسیع پیمانے پر تمام خالی اسامیاں پُر کرنے کا فیصلہ کیا تو سب نے اطمینان کا سانس لیا – جس کو جہاں جگہ ملی خوشی سے قبول کرلی –
عیسی خیل میں رہائش کا مسئلہ آسانی سے حل ہوگیا – چوہدری محمد رمضان صاحب اور حسین احمد ملک صاحب اپنی اپنی فیملی لے آئے اور اندرونِ شہر محلہ شاہ عیسی خیل اور عیسب خیل وغیرہ میں مقیم ہو گئے – ملک یوسف چھینہ صاحب ، منیر حسین بھٹی صاحب اور اکبررندھاوا صاحب ولی داد خان والی گلی کے ایک مکان میں آباد ہو گئے –
ملک عبدالستار جوئیہ ، اکبر خان اور میں محلہ بمبرانوالہ میں نُورجہاں بیگم صاحبہ کے کرائے کے مکان میں اقامت پذیر ہوئے – تقریبا آدھ کنال رقبے کا یہ خاصا آرام دہ مکان تین کمروں کی قطار پر مشتمل تھا – دائیں جانب والا کمرہ ملک عبدالستار جوئیہ کے حصے میں آیا ، درمیان والا اکبر خان کے تصرف میں اور بائیں جانب والا میرے نصیب میں – اکبر خان تو ذرا شرمیلے ، سنجیدہ مزاج نوجوان تھے – ستارصاحب اور میں ہنسنے ہنسانے کے شوقین تھے –
ہمارا کھانا کالج کے ملازم سید طالب حسین شاہ بناتے تھے – پہلے دن جب وہ کھانا بنانے آئے تو اُن سے مل کر میری آنکھوں میں آنسُو آگئے – قسمت کے کھیل نرالے ، یہی طالب حسین شاہ ساتویں کلاس میں میرے کلاس فیلو تھے – غریبی کی وجہ سے آٹھویں کلاس سے آگے تعلیم جاری نہ رکھ سکے – محنت مزدوری کرتے رہے – اس وقت کالج میں درجہ چہارم کے ملازم تھے – میں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا تو وہ لوگ بھی شاہ صاحب کا احترام کرنے لگے – ان سے ملازموں جیسا سلوک کبھی نہ ہوا –—— رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-3 اگست 2021
میرا میانوالی–
عیسی خیل میں دن گذارنا بھی ایک مسئلہ تھا – کالج میں صرف دو کلاسز تھیں ، ڈیڑھ گھنٹے میں ان سے فارغ ہونے کے بعد کرنے کو کوئی کام نہ تھا – دن کو سونے کا میں عادی نہیں – دوسرے ساتھی بھی اپنی اپنی کلاسز سے فارغ ہو کر گھروں کو روانہ ہو جاتے – عتیل عیسی خیلوی اپنی ملازمت کے باعث دوپہر کے بعد دستیاب ہوتے تھے – لالا عیسی خیلوی دن بھر اپنی دکان الصدف جنرل سٹور پہ مصروف رہتے – دوپہر سے سہ پہر تک کے دوتین گھنٹے گذارنا خاصی کڑی آزمائش تھا-
کچھ عرصہ بعد اس فارغ وقت کا مصرف بھی بن گیا ، جس سے مجھے بہت فائدہ ہوا – مصرف ایک تو اردو ادب کا مطالعہ تھا ، عتیل صاحب کی ذاتی لائبریری میں اردو شاعری اور نثر کی بہترین کتابوں کے علاوہ “نقوش“ کے خصوصی شمارے ، افسانہ نمبر، غزل نمبر ، مکاتیب نمبر اور لاہور نمبر بھی موجود تھے – یوں مجھے اِس دور کے تمام بڑے شاعروں اور ادیبوں کی بہترین تحریریں پڑھنے کا موقع مل گیا –
پھر 1977 میں جب میں کالج کا پرنسپل بنا تو لائبریری کے لیئے اپنی پسند کی انگریزی ادب کی بہت سی کتابیں بھی خرید لیں – اس طرح عیسی خیل میں پانچ سال قیام کے دوران میں نے اردو اور انگریزی ادب کا مطالعہ اپنا روزمرہ کا معمول بنائے رکھا – مطالعہ کا شوق بچپن سے تھا ، بہت کچھ پہلے بھی پڑھ رکھا تھا، بہت کچھ عیسی خیل میں قیام کے دوران پڑھ لیا – شوق اب بھی ہے ، مگر نہ وقت ملتا ہے نہ اپنی پسند کی کتابیں – میرے اس شوق کے حوالے سے عیسی خیل میں قیام سنہری دور تھا –——- رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-4 اگست 2021
میرا میانوالی–
عتیل صاحب تقریبا چار بجے دفتر سے واپس آتے تو دوپہر کا کھانا کھا کر میرے ہاں آجاتے – چائے کا پہلا دَور میرے ہاں چلتا ، پھر ہم آوارہ گردی کے لیئے لاری اڈہ کی طرف نکل جاتے –
ہماری آوارہ گردی فضول نہ تھی – ہماری گفتگو بہت دلچسپ ہوتی تھی – عتیل کا اپنا بہت پیارا انداز گفتگو تھا – موضوعِ سخن عموما کوئی قدیم یا جدید شاعر ہوتا – عتیل کو ہر شاعر کے شاہکار شعر یاد تھے – غالب کو بہت پیار بھری گالیوں سے نوازتے تھے – صرف اقبال کا احترام کرتے تھے – غالب اور اقبال کے بارے میں کتابوں کا بھی اچھا خاصآ ذخیرہ تھا اُن کے پاس – جدید شعراء میں سے فیض ، ساحر، ندیم ، سیف ، ناصرکاظمی ، محسن نقوی ، مصطفی زیدی، فراز ، پروین شاکر وغیرہ ہماری مشترکہ پسند تھے – ان سے پہلے دور کے اساتذہ ، حسرت موہانی ، جگرمرادآبادی، اصغرگونڈوی وغیرہ کے بارے میں بھی عتیل بہت کچھ جانتے تھے – ان سب لوگوں کے قصے نمک مرچ لگا کر سُناتے تو مزا آجاتا – ہم دونوں مل کر بے تحاشا قہقہے لگاتے –
چائے کا دُوسرا دور اڈے پر الحفیظ ہوٹل ، ماسٹرمشتاق کے ہوٹل یا لالا کریم خان کے ہوٹل پر چلتا – شام سے ذرا پہلے ہم واپس آتے – عتیل شام کا کھانا کھا کر میرے ہاں آجاتے اور پھر ہم اپنی رات کی منزل (لالاعیسی خیلوی کی محفل) کا رُخ کرتے – عتیل اس موقع پر ڈیڑھ دو میٹر لمبے بید کے ڈنڈے اور بٰیٹری ( ٹارچ لائیٹ ) سے بھی مسلح ہوتے تھے –
— رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-5 اگست 2021
میرا میانوالی–
عتیل صاحب کے بارے میں پہلے بھی لکھتا رہتا ہوں – جتنا بھی لکھوں کم ہے —– عیسی خیل کے تپتے ہوئے صحرا میں عتیل کی محبت میرے لیئے ایک شجرِسایہ دار اور ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے جیسی تھی – وہ بے حد مہمان نواز اور دوست نواز انسان تھا – علم دوست ، ادب دوست شخصیت تھا —- اردو ادب کے علاوہ سیرتِ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ، غالب اوراقبال کے بارے میں بھی معروف و مستند کتابیں اس کی ذاتی لائبریری کی زینت تھیں –
میرے عیسی خیل میں قیام کے آخری سال میں لالا عیسی خیلوی عیسی خیل سے اسلام آباد منتقل ہوگئے تو ہماری راتوں کی محفلیں ویران ہوگئیں – لیکن عتیل نے اپنی حد تک میرے لیئے محفل کا اہتمام کیئے رکھا – شام آٹھ بجے سے بارہ بجے تک ہم اڈے کے ہوٹلوں پر چائے پیتے اور شہر کی سُنج گلیوں میں گھُومتے پھرتے رہتے تھے –
ایک دفعہ آدھی رات کے قریب ہم مین بازار میں سے گذر رہے تھے – بازار بند تھا – اچانک ایک کُتا ہماری راہ میں حائل ہوگیا – کُتا بہت غصے میں تھا – عتیل نے اُس سے خوفزدہ ہونے کی بجائے بڑے اطمینان سے اُس کو مخاطب کر تے ہوئے کہا “ ہاں بھئی ، کیہہ تکلیف اے تیکوں ؟“
کُتا بچارا حیران پریشان ہو کر واپس بھاگ گیا – وہ تو یہ سوچ کر آیا ہوگا کہ یہ لوگ ڈر کر بھاگیں گے ، اور میں ان کا پیچھا کر کے ایک کو کاٹ لوں گا – آگے سے عتیل کا ردِعمل دیکھ کر اُس نے پریشان تو ہونا تھا –
یہ تھی عتیل کی انوکھی شخصیت کی ایک جھلک ، ایسے کئی واقعات اور بھی ہیں —-بڑی طویل کہانی ہے پھر کبھی اے دوست –—————– رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-6 اگست 2021
میرا میانوالی–
حسب معمول اکرم بیٹے اور فیملی کے ساتھ کل شام مری پہنچے ہیں۔ جہاں تک مصروفیات نے اجازت دی آپ سے رابطہ انشاء اللہ بر قرار رہے گا، کیونکہ دعاوں کی ضرورت تو ھر جگہ رہتی ہے۔
مری کے بعد اگلے ہفتے اگلی منزل لاھور ہے۔ دوتین ہفتے وہاں رہ کر واپس میانوالی ۔ فجر کی دعاوں میں میں بھی آپ کو یاد کر لیتا ھوں۔ آپ بھی یاد کر لیا کریں۔۔ اللہ حافظ و ناصر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔۔۔-بشکریہ-منورعلی ملک-7 اگست 2021
میرا میانوالی–
10 اگست کی شام مظہر بیٹے (علی عمران) نے پی سی بھوربن میں ہمارے لیئے دعوت کا اہتمام کیا – مظبر خود تو اسلام آباد میں مصروف تھے ، تاہم پی سی بھوربن کے مالکان سے دیرینہ مراسم کی بنا پر وہ پریویلیج کلب Privilege Club کے ممبر ہیں – پریویلیج کلب کے ارکان کو وی آئی پی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں – اس لیئے دعوت کے تمام انتظامات مظہر نے فون پر ہی طے کر دیئے – اس بنا پر ہمیں خاصا پروٹوکول بھی ملا – اس معیار کے ہوٹل کا سٹاف ویسے بھی بہت مستعد ، مہذب اور خوش اخلاق ہوتا ہے – پریویلیج کلب کے مہمانوں کی حییت میں ہم سے خصوصی ترجیحی سلوک کیا گیا –
مری کی خُنک ، سرسبز فضاؤں میں پی سی بھوربن میں رہنا یا کھانا پینا ایک خوشگوار تجربہ ہوتا ہے – کھانے کی مقدار، معیار اور ورائیٹی اپنی مثال آپ ہے – مری کے نیم شہری ماحول میں پی سی بھوربن جدید ترین سہولتوں اور خدمات سے مزین ایک الگ دنیا ہے ، جہاں مہمانوں کو وی آئی پی طرز زندگی کے تمام لوازمات میسر ہیں – یوُں پی سی میں گذارے ہوئے لمحات ایک یادگار تجربہ بن گئے –——————— رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-13 اگست 2021
میرا میانوالی–
پاکستان کا مطلب کیا ؟
لا الہ الا اللہ
یوم آزادی مبارک۔14 اگست 2021
لا الہ الا اللہ
یوم آزادی مبارک۔14 اگست 2021
میرا میانوالی–
جی ہاں ، مری کا موسم بعض اوقات ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ سویٹر وغیرہ پہننا پڑتا ھے – سرِراہ چلتے چلتے اچانک کالے سیاہ بادل ہر چیز کو لپیٹ میں لے لیتے ہیں ، تیز بارش کے ساتھ ایسی ٹھنڈی یخ ہوا ئیں چلنے لگتی ہیں کہ سردی کے مارے اچھے خاصے پہلوانوں کے بھی دانت بجنے لگتے ہیں – اس وقت سویٹر ، جرسی، جیکٹ وغیرہ پہننا ضروری ہو جاتا ہے –
اپنا تو خیر معاملہ ہی الگ ہے – گرمی جتنی زیادہ ہو پروا نہیں ، لیکن سردی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی – بچپن میں امی نے سردی کا جو خوف دل میں بٹھایا تھا ، اس کے اثرات اب تک باقی ہیں – میرے بچے اس حوالے سے مجھے چھیڑتے بھی رہتے ہیں – جون جولائی میں بھی میانوالی میں بارش ہو تو کہتے ہیں ابو ، کون سا سویٹر پہنیں گے ؟
اس دفعہ مری جاتے ہوئے میں نے کہا مری میں سردی کچھ زیادہ نہیں ہوگی ، صرف ایک ہاف سویٹر ( بغیر بازو) ساتھ لے لیا – پہلادن تو اس میں گذارہ کر لیا ، دوسرے دن ایوبیہ سے واپس آتے ہوئے تیزبارش اور سرد ہوا نے احساس دلایا کہ ہاف سویٹر سے تو کام نہیں چلے گا – سیدھا مال روڈ جا کر یہ فُل بازوؤں والا سویٹر خرید لیا ، جو آپ اس پکچر میں دیکھ رہے ہیں –
—————— رہے نام اللہ کا —––بشکریہ-منورعلی ملک-15اگست 2021
میرا میانوالی–
6 اگست کو میانوالی سے شروع ہونے والا سفر مری اور لاہور سے ہوتا ہوا کل شام میانوالی پہنچ کر ختم ہوا – مری میں ہم نے ایوبیہ ، پتریاٹہ اور کوہالہ کی سیر کی – ایوبیہ اور پتریاٹہ کی سیر بچوں کی فرمائش پر ہوئی کہ انہوں نے چیئر لِفٹ پر جھُولا جھُولنا تھا – کوہالہ کی سیر میری پسند تھی –
کیا خوبصورت منظر ہے – !!!! آزاد کشمیر کی سرسبز سرحد کا پسِ منظر – بپھرا ہوا، شور مچاتا ، جھاگ اُڑاتا دریا ، دریا کے کنارے پلاسٹک کے سُرخ چھپروں کے سائے میں پانی کے اندر بچھی ہوئی لوہے کی چارپائیوں پر ٹھنڈے یخ پانی میں پاؤں ڈبوکر کھانا پینا، گپیں لگانا ، پکچرز بنانا ، ایک بہت خوشگوار تجربہ ہے – ہم ہر سال اس سے لُطف اندوز ہوتے ہیں –
چند دن بعد ہم مری سے لاہور آگئے – لاہور میں اپنا گھر ہے اکرم بیٹے کا – سخت گرمی اور محرم الحرام کی وجہ سے اب کی بار زیادہ سیر و تفریح تو نہ ہو سکی ، لیکن سیرو تفریح کی کمی محسوس نہ ہوئی کیونکہ لاہور کی ہر اہم جگہ ہم پہلے ہی کئی بار دیکھ چُکے ہیں – زیادہ تر وقت گھر پر ہی کھانے پینے ، باتیں کرنے میں صرف ہوا – لاہور میں امجد بیٹا بھی ہم سے آملے۔ ہمارے مری کے دورے کے وقت وہ میانوالی میں اپنے کالج میں مصروف تھے۔
اس تمام تر سفر کے دوران جس حد تک ممکن ہوا آپ سے رابطہ قائم رکھنے کی کوشش کرتا رہا – باقاعدہ روزانہ پوسٹس کا آغاز آج سے ہو گیا – عیسی خیل میں اپنے قیام کا تذکرہ جہاں چھوڑا تھا، کل وہیں سے شروع کروں گا –
————- رہے نام اللہ کا –––بشکریہ-منورعلی ملک-21 اگست 2021
میرا میانوالی–
اپنے عیسی خیل میں قیام کے حوالے سے بہت سی پوسٹس گذشتہ چند برس میں لکھ چکا ہوں – اپنے ہر کولیگ colleague کے بارے میں الگ الگ پوسٹس بھی لکھ دی تھیں – لالا عیسی خیلوی کے بارے میں تو ایک پُوری کتاب “درد کا سفیر“ 1992 میں لکھ دی تھی –
لیکچرر کی حیثیت میں میں گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں 5 سال رہا – جس طرح خزاں میں درختوں کے پتے جھڑتے ہیں اور ان کی جگہ نئے پتے آجاتے ہیں ، ملازمت میں بھی ایسا ہی عمل ہوتا رہتا ہے – دفتر ہو یا تعلیمی ادارہ ، لوگ آتے جاتے رہتے ہیں – عیسی خیل کالج سے ہم سب لوگ رفتہ رفتہ ٹرانسفر ہوکر دوسرے کالجوں میں چلے گئے – صرف اشرف علی کلیار صاحب رہ گئے ، کیونکہ ان کا گھر عیسی خیل کے مضافات (کلور) میں واقع ہے – گھر سے دُور کون جانا چاہتا ہے ؟ سو ۔ کلیار صاحب نے ساری سروس عیسی خیل کالج ہی میں بسر کر دی – پرنسپل کے منصب پر بہت عرصہ فائز رہے –
تاریخ کے پروفیسر چوہدری محمد رمضان صاحب گورنمنٹ کالج سرگودہا چلے گئے – کچھ عرصہ بعد خبر آئی کہ دُنیا سے رُخصت ہو گئے – اللہ مغفرت فرمائے بہت نفیس مزاج ، خوش اخلاق انسان تھے – سیاسیات کے محمد سلیم احسن صاحب میانوالی چلے گئے – اسلامیات کے منیر حسین بھٹی گورنمنٹ کالج سرگودہا جا کر ریٹائر ہوئے – ریاضی (میتھس) کے ملک عبدالستار جوئیہ گورنمنٹ کالج شاہ پور کے پرنسپل بن کر ریٹائر ہوئے – معاشیات کے ملک محمد یوسف چھینہ گورنمنٹ کالج بھکر کے پرنسپل کے منصب سے سبکدوش ہوئے ، نفسیات کے حسین احمد ملک گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی جاکر ریٹائر ہوئے اور وہیں مقیم ہو گئے ، فزکس کے اکبر علی رندھاوا گورنمنٹ سائنس کالج وحدت روڈ لاہور ٹرانسفر ہوئے – پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ڈاکٹراکبرعلی رندھاوا بن کر سائنس یونیورسٹی اسلام آباد میں متعین ہوئے – ریٹائرمنٹ کے بعد پتہ نہیں کدھر ہیں – کیمسٹری کے محمد اکبر خان پی سی ایس (پی ایم ایس) کرکے مجسٹریٹ بن گئے – ڈپٹی کمشنر کی حیثیت میں ریٹائر ہونے کے بعد فیصل آباد میں مقیم ہیں –
اللہ سب کا حافظ و ناصر ہو ، اچھے لوگ تھے – بہت خوبصورت یادیں چھوڑ گئے – جہاں بھی رہیں ، خوش رہیں –—————- رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-22 اگست 2021
میرا میانوالی–
صبح سے بجلی غائب ھے۔ لیپ ٹاپ چارجنگ مانگ رہا ھے۔ اس لیئے آج معمول کے مطابق مفصل پوسٹ لکھنا ممکن نہیں۔
گذشتہ دوتین ہفتے مری اور لاہور میں گذرے ۔ وہاں تو بجلی کا مسئلہ کبھی نہ ھوا۔ یہ سہولت شاید صرف میانوالی کو میسر ھے۔
چلیں یوں ہی سہی۔ ان شآءاللہ کل ملاقات ھوگی۔ دعا کرتے رہیں کہ کل بھی یہی حال نہ ھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔۔-بشکریہ-منورعلی ملک-23 اگست 2021
میرا میانوالی–
لالا قیوم خان ( عبدالقیوم خان نیازی) گورنمنٹ ہائی سکول عیسی خیل میں سائنس ٹیچر تھے – بعد میں ہیڈماسٹر کے منصب سے ریٹائر ہوئے – ایک اچھے ٹیچر اور کامیاب ایڈ منسٹریٹر کے علاوہ قیوم خان بہت اچھے گلوکار بھی تھے – لالا عیسی خیلوی کے رشتہ دار بھی ہیں ، کلاس فیلو بھی – چاہتے تو یہ بھی لالا کی طرح کمرشل گلوکار بن کر شہرت اور دولت سمیٹ سکتے تھے – مگر لالا کی طرح دنیاداری کے فن سے ناآشنا تھے – معاشی لحاظ سے ویسے بھی ماشآءاللہ خاصے خوشحال تھے – کمر مشانی کچہ میں بہت سی زرعی زمین کے مالک تھے – ملازمت کی آمدنی زرعی آمدنی کے علاوہ تھی – سب سے اہم بات یہ کہ قیوم خان کا درویشانہ مزاج دولت کی ہَوَس سے نا آشنا تھا – اس لیئے ان کی گلوکاری شوقیہ گلوکاری تک ہی محدود رہی –
لالا بھی ان کی صلاحیتوں کے معترف تھے – شب کی محفل میں جب کبھی قیوم خان آجاتے تو لالا ہارمونیم ان کے سپرد کر کے سامعین کی صف میں بیٹھ جاتے – کئی معروف گیت لالا کو قیوم خان ہی سے ملے – مثلا
ادھر زندگی کا جنازہ اُٹھے گا ———-
اور
آکر ہماری قبر پر تُونے جو مُسکرادیا ———-
لالا کو قیوم خان ہی سے ملے –
قیوم خان نے موسیقی میں کئی تجربات بھی کیئے – سرائکی کلام پشتو دُھن میں پیش کرنا اُن کا خصوصی کمال تھا – میری نعت
یہ تیرا چہرہ ، یہ تیری زُلفیں
بھی قیوم خان اپنے انداز میں گایا کرتے تھے –
قیوم خان نثر بھی بہت خوبصورت لکھتے ہیں ۔۔ ” عیسی خیل دور تے نئیں ” کے عنوان سے ان کی پوسٹس بہت مقبول ہیں۔
ریٹائرمنٹ کے بعد قیوم خان نے اپنا تعلیمی ادارہ بنالیا – اب زیادہ تر وقت وہیں گذارتے ہیں – اللہ سلامت رکھے ہمارے بہت پیارے ساتھی ہیں –—————— رہے نام اللہ کا —––بشکریہ-منورعلی ملک-24 اگست2021
میرا میانوالی–
کالج میں حاضری دینے کے بعد میں کچھ ساتھی پروفیسر صاحبان کے ساتھ مین بازار پہنچا تو دائیں ہاتھ ایک دکان پر “الصدف جنرل سٹور“ لکھا دیکھ کر یاد آیا کہ لالا نے اپنا ذریعہ معاش یہی جنرل سٹور بتایا تھا – سلام دعا کے لیے ہم لوگ جنرل سٹور میں داخل ہوئے – لالا نے بہت آؤبھگت کی – چائے منگوائی – پُوچھا کیسے آنا ہؤا – میں نے بتایا کہ کالج میں انگلش کے لیکچرر کی مسند میرے حصے میں آئی ہے – لالا نے کہا “ واہ – پھر تو مزا آگیا “ – پوُچھا رہائش کا کیا بندوبست ہے – میں نے بتایا کہ ہم تینوں ساتھی محلہ بمبرانوالہ میں کرائے کے مکان میں مقیم ہیں – لالا نے کہا “ مطلب ، ہمارے گھر سے پچھلی گلی میں – یہ تو اور بھی مزے کی بات ہے – ویسے اگر وہاں رہنے میں کوئی دِقت ہو تو میرا غریب خانہ بھی اپنا گھر سمجھیں “ – ہم نے شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ پیشکش قبول کرنے سے معذرت کر لی ، تو لالا نے کہا “ منور بھائی ، شام کے بعد میرے ہاں چند دوست آتے ہیں – گپ شپ اور موسیقی کی یہ محفل ہر شام ہوتی ہے – اگر وقت نکال سکیں تو آپ بھی آجایا کریں – ہماری عزت افزائی ہوگی “ –
میرے دوسرے دو ساتھیوں کو تو موسیقی سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی ( ایک صاحب ریاضی کے لیکچرر تھے ، دوسرے کیمسٹری کے) – مجھے بہر حال بچپن ہی سے موسیقی سننے کا شوق تھا – اس لیئے میں اُس محفل کا مستقل رُکن بن گیا –
———————- رہے نام اللہ کا –––بشکریہ-منورعلی ملک-25 اگست 2021
شام 8 بجے کے قریب عتیل صاحب میرے ہاں آتے اور ہم لالا کی محفل میں شرکت کے لیے روانہ ہوجاتے – یہ محفل لالا کے آبائی گھر سے ملحق ایک الگ احاطے میں واقع تین کمروں کی قطار کے درمیانی کمرے میں منعقد ہوتی تھی – اس کمرے کا نام عتیل صاحب نے میکدہ رکھ دیا – میکدے کے کمرے میں لالا نے کبھی شراب نوشی نہ کی – اس کے دائیں جانب والے کمرے میں لالا کا ہارمونیم اور تھوڑا بہت پینے کا سامان پڑا ہوتا تھا – کمرے کا پچھلا دروازہ گھر کے صحن میں کھُلتا تھا – لالا اُسی دروازے سے کمرے میں آتے اور اُدھر ہی تھوڑا بہت منہ کالا کر کے ہارمونیم اُٹھا کر میکدے کے کمرے میں آجاتے تھے – میکدے میں سب سے علیک سلیک کے بعد لالا ہار مونیم پہ کسی گیت کی دُھن چھیڑتے اور پھر تقریبا آدھی رات تک لالا نغمہ سرائی کرتے ، اور ہم سے دادو تحسین وصول کرتے – کیا زمانہ تھا —- !!!!
جب تک لالا عیسی خیل میں رہے یہ محفل بلاناغہ منعقد ہوتی رہی – صرف عشرہ محرم اور عید میلاد کے موقع پر ناغہ ہوتا تھا –
1978 میں لالا پہلے اسلام آباد F/ 8 میں منتقل ہوئے ، کچھ عرصہ بعد علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں کرائے کے مکان میں رہنے لگے – بعد میں جیل روڈ پر مکان خرید لیا – یُوں میکدہ ویران ہو گیا تو ساتھی ادھر ادھر بکھر گئے –
عیسی خیل میں لالا نے سڑک کے کنارے عیسی خیلوی ہاؤس بنا لیا -میکدے والا گھر لالا کے بھائی ثناءاللہ خان المعروف شَنُو بھِرا کے حصے میں آیا – بہت جی چاہتا تھا کہ کبھی ایک رات میکدہ دوبارہ آباد ہو جائے – مگر اب وہ پہلے والی آبادی ممکن نہ تھی ،کیونکہ اکثر ساتھی سرحدِحیات کے پار زیر زمین جا بسے – پھر ایک دن لالا نے بتایا کہ میکدے والا مکان شنُو بِھرا نے بیچ دیا ——–
وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا———————– رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-26 اگست 2021
اپنی کتاب درد کا سفیر سے اقتباس ————–
یہ کتاب پہلی بار1992 میں شائع ہوئی ، احباب کی فرمائش پر اس کے دو مزید ایڈیشن2002 اور 2018 میں شائع ہوئے –
کتاب کا تیسرا ایڈیشن اسلام آباد سے شائع ہوا تھا – جو دوست لینا چاہیں 0300 8502456 سے رابطہ کریں ، شاید مل جائے ––بشکریہ-منورعلی ملک-27 اگست2021
میرا میانوالی–
کل میں نے بتایا کہ گھر میں تعمیرومرمت کاکام ہو رہا ہے تو کچھ ساتھیوں نے کمنٹس میں کہا حالاتِ حاضرہ کے بارے میں مزدوروں کی رائے پُوچھ کر بتائیں –
حالاتِ حاضرہ کے بارے میں مزدوروں کی رائے لکھنے کے قابل نہیں کہ گالیاں لکھنا اچھا نہیں لگتا – صرف ایک بندے نے معقول بات کہی – اس نے کہا “ سرجی ، پہلے تو ایک دن کی مزدوری میں ایک دن کا راشن مل جاتا تھا ، اب آدھا ملتا ہے- مطلب ، پہلے ایک وقت میں دو روٹیاں کھاتے تھے ، اب ایک روٹی کھاتے ہیں “-
بہر حال ، اللہ دیکھ رہا ہے –
اقبال نے کہا تھا ————–
تُو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ ء مزدور کے اوقات
اقبال کا دَور پھر بھی آج سے اچھا تھا – اب تو روزافزوں مہنگائی نے بندہء مزدور کے اوقات بہت ہی زیادہ تلخ بنا دیئے ہیں – جس دن مزدوری نہ ملے ان بچاروں کے گھر میں فاقہ ہوتا ہے –
ایسے لوگوں کا خاص خیال رکھیں – یہ کسی کے در پہ مانگنے نہیں جاتے – آپ خود ایسے لوگوں کے گھر جاکر انہیں کچھ نہ کچھ دے دیا کریں – اللہ آپ کے اس عمل سے یقینا راضی ہوگا کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا تھا “ اَلکاسِبُ حبیب اللہ “ ( مزدور اللہ کا دوست ہوتا ہے )-
ان سادہ لوح غریب لوگوں میں بڑے عظیم انسان بھی ہوتے ہیں – ہمارے دوست ایڈووکیٹ محمد اشرف خان نیازی نے ایک دفعہ بتایا کہ میرے گھر میں تعمیر کاکام ہورہا تھا – ایک مزدور روزانہ مزدوری کی کچھ رقم سینے والی جیب میں ڈالتا تھا ، کچھ سائیڈ والی جیب میں اور باقی رقم ہاتھ میں رکھتا تھا – پُوچھا تو اس نے بتایا کہ سینے کی جیب والی رقم اپنے ضعیف والدین کو دیتا ہوں ، سائیڈ والی جیب کی رقم اپنے گھر پہ خرچ کرتا ہوں اور ہاتھ والی رقم راستے کی ایک مسجد میں دے دیتا ہوں –——————— رہے نام اللہ کا ––بشکریہ-منورعلی ملک-29 اگست2021
میرا میانوالی–
گورنمنٹ کالج عیسی خیل کے پہلے پرنسپل پروفیسر سید انتصار مہدی رضوی تھے – موصوف گورنمنٹ کالج میانوالی میں عربی کے پروفیسر تھے – جب عیسی خیل میں کالج قائم ہوا تو انہیں وہاں بطور پرنسپل متعین کر دیا گیا – چند ماہ بعد ان کی جگہ پروفیسر ایس ایم اے فیروز کو عیسی خیل کالج میں پرنسپل تعینات کر دیا گیا اور پروفیسر رضوی صاحب واپس گورنمنٹ کالج میانوالی چلے گئے –
1975 میں جب ہم لوگ عیسی خیل کالج میں وارد ہوئے ، اس وقت ایس ایم اے فیروز ہی پرنسپل تھے – 1976 میں وہ ٹرانسفر ہو گئے تو ان کی جگہ پروفیسر محمد رمضان شاہ آئے – وہ چند ماہ بعد ریٹائر ہوگئے اور ان کی جگہ ڈاکٹر عبدالمجید قریشی پرنسپل متعین ہوئے – ڈاکٹر صاحب ایران کی تہران یونیورسٹی سے فارسی ادب میں ڈاکٹریٹ ( پی ایچ ڈی ) کر کے آئے تھے – نہایت شائستہ ، خوش اخلاق ، مہمان نواز اور دوست دار شخصیت تھے – ان کے بارے میں ایک آدھ سال پہلے بہت کچھ لکھ چُکا ہوں –
23 دسمبر 1976 کو ڈاکٹر صاحب گورنمنٹ کالج شاہ پور ٹرانسفر ہوئے – دسمبر کی چھٹیوں کی وجہ سے ہمارے بقیہ ساتھی اپنے اپنے گھروں کو جا چُکے تھے – موقع پر صرف میں ہی عیسی خیل میں موجود تھا – ڈاکٹر صاحب نے مجھے بطور پرنسپل چارج لینے کا کہا تو میں نے کہا “سر ، اصولا تو چوہدری رمضان صاحب کو پرنسپل بننا چاہیے کہ وہ ہم سب میں سینیئر ہیں “ –
ڈاکٹر صاحب نے ہنس کر کہا “ بھائی صاحب ، میں اس وقت چوہدری رمضان صاحب کو کہاں سے لاؤں – اس وقت تو میرے لیے سب کچھ آپ ہی ہیں “-
ڈاکٹر صاحب کے حکم کی تعمیل میں میں نے پرنسپل بننا قبول کرلیا ، تاہم چارج رپورٹ میں یہ وضآحت کردی کہ چھٹیوں کے بعد کالج سٹاف کے سب سے سینیئر ممبر چوہدری رمضان صاحب پرنسپل کے منصب پر فائز ہوں گے –
چارج رپورٹ کی کاپیاں ڈائریکٹر سرگودہا ڈویژن اور سیکریٹری ایجوکیشن کو بھجوا دی گئیں –
جس طرح ہمارے ہاں دفتروں میں مکھی پر مکھی ماری جاتی ہے ، ڈائریکٹر صاحب اور سیکریٹری صاحب نے پوری چارج رپورٹ پڑھنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی – رپورٹ کی پہلی سطر میں میرا نام دیکھ کر مجھے ہی پرنسپل نامزد کردیا – میں نے تو چھٹیوں کے بعد چارج چوہدری رمضان صاحب کے حوالے کر دیا ، مگر تین دن بعد گورنر صاحب کا حکم نامہ موصول ہوا ، جس میں لکھا تھا کہ
The Honourable Governor, Punjab, is pleased to appoint Mr Munawar Ali Malik as Acting Principal of Government College, Isakhel.
یوں مجھے دوبارہ پرنسپل کا منصب سنبھالنا پڑا – یہ ایک قسم کی لاٹری ہی تھی جو میرے نام کی نکل آئی – میں گورنمنٹ کالج عیسی خیل کا پانچواں پرنسپل تھا –——————— رہے نام اللہ کا —-–بشکریہ-منورعلی ملک-30 اگست2021
میرا میانوالی–
کئی سال سے نماز فجر کے بعد میرے موبائیل فون پر سب سے پہلا میسیج جناب ایچ کے نیازی کا ہوتا ہے – یہ میسیج قرآنِ حکیم ، حدیث طیبہ یا کسی بزرگ کا فکر انگیز ، حیات آموز پیغام ہوتا ہے ، جو آسان اور کامیاب زندگی گذارنے کا سلیقہ اور طریقہ بتاتا ہے – اللہ کریم ایچ کے نیازی کو بے حساب جزائے خیر عطا فرمائے ان کا حُسنِ انتخاب اور اندازِپیشکش لاجواب ہے – بات سیدھی دل میں اُتر جاتی ہے ۔ اور اس پر عمل کرنا آسان ہوجاتا ہے – کئی سال سے وہ یہ بے لوث خدمت سرانجام دے رہے ہیں –
نہ ستائش کی تمنا ، نہ صِلے کی پرواہ
اس خدمت کو صدقہ ء جاریہ کہنا غلط نہ ہوگا – ان کے دعوتِ خیرو فلاح پر مبنی پیغامات روزانہ میرے علاوہ یقینا کئی اور دوستوں کو بھی موصول ہوتے ہوں گے اور ان پر عمل کر کے کئی لوگوں کی زندگی سنورتی ہوگی – بعض اوقات شدید پریشانی میں مبتلا لوگوں کے لیئے ایچ کے نیازی کا پیغام صبح سویرے بارانِ رحمت کا پہلا قطرہ ثابت ہوتا ہوگا – یہ بہت بڑی خدمت ہے جس کی آج کے دور میں بہت زیادہ ضرورت ہے –
جناب ایچ کے نیازی پولیس کے ریٹائرڈ اے ایس آئی ہیں – معروف دانشور اور کالم نگار بھی ہیں – ان کا آبائی شہر کرک ضلع کوہاٹ ہے -1946 میں ان کے والد محترم کرک سے ہجرت کرکے میانوالی میں آباد ہوئے – ایچ کے نیازی آج کل چک شہزاد (اسلام آباد) میں مقیم ہیں – ان کی محبت اور نوازش ہے کہ اتنی دُور سے مجھے ملنے کے لیئے تشریف لائے – فیض صاحب کا شعر یاد آرہا ہے
بڑا ہے درد کا رشتہ ، یہ دِل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگُسار چلے
کل کی مختصر سی ملاقات کا اثر دیر تک رہے گا – ایسے اہلِ دل لوگ آج کل بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں – ربِ کریم ایچ کے نیازی کا حافظ وناصر ہو-——————– رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-31 اگست 2021