منورعلی ملک کی مئی  2017 کی فیس بک پرپوسٹ

میرا میانوالی

کل کی پوسٹ پر کمنٹس سے معلوم ھؤا کہ بحمداللہ اس دور میں بھی بہت سے لوگ خون کے عطیات کا ایک نظام بناکر ضرورت مند لوگوں کی بے لوث خدمت کر رھے ھیں-

پپلاں میں طارق اکبرصاحب سانجھ نامی تنظیم کے ذریعے یہ خدمت سرانجام دے رھے ھیں- اس کار خیر کے لیے پورے علاقے کے لوگ ان کے ممنون ھیں-

میرے داؤدخیل سے زین العابدین صاحب نے بتایا ھے کہ وھاں بھی داؤدخیل بلڈ سوسائیٹی اسی کارخیر میں سرگرم عمل ھے-

نمل کالج سے سید اختر بخارئ بتاتے ھیں کہ وھاں 300 سٹوڈنٹس اور 100 افراد پر مشتمل سٹاف کے بلڈ گروپس کا مکمل ریکارڈ موجود ھے- نزدیک ترین ھسپتال (تسنیم ھسپتال بن حافظ جی) کے علاوہ نمل بلڈ گروپ ڈسٹرکٹ ھیڈکوارٹر ھسپتال میانوالی کے مریضوں کو بھی خون فراھم کرتا رھتا ھے-

میانوالی کے محلہ خانکی خیل میں عزیزالرحمن خان تھیلسیمیا کے مریض بچوں کو خوں کی فراھمی کا کام رضاکارانہ طور پر سرانجام دے رھے ھیں-

انجینیئر رمضان شاھین صاحب بتا تے ھیں کہ میانوالی میں علی زیب فاؤنڈیشن نے بلڈ بنک کی شاخ قائم کی تھی، اور ھم بہت سے دوست اس کے ممبر تھے- مگر کچھ عرصہ بعد وہ شاخ ختم ھو گئی- رمضان شاھین صاحب کہتے ھیں کہ اگر آج بھی میانوالی میں کوئی ایسی تنظیم بنے تو ھم 20 دوست اس کے ممبر بننے کے لیے تیار ھیں-

ایک دفعہ گورنمنٹ کالج میانوالی میں فیصل آباد کے میڈیکل کالج سے بھکر اینڈ میانوالی سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن BAMSA کی ایک ٹیم آئی تھی، ان نوجوان ڈاکٹروں نے سٹوڈنٹس اور ٹیچرز کے بلڈ گروب چیک کر کے سب کو اپنے اپنے خون کا گروُپ بتادیا تھا- یہ کام سٹوڈنٹس یونین کے صدر فضل الرحمن خان کے تعاون سے ھؤا تھا- ان ڈاکٹرز کی بنائی ھوئی لسٹ کی ایک کاپی فضل الرحمن خان کے پاس بھی تھی- اس لسٹ کے ذریعے فضل الرحمن خان ضرورت مند لوگوں کو خون کے عطیات دلوایا کرتے تھے-

اللہ ان تمام مخیر دوستوں کی خدمات قبول فرما کر انہیں بے حساب اجرخیر عطا فرمائے- اب آپ بتائیں، کیا آپ اس کارخیر میں حصہ لے سکتے ھیں ؟ اپنے اپنے علاقے میں آپ بھی ایسی تنظیمیں بناکر لوگوں کی دعائیں سمیٹ سکتے ھیں- —— منورعلی ملک-1 مئی 2017

میرا میانوالی —–

ٹیوشن پڑھانا نہ میرا شوق تھا نہ مجبوری- البتہ جو بچے میرے دروازے پر اجاتے تھے ، انہیں میں انکار نہیں کر سکتا تھا- میں بے کبھی فیس مقرر نہیں کی ، نہ ھی مانگی- جو بچہ جتنی فیس دے دیتا، میں لے لیتا ، جو نہ دیتا، اسے مجبور سمجھ کر میں اس سے فیس نہیں مانگتا تھا- بعض استاد قسم کے بچے میرے نام پر ھر ماہ گھر سے پیسے لے کر انہیں جیب خرچ کے طور پہ اپنی مرضی سے خرچ کردیا کرتے تھے- مجھے ان کی اس استادی کا علم بہت دیر بعد ھؤا- پھر بھی مجھے فیس مانگنا نہ آیا-

ایک دفعہ بی اے کی ایک بچی میرے پاس پڑھنے کے لیے آئی- پہلے ھی دن اس نے تین سو روپے دے دیے ، میں نے لے لیے- اگلے ماہ کی پہلی تاریخ کو اس نے کہا سر، میں فیس پندرہ تاریخ کو دوں گی، کیونکہ مجھے ابھی تنخواہ نہیں ملی- میں نے کہا بیٹا، آپ ملازمت کرتے ھیں ؟ اس نے کہا جی ھاں، ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی ھوں- میں نے پوچھا کتنی تنخواہ ملتی ھے ؟ اس نے کہا ، سر، تین سو-

میں یہ سن کر کانپ اٹھا- ایک بچی محض میری فیس کے لیے پورا مہینہ پانچ گھنٹے روزانہ ملازمت کرتی ھے- ؟؟؟

میں نے اسے پچھلے مہینے کی فیس کے تین سو روپے واپس دیتے ھوئے کہا بیٹا، اب میری فیس کے لیے آپ کو ملازمت کرنے کی ضرورت نہیں-میں آپ کو مفت پڑھا ؤں گا-

دوستو، یہ قصہ سن کر میری تعریف کرنے کی بجائے اس غریب بچی کو سلام کیجیے، جو اپنی تعلیم کے لیے اتنی بڑی قربانی دیتی رھی تھی—– اور پھر اپنے ارد گرد نظر ڈال کر دیکھ لیجیے کہ کیا کوئی بچہ یا بچی صرف غریبی کی وجہ سے تعلیم چھوڑنے پر مجبور تو نہیں- ——- منورعلی ملک-2 مئی 2017

میرا میانوالی ———

میں فرسٹ ائیر کی کلاس سے نکل رھا تھا کہ ایک بچے نےایک لپٹا ھؤا کاغذ مجھے تھما دیا – کلاس روم سے باھر نکل کر میں نے وہ کاغذ کھول کر دیکھا- اس پہ لکھا تھا :

سر، میرے ابو معذور ھیں- بہن بھائیوں میں سب سے بڑا میں ھوں- اس لیے اپنی فیملی کے لیے روزی کمانا بھی میری ذمہ داری ھے- میں کالج ٹائیم کے بعد ایک دکان سے مال لیتا ھوں اور شام تک گلی گلی پھر کر بیچتا ھوں- سر، میں چاھتا ھوں کہ تعلیم مکمل کرکے کوئی مستقل ملازمت حاصل کر لوں ، تاکہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی بہتر خدمت کر سکوں- سر، میں محنت سے نہیں گھبراتا- تعلیم پر جتنی بھی محنت کرنی پڑے کر لوں گا- مگر انگلش میری راہ میں حائل ھے- مجھے بالکل نہیں آتی- پلیز آپ مجھے تھوڑا سا وقت دے دیں تو میری زندگی سنور سکتی ھے-

کوئی بھی ٹیچربچے کی اس دردناک اپیل کو رد نہ کر سکتا- میں نے بچے کو ٹایئم بتا دیا- وہ واقعی انگلش میں بہت کمزور تھا- مگر اس نے اپنی کمی پوری کرنے کے لیے خوب محنت کی- وہ چار سال تک میرے پاس پڑھتا رھا- بی اے کے بعد اس نے بی ایڈکیا، پھر ایم اے- اب وہ اللہ کے فضل سے ایک بڑے تعلیمی ادارے میں ٹیچر ھے- اس بچے کی کامیابی میں کمال اس کے احساس کاھے٠سٹوڈنٹ کو احساس نہ ھو تو ٹیچر کیا کر سکتا ھے– منورعلی ملک-3 مئی 2017

میرا میانوالی ———-

آج کی پوسٹ پڑھ کر بہت سے دوست حیران ھوں گے- شاید کچھ لوگ پریشان بھی ھوں- بہر حال آپ کو بتانا یہ ھے کہ بعض اوقات ایک ٹیچر کو اپنے بارے میں سخت فیصلے بھی کرنے پڑتے ھیں-

میرے پاس انٹرمیڈیئیٹ (ایف اے) کی بچیوں کا ایک گروپ انگلش پڑھنے کے لیے آتا تھا- ایک دن ایک بچی نے مجھے ایک بند لفافہ دیا – میں نے جیب میں ڈال لیا – جب بچیاں چلی گئیں تو میں نے وہ لفافہ کھولا – بچی کا میرے نام خط تھا- اس نے لکھا تھا-

“ سر، میں فلاں سبجیکٹ کی ٹیوشن پڑھنے کے لیے فلاں صاحب کے پاس جاتی ھوں – کل جب میں نے انہیں بتایا کہ میں سر منورعلی ملک سے انگلش پڑھتی ھوں تو انہوں نے کہا ، مت جایا کرو اس کے پاس- وہ تو عطاءاللہ کے لیے گیت لکھتا ھے- عطاءاللہ کا قریبی دوست ھے- شاید نشہ بھی کرتا ھو-

سر’ مجھ سے یہ باتیں برداشت نہ ھوسکیں- میں نے ان سر سے کہا ، سر، پلیز، میں اپنے بابا کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتی—- یہ لیجیے اپنی فیس- نہیں آؤں گی آئندہ آپ کے پاس پڑھنے کے لیے-

خط کا آخری جملہ پڑھ کر میں رو پڑا- بچی نے لکھا تھا :

بابا، کیا آپ ایک بیٹی کا مان رکھنے کے لیے گیت لکھنا چھوڑ نہیں سکتے ؟

اس بیٹی کا مان رکھنے کے لیے میں نے گیت لکھنا چھوڑ دیا– دس سال سے میرا کوئی گیت منظرعام پر نہیں آیا ——– منورعلی ملک-5 مئی 2017

میرامیانوالی —–

کل کی پوسٹ پر ردعمل میری توقع کے مطابق تھا- کچھ لوگ حیران ھوئے، کچھ پریشان- کچھ لوگ خاصے برھم بھی ھوئے٠ مگر میری نظر میں بچی کا مؤقف زیادہ وزنی تھا- وہ نہیں چاھتی تھی کہ کسی بھی حوالے سے لوگ اس کے بابا کو تنقید کا نشانہ بنائیں-

اس کے خط کے مختصر جواب میں میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ بیٹا ، میں نے آپ کی بات مان لی ھے- انشاءاللہ آپ کا مان سلامت رھے گا، لیکن دوسرے ٹیچر کے ساتھ آپ کا رویہ مجھے اچھا نہیں لگا- ان کی بات اصولی طور پر درست تھی ، اگر چہ میرے کردار کے بارے میں ان کا اندازہ درست نہ تھا-

جو دوست پریشان یا ناراض ھوئے ان سے معذرت کے ساتھ یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ھوں کہ میرے گیت نگاری ترک کرنے سے کوئی خاص فرق تو نہیں پڑا، مجھ سے اچھا لکھنے والے کئی اور لوگ اس فیلڈ میں موجود ھیں- لالا سے میرا تعلق گلو کار اور گیت نگار والا نہیں- ھم دوست سے زیادہ بھائی ھیں- میں گیت نہ بھی لکھوں ، تو لالا مجھے منور بھائی ھی کہتا رھے گا-

ایک بات یہ بھی دیکھیں کہ میں نے گیت لکھنا تو چھوڑ دیا ، مگر قلم تو نہیں توڑ دیا- نعت اور غزل اب بھی کبھی کبھی لکھتا رھتا ھوں – اردو انگلش دونوں زبانوں میں posts روزانہ لکھتا ھوں- بحمداللہ تعالی دونوں زبانوں میں میری نثر بھی شاعری سے کم مؤثر نہیں- ھے نا یہی بات ؟ – منورعلی ملک –6 مئی 2017

میرا میانوالی ———-

ایم اے انگلش کے سٹوڈنٹس کے اصرار پر پشاور کا مطالعاتی دورہ (Study Tour) خاصا دلچسپ تجربہ تھا- اس دورے میں دس سٹوڈنٹس کے علاوہ ھم پروفیسر حضرات ( پروفیسر سرورنیازی ، پروفیسر ناصراقبال، پروفیسر عبدالغفارخٹک، پروفیسر عارف نیازی ، پروفیسر عبدالرشید اور میں) بھی شریک ھوئے-

ھم میانوالی سے صبح تقریبا پانچ بجے روانہ ھوئے- کالاباغ سے شکردرہ اور کوھاٹ ھوتے ھوئے دوپہر کے قریب پشاور پہنچے- وھاں پہنچتے ھی سب لوگ پہلے تو شاپنگ میں مشغول ھو گئے- اب یاد نہیں ھم لوگوں نے کیا کیا کچھ خریدا– زیادہ تر تو گھر والوں کی فرمائشی چیزیں تھیں کہ آخر گھر واپس بھی تو جانا تھا — اس مصروفیت سے تقریبا چار بجے فارغ ھوئے تو دوپہر کا کھانا یاد آیا- کھانے کی ورائٹی اور کوالٹی کے لیے نمک منڈی کا نام ھم سب بہت عرصہ سے سنتے آ رھے تھے- نمک منڈی میں کھانے کے بے شمار ھوٹل ھیں- ادھر ادھر سے گذرتے لوگوں سےبہترین ھوٹل کا پتہ پوچھا تو سب نے کہا “چرسی ھوٹل“- Image may contain: one or more people نام بڑاعجیب وغریب تھا- لیکن ھوٹل واقعی خاصا معیاری تھا- لوگوں کی تعداد ، کھانے کی خوشبو، ھوٹل کی آرائش، سب کچھ بہت حوصلہ افزا تھا- ھمیں ایک الگ کمرے میں بٹھایا گیا- فرش پر خوبصورت ایرانی قالین بچھا تھا- اسی قالین پر دسترخوان بچھا کر کھانا کھلایا جاتاتھا-Image may contain: 1 person, indoor ھم سب لوگ تو اس بندوبست سے بہت مطمئن تھے، مگر ھوٹل کا نام ناصر صاحب کو پسند نہ آسکا- وہ خٹک صاحب کو ساتھ لے کر باھر نکلے اور ایک ماڈرن سا ھوٹل دیکھ کر ھمیں چرسی ھوٹل سے اٹھا کر وھاں لے گئے- چرسی ھوٹل والے شریف لوگ تھے- انہوں نے ھمارے اٹھ جانے پر احتجاج تو کیا لیکن پرامن احتجاج تھا- —کچھ باتیں انشائاللہ کل — منورعلی ملک-7 مئی 2017

فیس بک سے دوستی ——

Image may contain: 1 person, tree, outdoor and closeupوقار احمد ملک میرے دیرینہ فیس بک فرینڈ بھی ھیں ، سٹوڈنٹ بھی – ایسے سٹوڈنٹ کہ میں جس وقت بھی کہوں فلاں جگہ جانا ھے، اپنے سارے کام چھوڑ کر میرے ساتھ چل پڑتے ھیں- 1993-95 میں میرے سٹوڈنٹ رھے ، پھر ایم اے اردو کیا، مگر میرٰ ی ھم نشینی کا نشہ باقی رھا، اس لیے بعد میں ایم اے انگلش بھی کر لیا- اس کے بعد ایم فل بھی-

Image may contain: outdoor and textوقاراحمد ملک گورنمنٹ کالج میانوالی میں میرے محترم بھائی حاجی محمد اسلم خان نیازی کے جانشین ھیں- ایم اے اردو کے دوران ھی افسانہ نگاری شروع کردی تھی- ان کے افسانوں کے دومجموعے شائع ھو چکے ھیں- “جنگل میں گاؤں “ ان کے افسانوں کا تازہ مجموعہ ھے- وقار کی افسانہ نگاری پر اپنی مفصل رائے توکچھ عرصہ بعد ایک الگ مضمون میں دوں گا- فی الحال یہ بتانا ضروری سمجھتا ھوں کہ ان کے افسانے معروف ادبی رسائل، تسطیر، ادب دوست، فنون اور اردو ڈائجسٹ میں بھی شائع ھوتے رھتے ھیں- روزنامہ نوائے وقت اور روزنامہ دنیا کی ادبی اشاعتوں میں بھی ان کے افساے شائع ھوتے ھیں- اس سے ان کی ادبی اھمیت کا اندازہ لگا لیں-

وقار انگلش کے مقبول ٹیچر بھی ھیں- اپنی اکیڈیمی کے ذریعے خاصے مشہورومعروف ھیں- میرے ساتھ وقار کا رابطہ فیس بک کے علاوہ موبائیل فون پر بھی رھتا ھے- ان کا اشعار کا انتخاب لاجواب ھوتا ھے- روزانہ اپنی پسند کا کوئی نہ کوئی شعر مجھے بھیجتے رھتے ھیں- ھر شعر لاجواب ھی ھوتا ھے ‘ اس لیے میں ان کے SMS کا منتظر رھتا ھوں-منورعلی ملک-7 مئی 2017

یادیں —— جانے کہاں گئے وہ دن

21 برس کی عمر میں میری ایک پکچر، جب میں داؤدخیل سکول میں انگلش ٹیچر تھا-

Image may contain: 1 person درمیانی صف ۔ دائیں سے بائیں – غلام سرورخان نیازی ڈرائنگ ماسٹر، میں ، سید محمد رضا شاہ بخاری اور ماسٹر ممریز خان صاحب – یہ پکچر سید شکیل رضا صاحب نے عنایت کی ھے-7 مئی 2017

میرا میانوالی ———

چرسی تکہ سے ھماری محرومی پر بہت سے دوستوں نے افسوس کا اظہار کرتے ھوئے بتایا کہ نام سے قطع نظر ، چرسی تکہ واقعی ایک نہایت لذیذ کھانا ھے، جو صرف نمک منڈی کی چرسی تکہ شاپس پر ھی بنتا ھے- انشاءاللہ پشاور جا کر یہ حسرت جلد ھی مٹا لیں گے- ناصر صاحب ھمیں جس ھوٹل پہ لے گئے اس کانام سپگمے ھوٹل تھا- سپگمے خدا جانے کیا ھوتا ھے، بہر حال کھانا ان کا بھی اچھا تھا- کھانا کھا کر ھم نے سرسری سا چکر یونیورسٹی کا لگایا، ایک کیتھڈرل (چرچ سکول) کا معائنہ کیا – سرور نیازی صاحب چرچ اور کلیسا جیسے معاملات کے ماھر خصؤصی ھیں- کیتھڈرل کا دورہ انہی کی فرمائش پر ھؤا- شکردرہ، کوھاٹ کے راستے رات کو واپسی ممکن نہ تھی- اگر چہ امن کا دور تھا، دھشت گردی کا ابھی نام و نشان تک نہ تھا، لیکن پروفیسر خٹک صاحب نے بتایا کہ رات کے وقت یہ ویران علاقہ ڈاکوؤں کی آماجگاہ بن جاتا ھے-Image may contain: 6 people, people standing

(یہ پکچر پشاور جاتے ھوئے درہ آدم خیل کے قریب بنی تھی- پکچر میں دائیں سے بائیں :پروفیسرعارف نیازی، میں، پروفیسرسرور نیازی، پروفیسر ناصراقبال ، ھماری کوچ کا ڈرائیور اور پروفیسر عبدالغفار خٹک صاحب )- سو، واپسی کا سفر حسن ابدال ، فتح جنگ ، تلہ گنگ کے راستے طے کرنے کا فیصلہ ھؤا- تقریبا تین گنا سفر تھا- پشاور سے چلتے چلتے شام تو ھو گئی تھی- جس راستے سے ھم جا رھے تھے، کم ازکم آٹھ گھنٹے کا سفر تھا- یعنی صبح دو تین بجے سے پہلے میانوالی پہنچنا ممکن نہ تھا- میں نے سرور نیازی صاحب سے کہا بھائی صاحب جس وقت ھم واپس پہنچیں گے، اس وقت ھم لوگوں کو گھرکے لوگ توقبول نہیں کریں گے- آپ کے گھر کے ساتھ تو خیر مسجد ھے، آپ وھاں جا کر لیٹ جائیں گے- ھم لوگ کدھر جائیں گے ؟ سرور خان نے قہقہہ لگا کر کہا “ یار مسجد کو بھی بارہ بجے تالا لگ جاتا ھے- بہر حال دیکھتے ھیں، کہیں اور پناہ نہ ملی تو سڑک کے کنارے بیٹھ کر رات گذار لیں گے-

اسی قسم کی دلچسپ باتوں پر قہقہے لگاتے ھم بالآخر رات کے پچھلے پہر بخیریت میانوالی پہنچ گئے – پشاور میں کی ھوئی شاپنگ کی رشوت دے کر ھمیں اپنے اپنے گھروں میں داخل ھونے کی اجازت بھی مل گئی- ——- منورعلی ملک —-8 مئی 2017

میرا میانوالی ——————–

کبھی کبھی یوں بھی ھوتا ھے ————–

جب میں ایم اے کا امتحان دے رھا تھا تو لاھور میں اپنے بھائی مرحوم ملک اعجاز حسین اختر کے ھاں محلہ بلال گنج میں رھتا تھا- داتا دربار کے مغرب میں سڑک کے پار کا علاقہ بلال گنج کہلاتا ھے- ھمارے گھر کے سامنے ایک مسجد تھی , میں نمازیں وھیں ادا کیا کرتا تھا- (امتحان کے دنوں میں انسان اللہ کے زیادہ قریب رھنا چاھتا ھے)-

ایک دن میں نے بھاٹی گیٹ کے علاقے سے کچھ خریدنا تھا- اس لیے مغرب کی نماز داتا صاحب کی مسجد میں ادا کرنے کے ارادے سے گھر سے نکلا- اذان ھو رھی تھی- بھاگ کر جانا پڑا- جب مسجد پہنچا تو نماز شروع ھو چکی تھی- مجھے وضو بھی کرنا تھا— ادھر میں نے وضو مکمل کیا ، ادھر نماز ختم ھوگئی- معمول کے مطابق ، اس وقت بھی تقریبا ایک ھزارلوگ وھاں با جماعت نماز ادا کر رھے تھے-

دکھ سا محسوس ھؤا کہ تمام بھاگ دوڑ کے باوجود نماز با جماعت ادا کرنا نصیب نہ ھؤا-

اچانک پہلی صف میں سے ایک صاحب اٹھے اور مسجد کے خطیب صاحب کو مخاطب کر کے کہا : جناب، نماز میں فلاں جگہ غلطی ھوگئی- نماز دوبارہ ادا کرنی ھوگی- ان کی بات درست مان کر نماز دوبارہ ادا کی گئی، اور میں پہلی رکعت ھی سے نماز با جماعت میں شریک ھو گیا-

یہ سوچ کر آنکھیں بھیگ گئیں کہ اے میرے مالک ، تو کتنا کریم ھے- تجھے ایک گناہ گار کی دل شکنی گوارا نہ ھوئی، اور تو نے ایک ھزار بندوں سے نماز دوبارہ پڑھوادی– !!!کاش عنایات کی یہ برسات ھمیشہ رھتی-! ——- منورعلی ملک-9 مئی 2017

میرا میانوالی ——

دیہات کی مسجدوں کے بعض مستقل نمازی بہت دلچسپ ، زندہ دل بزرگ ھوتے ھیں- داؤدخیل میں ھمارے محلہ مبارک آباد کی جامع مسجد میں بہت سے ایسے بزرگ تھے- امام مسجد حاجی محمد عبداللہ خان شکورخیل ، چاچا عمرحیات خان بہرام خیل، چاچا احمد خان بہرام خیل، عبدالعزیز خاں خانے خیل ، بھائی محمد زمان خان عرب زئی ، بہت سے اور بھی تھے- سب رخصت ھوگئے- اللہ سب کی مغفرت فرمائے اور انہیں اپنی رحمت کے سائے میں رکھے- بہت دلچسپ اور خوشگوار یادیں چھوڑ گئے-

ایک دن عصر کی نماز پڑھاتے ھوئے حاجی صاحب دوسرے سجدے کے بعد بلند آواز میں اللہ اکبر کہنا بھول گئے، اور کھڑے ھو کر اگلی رکعت شروع کردی- ھم لوگ سجدے میں پڑے رھے، ھمیں ان کے اٹھنے کا پتہ ھی نہ چلا- کچھ دیر بعد ایک بزرگ کو شک ھؤا کہ کوئی گڑبڑ ھو گئی ھے – انہوں نے سجدے سے سر اٹھا کر امام صاحب سے کہا “ بھائی صاحب ، ساڈے واسطے کیہہ حکم اے ؟؟؟ پئے رھواں ؟؟؟ “

یہ سن کر تمام لوگ ھنس پڑے ، اور نماز دوبارہ ادا کی گئی-

آہ ! کتنے اچھے لوگ تھے یہ سب کے سب — نمازوں سے پہلے اور بعد میں ان کی باتوں پر قہقہے ھمارے مسجد کلچر کا حصہ تھے- لوگ بہت خوشی سے مسجدوں میں آتے، اور دیر تک وھاں بہٹھ کر ذکر و تلاوت، یا باتیں کرتے رھتے تھے- اب وہ کلچر دوردراز دیہات میں اپنے آخری سانس لے رھا ھے- ——- رھے نام اللہ کا — منورعلی ملک-10 مئی 2017

میرا میانوالی / میرا داؤدخیل —

ایک دفعہ عشاء کی نماز پڑھاتے ھوئے حاجی صاحب نے سورہ الرحمن کی پہلی چند آیات پڑھیں – پڑھنے کے دوران ایک آیت پر ان کی زبان اٹک گئی- میں نے وہ آیت بلند آواز میں پڑھ دی- اگر نماز کا امام قرآن حکیم کی کوئی آیت غلط پڑھ دے ، یا کسی لفظ یا آیت پر رک جائے تو وہ لفظ یا آیت بلند آواز سے پڑھ دینا لقمہ دینا کہلاتا ھے- حاجی صاحب نے وہ آیت دوبارہ پڑھی، دوسری بار پھر اٹکنے لگے تو میں نے وہ آیت پھر پڑھ دی، جب تیسری بار بھی حاجی صاحب رکنے لگے تو ایک نمازی (چاچااحمد خان بہرام خیل ) بول اٹھا- اس نے کہا :

“ یار ، اے ڈرامہ مکاؤ ھا ، میں پانڑیں لاؤنڑں ونجنڑاں اے “

(یہ ڈرامہ اب ختم کریں، میں نے کھیت کو پانی دینے جانا ھے)

چاچا احمد خان کی اس معصوم مداخلت پر سب لوگ ھنس پڑے، اور نماز دوبارہ ادا کرنی پڑی-

ان سادہ و معصوم لوگوں کے ساتھ نمازیں پڑھنے کا ایک اپنا لطف تھا– اب نہ حاجی محمد عبداللہ خان اس دنیا میں موجود ھیں، نہ چاچا احمد خاں – اب تو لوگ سیانے ھو گئے ھیں —— منورعلی ملک-11 مئی 2017

اس گھر سے رحمت کا وہ سورج طلوع ھؤا، جس کی روشنی قیامت تک، اور قیامت کے بعد بھی ھمیشہ رھے گی ——–بیت الرسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم —– مکہ معظمہImage may contain: house, sky and outdoor

پکچر مرسلہ معظم عباس سپرا، مکہ معظمہ-11 مئی 2017

میرا میانوالی / میرا داؤدخیل —–

گذشتہ دو پوسٹس میں حاجی صاحب کا بہت ذکر ھؤا- حاجی صاحب ھمارے محلہ کی مسجد میں کسی معاوضے کے بغیر امامت کے فرائض سرانجام دیتے تھے- ان سے میرے تعلق کا انادازہ اس بات سے کیجیے کہ میں آج بھی روزانہ قرآن حکیم میں سے کچھ تلاوت کرکے اپنے والدین کے ساتھ حاجی صاحب کی روح کو اٰیصال ثواب کرتا ھوں- ان کا ذکر لکھتے ھوئے بھی آنکھیں بھیگنے لگی ھیں-

حاجی محمد عبداللہ خان شکور خیل قبیلے کے بزرگ تھے- وہ سکول کی تعلیم تو حاصل نہ کر سکے، لیکن انہیں قرآن کریم کی بہت سی سورتیں اور آیات زبانی یاد تھیں- نماز کے اھم مسائل پر بھی انہیں مکمل عبور تھا – یہ علم انہوں نے اپنے دوست، محلہ امیرے خیل کی مسجد کے خطیب، مولوی امام دین قریشی سے حاصل کیا تھا-

حاجی صاحب بہت سادہ انسان تھے- ھمیشہ سفید تہمد (چادر) سفید کرتے اور سفید پگڑی میں ملبوس رھتے تھے- شلوار کبھی نہ پہنی- چادر ھی باندھتے تھے- بہت زندہ دل انسان تھے- مجھ سے عمر میں تیس پینتیس سال بڑے تھے- لیکن ھمارا آپس میں تعلق دو بجوں کی دوستی جیسا تھا- ھم ایک دوسرے کو شنا (دوست) کہتے تھے، اور “آپ“ یا “تم“ کی بجائے “تو“ کہہ کر مخاطب کرتے تھے- حاجی صاحب رمضان المبارک میں عصر کی نماز پڑھانے آتے تو اپنے کنوئیں کے کھیت سے میرے لیے چٹنی کا سامان ضرور لایا کرتے تھے- ویسے بھی سبزیاں وغیرہ مجھے گفٹ کیا کرتے تھے– قرآن حکیم کی بہت سی سورتیں اور آیات میں نے نمازوں کے دوران حاجی صاحب سے سن کر یاد کر لی تھیں- آج بھی نمازوں میں پڑھتا ھوں-

ھم دونوں کو آٹھ دس سال کے بچوں کی طرح آپس میں لڑتے جھگڑتے دیکھ کر نمازی بہت ھنسا کرتے تھے- اگر حاجی صاحب کسی نمازی سے ناراض ھو جاتے تو میں لڑجھگڑ کر انہیں راضی کر لیتا تھا- اگر کسی بات پر اڑ جاتے تو میں ھی ان سے مؤقف تبدیل کرا سکتا تھا- بہت مان تھا ھمیں ایک دوسرے پر- اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ انشاءاللہ کل سناؤں گا- ———- منورعلی ملک-12 مئی 2017

عجیب رنگ میں گذری ھے زندگی اپنی دلوں پہ راج کیا پھر بھی پیار کو ترسے

میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ——————-

ایک دفعہ عشاء کی نماز سے کچھ دیر پہلے میں مسجد پہنچا تو لوگوں نے بتا یا کہ حاجی صاحب مغرب کی نماز کے بعد کسی بات پر ناراض ھو کر یہ اعلان کر گئے ھیں کہ آئندہ نمازوں کی امامت نہیں کروں گا-

میں نے کہا آپ لوگ ابھی جا کر انہیں منا لائیں- حاجی صاحب کے بڑے صاحبزادے محمدخان عرف مولوی نے کہا ، وہ آپ کے سوا کسی کی بات نہیں مانتے- آپ ھی جا کر انہیں منا لائیں-

میں حاجی صاحب کے گھر پہنچا- صحن میں چارپائی پر بیٹھے تھے- میں نے کہا :

“ یہ کیا ڈرامہ بازی ھے بھائی صاحب ؟ سنا ھے آپ نے مسجد کی امامت چھوڑ دی ھے “-

“ھاں ، بالکل چھوڑ دی ھے،“ حاجی صا حب نے روکھے لہجے میں کہا “ میں ان لوگوں سے تنگ آگیا ھوں – اب گھر پر ھی نماز پڑھ لیا کروں گا-“

میں نے کہا “ سوال ھی پیدا نہیں ھوتا- تم مسجد بھی آوگے ، اور نمازیں بھی پڑھاؤگے“-

حاجی صاحب نے کہا، “بھائی میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا“-

میں نے کہا “اور میں نے جو کہنا تھا، تم نے سن لیا، اب اٹھو ، چلو میرے ساتھ“

اللہ جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے ھماری اماں جی (حاجی صاحب کی اھلیہ) کو، انہوں نے میری حمایت کا اعلان کرتے ھوئے ھنس کر حاجی صاحب سے کہا “ھمیں تو آپ کہتے رھتے ھیں منور میرا چوتھا بیٹا ھے- اب یہ آھی گیا ھے تو نخرے نہ کریں ، اور چلے جائیں اس کے ساتھ-“

حاجی صاحب ھنس پڑے اور کہا “مجھے پہلے ھی پتہ تھا یہ بے ایمان مجھے لے کر ھی جائے گا- لاؤ ، کھانا لے آؤ، کھانا کھا کر چلتے ھیں -“

کھانا کھا کر ھم بچوں کی طرح ھاتھ میں ھاتھ ڈالے ھہنستے ھنساتے مسجد آگئے- میں نے تکبیر کہی، اور حاجی صاحب نے نماز پڑھا دی-

نماز کے بعد ایک نمازی نے کہا، “ ھماری تو یہ بات ھی نہیں سنتے، آپ انہیں کیسے منا لائے ؟“

میں نے کہا “ یہ کوئی مشکل کام نہیں- ذرا سی بد معاشی دکھانی پڑتی ھے“-

حاجی صاحب نے مسکرا کر کہا “تو تو ھے ڈھیٹ اور بے ایمان- کوئی اور مجھ سے بد معاشی کر کے تو دیکھے” -آہ ، بہت دور جا بسے ھو، بھائی صاحب- وھاں تو ھماری بد معاشی بھی نہیں چلتی-منورعلی ملک-13 مئی 2017

اپنی اپنی ھے زندگی تنہا شہر آباد آدمی تنہا

میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ——

ایک دن حاجی صاحب شدید بخار کی وجہ سے مغرب کی نماز کے لیے مسجد نہ آ سکے- تقریبا پچیس آدمی مسجد میں موجود تھے- نماز کی امامت کا سوال اٹھا تو بھائی رب نواز خان نے کہا میں امامت کر لیتا ھوں – لیکن ایک بزرگ نے کہا آپ کا تعلق تو جماعت اسلامی سے ھے- ھم دیوبندی کے یچھے نماز نہیں پڑھیں گے- میں نے کہا پھر آپ حضرات میں سے کوئی امامت کردے- چاچا عمر حیات خان نے کہا “ھم کوئی عالم دین تو نہیں ھیں- ھم یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتے- ایک صاحب نے کہا ھم سب لوگ الگ الگ نماز پڑھ لیتے ھیں-

مجھے غصہ آگیا- میں نے کہا یہ تواللہ اور رسول اللہ کے حکم کی نافرمانی ھوگی- حکم تو یہ ھے کہ دو مسلمان بھی ھوں تو جماعت کی صورت میں نماز ادا کریں- آپ لوگ اللہ کے حکم کے خلاف الگ الگ نمازپڑھیں گے تو وہ قبول نہیں ھوگی-

وہ لوگ پھربھی خاموش رھے تو میں نے کہا “ اگر چہ عمر میں میں آپ سب سے چھوٹا ھوں- کلین شیو بھی ھوں- لیکن صرف اللہ کے حکم کی تعمیل کے لیے میں نماز کی امامت کرنے لگا ھوں – جو لوگ چاھیں میرے پیچھے کھڑے ھو جائیں– اگر کوئی بھی نہ آیا تو مجھے حکم کی تعمیل کا اجر پھربھی مل جائے گا “-

جس نوجوان نے اذان دی تھی، اس نے اٹھ کر تکبیر پڑھ دی، میں مصلے پرکھڑا ھو گیا- اللہ کے فضل سے دیوبندی، بریلوی ، سب لوگ میرے پیچھے کھڑے ھوگئے، اور میں نے نماز پڑھا دی- رب کریم کے کرم سے یہ اعزاز مجھے کئی بار نصیب ھؤا-

اس پوسٹ کا مقصد اپنی تعریف کرنا نہیں- تعریف تو اس رب کریم کی ھے جس نے مجھ جیسے گناہ گار کو بھی یہ اعزاز عطا کردیا – ورنہ تو ———– میں اس کرم کے کہاں تھا قابل

مقصد آپ کو یہ بتانا ھے کہ جہاں مسئلہ اللہ کے حکم کی تعمیل کا ھو، وھاں اپنی کوالیفیکیشن کو نہ دیکھیں- نماز آتی ھے تو آپ نماز کی امامت کر دیا کریں – منورعلی ملک-14 مئی 2017

میرا میانوالی/ میرا داؤدخیل ———-

جب میں داؤد خیل سکول میں انگلش ٹیچر تھا تو اپنے محلے کی مسجد میں بیٹھ کر انگلش بھی پڑھایا کرتا تھا- یہ سلسلہ یوں شروع ھؤا کہ ایک دن عصر کی نماز کے بعد میری کلاس کا ایک بچہ (مرحوم حبیب اللہ خان نیازی، سابق پرنسپل ھائی سکول سکندرآباد) مجھ سے کہنے لگا ، سر ، اگر آپ اس وقت مجھے انگلش پڑھا سکیں تو میں اپنی کتابیں ساتھ لے آیا کروں ؟ – اس بچے کا تعلیم کا شوق دیکھ کر میں حیران رہ گیا-

بہت لائق بچہ تھا- یتیم بھی تھا- میں نے کہا بٰیٹا ، میرے لیے تو یہ خوشی کی بات ھوگی- آپ کتاب اور کاپی ساتھ لے آیا کریں–

یوں عصر کی نماز کے بعد مسجد میں پڑھانے کا سلسلہ شروع ھؤا- محلے کے دو تین اور بچے بھی اس کلاس میں شامل ھوگئے- اس زمانے میں محتسب قسم کے , فتوے لگانے والے نمازی نہیں ھوتے تھے- مسجد کے امام حاجی صاحب تو ویسے بھی میرے دوست تھے- اللہ کے فضل سے میرے کام پر کسی نے اعتراض نہ کیا- اور میں سکون سے یہ خدمت سرانجام دیتا رھا –

حبیب اللہ خان جب خود ٹیچر بناتو زندگی بھر بچوں کو کسی فیس کے بغیر مفت پڑھاتا رھا— منورعلی ملک-15 مئی 2017

فیس بک سے دوستی ——-

Image may contain: 1 person

میانوالی کے علمی ، ادبی اور قانون دان حلقوں میں محمد اقبال شاہ کو کون نہیں جانتا ؟ مجھے یہ اعزازحاصل ھے کہ میں شاہ صاحب کو اس زمانے سے جانتا ھوں جب انہوں نے ادب کی وادی میں قدم رکھا—— میں فیس بک پہ آیا تو میرے اولیں فرینڈز کے کارواں میں یہ بھی شامل ھوگئے-

بہت دنوں سے ان کے بارے میں لکھنے کا ارادہ یہ سوچ کر ملتوی کرتا رھا کہ، پہلے ان سے ایک ملاقات کروں گا، پھر لکھوں گا- ملاقات کی فرصت نصیب نہ ھوتے دیکھی تو یہ فیصلہ کر لیا کہ ملاقات بعد میں ھوتی رھے گی، پہلے حق دوستی ادا کرلوں- لکھنے ھی لگا تھا کہ اچانک فیس بک پہ اپنی تعریف میں ان کا ایک شعر دیکھا تو سر پکڑ کے بیٹھ گیا- سوچا کہ اب ان کے بارے میں لکھوں تو یہ من ترا ملا بگویم تو مرا حاجی بگو ( ًمیں تمہیں مولوی صاحب کہتا ھوں ، تم مجھے حاجی صاحب کہا کرو) جیسی بات ھو جائے گی- لوگ مذاق اڑائیں گے- اس لیے دو ھفتے مزید صبر کرنا پڑا-Image may contain: plant, tree, flower, outdoor and nature

شاہ صاحب میانوالی کے ایک معروف دینی گھرانے کے چشم و چراغ ھیں- پہلے کچھ عرصہ سرکاری ملازمت کرتے رھے- ایم اے ایل ایل بی کرنے کے بعد وکالت کے شعبے سے منسلک ھو گئے- انکم ٹیکس اور سیلزٹیکس کے کنسلٹنٹ (قانونی مشیر ) بھی ھیں- ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ “بے وضونگاھیں” 2005 میں شائع ھؤا- دوسرا مجموعہ ترتیب کے مراحل میں ھے- شاہ جی کی شاعری کا ایک اپنا مزاج اور ذائقہ ھے- بہت سے شعر ذھن میں ھیں ، فیصلہ نہیں کر پا رھا کون کون سے شعر لکھوں- یہ کام پھر کبھی سہی-

محمد اقبال شاہ صاحب کا ایک اھم ادبی کارنامہ شیکسپیر کے مشہورزمانہ المیہ ڈرامے

Othello “اوتھیلو“ کا منظوم اردو ترجمہ ھے- یہ ترجمہ کتاب کی شکل میں 2015 میں شائع ھؤا- ڈرامانگاری کی تارٰیخ میں سب سے بڑا نام شیکسپیئر ھی کا ھے- اس لیے شاہ صاحب کا یہ ترجمہ بلاشبہ ایک بڑااعزاز ھے-

شاہ صاحب بہت فعال زندگی بسر کرنے کے عادی ھیں- ان کی سرگرمیوں کے بارے میں ایک مفصل پوسٹ انشاءاللہ ان سے ملاقات کے بعد لکھوں گا- ان کی دوستی میرے لیے باعث فخر ھے– منورعلی ملک-15 مئی 2017

 میرامیانوالی ——–

سروس کے دوران 1977 سے 2000 تک تمام انتخابات میں پریزائیڈنگ آفیسر کی حیثیت میں کام کرنے کا تجربہ بھی خاصا دلچسپ رھا- میرے اکثر ساتھی تو اس کام کو مصیبت سمجھتے تھے، مگر مجھے یہ کام خدا جانے کیوں دلچسپ لگتا تھا- شاید اس لیے کہ طرح طرح کے لوگوں سے ملنے، ان کی باتیں سننے، ان کے چھوٹے موٹے تنازعات حل کرنے ، ان کی ایک دوسرے کو دی ھوئی پیار بھری دلچسپ گالیاں سننے کے مواقع ایکشن کے دوران فراوانی سے ملتے تھے- بہت شغل ھوتا تھا-

مجھے یہ کام شاید اس لیے بھی برا نہیں لگتا تھا کہ میں پریزائیڈنگ آفیسر کے طور پہ کبھی ٹینشن (tension) نہیں لیتا تھا- پولنگ سٹیشن پر پہنچتے ھی سب سے پہلے میں اپنے سٹاف کو ان کے معاوضے کی رقم دے دیتا تھا- ان پر کبھی سختی نہیں کرتا تھا- اس لیے وہ بھی مجھ سے بھرپور تعاون کرتے تھے-

منظم دھاندلی صرف 1977 کے انتخابات میں ھوتی دیکھی- میں اس وقت گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں لیکچررتھا- میرا پولنگ سٹیشن کھگلانوالہ تو خاصا پرامن تھا- وہ اس لیے کہ وھاں تمام ووٹر سرکاری امیدوار کے ووٹر تھے- اپوزیشن کے امیدوار کو صرف پانچ سات ووٹ ملے، وہ بھی مشکوک سے تھے- شاید غلطی سے بعض لوگوں نے سرکاری امیدوار کے نشان کی بجائے دوسری چیزوں پر نشان لگا دیئے تھے-

منظم دھاندلی کا بد ترین واقعہ ھمارے دوست کیمسٹری کے لیکچرر اکبر خان نے سنایا- وہ کلوانوالہ کے پولنگ سٹیشن پر مامور تھے- انہوں نے بتایا کہ سرکاری سیاسی جماعت کے ایم پی اے صاحب نے پولنگ سٹیشن پر آکر یہ حکم ارشاد فرمایا کہ اٹھانوے فی صد ووٹ ھرحال میں پول ھونے چاھیئں- ھم نے کہا ووٹر تو ھیں نہیں- انہوں نے فرمایا خود بیلٹ پیپیرز پہ مہریں لگا دیں-

پریزائیڈنگ آفیسر نے کہا سر، اتنی دھاندلی آپ کیسے ھضم کر سکیں گے- ایم پی اے صاحب نے بڑی رعونت سے دھمکی کے انداز میں کہا “ یاد رکھیں ، ھم بندے بھی ھضم کر جاتے ھیں“-

انہی انتخابات میں ایک پولنگ سٹیشن کے پریزائیڈنگ آفیسر کی ٹانگیں بھی توڑ دی گئی تھیں- منورعلی ملک-16 مئی 2017

غیر مشروط پیار سب سے کیا کر گئی ھے یہ سادگی تنہا

میرا میانوالی ————

1984 کا ریفرینڈم بہت دلچسپ مذاق تھا- ملک بھر میں 98.5 فی صد ووٹروں نے سرکار کے حق میں رائے دی- اس ریفرینڈم میں میں بلوخیل کے تحصیل پولنگ ستیشن کا پریزائیڈنگ آفیسر تھا- اوپر سے ھدایات یہ تھیں کہ ووٹرز کی شناخت وغیرہ کے بارے میں زیادہ تکلف نہ کریں- اگر پونگ ایجنٹ یہ کہہ دے کہ یہ فلاں آدمی ھے تو اس کو ووٹ ڈالنے دیں- کوشش یہ کریں کہ کوئی مایوس نہ لوٹ جائے-

چونکہ سرکار کے مقابل کوئی دوسرا امیدوار تھا ھی نہیں، سب ووٹ سرکار کو ھی ملنے تھے، اس لیے امن ھی امن تھا- پولنگ ایجنٹ بھی تمام سرکار ھی کے تھے-

ایک ووٹر آیا تو اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر نے کہا ، میری ذاتی معلومات کے مطابق اس نام کا بندہ تو کب کا مر چکا ھے- ایک پولنگ ایجنٹ حاجی محمد اسلم خان نے ھنس کر کہا : “لالا ‘ ووٹ ڈالنے کے لیے آدھے گھنٹے کی چھٹی لے کر آیا ھے- ووٹ ڈال کر قبرستان واپس چلا جائے گا- پرچی دے دو بچارے کو“ —

اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر نے قہقہہ لگا کر اس شخص کو بیلٹ پیپر دے دیا—— دن بھر یونہی ھنسی مذاق چلتا رھا –

ریفرینڈم پانچ بجے ختم ھونا تھا- چار بجے ایک مقامی سیاسی لیڈر نے آکر کہا اوپر سے حکم آگیا ھے کہ پولنگ رات آٹھ بجے تک جاری رکھی جائے-

میرے سر میں درد ھو رھا تھا- شام سے پہلے کام اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر کے سپرد کر کے میں گھر واپس آگیا– منورعلی ملک-17 مئی 2017

دیکھ ، کتنا سنبھل گیا ھوں میں تجھ کو کھو کر بھی جی رھا ھوں میں

میرا میانوالی ——–

مجھے میانوالی کے آٹھ دس پولنگ سٹیشنز پہ بطور پریزائیڈنگ آفیسر کام کرنے کا موقع ملا- عمومی طور پر میانوالی کا الیکشن کلچر خاصا مہذب ھے- پولنگ ستیشن کے اندر لڑائی جھگڑا کبھی نہیں ھؤا- پولنگ ایجنٹس کی معمولی گرمی سردی ھو بھی تو نوبت گالی گلوچ اور مارکٹائی تک نہیں پہنچتی- ایک دفعہ ایک پولنگ ایجنٹ نے بڑی خوبصورت بات کہی- اس نے کہا ھمیں پتہ ھے کہ ھمارا امیدوار بھی جیت گیا تو ھمیں کچھ نہیں ملے گا ، ھم غریب ھی رھیں گے- پھر ھم کیوں ان لوگوں کی خاطر ایک دوسرے کے سر پھاڑیں-

پولنگ سٹیشن پر ڈسپلن کا مسئلہ کبھی پیدا نہیں ھؤا- لوگ آرام سے قطاروں میں کھڑے ھو کر اپنی باری پر ووٹ ڈالتے تھے- پولنگ سٹاف سے تلخ کلامی کا کوئی واقعہ میری نظر سے نہیں گذرا-

ایک دفعہ بلدیاتی انتخابات کے دوران میں گورنمنٹ گرلز ھائی سکول بلوخیل میں پریزائیڈنگ افسر تھا- اس پولنگ سٹیشن کے ووٹرز میں یارو خیل کی کچھ آبادی کے ووٹرز بھی شامل تھے- سابق چیئرمین بلدیہ، امیر عبداللہ خان اور ان کے مخالف امیدوار نے ھم سے بھرپور تعاون کیا-

جنرل (ر) محمد اسلم قریشی ووٹ دینے کے لیے آئے تو میں اس وقت کاغذی کارروائیوں میں مصروف تھا- مجھے ان کے آنے جانے کا علم بعد میں ھؤا- جنرل صاحب نے متعلقہ اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر سے کہا ، بیٹا ، میں فوجی آدمی ھوں ، ساری زندگی جس ڈسپلن میں گذاری ھے، اس کی خلاف ورزی اب بھی نہیں کروں گا- میرا شناختی کارڈ اسلام باد میں رہ گیا ھے- اگر آپ کا قنون شناختی کارڈ کے بغیر ووٹ ڈالنے کی اجازت دیتا ھے تو میں ووٹ ڈالوں گا ، ورنہ نہیں – اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر نے کہا ، سر قانون تواجازت نہیں دیتا—

سب پولنگ ایجنٹس نے کہا سر ھم آپ کو جانتے ھیں، آپ ووٹ دے دیں ، ھم اعتراض نہیں کریں گے-

جنرل صاحب نے مسکرا کر کہا “ آپ لوگوں کا بہت شکریہ، مگر میں قانون کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا“- — یہ کہہ کر سلام کر کے واپس چلے گئے- منورعلی ملک – 18 مئی 2017

عقل کو مجھ سے یہ شکایت ھے دل کی ھر بات مانتا ھوں میں

میرامیانوالی ————-

میں گورنمنٹ ھائی سکول سول سٹیشن (نہرکالونی) میانوالی میں پریزائیڈنگ آفیسر تھا- ایک آدمی شاناختی کارڈ کی فوٹو کاپی لے کر آیا- میں نے کہا اصل شناختی کارڈ کے بغیر ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں مل سکتی- کچھ دیر بعد کسی امیدوار کا ایک کھڑپینچ قسم کا چمچہ اس آدمی کے ساتھ آیا ، اور اس نے مجھ سے کہا “صاحب ، یہ شخص ووٹ نہیں ڈال سکتا ؟؟ ؟ “

میں نے کہا نہیں-

وہ کہنے لگا “ اگر ھم ایسے ھی کچھ بندے پکڑ کر آپ کو دکھا دیں، جنہیں آپ نے اصل شناختی کارڈ کے بغیر ووٹ ڈالنے کی اجازت دی ھے “

اس کی یہ بات میرے لیے گالی تھی، مجھے غصہ آگیا۔ میں نے کہا “ تم میری غیرجانبداری پر شک کرتے ھو؟ جاؤ، صدرمملکت غلام اسحاق خان کی سفارش بھی لے آؤ تو یہ ووٹ اس پولنگ سٹیشن سے کاسٹ نہیں ھوگا-“

بندہ بڑا تیز تھا– پولنگ سٹیشن کے باھر جا کر گیٹ پر کھڑا ھو گیا— علاقہ مجسٹریٹ ، مہر محمود اختر پولنگ سٹیشن کا معائنہ کرنے کے لیے آئے تو یہ بھی ان کے ساتھ اندر آگیا اور کہنے لگا “سر، پریزائیڈنگ آفیسر دھاندلی کر رھا ھے- ھمار ے مخالف ووٹروں کو شناختی کارڈ کے بغیر ووٹ ڈالنے کی اجازت ھے، ھمیں نہیں-“

مہرمحمود اختر میرے بہت اچھے دوست تھے ، انہوں نے اس آدمی سے کہا -“ ان پریزائیڈنگ آفیسر صاحب کو میں ذاتی طور پہ جانتا ھوں- یہ ایسا غلط کام کبھی نہیں کرتے— بھاگ جاؤ یہاں سے، ورنہ ابھی ھتھکڑی لگوادوں گا تمہیں -“

یہ سن کر وہ شخص ایسا غائب ھؤا کہ پھر کہیں نظر نہ آیا — منورعلی ملک-19 مئی 2017

اپنے ماضی کی خاک سے بنتا اک نیا دور دیکھتا ھوں میں

میرا میانوالی ———–

سنگوخیلانوالہ پولنگ سٹیشن پہ بطور پریزائیڈنگ آفیسر کام کرنا بھی خاصا دلچسپ تجربہ تھا- سنگوخیلانوالہ کا جتنا نام مشکل ھے ، اتنا ھی وھاں پہنچنا بھی مشکل ھے- یہ چھوٹا سا گاؤں چھدروسےمشرق میں پہاڑ کے دامن میں واقع ھے- اگرچہ اس علاقے میں آنے کا یہ پہلا موقع تھا، پھر بھی چھدرو میرے لیے کوئی اجنبی علاقہ نہ تھا- میرے بہت سےقریبی دوست اس علاقے سے تعلق رکھتے تھے- میرے سب سے دیرینہ مراسم تو بدری خیل قبیلے کے ھیڈماسٹر سیف اللہ خان، اور ان کے بھائی امان اللہ خان سے تھے، ان کے علاوہ لالامحمد شیر خان اور حاجی سمند خان بھی اپنے جگر تھے- مرحوم ماھرتعلیم اسلم نیازی بھی میرے بہت پیارے دوست تھے-

الیکشن سے ایک دن پہلے سنگوخیلانوالہ پہنچ کر ھم نے انتظامات کو آخری شکل دی- پروفیسر سرور نیازی صاحب بھی اس علاقے کے ایک پولنگ سٹیشن پر متعین تھے- ھم دونوں نے بدری خیل دوستوں کے ھاں قیام کیا- وھاں سیف اللہ خان کے والد محترم کی زیارت کا اعزاز بھی نصیب ھؤا- موصوٍ ف ھمارے بزرگوں کے ٹیچر رہ چکے تھے- بہت شفیق شخصیت تھے- بہت اچھا وقت گذرا ان لوگوں کے ھاں-

صبح سویرے سیف اللہ خان نے موٹر سائیکل پر مجھے پولنگ سٹیشن پہنچا دیا- گاڑی سے تو ادھر جانے کا راستہ ھی نہیں تھا- پیچ درپیچ پگڈنڈیوں پر سائیکل یا موٹر سائیکل ھی چل سکتی تھی-

الیکشن کا کام بہت آسان تھا – چھوٹی سی آبادی تھی- دوپہر تک کام تما م ھو گیا- ووٹوں کی گنتی البتہ قانون کے مطابق پانچ بجے کے بعد کی گئی-

ایکشن کے دوران ایک بزرگ ووٹ دینے کے لیے آئے- پولنگ سٹیشن کے گیٹ پر لگا ھؤا امیدواروں کے ناموں اور شناختی نشا نات کا چارٹ دیکھ کر انہوں نے ھاتھ اٹھائے اور بآواز بلند کہا “ یا اللہ ، انہاں ساراں نوں کامیاب کر، شودھاں بہوں محنت کیتی اے “-

سادگی کی ایسی پیاری مثالیں اب کہاں –؟ رھے نام اللہ کا –منورعلی ملک- 20 مئی 2017

دوستوں کو مری ضرورت تھی اس لیے شہر میں رکا ھوں میں

سچی اور کھری سادگی کی ایک اور مثال کمرمشانی کے قریبی گاؤں دلہ میروالا میں دیکھی- میں وھاں بلدیاتی الیکشن میں پریزائیڈنگ آفیسر تھا- کچھ لوگ ووٹ ڈلوانے کے لیے ایک بزرگ کو چارپائی پر اٹھا کر لائے- 80 سال سے زائد عمر کے یہ بزرگ (خان چاچا) چلنے پھرنے سے معذور تھے- اس وقت قانون یہ تھا کہ پریزائیڈنگ آفیسر نابینا یا معذور آدمی کو بیلٹ پیپر پر مہر لگانے کے لیے مخصوص کمرے میں لے جاکراس کی پسند کے امیدوار کے شناختی نشان پر مہر لگا دے-

میں خان چاچا کو سہارا دے کر اندر لے گیا ، اور پوچھا کہ کس امیدوار کو ووٹ دینا ھے- خان چاچا نے کہا “ کسی (گالی ) کے نام پہ مہر لگا دو- میں مردا پیا ھاں تے اے ماء دے وونٹ چائی ودے ھن-“

خان چاچا چونکہ کسی مخصوص امیدوار کو ووٹ نہیں دینا چاھتے تھے، اس لیے میں نے تمام امیدواروں کے نشانات پر مہر لگا کر پرچی بیلٹ بکس میں ڈال دی- اور خان چاچا امیدواروں کو گالیاں دیتے ھوئے رخصت ھوگئے -21 مئی 2017

جانے والے تو اب نہ آئیں گے آنے والوں سے مل رھا ھوں میں

سادگی کی بات ھو رھی تھی- جس شخصیت کا ذکر میں آج کرنے لگا ھوں ، کم ازکم میں نے اتنا سادہ و معصوم انسان کبھی نہیں دیکھا- آپ کے لیے شاید آج کی داستان محض ایک افسانہ ھو، مگر میں نے ماسٹر صاحب خان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ھے- نہایت بھولے بھالے انسان تھے-

بنی افغاناں کے علاقے کا نوجوان صاحب خان دوسری جنگ عظیم میں برطانوی فوج کے سپاھی کی حیثیت میں خدمات سرانجام دینے کے بعد رٰیٹائر ھو کر آیا- پنشن اتنی کم تھی کہ گذارہ مشکل ھوگیا- اس اثنا میں پاکستان وجود میں آچکا تھا- صاحب خان نے ملازمت کے لیے بہت کوشش کی مگر کام کہیں نہ بن سکا، تو اس اللہ کے بندے نے برطانیہ کے شہنشاہ جارج ششم (ملکہ الزبتھ کے والد) کے نام ایک خط داغ دیا- خط میں صاحب خان نے لکھا کہ میں آپ کی فوج کا سابق سپاھی ھوں، پنشن میں میرا گذارا نہیں ھوتا- مجھے ملازمت دلوادیں-

خدا کی شان دیکھیے کہ وہ خط بالآخر شہنشاہ کی ٹیبل پہ پہنچ ھی گیا- کسی سیکرٹری نے اس کا انگلش میں ترجمہ کر کے شاہ کو سنایا تو شہنشاہ نے اپنی سفارش کے ساتھ وہ خط قائداعظم صاحب کو بھجوا دیا- قائد اعظم نے گورنر پنجاب کو حکم دیا کہ اس آدمی کو مناسب ملازمت دی جائے-

صاحب خان صرف پرائمری پاس تھا- گورنر صآحب نے قانون میں کچھ لچک پیدا کر کے صاحب خان کو بنی افغاناں کے علاقے کے ایک پرائمری سکول میں ٹیچر لگوا دیا-

صاحب خان کا کچھ مزید ذکر کل بھی ھوگا- انشاءاللہ –22 مئی 2017

مجھ کو منزل تو مل گئی لیکن اب کہاں جاؤں سوچتا ھوں میں

ماسٹر صاحب خان سے میری ملاقات گورنمنٹ ھائی سکول کالاباغ میں ھوئی – صاحب خان وھاں مڈل کا امتحان دے رھا تھا- میں سکول کے ھیڈماسٹر، مرحوم کرم اللہ پراچہ کے پاس آفس میں بیٹھا تھا ، تو صاحب خان پیپر دینے کے بعد ایک ٹیچر سے ملنے کے لیے وھاں آیا- اس کا ذکر تو میں پہلے ھی سن چکا تھا- ملاقت اب ھوئی- مجھ سے صاحب خان کا تعارف ھؤا – میں نے پوچھا پیپرز کیسے ھورھے ھیں-

صاحب خان نے کہا “اچھا ھو رھا ھے“-

میں نے کہا “آپ تو ٹیچر ھیں- آپ کیوں امتحان دے رھے ھیں ؟ “

صاحب خان نے کہا “ یارا ، وہ تعلیم والا (ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ) کہتا ھے مڈل پاس کرو ، نہیں تو نوکری سے فارغ کردے گا“-

صاحب خان چلا گیا تو امتحان کے نگران ٹیچرز میں سے ایک صاحب وھاں آئے- ابھی صاحب خان کا ذکر جاری تھا- نگران صاحب نے ھنس کر کہا :

“ جی ھاں، بہت نرالا بندہ ھے- کل آرٹ اینڈ ڈرائنگ کا پیپر تھا- ایک کوا اور پانی کا گھڑا بنانا تھا- صاحب خان پنسل سے کوے کی پکچر بنا کر اس میں سبز کلر بھر رھا تھا- میں نے کہا صاحب خان، کوا تو کالا ھوتا ھے-

صاحب خان ںے کہا “ وہ والا کوا خدا نے بنایا ھے- اس کو کالا رنگ اچھا لگتا تھا، کوے کو کالا بنا دیا- یہ والا کوا صاحب خان نے بنایا ھے- اس کو صاحب خان اپنی پسند کا رنگ کرے گا“-

اب نہ وہ زمانہ رھا، نہ صاحب خان – مگر ان کی یادیں آج بھی مسکراھٹیں بکھیر رھی ھیں- —— رھے نام اللہ کا ——

Image may contain: 1 person, outdoor and text

2007 میں ایک دن معروف لوک گلوکار عابد اتراء ایک نوجوان کے ھمراہ میرے پاس آئے- نوجوان کا تعارف کراتے ھوئے عابد نے کہا یہ ھیں دلیوالی کے نوجوان شاعر شاکرخان- یہ اپنے شعری مجموعے کا تعارفی فلیپ آپ سے لکھوانا چاھتے ھیں-

میں نے شاکرخان کے شعری مجموعے کو ایک نظر دیکھا- عمربھر ادب پڑھنے، پڑھانے اور تخلیق کرنے کے تجربے نے بحمداللہ اچھے برے ادب کا فرق سمجھنا سکھا دیا ھے- شاکر خان کے کچھ اشعار دیکھ کر میں نے اپنی رائے کا تحریری اظہار اس جملے پہ ختم کیا : “شاکرخان میانوالی کے شعری منظر نامے میں ایک خوبصورت اضافہ ھے“-

شاکر خان میانوالی کی نئی نسل کے ان شعراء میں شامل ھے جنھیں میں میانوالی کا شعری مستقبل قرار دیتے ھوئے کہا کرتا ھوں، شکر ھے کہ

ھمارے بعد اندھیرا نہیں، اجالا ھے

شاکر خان نے آغازسخن میں ھمارے محترم دوست مرحوم ابوالمعانی عصری سے اکتساب فیض کیا- گورنمنٹ کالج میانوالی میں پروفیسر علی اعظم بخاری اور پروفیسر انوارالعزیز شاہ کے لاڈلے شاگرد رھے- ایم اے اردو کرنے کے بعد کچھ عرصہ پنجاب کالج میں کام کیا- آج کل الصفہ کالج میں شعبہ اردو کے سربراہ ھیں- ریڈیو پاکستان میانوالی میں بھی قابل قدر خدمات سرانجام دے رھے ھیں- ان کا پہلا شعری میموعہ “خواب میں بہتی آنکھ“ منظرعام پر آچکا ھے-

شاکر خان کی شاعری دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والی ھوک ھے جو پڑھنے سننے والےکو بھی اداس کر دیتی ھے—– عشق میں بھی اپنی انا کی ناک اونچی رکھنا ھم میانوالی کے لوگوں کا شیوہ ھے—- چلتے چلتے اسی تناظر میں شاکر کا یہ شعر دیکھ لیجیئے-

اس گلی جائیں اس کی منت کو ؟

یار تو ھم کو جانتا تو ھے – 23 مئی 2017

اللہ کے فضل سے ھمارا فیس بک کی دوستی کا سفر جاری ھے- یہ سفر2015 کے وسط میں شروع ھؤا- انشاءاللہ 22 جولائی کو ھم اس کی دوسری سالگرہ منائیں گے- تھک تو نہیں گئے، آپ لوگ چلتے چلتے ؟

ٹیچر کی حیثیت میں میرا واسطہ ھمیشہ نوجوان نسل سےرھا ھے- اس لیے نوجوان لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا میرے لیے کوئی مسئلہ نہیں- عمر کے فاصلے ھمارے درمیان حائل نہیں ھوتے- ھمیں ایک دوسرے کی بات سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی-

سچی بات بتاؤں، مجھے بزرگوں کی بجائے بچوں میں اٹھنا بیٹھنا زیادہ آسان لگتا ھے- مجھے تو جنریشن گیپ کہیں نظر نہیں آتا- میرے فیس بک فرینڈز میں سکولوں کے بچے بھی شامل ھیں- ماضی کی باتیں انہیں بھی اچھی لگتی ھیں- کبھی کسی نے یہ نہیں کہا “سرجی، چھوڑیں ان پرانی باتوں کو“- اس کی ایک وجہ تو یہ ھے کہ میں پرانی باتیں آج کی زبان میں کہتا ھوں- اس لیے ماضی کسی کو بھی اجنبی نہیں لگتا-

اچھے برے لوگ ھر جگہ ھوتے ھیں- لیکن بحمداللہ تعالی میں نے اپنی تقریبا 50 سالہ ٹیچنگ لائف میں کوئی برا بچہ نہیں دیکھا- اس لیے میں نئی نسل سے مایوس نہیں ھوں- انشاءاللہ ھمارا مستقبل تاریک نہیں، تابناک ھوگا–24 مئی 2017

Image may contain: 1 person, beard, eyeglasses, sunglasses, outdoor and closeup

آج کا دن آپ سے باتوں کے لیے وقف ھے- قصے کہانیاں کل سے پھر شروع کروں گا —- انشاءاللہ-

جب روزانہ پوسٹس لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو کبھی کبھی یہ خیال ذھن میں آیا کرتا تھا، کہ یہ کام اتنا ضروری تو نہیں- کیوں نہ یہ سلسلہ ختم کر دیا جائے- مگر جلد ھی بہت سے دوستوں نے یہ احساس دلادیا کہ ان کے لیے روزانہ پوسٹس کا یہ سلسلہ کتنا اھم ھے- خاص طور پہ بیرون ملک رھنے والے کچھ دوستوں نے کہا کہ ھمارے لیے آپ کی پوسٹ وطن سے آنے والی ٹھنڈی ھوا کا جھونکا ھوتی ھے – اس لیے ھمیں آپ کی پوسٹس کا انتظار رھتا ھے-

یہ بات مختلف الفاظ میں مکہ مکرمہ سے معظم عباس سپرا، پیرس سے منوراقبال خان، جرمنی سے ڈاکٹر نائیٹ رائیڈر کے قلمی نام سے ایک پاکستانی دوست، عرب امارات سے فرحان سلیم احمد خان، محمد فرحت اللہ خان , مناظر گوندل اور مظہراقبال ملک، ‘ سپین سے میرے ایک سٹوڈنٹ بیٹے اور ملائیشیا سے پروفیسر طاھر جہان خان نیازی کمنٹس کی شکل میں اکثر کہتے رھتے ھیں- بیرون ملک کے اوربھی بہت سےدوست ھیں- اس وقت یہی نام ذھن میں آئے- میرے لیے سب یکساں اھم ھیں-

وطن عزیز سے بھی بہت سے دوست میری پوسٹس باقاعدہ پڑھتے اورشیئر کرتے رھتے ھیں – شاھد اشرف کلیار صاحب نے کہا آپ کی پوسٹس کا صبح سویرے اسی طرح انتظار رھتا ھے جس طرح امی کے ھاتھوں کے بنائے ھوئے ناشتے کا-

آیک مہربان (نام یاد نہیں آرھا) کہتے ھیں میں اپنے پاس بیٹھنے والے “مارکے“ کے بزرگوں کو روزانہ آپ کی پوسٹ پڑھ کر سناتا ھوں- سناتا اس لیے ھوں کہ وہ خودپڑھ لکھ نہیں سکتے- مظہر اقبال ملک کا کہنا ھے کہ میں آپ کی پوسٹس واٹس ایپ کے ذریعے دوستوں کے ساتھ شیئر کرتا رھتا ھوں-

اندرون ملک بھی چاروں صوبوں ، بلکہ آزاد کشمیر سے بھی ایسے ھی حوصلہ افزا کمنٹس آتے رھتے ھیں- اللہ آپ سب کو سلامت رکھے-

رب کریم کے آگے سراپا عجزونیاز ھوں کہ مجھے اس کام کی ھمت اور توفیق عطا کردی جس سے بے شماردوست مستفید ھورھے ھیں- اس لیے اس کام کو خیرباد کہنے کا سوال ھی پیدا نہیں ھوتا- – منورعلی ملک 24 مئی 2017

میرا میانوالی ———————–

No automatic alt text available.No automatic alt text available.عید کی تیاریوں میں رمضان المبارک کے آخری ھفتے کی اھم سرگرمی سیویاں بنانا ھؤاکرتی تھی- پکچر میں بائیں طرف سیویاں بنانے کی جو سادہ سی مشین نظر آرھی ھے، اسے داؤدخیل کی زبان میں گھوڑی کہا کرتے تھے-( خداجانے کیوں)- سیویوں کو ھم لوگ سیمیاں کہتے تھے-

جس گھر میں گھوڑی (سیویاں بنانے کی مشین) ھوتی وھاں دن بھر اڑوس پڑوس کی خواتین کا میلہ لگا رھتا تھا – سب اپنا اپنا آٹا گھر سے گوندھ کر لاتی تھیں- ایک خاتون مشیش کے منہ میں آٹے کا بڑا سا نوالہ ڈالتی، کوئی دوسری خاتون مشین کا ھینڈل گھماتی اور ایک دو پھیروں کے بعد مشین کی چھاننی میں سے سیویوں کے لچھے نکلنے لگتے- صحن میں چارپایئوں پر بچھی صاف ستھری چادروں پریہ لچھے ترتیب سے سجا دیئے جاتے- ایک آدھ گھںٹے میں سیویاں خشک ھو جاتیں –

سیویاں بنانے کی ایک اور ٹیکنالوجی بھی ھؤا کرتی تھی – اس میں کوئی مشین نہیں ھوتی تھی- سارا کام ھاتھ سے کیا جاتا تھا — لسی بنانے کی ماٹی (اردو میں چاٹی کہتے ھیں) کو الٹا رکھ کر, اس کے اوپر آٹے کے پیڑے کو دونوں ھاتھوں کی آگے پیچھے حرکت سے سیویوں کی شکل دی جاتی تھی- ایک پیڑے سے ایک ھی لمبی سی سیویں بنتی تھی- اس طرح بہت سی بنالی جاتی تھیں- اصل سیویاں یہی ھوتی تھیں- مگر اب نہ وہ سرخ گندم کا خالص آٹا رھا، نہ اس آٹے کو سلیقے سے گوندھنے والے ھاتھ ، بازار سے سیویوں کے نام پہ جو چیز مل جائے اسی پہ گذارہ کرنا پڑتا ھے-

عید کی نماز پڑھ کر لوگ گھرواپس آتے تو پہلاکام سیویوں کی پلیٹ صاف کرنا ھوتا تھا- خالص دیسی گھی اور چینی سے زیادہ شیریں سرخ شکر سے آراستہ گرم سیویوں کی ایک ھی پلیٹ سے بندہ ری چارج ھو جاتا تھا- رمضان المبارک کے دوران ھونے والی ساری کمزوری غائب ھو جاتی تھی- —

اب تو بس , رھے نام اللہ کا —- منورعلی ملک – 25 مئی 2017

عزیز دوستو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ-

میری کل کی پوسٹ میرا میانوالی ——-2 پر آپ کے محبت بھرے کمنٹس میرے لیے اعزاز ھیں- ماسکو (روس) سےعامر ھاشمی نے کہا “آپ کی پوسٹس ماسکو میں بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ھیں- میں نے ایک پوسٹ بھی مس نہیں کی- امریکہ سے میرے بھائی ملک سجاد حسین کی صاحبزادی نے بھی یہی بات کہی، اور ملائشیا سے بابر خان بھی یہی کہتے ھیں- کچھ عرصہ پہلے اٹلی اور ناروے سے بھی دو دوستوں نے بتایا کہ وہ بھی میری پوسٹس باقاعدہ پڑھتے ھیں- ان کے نام یاد نہیں آرھے، اگر وہ کمنٹس میں بتا دیں تو بہت مہربانی ھوگی- آج مدینہ منورہ سےمحمد شریف گورگیج نے بھی یہی بات کہی ھے-ابھی مسقط عمان سے محمد نواز عاجز صاحب نے بھی یہی اچھی خبر سنائی ھے–کچھ دیر پہلے آئرلینڈ سے قمر نقوی صاحب نے میسیج میں کہا ھے کہ وہ بھی میری پوسٹس کے منتظر رھتے ھیں، بلکہ اب تو نشے کی طرح عادت سی بن گئی ھے- اللہ آپ سب کوسلامت رکھے- بہت ممنون ھوں آپ سب کا- 25 مئی 2017

میرا میانوالی ———

سیویوں کے ذکر نے تو تہلکہ مچادیا- !!!!!!

دراصل یہ محبت ، ھمدردی اور تعاون کا ایک خوبصورت منظر ھوتا تھا- محلے بھر کی خواتین مل جل کر سیویاں بنایا کرتی تھیں- کسی کا آٹا ذرا سخت یا پتلا گندھا ھوتا تو کوئی دوسری خاتون ھنس کر کہتی “ کھوتی‘ اے کیہ کیتی ودی ایں، اورے گھن آ “ اور پھر اس خاتون کاکام وہ درست طریقے سے کردیتی- ایسے مناظر رمضان المبارک کے آخری ھفتے میں تقریبا ھر گھر میں دیکھنے میں آتے تھے-

مرد اپنے کپڑوں جوتوں کے چکر میں ، کالاباغ یا میانوالی کے پھیرے لگاتے رھتے-

بچے درزیوں کا ناک میں دم کیے رکھتے————–

“چاچا، میڈے کپڑے ؟ تئیں آکھا ھائی جمعرات نوں“

” میں ٹھیک آکھا ھئی، پتر— اج کوئی آخری جمعرات تاں نیں- اگلی جمعرات نوں آونجیں“——

“پکا وعدہ ؟؟“

چاچا درزی قینچی لہرا کر کہتا “ اوئے توں ھنڑں وینداایں یا ناں“-


کل کی پوسٹ پر کمنٹس سے معلوم ھؤا، بہت سے گھروں میں سیویاں بنانے کا سامان اب بھی پڑا ھے- ایک آدھ گھر میں خالص سرخ گندم کا آٹا۔ خالص دیسی گھی اور شکر بھی اللہ کے فضل سے ھر وقت موجود رھتی ھے- وھاں یہ سیویوں کا اھتمام باقاعدہ ھوتا ھے—

ذکاء نیازی نے اپنے کمنٹ میں کہا “سر، گھوڑی اور کٹوا تو ھم یہاں امریکہ میں بھی لے آئے ھیں- دھوپ میں چارپائیاں بچھا کر سیویاں خشک کرنے کی سہولت یہاں دستیاب نہیں— 26 مئی 2017

میرامیانوالی —————–

ھاتھ پاؤں پہ مہندی لگانا بھی عید کی ایک خآص رسم تھی- عید سے ایک آدھ دن پہلے، عام طور پر 29 رمضان المبارک کو گھر کے سب افراد، بچے، بوڑھے اور جوان، خواتین وحضرات مہندی سے اپنے ھاتھ پاؤں لال کر لیتے تھے- صرف وہ لوگ مہندی نہیں لگاتے تھے جن کے گھر کا کوئی فرد رمضان المبارک میں فوت ھؤا ھوتا- بیوہ خواتین بھی مہندی نہیں لگاتی تھیں- دوچار سال بعد، گھر والوں کے اصرار پر، آنسو بہاتے ھوئے، دونوں ھاتھوں کی ھتھیلیوں پر پانچ روپے کے سکے جتنا مہندی کا ٹکا سا بنا لیتی تھیں-

اس زمانے میں آج کی طرح مہندی کے ڈیزائین نہیں بنائے جاتے تھے- یہ کام کوئی جانتا ھی نہ تھا- اصل بات تو یہ ھے کہ سادگی اور مّعصومیت سے بڑھ کر کوئی اور میک اپ نہ ھے، نہ ھوگا-

غریبی کا دور تھا- مہندی پاؤڈر جار پیسے مہنگا ملتا تھا- اس لیے خواتین دکانوں سے مہندی کے درخت کے خشک پتے سستے داموں خرید لاتی تھیں- انہیں پیس کر پاؤڈر سا بنالیتیں ، اسے پانی میں حل کرکے رنگ گہرا اور چمکدار بنانے کے لیے اس میں دوچار قطرے خالص سرسوں کا تیل ڈال کر اسے گھر کے تمام افراد کے ھاتھوں کی ھتھیلیوں اور پاؤں کے تلووں پر لیپ دیتی تھیں- چند گھنٹے بعد ھاتھ پاؤں دھوتے تو مہندی کی چمک دمک دیکھ کر دل جھوم اٹھتا-

مہندی کو خوشی اور خوشحالی (وسدے گھروں) کی علامت سمجھا جاتا تھا- عید کی نماز پڑھنے جاتے تو مہندی لگے ھاتھوں کی قطاریں دعا کے لیے اٹھی دیکھ کر مزا آجاتا ——– اب نہ وہ لوگ رھے، نہ رسمیں—-رھے نام اللہ کا – منورعلی ملک –

عزیز دوستو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ- آمد رمضان مبارک—— خصوصی دعاؤں میں یاد فرما لیا کریں – ایک تو اس عمر میں صحت کے کچھ مسائل ھوتے ھیں- ویسے بھی گنہگاروں کو دعاؤں کی ضرورت زیادہ ھوتی ھے- اللہ آپ کو سلامت رکھے— منورعلی ملک-27 مئی 2017

میرا میانوالی/ میراداؤدخیل ————

جون جولائی کے روزے ——–

نہ اے سی، نہ فریج ، نہ پنکھا، نہ لائیٹ، نہ لوڈشیڈنگ، ‘ نہ سرکار کو گالیاں دے کر غصہ ٹھنڈا کرنے کی سہولت ———— بجلی کا وجود ھی نہ تھا —–

سحری لسی یا چائے کے ساتھ وشیلی کھا کر کی جاتی تھی- وشیلی بنانے کے طریقہ کار اور اس کے فضائل پر ایک مفصل پوسٹ کچھ عرصہ پہلے لکھی تھی- اس لیے وہ سب کچھ دوبارہ بتانا ضروری نہیں سمجھتا٠

دوپہر تک تو لوگ اپنے کام کاج میں مشغول رھتے ، دوپہر سے جان اور ایمان کی آزمائش شروع ھو جاتی- مگر زندہ دل لوگ تھے- ھنس کھیل کر پہاڑ جیسا بھاری دن بھی آسانی سے بسر کر لیتے تھے-

بچے اور نوجوان تو دوپہر ھوتے ھی نہر پہ جاکر ٹھنڈے یخ پانی میں الٹی سیدھی قلابازیاں لگا کر بھوک پیاس اور گرمی کے احساس سے آزاد ھو جاتے- بزرگ گھر کے ھینڈ پمپ یا کسی قریبی کنوئیں پر جا کر کپڑوں سمیت نہا لیتے، اور پھر انہی گیلے کپڑوں کے ساتھ چھپر کے سائے میں بچھی ھوئی چارپائیوں پر لمبی تان کر سو جاتے- ظہر کی نماز کے وقت ایک بارپھر نہالیتے ، اور نماز کے بعد پھر سو جاتے- عصر کے وقت نہاکر دن کے بقیہ ایک دوگھنٹے گپ شپ میں گذار دیتے-

افطار کے لیے اکثر بزرگ چینی کی بجائے پشاوری گڑ یا شکر کا شربت استعمال کرتے تھے- برف تو قسمت سے ملتی تھی – مگر اللہ کے فضل سے اس دور میں نلکے یا کنوئیں کا پانی فریج یا برف والے پانی سے کم ٹھنڈا نہیں ھوتا تھا- بزرگ کہتے تھے، اور درست کہتے تھے کہ چینی اور برف تو پیاس کو بجھاتی نہیں، بھڑکاتی ھیں- پشاوری گڑ یا شکر کا شربت پیاس فورا بجھا دیتا ھے-

رمضان المبارک کے مشروبات کا ذکر انشاءاللہ ایک دودن مزید جار ی رھے گا —منورعلی ملک —28 مئی 2017

میری کتاب، “ جوتم سے کہہ نہ سکا “ میں سے

Image may contain: text

میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ——–

افطاری میں بزرگ لوگ پشاوری گڑ یا شکر کا جو شربت پیتے تھے، اس میں صرف گڑ، شکر ھی نہیں ، بلکہ اسپغول کا چھلکا، تخم ملنگا۔ گوند کتیرا، یا املی آلوبخارا ملا کر اس کو مزید مؤثر بنالیا جاتا تھا- یہ سب چیزیں پنساریوں کے ھاں آج بھی ملتی ھیں- یہ چیزیں صرف ٹھنڈک ھی نہیں، توانائی بھی فراھم کرتی ھیں—- افطار سے دو تین گھنٹے پہلے ان چیزوں کو ٹھنڈے پانی کے کٹورے یا گلاس میں ڈال دیتے تھے ، جب شربت بنتا تو یہ چیزیں بھی اس میں مکس کر دیتے تھے٠ عام طور پر تو ان میں سے کوئی ایک چیز ھی ڈالی جاتی تھی- اس کا اثر یہ ھوتا تھا کہ باھر جتنی بھی گرمی ھوتی انسان کے اندر کا ٹمپریچر(درجہ حرارت) موسم بہار جیسا رھتا تھا – جو کا ستو بھی لاجواب چیز ھے- مگراس زمانے میں ھمارے ھاں دستیاب نہ تھا – بعض چانجھلے قسم کے بزرگ تخم ملنگا اور گوندکتیرا ملا کر استعمال کرتے تھے-

گھر کے باقی لوگ لیموں کا شربت یا دودھ میں پانی ملا کر کچی لسی بنا لیا کرتے تھے- میرے بھائی جان مرحوم ملک محمد انور علی کو مچلز کا مینگو شکواش بہت پسند تھا- افطاری نمک، سادہ پانی، کھجور یا تازہ گرم تندوری روٹی سے کی جاتی تھی– داؤدخیل میں فروٹ کہاں ملتا تھا- اس موسم میں کچے کے کچھ لوگ ٹولے والے شہد جیسے میٹھے خوشبودار خربوزے لاکر شہر میں فروخت کیا کرتے تھے- دیسی تربوز کنوؤں کے باغات میں ھوتا تھا- مگر تربوز صرف کھانے کے بعد ھی کھانا چاھیے، خالی پیٹ لیا جائے تو یہ بندے کو ھمیشہ کے لیے لم لیٹ بھی کر دیتا ھے- واللہ اعلم – منورعلی ملک – 29 مئی 2017

میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ——

اس زمانے میں داؤدخیل کے لوگ گوشت کے زیادہ شوقین نہیں تھے- محلہ امیرے خیل میں چاچا گاموں قصاب اور محلہ داؤخیل میں چاچا موسی قصاب دوسرے تیسرے دن بڑا گوشت (بیف) بناتے تھے- بکرے کا گوشت ھفتے میں صرف ایک دن محلہ سالار کا چاچا رمضان قصاب بناتا تھا- بڑا گوشت دو روپے کلو ، اور بکرے کا گوشت چار روپے کلو ملتا تھا- (دیوار کا سہارا لیجیے، آپ گرنے لگے ھیں، مگر حقیقت یہی تھی کہ گوشت کی قیمتیں ان دنوں یہی ھوتی تھیں)-

مرغی کا گوشت — ؟ ؟ ؟ ———– سوال ھی پیدا نہیں ھوتا-

برائلر تو ابھی ایجاد ھی نہیں ھؤا تھا- گھروں میں لوگ ایک دو دیسی مرغیاں پال لیتے تھے- خواتین اور بچے ان مرغیوں کو گھر کے افراد سمجھ کر ان کی دیکھ بھال کرتے تھے- سردی کے موسم میں ان کے انڈے ناشتے میں کام آتے تھے- مرغی ذبح یا تو اس وقت کی جاتی جب وہ بیمار پڑجاتی، یا پھربہت وی آئی پی مہمانوں کی آمد پر— کچھ لوگ دل پر ھاتھ رکھ کر عید کے دن بھی مرغی ذبح کر لیا کرتے تھے— اپنی پیاری مرغی ذبح ھونے پر گھر میں بچے اور حواتین باقاعدہ رونا دھونا بھی ڈالتے تھے- مرغی کے سالن کی ایک ایک پلیٹ قریبی رشتہ داروں اور ھمسائیوں کے گھروں میں بھی ضرور بھیجی جاتی تھی–

لوگوں کی عام خوراک زیادہ تر دال سبزی ھی تھی- لیکن خالص دیسی گھی میں بنی ھوئی دال سبزی ذائقے اور توانائی میں آپ کے چکن سے کم نہیں ھوتی تھی- گوشت کی بجائے لوگ دودھ، دہی ، لسی ، خالص گھی اور مکھن زیادہ کھایا کرتے تھے- اس لیے اس موسم کے روزوں میں بھی خشکی سے محفوظ رھتے تھے’ اور معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے کی نوبت نہیں آتی تھی —-رھے نام اللہ کا – !!!——– منورعلی ملک -30 مئی 2017

میرا شعر ——————– آرائش —– شاھد انور خان نیازی، داؤدخیل

No automatic alt text available.

میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ———–

رمضان المبارک کے معاملے میں خواتین مردوں سے زیادہ با ھمت ھوتی تھیں- وہ مردوں کی طرح آدھا دن سو کر نہیں گذارتی تھیں، بلکہ دن بھر کسی نہ کسی کام میں مشغول رھتی تھیں- گھر کی صفائی کے علاوہ، نمک مرچ، دھنیا، ھلدی وغیرہ کی پسائی، بچوں کے لیے دوپہر کا کھانا بنانا- پہارے پر جا کر چکی پر آٹا پیسنا ، اور اسی طرح کےکئی کام دن پھر کرتی رھتی تھیں-

پہارا، ایک بڑے سے ھال کمرے میں نصب دس بارہ چکیوں پر مشتمل ھوتا تھا- خواتین اپنے اپنے گھر سے گندم لاکر یہاں اپنے ھاتھ سے چکی پر پیستی تھیں- شہر میں ڈیزل انجن سے چلنے والی دوتین آٹا پیسنے کی مشینیں بھی تھیں‘ مگر زیادہ تر لوگ چکی کا آٹا پسند کرتے تھے- پہارے کی فیس کے طور پر ھر خاتون مٹھی بھر آٹا کمرے کے ایک کونے میں رکھے ھوئے ٹین میں ڈال دیتی تھی-

محلہ امیرے خیل میں چاچا صالح محمد کا پہارا بہت مشہور و مقبول تھا- وھاں گندم کی پسائی کے دوران خواتین وقت گذارنے کے لیے گپ شپ بھی خوب لگایا کرتی تھیں- ادھر ادھر کی باتوں کے علاوہ اپنے اپنے شوھروں کی نقلیں اتار کر خوب قہقہے لگایا کرتی تھیں-

میں یہ سب کچھ اس لیے جانتا ھوں کہ بچپن میں امی کی بعض سہیلیوں کے ساتھ میں بھی پہارے پر جایا کرتا تھا- امی خود تو بیمار رھتی تھیں ، اس لیے ان کے حصے کاکام ان کی سہلییاں کردیا کرتی تھیں- اخلاق کی بات ھے، ھمارے گھر میں دن بھر محلے کی خواتین کا میلہ لگا رھتا تھا—– امی کی وفات کے بعد ھماری وہ سب ما سیاں بھی ایک ایک کرکے اس دنیا سے رخصت ھو گئیں – اللہ سب کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے- بہت عظیم خواتین تھیں-

رھے نام اللہ کا ——— منورعلی ملک- 31 مئی 2017

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top