منورعلی ملک کےمئی 2020 کےفیس بک پرخطوط

میرا میانوالی————-

انسان ھار گیا ——- تقدیر جیت گئی

61 سال کی رفاقت پل بھر میں ختم ——–

تقدیر کا مالک تقدیر بدل بھی سکتا تھا ، ھم نے بہت منتیں ترلے بھی کیئے ، مگر نہ مانا<شاید اس لیے

کہ وہ مرحومہ کو کچھ ایسے انعامات دینا چاھتا تھا ، جو اس دنیا میں نہیں مل سکتے –

جی ھاں
بہت کچھ لینا دینا رھتا تھا مرحومہ کا اپنے رب سے- عمر بھر صوم و صلوات کی پابند رھیں، بہت صابر، شاکر،سادہ مزاج تھیں – 6 ماہ کی بیماری کی اذیتوں کا اجر الگ سے ملے گا – یقین ھے بہت خوبصورت زندگی ھوگی ان کی دوسری دنیا میں ، ان شآءاللہ –

اپنی بقیہ زندگی کے حوالے سے یہ شعر بیگم کی نذر ——–

سفر حیات کا طے ھو تو جائے گا لیکن
تمہاری یاد رلائے گی ھر قدم پہ مجھے

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-2 مئی 2020

عزیز ساتھیو،
رب کریم آپ کو سدا شاد و آباد رکھے۔ ھمارے دکھ میں آپ کا پرخلوص اظہار ھمدردی آپ کاھم پر احسان ھے۔
جزاک اللہ الکریم -رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-3 مئی 2020

صدمہ تو برداشت کر لیا ، اب اپنی شخصیت کی بکھری ھوئی کرچیاں سمیٹ رھا ھوں- نئے حالات میں خود کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کر رھا ھوں – الحمدللہ ، بچے سب بہت اچھے ھیں ، بہت خدمت کرتے ھیں – مگر تنہائی کا احساس زائل ھونے میں کچھ وقت لگے گا – دعا کریں کہ زندگی کے بقیہ دن آسانی سے گذر جائیں –
آپ لوگوں کو اپنے گھر کے افراد سمجھ کر آپ سے ھر دکھ سکھ شئیر کرتا ھوں ، ورنہ یہ پوسٹ لکھنے کی ضرورت نہ تھی-
وہ جو میں نے کسی زمانے میں کہا تھا ———————-

نت میں نویں گل تے دل کوں ولینداں
کچھ ایسی ھی بات ھے یہ بھی ——-

بچھڑتے وقت سے اب تک میں یوں نہیں رویا

وہ کہہ گیا تھا یہی وقت امتحان کا ھے—- محسن نقوی

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-4 مئی 2020

چلے گئے ھو مرے ھمسفر مگر اب تک
رہ وفا میں تمہارے ھیں نقش پا باقی
ملیں گے منزل مقصود پر تمہیں آکر
سفر ھمارا بھی تھوڑا سا رہ گیا باقی

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-5 مئی 2020

تعزیت کے سلسلے کی آخری پوسٹ —————

آپ لوگوں کی دعاؤں اور اظہار ھمدردی نے دل کا بوجھ کافی ہلکا کردیا – کل سے ان شآءاللہ “میرا میانوالی“ کے عنوان سے روزانہ پوسٹس کا سلسلہ دوبارہ شروع کر رھا ھوں –

مشکل وقت میں حوصلہ افزائی کے لیے آپ کا ممنون ھوں – رب کریم آپ کو بےحساب جزائے خیرعطا فرمائے – رمضان المبارک اور کورونا کے خدشات کی وجہ سے اھلیہ کی وفات کا باقاعدہ اعلان بھی نہ کیا پھر بھی بہت سے لوگ دوسرے ذرائع سے یہ خبر سن کر نماز جنازہ میں شرکت کے لیے میانوالی سے داؤدخٰیل پہنچے – قل خوانی کے بعد میں کچھ ضروری سامان لینے کے لیے میانوالی آگیا – مگر اپنی آمد کا اعلان کرنا مناسب نہ سمجھا – پھر بھی سنی سنائی خبر پہ احباب کی آمدورفت جاری ھے – اللہ کریم سب کو اجرعظیم عطا فرمائے –
کل دوپہر کے قریب ان شآءاللہ داؤدخٰیل واپس چلا جاؤں گا کہ پرسوں جمعرات کا ختم دلوانا ھے –
میری داؤدخیل میں عدم موجودگی کے دوران بھی بہت سے احباب تعزیت کے لیے آتے رھے – رب کریم ان سب کو سلامت رکھے-
کل سے ان شآءاللہ حسب معمول دوسرے موضوعات پر پوسٹس کا سلسلہ پھر سے شروع کروں گا –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-5 مئی 2020

آپ سے وعدہ تو کر لیا کہ آج سے معمول کے مطابق دوسرے موضوعات پر لکھوں گا ، یہ یاد نہ رھا کہ فی الحال ایک آدھ دن کچھ مصروفیات کی وجہ سے یہ کام ممکن نہ ھوگا – مثلا آج داؤدخیل جانا ھے ، کل جمعرات کا ختم دلوانا ھے – اس کے بعد ان شآءاللہ پہلے والا معمول بحال ھو سکے گا –
تب تک کے لیے اجازت –رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-6 مئی 2020

افطار کی دعاوں میں میری اھلیہ کے لئے دعائے مغفرت کی استدعاھے
جزاکم اللہ الکریم—-رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-7 مئی 2020

پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی میرے داؤدخیل کو —–؟؟؟؟
یہ تو چھوٹا سا ، سیدھا سادہ , صاف ستھرا شہر تھا –
اب سیوریج کا نظام قائم کرنے کے لیے شہر کی شہ رگ جرنیلی سڑک ڈیرہ خٹکی خیل سے لے کر ھمارے محلہ مبارک آباد تک ادھڑی پڑی ھے – کام اس طرح اندھا دھند ھورھا ھے کہ اس سڑک سے پیدل گذرنا بھی ممکن نہیں رھا – جا بجا کیچڑ میں سے گذرنا پڑتا ھے – یہی کام اگر باقاعدہ پلاننگ سے ، سمجھدار لوگوں کی نگرانی میں کرایا جاتا تو لوگوں کو یہاں سے گذرنے میں اتنی دشواری نہ ھوتی-ھمارا گھر اسی سڑک کے کنارے واقع ھے – میاں رمدی صاحب کا قبرستان بھی اسی سڑک کے کنارے ھمارے گھر کے جنوب میں واقع ھے – پیدل دو تین منٹ کا راستہ تھا – اب گھر سے قبرستان جاتے ھوئے ٹھٹھی کی پرانی سڑک سے ھوکر پیچ در پیچ گلیوں میں سے گذر کر قبروں کو پھلانگتے ھوئے تقریبا آدھ گھنٹہ بعد ھمارے خاندان کی قبروں تک رسائی نصیب ھوتی ھے – سڑک سے ھمارے گھر تک جانے والی گلی بھی کل بند ھوگئی – گاڑی گھر سے کافی دور ایک گلی میں کھڑی کرنی پڑتی ھے –

ایک مقامی دوست سے پوچھا کب سے یہ حال ھے –
اس نے کہا بس جی چھ ماہ سے ھم یہ سزا کاٹ رھے ھیں –

صفائی کا یہ حال ھے کہ چاچا ھدایت اللہ خان نمبردار کے کنوئیں کے شمال میں گندگی کا ایک لمبا چوڑا ڈھیر گردونواح کے لوگوں کی زندگی عذاب بنائے ھوئے ھے – ویسے آپس کی بات ھے گندگی کا یہ ڈھیر بنانے میں ان لوگوں کا بھی خاصا قصور ھے – کوئی انہیں سمجھائے کہ گھر کا کوڑا چار قدم دور کھلی جگہ پر بھی پھینکا جا سکتا ھے-
فی الحال تو میں صرف گھر سے قبرستان تک ھی آتا جاتا رھا ھوں – بقیہ شہر کا پتہ نہیں کس حال میں ھے –

مقامی ایم پی اے امین اللہ خان صاحب سے گذارش ھے کہ اپنی ذاتی نگرانی میں شہر کی حالت جلد ازجلد سنوارنے کی کوشش فرمائیں – میرا داؤدخٰیل پہلے کی طرح صاف ستھرا ، رواں دواں بنا دیں –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-8 مئی 2020

ایک اھم پیغام ——–

کچھ دن پہلے جب ھم شفآءانٹرنیشنل ھسپتال اسلام آباد میں تھے ، وھاں ایک پمفلٹ آنے جانے والے لوگوں میں تقسیم کیا جا رھا تھا – اس پمفلٹ میں ذیا بیطس (شوگر) اور بلڈ پریشر کے بزرگ مریضوں کو گرنے سے بچانے کی ھدایات لکھی ھوئی تھیں – لوگوں نےبتایا کہ پچھلے چند ماہ میں 200 بزرگ مریض اچانک گرنے سے جاں بحق ھوگئے –

پمفلٹ میں لکھا تھا کہ شوگر اور بلڈ پریشر کے بزرگ مریض اپنا جسمانی توازن برقرار نہیں رکھ سکتے -وہ چلتے چلتے کہیں بھی اچانک گر سکتے ھیں – اس لیئے انہیں گھر سے اکیلے باھر نہ جانے دیا جائے – بلکہ گھر کے اندر بھی چلتے پھرتے وقت گھر کا کوئی فرد ان کے ھمراہ ضرور ھونا چاھیے –

تب یاد آیا کہ پرانے زمانے میں بزرگ لوگ اس طرح کے حادثات سے اس لیئے محفوظ رھتے تھے کہ وہ چلتے پھرتے وقت سہارے کے لیے لاٹھی (مضبوط چھڑی) استعمال کرتے تھے – یہ رواج واپس آنا چاھیے – اس سے کافی حد تک حادثات سے بچا جاسکتا ھے – لیکن سب سے بہتر یہی ھے کہ گھر کا کوئی فرد ھروقت ان کے ساتھ رھے –

بزرگ ھمارابہت قیمتی سرمایہ ھیں- جس گھر میں بزرگوں کا خیال رکھا جائے اس گھر پہ اللہ کی رحمتیں برستی ھیں – بزرگوں کی دعائیں آنے والی مصیبتوں اور آزمائشوں کو ٹال دیتی ھیں – کسی شاعر کا ایک شعر یاد آرھا ھے :

نہ جانے کون دعاؤں میں یاد رکھتا ھے
میں ڈوبتا ھوں تو دریا اچھا ل دیتا ھے

ایسے معجزے بزرگ والدین کی دعاؤں سے بھی ھوجاتے ھیں –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک- 9 مئی 2020

آج کل رمضان المبارک اور عید کاچاند نظر آنے کا اعلان رویت ھلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن ٹیلی ویژن کی سکرین پر آکر کرتے ھیں- پشاور میں ایک بزرگ مفتی پوپلزئی عموما ایک دن پہلےیہ نوید سنادیتے ھیں – مگر ان کے اعلان پر صرف ان کے اپنے مقلدین ھی عمل کرتے ھیں –

ھمارے بچپن کے زمانے میں نہ ٹی وی تھا ، نہ ریڈیو- رویت ھلال کا اعلان ھر جگہ مقامی علماء کی تحقیق پر مبنی ھوتا تھا – ھمارے علاقے (داؤدخیل، کالاباغ وغیرہ ) میں رویت ھلال کا فتوی کوٹ چاندنہ کے پیر فخرالزمان رحمتہ اللہ علیہ مکمل تحقیق کے بعد صادر کرتے تھے – نواحی دیہات سے مساجد کے نمائندے شام سے پہلے کوٹ چاندنہ پہنچ جاتے – پیر صاحب کا تحریری فتوی لے کر اپنے اپنے گاؤں میں جاکر رویت ھلال کااعلان کرواتے تھے- اعلان کے طور پر مسجد کا پانی ھارا ( ماشکی ، پانی بھرنے والا آدمی) نقارہ بجایا کرتا تھا-نقارہ طبلے کی قسم کا ، طبلے سے کچھ بڑا ساز تھا جسے ایک ڈیڑھ فٹ لمبی دو چھڑیوں سے ڈھول کی طرح بجایا جاتا تھا – نقارے کی آواز دور دور تک گونجتی تھی – یہی آؤازچاند نظر آنے کااعلان ھؤا کرتی تھی – سحری اور افطار کے اوقات کا اعلان بھی نقارہ بجاکر کیاجاتا تھا – اعلان الفاظ کی بجائے نقارے کی آؤاز کی صورت میں ھوتا تھا –رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-10 مئی 2020

کل فیس بک نے بتایا کہ کل کا دن MOTHERS’ DAY ( ماں کا دن ) تھا – بہت سے لوگوں نے اپنی اپنی ماؤں کو یاد کیا تھا – کل نہ سہی آج میں بھی اپنی امی کا تعارف کرادیتا ھوں –
میرے لیے تو ھردن امی کا دن ھے کہ الحمدللہ روزانہ دن رات میں ایک سے زیادہ بار قرآن حکیم میں سے کچھ نہ کچھ تلاوت کرکے اس عمل کا ثواب ان کی روح کو ارسال کرتا ھوں – یہ معمول کئی سال سے جاری ھے –

امی کا نام گلاب جنت تھا – ھماری زبان میں گلاب کو غلاب بولتے ھیں- اس لیے امی کا نام گلاب جنت سے غلاب جنت بنا ، اور پھر لوگ بولنے کی سہولت کے لیے غلام جنت کہنے لگے –
امی سکول کی تعلیم حاصل نہ کرسکیں – قرآن حکیم بڑی روانی سے پڑھ لیتی تھیں – بہت خوبصورت مترنم آواز تھی ، قرآن پاک پڑھتیں تو سننے والے جھوم اٹھتے تھے – بہت سی نعتیں اور نوحے بھی ازبر تھے – چلتے پھرتے ، کام کرتے اکثر کوئی نعت یا نوحہ گنگناتی رھتی تھیں – نوحے اس لیے یاد تھے کہ ذاکر کی بیٹی تھیں – نماز اپنے سسرال کے مطابق فقہ حنفیہ والی پڑھتی تھیں – سسرال بھی کوئی غیر نہ تھے – میرے دادا ان کے اکلوتے ماموں تھے – دادا جی اور ناناجی آپس میں چچازاد تھے –

اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ھوئے امی محرم کا خصؤصی احترام اور اھتمام کرتی تھیں – محرم میں سیاہ لباس پہن کر ھروقت نوحے گنگناتی اور روتی رھتی تھیں – ساتویں اور دسویں محرم کی رات جاگ کر گذارتی تھیں –
ھم سب بہن بھائیوں کی طرف سے صدقہ اور نیاز اکثر دیتی رھتی تھیں –

اپنے بچوں سے والہانہ پیار کرتی تھیں – ھم میں سے کسی کو کانٹا بھی چبھ جاتا تو امی کی بے قراری دیکھی نہیں جاتی تھی – سب کام چھوڑ چھاڑ کر بیمار یا زخمی بچے کی خدمت میں مصروف ھوجاتی تھیں –
نعتیں ھماری لوریاں ھوتی تھیں –
سوچا تھا ایک پوسٹ میں تعارف مکمل کر لوں گا – مگر اتنی عظیم شخصیت کا تعارف ایک پوسٹ میں کہاں سما سکتا ھے – کوشش کروں گا کہ کل کی پوسٹ میں سب کچھ سمیٹ دوں –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-11 مئی 2020

امی بہت دریا دل تھیں – غریبوں کی دل کھول کر مدد کرتی تھیں – کسی کو راشن ، کسی کو کپڑے ، کسی کو پیسے حسب ضرورت دیتی رھتی تھیں – کسی کو پیسوں کی ضرورت ھوتی اور امی کے پاس پیسے نہ ھوتے تو وہ کسی سے ادھار لے کر دے دیتی تھیں – امی کی اس فیاضی کی وجہ سے گھر میں خواتین کا میلہ لگا رھتا تھا – گھر کے چھوٹے موٹے کام بھی وہ خواتین اپنی خوشی سے کر دیتی تھیں –

امی میٹھی چیزیں بہت زبردست بناتی تھیں – دودھی والاحلوہ ، میٹھی وشیلییاں ۔ میٹھے پراٹھے ، روٹ ، اور گڑ والے چاول ان جیسے کوئی نہیں بنا سکتا – میں بچپن میں کھانے پینے کے معاملے میں خآصآ نخریلا تھا – میری فرمائش پر امی یہ چیزیں اکثر بناتی رھتی تھیں -سردی کے موسم میں ھم بچوں کو سرشام ھی سردی سے بچنے کے لیے آگ کے گرد بٹھا دیتی تھیں – صبح سے پہلے کمرے سے نکلنے کی اجازت نہ تھی – پیشاب کے لیے ایک برتن کمرے کے کونے میں رکھا ھوتا تھا – بارش والے دن ھمیں سکول بھی نہیں جانے دیتی تھیں – سردی سے اس خوف کی وجہ یہ تھی کہ مجھ سے پہلے میرا ایک ھم نام بھائی نمونیہ بخار سے مرگیا تھا – امی نے سردی کا جو خوف دل میں بٹھایا تھا، آج بھی باقی ھے- مجھے سردی ذرا بھی اچھی نہیں لگتی –

ایک دن میرے بڑے بھائی نے مجھے آوارہ لڑکوں سے دوستی پربہت سخت ڈانٹ پلائی – بھائی چلے گئے تو امی نے مجھ سے کہا “ بیٹا ، بندہ زھر کی بوری پر بیٹھنے سے نہیں مرتا – زھر منہ میں ڈالے تو مر جاتا ھے – تم ان لڑکوں سے دوستی بے شک رکھو، مگر ان کی بری عادتیں نہ اپنانا –
امی کی بات میرے دل میں اتر گئی – ان کی وفات کے بہت عرصہ بعد میں چار پانچ سال ایک ایسی محفل کا مستقل رکن رھا جہاں شراب پانی کی طرح عام تھی – سب لوگ پیتے تھے ، مگر الحمدللہ میں نے کبھی چکھی بھی نہیں –

امی اب اس دنیا میں موجود نہیں ، مگر جب کبھی دل دکھتا ھے ، بہت یاد آتی ھیں –

گھر سونا کر جاتی ھیں
مائیں کیوں مر جاتی ھیں

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-12 مئی 2020

رمضان المبارک میں سحری اور افطار کی روایات کے بارے میں ھرسال لکھتا رھتا ھوں – ماضی کی یہ خوبصورت روایات تو اب باقی نہیں رھیں ، مگر لوگ ان کے بارے میں معلومات بہت پسند کرتے ھیں – کمنٹس سے پتہ چلتا ھے کچھ لوگ حسب توفیق ان روایات پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتے ھیں –

ھمارے داؤدخٰیل میں سحری کے لیے روٹی سالن یا انڈے پراٹھے کی بجائے وشلی (washilli) کھائی جاتی تھی – توے پر تھوڑا سا گھی ڈال کردہی کی طرح نرم پتلا آٹا توے پر ڈالتے اور اسے پھیلا کر چپاتی کی شکل دے دیتے تھے – اوپر سے کچھ اور گھی ڈال کر اس چپاتی کو فرائی کر لیتے تھے – یہی گھی میں تر بتر چپاتی وشلی کہلاتی تھی -کھاتے وقت وشلی پر سرخ پشاوری شکر کی ننھی سی ڈھیری بنا کر اسے انگوٹھے کے دباؤ سے پیالے کی شکل دے دیتے اور اس پیالے میں گرما گرم گھی ڈال کر نوالے اس گھی میں ڈبو کر کھاتے تھے – آٹے گھی اور شکر سے بنا ھؤا یہ کھانا بہت لذیذ بھی ھوتا تھا ، قوت بخش بھی-

سحری میں وشلی کھانے سے دن بھر نہ پیاس لگتی ، نہ کمزوری محسوس ھوتی – بزرگوں کی اپنی سائنس تھی – اس پر عمل کرنے سے فائدہ ھی ھوتا تھا ، نقصان کبھی نہیں –
اب اگر ھم وشلی کی روایت کو زندہ کرنا بھی چاھیں تو سرخ بارانی گندم کا آٹا ، گھر کاخالص دیسی گھی اور شہد جیسی میٹھی سرخ پشاوری شکر کہاں سے لائیں –

داؤدخیل کے ھر گھر میں سحری میں وشلی ھی کھائی جاتی تھی – رمضان المبارک ختم ھوتا تو لوگ مسکراتے ھوئے یہ ماھیا الاپتے سنائی دیتے-

لنگھ گئے روزے وڈا ارمان وشلیاں ناں

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-13 مئی 2020

سلام یا علی —————

تو نے سمجھا تھا جسے قتل کیا تھا تونے

ابن ملجم ترا مقتول ابھی زندہ ھے

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-13 مئی 2020

شدید گرمی —- نہ فریج ، نہ اے سی ، نہ پنکھے ، بجلی ھی نہ تھی پھر یہ چیزیں کون خریدتا – لیکن ان سہولتوں کے بغیر بھی روزے سب لوگ رکھتے تھے- صرف معصوم بچے اور بیمار لوگ اس پابندی سے مستثنی تھے- روزہ نہ رکھنا عیب سمجھا جاتا تھا – حیرت کی بات ھے کہ جو لوگ نماز بھی پابندی سے نہیں ادا کر سکتے تھے، وہ بھی روزے کا ناغہ نہیں کرتے تھے-

دوپہر کے وقت گرمی عروج پہ پہنچتی تو نوجوان لوگ نہر کا رخ کرتے اور دن بھر نہا دھو کر روزہ ٹھنڈا کر لیتے – کام کاج تھا نہیں، نہ ملازمت نہ کاروبار, سال بھر میں ایک بار گندم کی فصل سے جو آمدنی ھوتی لوگ اسی میں گذارہ کر لیتے تھے – رب کریم اسی معمولی سی آمدنی میں اتنی برکت ڈال دیتا تھا کہ تمام ضرورتیں پوری ھو جاتی تھیں – ضروریات زندگی بھی بہت کم تھیں ،بزرگ لوگ گھر کے نلکے (ھینڈ پمپ) یا کنوئیں کے تازہ ٹھنڈے پانی سے نہا کر گیلی دھوتی یا چادر اوڑھ کر چھپر کے سائے میں لیٹ جاتے – اللہ کا خاص کرم تھا ، ھلکی ھلکی ھوا دن بھر چلتی رھتی تھی – بدن پہ گیلا کپڑا , اوپر سے ھلکی ھلکی ھوا ، اے سی کی ایسی تیسی ، اس انتظام کا مزا اے سی سے کم نہ تھا –

ظہر کے وقت اٹھ کر نمازکے بعد ایک بار پھر نہا کر گیلی دھوتی لپیٹ کر سوجاتے – عصر کے بعد افطاری کے بندوبست میں مشغول ھو جاتے – دن گذرنے کا پتہ ھی نہ چلتا – خواتین دن بھر گھر کے کاموں میں مصروف رھتیں – وہ مردوں کی طرح نازک مزاج نہ تھیں ، دن کو بہت کم سوتی تھیں –

لوگوں کی زندگی کے معمولات آسان تھے – اس سے بھی اھم بات یہ تھی کہ لوگ صاحب ایمان تھے ، اس لیے روزہ رکھنا مشکل نہ تھا –

گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ–رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-14 مئی 2020

افطاری کے لیے زیادہ تکلف تو نہیں کیا جاتا تھا ، لیکن افطاری کے تصور میں روزے کا آخری ایک ڈیڑھ گھنٹہ بہت خوشگوار بن جاتا تھا ، دن بھر کی بھوک پیاس کا احساس غائب ھو جاتا تھا –داؤدخیل میں فروٹ کی کوئی دکان نہ تھی – اس موسم کا بہترین فروٹ خربوزہ اور تربوز شکورخیلوں کے کنوئیں پر مل جاتا تھا ، مگر خربوزہ اور تربوز افطاری کے وقت نہیں کھایا جا سکتا تھا – بزرگ کہتے تھے خربوزے اور تربوز کے ساتھ پانی پینے سے ہیضہ ھوجاتا ھے ، جس سے آدمی فورا مر جاتا ھے – پکوڑوں سموسوں کا رواج نہ تھا ۔ بس کھجور اور شربت سے افطاری کی رسم پوری کر لی جاتی تھی – ویسے بھی گرمی کے موسم میں بھوک سے زیادہ اصل مسئلہ پیاس کا ھوتا ھے – کھانا مغرب کی نماز کے بعد کھایا جاتا تھا –
اپنی پسند کا شربت لوگ خود بناتے تھے – املی آلوبخارا ۔ گوند کتیرا ، اسپغول ثابت یا تخم ملنگا افطاری سے ایک ادھ گھنٹہ پہلے پانی میں بھگو دیتے تھے ، پھر گڑ , یا چینی پانی میں حل کرکے اس میں لیموں نچوڑ کر املی آلو بخارا ، گوند کتیرا ، اسبغول یا تخم ملنگا ملادیتے تھے -برف کبھی کبھار ملتی تھی ، برف کی ضرورت ھی کیا تھی ، گھڑے کا پانی خاصا ٹھنڈا ھوتا تھا — آہ — داؤدخیل کے پانی کو کسی زمانے میں ھم جنت کا پانی کہا کرتے تھے —– گھر کے نلکے یا کنوئیں کا صاف شفاف ٹھنڈا میٹھا پانی بذات خود ایک ٹانک Tonic ھؤا کرتا تھا – لوگوں کا چلن بدلا تو پانی بھی بدل گیا – اب کسی نلکے یا کنوئیں کا پانی پینے کے لائق نہیں – لوگ نہر کے کنارے بلال مسجد کے نلکے سے پانی لاتے ھیں –

افطاری کے لیے جو شربت ھم بناتے تھے ، وہ پیاس کے ساڑ (جلن) کو فورا ختم کردیتا تھا ، ایک آدھ گلاس سے پیاس بھی بجھ جاتی کمزوری بھی ختم – شربت کے اجزا کے جو نام میں نے لکھے ھیں یہ چیزیں اب بھی پنساریوں کے ھاں ملتی ھیں – مگر لوگ لال پیلے بازاری شربتوں کے عادی ھوگئے ھیں ، اتنا تردد کون کرے گا –

افطاری کے وقت جو خوشی محسوس ھوتی ھے اس کا اپنا الگ مزا ھے ، جس کا ذکر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی فرمایا ھے –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-15 مئی 2020

ماہ رمضان المبارک کے آخری دو ھفتے گذرنے کا پتہ ہی نہ چلتا – یہ دوھفتے عید کی شاپنگ میں گذر جاتے- کپڑے اور جوتے زیادہ تر لوگ کالاباغ سے خریدتے تھے – مرد آرکنڈی ویل ( اچھی قسم کی ململ) کی قمیض اور لٹھے کی شلوار پہننا پسند کرتے تھے – اس زمانے میں لنن Linen کا کپڑا بھی مارکیٹ میں آیا – لینن کی قمیض پہننا بڑی عیاشی سمجھا جاتا تھا – لنن ریشمی کپڑا تھا جو کئی رنگوں میں دستیاب تھا – لنن انگریزی کا لفظ ھے – ان پڑھ لوگ بولنے کی کوشش کرتے تو گالی بن جاتا تھا ، اس لیے وہ اسے نیلم یا لیلینگ کہہ کر کام چلا لیتے تھے – لنن کا کپڑا کوئی خاص بڑی چیز نہ تھا ، مگر اس زمانے میں بڑی چیز سمجھا جاتا تھا -سب سے مہنگا مردانہ کپڑا جاپان کا دوگھوڑا بوسکی تھا ، مگر یہ صرف رئیس لوگ خرید سکتے تھے – داؤدخٰیل میں دوگھوڑا بوسکی صرف ایک منچلا غلام حسین رنگئ آلا پہنتا تھا – مزدور آدمی تھا ، مگر عید کے دن شہر میں سب سے مہنگا لباس اسی کا ھوتا تھا —— آہ — اس عید پر وہ ھم میں موجود نہیں – تقریبا 85 برس کی عمر میں پچھے سال یہ دنیا چھوڑ کر عدم آباد جا بسا – غلام حسین خان کے بارے میں پچھلے دو تین سال میں کئی پوسٹس لکھ چکا ھوں ——— حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

لینن کی آمد سے پہلے اکثر لوگ پاپلین کی قمیض ، سفید لٹھے کی شلوار پہنتے تھے- پاپلین کاٹن کا کپڑا تھا جو ھررنگ میں ملتا تھا –

کپڑے کی خریداری کے بعد درزیوں کے ھاں پھیرے شروع ھو جاتے – شہر میں تین چار درزی تھے ، کام بہت زیادہ ھوتا تھا ۔ درزیوں کے ساتھ توتکار اور رولے بہت دلچسپ ھؤا کرتے تھے – ھاتھا پائی تک تو نوبت کبھی نہ آئی تلخ جملوں کا تبادلہ اکثر سننے میں آتا تھا –رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-16 مئی 2020

اھلیہ کی وفات کا غم ابھی تازہ ھے – 61 سال کی رفاقت ختم ھونے کا غم کوئی معمولی غم نہیں ھوتا –

اسی غم کو بھلانے کے لیے میں روزانہ آپ کو ساتھ لے کر دور—- بہت دور——- ماضی کی وادیوں میں نکل جاتا ھوں – ان وادیوں میں راستے آپ کے دیکھے بھالے نہیں ، پھر بھی آپ کو ان راستوں پر چلنا اچھا لگتا ھے ، کیونکہ یہ راستے ان بزرگوں کے کردار کی خوشبو سے معطر ھیں جن کا خون آپ کی رگوں میں دوڑ رھا ھے – اپنے آبا و اجداد کی خوبصورت روایات ، سادگی، سخاوت ، زندہ دلی ، محبت ، ھمدردی، صبروتحمل ، دوست داری اور مہمان نوازی کا ذکر آپ کو اچھا لگتا ھے – یقینا اس ذکر سے آپ کے کردار پر بھی خوشگوار اثر پڑتا ھوگا ، آپ بھی ان جیسا بننا چاھتے ھوں گے -کیا بڑے لوگ تھے —— ھرحال میں اللہ کا شکر —– کئی ایسے بھی تھے جو نمک اور پانی سے روزہ افطار کرتے تھے کہ گھر میں کھانے پینے کو کچھ ھوتا نہیں تھا ، رات کی بچی ھوئی روٹی سحری کا کام دیتی تھی – اس حال میں بھی کوئی پوچھتا کیا حال ھے ، تو کہتے اللہ کا شکر ھے-

کوشش ھے کہ جب تک ھوں آپ کو اپنے علم اور قلم سے مستفید کرتا رھوں – علم کے بارے میں تو میں کوئی دعوی نہیں کر سکتا ، قلم کے بارے میں یہ کہوں گا ، کہ یہ رب کریم کا مجھ ناچیز پہ خاص احسان ھے ، ایسا احسان جو بہت کم لوگوں کو نصیب ھوتا ھے ، اردو ھو یا انگریزی ، میں یکساں آسانی اور روانی سے مؤثر اندازمیں لکھ سکتا ھوں – اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہی ھے کہ اس نعمت سے لوگوں کو مستفید کیا جائے – جو کچھ مجھ سے ھو سکتا ھے کر رھا ھوں ، اللہ قبول فرمائے –رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-17 مئی 2020

عید کے لیے جوتوں کی خریداری کالاباغ سے ھوتی تھی – ھمارے بچپن کے زمانے میں سب سے مقبول مردانہ جوتا فرمے والی کھیڑ تھا – آج کل تو پشاوری چپل کا رواج ھے ، مگرفرمے والی کھیڑ کی ایک اپنی شان تھی – پشاوری چپل اس زمانے میں بھی ملتی تھی ، مگر اسے کوئی پوچھتا بھی نہ تھا ، بہت خوبصورت چیز تھی فرمے والی کھیڑ – لوگ آرڈر پہ بنواتے تھے – ناپ اور کچھ پیسے ایڈوانس دے کر تاریخ مل جاتی تھی ۔ مقررہ تاریخ پر جوڑا تیار ملتا تھا – فرمے والی کھیڑ کا بہترین قسم کا جوڑآ 16 روپے میٰں ملتا تھا – ریڈی میڈ کھیڑ کی بجائے لوگ آرڈر پہ بننے والی کھیڑ (ساھی آلی کھیڑ) بنوانا پسند کرتے تھے -کالاباغ میں فرمے والی کھیڑ کے تین کاریگر ضلع بھر میں مشہور تھے —- چاچا ابراھیم ، چاچا فقیرا (فقیرمحمد) اور پشو استاد – پشو استاد بہت بڑا کاریگر تھا ، مگر جوئے اور نشے کی عادت میں مبتلا ھو کر تباہ و برباد ھوگیا۔

چاچا فقیرا اپنی مہارت کی وجہ سے نواب کالاباغ (ملک امیر محمد خان) کا بھی منظور نظر تھا – جب نواب صاحب گورنر بنے تو فقیرا کے دو بیٹوں کو ایچی سن کالج میں اپنے خرچ پر داخل کروادیا – ایچی سن کالج پاکستان کا وی آئی پی کالج ھے – وزیراعظم عمران خان بھی اس کالج کے طالب علم رھے – چاچا فقیرا کے دونوں بیٹے تعلیم مکمل کر کے بہت بڑے افسربن کر بیرون ملک چلے گئے –

کالاباغ کی بنی ھوئی فرمے والی کھیڑ ضلع بھر میں مقبول تھی – عید کے موقع پر میانوالی ، عیسی خیل اور بھکر کے نوجوان بھی کالاباغ آکر آرڈر پہ فرمے والی کھیڑ بنوایا کرتے تھے –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-18 مئی 2020

عید کے دن کا ناشتہ سیمیاں ھوتی تھیں – اردو میں سویاں ، پنجابی میں سیویاں ، میانوالی میں سیمیاں ، مگر ھم داؤدخیل والے سیمیاں (seemiyan) کہتے تھے –
رمضان المبارک کی 23 ویں شام کو بھی سیمیاں ھر گھر میں کھائی جاتی تھیں – خدا جانے کیوں ، بزرگوں سے پوچھنا یاد ھی نہ رھا ۔ اور وہ سرحدحیات کے پار جابسے –
سیمیاں بازار والی باریک سویاں نہیں ؛ گھروں میں بنی ھوئی موٹی سیمیاں ھوتی تھیں – رمضان المبارک کے نصف آخر میں خواتین کی اھم مصروفیت سیمیاں بناسیمیاں بنانے کی مشین گھوڑی کہلاتی تھی – گھوڑی کے منہ میں گیلے آٹے کا بڑا سا نوالہ ٹھونس کر ھینڈل کو گھماتے تو مشین کی چھانی (چھلنی) سے سیمیوں کے لچھے برآمد ھونے لگتے – دھوپ میں بچھی چارپائیوں پر صاف ستھری چادریں ڈال کر سیمیوں کے لچھے ترتیب سے سجا دیئے جاتے – ایک آدھ گھنٹے میں سیمیاں خشک ھو جاتیں تو سمیٹ کر چھکور میں ڈال لیتے –

خاصا ٹیکنیکل کام ھوتا تھا – آٹا ایک خاص حد تک بھگونا پڑتا تھا – مشین کا ھینڈل گھمانے کے لیے اچھا خاصا زور لگانا پڑتا تھا – عام طور پر بچوں کو تھوڑی بہت رشوت دے کر یہ کام ان سے لیا جاتا تھا –

گھوڑی جس گھر میں ھوتی وھاں دن بھر خواتین کا میلہ لگا رھتا تھا – اپنا اپنا آٹا سب گھرسے بھگو کر لاتی تھیں – زندہ دل لوگ تھے – گھر میں دن بھر خواتین کے قہقہوں کی کھنک گونجتی رھتی تھی –

سیمیاں پکانے کا عمل بہت سادہ تھا – سیمیوں کو گرم پانی میں ابال کر گرما گرم سیمیوںً پر گھر کا خالص گھی اور سرخ پشاوری شکر ڈال کر کھاتے تھے – کھانا اتنا آسان نہ تھا ، بہت احتیاط سے کھانا پڑتا تھا ورنہ ھاتھ ، منہ ،ناک سب کچھ گھی شکر سے لت پت ھو جاتا تھا –رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-19 مئی 2020

چاند رات کو بچے بوڑھے ، جوان ، سب لوگ ہاتھ پاؤں پہ مہندی لگاتے تھے- آج کی طرح مہندی سے کوئی ڈیزائین نہیں بناتے تھے ، بلکہ سیدھے سیدھے مکمل ہاتھ پاؤں لال کر لیتے تھے –

وہ مہندی بھی آج کی مہندی کی طرح کالی نہیں، بلکہ گہرے نارنجی رنگ کی لال مہندی ھوتی تھی – دکانوں پہ مہندی پاؤڈر بھی بکتا تھا ، لیکن چار پیسے بچانے کے لیے خواتین مہندی کے خشک پتے لاکر انہیں گھر میں پیس چھان کر پاؤڈر بنا لیتی تھیں – اس پاؤڈرمیں تھوڑا سا پانی اور رنگ گاڑھا کرنے کے لیے ایک آدھ چمچ سرسوں کا تیل ملا کر لوگ ھاتھ پاؤں پر لیپ دیتے تھے – صبح اٹھ کر ھاتھ پاؤں دھوتے تو مہندی کا رنگ لشکارے مارتا نظر آتا –
یہ مستقل رواج تھا ، کوئی اس سے مستثنی نہیں تھا -اس حوالے سے ایک بار پہلے کہا تھا ، آج پھروہی بات دہرا دیتا ہوں کہ عید کی نماز کے بعد دعا کے لیے اٹھے ھوئے مہندی لگے لال ہاتھوں کی قطاریں دیکھ کر آسمان پر فرشتے بھی مسکرا دیتے ہوں گے –

گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-20 مئی 2020

جھولا جھولنا بھی عید کی خاص رسم ھوتی تھی – جھولا دو قسم کا ھوتا تھا ۔ ایک پینگھ دوسرا شوتیر –
بچے اور خواتین گھر میں کسی درخت کی تگڑی سی شاخ کے ساتھ دو رسیاں باندھ کر گھر میں جھولا جھولتے تھے ، اس جھولے کو پینگھ کہتے تھے –

شوتیر —–– کھلے میدان میں دس پندرہ فٹ اونچے شہتیر (لکڑی کا گارڈر سمجھ لیں ) ایک دوسرے سے پانچ سات فٹ کے فاصلے پر گاڑ کر ان کے اوپرایک اور شہتیر اس طرح باندھتے تھے کہ دروازے کی چوکھٹ کا نمونہ بن جاتا تھا – اوپر والے شہتیر سے دو موٹے رسے لٹکا کر جھولا بنا لیا جاتا ، جسے ھم شوتیر کہتے تھے – شوتیر پر جھولا جھولنے کے لیے بازوؤں ، ٹانگوں اور سینے کا سارا زور لگا نا پڑتا تھا – شوتیر چڑھانے کا مقابلہ جوڑیوں کے درمیان ھوتا تھا – دو نوجوان جھولے پر آمنے سامنے کھڑے ھو کر جھولا جھولنا شروع کرتے- باری باری زور لگاتے ھوئے جھولے کا پھیرا دس پندرہ فٹ کی بلندی تک لے جاتے تھے – پھر ان کی جگہ دوسری جوڑی آجاتی تھی – دن بھر خوب شغل لگا رھتا –

شوتیر چڑھانا ھر بندے کے بس کا روگ نہیں – جسم کا پورا زور لگانا پڑتا تھا – بہت مشکل کام تھا –

ھمارے داؤدخیل میں شوتیر کے سب سے بڑے ماھر چاچا محمد عظیم خان عرب زئی تھے – ان کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا تھا –

گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ—رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک- 21 مئی 2020

عید کا دن —————
نماز عید ادا کرنے کے بعد سیمیوں کا ناشتہ کرکے بچے اور نوجوان دن بھر شہر میں گھومتے پھرتے رھتے-نئے کپڑے ، نئے جوتے ، جیب میں پیسے —– محلہ امیرے خیل میں ماما حمیداللہ خان کی کراری جلیبیاں —– ماما حمیداللہ خان بہت زندہ دل انسان تھے – ان سے ھنسی مذاق کا لطف بھی جلیبیوں سے کم نہ تھا – سارا دن ان کی دکان پر قہقیے گونجتے رھتے -عید کے دنوں میں ماما دکان کے باھر جلیبیوں کی کڑاھی اور تھال لگا کر بیٹھتے تھے ، یوں آتے جاتے لوگوں کے ساتھ چھیڑچھاڑ میں آسانی رھتی تھی -محلہ علاؤل خیل اور انزلے خیل کے لوگ حاجی سلطان محمود المعروف حاجی کالا کی جلیبیوں اور پکوڑوں سے لطف اندوز ھوتے – اتلے (شمالی) شہر میں بھی دکانوں پر رونق ھوتی تھی ، مگر وھاں جلیبیاں اور پکوڑے بنتے ھم نے نہیں دیکھے-

سوڈا واٹر کی ٹھاہ کر کے کھلنے والی بوتلیں بھی بہت چلتی تھیں- محلہ داؤخیل کا لالا میچن کمہار گھر کے سامنے بوتلوں کا سٹال لگایا کرتا تھا – لالا میچن بھی ماما حمید اللہ کی طرح بہت زندہ دل اانسان تھا – اس سے بھی سب لوگوں کا ھنسی مذاق چلتا رھتا تھا –
لوگ شام تک شہر میں چل پھر کر عید ملتے رھتے – عید ملنے کا طریقہ یہ تھا کہ ایک دوسرے کو گلے لگا کر کہتے “عید چن مبارک“ اور پھر آگے بڑھ جاتے – کوئی واقف ھو یا ناواقف ، گلی میں جو بھی مل جاتا اسے گلے لگا کر “عید چن مبارک“ ضرور کہتے تھے –

بچے جلیبیوں کے شیرے سے ھاتھ منہ اور کپڑوں کا ستیاناس کرکے شام کو گھر آتے تو ماؤں کے ڈائیلاگ پورا محلہ سنتا تھا –

گذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ—رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-22 مئی 2020

عید سے ایک آدھ دن پہلے جناب رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینے کی ایک گلی میں سے گذر رھے تھے – دیکھا کہ ایک بچہ گلی میں کھڑا رو رھا ھے – پوچھا کیوں رو رھے ھو – بچے نے کہا میں یتیم ھوں – میرے پاس عید پہ پہننے کے لیے کپڑے نہیں ھیں –
سرکار دوعالم نے بچے کو سینے سے لگا کر کہا “ بیٹا، محمد تمہارا ابو بن جائے تو کیسا لگے گاِ ؟ “
بچہ مسکرا دیا –
رسول اکرم بچے کو ساتھ لے کر گئے اور اسے عید کے لیے کپڑے خرید کر دے دیئے -<یہ واقعہ صرف یاد دہانی کے لیے لکھا ھے – سنت رسول اکرم پر عمل کا جو موقع اللہ نے آپ کو دیا ھے ، اس سے فائدہ اٹھائیں – اس موقع پر یتیموں اور غریبوں کی مدد سے آپ کی دنیا بھی سنور سکتی ھے ، آخرت بھی –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-23 مئی 2020

اس عید پہ اپنا شعر —————
آج میں آسماں پہ کیا ڈھونڈوں ؟
چاند میرا زمیں میں ڈوب گیا

عزیز ساتھیو ، السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ ———- عید مبارک

رب کریم آج کے دن آپ کی ھر دعا قبول فرمائے ، آپ کی ھر مشکل آسان ھو- آپ کو بے حساب عزت اور خیروبرکت عطا ھو – رب رحیم امت مسلمہ کو ھر آفت سے محفوظ فرمائے -رب اغفر وارحم لامت رسولک—رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-24 مئی 2020

عید کا دوسرا دن ——————

عید کا دوسرا دن خواتین کی عید کہلاتا تھا – اس دن خواتین اپنے محلے میں گھوم پھر کر عید مناتی تھیں – دیہات میں پردے کا رواج نہ تھا – مگراس دور کا لباس بھی پردے سے کم نہ تھا – سب سے بڑا پردہ مردوں کی غیرت کا تھا – خواتین کی عید کے دن مرد گھروں سے باھر کم ھی نکلتے تھے – اگر سامنے سے خواتین آتی نظرآتیں تو مرد دائیں بائیں کسی گلی میں مڑ کر ان کے راستے سے ہٹ جاتے تھے – اگر قریب کوئی دوسری گلی نہ ہوتی تو دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑے ھو جاتے – ایک بہت پیارا ضابطہ اخلاق تھا ، جس کی پابندی کے لیے کسی قانون یا سزا کی ضرورت ہی نہ تھی – سب لوگ اس ضابطہءاخلاق پرغیر مشروط عمل کرتے تھے -عید کے دوسرے دن خواتین عام طور پر ٹولیوں کی شکل میں گھروں سے باھر نکلتیں – بچوں کی فوج بھی ساتھ ھوتی تھی – یہ فوج حفاظت کے لیے نہیں ، اپنی فرمائش کی چیزیں خریدنے کے لیے ساتھ چلتی – بچے عام طور پر غلیلیں ، دوتین روپے میں ملنے والی کالے نیلے شیشوں کی عینکیں ، کھٹی میٹھی گولیاں اور اس قسم کی کئی اور فضول چیزیں خریدتے تھے –

بچیاں پیتل کے زیورات ، چھلے، مندریاں ، کانٹے ( کانوں کی بالیاں ) وغیرہ لیتی تھیں – خواتیں کنگھیاں ، پاندریاں (پراندے) مساگ (دنداسہ) سرسوں کا تیل ، جھاڑو وغیرہ خریدتی تھیں – یہ ھوتی تھی ان سادہ دل خواتین کی عید شاپنگ ، اس کا آج کی خواتین کی عید شاپنگ سے موازنہ کر کے دیکھیں تو پسینہ آجائے –

ماما حمیداللہ خان اور حاجی کالا کی جلیبیاں اور پکوڑے بھی خواتین کی خاص پسند کی چیزیں تھیں – ماما حمیداللہ سے خواتین کا بھی ہنسی مذاق چلتا تھا – کیا پیارے لوگ تھے – غریب و سادہ ، مگرغیور ، زندہ دل ، فراخ دل ، مہمان نواز— بہت پرسکون معاشرہ تھا ، اس دور کا

—گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ—رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-25 مئی 2020

عید کا تیسرا دن —————-

ماڑی انڈس ریلوے سٹیشن کے جنوب میں ، دریا کے کنارے گھنے جنگل میں ایک بزرگ سید شاہ گل حسن کے مزار پرمیلہ ضلع میانوالی کے اجتماعی کلچر کا سب سے بڑا مظہر ھؤا کرتا تھا – یہ میلہ عید کے تیسرے دن منعقد ھوتا تھا – اس میلے میں عیسی خیل سے بھکر تک کے لوگ شریک ھوتے تھے – (ضلع بھکراس زمانے میں ضلع میانوالی کی تیسری تحصیل ھؤا کرتا تھا )-
اس میلے کے بارے میں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ھوں – نئے ھمسفر دوستوں کے لیے یہ داستان ایک بار پھر دہرا رہا ہوں-یہ خالص مردانہ میلہ تھا – 8 سال کے بچوں سے لے کر 80 سالہ بزرگو ں تک ہر عمر، ہرقبیلے کے لوگ اس میلے میں حاضری دیتے تھے – اللہ معاف کرے اس میلے میں حاضری بھی نماز عید کی طرح واجب سمجھی جاتی تھی – ماڑی انڈس آنے والی تمام ٹرینوں اور بسوں کی چھتوں، کھڑکیؤں اور پائدانوں سے بھی لوگ مکھیوں کی طرح چمٹے ھوتے تھے –

اس میلے کو مقامی زبان میں “سیل“ (سیر) کہتے تھے –

دلچسپ بات یہ کہ اس میلے میں کوئی ایسا کاروبار نہیں ہوتا تھا ، جو عام دنوں میں ہرجگہ نہ ہوتا ہو- بس گردونواح کے علاقے سے دکان دار اپنا سامان لا کر جنگل کے سائے میں زمین پر بچھا دیتے تھے – میلے میں آنے والے لوگ اپنی پسند کی کوئی نہ کوئی چیز خرید لیتے تھے – یوں ان دکان داروں کی اچھی خاصی دیہاڑی بن جاتی تھی
– بچے اپنی عیدی کے پیسے بھی اس دن کے لیے بچا رکھتے تھے –

ایک دن کے لیے فرشی ہوٹل بھی ہوتے تھے – لوگ زمین پر بیٹھ کر مزے سے کھا پی لیتے تھے – کوئی بڑا افسرہو تو اپنے دفتر یا گھر میں ہوتا ہوگا ، میلے میں اسے بھی زمین پر بیٹھ کر کھانا پینا پڑتا تھا –

ہمارے داؤدخیل سے چاچا اولیا بھی یہاں آکرجلیبیوں کا کاروبار کرتے تھے – جلیبیوں کے علاوہ کوئی مٹھائی میلے میں نہیں دیکھی – فروٹ بھی وہاں نہیں ملتا تھا – سوڈا واٹر کی بوتلیں ، سکنجبین وغیرہ مل جاتی تھی – سب سے بڑی نعمت دریا کا برف جیسا ٹھنڈا پانی تھا – فرشی ہوٹلوں پر کھانا کھانے والوں کو یہی پانی فراہم کیا جاتا تھا –

سنا ہے میلے کے اردگرد پہاڑیوں کی اوٹ میں زبردست جؤا بھی ہوتا تھا ، مگر ہم نے وہ مخلوق میلے میں کبھی نہیں دیکھی – وہ لوگ ادھر پہاڑیوں کی اوٹ میں ہی منہ کالا کر کے واپس لوٹ جاتے تھے –

شام سے ذرا پہلے لوگ واپسی کی راہ لیتے —— ویران سنسان جنگل سال بھر کے لیے پھر جنات اور چڑیلوں کا مسکن بن جاتا –

گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ—رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-26 مئی 2020

فارسی کے ایک قدیم شاعر انوری نے کہا تھا —————

ہر بلائے کزاسماں آید
گرچہ بر دیگرے قضا باشد
برزمیں نارسیدہ می پرسد
خانہ ء انوری کجا باشد(آسماں سے جو مصیبت بھی نازل ھوتی ھے اگرچہ کسی دوسرے کے حصے کی بھی ھو ، زمین پر پہنچنے سے پہلے پوچھتٰی ھے انوری کا گھر کدھر ھے)-
اللہ معاف فرمائے ——————
یہی ہورہا ہے آج کل پاکستان کے ساتھ بھی – کورونا کی مصیبت کیا کم تھی کہ اوپر سے ٹڈی دل کی یلغار بھی شروع ہو گئی ——- یہ مت پوچھیئے کہ یہ ھمارے کون سے گناہوں کی سزا ہے- گناہ کوئی ایک ہو تو پوچھیں – یہاں تو ہر وہ عمل جس پر رب قہار نے پوری پوری قومیں صفحہ ہستی سے مٹا دیں ، کھلے عام ہو رہا ہے – اور ہم کہتے ہیں کہ جی کملی والے کا کلمہ پڑھ لیا ہے ، جو کرتے پھریں معافی مل جائے گی –
یہ بات نہیں ، سود، زنا کاری ، قتل وغارت ایسے جرم ہیں جن کی معافی کی سفارش نہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کریں گے ، اور نہ ہی اللہ معاف کرے گا —— اور یہ بھی نہ سمجھیں کہ سزا قیامت کے دن ملے گی – اللہ قیامت کا پابند نہیں ، سزا اس دنیا میں بھی دے سکتا ہے اور کئی لوگوں کو سزا مل بھی رہی ہے، مگر ————
سوچیئے ، اور یاد رکھیے کہ اللہ چاہے تو ایک لمحے میں تمام مصیبتیں ختم کر سکتا ہے – مانگنے کی توفیق تو اس نے سب کو دی ہے – کیا خبر ہم میں سے کس کی دعا قبول کر لے – سرجھکائیے ، ہاتھ اٹھائیے ، امید ہے وہ ہم پر رحم کرے گا -شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات—
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-27 مئی 2020

یا اللہ رحم ———————-

ٹڈی دل عذاب الہی کی ایک بہت اذیت ناک صورت ھے –
دل کے معنی ھیں لشکر یا فوج – ٹڈی کو انگریزی میں locust اردو میں ٹڈی، اور ہماری زبان میں مکڑی کہتے ہیں – یہ لشکر جس علاقے پر نازل ہو جائے وہاں منٹوں میں فصلوں اور درختوں کے پتوں کا صفایا کر دیتا ہے – فصلوں کی تباہی کے نتیجے میں قحط کی وجہ سے لوگ بھوک سے مر جاتے ہیں -<ایک بڑا ٹڈی دل 8 کروڑ تک ٹڈیوں پر مشتمل ھوتا ہے – افریقہ سے ایک ٹڈی دل 10 دن میں یورپ پہنچا – 3000 کلومیٹر کا سفر 10 دن میں —– ایک دن میں300 کلومیٹر بنتا ہے —– !!!
ٹڈی دل کی تاریخ بہت قدیم ہے – فرعون کے زمانے میں ٹڈی دل کے حملے سے پیدا ہونے والے قحط میں لاکھوں لوگ بھوک سے مر گئے تھے – 1988-89 میں افریقہ میں ٹڈی دل نے بہت تباہی مچائی –

جب ھم پانچویں کلاس میں پڑھتے تھے ، اس وقت ھمارا علاقہ (ضلع میانوالی) ٹڈی دل کے حملے کی زد میں آیا —- حکومت نے ٹڈی دل کو تلف کرنے کے لیے دوسرے اداروں کے علاوہ سکولوں کے ٹیچرز اور سٹوڈنٹس کو بھی شامل کرنے کا حکم دیا –

ھماری کلاس انگلش ٹیچر محمد رفیق قریشی صاحب (بعد میں ریلوے میں ملازم ہو گئے) کی قیادت میں داؤدخیل نہر کالونی پہنچی – ہمارا کام ٹڈی دل کے بچوں کو ختم کرنا تھا —- زمین پر ٹڈی دل کے ہزاروں بچے اچھلتے کودتے پھرتے تھے – یہ بظاہر معصوم بچے چند دن میں بڑے ہو کر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلا سکتے تھے –

ٹڈی دل کے بچوں کی ایک بہت پیاری عادت یہ ہے کہ جہاں یہ موجود ہوں وہاں گڑھے یا نالیاں کھودی جائیں تو یہ دھڑا دھڑ بھاگتے ہوئے ان گڑھوں اور نالیوں میں داخل ہو جاتے ہیں – جوگڑھا یا نالی بھر جائے اوپر سے مٹی ڈال کر زمین برابر کر دیں ، قصہ ختم –
نہر کالونی کے علاقے میں ہماری کلاس نے یہی کارروائی کر کے ٹڈی دل کے لاکھوں بچوں کو کیفر کردار تک پہنچایا –

رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-28 مئی 2020

میانوالویت ——————–
ہر علاقے کے لوگوں کی کچھ نمایاں خصوصیات اس علاقے کی پہچان ہوتی ہیں – زبان اور لباس کے علاوہ کردار کے بعض پہلو بھی علاقے کا پتہ دیتے ہیں -میانوالی کے لوگ گھر میں چاہے ایک دوسرے سے بات بھی نہ کرتے ہوں، گھر سے باہر دوسرے شہر یا ملک میں ایک دوسرے کے لیے جان بھی دے سکتے ہیں – گھر سے پاہر ایک دوسرے سے محبت اور تعاون میانوالی کے لوگوں کی ایک اہم صفت ہے – اس کی کئی مثالیں اپنی گذشتہ پوسٹس میں لکھ چکا ہوں – مثلا پچھلے دنوں پولیس کانسٹیبل چاچا شہبازخان بہرام خیل کے بارے میں بتایا تھا کہ مجھے دور سے آتے دیکھ کر ہی چاچا شہبازخان نے ٹور(چلنے کے انداز) سے اندازہ لگا لیا تھا کہ بندہ میانوالی کا ہے – مفصل تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ ہم دونوں داؤدخیلوی ہیں – میں اس وقت گارڈن کالج پنڈی میں فرسٹ ائیر کا سٹوڈنٹ تھا اور چاچا شہباز خان C ڈویژن تھانے میں متعین تھے – پنڈی میں ہماری یہ ملاقات عمر بھر کی دوستی کا سبب بن گئی –

ایک دن میں راولپنڈی سے کندیاں جانے والی ٹرین سے اپنے گھر داؤدخیل آ رھا تھا – گولڑہ ریلوے سٹیشن پر پانی پینے کے لیے اترا ، واپس آیا تومیری سیٹ پر کوہاٹ کے علاقے کے ایک صاحب قابض ہو چکے تھے – میں نے کہا یہ میری سیٹ ہے – ان صاحب نے بڑی رعونت سے کہا “ کیا اس پر تمہارا نام لکھا ہوا ہے ؟ “
ان صاحب کی یہ “ تڑی“ سن کر اچانک ٹرین کے اس ڈبے میں سے پانچ سات نوجوان اپنی سیٹوں سے اٹھ کر ان صاحب کی طرف لپکے – وہ سب میانوالی کے تھے – میں ان میں سے کسی کو نہیں جانتا تھا –
ان نوجوانوں نے ان صاحب سے کہا “ بابا جی ، سیٹ تو اب آپ کو چھوڑنی پڑے گی “-
ان میں سے ایک نے کہا “سیٹ نہیں ، اب ٹرین بھی چھوڑنی پڑے گی – میانوالی کے بندے کو چھیڑنے کی کم ازکم اتنی سزا تو ملنی چاھیے “-

جوانوں کے یہ جارحانہ عزائم دیکھ کر وہ صاحب سیٹ چھوڑ کر گاڑی کے کسی دوسرے ڈبے میں جا بیٹھے –
میانوالویت کا ذکر کچھ دن مزید جاری رہے گا –ھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-29 مئی 2020

میانوالی کے لوگوں کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ آپ میانوالی کے کسی آدمی کا معمولی سا کام بھی کردیں ، وہ اسے یاد رکھتا ہے اور موقع ملنے پر حسب توفیق اس احسان کا صلہ ضرور دیتا ہے-

ایسے بہت سے واقعات میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں – جو واقعہ یاد آتا ہے پوسٹ کی صورت میں لکھ دیتا ہوں – مقصد نئی نسل کے لوگوں کو اپنے بزرگوں کی تقلید کے لیئے motivate کرنا ہے –

ایک دفعہ میں اپنے بیٹے کے ساتھ سرگودہا سے میانوالی آرہا تھا – اس دن کسی وجہ سے بسوں کی شدید قلت تھی – ھم سرگودھا کے بس سٹینڈ پر سڑک کے کنارے ایک ہوٹل میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ سامنے پٹرول پمپ پر نیوخان بس سروس کی ایک بس آکر رکی – کنڈکٹر کسی کام سے ہوٹل میں آیا تو ہمیں وہاں بیٹھا دیکھ کر سیدھا ھماری طرف آیا اور مجھ سے کہا “ سر، آپ گھر جا رہے ہیں ؟“

میں نے بتایا کہ ہم گھر ہی جارہے ہیں – یہ سن کر اس نے ھمارا سامان اٹھایا اور یہ کہہ کر بس کی طرف چل دیا “ سر، آپ آرام سے چائے پی لیں ، میں آپ کے لیے سیٹوں کا بندوبست کرتا ہوں –

خوشاب جانے والے دو مسافروں کو فولڈنگ سیٹوں پر بٹھا کر اس نے ھمارے لیے سیٹ خالی کروادی – میں نے پوچھا “ بیٹا ، آپ کالج میں میرے سٹوڈنٹ رہے ہیں ؟“
اس نے کہا “نہیں سر ، میں ایک دوسال پہلے آپ سے کچھ کاغذات کی تصدیق (attestation) کروانے کے لیے آیا تھا — رات کا وقت تھا ، آپ مجھے جانتے بھی نہیں تھے – پھر بھی آپ نے میرا کام کردیا“-

اللہ اکبر —– !!!! کیا کمال کے لوگ ہیں – میں نے تو بس چند کاغذوں پر دستخط کر کے مہر لگا دی تھی – ایک منٹ کا کام تھا ، مگر اس کو بھی اس نوجوان نے بڑا احسان سمجھ کر یاد رکھا ، اور موقع ملتے ہی اس احسان کا حساب برابر کر دیا –رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-30 مئی 2020

کل میانوالی کے لوگوں کی احسان شناسی کا ذکر ہؤا – میں نے کہا میانوالی کے لوگوں کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ کسی کا معمولی سا کام بھی کردیں تووہ آدمی اسے احسان سمجھ کر یاد رکھتا ہے، اور جب بھی موقع ملے اس احسان کا حسب توفیق صلہ ضرور دیتا ہے –

میری اس بات پر کمنٹس میں کچھ دوستوں نے کہا کہ اب وہ پہلی سی بات نہیں رہی – آج کے لوگ احسان فراموش ہیں ، وہ احسان کی قدر نہیں کرتے –
کسی حد تک بات یہ بھی درست ہے ، پرانی اقدار اور روایات میں زوال ضرور آیا ہے – لوگ اب “سیانے “ ہوگئے ہیں – کسی شاعر نے ٹھیک ہی کہا تھا ———–اس ہوش سے اچھی تھی ، ظالم تری بے ہوشی

لیکن مجموعی لحاظ سے میانوالی کے لوگوں کا کردار اور ضمیر کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوا – بہت سی اچھی روایات اب بھی زندہ ہیں – نئی نسل کے لوگ پرانی روایات کے بارے میں میری تحریریں بڑے شوق سے پڑھتے ہیں ، اور یقینا اپنے آبا وآجداد کی ان تابناک روایات پر حتی الوسع عمل بھی کرنا چاہتے ہیں – اس لیے میں میانوالی کے مستقبل سے مایوس نہیں ہوں – گذرا دور تو واپس نہیں آسکتا ، لیکن بہت سی اقدار اور روایات دوبارہ زندہ ضرور ہو سکتی ہیں – اللہ کرے ایسا ہو جائے تو ماضی کی طرح آج بھی یہ خطہ جنت بن سکتا ہے-رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-31 مئی 2020-

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top