منورعلی ملک کےمئی 2021 کےفیس بک پرخطوط
اہلیہ مرحومہ کے نام ۔۔۔۔۔۔
تجھ سے بچھڑا ہوں تو آگے کا سفر مشکل ھے
اہلیہ کی برسی کے سلسلے میں دو دن داؤدخیل میں گذارنے کے بعد ہم اتوار کو تقریبا 4 بجے میانوالی پہنچے تو کچھ دیر بعد ٹی وی پہ یہ ہولناک خبر دیکھی کہ داؤدخٰیل کے ایک درندہ صفت شخص نے اپنی تین معصوم بچیوں کو گولی مار کر قتل کردیا – بچیاں معصوم بھی تھیں ، مظلوم بھی ، اس لیئے ان کی موت شہادت شمار ہوگی – تفصیلات کا علم نہیں ، وجہ جو بھی ہو معصوم بچیوں کا قتل سراسر نہایت سنگین جرم ہے –
بچیوں کا قتل تو عرب کے کفار کا دستور تھا – گھر میں بچی پیدا ہونا وہ لوگ غیرت کے منافی سمجھتے تھے اس لیئے بچی کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر کے اپنی غیرت کی پیاس بجھاتے تھے- لعنت ہے ایسی غیرت پر – بیٹی کا مقام تو یہ ہے کہ جب سیدہ فاطمتہ الزھرا حاضر ہوتیں تو کائنات کے سب سے معزز انسان جناب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے استقبال کے لیئے کھڑے ہو جاتے تھے –
سرکار دوعالم کا یہ عمل ایک سبق تھا امت کے لیے کہ بیٹیوں کو عزت دو- لیکن ہمارے ہاں ————– اللہ معاف کرے-
داؤدخیل میں تین بچیوں کے قتل کی لرزہ خیز واردات کا مجرم اللہ کے قانون میں تو ناقابل معافی ہے – بندوں کے ہومیوپیتھک قانون میں ہر قسم کے مجرم کے لیئے فرار کے راستے ہر وقت کھلے رہتے ہیں – اللہ جانے اس کیس کا کیابنے گا ، لیکن اللہ کی عدالت میں اس کیس کی ایف آئی آر اس مجرم کو بچنے نہیں دے گی – اس کے لیئے دنیا بھی جہنم ہوگی ، آخرت بھی –
حیران ہوں ہمارے داؤدخیل کو کس کی نظر لگ گئی – یہ شہر تو امن کا گہوارہ تھا – ہمارے بچپن کے پہلے آٹھ دس سال میں صرف ایک قتل ہواتھا ، تقریبا 25 سال کے عرصے میں صرف تین قتل ہوئے – مگر اب ———————
یہ کیا ہو رہا ہے ؟ کیوں ہو رہا ہے – صرف سوچنا نہیں ، اس صورت حال کا کوئی حل بھی نکالنا ھے – ورنہ اللہ کا قانون حرکت میں آیا تو کچھ بھی باقی نہیں بچے گا –
—————— رہے نام اللہ کا —––بشکریہ-منورعلی ملک-4 مئی 2021
کعبہ میں ولادت، تربیت آغوش پیمبر میں پائی،
مسجد میں علی، منبر پہ علی، میداں میں علی، بستر پہ علی
میرا میانوالی
عید کی تیاریوں میں ایک اہم مرحلہ جوتوں کی خریداری کا ہوتا تھا – بزرگ لوگ مقامی موچیوں سے اس علاقے کی مخصوص چپل بنواتے تھے – یہ بالکل سادہ سی چپل سینڈل سے ملتی جلتی تھی – ایک جوڑا آٹھ دس روپے میں مل جاتا تھا – یہی ایک جوڑا سال بھر چلتا تھا – یہ ہلکی پُھلکی چپل کنے والی کھیڑی کہلاتی تھی –
نوجوان لوگ کالاباغ سے سپیشل قسم کی چپل آرڈر پر بنواتے تھے – یہ چپل فرمے والی کھیڑی کہلاتی تھی – بہت خوبصورت مضبوط اور پائدار چیز تھی فرمے والی کھیڑی –
ویسے تو کالاباغ میں بہت سے لوگ یہ کھیڑی بناتے تھے ، لیکن چاچا پَشُو ، چاچا ابراہیم اور چاچا فقیر محمد یہ کھیڑی بنانے کے سپیشلسٹ تھے – ان کی بنائی ہوئی کھیڑی کی نرالی شان ہوتی تھی، یہ کھیڑی نوجوانوں کی مردانہ وجاہت کو چارچاند لگا دیتی تھی – آرڈر پر ایک جوڑا 16 روپے کا بنتا تھا – ایک ہفتہ پہلے کالاباغ جاکر پاؤں کا ناپ اور پانچ سات روپے ساہی (ایڈوانس) دینے پر وصولی کی تاریخ ملتی تھی – مقررہ تاریخ کو بقیہ پانچ سات روپے ادا کر کے چپل وصول کی جاتی تھی –
خواتین محلے کی دکانوں سے سستی قسم کی چپلیاں خرید لیتی تھیں – دیہات میں یہ ریڈی میڈ چپلیاں بھی کریانے کی دکانوں سے ملتی تھیں – بچوں کے جوتے بھی وہیں سے ملتے تھے – پلاسٹک ابھی مارکیٹ میں نہیں آیا تھا – ہر قسم کے جُوتے چمڑے سے بنتے تھے – کیا دور تھا ، وی آئی پی جُوتا (فرمے والی کھیڑی) صرف 16 روپے میں ملتی تھی – اب یہ صورتِ حال ہے کہ پچھلے مہینے لاہور میں اکرم بیٹے نے میری فرمائش پر ایک سادہ سی چپلی مجھے خرید کر دی – قیمت 1650 روپے –—— رہے نام اللہ کا ———بشکریہ-منورعلی ملک- 5 مئی 2021
میرا میانوالی
عید کے کپڑوں اور جُوتوں کی خریداری کے لیئے کالاباغ کے پھیرے لگانے میں ماڑی انڈس ٹرین سے استفادہ کیا جاتا تھا – لاہور سے ماڑی انڈس آنے جانے والی یہ ٹرین صبح سات آٹھ بجے داؤدخٰیل پہنچتی تھی – داؤدخیل سے ماڑی انڈس تک دس پندرہ منٹ کا سفر تھا – ماڑی انڈس ریلوے سٹیشن پر ٹرین سے اُتر کر دریا کے پُل سے پیدل گذرنے کے بعد دائیں ہاتھ مُڑ کر کالاباغ شہر میں داخل ہوتے تھے –
کالاباغ میں دو بازار تھے – اب بھی ہیں – ایک مین بازار ، دوسرا لوہاراں والا بازار – مین بازار تقریبا آدھا کلومیٹر لمبا ہے – کپڑے ، جُوتے اور آرائش (میک اپ) کا سامان اس بازار میں ملتا ہے- مین بازار کے مشرقی سرے پر لوہاراں والا بازار ہے – اس میں گھریلو ضرورت کا لوہے کا سامان چُھریاں ، چاقُو ، کڑاہیاں اور زرعی آلات بنتے اور فروخت ہوتے تھے – کالاباغ کے مشہور و معروف حلوے کی دکان اسی بازار میں اندھیری گلی کے دہانے پر واقع تھی – محمد امین کی یہ دکان پُورے ضلع میں مشہور تھی – اس چھوٹی سی دکان کے سامنے ایک دو سادہ سے بنچ اور میزیں پڑی پوتی تھیں – یہاں چائے بھی بہت اعلی ملتی تھی – دن بھر لوگوں کی آمدورفت جاری رہتی تھی – عجیب مزا تھا محمد امین کے حلوے میں –
بغوچی محاذ کے نام سے ایک مقامی تنظیم نے جاگیرداری نظام کے خلاف عَلَمِ بغاوت بلند کیا تو بہت سے کاروباری لوگ یہاں سے ہجرت کر کے ڈی جی خان ، فیصل آباد اور کراچی میں جابسے – محمدامین حلوائی بھی ان میں شامل تھے –
عید کے لیئے کپڑوں اور جُوتوں کی خریداری مکمل کرنے کے بعد داؤدخیل سے آئے ہوئے لوگ ماڑی انڈس ریلوے سٹیشن پر ٹرین میں بیٹھ کر واپسی کی راہ لیتے تھے – ٹرین 5 بجے روانہ ہوتی تھی –
کالاباغ کا دورہ اچھی خاصی سیرو تفریح کا وسیلہ تھا – پُل پر سے گذرتے ہوئے دائیں جانب کُکڑانوالہ کا ننھا سا گاؤں دریا کے کنارے بیٹھا معصوم سا بچہ لگتا تھا – سامنے دلکش کالاباغ شہر اور بائیں جانب جناح بیراج کی شان و شوکت , پاؤں کے نیچے سے گذرتا ہوا شیردریا سندھ —- ایک عجیب سی حیرت اور خوشی کا احساس ہوتا تھا –——————— رہے نام اللہ کا —-—بشکریہ-منورعلی ملک-6 مئی 2021
میرا میانوالی
پینگ اور شَوتِیر بھی عید کی خاص روایات تھیں – بچوں کے لیئے پِینگ ہر گھر میں بنتی تھی – مائیں گھر کے کسی درخت یا چھپر سے رسی کے دونوں سرے باندھ کر بچوں کے لیئے پِینگ بنا دیتی تھیں جس پر وہ سارا دن جھُولتے رہتے تھے – شام کے بعد پِینگ پر خواتین کا تسلط ہوتا تھا – ان کے قہقہوں کی کھنک پُورے محلے میں سنائی دیتی تھی –
کبھی پیِنگ کی رسی ایک سائیڈ سے ٹُوٹ جاتی تو بچے ایک سائیڈ والی بقیہ رسی سے لٹک کر جھُولا جُھولنے کا شوق پورا کرتے رہتے تھے – اس ایک رسی (لَڑ) والی پینگ کو “گَھم ٹَٹُو“ کہتے تھے –
شَوتِیر —— دس پندرہ فٹ اُونچے دو شہتیر ( لکڑی کے گارڈر سمجھ لیں ) ایک دوسرے سے پانچ چھ فٹ کے فاصلے پر گاڑ کر ان کے درمیان موٹے رسے کی بڑے سائیز کی پینگ بنتی تھی جسے شوتیر کہتے تھے – شوتیر نوجوانوں کی زورآزمائی کے لیئے بنتا تھا – محلے کے نوجوان مل کر محلے میں کسی کھلی جگہ پر شوتیر بناتے تھے – یہ کسی ایک گھر کی ملکیت نہیں بلکہ پبلک پراپرٹی ہوتا تھا – دونوجوان شوتیر کے ڈنڈے (پِھنڈی کہتے تھے) پر آمنے سامنے کھڑے ہو کر بازوؤں اور ٹانگوں کا پُورا زور لگا کر زیادہ سے زیادہ بلندی تک جانے کی کوشش کرتے تھے- سب سے زیادہ بلندی تک جانے والی جوڑی فاتح قرار پاتی تھی –
ہمارے محلہ کے محمد عظیم خان ربزئی پورے شہر میں مانے ہوئے شوتیر باز تھے – چھوٹے قد اور درمیانی جسامت کے اس نوجوان کو قدرت نے بے پناہ طاقت سے نوازا تھا —— شوتیر کے گرد دن بھر نوجوانوں کا میلہ لگا رہتا تھا – نعرے اور قہقہے پورے محلے میں گونجتے رہتے تھے –
———————- رہے نام اللہ کا —––بشکریہ-منورعلی ملک- 7 مئی 2021
میرا میانوالی
لے او یار حوالے رب دے ، میلے چار دناں دے
کیا کہوں۔۔۔۔۔ الفاظ ساتھ نہیں دے رہے۔ تین دن سے صدمے کی کیفیت میں ھوں۔ میں تو عید کے بعد ان سے ملنے کا پروگرام بنا رہا تھا۔ کیا خبر تھی کہ بھائی صاحب عید جنت میں منائیں گے۔
گورنمنٹ کالج میانوالی کے سابق لائبریرین حاجی محمد اسلم خان غلبلی کا نام میرے فیس بک فرینڈز کے لیئے اجنبی نہ ھوگا۔ میں نے اپنے سب دوستوں سے زیادہ ان کے بارے میں پوسٹس گذشتہ دو تین سال میں لکھیں۔ کسی نہ کسی حوالے سے ان کا ذکر بار بار آتا رھتا ھے۔ اس وقت میری جذباتی کیفیت لکھنے کی راہ میں حائل ھے ۔ یہ پوسٹ صرف ان کے لیئے دعائے مغفرت و رحمت کی اپیل ھے———
ایسا کہاں سے لاوں کہ تجھ سا کہیں جسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔۔––بشکریہ-منورعلی ملک- 9 مئی 2021
میرا میانوالی
عید کے دن ناشتہ سیویاں ہوتی تھیں – ہم انہیں سِیمیاں کہتے تھے – یہ بازاری سیویوں سے بالکل مختلف چیز تھی – سِمیاں گھروں میں خالص دیسی گندم کے آٹے سے بنائی جاتی تھیں –
بہت پرانے زمانے میں تو سِیمیاں ہاتھ سے بناتے تھے – ایک آدھ بار نانیوں دادیوں کو بنا تے دیکھا تھا – ہمارے بچپن کے دور میں سِیمیاں بنانے کی مشینیں آگئیں – اس مشین کو گھوڑی کہتے تھے – جس گھر میں گھوڑی ہوتی اس گھر میں رمضان المبارک کے آخری آتھ دس دن سیمیاں بنانے والی خواتین کا میلہ لگا رہتا تھا ، ہر خاتون اپنی سیمیوں کے لیئے آٹا گھر سے لاتی تھی – آٹے میں تھوڑا سا پانی ملا کر اس کے بڑے بڑے نوالے گھوڑی کے منہ میں ٹھونس کر گھوڑی کی ہتھی (ہینڈل) گھماتے تو سیمیوں کے لچھے گھوڑی کی چھاننی میں سے برآمد ہونے لگتے تھے – ان لچھوں کو دھوپ میں بچھی چارپائیوں پر صاف ستھری سفید چادروں پر سلیقے سے بچھاتے رہتے تھے – ایک آدھ گھنٹے میں سِیمیاں خشک ہوجاتی تھیں-
گھوڑی کا ہینڈل گھمانا خاصا مشقت طلب کام تھا – عام طور پر دو دو خواتین مل کر یہ کام کرتی تھیں – اگر گھر کا کوئی کملا بھولا مسکین سا مرد ہاتھ لگ جاتا تو “شاباش میرا وِیر، شاباش میرا پتر” کہہ کر دن بھر اُسی سے کام لیا جاتا تھا –
سِیمیاں پانی میں اُبال کر ان پر گھر کا خالص گھی اور سرخ پشاوری شکر ڈال کر کھاتے تھے – بہت ہی مزیدار چیز تھی – ہمارے داؤدخیل کے گھروں میں اب بھی بنتی ہے – عید کی شرط لازمی نہیں ، عید کے بعد بھی جب کبھی دل چاہے بنا لیتے ہیں –
———————- رہے نام اللہ کا ——بشکریہ-منورعلی ملک-11 مئی 2021
میرا میانوالی
عید کے موقع پر ہاتھ پاؤں میں مہندی لگانا بھی ایک مستقل رواج تھا – بچے بوڑھے اور جوان سب مہندی لگاتے تھے –
دکانوں پر مہندی پاؤڈر اور مہندی کے خشک پتے ملتے تھے – پتے چار پیسے سستے ملتے تھے ، اس لیے زیادہ تر خواتین پتے ہی خرید لاتیں ، اور گھر پر انہیں پیس کر پاؤڈر بنا لیتی تھیں – اس پاؤڈر کو شام سے کچھ دیر قبل پانی میں بھگو کر رکھ دیا جاتا تھا – چاند رات کو سونے سے پہلے ہاتھ پاؤں پر مہندی کا لیپ کر دیا جاتا تھا – مہندی کا رنگ گہرا کرنے کے لیے اس میں ذراسا سرسوں کا تیل بھی ڈالا کرتے تھے –
صبح سویرے نئے کپڑے پہن کر مہندی لگے ہاتھ پاؤں کے ساتھ بچے بوڑھے اور جوان سب لوگ نمازعید ادا کر نے کے لیے مسجدوں کا رُخ کرتے – دیہات میں کوئی مخصوص عید گاہ نہیں ہوتی تھی – ہر مسجد میں نماز عید کا اہتمام ہوتا تھا –
نماز عید کے بعد دعا کے لیئے اٹھے ہوئے مہندی لگے ہاتھوں کی قطاریں دیکھ کر آسمان پر فرشتے بھی مُسکرا دیتے ہوں گے –
عید کے سلسلے میں ہم سب کی کچھ نہ کچھ مصروفیات ہوں گی – اس لیے ہماری محفل اب عید سے تیسرے دن برپا ہوگی ، ان شآءاللہ –——————– رہے نام اللہ کا ——بشکریہ-منورعلی ملک12 مئی 2021
عزیز ساتھیو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ ۔
رب کریم آپ سب کا حامی و ناصر ہو اور یہ عید آپ کے لیئے باعث خیرو برکت ہو
-منورعلی ملک-13مئی 2021
میرا میانوالی
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید کے سلسلے کی کچھ مصروفیات ابھی باقی ہیں۔
وہ جو مرحوم ظفر خان نیازی نے کہا تھا:
میں اپنے گاوں لوٹا تو وہی منظر پرانا تھا،
کئی لوگوں سے ملنا تھا، کئی قبروں پہ جانا تھا
آج کا دن قبروں پر حاضری کے لیئے وقف ھے۔ ہماری باقاعدہ محفل ان شآءاللہ کل سے شروع ھوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔––بشکریہ-منورعلی ملک- 16مئی 2021
میرا میانوالی
بہت سادہ سی عید ہوتی تھی – عیدی لینے دینے کا بھی رواج نہ تھا – بچوں کو والدین ایک روپیہ دیتے تھے – لیکن وہ ایک روپیہ بھی اس زمانے میں بہت کچھ ہوتا تھا – اندازہ کیجیئے کہ ایک روپے میں چائے کے 8 کپ ملتے تھے –
بچے چائے نہیں پیتے تھے ، وہ اپنی پسند کی چیزیں جلیبیاں ، پکوڑے اور کھٹی میٹھی گولیاں دن بھر کھاتے رہتے تھے- نوجوان گھر والوں سے تھوڑا بہت رولا کرکے دس پندرہ روپے نکلوا لیتے تھے – مگر عید کے دن دوتین روپے سے زیادہ خرچ نہیں کرتے تھے – باقی رقم عید کے تیسرے دن شاہ گُل حسن کے میلے کے لیے بچا رکھتے تھے – میلے والے دن ایک چکر میلے کا لگا کر کالاباغ چلے جاتے ، وہاں محمد امین کا حلوہ ، چاچا اللہ وسایا کی سُپرکڑک چائے اور شیخوں کی مٹھائی کی دکان سے جی بھر کر کھاپی لیتے تھے –
داؤدخٰیل میں کوئی مٹھائی کی دکان نہ تھی – ہمارے محلے میں چاچامحمد اولیا عید کے دنوں میں جلیبیاں بناتے تھے – چاچا اولیا ہر فن مولا تھے – کریانے کی دکان تھی مگر درزی کا کام بھی کرتے تھے ، دیسی مٹھائیاں ریوڑی ، ٹانگری ، مرُنڈے وغیرہ بھی بنا لیتے تھے – عید کے تین دن جلیبیاں بناتے تھے – محلہ علاؤل خیل اور انزلے خیل کے سنگم پر حاجی سلطان محمود عرف حاجی کالا بھی عید کے دنوں میں جلیبیاں اور پکوڑے بناتے تھے –
جلیبیوں کی سب سے مشہور دکان محلہ امیرےخیل میں ماما حمیداللہ خان کی دکان تھی – یہ دکان صرف عید کے دنوں میں کھُلتی تھی -سال کے باقی دن ماما حمید اللہ خان پتہ نہیں کیا کرتے تھے – تھوڑی سی آبائی زمین کی آمدنی پر گذارہ کر لیتے تھے – پیسہ کمانے کا نہ شوق تھا ، نہ حرص، جلیبیوں والا کاروبار بس اپنا اور دوسروں کا دل بہلانے کے لیئے کرتے تھے – بہت زندہ دل تھے ہر آنے جانے والے سے ہنسی مذاق، چھیڑچھاڑ کی وجہ سے جرنیلی سڑک کے کنارے ان کی دکان پر دن بھر قہقہے گُونجتے رہتے تھے-
محلہ داؤخیل میں چاچا دوسا اور میچن کمہار سوڈا واٹر کی ٹھاہ کر کے کھُلنے والی بوتلوں کا کاروبار کرتے تھے –
عید کا ایک خاص شو قبیلہ کنوارے خیل کے نوجوانوں کے اُونٹوں کی دوڑ ہوا کرتی تھی – یہ مہارا نسل کے سمارٹ اونٹ بہت تیز دوڑتے ہیں – عید کے دن کنوارے خٰیل نوجوان پیتل کی ٹَلیوں (گھنٹیوں) اور گھنگھروؤں سے آراستہ اونٹوں پر ریلوے سٹیشن سے محلہ لمے خیل تک چکر لگایا کرتے تھے – گھنگھروؤں اور گھنٹیوں کی چھن چھن سے عجیب سماں بندھ جاتا تھا –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ—————————– رہے نام اللہ کا ——بشکریہ-منورعلی ملک- 17 مئی 2021
میرا میانوالی
عید کا دوسرا دن خواتین کی عید کہلاتا تھا – اس دن مرد حتی الوسع گھروں سے باہر نہیں نکلتے تھے – غیرت اور شرم وحیا کا دور تھا – پرائی ماؤں بہنوں بیٹیوں کو بھی اپنی مائیں ، بہنیں ، بیٹیاں سمجھا جاتا تھا –
دیہات میں بازار نہیں ہوتے تھے – لوگ گلی محلے کی دکانوں سے ضرورت کی چیزیں خریدتے تھے – خواتین کی عید کے دن دکان دار اپنی چیزیں دکانوں سے باہر گلی میں سجا دیتے تھے – خواتین ٹولیوں کی شکل میں گھروں سے نکل کر اپنی پسند کی چیزیں خریدتی تھیں –
شادی شدہ خواتین تو زیادہ تر گھر کی ضرورت کی کوئی نہ کوئی چیز خریدتی تھیں۔ جست ، شیشے اور چینی کے برتن ، ناڑے ، سُوئیاں ، دھاگے کی رِیلیں وغیرہ – اپنے لیے ایک آدھ کنگھی، پاندری (پراندہ) ، اگر کچھ پیسے بچ جاتے تو سُرمہ کاجل اور مُساگ (دنداسہ) بھی خرید لیتی تھیں – –
بچیاں پیتل کے بنے ہوئے زیور ٠٠٠٠ مُندریاں ، چَھلے ، بالیاں ، ہار اور کانچ کی رنگ برنگی چُوڑیاں خریدتی تھیں – بچے بھی اس کارواں میں شامل ہوتے تھے – وہ پٹاخے والے پستول ، غُلیلیں سستی پلاسٹک کے کالے شیشوں والی عینکیں اور اسی قسم کی دُوسری فضولیات خریدا کرتے تھے-
اس دن کی سب سے پیاری بات یہ تھی کہ خواتین کے احترام کا یہ ایک خوبصورت مظاہرہ ہوتا تھا – مرد اول تو گلیوں میں نکلتے ہی نہیں تھے ، اگر کسی کام سے نکلتے بھی تو جہاں خواتین نظر آتیں وہ گلی چھوڑ کر کوئی اور راہ اختیار کر لیتے تھے – اگر وہاں سے گذرنا ضروری ہوتا تو دیوار کی طرف منہ کرکے رُک جاتے تھے –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ————————— رہے نام اللہ کا –—بشکریہ-منورعلی ملک- 18 مئی 2021
میرا میانوالی
شاہ گُل حسن کا میلہ ضلع میانوالی کا سب سے بڑا عوامی اجتماع ہوا کرتا تھا – ہمارے بچپن کے دور میں ضلع بھکر بھی ضلع میانوالی کا حصہ تھا – بھکر سے عیسی خٰیل تک کے ہزاروں لوگ اس میلے میں شریک ہونا اپنا فرض سمجھتے تھے ، اللہ جانے کیوں؟ ہم نے تو ہوش سنبھالا تو یہی دیکھا کہ عیدالفطر کے تیسرے دن ضلع بھر کی تمام راہیں میلہ شاہ گل حسن کو جاتی تھیں-
داؤدخیل اور گردونواح کے لوگ ماڑی انڈس ٹرین سے جاتے تھے – لاہور سے ماڑی انڈس جانے والی یہ ٹرین صبح 7 / 8 بجے داؤدخٰیل پہنچتی تھی – ٹرین کی حالت اس دن دیکھنے کے لائق ہوتی تھی – چھت ، درازے ، کھڑکیاں ، پائدان ہر جگہ لوگ مکھیوں کی طرح چمٹے ہوتے تھے- اور تو اور ، انجن بھی نظر نہیں آتا تھا – اس کے بھی آگے پیچھے ، اوپر نیچے اور اندر بھی لوگ گُھسے ہوتے تھے – بچارا قانون اس دن اپنی عزت بچانے کے لیئے منہ چھپائے ایک کونے میں کھڑا ہوتا تھا – کیسا ٹکٹ ، اور کون سا کرایہ ؟ اس دن ٹرین ریلوے کی نہیں عوام کی ملکیت ہوتی تھی –
میلہ ماڑی انڈس ریلوے سٹیشن کے جنوب میں شاہ گل حسن بخاری کے مزار کے ارد گرد منعقد ہوتا تھا – یہ بڑی پُراسرار جگہ تھی , دریا کے کنارے ویران جنگل کے ایک کونے میں شاہ گل حسن صآحب کا مزار درختوں کے ایک جُھنڈ میں گِھرا ہوا – ارد گرد اُونچے نیچے ٹِیلے – یہ منظر واضح طور پر جنوں بُھوتوں کا مسکن لگتا تھا- مگر میلے کے دن ہزارہا لوگوں کو دیکھ کر جِن بُھوت بھی اپنی بیستی خراب ہونے کے ڈر سے کہیں غائب ہو جاتے تھے –
میلے میں انوکھی چیز کوئی بھی بظاہر نظر نہیں آتی تھی – کھانے پینے کی وہی چیزیں جو اپنے گاؤں یا شہر میں عید کے موقع پر ملتی تھیں ، یہاں بھی دستیاب ہوتی تھیں – داؤدخیل سے چاچا اولیاء اور کچھ دوسرے دکان دار بھی اس دن یہاں جلیبیوں پکوڑوں وغیرہ کے سٹال لگاتے تھے – صرف ایک دن عُمر والے دوتین فرشی ہوٹل بھی اس دن لگتے تھے جہاں لوگ زمین پر بیٹھ کر کھاتے پیتے تھے –
شام 5 بجے ماڑی انڈس ٹرین روانہ ہونے سے ایک آدھ گھنٹہ پہلے میلہ ختم ہوجاتا تھا – شام کے بعد جِن بھُوت اگلے سال کے لیے اس علاقے کا چارج سنبھال لیتے تھے –
سُنتے تھے اس میلے کے موقع پر ارد گرد کے ٹیلوں کی اوٹ میں دھڑا دھڑ جُوا بھی ہوتا تھا – ہمیں تو صرف ادھر پولیس کی آنیاں جانیاں نظر آتی تھیں –———————- رہے نام اللہ کا ——بشکریہ-منورعلی ملک-19 مئی 2021
میرا میانوالی
گھر سُونا کر جاتی ہیں
مائیں کیوں مر جاتی ہیں ؟؟؟
آج میری امی کی برسی ہے۔ مغفرت و رحمت کی دعائیں چاہیئں۔ اللہ کریم آپ کو جزائے خیر عطافرمائے۔
—بشکریہ-منورعلی ملک- 20 مئی 2021
میرا میانوالی
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
تقریبا 70 سال تک وہ داؤدخیل میں عید کے دن سب سے نمایاں شخص رہا – شہر میں سب سے مہنگا اور خوبصورت لباس پہن کر جب وہ گھر سے نکلتا تو جدھر بھی جاتا ، راہ چلتے لوگ اُسے دیکھنے کے لیئے رُک جاتے تھے – سُرخ و سفید رنگت ، جاپان کی دوگھوڑا مارکہ بوسکی کی قمیض ، سب سے اعلی کوالٹی کے سفید چابی مارکہ لٹھے کی شلوار ، سرپہ آرکنڈٰی ویل کی کلف لگی طرے دار پگڑی یا بنوں کی مشہور لُنگی ، پاؤں میں تِلے دار فرمے والی کھیڑی ، غلام حسین خان ولد رنگی خان شکُور خیل داؤدخیل میں عید کا حُسن ہوا کرتا تھا – زندگی کے آخری آٹھ دس سال بیماریوں اور غُربت کی وجہ سے گھر تک محدود رہا –
عید کے ضمن میں میں ہر سال اپنی پوسٹس میں آُس کا ذکر کرتا رہا – پچھلی دفعہ جب میرے بیٹے رضوان علی ملک نے اُسے میری پوسٹ پڑھ کر سُنائی تو غلام حسین کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے – بھرائی ہوئی آواز میں کہا “ ملک صاحب تاں میڈا بھِرا جو ہے ، اُس تو سِوا ہور کونڑں میکو یاد رکھیسی “-
غریب مگر بہت غیور اور خوددار شخص تھا – رمضان المبارک کا پُورا مہینہ دن بھر اپنے ہاتھوں سے کچی اینٹیں بناتا رہتا ، اور مہینے کے آخر میں تمام اینٹیں بیچ کر ان کی کمائی سے مارکیٹ میں سب سے مہنگا لباس اور جُوتے بنوا لیتا تھا – ایک ریئسانہ شان تھی اُس کی شخصیت میں – اُس نے کبھی اپنی غریبی کا بھرم ٹُوٹنے نہ دیا – ایسے سادہ دل لوگ معاشرے کا حُسن ہوتے ہیں –
بہت دُور جا بسے ہو یار غلام حسین ، اللہ تمہیں وہاں اپنی رحمت کا سایہ نصیب کرے – تمہاری کمی ہر عید پہ محسوس ہوتی رہے گی –—————– رہے نام اللہ کا —––بشکریہ-منورعلی ملک- 22 مئی 2021
آو بیٹھ کے فیصلہ کرلیں،
کس نے پہلے چھوڑ دیا تھا
میرا میانوالی
قیام پاکستان سے پہلے تجارت زیادہ تر ہندوؤں کے ہاتھ میں تھی – گورنمنٹ کالج میانوالی کے سابق پرنسپل مرحوم ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی بتایا کرتے تھے کہ ان کے بچپن کے دور میں میانوالی کے مین بازار میں مسلمانوں کی صرف دو دکانیں ہوا کرتی تھیں – ہندو تاجر دیانت دار تھے – چیزیں بہت مناسب قیمت پر بیچتے تھے – قیام پاکستان کے بعد جب مسلمانوں نے کاروبار سنبھالا تو ان میں سے اکثر وہ لوگ تھے جو ہندوؤں کی دکانوں پر ملازمت کرتے رہے – انہوں نے کاروبار ہندوؤں سے سیکھا – ہمارے داؤدخٰیل میں حاجی سلطان محمود عرف حاجی کالا دکان کا حساب کتاب ہندی میں لکھتے تھے – ویسے تو وہ چِٹے اَن پڑھ تھے، مگر ایک ہندو دکان دار کی دکان پر کام کے دوران ہندی زبان سیکھ لی تھی – عجیب زبان ہے – ہمیں تو حاجی کالا کی تحریر مکھی مکوڑوں جیسی لگتی تھی ، لیکن حاجی کالا فرفر لکھ بھی لیتے تھے ، پڑھ بھی لیتے تھے – ہندسے ( 1, 2, 3, 4 وغیرہ) بھی ہندی میں لکھتے تھے – ہندسے تو ہمارے محلے کے دکان دار چاچا محمد اولیا بھی ہندی میں لکھتے تھے ، آدمیوں اور چیزوں کے نام ٹوٹی پھوٹی اُردو میں لکھ لیتے تھے –
صرف داؤدخٰیل ہی نہیں ہر جگہ ایسا ہی ہوتا ہوگا – مسلمان تجارت کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے – قیام پاکستان تک تو وہ سُکے دے نواب بنے پھرتے رہے – ہندوؤں کے جانے کے بعد جب ذمہ داری سر پہ آپڑی تو کاروبار کی طرف متوجہ ہوئے – کاروبار میں آکر وہ وہ ہاتھ دکھائے کہ عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا – اصول کی بجائے وصول کا پیمانہ استعمال کرکے زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنا مقصدِحیات بن گیا- والدین نے کلمہ پڑھا کر جنت میں تو حصہ دار بنا دیا تھا ، اس لیے اُدھر سے بے فکر ہو کر اپنی دُنیا سنوارنے لگے – سب لوگ ایک جیسے نہیں ، تاجروں میں ایمان دار لوگ بھی ہیں ، وہ احترام کے مستحق ہیں – اللہ کریم سب کو ہدایت دے تو لوگوں کی زندگی آسان ہو سکتی ہے –——————- رہے نام اللہ کا ——بشکریہ-منورعلی ملک- 25 مئی 2021
میرا میانوالی
بچپن میں ہمیں ایک آنہ روزانہ جیب خرچ ملتا تھا – آنہ اگرچہ ایک روپے کا سولہواں حصہ تھا پھر بھی اس دور میں یہ خاصا معقول جیب خرچ تھا ، کیونکہ ایک آنے میں جھولی بھر مونگ پھلی یا 16 کھٹی میٹھی گولیاں ، یا پاؤبھر تِلوں والا مرُنڈا وغیرہ مل جاتا تھا – کھانے پینے کو گھر میں بھی اللہ کے فضل سے بہت کچھ ہوتا تھا ، اس لیئے جیب خرچ اچھی خاصی عیاشی سمجھا جاتا تھا –
ایک آنہ 4 پیسے کے برابر تھا – اس زمانے میں پیسہ بھی اچھا خاصا گبھرُو جوان ہوا کرتا تھا – ایک پیسے میں مٹھی بھر کھانے پینے کی چیز مل جاتی تھی – ایک چوکور سکہ دو پیسے کا بھی ہوتا تھا جسے ٹکہ کہتے تھے – ٹکے کے حوالے سے ایک دلچسپ محاورہ بھی ہؤا کرتا تھا “ٹکے دی کُتی تے آنہ دُھرواوی“ – ( ایک ٹکے میں خریدی ہوئی کُتیا کو کھینچ کر گھر پہنچانے والے کو ایک آنہ معاوضہ دینا پڑا) – یہ محاورہ اپنی اوقات سے زیادہ نخرے کرنے والے لوگوں کے بارے میں بولا جاتا تھا –
سو فیصد کے معنوں میں سولہ آنے آج بھی بولا جاتا ہے ، سولہ آنے سچی گل اے کا مطلب ہے سو فیصد سچی بات ہے –—————- رہے نام اللہ کا —-—بشکریہ-منورعلی ملک-26 مئی 2021
میانوالی کے بارے میں سب سے مفصل اور مستند معلومات کا مآخذ کرنل شیر بہادر خان نیازی کی ویب سائیٹ .https://mianwali.org
آپ کو یاد ہو نہ ہو، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں روزانہ اردو پوسٹ کے علاوہ شام 6 / 7 بجے ایک پوسٹ انگلش میں بھی لکھا کرتا تھا – سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے 2015 میں فیس بک پر لکھنے کا آغاز بھی انگلش پوسٹس سے کیا تھا – تقریبا ایک ماہ روزانہ ایک پوسٹ انگلش میں لکھتا رہا – پھر اکرم بیٹے نے اردو Keyboard کا استعمال سکھا دیا تو روزانہ ایک پوسٹ اردو میں بھی لکھنے لگا- لیکن اس کے علاوہ روزانہ ایک پوسٹ انگلش میں بھی لکھتا رہا- آج سے تقریبا ایک سال پہلے انگریزی ادب کی تاریخ لکھنے کا آغاز کیا تو فیس بک پہ انگلش پوسٹس لکھنے کا کام ملتوی کرنا پڑا کیونکہ دن کا پچھلا پہر انگریزی ادب کی تاریخ پر ریسرچ اور لکھنے کے لیئے وقف ہوگیا –
انگلش میں لکھنا ترک کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، کہ لکھنے کے میدان میں انگلش میرا پہلا پیار تھا – 1983 میں میں نے معروف انگریزی اخبار Pakistan Times کے لیے ہفتہ وار کالم لکھنے کا آغاز کیا – یہ سلسلہ 13 سال (1996 تک) جاری رہا – 1996 میں سرکار کی مہربانی سے Pakistan Times بند ہوگیا ، اس کے بعد میرے چند کالم The News اور The Nation میں بھی شائع ہوئے – پھر دوسری مصروفیات اتنی بڑھ گئیں کہ کالم نگاری ترک کرنا پڑی – انگلش میں لکھنے کا وسیلہ لاہور کے کتاب محل پبلشرز نے فراہم کردیا ، ان کے لیے ایم اے انگلش سے متعلقہ 12 کتابیں اب تک لکھ چکا ہوں ، یہ سلسلہ اللہ کے فضل سے جاری ہے – لیکن فیس بک کا ایک اپنا الگ ذائقہ ہے ، اس لیے ادھر بھی انگلش میں لکھنا ضروری سمجھتا ہوں – کوئی پڑھے نہ پڑھے ، پرندہ کون سا کسی کو خوش کرنے کے لیے گاتا ہے – ؟ اس لیے ان شآءاللہ ادھر بھی انگلش میں لکھنے کا سلسلہ جلد بحال کر دوں گا – بقیہ باتیں ان شاءاللہ کل –—————— رہے نام اللہ کا —–––بشکریہ-منورعلی ملک-28 مئی 2021
میرا میانوالی
انگلش میں 1000 سے زائد پوسٹس لکھ چکا ہوں – ابتدا میں زیادہ تر پوسٹس انگریزی زبان کے حوالے سے لکھیں ، کیونکہ میری انگلش پوسٹس کے ابتدائی قارئین زیادہ تر انگلش ٹیچر تھے- ان کی فرمائش تھی کہ انگریزی زبان کے بارے میں لکھیں – ان میں اکثر وہ لوگ تھے جو کالج میں میرے سٹوڈنٹ رہ چکے تھے – وہ اب بھی مجھے کلاس رُوم والے ماحول میں دیکھنا چاہتے تھے – ان ابتدائی قارئین میں ظفر نیازی، محمد فیاض ، مسرُور جاوید ، پروفیسر عبدالغفار بھٹی ، شاہ رُخ نیازی ، ملک ثناءاللہ , سندھ سے معشوق کھوسو اور ان کے شاگرد رشید توفیق کھوسو ، ریڈیو پاکستان کے سٹیشن ڈائیریکٹر آفتاب خان اور کچھ دوسرے ساتھی شامل تھے ، سب کے نام اس وقت یاد نہیں آرہے –
انگریزی زبان کے بارے میں پوسٹس تو فرمائشی تھیں ، ان کے علاوہ میں نے اُردو پوسٹس کی طرح انگلش میں بھی بہت سی پوسٹس اپنے تجربات و مشاہدات کے بیان میں بھی لکھیں – قارئین کی تعداد اوسطا 50 / 60 رہی – سب لوگ بہت خوش تھے – پھر تقریبا ایک سال کا وقفہ کرنا پڑا ، وجہ کل بتا چکا ہوں – یہ بھی بتایا تھا کہ یہ سلسلہ ان شآءاللہ اب دوبارہ شروع کروں گا –
میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ انگریزی نثر میں وہی حُسن ہے جو اُردو شاعری میں ہے – انگریزی نثر کا حُسن بھی دل اور دماغ دونوں کو متاثر کرتا ہے – مزا آتا ہے لکھنے میں بھی، پڑھنے میں بھی – اکثر دوست میری اُردو تحریروں مٰٰٰٰٰیں ایک کشش کا ذکر کرتے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اُردو میں بھی میرا انداز تحریر انگریزی نثر سے متاثر ہے – الفاظ تو اردو کے ہوتے ہیں لیکن انہیں برتنے کا انداز انگلش والا آزاد اور بے تکلف انداز ہے ، جس کی وجہ سے میری اُردو تحریروں کی اپنی الگ پہچان بن گئی ہے – اس میں میرا کوئی کمال نہیں ، یہ میرے رب کی عطا ہے –
——————- رہے نام اللہ کا —-––بشکریہ-منورعلی ملک-29 مئی 2021
میرا میانوالی
دیہات میں دکانوں پر کھلونے نہیں ہوتے تھے ، اس لیے ہم لوگ کھلونے اپنے ہاتھوں سے بنایا کرتے تھے – آٹے کی طرح مٹی گوندھ کر اس کی موٹریں (بسیں ، ٹرک ، کاریں ، جیپیں) ، ٹرینیں ، آٹا پیسنے کی مشینیں وغیرہ بنا کر اُن کے ساتھ کھیلا کرتے تھے – میں اور میرے دوست محمد اقبال ولد احمد یار المعروف بالا یارُو آلا اور کزن غلام حبیب ہاشمی مٹی کی بس سروس اور ٹرینیں چلایا کرتے تھے – بسوں کی سواریاں ہماری بہنوں کی گُڑیاں ہوتی تھیں – گُڑیاں وہ کپڑے کی پُرانی دھجیوں اور رنگین دھاگوں سے بہت خوُب صُورت بنا لیتی تھیں – پانچ سال کی عمر تک بچوں کے مشاغل یہی ہوتے تھے – اس کے بعد اِٹی ڈناں (گُلی ڈنڈا) ، چِدھے ( بنٹے) ، کھوڑ (اخروٹ) وغیرہ ، دس سے پندرہ سال کی عمر تک چَھپ چھوت (آنکھ مچولی) ، ترَپ تے چاڑی ، دَمبولا سٹ اور اسی قسم کے بھاگ دوڑ کے دُوسرے کھیل کھیلے جاتے تھے ٠ ان کھیلوں کی تفصیل اگر بتاؤں بھی تو آپ نہیں سمجھ سکیں گے ، اس لیے نام ہی کافی سمجھیں –
دس سے پندرہ سال کی عمر میں غُلیل اور پھاہی ( چُھڑک) سے چھوٹے موٹے پرندوں کا شکار بھی ہوتا تھا – ہمارے کزن ملک ریاست علی غُلیل کے ماہر نشانہ باز تھے ، اس لیئے ہم انہیں ریاست علی جُٹاک (ماہر نشانہ باز ) کہتے تھے-
گذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وُہ لوگ
——————– رہے نام اللہ کا ——بشکریہ-منورعلی ملک- 30مئی 2021
میرا میانوالی
ایک صاحب لکھتے ہیں کہ میں اپنے گھر کے لان میں بیٹے کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا اور بیٹے کی حوصلہ افزائی کے لیے جان بُوجھ کر باربار ہار رہا تھا- بیٹا جیت کو اپنا کمال سمجھ کر خوشی سے بار بار نعرے اور بڑھکیں لگا رہا تھا – میری سات سالہ بیٹی یہ منظر دیکھ رہی تھی – اچانک وہ بھاگ کر آئی اور مجھ سے لپٹ کر روتے ہوئے کہنے لگی “بابا ، آپ میرے ساتھ کھیلیں ، میں آپ کو ہارنے نہیں دوں گی “ ——
——————— رہے نام اللہ کا —––بشکریہ-منورعلی ملک-31مئی 2021
Like this:
Like Loading...
Related