منورعلی ملک کےنومبر2021 کےفیس بک پرخطوط
میرا میانوالی–
ڈاکٹر طارق مسعودخان شہبازخیل کی کتاب “میں اور میرا میانوالی “ کے پہلے حصے کا مختصر تعارف کل کی پوسٹ میں کرادیا تھا –
کتاب کا دُوسرا حصہ قومی اور مقامی اخبارات میں شائع ہونے والے آُن کے منتخب کالموں پر مشتمل ہے – اس حصے کا آغاز “ونی“ کے عنوان سے ہوتا ہے – ونی ایک ظالمانہ رسم ہوتی تھی جس کے تحت قاتل کا خاندان مقتول کے خاندان کو ان کی ڈیمانڈ کے مطابق دوچار بچیوں کے رشتے دے کر مقتول کے خاندان سے صُلح کر لیتا تھا – اس ظالمانہ رسم کے تحت بعض اوقات دس پندرہ سال عمر کی بچیوں کو ساٹھ ستر سالہ بُڈھوں کے پلے باندھ دیا جاتا تھا – قاتل کے خاندان کی بچیوں سے سُسرال میں جانوروں جیسا سلُوک کیا جاتا تھا – بہت المناک داستانیں ہمارے علاقے میں چاروں طرف بکھری پڑی ہیں – ڈاکٹر صاحب کے اس کالم میں “ونی“ کی رسم کا شکار ہونے والی ایک بچی کی اپنے والد سے فریاد ایک دلگُداز ، رقت انگیز نظم کی صورت میں شامل ہے –
بچیوں کے معاملے میں ڈاکٹر طارق نیازی بے حد حساس ہیں – کتاب کا انتساب ہی ونی ہونے والی مظلُوم بچیوں اور اُن بے بس و لاچار بچیوں کے نام ہے جن کو اُن کے والدین جائداد میں اُن کے حق سے محروم رکھتے ہیں – ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں :
“میری اس کاوش سے اگر ایک باپ نے بھی اپنی جائداد سے اپنی بیٹیوں کو
شرعی حصہ دے دیا ، اور اگر ایک شخص نے بھی ونی کے بارے میں اپنا
ذہن تبدیل کر لیا تو میں سمجھوں گا کہ میری کاوش کامیاب ہو گئی ہے “
کتاب کے اس حصے میں سیاسی کالم بھی ہیں – ان میں ڈاکٹر طارق نیازی نے بہت دلسوزی اور دیانت داری سے ملک کے سیاسی حالات کا تجزیہ کیا ہے –
کتاب کے اس حصے کے آخری مضمون “ اپنی عظیم والدہ ء مرحومہ کی قبر پر حاضری “ نے مُجھے تو رُلا دیا – والدہ کی قبر پر حاضری کے دوران ڈاکٹر صاحب والدہ سے بہت سی دِل کی باتیں کہنے کے بعد قبر سے لپٹ کر کہتے ہیں :
“ماں ، صرف ایک دفعہ ، بس صرف ایک دفعہ مجھ سے بات کر،
پھر میں کبھی کوئی فرمائش نہیں کروں گا – ماں صرف ایک دفعہ۔۔۔۔ اپنے یتیم بیٹے کو مایُوس نہ کر ———“
دِل سے نکلی ہوئی ڈاکٹر طارق کی بے ساختہ ، بے تکلف باتیں کہیں ہنساتی ، کہیں رُلاتی ہیں – ڈاکٹر صاحب کا اندازِ تحریر بہت سادہ اور دلنشیں ہے –
فارسی کی ایک کہاوت ہے
“ولی را ولی می شناسد“ ( ولی کی قدرو قیمت ولی ہی جانتا ہے) – اسی طرح یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ “شہباز خیل را شہباز خیل می شناسد ( شہباز خیل شخص کی قدرقیمت ایک شہباز خیل ہی جانچ سکتا ہے) – اسی لیے ڈاکٹر طارق نیازی نے کتاب کا تعارف اردو اور انگلش ، دونوں زبانوں میں صاحبِ علم ، صاحبِ قلم دانشور پروفیسر سرور نیازی صاحب سے لکھوایا ہے- پروفیسر سرور خان شہبازخٰیل بھی ہیں ، اور ڈاکٹر صاحب کے رشتہ دار اور ٹیچر بھی – اُن کے قلم سے نکلا ہوا ڈاکٹر طارق نیازی کا تعارف بہت مؤثر ہے –
کتاب کا تیسرا حصہ ضلع میانوالی کے معروف اقوالِ زریں کا مجموعہ ہے – ہماری زبان میں ان کو اکھانڑں کہتے ہیں – کل کی پوسٹ میں ان پر مفصل بحث ہوگی ان شآءاللہ –
—————– رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک-1نومبر 2021
ڈاکٹر طارق مسعود خان نیازی کی کتاب “میں اور میرا میانوالی“ کا تیسرا حصہ مقامی زبان کی معروف کہاوتوں اور اقوال زریں پر مشتمل ہے – کہاوت یا اقوالِ زریں کو انگریزی میں Encapsulated folk wisdom کہتے ہیں — ہر زبان کی اپنی کہاوتیں ہوتی ہیں – ہمارے ہاں ان کو “اکھانڑں“ کہتے ہیں – یہ اکھانڑں بزرگوں کے تجربے اور مشاہدے ہر مبنی ہوتے ہیں – یہ دانائی کی باتیں ہوتی ہیں جن سے گفتگو آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے –
ہمارے ضلع میانوالی کی زبان میں بھی سینکڑوں اکھانڑں تھے جن میں سے زیادہ تر تو اب عام بول چال میں استعمال نہیں ہوتے – پھر بھی بہت سے اکھانڑں ایسے ہیں جو روزمرہ کی گفتگو میں استعمال ہوتے ہیں –
ایک دن کالج کے بیالوجی ڈیپارٹمنٹ ٹی کلب میں چائے پیتے ہوئے ہمارے محترم بھائی پروفیسر سرور خان نے کہا تھا میں اکھانڑوں کی ڈکشنری مرتب کرنا چاہتا ہوں – میں نے کہا بہت مشکل ہے بھائی – سرور خان نے کہا وہ کیوں , میں نے کہا ہمارے کم ازکم33 فی صد اکھانڑں تو گالیاں ہیں – وہ اگر لکھے جائیں تو فحاشی کے الزام میں گرفتار ہو سکتے ہیں – میں نے یہ کہہ کر مثال کے طور پر چند ایسے اکھانڑں دُہرا دیئے – کُچھ سرور خان نے سُنائے ، دیر تک محفل میں قہقہے گوُنجتے رہے – سرور خان نے کہا “یار یہ تو آپ نے درست کہا – اکثر اکھانڑں تو لکھے ہی نہیں جا سکتے – اس لیئے ڈکشنری لکھنے کا پروگرام کینسل –
سرور خان کے ارادے کی تکمیل بالآخر ایک شہباز خیل ہی نے کردی – ڈاکٹر طارق مسعود خان نے دوتین سو صاف سُتھرے اکھانڑں چھانٹ کر تقریبا 70 صفحات پر مشتمل خزانہ اپنی کتاب کی زینت بنادیا – صرف ایک اکھانڑں میں ذرا سی گڑبڑ ہے ، شاید ڈاکٹر صاحب کو خیال نہ رہا – بہر حال میں وہ اکھانڑں منظرِ عام پر نہیں لاؤں گا –
ڈاکٹر طارق نیازی نے مناسب الفاظ میں ہر اکھانڑں کی تشریح بھی کر دی ہے – کتاب کا یہ حصہ بہت دلچسپ ہے – یہ ڈاکٹر صاحب کا میانوالی کی زبان اور کلچر پر احسان ہے کہ انہوں نے دانش کے اس بیش قیمت سرمائے کو محفوظ کردیا –
میانوالی کے وسیب اور اپنے آباواجداد کی روایات سے دلچسپی رکھنے والے لوگ یہ کتاب آن لائین بھی منگوا سکتے ہیں – پتہ یہ ہے –
www.auraqpublications.com
———————– رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک-2نومبر 2021
سردیوں میں دُھوپ اللہ تعالی کی خاص نعمت ہے – ہم سردیوں کی دُھوپ کو چِٹکا کہتے تھے – سُورج نکلتے ہی لوگ گھر سے باہر چِٹکے میں آبیٹھتے تھے – ہمارے داؤدخیل کے علاقے میں فجر سے لے کر دوپہر تک ٹھنڈی یخ ہوا چلتی ہے – شمال سے جنوب کو چلنے والی یہ تیز ہوا قریبی پہاڑ کے ایک درے سے آتی تھی جسے جابہ کہتے تھے – جابہ اس درے سے بہہ کر آنے والے پہاڑی نالے کا نام بھی تھا – اسی نسبت سے اس ہوا کوبھی جابہ کہتے تھے – اس سے بچنے کے لیئے لوگ کسی دیوار یا مکان کی اوٹ میں دُھوپ میں بیٹھتے تھے – اِس اوٹ کو اوہلہ کہتے تھے –
دِن بھر بیٹھنا ہی ہوتا تھا کیونکہ اکتوبر ، نومبر میں گندم کاشت کرنے کے بعد لوگ گندم کی کٹائی تک تین چار ماہ فارغ ہوتے تھے – خواتین مردوں کی طرح نکمی نہیں تھیں – وہ سردیوں میں بھی دن بھر گھر کا کوئی نہ کوئی کام کرتی رہتی تھیں – مرد حضرات بس چِٹکے میں بیٹھ کر گپ شپ لگاتے رہتے تھے –
اب تو زندگی اتنی مصروف ہوگئی ہے کہ چِٹکے میں بیٹھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی – صرف ہم پُرانے دور کے لوگ کُچھ دیر کے لیئے دُھوپ میں بیٹھ کر گئے وقتوں کو یاد کر لیتے ہیں –—————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-3نومبر 2021
میرا میانوالی–
میانوالی کی جواں سال محبوب و محترم شخصیت اظہر نیازی کی ناگہاں وفات میرے لیئے ایک ذاتی صدمے سے کم نہیں ۔ وہ میرے بیٹوں جیسے پیارے سٹوڈنٹ تھے۔ ان کی وفات کے سانحے کی خبر آج نماز فجر کے بعد فیس بک پر نظر سے گذری۔ اس دکھ کی وجہ سے آج معمول کی پوسٹ نہیں لکھ سکتا ۔
فصاحت و بلاغت، دلیرانہ صحافت اور والہانہ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اظہر نیازی کے کردار کے نمایاں اوصاف تھے ، دعا ھے کہ رب جلیل و کریم انہیں قرب مصطفی میں اپنی رحمت کا سایہ نصیب فرمائے۔
خوش درخشید ولے شعلہ ء مستعجل بود-۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔-بشکریہ-منورعلی ملک-4نومبر 2021
میرا میانوالی–
دن کو دُھوپ ، رات کو آگ سردی کا علاج ہوا کرتی تھی – ہرگھر میں سرِشام سے آدھی رات تک آگ جلتی رہتی ، اور گھر کے لوگ آگ کے گرد چٹائیوں پر بیٹھ کر گپ شپ لگاتے رہتے تھے – شام کا کھانا بھی وہیں بیٹھ کر کھایا جاتا –
آگ گھر کے رہائشی کمرے میں جلائی جاتی تھی – اس آگ کا ایندھن لئی کی جھاڑیاں ہوتی تھیں – لئی رُکھ (کھگل) کی ایک قسم ہے – کھگل کی طرح اس کے بھی پتوں کی بجائے سبز رنگ کے دھاگے سے ہوتے ہیں – اس کی خُوبی یہ ہے کہ اس کا دھُواں بہت کم اور حرارت خاصی تیز ہوتی ہے – سردیوں میں کچے کے علاقے سے لوگ لئی کے بھار اُونٹوں پر لاد کر لاتے تھے – ہم ہر ہفتے دو تین بھار خرید لیتے تھے –
زَبھرُو خیل قبیلے کے ایک بزرگ سنڑسنڑیں کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر مہینے میں ایک دوبار ہمارے ہاں آیا کرتے تھے – سنڑسنڑاں پہاڑی علاقے کی جھاڑی ہے جس کی لکڑٰی کا رنگ سیاہ اور سطح کھُردری ہوتی ہے – یہ سب سے اعلی قسم کا ایندھن ہوا کرتا تھا – سنڑسنڑیں کا شُعلہ میگنیشیئم Magnesium کے شعلے کی طرح دُودھ جیسا سفید ہوتا ہے ، دھواں بالکل نہیں ہوتا اور تپِش بہت تیز ہوتی ہے-
بچپن میں ہم میں سے کوئی بیمار پڑجاتا تو اس کا بستر بھی آگ کے پاس چٹائی پر بچھا دیا جاتا – امی رات بھر اُس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتے ہوئے درُودِ پاک اور دعائیں پڑھتی رہتی تھیں – آگ بھی رات بھر جلتی رہتی تھی – پانی مانگتے تو چُھری آگ میں گرم کرکے پانی میں ڈبو کر وہ پانی پلایا جاتا – یہ بھی کوئی خاص ٹوٹکہ تھا — واللہ اعلم –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ–——————— رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-5نومبر 2021
جمہیاں ، جماؤں ، تارا مِیرا ، سرسوں کی ایک قسم ہے – انگریزی میں اسے Eruka Sativa کہتے ہیں –
ہمارے علاقے میں اسے جمیہاں کہتے تھے – اس کا بیج سرسوں جیسا ہوتا ہے – تیل بھی رنگت میں سرسوں کے تیل جیسا ہوتا ہے لیکن سخت کڑوے تیزابی ذائقے کی وجہ سے اسے ہم “کڑکا تیل“ کہتے تھے – کڑکا ہمارے ہاں کڑوا کو کہتے ہیں – ضلع میانوالی سے باہر کے لوگ تارا میرا کے تیل کو کَوڑا تیل کہتے ہیں – اس کی تیز ، چُبھتی ہوئی بُو خاصی ناگوار ہوتی ہے – اثر ایسا ہے کہ سرپہ لگائیں تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے دہکتا ہوا انگارہ سر پہ رکھ دیا – سخت جلن ہوتی ہے – پھر بھی صحت مند ،لمبے ، سیاہ بالوں کے لیئے یہ آج کے تیلوں اور hair tonics سے کہیں زیادہ موئثر ہے –
یہ تیل نہ لگانے کی ایک سماجی وجہ بھی ہے – اس کی تیز چُبھتی ہوئی بُو کی وجہ سے کوئی پاس نہیں بیٹھ سکتا – ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ یہ تیل لگانے والے کو پُرانے زمانے کا بندہ سمجھا جاتا ہے – ہمیں انہی فضول نخروں نے مار ڈالا ، ورنہ بالوں کی چمک اور لمبائی بڑھانے کے لیئے یہ تیل مہنگے ہیئر ٹانکس سے کہیں بہتر ہے –
اس کے بے شُمار فوائد اور بھی ہیں – گوڈوں گٹوں کے درد کے لیئے اس کی مالش بہت کامیاب علاج ہے — مالش تو جلن کی وجہ سے کم لوگ ہی برداشت کر سکتے ہیں ، مگر گوڈوں گٹوں کے علاج کے لیئے اس کا ایک اور استعمال ہمارے علاقے میں عام تھا – وہ تھا اس تیل کا حلوہ – تیل کو کڑاہی میں گرم کر کے اس کی کڑواہٹ ختم کرنے کے لیئے اس میں تھوڑا سا آٹا ڈال دیتے تھے – اسے کہتے تھے تیل میٹھا کرنا – تیل جب کھولنے لگتا تو اس میں سے آٹا الگ کر کے سُوجی اور گُڑ ڈال کر حلوہ بنا لیتے تھے – تیل کی مست بُو کی وجہ سے یہ حلوہ کھانا بھی آسان نہ تھا ، مگر دردوں سے نجات کے لیئے اکثر لوگ یہ حلوہ سردیوں میں بنا کر کھاتے تھے — سردیوں میں اس لیئے کہ ایک تو اس کا اثر بہت گرم ہوتا ہے ، دُوسرے سردی کی وجہ سے بزرگ لوگوں کے گوڈے گٹے جام ہو جاتے ہیں –
ایسی عام سی سادہ چیزوں پر اگر سائنسی طریقے سے ریسرچ کی جائے تو اللہ جانے اور کون کون سی خُوبیاں معلوم ہوسکتی ہیں – مگر سائنسی ریسرچ کرنا کافروں کا کام ہے ، ہم کلمہ گو مسلمان پکی پکائی کھانے کے عادی ہیں – ریسرچ وہ کافر لوگ کریں پھر اُن کی دریافتوں اور ایجادوں سے مستفید ہو کر ثوابِ دارین ہم بھی کما لیتے ہیں –——————رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک-7نومبر 2021
میرا میانوالی–
سردیوں کی سبزیاں ، مُولی ، شلجم, گاجر ، گوبھی اور پالک کنوؤں پر ملتی تھیں – اب تو داؤدخیل میں کنوؤں کا نام و نشان بھی نہیں رہا – دس بارہ کنئوئیں ہؤا کرتے تھے – ہمارے گھر کے مغرب میں چاچا ہدایت خان نمبردار کا کنؤاں ، جنوب مغرب میں شکُور خیلوں کا کنؤاں اور گھر کے پچھواڑے دادی زرو کا کنواں ہمارے گھر سے قریب ترین کنوئیں تھے —- دادی زرو خانے خیل قنیلہ کی بزرگ خاتون تھیں – اگرچہ اُن کے جوان بیٹے بھتیجے اور بھانجے بھی تھے ، لیکن خاندان میں حُکم دادی زرو کا ہی چلتا تھا – تمام اہم فیصلے وہی کرتی تھیں – یہ دُبلی پتلی سی ضعیف العمر خاتون خاندان کی سربراہ سمجھی جاتی تھیں – ہم اُنہیں دادی اس لیئے کہتے تھے کہ ہمارے دادا جی کی منہ بولی بہن تھیں – ہم سے بہت پیار کرتی تھیں – ہمیں اُن کے کنوئیں سے سبزی مُفت ملتی تھی –
مُولی ، شلجم, گاجر ، گوبھی اور پالک ۔۔۔۔۔ نام اور شکل و صورت تو سبزیوں کی اب بھی وہی ہے ، مگر وہ خوشبو اور ذائقہ اب نہیں رہا – شلجم اور گاجر اُودے ( جامنوں ) رنگ کے بھی ہوتے تھے – دیسی پالک کا بہت پیارا مخصوص ذائقہ ہوتا تھا – اب یہ پالک بہت کم دیکھنے میں آتی ہے – اس کا مخصوص شکل کا پتہ چھوٹا اور رنگ ہلکا سبز ہوتا تھا – گاجر کا بہت مزیدار حلوہ بھی بنتا تھا ، مگر زیادہ تر شوق سے کُلچے کھائے جاتے تھے – رات کے وقت گاجروں کو پانی میں اُبال کر پانی سمیت رکھ دیا جاتا تھا – اُبالتے وقت پانی میں تھوڑا سا گُڑ بھی ڈال دیتے تھے – صبح نہارمنہ ناشتے سے پہلے یہ تھنڈی میٹھی نرم گاجریں کھانے کا رواج ہر گھر میں تھا – ان ٹھنڈی میٹھی نرم گاجروں کو کُلچے کہتے تھے – حکیم لوگ بتاتے تھے کہ کُلچے جگر اور مثانے کی گرمی کا بہترین علاج ہیں –
گُذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ
———————————– رہے نام اللہ کا ——بشکریہ-منورعلی ملک-8نومبر 2021
سرِشام ہی شہر میں اندھیرا چھا جاتا تھا –
بجلی کی آمد سے پہلے کی بات ہے – ہمارے داؤدخیل کے علاقے میں بجلی کی فراہمی 1970 میں شروع ہوئی – بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پنکھے ، فریج، کُولر وغیرہ بھی نہیں ہوتے تھے – ہرماہ بجلی کے بِلوں کی مصیبت بھی نہیں ہوتی تھی –
بجلی کی آمد سے پہلے رات کے اندھیرے میں بھی نظر تھوڑا بہت دیکھ سکتی تھی – لوگ راتوں کو آزادی سے چل پھر سکتے تھے – بجلی کی چکاچوند روشنیوں کی عادی ہونے کے بعد آنکھیں اِس خداداد صلاحیت سے محروم ہوگئیں- اب لائیٹ اچانک غائب ہو جائے تو اپنے ہاتھ پاؤں بھی نظر نہیں آتے –
گھروں کے اندر روشنی بہر حال ضرورت پڑتی ہے – اُس زمانے میں کڑوے تیل کے ایندھن سے جلنے والے مٹی کے دیئے ، مٹی کے تیل سے جلنے والی چِمنیاں اور مٹی کے تیل سے جلنے والے لالٹین استعمال ہوتے تھے – گھر سے باہر روشنی کے لیئے لالٹین ہاتھ میں پکڑ کر بھی لے جا سکتے تھے ، لیکن تیز ہوا میں لاللٹین کام نہیں کرتا تھا – کُچھ لوگ سیلوں والی ٹارچ استعمال کرتے تھے ، جسے بیٹری کہتے تھے – لیکن عام طور پر لوگ اندھیرے میں بھی آسانی سے چل پھر سکتے تھے –
ہمارے ہاں بجلی کی آمد سے پہلے چند گھروں میں ریڈیو آگیا تھا – یہ ریڈیو ایک بھاری بھرکم بکس جیسی ڈرائی بیٹری سے چلتا تھا – ایسا ایک ریڈیو ہمارے گھر میں بھی تھا – بیٹری تقریبا تین ماہ چل جاتی تھی –
زندگی سادہ ، مشکل مگر پُرسکون تھی – چیزیں جتنی بڑھتی گئیں اُسی نسبت سے پریشانیاں بھی بڑھتی گئیں – اُس دور میں نہ بلب فیوز ہوتے تھے ، نہ گاڑی کا موبل آئیل چینج کروانا پڑتا تھا، نہ موٹر بائیک کا ٹائر پنکچر ہوتا تھا ، کیونکہ اُس دور میں نہ بلب ہوتے تھے ، نہ گاڑیاں ، نہ موٹر بائیک – اب تو —– ہِک جندڑی تے درد ہزاراں-
———————- رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک-9نومبر 2021
چینی کو ہم ولائتی کھنڈ کہتے تھے – چینی کی چائے صرف VIP مہمانوں کے لیئے ہی بنتی تھی – لوگ بڑے فخر سے بتاتے تھے کہ ہمارے لیئے ولائیتی کھنڈ کی چائے بنائی گئی – عام طور پر گھروں میں گُڑ کی چائے بنتی تھی – پشاوری گُڑ کی چائے کا ایک اپنا لُطف تھا ، چینی تو فیشن کے طور پر رائج ہوئی – ہر گھر میں ایک آدھ کلو چینی سپیشل قسم کے مہمانوں کے لیئے پڑی ہوتی تھی – عام مہمانوں کے لیئے گُڑ کی چائے ہی چلتی تھی – گُڑ کی چائے اب بلکسر موٹروے انٹرچینج پر ایک چھپر ہوٹل پہ بنتی ہے – لیکن وہ بھی پشاوری گُڑ کی نہیں ہوتی ، کیونکہ پشاوری گُڑ تو اب نایاب ہے –
چینی بارہ آنے (3/4 روپیہ) فی کلو تو مجھے یاد ہے – تین روپے کی چار کلو چینی سُن کر آپ کے پاؤں تلے سے زمین سرک گئی ہوگی ، لیکن اُس زمانے میں یہ قیمت بھی زیادہ سمجھی جاتی تھی –
پُرانے دور کے ساتھیوں کو یاد ہوگا کہ صدرایوب خان کا زوال چینی کی قیمت میں صرف چار آنے ( 1/4 روپیہ) اضافے سے شروع ہوا – راولپنڈی پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ کے سٹوڈنٹس نے احتجاج کا آغاز کیا – حکومت کے سخت ایکشن کے نتیجے میں ایک دو سٹوڈنٹس مارے گئے – اس کے بعد حکومت کے خلاف بغاوت کی آگ مُلک بھر میں پھیل گئی – تمام تر طاقت کے باوجود صدر ایوب حالات پر قابُو نہ پاسکے اور اپنے ہی بنائے ہوئے آرمی چیف جنرل یحی کے ہاتھوں معزول ہو کر گھر جا بیٹھے –
چینی کی قیمت سے جو چھیڑچھاڑ اب ہو رہی ہے آُسے دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ شاید تاریخ اپنے آپ کو دبرانے جارہی ہے — یتیم مسکین سی اپوزیشن تو اس حکومت کا کُچھ نہیں بگاڑ سکتی ، لیکن تنگ آکر اگر عوام سڑکوں پر آگئے تو حکومت کو جانا پڑے گا – صدرایوب کے دور میں بھی حکومت کی رُخصتی کا آغاز عوام کی بغاوت سے ہوا تھا ، حالانکہ وہ تو ہماری تاریخ کی مضبوط ترین حکومت تھی – صدارتی نظام کے تحت تمام اختیارات صدر ایوب کے ہاتھ میں تھے – مگر رسی جب ہاتھوں سے پھسلی تو دیکھتے ہی دیکھتے صدر صاحب خالی ہاتھ رہ گئے –
———————— رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک-10نومبر 2021
میرا میانوالی–
میرے مہربان دوست مرحوم سید نصیر شاہ کے صاحبزادے بدر جہانگیر شاہ نے اپنے والد محترم کی تین کتابیں ازرہِ محبت ارسال کی ہیں – یہ کتابیں سید ںصیر شاہ اکیڈیمی کے زیراہتمام نیازمانہ پبلیکیشنز لاہور نے شائع کی ہیں – ان کتابوں کی اشاعت میں ضلع میانوالی کے صاحبِ علم و نظر ڈپٹی ڈائیریکٹر محکمہ اطلاعات جناب تنویر خالد ،اور صدر نصیرشاہ اکیڈیمی معروف و مقبول شاعر سید اقبال شاہ ایڈووکیٹ نے نہایت اہم کردار ادا کیا – تنویر خالد صاحب نے سید نصیر شاہ کی کتابوں کی اشاعت کا اہتمام شاہ جی کی زندگی ہی میں شروع کردیا تھا – ان کی محبت و عقیدت کا اعتراف خود شاہ جی نے بھی بہت خوبصورت انداز میں کیا –
سید نصیر شاہ وہ شخصیت تھے جس نے محمد فیروز شاہ ، منصور آفاق اور فاروق روکھڑی جیسے مُلک گیر شہرت کے مالک اہلِ قلم کو قلم پکڑنا سکھایا – وہ ایک بے مثال شاعر ، ادیب ، معلم ، صحافی اور دانشور تھے – درویشانہ مزاج کی وجہ سے وہ گوشہ نشینی کو مجلس بازی پر ترجیح دیتے تھے – ادب میں وہ ترقی پسند طبقہ ( ساحر ، فیض ، ندیم ، ظہیر کاشمیری ، سیف وغیرہ ) کے مقلد تھے – ترقی پسند تحریک 1940سے 1970 تک اُردو ادب کی سب سے نمایاں نظریاتی تحریک رہی – یہ تحریک نظم و نثر میں غریب ، مظلوم اور استحصال زدہ لوگوں کے حقوق کی ترجمان اور جاگیردارانہ ، سرمایہ دارانہ نظام کی شدید مخالف تھی –
احمد ندیم قاسمی اور ظفرخان نیازی کی طرح شاہ جی باکمال شاعربھی تھے ، افسانہ نگاربھی – اُردو کے علاوہ انہیں عربی اور فارسی میں بھی دُوررس دسترس حاصل تھی – اُن کی شاعری اور افسانہ نگاری میں الفاظ و تراکیب اور موضوعات ترقی پسندانہ ہیں – ادب کی تخلیق کے علاوہ شاہ جی نے علمی تحقیق میں بھی قابلِ قدر خدمات سرانجام دیں – اُن کی کتاب “اسلام میں خواتین کے حقوق“ تحقیق کا شاہکار ہے – یہ کتاب ہر گھر میں ہونی چاہییے –
شاہ جی نے بہت کچھ لکھا، اس میں سے بہت کچھ ابھی منظرعام پر آنا باقی ھے۔ سیدنصیر شاہ اکیڈیمی اس سلسلے میں سرگرمی سے کوشاں ھے۔
شاہ جی سے میرا بہت قریبی تعلق رہا – دوتین سال پہلے اُن کے بارے میں بہت کُچھ لکھ چُکا ہوں ، جتنا بھی لکھوں کم ہے کیونکہ آُن کے بارے میں لکھنا میری نظر میں فرض بھی ہے اور قرض بھی –
بدرجہانگیر شاہ اور محمد اقبال شاہ کا ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے شاہ جی کے معجزنگار قلم کی یادگار تحریرٰیں تین کتابوں کی صورت میں عنایت کیں – اللہ کریم انہیں بے حساب عزت عطا فرمائے –———————– رہے نام اللہ کا ——بشکریہ-منورعلی ملک-11نومبر 2021
میرا میانوالی–
شدید سردی کے موسم میں جب رات کے پچھلے پہر پڑنے والی اَوس ( شبنم) کے قطرے برف بن جاتے تو ایسا لگتا زمین پر کسی نے چُونے کی کُوچی پھیر کر سفیدی کردی ہے – اُردو میں اسے پالا کہتے ہیں – ہم لوگ چِٹا کہتے تھے – کسی زمانے میں چَنی بھی کہتے تھے – اس قدرتی عمل سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے بچپن میں ہم لوگ آئیس کریم بنایا کرتے تھے – آئیس کریم کا تو اُس وقت تک کسی نے نام بھی نہیں سُنا تھا ، ہم اپنی بنائی ہوئی آئیس کریم کو کَنگَھر کہتے تھے –
کنگھر یوُں بنتے تھے کہ پِرچ یا پلیٹ میں گُڑ کا شربت ڈال کر گھر میں کسی کھُلی جگہ پر رکھ دیتے تھے – صُبح تک وہ شربت جم کر آئیس کریم کی شکل اختیار کر لیتا تھا – شدید سردی میں صبح سویرے نہارمنہ (ناشتے سے پہلے) بچوں کو کنگھر کھاتے دیکھ کر مائیں بہت چیختی چلاتی تھیں —— “ وے مُوذی، نہ کھا اے گند – جو ہُنڑن توُں بِمار تھیئوئیں تاں میں بھا وی نہ لسائیں – بے شک مردا مرونجیں ، میں تیڈے نیڑے وی ناں آساں“-
ایسے ڈائیلاگ تقریبا ہر گھر میں بآوازِبلند بولے جاتے تھے – مگر بچے ان دھمکیوں کی پروا بھی نہیں کرتے تھے – ان دھمکیوں پر عمل ہوتے کبھی نہ دیکھا – ہمیں چھینک بھی آتی تو مائیں بسم اللہ ، بسم اللہ کہتے ہوئے ہم سے لپٹ جاتیں – اس لیئے ان دھمکیوں کی پروا کون کرتا —؟؟؟؟——————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-12نومبر 2021
میرا میانوالی–
ایک صاحب لکھتے ہیں میں اپنی بہن کے گھر کبھی نہیں گیا – وہ سال میں دوچار دفعہ بچوں سمیت آکر میرے ہاں دوچار دن رہ لیتی تھی – میری بیوی اُس کا آنا جانا پسند نہیں کرتی تھی-وہ اُس کے بچوں کی شرارتوں سے نالاں تھی – سچی بات یہ ہے مجھے بھی بہن کا آناجانا اچھا نہیں لگتا تھا – ایک دفعہ اُس کے بچے نے ٹی وی کا ریموٹ توڑ دیا تو میں نے بہن سے کہا آئندہ آپ میرے ہاں سال میں صرف ایک دفعہ ، عید کے دن آیا کریں ، وہ بھی اکیلے — بہن بچوں کو لے کر چلی گئی –
کُچھ عرصہ بعد کاروبار میں خسارے کی وجہ سے میں بے روزگار ہوگیا – ایک دن میں پریشان بیٹھا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی – میری بہن تھی – اس بار وہ اکیلی آئی تھی – میں اور میری بیوی سخت پریشان ہوگئے کہ ان حالات میں یہ مصیبت پھر نازل ہوگئی – میں نے اشارے سے بیوی کو بتایا کہ اس کے لیئے سادہ پانی کے علاوہ اور کُچھ نہیں لانا –
میری بیوی پانی لانے کے لیئے گئی تو بہن نے رومال میں بندھے ہوئے سونے کے دوکنگن میرے ہاتھ پر رکھ دیئے اور کہا “ میں نے سُنا ہے آج کل تمہارے حالات خراب ہیں – یہ کنگن بیچ کر کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کردو – پھر اُس نے ایک ہزار روپیہ مجھے دیتے ہوئے کہا “ ان پیسوں سے بچوں کے لیئے گوشت اور کھانے پینے کی چیزیں لے لینا —- کملیا ، توُ پریشان نہ ہوا کر ، تیرے سر پہ بہن کا سایہ موجود ہے – میرے پاس ایک روٹی بھی ہوگی تو آدھی تجھے دے دوں گی ، آدھی اپنے بچوں کو کھِلاؤں گی “ –
یہ کہہ کر بہن نے میرے سر پہ بوسہ دیا اور واپس چلی گئی-
اپنے آنسؤ چھپانے کے لیئے میں اُسے رخصت کرنے دروازے تک بھی نہ جاسکا –—————————————
بہنوں کی قدر کیجیئے – ماں کے بعد بہن سے زیادہ آپ کا خیرخواہ کوئی اور نہیں ہو سکتا –—————————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-13نومبر 2021
میرا میانوالی–
یادیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔1984
گورنمنٹ کالج میانوالی کی ایک تقریب۔۔۔
پہلی صف ۔۔۔ پروفیسر محمد سلیم احسن اور میں۔
میرا میانوالی–
یہ قصہ اُس دور کا ہے جب میں گورنمنٹ ہائی سکول داؤدخیل میں انگلش ٹیچر تھا – ایک دن چاچا عیسیب خان لمے خیل میری کلاس میں آئے – اُن کے ہاتھوں میں چُوری سے بھرا ہوا مُنگرا (کٹورہ) تھا اور آنکھوں میں آنسُو — کہنے لگے “ملک صاحب ، آج نصراللہ گھر سے لڑ کر ناشتہ کیئے بغیر سکُول آگیا ہے – ہم دونوں والدیں بہت پریشان ہیں کہ بھُوکا پیاسا بچہ پتہ نہیں کس حال میں بیٹھا ہوگا –
چاچا عیسب خان دکاندار تھے ، اور اُن کا بیٹا نصراللہ خان میری اُسی کلاس کا سٹوڈنٹ تھا —- میں نے چاچا عیسب خان سے کہا “ چاچا ، آپ فکر نہ کریں – چُوری کھانے سے تو اب نصراللہ خان کے فرشتے بھی انکار نہیں کر سکتے “-
پھر میں نے نصراللہ سے کہا “ کلاس رُوم سے باہر بیٹھ کر یہ چُوری کھاؤ ، اور یہ مُنگرا خالی کرکے مجھے دکھانا ، ورنہ میری کلاس میں مت آنا“
نصراللہ خان نے فورا حُکم کی تعمیل کردی ، اور چاچا عیسب خان مجھے دعائیں دیتے واپس چلے گئے – میں نے نصراللہ سے کہا “والدین کو ستانا بہت بُری بات ہے – آئندہ تمہاری اس قسم کی شکایت میرے پاس نہیں آنی چایئے “-
چاچا عیسب خان اب اس دنیا میں موجود نہیں – نصراللہ خان اب ماشآءاللہ ریٹائرڈ پولیس آفیسر ہیں – کُچھ عرصہ قبل داؤدخٰیل میں ملاقات ہوئی تو مُجھ سے گلے ملتے ہوئے نصراللہ خان کی آنکھوں میں آنسُو آگئے – میری انکھیں بھی بھیگ گئیں –
کیسا عجیب رشتہ ھوتا ھے سٹوڈنٹ اور ٹیچر کا بھی، ماضی کی خوب صورت یادوں سے مالامال۔۔۔۔!!!!—————————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-15نومبر 2021
میرا میانوالی–
ڈی ایچ کیو میانوالی میں 15 دن —-
1985 میں اپنے بابا جی کے علاج کے سلسلے میں 15 دن ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں باباجی کے اٹینڈنٹ کی حیثیت میں رہنے کا اتفاق ہوا – گھر کا کوئی اور فرد بھی یہ خدمات سرانجام دے سکتا تھا ، لیکن میرا دل نہ مانا اور میں نے خود یہ ذمہ داری سنبھال لی –
صبح مجھے کالج بھی جاناہوتا تھا – میری اہلیہ اور بچے میرا ناشتہ لے کر آتے تو میں انہیں بابا جی کے پاس چھوڑ کر پہلے گھر جا کر لباس تبدیل کرتا ، پھر کالج چلا جاتا – اپنی کلاسز کو پڑھانے کے بعد سیدھا ہسپتال واپس آجاتا – اس کے بعد اگلی صبح تک ہسپتال ہی میں رہتا – یُوں 24 میں سے تقریبا 21 گھنٹے میں ہسپتال ہی میں بابا جی کے پاس رہتا –
بابا جی کی حالت یہ تھی کہ جگر نے کام کرنا چھوڑ دیاتھا – وہ مسلسل بیہوشی کی حالت میں رہتے تھے – دن میں دوتین بار چند منٹ کے لیئے آنکھ کھُلتی تو ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق انہیں تھوڑا بہت کھانا کھلا دیا جاتا – ڈاکٹروں کے بورڈ نے ان کا معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ 86 سال کی عمر میں اس مرض سے مکمل صحت یابی ممکن نہیں – جس حد تک ممکن ہوا ہم علاج کی کوشش کریں گے – مریض کی حالت کے پیشِ نظر اسے کسی دوسرے شہر بھجوانا بھی خطرے سے خالی نہیں – رستے میں ہی موت واقع ہوسکتی ہے – ہم سے جو کچھ ہوسکتا ہے کریں گے –
پہلے دن والد صاحب کو ایک سائیڈروم میں داخل کیا گیا – سائیڈ روم کا کرایہ نہیں ہوتا – یہ عام طور پر خیراتی یا سفارشی مریضوں کو الاٹ کیا جاتا ھے – شام کو ایم ایس صاحب آئے تو اپنے سٹاف کو بہت ڈانٹا کہ ایک گزیٹڈ افسر کے والد کو سائیڈ روم میں کیوں رکھا – ان کو تو پرائیویٹ کمرہ مفت الاٹ ہو سکتا ہے – اسی وقت اپنی نگرانی میں انہوں نے بابا جی کو بالائی منزل کے ایک پرائیویٹ روم میں منتقل کروا دیا – یہ کمرہ سیڑھیاں چڑھتے ہی بائیں ہاتھ پر پہلا کمرہ تھا – اگلے 15 دن ہم اسی کمرے میں رہے – اس کمرے میں سہولتیں سائیڈ روم سے زیادہ تھیں – ڈاکٹر قمر اور ڈاکٹر اشفاق پر مشتمل ٹیم بابا جی کے علاج پر مامُور تھی – میں رات کو کئی بار اُٹھ کر دیکھتا کہ بابا جی کی سانس چل رہی ہے یا نہیں – ڈر رہتا تھا کہ وہ کہیں مجھے پسپتال میں اکیلا چھوڑ کر سرحدِ حیات کے پار نہ جابسیں –
آزمائش کے ان دنوں کی داستان خاصی طویل ہے – دوچار پوسٹس میں سمیٹنے کی کوشش کروں گا – چند واقعات اور مشاہدات خاصے دلچسپ بھی ہیں ، سبق آموز بھی –———————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-16نومبر 2021
میرا میانوالی–
ہسپتال کے وارڈ میں مریض کے اٹینڈنٹ کو یہ سہولت میسر ہوتی ہے کہ وہ کچھ دیر کےلیئے اپنے مریض کی دیکھ بھال ساتھ والے مریضوں کے لواحقین کے سپرد کرکے کہیں آجا سکتا ہے – پرائیویٹ رُوم میں مریض کے اٹینڈینٹ کو یہ سہولت نصیب نہیں ہوتی – جب تک گھر سے کوئی فرد آکر اُس کی ذمہ داری نہ سنبھال لے ، وہ کمرے سے باہر نہیں جاسکتا –
باباجی چونکہ پرائیویٹ رُوم میں داخل تھے ، میرے لیئے کمرے سے باہر قدم رکھنا ممکن نہ تھا – بابا جی کی تو حالت ہی ایسی تھی کہ کسی بھی لمحے انہیں میری ضرورت پڑ سکتی تھی – رات کو اس خیال سے سو بھی نہیں سکتا تھا کہ کیا خبر کس وقت بابا جی کی آنکھ کھُل جائے اور وہ مُجھے طلب کر لیں – رات کو ہسپتال کی بالائی منزل پر قبرستان جیسی مہیب خاموشی طاری رہتی تھی – پھر اللہ کریم نے میرے لیئے آسانی کی ایک صؤرت پیدا کردی –
ایک دن ایک نرس والد صاحب کو چیک کرنے کے لیئے آئی تو اُس نے مُجھ سے کہا “ سر، سُنا ہے آپ انگلش کے پروفیسر ہیں ؟“
میں نے اس بات کی تصدیق کردی تو نرس نے کہا “ سر ، آپ سے ایک request ہے ، اگر آپ mind نہ کریں تو —-“
میں نے کہا “ بیٹا ، بتائیں ، میں کیا خدمت کر سکتا ہوں آپ کی ؟“
اُس نے کہا “ سر ، ہم چند لوگ بی ایس سی کے امتحان کی تیاری کر رہے ہیں – اگر انگلش میں آپ ہماری مدد کردیں تو بہت مہربانی ہوگی – جتنی فیس آپ کہیں ، ہم دے دیں گے “-
میں نے کہا “ جب میں نے بیٹا کہہ دیا تو فیس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا – آپ اور آپ کی ساتھی دُوسری نرسیں سب میرے بچے ہیں – یہ بتاؤ آپ لوگ کہاں اور کس وقت میرے پاس آ سکیں گے “-
بچی نے کہا “ سر، آپ کے رُوم کے سامنےہی بائیں طرف ہیڈنرس کا دفتر ہے – میرے ساتھ ہیڈ نرس اور تین اور نرسیں وہاں تین سے چار بجے تک آپ سے رہنمائی لے سکتی ہیں – جتنی دیر آپ وہاں بیٹھیں گے ہم آپ کے ابُو جی کی دیکھ بھال کے لیئے کسی دُوسری نرس کو بٹھا دیں گے “-
یُوں میرا کام قدرے آسان ہوگیا – روزانہ تین سے چار بجے تک ہیڈ نرس کے دفتر میں میں پانچ نرسوں کی کلاس کو انگلش پڑھانے لگا- وہ روزانہ باری باری تھرموس میں چائے اور کھانے کو بھی کُچھ بنا کر لے آتی تھیں ، اور ہم پڑھنے پڑھانے کے بعد کھا پی بھی لیتے تھے – مُجھے اس کلاس کا یہ فائدہ ہوا کہ نرسیں بابا جی کی دیکھ بھال پر زیادہ توجہ دینے لگیں – میں دن میں دوتین بار اُن میں سے کسی ایک کو بابا جی کے پاس بٹھا کر باہر جاکر کینٹین سے چائے پانی بھی پی لیتا تھا –———————– رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-17 نومبر 2021
میرا میانوالی–
ڈی ایچ کیو میانوالی میں 15 دن —————– 3
دیانت اور قابلیت ——— یہ دو صفات جس انسان میں جمع ہو جائیں وہ ایک ناقابلِ فراموش شخصیت بن جاتا ہے – چھوٹے بڑے سب اس سے متاثر ہوتے ہیں ، اس کو دعاؤں میں یاد رکھتے ہیں –
ڈی ایچ کیو میانوالی کے نوجوان ڈاکٹراشفاق ایسی ہی شخصیت تھے – ڈی ایچ کیو میں ہمارے قیام کے دوران وہ بابا کے معالج ڈاکٹروں کی ٹیم میں شامل تھے – میرا بہت احترام کرتے تھے – اکثر اپنے تجربات و مشاہدات مُجھ سے شیئر کرتے رہتے تھے –
ایک دن کہنے لگے “ سر ، کل رات 2 بجے کے قریب واں بھچراں سے کُچھ لوگ کار میں میری سرکاری رہائش گاہ پر آئے – میں نے اُن کے مریض کا چیک اپ کرنے کے بعد دوا تجویز کردی تو انہوں نے مجھے فیس دینی چاہی – اچھی خاصی رقم تھی – میں نے کہا جب تک میں سرکاری ملازمت میں ہوں فیس نہیں لُوں گا – ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا کلینک بناؤں گا تو پھر فیس ضرور لیا کروں گا — اُنہوں نے کہا ڈاکٹر صاحب فیس ہم اپنی خوشی سے دے رہے ہیں ، یہ ہم پر کوئی بوجھ نہیں ، ہم رئیس زمیندار ہیں – آپ یہ رقم لے لیں —– میں نے کہا نقد رقم کی بجائے آپ مجھے مریضوں کی آنکھیں چیک کرنے والی ٹارچ ( بیٹری لائیٹ) لادیں- یہ ٹارچ پچاس روپے میں ملتی ہے – جب تک میں یہاں ہوں میں استعمال کروں گا ، میری جگہ جو بھی ڈاکٹر آئے گا وہ استعمال کرتا رہے گا – یہ آپ کا صدقہ جاریہ بن جائے گا —– آج صبح وہ لوگ ٹارچ لے آئے –
ایک دن میں عصر کی نماز کے بعد ہسپتال کی مسجد سے نکلا تو موسی خیل کے میرے ایک دوست ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بات چیِت کر رہے تھے – ڈاکٹراشفاق نے مجھے سلام کیا تو میں نے رُک کر اُن سے مصافحہ کیا – ڈاکٹر صاحب اپنی رہائش گاہ کی طرف چل دیئے – مُوسی خیل والے دوست نے مُجھ سے کہا “ یار ، اس ڈاکٹر کو سمجھاؤ – میں نے کہا بات کیا ہے – اُس نے کہا “ ہم نے دوزخمی بندے چیک اپ کرائے ہیں – مگر یہ ڈاکٹر پیسے نہیں لے رہا – ہم نے کہا بھی کہ رپورٹ بے شک اپنی مرضی کی لکھ دو مگر پیسے تو لینے پڑتے ہیں ، سب ڈاکٹر لیتے ہیں – یہ مان ہی نہیں رہا – عجیب سرپھرا آدمی ہے —–
میں نے کہا بھائی صاحب ، شُکر کرو دُنیا میں کُچھ ایسے سرپھرے لوگ اب بھی موجُود ہیں –
ڈاکٹر اشفاق بھیرہ کے رہنے والے تھے – کُچھ عرصہ ڈی ایچ کیو میانوالی میں رہے ، پھر بھکر ٹرانسفر ہو گئے – اب تو ریٹائر ہو کر کہیں پرائیویٹ پریکٹس کر رہے ہوں گے — جہاں بھی ہوں رب کریم اُن کا حامی و ناصر ہو – بہت اچھے انسان تھے –
———————— رہے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک18نومبر 2021
میرا میانوالی–
ڈی ایچ کیو میانوالی میں 15 دن —– 4
کل کی پوسٹ میں ڈاکٹر اشفاق کی دیانت کا ذکر ہوا، آج ان کی قابلیت کی ایک مثال :
جب باباجی کو ڈی ایچ کیو میں داخل کروایا ، اُن دنوں میں بھی بیمار تھا – مگر بابا جی کی نازک حالت کو دیکھتے ہوئے مجھے اپنی بیماری کا ہوش ہی نہ رہا – میرا مسئلہ یہ تھا کہ رات کو سینے میں شدید جکڑن سی محسوس ہوتی تھی ، یُو ں لگتا تھا دلِ کو کُچھ ہونے والا ہے – کھانسی بھی بہت آتی تھی – پہلے تو میں ان علامات کو سگریٹ نوشی کا نتیجہ سمجھ کر نظرانداز کرتا رہا ، مگر کب تک ِ؟
مجھے چُونکہ فکر دل کی تھی ، اور اس زمانے میں ڈی ایچ کیو میں کوئی کارڈیالوجسٹ (ہارٹ سپیشلسٹ) نہ تھا ، اس لیئے میں نے پی اے ایف ہسپتال کے کارڈیالوجسٹ سے چیک اپ کرانے کا فیصلہ کیا –
ایک دن کالج سے فارغ ہونے کے بعد میں پی اے ایف ہسپتال جا کر کاریالوجسٹ صاحب سے ملا – اُنہوں نے ای سی جی اور چند ٹیسٹ کروانے کے بعد مجھے سات دواؤں کی لسٹ بنا کر دے دی – مگر ان دواؤں کی پہلی ہی خوراک نے مجھے دن میں تارے دکھا دیئے – اُٹھتے بیٹھتے چکر سے آنے لگے – میں نے اپنی تسلی کے لیئے ڈی ایچ کیو میں ڈاکٹر اشفاق سے بات کی – اُن کو پی اے ایف کے ڈاکٹر صاحب کی پرچی بھی دکھائی –
ڈاکٹر اشفاق نے میری کہانی سُننے اور پرچی دیکھنے کے بعد کہا “ سر ، اتنے بڑے سپیشلسٹ سے اختلاف کرنا مناسب نہیں ، میں تو صرف ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہوں، مگرغلطی تو ہر انسان سے ہو سکتی ہے – میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب آپ کے مرض کو سمجھ نہیں سکے – آپ ایسے کریں چھاتی کا ایکسرے کراکے مجھے دکھادیں –
سامنے ہی ایکسرے کا کمرہ تھا – چند منٹ میں ایکسرے کرا کے میں نے ڈاکٹر اشفاق کو دکھا دیا – ایکسرے دیکھ کر ڈاکٹڑ اشفاق نے مُسکرا کر کہا “ میرا اندازہ ٹھیک تھا — سر ، آپ کو دِل شِل کی کوئی بیماری نہیں ہے – اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملیریا کے کُچھ جراثیم بہت ّعرصہ سے آپ کے پھیپھڑوں میں مقیم ہیں – ان کو سوئے ہوئے جراثیم Encysted malaria parasite کہتے ہیں – آپ Fansidar کی چار گولیاں لے لیں – اللہ خیر کرے گا-
ڈاکٹر اشفاق کا بتایا ہوا علاج سو فی صد کامیاب رہا – پہلی ہی خوراک سے سینےکی جکڑن اور کھانسی وغیرہ سب کچھ ختم –
——————— رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک-19نومبر 2021
میرا میانوالی–
فیس بُک میں یہ سہولت ہوتی ہے کہ وقت ہمارے اختیار میں ہوتا ہے – گذشتہ چندروز ہم 1985 میں پھرتے رہے – آج چلتے ہیں واپس 1940 – 1950 میں —-
پہلے بتا چُکا ہُوں کہ اکثر میں صبح لیپ ٹاپ آن کرنے کے بعد فیصلہ کرتا ہوں کہ آج کس موضوع پر لکھا جائے – یہ خیال البتہ رکھتا ہوں کہ بات ماضی کی ہو ، کیونکہ گئے وقتوں کی باتیں آپ میں سے اکثر لوگوں کو اچھی لگتی ہیں – اس بہانے میں کُچھ دیر کے لیئے اُس دور میں واپس جاکر اپنادِل بھی بہلا لیتا ہوں –
ہمارے بچپن کے دور میں بارات میں اُونٹوں کی قطار بھی شامل ہوا کرتی تھی – خواتین اُونٹوں پر سوار ہوتی تھیں مرد پیدل چلتے تھے – جس طرح آج خاص طور پر سجی سجائی گاڑی میں دُلہن کو لاتے ہیں ، اسی طرح سجا سجایا اُونٹ دُلہن کی سواری ہوا کرتا تھا – اس اُونٹ کے گلے میں پشم (اون) کے رنگا رنگ ہار اور پیتل یا تانبے کی گلاس جتنی بڑی گھنٹی بندھی ہوتی تھی جسے “ ٹَل “ کہتے تھے – اِس کی گُونج دُور دُور تک سنائی دیتی تھی – بہت آداس آواز ہوتی تھی ، ہجر کے سوز میں ڈُوبی ہوئی – اُونٹ کے پاؤں میں گھنگھرُو بھی ہوتے تھے – ان کی آواز کا اپنا سرُور ہوتا تھا – اُونٹ ایک خاص رِدم Rhythm سے چلتا ہے – اس کی وجہ سے گھنگھروؤں کی آواز پر رقص کا گُماں ہوتا ھے –
اُونٹ کی چال کے اسی رِدم میں علامہ اقبال نے فارسی میں ایک نظم بھی لکھی تھی – جس میں ایک ساربان (اُونٹ والا) اپنے اُونٹ سے کہتا ہے ذرا تیز چل ، ہماری منزل دُور نہیں ہے – اس نظم کا پہلا بول یہ ہے :
تیز تَرَ ک گام زن
منزلِ ما دُور نیست
آُونٹ کی چال کے وزن پر لکھی ہوئی اس خوبصورت نظم میں ساربان بہت دلکش الفاظ میں اپنے اُونٹ سے محبت کا اظہار کرتا ہے – لفظوں کا اُتار چڑھاؤ اُونٹ کی چال کے عین مطابق ہے – یہ روایت اور شعری بحر ّّعرب سے ہمارے ہاں آئی – اُونٹوں کو رواں دواں رکھنے کے لیئے ساربان مخصوص لوک گیت گایا کرتے تھے جنہیں “ حُدی“ کہتے تھے –
داؤدخٰیل کے قبیلہ کنوارے خیل کے نوجوانوں نے مہارے اُونٹ پال رکھے تھے – مہارا بہت سمارٹ اُونٹ ہوتا ہے ، جو بہت تیز دوڑتا ہے – اُونٹوں میں مہارا ریسنگ کار کی حیثیت رکھتا ہے –
عید کے دن کنوارے خیل قبیلہ کے نوجوان سجے سجائے مہارے اُونٹ بھگاتے ہوئے پُورے شہر کا چکر لگایا کرتے تھے – اُونٹوں کے پاؤں میں بندھے گھنگھروؤں کی چھن چھن عجیب سماں باندھ دیتی تھی –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
———————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-20نومبر 2021
میرا میانوالی–
دیہات کے لوگ لباس کے معاملے میں خاصے لاپروا تھے – تین چار سال کی عمر تک بچوں کو شلوار پہنانے کا رواج نہ تھا – ٹخنوں سے ذرا اُونچا ایک ہی کُرتا ہوتا تھا جسے چولا کہتے تھے – جُوتے پہننے کا تکلف بھی نہیں کیا جاتا تھا – تین چار سال کی عمر تک بچے صرف چولے ہی میں ملبُوس رہتے تھے – بچیوں کو کچھا یا شلوار پہنائی جاتی تھی – لڑکوں کو پانچ سال کی عُمر میں سکول میں داخل کراتے وقت مجبورا شلوار پہنائی جاتی تھی ، کہ سکول میں خالی چولا نہیں چلتا تھا-
خواتین و حضرات سب شلوار کی بجائے چادر باندھتے تھے جسے منجھلا کہتے تھے – سردیوں میں سویٹر ، جرسی وغیرہ پہننے کا رواج بھی نہ تھا – لوگوں کے پاس یہ چیزیں خریدنے کے پیسے ہی نہیں ہوتے تھے – وہ جو قرآنِ حکیم میں ارشاد ہوا کہ ہم کسی کو اُس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے ، لوگوں کی غریبی کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالی نے اُن کے جسم میں سردی کا احساس ہی کم کر رکھا تھا – بچے بُوڑھے ، جوان سب سُوتی کپڑے کے کُرتوں میں سردی مزے سے گُذار لیتے تھے – کُرتے کے نیچے بنیان پہننے کا تکلف بھی نہیں کیا جاتا تھا – بزرگ لوگ سفید لٹھے کی چادر یا گرم لُکار (شال) کبھی کبھار اوڑھ لیتے تھے –
خواتین پُھولدار سُوتی چھینٹ کا لباس پہنتی تھیں – چھینٹ دراصل انگریزی کے لفظ chintz کی بگڑی ہوئی شکل ھے – اُردو میں اس کپڑے کو چھینٹ اور ہماری زبان میں چِھیٹ کہتے تھے –
بزرگ خواتین سردیوں میں دوپٹے کی بجائے سیاہ رنگ کی سفید باریک دھاریوں والی موٹی سُوتی چادر اوڑھتی تھیں ، جسے ٹِکرا کہتے تھے – ٹِکرا مقامی جولاہے (پاولی) کھڈی پر بناتے تھے – بہت خوبصورت باوقار چیزہوتی تھی –
——————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-22 نومبر 2021
میرا میانوالی–
بزرگوں اور بچوں کا لباس تو بہت سادہ ہوتا تھا ، مگر نوجوان تھوڑا بہت فیشن کرلیتے تھے – سفید لٹھے کی شلوار پر پاپلین ( رنگین سُوتی کپڑا) کی کالر اور کف والی قمیض پہنتے تھے – ٹاسا ( رنگ دار نیم ریشمی کپڑا) اور چیک (دھاری دار کپڑا) کی قمیض پہننےکا رواج بھی تھا –
پھر لنن linen ( ولائیتی ریشمی کپڑا ) مارکیٹ میں آیا ، تو قمیض کے لیئے یہی مقبول ترین کپڑا بن گیا – اسے ہمارے علاقے کے لوگ نیلم، لِیلن یا لِیلُنگ کہتے تھے – ِلِنن ہر رنگ میں دستیاب تھا – لٹھے کی شلوار پر لِنن کی قمیض اُس دور کا مقبُول ترین فیشن تھا – تقریبا بیس سال یہی فیشن چلتا رہا ، پھر کے ٹی اور کئی دُوسری قسم کے مردانہ کپڑے synthetic fibre کی بے شمار ورائیٹی مارکیٹ میں آگئی – شلوار پھر بھی سفید لٹھے ہی کی چلتی تھی –
ایک رنگ کی قمیض شلوار کا فیشن ذولفقار علی بھٹو صاحب نے رائج کیا – اُن کا لباس دیکھ کر پُوری قوم نے ایک رنگ کی شلوار قمیض پہننا شروع کردیا – اس قسم کے لباس کو شلوارسُوٹ کا نام دیا گیا –
بعد میں اس فیشن میں ذرا سی تبدیلی یہ ہوئی کہ قمیض شلوار کی بجائے کُرتا شلوار پہننے کا رواج نکلا ، جو آج بھی چل رہا ہے – سفید شلوار اور رنگین کُرتا پہننے کا رواج بھی چل نکلا ہے –
آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا——————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-25 نومبر 2021
میرا میانوالی–
اپنی نعت کا شعر یاد آرہا ہے :
میں کہاں کہاں نہ گیا مگر کسی در سے بھیک نہ مل سکی،
یہ کرم ہے رب کریم کا کہ تمہارے در پہ بٹھا دیا
جب بھی یہ قصہ لکھنے بیٹھوں ، الفاظ ساتھ نہیں دیتے، قلم سے الفاظ کی بجائے آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں – ٹوٹے پُھوٹے لفظوں میں جو کُچھ کہہ سکتا ہوں کہہ دیتا ہوں –
دوسال پہلے یہی دن تھا (26 نومبر 2019) ، سحر کا وقت ، جب مدینہ طیبہ کی مقدس سرزمین پر قدم رکھنے کی سعادت نصیب ہوئی – ہمارے قیام کا بندوبست مسجد نبوی کے قریب ہی ایک ہوٹل میں تھا –
سامان ہوٹل کے کمرے میں رکھ کر ہم نماز کے لیئے مسجد نبوی پہنچے – جُونہی مسجد کے صحن میں قدم رکھا سامنے گنبدِخضری تھا – پھر دل کی جو کیفیت ہوئی بیان نہیں کر سکتا – آنکھوں سے آنسُو بہہ نکلے اور دُعا کے لیئے ہاتھ اُٹھا دیئے – گُنبدِ خضری کو دیکھ کر مدتوں بعد وہی سکُون محسوس ہوا جو بچپن میں اپنی امی کی گود میں نصیب ہوتا تھا –
تصویروں میں اس گنبد میں جو چمک دمک نظر آتی ہے ، ایسی کوئی بات نہ تھی ، بہت پیارے ٹھنڈے سبز رنگ کے گنبد سے چمک دمک کی بجائے ایک ٹھنڈک سی آنکھوں کے دریچوں سے دل کے اںگن میں اُتری اور دل کو سر سبز و شاداب کر گئی – آج دوسال بعد بھی وہ منظر جب بھی یاد آتا ہے دل میں وہی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے – کاش میں وہ کیفیت بیان کر سکتا —- شاید کبھی خودبخود کسی شعر یا نثر کی صورت میں قلم کی زباں پہ آجائے – فی الحال میرے بس کی بات نہیں –
———————- رہے نام اللہ کا ——————–—— منورعلی ملک ——
میرا میانوالی–
پنجاب آج کل شدید سموگ کی گرفت میں ہے – دھواں اور دھند مل کر ہوا اور روشنی کو آلُودہ کر دیں تو اس حالت کو سموگ کہتے ہیں – یہ خطرناک آلُودگی ایک طرف تو کئی بیماریوں کو جنم دیتی ہے ، دوسری طرف یہ نظر کی حد اتنی محدود کر دیتی ہے کہ ٹریفک کے حادثات سے بچنے کے لیئے بعض اوقات موٹروے جیسی شاہراہوں کو بھی بند کرنا پڑجاتا ہے –
سموگ انگلش کا لفظ smog ہے – جو smoke اور fog کو ملا کر بنایا گیا ہے – smoke میں سے sm اور میں fog سے og لے کر بنایا ہوا لفظ smog آج کل بڑے شہروں کا سب سے بڑا مسئلہ شمار ہوتا ہے –
گاڑیوں ، اینٹوں کے بھٹوں اور کارخانوں کا دھوآں سردیوں میں پڑنے والی دُھند کے ساتھ مل کر سموگ کہلاتا ہے – اس میں حسبِ توفیق کُچھ حصہ ہم عوام بھی گھروں کے کچرے کو آگ لگا کر شامل کرتے رہتے ہیں –
بہت خوفناک صُورتِ حال ہے – لاہور جیسا صاف سُتھرا خُوبصورت شہر اس وقت دُنیا کا سب سے آلُودہ شہر شمار ہوتا ہے ، دُوسرے نمبر پر بھی ہم ہی ہیں ، دنیا کا دوسرا آلُودہ ترین شہر کراچی ہے —- لاہور میں تُرکی کی ایک فرم کچرا اُٹھانے کا کام کرتی تھی ، احتساب کے عذاب کی زد میں آکر یہ بندوبست بھی ختم ہوگیا – پنجاب کے وزیر اعلی تین سال میں سموگ کا مطلب ہی نہیں سمجھ سکے کہ یہ کیا ہوتا ہے ، کہاں ہوتا ہے ، کیوں ہوتا ہے —- دعا کریں جس دن بات اُن کی سمجھ میں آگئی فوری ایکشن لیں گے –
ویسے تو ہمارے ہاں محکمہ ماحولیات کی ایک معصوم سی وفاقی وزیر بھی ہیں ، مگر وہ بچاری کیا کریں ، گھریلو سی خاتون ہیں ، اُن کا علم اور تجربہ کچن اور گھر کی صفائی تک محدود ہے، وہ 22 کروڑ کی آبادی کے مُلک میں گھر گھر ، گلی گلی پھر کر جھاڑُو پوچا کہاں کر سکتی ہیں ؟؟؟
———————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-27نومبر 2021
میرا میانوالی–
میری پوسٹس پر کمنٹس میں دوست لالا عیسی خیلوی کے بارے میں لکھنے کی فرمائشیں کرتے رہتے ہیں ، مگر میرا جواب فیض صاحب کا یہ مصرعہ ہوتا ہے کہ بھائی صاحب —
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سِوا
میں نے لالا سے دوستی کے علاوہ بھی کُچھ اچھے کام کیئے ہیں – اُن کا ذکر میں زیادہ ضروری سمجھتا ہوں – کبھی کبھار ذائقہ بدلنے کے لیئے لالا کے حوالے سے ایک آدھ پوسٹ بھی لکھ دیا کروں گا –
آج کی پوسٹ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے – اس کے بعد پہلے کی طرح میری اُنگلی پکڑ کر اچھے بچوں کی طرح چلتے رہیں ، میری مرضی جدھر لے جاؤں ، جہاں لے جاؤں — ————————————————
اب تو سال میں ایک آدھ ملاقات ہوتی ہے تاہم لالا سے دوستی اب بھی برقرار ہے – اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے یہ تعلق ہمیشہ برابری کی سطح پر برقرار رکھا ، نہ میں نے لالا کو پِیرو مرشد کا درجہ دیا ، نہ اُس نے مجھے پِیرو مرشد کہا – شکوہ شکایت جو بھی ہو ہم ایک دوسرے سے صاف کہہ دیتے ہیں – عام حالات میں ہماری گفتگو خاصی دلچسپ ہوتی ہے –
جب میری کتاب “درد کا سفیر“ کا دُوسرا ایڈیشن شائع ہوا تو ایک ملاقات میں میں نے لالا سے کہا :
یار ، تمہارے بارے میں کتاب لکھنا تو میرے لیئے مصیبت بن گیا ، جو بھی ملتا ہے پُوچھتا ہے کتاب کا اگلا ایڈیشن کب آرہا ہے –
لالا نے کہا “ پنگا گھِن جو بیٹھا ایں تاں ، لگا رہ “
میں نے کہا “ ٹھیک اے لگا تاں رہساں ، بھلا —– جا میکدے سے میری جوانی اُٹھا کے لا“-
————————- رہے نام اللہ کا—بشکریہ-منورعلی ملک-28نومبر 2021
میرا میانوالی–
الیکشن ڈیوٹی بڑا دلچسپ تجربہ ہوتا ہے – میں نے سروس کے دوران 8 الیکشنز میں ضلع کے مختلف پولنگ سٹیشنز پر پریزائیڈنگ آفیسر کی حیثیت میں خدمات سرانجام دیں – اُس دور میں پریزائیڈنگ آفیسرز پر کوئی دباؤ نہیں ہوتا تھا – پریزائیڈنگ آفیسرز کو اُٹھا کر غائب کردینے اور اگلے دن دوپہر کو حاضر کر دینے کا فیشن اُس وقت نہیں تھا –
19دسمبر 1984 کو جنرل ضیاالحق نے ریفرینڈم منعقد کروایا – ریفرینڈم بھی الیکشن ہی کی ایک صورت ہے – باقی سب بندوبست عام الیکشن جیسا ہوتا ہے – مگر اس میں اُمیدواروں کے انتخاب کی بجائے صرف ایک سوال کا جواب دینا پڑتا ہے – بیلٹ پیپر پر اُمیدواروں کے نام کی بجائے ایک ہی سوال ہوتا ہے ،جس کے آگے ہاں یا نہیں کے خانے میں نشان لگانا پڑتا ہے – جنرل ضیاء کے ریفرینڈم میں سوال تھا —
“کیا آپ مُلک میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں؟“
میں اُس ریفرینڈم میں بلوخیل کے پولنگ سٹیشن کا پریزائیڈنگ آفیسر تھا – سارا دن ہنسی مذاق چلتا رہا – ایک آدمی اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر سے بیلٹ پیپر لینے آیا تو ایک بزرگ نے ہنس کر کہا بھائی صاحب ، اس نام کا آدمی تو دس سال پہلے مرگیا تھا –
اعتراض کرنے والے بزرگ کے ساتھ بیٹھے ہوئے دُوسرے بزرگ نے کہا “ یار ، ووٹ سٹنڑں کنڑں ادھے گھنٹے دی چُھٹی گھِن کے آیا اے – پرچی سٹ کے ول ویسی “ –
بزرگ کی بات معقول تھی ، لہذا اس ووٹر کو بیلٹ پیپر جاری کر دیا گیا – یہ نہیں معلوم کہ وہ ووٹ ڈال کر واپس قبرستان گیا یا اپنے گھر-——————- رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-30نومبر 2021
Like this:
Like Loading...
Related