OLD MEMORIES ISA KHELVIES

 

 

 

 

نواے شب ———

مجھے کامل یقین ہے کہ یہ سرمٸی چہرے روز قیامت نقرٸی ماہتاب ہوں گے۔ حیات کی سختیاں بھی ان سرمگیں آنکھوں سے آسودہ حالی کی چمک مٹا نہیں پاٸیں۔ ۔ ۔ اور مٹا بھی کیسے پاتیں ۔۔ ۔ ۔ ان روشن دل والوں کا لحظہ لحظہ خداوند متعال کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرنے میں صرف ہوتا ہے۔ ۔ یہی وہ بے مثل تعلق ہے جو حوادث زمانہ کے سامنے ان کو جماٸے رکھتا ہے اور وہ قناعت کا زاد راہ لیٸے زیست کے بے انت سفر پر رواں دواں رہتے ہیں۔—– بشکریہ-فاروق عادل

نواے شب ———

تلوک چند محروم اور جگن ناتھ آزاد-عیسیٰ خیل کے دو عظیم شعراءھء

عیسیٰ خیل (ضلع میانوالی) کے مشہور و معروف شاعر تلوک چند محروم کے نام سے کون واقف نہیں ۔ اردو ادب خاص طور پر اردو شاعری سےشغف رکھنے والے ان کے فن اور شخصیت سے اچھی طرح واقف ہیں ۔ تلوک چند محروم کا خاندان تحصیل عیسیٰ خیل کے موضع کچہ نور زمان شاہ   میں دریا سندھ کی ایک ندی کنارے آباد تھا ۔ محروم کے آباءو اجداد کھیتی باڑی کے پیشے سے منسلک تھے ۔ تغیرِ زمانہ کے ساتھ جب دریائے-سندھ نے اپنے راستے بدلے اور محروم کے خاندان کی زرعی اراضی دریا برد ہوئی تو انکے خاندان کو مجبوراً نقل مکانی کر کے عیسیٰ خیل میں   سکونت اختیار کرنا پڑی ۔ اس نقل مکانی نے ظاہراً محروم کودریائے سندھ سے دور کر دیا لیکن فطرت سے انکا قلبی تعلق پھانس بن کر انکے   دل میں چبھا رہا جس سے وہ خود کو آزاد نہ کر پائے ۔

چودھری پرویز الٰہی کے دورِ حکومت میں جب میڈیا پر کالا باغ ڈیم کی خبریں گردش کر رہی تھیں اور ہمارے سندھی بھا ئیوں نے سندھ پر اپنا حق جتلانے کیلیے احتجاجاً جلسے اور جلوسوں کا انعقاد کرنے لگے تو جنگ اخبار کے معروف کالم نویس ارشاد احمد حقانی مرحوم نے سندھی بھائیوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کے سندھ کے باسی دریائے سندھ کی محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن ان کے سندھی ادب میں دریائے سندھ سے محبت کا کوئی جاندار ثبوت نہیں ملتا ارشاد احمد حقانی صاحب نے کہا کے سندھ سے جنون کی حد تک محبت کرنے والے خطہءِ پنجاب کے باسی ہیں اس   ضمن میں انہوں نے تلوک چند محروم کی نظم کا حوالہ دیا ۔ نظم پیش خدمت ہے:

اے آبِ کرم! کیجو پیغام رسانی

جب دور سے آ جائے نظر سندھ کا پانی

جو بھی کہوں للّٰلہ اسے یاد سے کہنا

حسرت بھری آواز میں فریاد سے کہنا

کہنا کہ مسافر کوئی آوارہِ غربت

دیتا تھا یہ پیغام اور کہتا تھا بہ حسرت

اے آبِ اباسین ! کہ بصد موجِ رواں ہے

معلوم ہے تجھ کو تیرا شیدائی کہاں ہے

بہ چا ک ِ گریبا ں کہیں خاک بہ سر ہے

مشغول تیری یاد میں بادیدہِ تر ہے

ہیں یاد اسے آج بھی ترے سر سبز کنارے

بیچارے کی آہوں سے نکلتے ہیں شرارے

ملاحوں کے ہیں گیت اسے یاد ابھی تک

چپکے سے گاتا ہے دلِ ناشاد ابھی تک

محروم نے یہ نظم اس وقت تحریر کی جب وہ دریائے کرم کے کنارے آباد ایک گاءوں کنڈل میں بطور معلم اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں سر انجام دے رہے تھے ۔

1918ء میں محروم کے ہاں ایک بچے نے جنم لیا جس کا نام جگن ناتھ آزاد رکھا گیا ۔ اردو ادب سے محبت آزاد کو گھٹی میں ملی ۔ ابتدائی تعلیم آبائی گاءوں سے حاصل کرنے کے بعد   آزاد نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے فارسی میں ایم اے کیا اور علامہ اقبال کو اپنا مرشد مان لیا جس طرح علامہ اقبال نے مرشدِ رومی سے روحانی فیض حاصل کیا آزاد نے بھی علامہ اقبال کو اپنا مرشد مان کر کلامِ ِ اقبال کو سینے سے لگا لیا ۔

تقسیم ہند کے بعد محروم کا خاندان اپنے وطن کی یادیں لئے بوجھل دل کے ساتھ ہندوستان نقل مکانی کر گیا ۔ انڈین گورنمنٹ نے آزاد کی ادبی صلاحیتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انہیں جموں یونیورسٹی میں شعبہ اردو کی سر پرستی کا قلم دان سونپا ۔ وطن کی یاد نے انہیں وہاں بھی کبھی چین سے نہ بیٹھنے دیا ۔

آزاد کے ہر لفظ اور ہر مصرعے سے وطن کی خوشبو آتی ہے ۔ 1980ء جب آزاد اپنے ابائی وطن عیسیٰ خیل تشریف لائے تو ان کی خوشی دیدنی تھی ۔ آبائی وطن کے درودیوار دیکھنے کی خوشی ا ور یہاں کے مکینوں سے بچھڑ جانے کا غم عجیب منظر پیش کر رہے تھے ۔ راقم کے محلہ مرزو خیل میں واقع ان کے آبائی گھر میں جب انھیں مکمل اعزاز کے ساتھ لے جایا گیا   –  تو فرطِ خوشی سے آزاد کے آنسو نکل آئے اور وہ اپنے گھر کے درو دیوار اور گلی کوچوں کو ایسے دیکھنے لگے کے آنکھ جھپکنا ہی بھول گئے ۔ وہ ہرہر منظر کو اپنی آنکھوں کے ذریعے دل میں بسا لینا چاہتے تھے ۔ ایک بوڑھی عورت نے جب آزاد کو دیکھا تو بے ساختہ کہا -جگنڑ توں تا بڈھا تھی گیا ہیں یعنی جگن تم تو بوڑھے ہو گئے ہو ۔

گورنمنٹ کالج عیسیٰ خیل ان کے اعزاز میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں عیسیٰ خیل کے مشہور شعر عتیل عیسیٰ خیلوی نے ان کے اعزاز میں ایک نظم پڑھی جس کو سن کر آزاد نمناک ہو گئے ۔

کیوں چھوڑ گئے دیس کے سب سرو سمن کو

آزاد تمہاری تو ضرورت تھی چمن کو

جب فصل بہار آئی تو کھلنے لگیں کلیاں

اک طائرِ آزاد بھی لوٹا ہے چمن کو

گو ہم سے بہت دور ہے اب آ پ کا مسکن

بھولے نہیں ہم لوگ مروت کی چلن کو

آزاد سے کہنا کبھی فرصت ہو تو آ جائے

پیغام دیا سندھ نے سورج کرن کو

تحسین و عقیدت سے سدا دیکھے گی دنیا

آزاد تری شاعرِ مشرق سے لگن کو

آزاد کو وطن سے جو محبت تھی وہ تو ایک فطری عمل ہے لیکن آزاد کی ہمارے پیارے رسولﷺ سے محبت اور عقیدت ہی وہ خزینہ ہے جو انھیں دوسرے شعراء سے ممتاز بناتا ہے جگن ناتھ آزاد نے ہمارے آقا کریم حضرت محمدﷺ کی شان میں انتہائی پرتپاک نعتیں تحریر کیں ۔ حضور اکرم ﷺ کی شان میں آزاد یوں گویا ہوتے ہیں :

مجھے لکھنا ہے انسانیت کا بابِ تا بندہ

منور جس کے ہوں الفاظ مصرعے جس کے رخشندہ

مجھے اک محسنِ انسانیت کا ذکر کرنا ہے

مجھے رنگِ عقیدت فکر کے سانچے میں بھرنا ہے

بیاں کرنا ہے اوجِ ابن آدم بن کے کون آیا

بیاں کرنا ہے فخرِ ہر دو عالم بن کے کون آیا

بتانا ہے کے جب انسان سچی راہ بھولا تھا

وہ جب نازاں تھا کج بینی پہ گمراہی پہ پھولا تھا

تو کیونکر غیب سے انسانیت کا رہنما آیا

شفاعت کالیے ساماں بشر کا آسرا آ یا

وہ کیا سماں تھا جب اتری تھی رحمت دو جہانوں کی

بلندی مل گئی کیونکر زمین کو آسمانوں کی

بشر سے کس طرح تو رات کے وعدے ہوئے پورے

سحر کے ، شام کے دن رات کے وعدے ہوئے پورے

بشارت جس کی دی تھی ابنِ مریم نے زمانے کو

وہ ہستی کون تھی کب آئی تھی محفل سجانے کو

جب انسانیت سے عاری جنونیوں نے بابری مسجد کو شہید کیا تو ہندوستان میں دردِ دل رکھنے والے شعراء میں سب سے پہلے اٹھنے والی آواز آزاد کی تھی ۔

انھوں نے اس مکرو ہ فعل کی ان الفاظ میں مذمت کی :

یہ مسجد آج بھی زندہ ہے اہلِ دل کے سینوں میں

خبر بھی ہے تجھے مسجد کا پیکر توڑنے والے

ابھی یہ سر ز میں خالی نہیں ہے نیک بندوں سے

ابھی موجود ہیں ٹوٹے ہوئے دل جوڑنے والے

آزاد کو ہندوستان کے ادبی حلقوں میں جہاں ہمیشہ سرا ہا گیا وہیں ان پر مذہبی جنونیوں کی طرف سے متعدد الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن آزاد ہمیشہ آزاد بندوں کی روش کو قائم رکھتے ہوئے دل کی بات بر سرِعام کہتے رہے ۔

میری یہی خطا ہے بس اے اہلِ بت کدہ!

شمعِ حرم کا نور بھی میری نظر میں ہے

تحریر: فاروق عادل-farooqadil25@gmail;46;com

نواے شب ———نسبت

آج ہم بحیثیت قوم شدید اضطراب اور اوہام کا شکار ہیں ۔ ان حالات سے نجات کی بظاہر کوئی صورت ابھرتی نظر نہیں آتی ۔ چارہ گر خود چارہ گری کا رونا رو رہے ہیں ۔ ایک سیاسی گروہ اگر نا اہل اورنا کام ہوتا نظر آ رہا ہے تو کیا دوسرے سیاسی گروہ کے پاس ہماری نامرادیوں کا تریاق ہے

حضرت علامہ اقبال ایک صدی قبل فرما گئے :

فلک نے عطا کی ہے خواجگی اُ ن کو

جنھیں خبر نہیں بندہ پروری کیا ہے

جمہوریت اور انسانیت کے علمبردار آئے روز الیکٹرانک اور پر نٹ میڈیا پر محروم اور نا مراد عوام کو نت نئے فسانے سناتے ہیں اور اپنے درباریوں سے دادِ تحسین وصول کرتے ہیں ۔ اِ اضطراب اور نا اُمیدی

نہگام صرف اہلِ دل ہی بچتے ہیں جو اپنی داد رَ سی کے لئے سوچ کے گھوڑے دوڑانا چھوڑ دیتے ہیں ۔ پھر وہ سَر کی آنکھیں موند لیتے ہیں اور اپنے دل کی آنکھ آقا کریم ﷺ کی رحمت پایاں پر ٹکا دیتے ہیں ۔

پھر دربارِ رسالت سے اُنھیں وہ نور بصیرت عطا ہوتا ہے جس سے شعور اور وجدان کی کلیاں کھلتی ہیں ۔ پھر یہ کلیاں کھل کر وہ پھول بنتی ہیں جن کی خو شبو سے یاس و نا اُ میدی کی مکدر فضا معطر ہو جاتی ہے پھر اِ س خوشبو سے ہر بشرفیض یاب ہوتا ہے ۔ ہمارے وطن کے حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں دل ہے کہ پھر بھی کاسۃِ امید لئے ہمہ وقت رحمتِ خدا وندی کی راہ تکتا رہتا ہے ۔ عام سے عام مسلمان بھی ربِ کا ئنات کے قا دراعلیٰ ہونے اور حضرت محمد ﷺ کے رحمت اللعالمین ہو نے کا یقین رکھتا ہے اُ مید کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔ وہ محرومیوں ، اُداسیوں اور ظلمتوں کے دور میں ضطِ نفس اور بے نیازی کا زادِ راہ لئے اپنی منزل کیطرف رواں دواں رہتا ہے ۔ اور ہمہ وقت اہنی نسبت کی گانٹھ کو پیہم صبر سے مضبوطی فراہم کرتا ہے ۔ پیہم صبر اُسےیقین کے اُس مرتبہ تک لے جاتا ہے پھر دین و دنیا کی کامرانیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔اِ س منزل پر پہنچ کروہ مصائب و آلام کو خاطر میں نہیں لاتا ۔

آئیں ہم آقا کریم ﷺ سے اپنی نسبت کو اتنا توانا قوی کر لیں اور اِ س نسبت کو اُس نہج پر لے جائیں کہ یاس اور نا اُمیدی ہمارے راستے کی دیوار نہ بنے ۔ آمین

اَز قلم : فاروق عادل عیسیٰ خیل (میانوالی)

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top