نواب کالاباغ ملک امیر محمد خان
دریائے سندهه پر بہتی لاش
نوے کی دہائی کی بات ہے ، میں ان دنوں اسلام آباد اسٹیشن پر تھا ، کسی کام سے اپنے درویش دوست فقیر ادریس کنٹرولر ایڈمن کے پاس گیا تو وہاں ڈائریکٹر انجنئیرنگ یونس خان گپ شپ کے موڈ میں بیٹھے مل گئے ۔ یونس خان کا ریڈیو پاکستان کے ان چند انجنئیرز میں شمار ہوتا ہے جن کا لٹریچر اور ریڈیو پروگرامنگ کے حوالے سے بہت اعلی ذوق تھا . ان کی گفتگو سن کر مسرت آمیز حیرت ہوتی تھی ۔ میں بھی گپ شپ سننے لگا ۔ اچانک مجھے کہنے لگے ، نیازی صاحب میں اپنے لڑکپن میں میانوالی بھی رہا ہوں ، میرے والد محمد صادق سن ، 1934/5 میں وہاں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر تھے ۔ اور میں اس وقت ساتویں آٹھویں میں پڑھتا تھا ۔ میرے والد کی نواب کالا باغ ملک امیر محمد خان سے بہت گہری دوستی تھی ۔ میں ایک دفعہ والد کے ساتھ کالا باغ بوہڑ بنگلہ میں ٹھہرا جس کی سیڑھیاں دریا میں اترتی ہیں ۔ میں وہاں دریا کے کنارے آیا تو میں نے دیکھا ایک لاش بنگلے کی سیڑھیوں کے ساتھ لگ کر دریا میں تیر رہی ہے ۔ وہ لاش ایک باریش مرد کی تھی ۔ میں نے بھاگ کر نواب صاحب کو اطلاع دی تو وہ آئے اور اپنے ملازموں کو ڈانٹ کر کہنے لگے ، میں نے کہا تھا ، اس کو نیچے کی طرف پھینک کر آؤ ۔ ملازم نے جواب دیا ، ہم نے اسے نیچے کی طرف ہی پھینکا تھا ۔ نواب صاحب نے کہا اسے اب اور دور جا کر بہانا ۔ ایسا ہی کیا گیا ۔۔۔
لیکن دوسرے دن وہ لاش پھر ان سیڑھیوں کے ساتھ آکر لگی کھڑی تھی ۔
کہنے لگے ، اس کے بعد اس لاش کو اسی جگہ دفن کرایا گیا جہاں سے وہ نکلی تھی ۔۔۔۔
یہ واقعہ میں نے کچا پکا تو پہلے بھی سن رکھا تھا لیکن اس میت کا چشم دید گواہ مجھے یونس خان ڈائریکٹر انجنئیرنگ ریڈیو پاکستان کیی صورت میں بھی مل گیا ۔(یونس خان صاحب کی پک آپ کمنٹس میں دیکھ سکتے ہیں )
اس واقعے کا پس منظر یہ ہے کہ کالا باغ میں ایک قدیم قبرستان تھا ۔ نواب صاحب نے وہ قبرستان مسمار کرایا اور وہاں بنگلہ کیی تعمیر اور کاشت کاری شروع کر دی ۔ اس کھدائی کے دوران جو ہڈیاں اور ڈھانچے ملے وہ دریا برد کئے جاتے رہے ۔ یہ میت ، اللہ بہتر جانتا ہے کب کی مدفون تھی ، صحیح سلامت تھی – اس کی داڑھی تک محفوظ تھی ۔ اس میت کو دریائے سندھ میں پھینکتے تو وہ اگلی صبح پھر وہیں آکھڑی ہوتی ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نواب صاحب کو ، جبکہ کچھ بغوچیوں کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ کو خواب میں میت نے کہا کہ مجھے جہاں سے نکالا ہے ، وہیں دفن کرو ۔۔
میرے ریڈیو کے سینکڑوں دوست جو اس واقعے کے راوی یونس خان صاحب کے ساتھ کام کر چکے ہیں ، وہ اس بات کےے گواہ ہیں کہ یونس خان ، انتہائی نیک ، دین دار اور دلچسپ بات یہ کہ دیوبندی مزاج کے پرہیز گار انسان تھے ۔ اس روایت کے دوسرے سامع ، فقیر غلام ادریس خان حال ہی میں ڈائریکٹر فنانس کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں ، ان کا تعلق تو ڈی آئی خان سے ہے لیکن اب وہ بارہ کہو اسلام آباد میں مستقل قیام رکھتے ہیں ۔
۔۔۔۔ اس واقعے کا ایک دُکھی پہلو یہ ہے کہ نواب صاحب خود اپنی اولاد کے ہاتھوں قتل ہوئے ۔ ان کا جنازہ اٹھانے لگے توو قبرستان کی دوری کے پیش نظر ٹریکٹر ٹرالی منگوائی گئی ۔ حمیداللہ خان روکھڑی نے نوابزادوں کو کہا ۔ اپنے باپ کو مار بیٹھے ہو ، لیکن آخر تھا تو تمہارا باپ ۔ اس کی میت کا کچھ تو احترام کرو !!
اس پر ٹرالی کی بجائے جنازہ کندھوں پر لے جایا گیا ۔ تدفین کے بعد نواب صاحب کی میت کا کیا ہوا ، اللہ بہتر جانتا ہے ، لیکن افواہ عامم کچھ اچھی نہیں ۔ ۔۔۔۔
کل من علیھا فان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( کمنٹس ضرور دیکھئیے گا ، اس موضوع پر دیگر کئی گوشے آپ کی دلچسپی کا سامان ھو سکتے ہیں – شکریہ )
Basit Ktk
ہم نے کچھ عرصہ پیشتر نواب صاحب کے بنگلے کی سیر کی تھی لیکن کوئی گائیڈ وغیرہ ساتھ نہیں تھا کہ تفصیلات مہیا کرتا البتہہ وہیں بنگلہ کے حدود میں قبریں ضرور ہیں ممکن ہے ان میں سے کوئی قبر مذکورہ شخص کی بھی ہو __
بنگلے کی حالت تو ٹھیک تھی البتہ اردگرد ویرانی اور عبرتناک ماحول ہے
بنگلے کی چاردیواری کے باہر مارکیٹ بن گئے ہیں جن کی بابت سنا کہ نواب صاحب کی آل اولاد نے یہ ساری جاگیر اونےے پونے بیچ ڈالی ہے ___
نواب صاحب کی شخصیت جاگیردارانہ سوچ و سماج کی ایک بڑی نشانی تھی
Zafar Khan Niazi
جی ہاں وہ قبر اسی بنگلے کے احاطے میں ھے – نوجوان اندازہ ھی نہیں لگا سکتے کہ ملک صاحب کے زمانہ اقتدار میں کالاباغغ کے ان بنگلوں کی طرف کوئی نظر اٹھا کر دیکه بهی نہیں سکتا تھا –
ایک دلچسپ تاریخی حقیقت یہ ھے کہ نوابکالاباغ کے خاندان میں کئی پشت سے صرف ایک اولاد نرینہ ھی ھوتی آئیی تھی – امیر محمد خان نواب آف کالاباغ اپنے خاندان میں کئی پشتوں کے بعد پہلے شخص ہیں جن کے چار بیٹے پیدا ھوئے اور اب زمینیں بکنا شروع ھو گئیں ہیں-
ظفر خان نیازی 5 جون2015
عبداللہ حسین اور داؤد خیل
1988/9 کی بات ہے بلیو ایریا کے ایک پرنٹنگ آفس میں ہم چند دوست بیٹھے تھے کہ اچانک احمد داؤد مرحوم آئے، ان کے ساتھ عبداللہ حسین بھی تھے ۔ اس لیجنڈ ناولسٹ سے یہ میری پہلی ملاقات تھی – رسمی تعارف کے بعد وہ مجھ سے زرا دور بیٹھ گئے ۔ کچھ وقت گزرا تو میں نے انہیں کہا ۔ میں میانوالی سے ہوں اور میرا قبیلہ داؤد خیل سے ہے ۔ داؤد خیل کا نام سن کر وہ بہت اپنائیت کے انداز میں اپنی کرسی سے اٹھ کر میرے پاس آ بیٹھے ۔ مجھے یہ معلوم تھا عبداللہ حسین نے اپنا شہرہ آفاق ناول اداس نسلیں داؤد خیل میں مکمل کیا تھا ۔ بعد میں تفصیل معلوم ہوئی کہ داؤد خیل سیمنٹ فیکٹری کی ملازمت میں وہ آٹھ سال وہاں رہے تھے ۔ میرے ساتھ وہ بہت حیرت آمیز خوشی کے ساتھ باتیں کرنے لگے ۔ اسی ضمن میں ایک نہایت دلچسپ بات بتائی ۔ کہنے لگے ، جب وہاں فیکٹری کی تعمیر مکمل ہوئی تو ورکرز کو کہا گیا کہ اب فیکٹری دن رات چلے گی اس لئے آدھے لوگ دن میں اور آدھے لوگ رات میں ڈیوٹی پر آئیں گے ۔ یہ سن کر داؤد خیل کے لوگوں نے حکم ماننے سے انکار کر دیا اور کہا رات کو وہ کام نہیں کر سکتے ۔
پوچھا کیوں ، رات کو کام کیوں نہیں کر سکتے ۔
تو کہنے لگے ، کام کیلئے اللہ نے دن بنایا ہے ،
رات تو بچے پیدا کرنے کیلئے بنائی گئی ہے ۔
۔عبداللہ حسین کو ہم نے ریڑیو انٹرویو کی درخواست بھی کی تھی ان کا وہ ریڈیو انٹرویو , خیابان میں بھی چھپا تھا حو میرےے شاعر دوست حسن عباس رضا کا ادبی میگزین اور شوق تھا – میرے ساتھ اس انٹرویو میں شمیم اکرام الحق بھی تھیں –
اس انٹرویو کا دلچسپ واقعہ یہ ہوا یہ آف آوررز میں ریکارڈ کیاگیا – وی آئ پی روم نہیں کھلا تھا جو میں نے شور مچا کے کھلوایا — کمپلینٹ ڈی جی تک پہنچ گئ کہ کسی عبداللہ حسین کیلۓ پروڈیوسر نے وی آئ پی روم زبردستی کھلوایا ہے – آغا ناصر صاحب ان دنوں ریڈیو کے ڈی جی تھے – ایک دن ملاقات ہوئ تو کہنے لگے , عبداللہ حسین آۓ اور آپ نے ہمیں بتایا ہی نہیں , آیندہ آئیں تو مجھے بھی اسٹوڑیو بلائیےگا
ظفر خان نیازی