غازی علم دین شہید
میانوالی میں عارضی مدفن
اروق ملک صآحب ! میری خوش قسمتی کہ غازی علم دین شہید کے لواحقین 1929 میں میانوالی میں جن محترم شخصیت ،محمد اکبر خان خنکی خیل کے مہمان رہے تهے ،غازی علم دین شہید کی میانوالی میں قیام اور بعد کے واقعات کی زیادہ تر تفصیلات ان سے ہی ملی تهیں – ( مرحوم محمد اکبر خان کی پک آپ کمنٹس میں دیکھ سکتے ہیں ) میں نے اس موضوع پر 5/6 پوسٹ کی ہیں آپ کو وہ بهی دیکهنا چاہیئے –
جو علامہ صاحب میانوالی کے لوگوں کو گالی دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے شہر میں ان کو تختہ دار چڑهنے سے نہیں بچایا ، ان کوو کہیئے کہ زیادہ دور کی بات نہیں ، سکها شاہی میں بادشاہی مسجد لاہور سکهوں کے گهوڑوں کا اصطبل تها – سکھ 50 سال تک حکمران رہے – اس کے علاوہ اس وقت پنجاب میں سکهوں کے ہاتهوں جو کچه اس وقت ہوا ، وہ ناگفتنی ہے ، لیکن اس کا طعنہ تو لاہور کو یا پنجاب کو کوئی نہیں دیتا ، دینا بهی نہیں چاہیئے – ان دنوں کیا حال تها اور غلام قوموں کی کیا مجبوری ہوتی ہے ، یہ بڑی درد ناک داستان ہے – اور یہی علامے ہی ہیں جو ہمارے بیشتر مسائل اور دکهوں کی جڑ ہیں اور تحقیق کئے بغیر علم جهاڑتے ہیں –
کیا آپ کو معلوم ہے جس کتاب کی اشاعت پر راج پال قتل ہوا ، اس کا مواد کیا تها – یہ مواد ہمارے ان علما کی جمع کردہ تحریروںں کے اقتباسات تهے ، جو تحقیق سے عاری ہیں – میری غیرت ایمانی ( کم سہی ) لیکن مجهے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ مزید اس مواد کی تفصیل میں جاوں – مجھے تو اس کتاب کا نام لکهنا بهی سوئے ادب محسوس ہوتا ہے جس کی اشاعت پر اس کے ناشر راج پال کو غازی علم دین نے قتل کیا تھا –
غازی علم دین شہید کو حرمت رسول پر مرنے کا اعزاز یوں ملا کہ اس سعادت کی قبولیت کی نشانیاں غازی کی فانی زندگی میںں کھل کر سامنے آگئی تهیں – جیل میں اس کی کوٹھڑی کی غیر معمولی روشنی ، اس کے پاس بے موسم کے پھل ، ان پڑهه هونے کے باوجود اس کی گفتگو کا انداز اور پھانسی کی سزا سننے اور موت کے انتظار میں وزن بڑھنے کا جیل کی تاریخ کا پہلا واقعہ،،،،،دیگر ایسی علامات اس کے ولی ہونے کی واضح نشانیاں تهیں – اس لحاظ سے میں یہ سمجهتا ہوں کہ یہ اعزاز میانوالی کی مٹی کو نصیب ہونا تها کہ شہید کا نورانی جسد چند دن ، امانتآ ہی سہی ، اس کی آغوش میں رہتا – اس عارضی مدفن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے پوتا ھے کہ خالی قبر کی وہ جگہ جو میانوالی جیل کے جنوب میں لاوارث قیدیوں کے قبرستان میں ہے ، وہ عارضی مدفن دیکهنے کیلئے ان کی بهتیجی انور سعید جس کو غازی شہید نے گود میں کهلایا تها اور اس وقت نوے سال سے اوپر کی ہیں ، غازی علم دین شہید کے بھائی کے پوتے کے ساتھ غازی کی شہادت اور میانوالی میں عارضی تدفین کے 53 سال کے بعد اسی کی دہائی میں میانوالی تشریف لائی تهیں – وہ اکرام اللە خان شہید پائی خیل کی مہمان ٹھہری تهیں اور اس جگہ پر انہیں میرا ایک دوست ، میانوالی کا حفیظ الرحمان ولد عبدالرحمان جس کا ان دنوں جیل روڈ لاہور پر کار شو روم ھے ، لے کر گیا تھا – اس کی تصدیق و تفصیل غاذی علم دین شہید کے بهائی کے پوتے نے میرے ساتهه ایک گفتگو میں بهی کی جو آپ میری ایک اور پوسٹ میں دیکهه سکتے ہیں –
اس کے علاوہ غازی شہید کی خواہش تهی کہ میرا پہلا جنازہ میانوالی کے لوگ پڑهیں کہ میرے میزبان ہونے اورر میرے ساتھ محبت بھرے رویے کی بنا پر یہ ان کا پہلا حق ہے – ابوالفتح سرمد کی کتاب’ غازی علم دین شہید’ میں آپ یہ وصیت دیکهه سکتے ہیں – اور اللہ نے ان کی یہ خواہش پوری بهی کر دی تهی ، ان کا پہلا جنازہ میانوالی کے لوگوں نے ہی پڑها تها – یہ تفصیل بهی آپ میری ایک پوسٹ میں دیکه سکتے ہیں –
میری اس ضمن میں درخواست اہالیان میانوالی سے هے کہ میانوالی جیل کے جنوب میں واقع لاوارث قیدیوں کےے اس قبرستان کی تاریخی اور روحانی مقام کو مناسب اہمیت دیں اور وہاں قبرستان کے اس گیٹ پر ایک بورڈ پر یہ تفصیل اور خالی قبر کی جگہ پر عارضی مدفن کی تختی لگا دیں تاکہ آتی نسلوں کی رہنمائی ہو سکے –
وما علینا البلاغ
ظفر خان نیازی – 21 اگست2015