سانحہ کالاباغ – تحریر- عصمت اللہ نیازی
کالاباغ دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ایک خوبصورت شہر ہے اگر اس شہر کی تاریخ پر ایک نظر دوڑائی جائے تو اس کی تاریخ سینکڑوں سال قدیم زمانہ سے چُڑی ہوئی ہے۔ نمک کی کانوں کی موجودگی کی وجہ سے کالاباغ ماضی قدیم سے ہی تجارت کا مرکز رہا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ تاجر اور کاروباری لوگ انتہائی محنتی ، ملنسار اور خوش مزاج ہوتے ہیں اور اسی خوش مزاج طبیعت نے ان لوگوں کو آپس میں اتحاد اور پیار محبت کے ایک خاص رشتہ میں باندھ رکھا ہے۔ تقسیم ہند سے قبل یہاں پر ہندوؤں کی اکثریت تھی لیکن مذاہب مختلف ہونے کے باوجود ان کا آپس میں ایک مثالی اتفاق رہا ہے سینکڑوں سال سے ہندو مسلم کے آپس میں اتنا قریب رہنے کے باوجود اس شہر کے باسیوں کا کردار مثالی رہا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی گذشتہ 46 سالوں سے یہاں کے لوگوں کی ذہنی ہم آہنگی قابل مثال رہی ہے۔ کالاباغ کے ساتھ ککڑانوالہ اور پکی شاہ مردان تک لوگوں کے درمیان اتنی مسلکی ہم آہنگی ہے کہ اہل تشیع اور سُنی برادری ایک دوسرے کی نمازِ جنازہ بھی اکٹھے ادا کرتے ہیں لیکن افسوس کہ اس علاقہ کو اچانک کسی دشمن کی نظر لگ گئی ہے اور گذشتہ چند سالوں سے یہاں پر مسلکی منافرت کی ایک چنگاری جو آہستہ آہستہ جل رہی تھی وہ ہمارے بڑوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے اچانک بھڑک اٹھی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں سارا قصور عوام کی بجائے ہمارے سیاسی راہنماؤں ، مذہبی شخصیات اور انتظامیہ کا ہے کہ جنھوں نے اس جانب بروقت توجہ نہیں دی۔ یہ مسلکی اختلافات جب گذشتہ تین سالوں سے آہستہ آہستہ سر اُٹھا رہے تھے تو علاقہ کے سیاست دانوں اور مذہبی شخصیات کا یہ فرض تھا کہ آپس میں بیٹھ کر اس کا کوئی حل نکال لیتے تاکہ ماضی کی طرح لوگوں کا آپس میں اتحاد اور اتفاق قائم رہتا اور معاملہ اس نہج پر نہ پہنچتا۔ ہم ایک خدا کو ماننے والے ، ایک قرآن اور ایک رسول صلیٰ الله وسلم کی سیرت کی پیروی کرنے والے، ایک حسین علیہ السلام کی قربانی کو یاد رکھنے والے، ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھنے والے، ایک دوسرے کے نفع نقصان میں شرکت کرنے والے روایتی لوگ ہیں تو پھر آپس میں اختلاف رائے کو اس حد تک بڑھا کر ایک دوسرے کی جان کے دشمن کیوں بن چکے ہیں۔ ہمارے مذہب ، ہمارے قرآن، ہمارے رسول اور ہمارے حسین کی تعلیمات تو آپس میں پیار محبت اور ایک دوسرے کیلئے قربانی دینے والی ہیں۔ قرآن و حدیث میں تو مسلمانوں کو ایک جسم کے اعضاء سے تشبیہ دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تفرقہ بازی سے بچنے اور اتحاد و اتفاق کی تلقین کی ہے.
سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے “وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا”
ترجمہ: “اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو”
اس آیت میں مسلمانوں کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے اور فرقہ واریت سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ کی رسی سے مراد دین اسلام ہے اور اسلام قرآن میں پوشیدہ ہے جس پر ہم سب اپنا پورا یقین رکھتے ہیں اور اس قرآن کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کر مسلمان ایک قوم بن سکتے ہیں۔
قرآن کریم میں ایک اور جگہ پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے “وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ”
ترجمہ: “اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ تم ناکام ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی، اور صبر کرو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔(سورہ الأنفال)۔
یہ آیت بھی واضح کرتی ہے کہ مسلمانوں کے آپس کے اختلافات اور جھگڑے ان کی کمزوری کا سبب بنتے ہیں اور انہیں ناکامی کی طرف لے جاتے ہیں۔
رسول اللہ صلی الله وسلم نے بھی امت مسلمہ کے اتحاد پر زور دیا ہے اور فرقہ واریت کو سخت ناپسند فرمایا ہے
ایک مشہور حدیث میں آپ صلیٰ الله وسلم نے فرمایا “إِنَّ اللهَ يَرْضَى لَكُمْ ثَلاَثًا، وَيَكْرَهُ لَكُمْ ثَلاَثًا: يَرْضَى لَكُمْ أَنْ تَعْبُدُوهُ وَلاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَأَنْ تَعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُوا…”
ترجمہ “اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین چیزوں کو پسند کرتا ہے، کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ نہ ڈالو.” (صحیح مسلم).
اس حدیث میں رسول اللہ صلی الله وسلم نے مسلمانوں کو اللہ کی عبادت اور اس کے ساتھ شرک نہ کرنے کی نصیحت کی ہے، اور ساتھ ہی اتحاد و اتفاق کی اہمیت پر زور دیا ہے رقہ واریت کے نتیجے میں امت مسلمہ کے درمیان انتشار اور اختلافات پیدا ہوتے ہیں، جو کہ مسلمانوں کی کمزوری کا سبب بنتے ہیں۔ مسلمانوں کا متحد ہونا ہی ان کی طاقت اور کامیابی کا باعث ہے رسول اللہ صلی الله وسلم نے ایک اور جگہ فرمایا “المؤمن للمؤمن كالبنيان، يشد بعضه بعضا”
ترجمہ: “مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے، اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے” (صحیح بخاری)
فرقہ وارانہ اتحاد اسلامی تعلیمات کا اہم ترین حصہ ہے جو کہ امت مسلمہ کی کامیابی اور سربلندی کے لیے ضروری ہے۔ قرآن و حدیث میں مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کی ترغیب دی گئی ہے اور فرقہ واریت کی مذمت کی گئی ہے۔
مندرجہ بالا اسلامی احکامات کی روشنی میں ہم سب کا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم سب مل کر اس مسئلہ کو فوری حل کرنے کی کوشش کریں۔ میں اس تحریر کی وساطت سے صاحب علم اور اہل قلم لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے قلم کے ذریعے اہم شخصیات کو اس مسئلہ کو فوری حل کرنے پر مجبور کریں جبکہ اس حلقہ کے ممبر قومی اسمبلی جمال احسن خان ، ایم پی اے اقبال خان خٹک ، سابق وزیر آبپاشی امانت الله خان شادی خیل ، نواب زادگان ملک وحید خان، ملک فواد خان، علامہ افتخار حسین نقوی ، پیر آف بھور شریف مولانا ضیاء الله صاحب ، پیر آف ترگ شریف حضرت علاؤ الدین صاحب ، پیر آف خواجہ آباد شریف توقیر الحسن شاہ سمیت علاقہ کی اہم شخصیات کو درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے تمام امور چھوڑ کر پہلی فرصت میں کالاباغ پہنچیں اور آپس میں بیٹھ کر فوری طور پر اس مسئلہ کو حل کرائیں تاکہ نہ صرف کالاباغ کی رونقیں دوبارہ بحال ہوں بلکہ تمام مکاتب فکر کے لوگوں میں ماضی کی طرف پیار محبت اور اتفاق برقرار رہے کیونکہ مجھے قوی امید ہے کہ ہمارے علاقہ کے لوگ اپنے بڑے بزرگوں کی بات کو کبھی نہیں ٹالتے اور یہ ہمارے علاقہ کی روایت ہے کہ بڑے جو فیصلہ کر دیں ہم اسے تسلیم کر لیتے ہیں
“سانحہ کالاباغ میں مختلف شخصیات کا مثبت کردار”
تحریر: عصمت الله نیازی
میانوالی کے انتہائی خوبصورت علاقہ کالاباغ میں گذشتہ دنوں کچھ لوگوں کی نااہلی کی وجہ سے ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں ایک ہی علاقہ میں گذشتہ کئی دہائیوں سے آپس میں بھائیوں کی طرح رہنے والے دو مکتبہ فکر کے لوگ لڑ پڑے۔ یہ لوگ کیوں لڑے اور کیا یہ سانحہ رونما ہونے سے پہلے روکا جا سکتا تھا؟ یہ ایک الگ کہانی ہے
دل کے لُٹنے کا سبب پوچھو نہ سب کے سامنے
نام آئے گا تمہارا یہ کہانی پھر سہی
ہم آج یہاں بات کریں گے کچھ ایسے کرداروں کی جنھوں نے اس واقعہ کے دوران ایک مثبت مثال قائم کی۔ جب بھی دو فرقوں کے درمیان کسی بات پر غلط فہمی پیدا ہوتی ہے تو اس کا ردعمل اتنا شدید ہوتا ہے کہ اُس میں کوئی بھی کردار ادا کرنا انتہائی پُر خطر ہوتا ہے کیونکہ اُس وقت جلوس کے شرکاء انتہائی غصہ میں ہوتے ہیں اور پہاڑی سیلابی ریلے کی طرح آگے آنے والی ہر چیز کو بہا کر لے جاتے ہیں لیکن اس صورتحال کے باوجود کچھ افراد اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر لوگوں کی جان بجانے کیلئے اس خطرے میں کود جاتے ہیں۔ سانحہ کالاباغ کے دن بھی جن افراد نے وہاں کردار ادا کیا اُن میں سر فہرست تھانہ کالاباغ کے سب انسپکٹر عبدالصمد اور ان کے دو ساتھی کانسٹیبل قیصر اور عمیر اعجاز تھے جنھوں نے جلوس کے شروع میں ہی ہسپتال کے ساتھ ملحقہ مسجد میں موجود لوگوں اور جلوس کے شرکاء کے درمیان آ کر دونوں پارٹیوں کو روکا اور منتشر کیا اور جب جلوس کے شرکاء نے مسجد کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی تو عبدالصمد نے مسجد کا دروازہ بند کر دیا اور اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ روازہ کے سامنے بہادری کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ اگر وہ اس طرح کی بہادری سے ایسا نہ کرتے تو جلوس کے شرکاء مسجد میں داخل ہو جاتے اور بہت زیادہ نقصان ہو سکتا تھا اس جرآت اور بہادری کے ساتھ ڈیوٹی کرنے پر ہم سب عبدالصمد، قیصر اور عمیر اعجاز کو سلام پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح جب یہ واقعہ ظہور پذیر ہوا اور اس کی اطلاع سی ای او ہیلتھ ڈاکٹر امیر احمد خان کے پاس پہنچی تو وہ پلک جھپکتے ہی فوراً میانوالی سے کالاباغ پہنچے اور ایک حکمت عملی بنا کر ریسکیو کا کام شروع کر دیا۔ محکمہ صحت کے تین ڈاکٹرز اور عملہ کے 28 اہلکار پہلے ہی جلوس کے ساتھ ڈیوٹی پر معمور تھے۔ جلوس مسجد لوہاراں والی میں پہنچا تو وہاں تک دونوں مکتبہ فکر کے سینکڑوں لوگ زخمی ہو چُکے تھے۔ یہ صورتحال دیکھ کر ڈاکٹر امیر احمد خان نے فوری طور پر ہسپتال کے عملہ کو احکامات جاری کئے کہ ایک مکتبہ فکر کے لوگ جن کے 60 سے زائد افراد زخمی ہوئے انہیں مسجد لوہاراں والی میں ہی مکمل طبعی امداد فراہم کی جائے تاکہ انہیں ہسپتال میں نہ لایا جائے کیونکہ وہاں پر دوسرے مکتبہ فکر کے سینکڑوں لوگ موجود تھے جو انتہائی غصہ کی حالت میں تھے اور اگر اہل تشیع کے زخمیوں کو ہسپتال میں لایا جاتا تو بہت بڑے نقصان کا سامنا ہو سکتا تھا۔ اسی طرح سُنی حضرات کے زخمیوں کو ہسپتال سے فوری طور پر ابتدائی طبعی امداد فراہم کر کے انہیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میانوالی منتقل کیا جاتا رہا اور دونوں پارٹیوں کے زخمی افراد کی طبعی امداد کیلئے ایمرجنسی ادویات کا بندوبست فوری طور پر کر دیا گیا تاکہ کسی بھی زخمی فرد کو بازار سے دوائی نہ خریدنی پڑے کیونکہ میڈیکل سٹورز سمیت پورا بازار پہلے سے مکمل طور پر بند تھا۔ ڈاکٹر امیر احمد خان ہر آنے والے زخمی کے ساتھ ایمرجنسی وارڈ میں جاتے اور اُن کا مطلوبہ علاج کرا کے ریسکیو 1122 کے ذریعے فوری طور پر میانوالی ریفر کر دیتے اور یہ سلسلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔ جب تک آخری زخمی کو طبعی امداد فراہم نہیں ہو گئی ڈاکٹر امیر احمد خان وہاں پر خود موجود رہے۔ اس کے ساتھ ریسکیو 1122 کے عملہ نے گولیوں کی ٹڑٹڑاہٹ میں شہر کی تنگ گلیوں کے اندر جا کر اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر ہر زخمی کو بروقت اُٹھا کر ہسپتال منتقل کیا حالانکہ اندھا دھند فائرنگ میں گولی کسی کو نہیں دیکھتی کہ آگے والا شخص ریسکیو 1122 کا ہے، محکمہ صحت کا ہے یا پھر جلوس میں شامل کسی مکتبہ فکر کا ہے۔ کوئی بھی سرکاری ملازم اپنی ڈیوٹی کی تنخواہ وصول کرتا ہے اور لوگوں کو سروسز فراہم کرنا اُن کے فرائض میں شامل ہوتا ہے لیکن ایسی صورتحال میں جہاں کئی محکموں کے ملازمین موقع سے فرار ہو گئے ایسے میں دلیری اور جانفشانی کے ساتھ ڈیوٹی کرنے والے نوجوانوں کو سلام پیش کرنا اور انہیں خراج تحسین پیش کرنا میڈیا اور اہل علاقہ کا فرض ہے کیونکہ اہل علاقہ کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے مستقبل میں یہ لوگ مزید دل لگی سے اپنے فرائض منصبی انجام دیں گے۔ سانحہ کالاباغ کے بعد پیدا ہونے والے حالات کو کنٹرول کرنے اور دونوں پارٹیوں کے درمیان صلح و آشتی کرانے کیلئے کردار ادا کرنے والے علامہ افتخار نقوی ، سول سوسائٹی کے نمائندہ نائب ناظم حاجی محمد جاوید اور انکی پوری ٹیم، ڈی ایس پی سرکل عیسیٰ خیل حاجی محمد اقبال سمیت تمام شخصیات کے مشکور ہیں جو اس کارخیر میں اپنی طرف سے کوشش کر رہے ہیں ۔ ہمیں قوی امید ہے کہ انشاء الله بہت جلد ان لوگوں کی پرخلوص کاوشیں رنگ لائیں گی اور کالاباغ کی رونقیں پہلے کی طرح بحال ہوں گی اور کالاباغ میں بسنے والے تمام مکتبہ فکر کے لوگ آپس میں بھائیوں کی طرح اتفاق اور محبت سے رہیں گے