خیر کا اجر تیرے شہر میں کیا دیتے ہیں
غزل پروفیسر گلزار بخاری
خیر کا اجر تیرے شہر میں کیا دیتے ہیں
روشنی لے کے چراغوں کو بجھا دیتے ہیں
تجھ میں کیا ہے کہ تجھے یاد کرے گا کوئی
اچھے اچھوں کو لوگ یہاں بھلا دیتے ہیں
اب کسی جرم پہ منصف نہیں کرتے ہیں گرفت
صرف ناکردہ گناہوں کی سزا دیتے ہیں
ہم نہیں چاہتے ہو جائے حقیقت ظاہر
اس لیے بات کو افسانہ بنا دیتے ہیں
خوب انداز عداوت ہے تیری بستی میں
ایک پتے کے عوض پیڑ جلا دیتے ہیں
کس نے مرہم سے نوازا ہے مگر ہم گلزار
جو بھی ملتا ہے اسے زخم دکھا دیتے ہیں
محبت کے سوا حرف و بیاں سے کچھ نہیں ہوتا
محبت کے سوا حرف و بیاں سے کچھ نہیں ہوتا
ہوا ساکن رہے تو بادباں سے کچھ نہیں ہوتا
چلوں تو مصلحت یہ کہہ کے پاؤں تھام لیتی ہے
وہاں جانا بھی کیا حاصل جہاں سے کچھ نہیں ہوتا
ضرورت مند ہے صید افگنی مشاق ہاتھوں کی
فقط یکجائی تیر و کماں سے کچھ نہیں ہوتا
مسلسل بارشیں بھی سبزہ و گل لا نہیں سکتیں
زمیں جب بے نمو ہو آسماں سے کچھ نہیں ہوتا
تلافی کے لئے درکار ہے آئینہ سازی بھی
شکست شیشہ پر ذکر زباں سے کچھ نہیں ہوتا
خلا میں تیر اندازی سے کیا گلزارؔ پاؤ گے
میسر اس جنون رائیگاں سے کچھ نہیں ہوتا
چراغ مہماں ہیں رات بھر کے مکاں منور نہیں رہے گا
اسے بسا لو دل و نظر میں کہ پھر یہ منظر نہیں رہے گا
ذخیرۂ آب پر ہے دار و مدار بارش کے موسموں کا
کہاں سے آئیں گے ابر گھر کر اگر سمندر نہیں رہے گا
ہوا ہے اس سے مرا تصادم تو کیوں اسے ناتمام چھوڑوں
فصیل رستے کی ٹوٹ جائے گی یا مرا سر نہیں رہے گا
رہی جو تحصیل آب و دانہ کی شرط خانہ بدوش ہونا
کسی پرندے کا آشیانہ چمن کے اندر نہیں رہے گا
کسی کا دیوار پر تصرف کوئی ہوا بام و در پہ قابض
یہی مکینوں کی خو رہی تو یقین ہے گھر نہیں رہے گا
اسی سے قائم ہے شان اس کی یہی ہے گلزارؔ آن اس کی
رہے گی کیا آبرو صدف کی جو اس میں گوہر نہیں رہے گا
عکس روشن ترا آئینۂ جاں میں رکھا
ہم نے تصویر کو حیرت کے جہاں میں رکھا
کون مایوس تری بزم عنایت سے اٹھا
تیرے اکرام نے کس کس کو گماں میں رکھا
کوئی مدہوش نہ ہو ساعت گل بوسی میں
اس نے یوں پھول کو کانٹوں کی اماں میں رکھا
وہ سمجھتا تھا کہ ہیں سچ کے خریدار بہت
رہ گیا مال سبھی اس کی دکاں میں رکھا
یاد ہم آ نہ سکے جشن بہاراں میں اسے
ہم سفر جس نے ہمیں عہد خزاں میں رکھا
اک پرندہ بھی نہیں پیڑ پہ باقی گلزارؔ
تیر صیاد نے کس وقت کماں میں رکھا
آندھی میں بساط الٹ گئی ہے
گھنگھور گھٹا بھی چھٹ گئی ہے
وہ گرد اڑائی ہے دکھوں نے
دیوار حیات اٹ گئی ہے
خنجر کی طرح تھی ریگ صحرا
خیمے کی طناب کٹ گئی ہے
میراث گلاب تھی جو خوشبو
جھونکوں میں ہوا کے بٹ گئی ہے
پیاسوں کا ہجوم رہ گیا ہے
اک تیر سے مشک پھٹ گئی ہے
اک اور بھی دن گزر گیا ہے
میعاد عذاب گھٹ گئی ہے
ساحل کی بڑھا کے تشنگی موج
دریا کی طرف پلٹ گئی ہے
پھیلاؤں گا پاؤں کیا میں گلزارؔ
چادر ہی مری سمٹ گئی ہے
ظلمتوں کی سحر نہیں آتی
آرزو کوئی بر نہیں آتی
خود نگر وہ ہیں اور ہم خوددار
بگڑی بنتی نظر نہیں آتی
نو گرفتار دام الفت ہیں
آہ بھی کرنی سر نہیں آتی
ملک و ملت بھی ہو چکے نیلام
ہم کو غیرت مگر نہیں آتی
عرش سے بیکسوں کی آہ کبھی
لوٹ کر بے اثر نہیں آتی
عیب اغیار پر ہے سب کی نظر
اپنی صورت نظر نہیں آتی
وقت کی طرح پھر مرے ہم دم
زندگی لوٹ کر نہیں آتی
آدمی آدمی کا شور بہت
آدمیت نظر نہیں آتی
متحد ہوں جو اپنے بیگانے
کیوں وہ صورت نظر نہیں آتی
حیف گلزارؔ ملک و ملت میں
اب نسیم سحر نہیں آتی
تری طلب نے فلک پہ سب کے سفر کا انجام لکھ دیا ہے
کسی کو نجم سحر کسی کو ستارۂ شام لکھ دیا ہے
زباں پہ حرف ملال کیوں ہو کہ ہم ہیں راضی تری رضا پر
ترا کرم تو نے آب و دانہ اگر تہ دام لکھ دیا ہے
بچا کے اپنے لیے نہ رکھا کوئی گریباں کا تار ہم نے
جنوں سے جو کچھ بھی ہم نے پایا وہ سب ترے نام لکھ دیا ہے
نگاہ بازار پر نہیں تھی وگرنہ کیوں چارہ ساز غم نے
مریض کے نسخۂ شفا میں خلوص کا جام لکھ دیا ہے
یہ کس کے خامے کا ہے نوشتہ کہ بو الہوس عیش کر رہے ہیں
نصیب اہل نظر میں کس نے ہجوم آلام لکھ دیا ہے
جہان حرف و صدا میں چرچا نہ کیوں ہو گلزارؔ خاص تیرا
ترے لیے تیری خوشنوائی نے شہرۂ عام لکھ دیا ہے
زندگی داؤ پہ ہر آن لگی رہتی ہے
دل کی بازی میں سدا جان لگی رہتی ہے
ہیں ترے معرکہ آرا کہ تماشائی ہیں
بھیڑ کیسی سر میدان لگی رہتی ہے
کوئی بلقیس نظر آئے نہ آئے پھر بھی
کھوج میں روح سلیمان لگی رہتی ہے
خلق عمال سے نالاں ہے مگر یاروں کو
فکر خوش نودیٔ سلطان لگی رہتی ہے
بخت سازان رعایا میں کشش ہے کتنی
ہر نظر جانب ایوان لگی رہتی ہے
کیوں بدلتا نہیں تو اس کو توانائی میں
آگ تو اے دل حیران لگی رہتی ہے
آدمی شوق سے فارغ نہیں رہتا گلزارؔ
دھن کوئی زیست کے دوران لگی رہتی ہے
کتنی صدیاں نارسی کی انتہا میں کھو گئیں
بے جہت نسلوں کی آوازیں خلا میں کھو گئیں
رنگ و بو کا شوق آشوب ہوا میں لے گیا
تتلیاں گھر سے نکل کر ابتلا میں کھو گئیں
کون پس منظر میں اجڑے پیکروں کو دیکھتا
شہر کی نظریں لباس خوش نما میں کھو گئیں
منتظر چوکھٹ پہ تعبیروں کے شہزادے رہے
خواب کی شہزادیاں قصر دعا میں کھو گئیں
سانپ نے ان کے نشیمن میں بسیرا کر لیا
پیڑ سے چڑیوں کی مہکاریں فضا میں کھو گئیں
کوئی کیا باب اماں آفت زدوں پر کھولتا
دستکیں گل زار طوفاں کی صدا میں کھو گئیں