PERSONAL QUALITIES OF PROFESSOR MUHAMMAD SALEEM AHSAN FROM THE PEN OF CELEBRITIES
پروفیسر ملک محمد سلیم احسن کے بارے میں پروفیسر منور علی ملک کی یادیں
یہ بھی ان سے سناکہ بسوں کے اڈوں اور دوسرے ایسے مقامات پر سادہ پانی بیچنے والوں سے پانی ضرور لے لیا کرو کہ ان کے پاس بیچنے کو پانی کے سوا اور کچھ نہیں ھوتا-
آپ نے ایک ، میں نے دو محمد سلیم احسن دیکھے ھیں
– ایک سلیم احسن وہ تھے جو نیلے رنگ کا خوبصورت تھری پیس سوٹ پہنتے تھے- اچھے خاصے صاحب بہادر قسم کے اپ ٹو ڈیٹ نوجوان تھے- اس زمانے میں موصوف گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں ھمارے رفیق کار تھے- جب ھم لوگ وھاں وارد ھوئے تو یہ پہلے سے وھاں موجود تھے- تقریبا 6 ماہ ھمارے ساتھ رھے پھر وھاں سے ٹرانسفر ھوکر گورنمنٹ کالج میانوالی میں آگئے-
جتنا عرصہ عیسی خیل کالج میں رھے روزانہ بس پر میانوالی سے عیسی خیل آتے رھے- بڑی ھمت کی بات تھی ، روزانہ آنے جانے میں تقریبا دوسو کلومیٹر کا سفر ، وہ بھی بس کے ذریعے !
اس زمانے میں ان سے میری شناسائی صرف کلاسوں میں اتے جاتے ھیلو ھاے تک محدود رھی- ٹائیم ٹیبل ھی ایسا تھا کہ بقول چچا غالب
وہ جاتا تھا کہ ھم نکلے
کلاس سے فارغ ھوتے ھی سلیم احسن صا حب فورا واپس میانوالی چلے جاتے- مل بیٹھنے کا وقت ھی کبھی نہ ملا- شاعر یہ بھی تھے ، میں بھی- لیکن نہ مجھے پتہ چل سکا یہ شاعر ھیں ، نہ انہیں معلوم ھو سکا کہ میں اور اچھے برے کاموں کے علاوہ شاعری بھی کرلیتا ھوں- میری شاعری ابھی لالا کے میکدے سے باھر نہین نکلی تھی- ان کی شاعری ابھی میانوالی کے چند مخصوص احباب کی محفلوں تک محدود تھی- –——-۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔
تحریر:۔۔۔۔۔۔ ۔سید محسن نقوی
محمد سلیم احسن سرائیکی زبان دے اُنہیں قدآور شاعریں دی قطار وچ ہک نویکلا ناں ہے جیڑھے نویں نکور جذبئیں دی ساون سِندھ روانی دے سامنے ساہ دی کندھ اُسار کے خیال دی شوء اِچ وگھریے ہوۓ موتئیں کوں لفظیں دے ٻُک وچ کٹھا کرتے اوکھے اندھارئیں دے اوچھنڑ اِچ لُکیے ہوۓ لوکیں کو “ پیار پرکھرے” دی بشارت ڋیونڑ اِچ مصروف اِن۔
محمد سلیم احسن دا فن اوندے اندر دی سوچ دے سچ دا” عینی شاھد” بنڑ کے اوندے ہر شعر کوں ہمیشگی دا سُراغ ڋیندے تے اوندے لفظیں کوں زمانے دے نال نال زندہ رہنڑ دا گُر سکھیندے۔
سلیم احسن دیاں غزلاں پڑھ کے ایں واسطے وی خوشی تھیندی اے جو اوندا کوئ تجربہ اُدھار نئیں تے نہ کوئ لفظ اوپرا اے ،اوندی شاعری دے سارے منظر ، سارے موسم، سارے ذائقے تے سارے زاویے اوندی آپڑیں دھیان دھرتی دی کچی پکی مٹی دی ملکیت تے امانت ہِن، او پرائ اکھ نال خواب ڋیکھنڑ دا عادی نئیں تے نہ پراۓ خواب چوری کرکے آپڑیں اکھ کوں شک دے عذاب اچ مُبتلا کریندے ۔ اوندے شعریں دی شہ رڳ اِچ آسے پاسے دے ماحول دے سارے استعارے ساہ جُھنڑ کے تندیر وار سفر کریندن ، اونکوں آپڑیں ذات دے کشف دی ہر علامت داپُورا پُورا گیان حاصل ہے————- ذات دا کشف، جیرھا فن تے فنکار دے درمیان اعتماد دے “ عہد نامے”داڋوجھا۔
ناں اے ۔
مختصر لفظیں وچ سلیم احسن دی شاعری جوان جذبے، تِکھے تجربے،مُنه زور مشاہدے تے لہو لباس لفظیں دی ہک ایجھی دستاویز اے جینکوں پڑھ کے بُھلاڋیونڑ دا سوال ہی پیدا نئیں تھیندا۔ رب کرے سلیم احسن تے اوندی شاعری دی وسدی رسدی جھوک سوچیں دے سوجھلے دی چھاں اِچ امن منڑیندی راہوےتے قیامت تئیں حیاتی ہنڈیندی راہوے(
نادر و نایاب لوگ
محمد سلیم احسن۔تحریر۔ ۔ ۔ وقار احمد ملک
سرما کی پت جھڑ عروج پر ہے۔ گورنمنٹ کالج میں چار سو رونق ہے۔کافی تعداد میں لڑکے کالج آ رہے ہیں اور کچھ فارغ ہو کر واپس جا رہے ہیں۔ سائیکل سٹینڈ عبور کریں تو اینٹوں کے راستے ایک چھوٹا چوراہا تشکیل کر دیتے ہیں۔ دائیں طرف کالج کی مرکزی عمارت ہے، سامنے سائنس بلاک اور بائیں طرف دو کمرے سولنگ کے ساتھ الگ تھلک موجود ہیں۔ ان کمروں کے نمبر شاید سترہ اور اٹھارہ ہیں۔سولنگ کے بائیں طرف سوکھی گھاس میں چھپا ایک لان ہے جس کو دسمبر کے اس موسم میں سبزہ زار کہنا غلط ہو گا۔ خزاں رسیدہ ٹنڈ منڈ درختوں کے نیچے سیاسیات کی کلاس جاری ہے۔ سو سے زیادہ بچے پروفیسر صاحب کا لیکچر یوں خاموشی کے ساتھ سن رہے ہیں جیسے کوہ کاف کے کسی دیو نے جادو کر کے ان کو پتھر کا بنا دیا ہو۔کلاس سے تھوڑے فاصلے پر لڑکوں کی ٹولیاں ادھراُدھر گھوم پھر رہی ہیں اور کالج کی مخصوص آزادی اور بے فکرے ماحول سے محظوظ ہو رہی ہیں۔ ان گپیں لگاتے لڑکوں کا کلاس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ پروفیسر صاحب شاید افلاطون کی مثالی ریاست کے بارے بچوں کو بتا رہے ہیں ۔ سیاست، تاریخ اور قانون کے ساتھ ساتھ اقبال اور غالب کے اشعار نے لیکچر کو اور بھی مزین کر دیا ہے۔ پروفیسر جس ذوق شوق سے بچوں کو معلومات دے رہے ہیں ویسی ہی دلچسپی سے بچے علم کے دریا میں غوطہ زن ہیں۔ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔
یہ پروفیسر گورنمنٹ کالج کے مشہور استاذ محمد سلیم احسن ہیں جو علاقہ بھر کی معروف شخصیت اور ملک بھر کے جانے پہچانے ادیب ہیں۔ یہ منظر کوئی پچیس برس ادھر کا ہے۔ محمد سلیم احسن کے کچھ عرصہ قبل اپنی خوبصورت سرائیکی کی منفرد لہجے کی حامل کتاب جھکڑ جھولے پر صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ بچوں کو فخر ہے کہ وہ ایک صدارتی ایوارڈ یافتہ شاعر سے پولیٹیکل سائینس کا مضمون پڑھ رہے ہیں۔
محمد سلیم احسن سے میرا پہلا تعارف میرے والدمحترم کے توسط سے ہوا۔ والد صاحب اور سلیم صاحب گورنمنٹ کالج کے ساٹھ کی دہائی کے سنہرے دور میں ہم جماعت تھے۔ والد صاحب اور سلیم صاحب نہ صرف دوست بلکہ قلم کار ساتھی بھی تھے۔ ابو نے سن 1963 کے سہیل میگزین میں کاغذ کے پرزے کے نام سے ایک ڈرامہ لکھا تھا جبکہ سلیم صاحب اس وقت بھی ایک منجھے ہوئے شاعر کے طور پر مشہور
تھے۔ بعد میں ابو قلم کاغذ چھوڑ کر ایک آڑھتی بن گئے اور سلیم احسن ترقی کرتے ہوئے پروفیسر ۔
سن 1990 میں جب مَیں نے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا تو کافی عرصہ میں نے سلیم صاحب کا پلو پکڑے رکھا۔ میرا زیادہ وقت ان کے ساتھ ہی گزرتا تھا۔ دوسرے طالب علموں کے ساتھ میں بھی ان کے پیریڈ کا منتظر رہا کرتا تھا۔ اسی پیریڈ نے میرے اندر ادبی تحریک پیدا کی ۔ ہم بی اے میں پڑھتے تھے تو سلیم صاحب نے ابو کو نوے کی دہائی کی مشہور کتاب شہاب نامہ پڑھنے کے واسطے دی۔ اس کتاب کو ابو اور میرے سمیت سب گھر والوں نے پڑھا۔ کتاب سے ہم لوگ اتنے متاثر ہوئے کہ یہ ادھار کی کتاب واپس کرکے دوبارہ اس کے پڑھنے کی پیاس موجود تھی۔ ہمیں مجبوری کے عالم میں ایک سو اسی روپے میں نیا شہاب نامہ لینا پڑا باوجود اس امر اور حقیقت کے ہمارا تعلق ایک خالص کاروباری گھرانے اور پس منظر سے تھا جہاں کتاب اور وہ بھی غیر نصابی کتاب پر پیسے لگانا ایک بیوقوفی سمجھا جاتا ہے۔شہاب نامہ میں مذکور چندراوتی، عفت اور ڈپٹی کمشنر کی ڈائری نے مجھے ادبی کتابوں کی راہ دکھلائی اور مالک کے شکر سے آج تک کتابوں کا ساتھ جاری ہے۔ یہ بُوٹا بلا شک و شبہ محمد سلیم احسن کا لگایا ہوا ہے۔
میرے ادبی ذوق شوق کو دیکھ کر سلیم صاحب نے مجھے اپنے گھر میں موجود کتابیں پڑھنے کے لیے دیں جن میں کافی نایاب نسخے بھی شامل تھے ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ان میں ایک کتاب ہرچرن چاولہ کے مشہور افسانوی مجموعے کا قلمی نسخہ بھی تھا۔ میں نے وہ تمام کتابیں تھوڑے عرصے میں گما دیں۔ سلیم صاحب نے کچھ عرصے بعد ان کتابوں کا تقاضہ شروع کیا تو میں نے ان سے کنی کترانا شروع کر دی۔ جب ان کو یہ پتہ چلا کہ وہ نادر کتابیں میں نے ضائع کر دی ہیں تو انہوں نے مجھ سے نارضگی کا اظہار کیا۔ پھر ایک دن میں پنڈی سے ممتاز مفتی کی کتاب تلاش لے کر آیا تو سلیم صاحب نے مجھ سے لے لی۔ میں نے ابھی اس کتاب کو کھول کر دیکھا بھی نہیں تھا۔ سلیم صاحب سے وہ کتاب کوئی اور لے گیا۔ حساب کچھ تو برابر ہوا۔
سلیم احسن شاعر ہونے کا ساتھ ساتھ ایک مورخ بھی ہیں۔ انہوں نے روکھڑی شہر کے قدیم کھنڈرات پر تحقیق کی۔ ان کے پتھر، مجسمے اور سکے وغیرہ اپنے ڈرائنگ روم میں سجا کر رکھے۔ یاد آیا ان کا ڈرائنگ روم جسے ہم میانوالی میں بیٹھک کہتے ہیں بڑا پرسکون ہوا کرتا تھا خاص کر گرمیوں کے دنوں میں۔ یہ میں ان کے گرو بازار کے ایم سی ہائی سکول کے قریب واقع گھر کی بات کر رہا ہوں۔ اسی گھر میں منور علی ملک اپنے گھر سے پیدل چل کر آتے اور دونوں ویسپا سکوٹر پر بیٹھ کر کالج جایا کرتے۔ ان کی بیٹھک کے ایک کونے میں ایک تبلہ بھی پڑا ہوتا تھا جو ان کے موسیقی کے ذوق کی وکالت کرتا۔
ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو ان کا وسیع القلب اور انسان دوست ہونا ہے۔ہندوستان سے جو ہندو بھی میانوالی آتا ہے سلیم صاحب کا مہمان بنتا ہے۔ روشن لال چہکر تو اب بھی ہر سال ان کے گھر آتا رہتا ہے۔ سلیم صاحب کا حلقہ احباب بہت وسیع رہا ہے۔ ریڈیو پاکستان کے نامور سٹیشن ڈائریکٹر ظفر خان نیازی اور معروف وکیل نیک محمد کے ساتھ ان کا یارانہ بہت مشہور تھا۔اس تکون کو دیکھ کر مجھے ممتازمفتی، شہاب اور اشفاق احمد کا ٹرائیکا یاد آ جاتا تھا۔
وقت کا پہیہ گھوما اور یوں گھوما کہ سب کچھ بدل کے رکھ دیا۔ شاعر، تاریخ دان، موسیقار اور سکالر محمد سلیم احسن اچانک سب کچھ تیاگ کے ایک مولوی بن گئے۔ سر پر بڑی سی پگڑی سجا لی۔ چہرے پر نور پہلے بھی تھااس نئی تبدیلی کے بعد اور بھی بڑھ گیا۔ ان کی صحبت میں پہلے جہاں ادبی خوشبوؤیں بکھرا کرتی تھیں اب مافوق الفطرت واقعات نے لے لی۔ لیکن اس تبدیلی کے باوجود ان کی شخصیت کی چاشنی اور گفتار کی شیرینی ہنوز قائم و دائم ہے۔ وہ مجھے جہاں بھی ملتے ہیں بڑی محبت سے ملتے ہیں۔ شاعری اب بھی کرتے ہیں لیکن بہت کم۔ گل و گلزار اور لب و رخسار کے قصوں کی جگہ اب حمد اور نعتیں کہنے کی سعادت حاصل کر چکے ہیں۔ انہوں نے پہلے ہمارا محلہ چھوڑا، پھر شہر بھی چھوڑ دیا اور پنڈی جا بسے۔ کبھی کبھی میانوالی آتے ہیں تو حافظ سویٹ شاپ پر ان سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ مولوی محمد سلیم احسن سے گفتگو کرتے ہوئے کبھی کبھی جی کرتا ہے کہ کاش کبھی پرانے اپ ٹوڈیٹ، سوٹڈ بوٹڈ اور رومینٹک سلیم احسن سے بھی مڈبھیڑ ہو جائے۔ لیکن ایسا کب ہوتا ہے
جھوٹ ہے یہ تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے
اچھا میرا خوابِ جوانی تھوڑا سا دہرائے تو
سرائیکی ادب کا سرمایہ پروفیسرمحمد سلیم احسن
1959ء۔۔ بچوں کی شاعری سے آغاز کیا “ بچوں کی دنیا” رسالے میں حمد باری تعالی چھپی۔ بچوں کے رسائل اور قومی اخبارات کے بچوں کے صفحات میں کلام شائع ہوتا رہا ۔ اردو غزل اورنظم کی اصناف سے باقاعدہ اردو شاعری کا آغاز ہوا اور مختلف جریدوں کی زینت بنتا رہا
نام : محمد سلیم
تخلص: احسن…..
والد کانام : الحاج غلام حسن ۔۔
تاریخ پیدائش:12,جولائ 1944ء
جاۓ پیدائش: میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔
ذات: اعوان ۔جنگی خیل۔۔۔۔۔۔۔
آبائ وطن : ڈیرہ اسماعیل خان
موجودہ سکونت: E/37 سلطان ٹاؤن ، میانوالی
تعلیم:ایم اے سیاسیات، ایم اے تاریخ
ملازمت:آغاز۔۔ 17دسمبر1973
لیکچرارگورنمنٹ انٹرکالج جلالپورجٹاں ، گجرات
ریٹائرمنٹ:11جولائ2004ء
عہدہ : ہیڈ آف پولٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ
(1995 —2004 )
گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج میانوالی
آغازشاعری:
1959ء۔۔ بچوں کی شاعری سے آغاز کیا “ بچوں کی دنیا” رسالے میں حمد باری تعالی چھپی۔ بچوں کے رسائل اور قومی اخبارات کے بچوں کے صفحات میں کلام شائع ہوتا رہا ۔ اردو غزل اورنظم کی اصناف سے باقاعدہ اردو شاعری کا آغاز ہوا اور مختلف جریدوں کی زینت بنتا رہا
سرائیکی شاعری :
سرائیکی گیت نگاری اور دوھڑوں سے سرائیکی شاعری کی ،پھر سرائیکی غزل، نظم اور سرائیکو کو محبوب بنا لیا ،
تصانیف :
- جھکڑ جھولے (1984ء)۔۔۔۔۔۔۔
ناشر: میانوالی اکیڈیمی میانوالی
- چیتے چنتے (1993ء)۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشر : سرائیکی ادبی بورڈ ملتان
تاریخی، تحقیقی اور ثقافتی مضامین :r
- میانوالی کی زبان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- میانوالی سندھ کنارے۔۔۔۔۔۔۔۔
- میانوالی کاتاریخی پس منظر۔۔
- میانوالی کا تہذیبی منظر نامہ
- روکھڑی کے کھنڈرات۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- میانوالی میں ڈائنوسار۔۔۔۔۔۔۔۔
- سرہند یاترا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
- وچھڑاوطن ( ہریش چند نکڑہ کی تصنیف) اردو ترجمہ کی نظرثانی
زیر ترتیب تصانیف :
- اولے گھولے ۔۔۔۔۔۔۔۔(سرائیکی نعت)
- خواب کچاوے۔۔۔( سرائیکی ہائیکو )
- سُر ساونی۔۔۔۔۔۔۔۔۔( سرائیکی گیت)
محمد سلیم احسن کا کلام گانے والے فنکار :
عطاءاللہ خان عیسی خیلوی،مسرت نذیر،ثمر اقبال، ترنم ناز،شمسہ کنول، اقبال باہو، محمد ایوب نیازی، عطامحمدنیازی داؤد خیلوی،شفیع اختر وتہ خیلوی،لیاقت علی خان وتہ خیلوی،عبدالستار زخمی، محمد حسین بندیالوی،علی عمران اعوان( مظہر ملک)،اور مسعود ملک۔
ایوارڈ و اعزازات:——————-
- خواجہ غلام فرید قومی ایوارڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔1984ء
- گولڈ میڈل۔ڈسٹرکٹ کونسل میانوالی۔1984ء
- سرگودھا ہائر سیکنڈری بورڈ ایوارڈ۔۔ ۔1984ء
- ظہورنظر ایوارڈ، بہاول پور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1985ء
- بخت ایوارڈ ( حسن کارکردگی) ۔۔۔۔۔۔۔۔1991ء
- ادبی ایوارڈ، نیلاب اکیڈمی میانوالی۔۔2004ء
- ۔ ہفت روزہ” ضرب قلندر” مجاہد ملت ایوارڈ۔2011ء
استاد شاعری: نہ شاعری میں استاد تھا نہ شاگردہیں ۔
خاندان:———
خاندان میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں شامل ہیں ، بیٹیاں اپنے گھروں کو سدھار گئیں۔ ایک بیٹا اور ایک پوتا ،پوتی ہے۔
- اقبال فاطمہ( شریک حیات)بی اے ،بی ایڈ……..
ریٹائرڈہیڈمسٹریس( پی۔ اے۔ ایف کالج میانوالی)
- ابرار محمد علی ملک (بیٹا)۔بی ۔ ایس سی انجینئرنگ،ایم ۔ ایس سی،ایم فل۔ حال مقیم کنیڈا۔
- ڈاکٹر منزہ مجید( بہو)۔ ایم بی بی ایس۔حال مقیم کنیڈا
- ڈاکٹر نافعہ سلیم( بیٹی) ایم سی پی ایس، حال مقیم ریاض سعودی عرب۔
- ڈاکٹر وردہ سلیم ( بیٹی)ایم سی پی ایس۔راولپنڈی
- اقداس سلیم ۔۔( بیٹی) ایم ۔بی ۔اے( فنانس)…….
دو سرائیکو :
وینڑ کرینداں رات گزردی، ہاواں بھرداں ڋینہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توں وی چاہویں میں وی چاہواں چاہواں دی ہک جھوک
مِلنڑ نہ ڋیندے لوک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھمدی کھمنڑ، وسدے بدل ،پرنالاں داشور ۔۔۔۔
میڋے ہوش حواس دی اصلوں بہوں ہینڑیں دیوار
مولا خیر گزار۔۔۔۔