PERSONAL QUALITIES OF PROFESSOR MUHAMMAD SALEEM AHSAN FROM THE PEN OF CELEBRITIES

پروفیسر ملک محمد سلیم احسن کے بارے میں  پروفیسر منور علی ملک کی یادیں

یادیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔1984
گورنمنٹ کالج میانوالی کی ایک تقریب۔۔۔پہلی صف ۔۔۔ پروفیسر محمد سلیم احسن اور میں۔
پروفیسر محمد سلیم احسن سے اپنے مراسم کی پوری داستان لکھوں تو درد کا سفیر جتنی ، اتنی ھی دلچسپ کتاب بن جائے، کیونکہ میانوالی میں مجھے ان کے بہت قریب رھنے کا اعزاز نصیب ھوا- میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا- مثال کے طور پہ آداب مجلس- میں خالص داؤد خیلوی تھا- اب بھی ھوں ، مگر اب بات کرتے وقت موقع محل دیکھ کر بات کرتا ھوں- ایک تو یہ سلیقہ ان سے سیکھا، اس کے علاوہ اور بھی بہت سی اچھی باتیں انہوں نے مجھے سکھائیں-
مثلا یہ کہ بوڑھے بھکاری کو کچھ نہ کچھ ضرور دے دیا کرو کہ اس کا اگر کوئی اور وسیلہ ھوتا تو وہ اس عمر میں ھاتھ پھیلانے کی ذلت گوارا نہ کرتا- کہا کرتے تھے کہ لالا، بڑھاپا تو آخر ھم پہ بھی آناھے (اب تو آ ھی چکا ھے) اگر ھم جوانی میں بوڑھوں کی عزت کریں تو بڑھاپے میں اللہ ھماری عزت برقرار رکھے گا-

یہ بھی ان سے سناکہ بسوں کے اڈوں اور دوسرے ایسے مقامات پر سادہ پانی بیچنے والوں سے پانی ضرور لے لیا کرو کہ ان کے پاس بیچنے کو پانی کے سوا اور کچھ نہیں ھوتا-

ملازمت کے دوران میں 20 سال تک پروفیسر محمد سلیم احسن کے ھمراہ ان کے موٹر سائیکل پر کالج آتا جاتا رھا – میانوالی پر ابھی موٹرسائیکلوں کی یلغار نہیں ھوئی تھی – اکا دکا لوگوں کے پاس ویسپا سکوٹر یا یاماھا موٹرسائیکل ھوتا تھا – کالج شہر سے دوتین میل دور تھا ، میں سائیکل لینے کا سوچ رھا تھا ، مگر سلیم بھائی نے کہا “ لالا چھوڑو، میرے موٹر سائیکل پہ آتے جاتے رھیں گے “-
اس دن کے بعد میری ملازمت کے آخری دن تک تقریبا 20 سال ھم دونوں ایک ساتھ کالج آتے جاتے رھے – دونوں ھم مزاج بھی تھے ، شاعر بھی – بڑی مزے کی سنگت تھی ھماری-
میں گھر سے تیار ھوکر سلیم بھائی کے ھاں آجاتا – چائے کا دور چلتا – یہ چائے سلیم بھائی خود بناتے تھے – ان کی اھلیہ پی اے ایف کالج کے سکول سیکشن کی ھیڈمسٹریس تھیں – وہ ھم سے پہلے اپنے کالج چلی جاتی تھیں – چائے پی کر ھم کالج روانہ ھو جاتے –
ابتدا میں سلیم صاحب کے پاس ھونڈا -110 موٹر سائیکل تھا – بعد میں کہیں سے لال رنگ کا ویسپا سکوٹر لے آئے – شہر میں اس رنگ اور ماڈل کا یہ واحد سکوٹر تھا – بہت وفادار چیز ھے – میں اس سکوٹر کو لالا کہا کرتا تھا – پچھلے ھفتے سلیم بھائی اسی پر سوار ھماری گلی سے گذرے تو مجھے دیکھ کر رک گئے – میں نے سکوٹر کی طرف اشارہ کرکے کہا “ لالا ابھی ٹھیک چل رھا ھے ؟ “
سلیم بھائی نے ھنس کر کہا “ بالکل ٹھیک ٹھاک “ –
جناب سلیم احسن سے میرا تعلق دوستی سے آگے بھائی چارے جیسا ھے – ان کی اھلیہ اور بچے میرے سٹوڈنٹ بھی رھے ، اس لیے ان کے گھر میں میں اپنے گھر کی طرح بلاتکلف آجا سکتا ھوں – ملازمت کا دور ختم ھؤا ، مگر ھمارا تعلق بدستور برقرار ھے – کبھی کبھار مل بیٹھ کر جوانی کی یادیں تازہ کر لیتے ھیں –
-گورنمنٹ کالج میانوالی سے ہر پندرہ دن بعد کالج بلیٹین (خبرنامہ) شائع ہوا کرتا تھا – چار صفحات پر مشتمل اس خبرنامہ کے چیف ایڈیٹر پروفیسر محمد سلیم احسن تھے – دوتین سٹوڈنٹ ان کے معاون ہوا کرتے تھے —- کالج کی اہم خبریں ، مبارک باد اور تعزیت کے پیغامات، نصیحت آموز اقوال زریں ، شائستہ لطائف (jokes) اور سٹوڈنٹس کی شاعری اور نثر میں مختصر کاوشیں اس خبرنامے کی زینت بنتی تھیں – اداریہ پروفیسر سلیم احسن صاحب لکھتے تھے – نیا تعلیمی سال شروع ہونے پر نئے آنے والے سٹوڈنٹس کے لیے استقبالیہ اداریئے میں نووارد سٹوڈنٹس کو خٰوش آمدید کہا جاتا اور انہیں کالج کے اداب اور قواعد وضوابط سے آگاہ کیا جاتا تھا – نئے تعلیمی سال کا پہلا شمارہ 8 صٍفحات پر مشتمل ہوتا تھا – کالج کا مفصل ٹائیم ٹیبل بھی اس شمارے میں شامل ہوتا تھا – خبرنامہ میانوالی پرنٹنگ پریس سے طبع ہوتا اور ہر سٹوڈنٹ کو مفت ملتا تھا –
تعلیمی اداروں میں اچھی روایات برپا کرنے میں اداروں کے سربراہ بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں – ہر پرنسپل یا ہیڈماسٹر صاحب اہلیت و بصیرت نہیں ہوتا – کچھ سربراہوں کو قدرت نے اچھی روایات قائم کرنے کے لیئے خصوصی ویژن اور اہلیت عطا کی ہوتی ہے –
پرانی یادیں ———- جب ھم جوان تھے
بھکر کا ایک مشاعرہ ، صدارت پروفیسر محمد سلیم احسن ، نظامت ، سید نجف بخاری
( سلیم احسن صاحب کے بائیں جانب والے آدمی کو آپ نہ پہچان سکیں تو آپ کی مرضی )
55 برس کی عمر تک میرے اکثر احباب اور سٹوڈنٹ میری عمر کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا رہے۔ ان سب کے حساب میں میری عمر دس پندرہ سال کم شمار ہوتی رہی۔ میں بتاتا بھی تو کہتے دیکھنے میں تو آپ اتنی عمر کے نہیں لگتے۔
پھر یوں ہوا کہ میرے محترم بھائی پروفیسر محمد سلیم احسن صاحب حج ادا کر کے واپس آئے تو کہنے لگے تمہارے لیئے میں نے روضہءرسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر صرف ایک ہی دعا کی ھے کہ یہ بندہ داڑھی رکھ لے۔
میں نے کہا اللہ کے بندے تم وہاں بھی میری شکایت لگا آئے ھو ؟؟
اب میری کیا مجال تھی کہ کلین شیو کرتا۔ داڑھی رکھ لی۔ سر کے بال تو سیاہ تھے، اب بھی ہیں، داڑھی کے سفید بالوں نے میری عمر کا راز فاش کر دیا۔
الحمدللہ یہ بھی اچھا ہوا ۔۔۔ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جب کوئی سفید داڑھی والا مومن دعا کے لییے ہاتھ اٹھاتا ہے تو اس کی دعا رد نہیں ہوتی، کیونکہ اللہ کریم کی رحمت اس کے سفید بالوں کا احترام کرتی ہے۔

آپ نے ایک ، میں نے دو محمد سلیم احسن دیکھے ھیں

– ایک سلیم احسن وہ تھے جو نیلے رنگ کا خوبصورت تھری پیس سوٹ پہنتے تھے- اچھے خاصے صاحب بہادر قسم کے اپ ٹو ڈیٹ نوجوان تھے- اس زمانے میں موصوف گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں ھمارے رفیق کار تھے- جب ھم لوگ وھاں وارد ھوئے تو یہ پہلے سے وھاں موجود تھے- تقریبا 6 ماہ ھمارے ساتھ رھے پھر وھاں سے ٹرانسفر ھوکر گورنمنٹ کالج میانوالی میں آگئے-

جتنا عرصہ عیسی خیل کالج میں رھے روزانہ بس پر میانوالی سے عیسی خیل آتے رھے- بڑی ھمت کی بات تھی ، روزانہ آنے جانے میں تقریبا دوسو کلومیٹر کا سفر ، وہ بھی بس کے ذریعے !

اس زمانے میں ان سے میری شناسائی صرف کلاسوں میں اتے جاتے ھیلو ھاے تک محدود رھی- ٹائیم ٹیبل ھی ایسا تھا کہ بقول چچا غالب

وہ جاتا تھا کہ ھم نکلے

کلاس سے فارغ ھوتے ھی سلیم احسن صا حب فورا واپس میانوالی چلے جاتے- مل بیٹھنے کا وقت ھی کبھی نہ ملا- شاعر یہ بھی تھے ، میں بھی- لیکن نہ مجھے پتہ چل سکا یہ شاعر ھیں ، نہ انہیں معلوم ھو سکا کہ میں اور اچھے برے کاموں کے علاوہ شاعری بھی کرلیتا ھوں- میری شاعری ابھی لالا کے میکدے سے باھر نہین نکلی تھی- ان کی شاعری ابھی میانوالی کے چند مخصوص احباب کی محفلوں تک محدود تھی- –——-۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔

  • -محمد سلیم احسن دی شاعری

تحریر:۔۔۔۔۔۔ ۔سید محسن نقوی

محمد سلیم احسن سرائیکی زبان دے اُنہیں قدآور شاعریں دی قطار وچ ہک نویکلا ناں ہے جیڑھے نویں نکور جذبئیں دی ساون سِندھ روانی دے سامنے ساہ دی کندھ اُسار کے خیال دی شوء اِچ وگھریے ہوۓ موتئیں کوں لفظیں دے ٻُک وچ کٹھا کرتے اوکھے اندھارئیں دے اوچھنڑ اِچ لُکیے ہوۓ لوکیں کو “ پیار پرکھرے” دی بشارت ڋیونڑ اِچ مصروف اِن۔

محمد سلیم احسن دا فن اوندے اندر دی سوچ دے سچ دا” عینی شاھد” بنڑ کے اوندے ہر شعر کوں ہمیشگی دا سُراغ ڋیندے تے اوندے لفظیں کوں زمانے دے نال نال زندہ رہنڑ دا گُر سکھیندے۔

سلیم احسن دیاں غزلاں پڑھ کے ایں واسطے وی خوشی تھیندی اے جو اوندا کوئ تجربہ اُدھار نئیں تے نہ کوئ لفظ اوپرا اے ،اوندی شاعری دے سارے منظر ، سارے موسم، سارے ذائقے تے سارے زاویے اوندی آپڑیں دھیان دھرتی دی کچی پکی مٹی دی ملکیت تے امانت ہِن، او پرائ اکھ نال خواب ڋیکھنڑ دا عادی نئیں تے نہ پراۓ خواب چوری کرکے آپڑیں اکھ کوں شک دے عذاب اچ مُبتلا کریندے ۔ اوندے شعریں دی شہ رڳ اِچ آسے پاسے دے ماحول دے سارے استعارے ساہ جُھنڑ کے تندیر وار سفر کریندن ، اونکوں آپڑیں ذات دے کشف دی ہر علامت داپُورا پُورا گیان حاصل ہے————- ذات دا کشف، جیرھا فن تے فنکار دے درمیان اعتماد دے “ عہد نامے”داڋوجھا۔

ناں اے ۔

مختصر لفظیں وچ سلیم احسن دی شاعری جوان جذبے، تِکھے تجربے،مُنه زور مشاہدے تے لہو لباس لفظیں دی ہک ایجھی دستاویز اے جینکوں پڑھ کے بُھلاڋیونڑ دا سوال ہی پیدا نئیں تھیندا۔ رب کرے سلیم احسن تے اوندی شاعری دی وسدی رسدی جھوک سوچیں دے سوجھلے دی چھاں اِچ امن منڑیندی راہوےتے قیامت تئیں حیاتی ہنڈیندی راہوے(

نادر و نایاب لوگ  

محمد سلیم احسن۔تحریر۔ ۔ ۔ وقار احمد ملک

سرما کی پت جھڑ عروج پر ہے۔ گورنمنٹ کالج میں چار سو رونق ہے۔کافی تعداد میں لڑکے کالج آ رہے ہیں اور کچھ فارغ ہو کر واپس جا رہے ہیں۔ سائیکل سٹینڈ عبور کریں تو اینٹوں کے راستے ایک چھوٹا چوراہا تشکیل کر دیتے ہیں۔ دائیں طرف کالج کی مرکزی عمارت ہے، سامنے سائنس بلاک اور بائیں طرف دو کمرے سولنگ کے ساتھ الگ تھلک موجود ہیں۔ ان کمروں کے نمبر شاید سترہ اور اٹھارہ ہیں۔سولنگ کے بائیں طرف سوکھی گھاس میں چھپا ایک لان ہے جس کو دسمبر کے اس موسم میں سبزہ زار کہنا غلط ہو گا۔ خزاں رسیدہ ٹنڈ منڈ درختوں کے نیچے سیاسیات کی کلاس جاری ہے۔ سو سے زیادہ بچے پروفیسر صاحب کا لیکچر یوں خاموشی کے ساتھ سن رہے ہیں جیسے کوہ کاف کے کسی دیو نے جادو کر کے ان کو پتھر کا بنا دیا ہو۔کلاس سے تھوڑے فاصلے پر لڑکوں کی ٹولیاں ادھراُدھر گھوم پھر رہی ہیں اور کالج کی مخصوص آزادی اور بے فکرے ماحول سے محظوظ ہو رہی ہیں۔ ان گپیں لگاتے لڑکوں کا کلاس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ پروفیسر صاحب شاید افلاطون کی مثالی ریاست کے بارے بچوں کو بتا رہے ہیں ۔ سیاست، تاریخ اور قانون کے ساتھ ساتھ اقبال اور غالب کے اشعار نے لیکچر کو اور بھی مزین کر دیا ہے۔ پروفیسر جس ذوق شوق سے بچوں کو معلومات دے رہے ہیں ویسی ہی دلچسپی سے بچے علم کے دریا میں غوطہ زن ہیں۔ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔

یہ پروفیسر گورنمنٹ کالج کے مشہور استاذ محمد سلیم احسن ہیں جو علاقہ بھر کی معروف شخصیت اور ملک بھر کے جانے پہچانے ادیب ہیں۔ یہ منظر کوئی پچیس برس ادھر کا ہے۔ محمد سلیم احسن کے کچھ عرصہ قبل اپنی خوبصورت سرائیکی کی منفرد لہجے کی حامل کتاب جھکڑ جھولے پر صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ بچوں کو فخر ہے کہ وہ ایک صدارتی ایوارڈ یافتہ شاعر سے پولیٹیکل سائینس کا مضمون پڑھ رہے ہیں۔

محمد سلیم احسن سے میرا پہلا تعارف میرے والدمحترم کے توسط سے ہوا۔ والد صاحب اور سلیم صاحب گورنمنٹ کالج کے ساٹھ کی دہائی کے سنہرے دور میں ہم جماعت تھے۔ والد صاحب اور سلیم صاحب نہ صرف دوست بلکہ قلم کار ساتھی بھی تھے۔ ابو نے سن 1963 کے سہیل میگزین میں کاغذ کے پرزے کے نام سے ایک ڈرامہ لکھا تھا جبکہ سلیم صاحب اس وقت بھی ایک منجھے ہوئے شاعر کے طور پر مشہور

تھے۔ بعد میں ابو قلم کاغذ چھوڑ کر ایک آڑھتی بن گئے اور سلیم احسن ترقی کرتے ہوئے پروفیسر ۔

سن 1990 میں جب مَیں نے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا تو کافی عرصہ میں نے سلیم صاحب کا پلو پکڑے رکھا۔ میرا زیادہ وقت ان کے ساتھ ہی گزرتا تھا۔ دوسرے طالب علموں کے ساتھ میں بھی ان کے پیریڈ کا منتظر رہا کرتا تھا۔ اسی پیریڈ نے میرے اندر ادبی تحریک پیدا کی ۔ ہم بی اے میں پڑھتے تھے تو سلیم صاحب نے ابو کو نوے کی دہائی کی مشہور کتاب شہاب نامہ پڑھنے کے واسطے دی۔ اس کتاب کو ابو اور میرے سمیت سب گھر والوں نے پڑھا۔ کتاب سے ہم لوگ اتنے متاثر ہوئے کہ یہ ادھار کی کتاب واپس کرکے دوبارہ اس کے پڑھنے کی پیاس موجود تھی۔ ہمیں مجبوری کے عالم میں ایک سو اسی روپے میں نیا شہاب نامہ لینا پڑا باوجود اس امر اور حقیقت کے ہمارا تعلق ایک خالص کاروباری گھرانے اور پس منظر سے تھا جہاں کتاب اور وہ بھی غیر نصابی کتاب پر پیسے لگانا ایک بیوقوفی سمجھا جاتا ہے۔شہاب نامہ میں مذکور چندراوتی، عفت اور ڈپٹی کمشنر کی ڈائری نے مجھے ادبی کتابوں کی راہ دکھلائی اور مالک کے شکر سے آج تک کتابوں کا ساتھ جاری ہے۔ یہ بُوٹا بلا شک و شبہ محمد سلیم احسن کا لگایا ہوا ہے۔

میرے ادبی ذوق شوق کو دیکھ کر سلیم صاحب نے مجھے اپنے گھر میں موجود کتابیں پڑھنے کے لیے دیں جن میں کافی نایاب نسخے بھی شامل تھے ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ان میں ایک کتاب ہرچرن چاولہ کے مشہور افسانوی مجموعے کا قلمی نسخہ بھی تھا۔ میں نے وہ تمام کتابیں تھوڑے عرصے میں گما دیں۔ سلیم صاحب نے کچھ عرصے بعد ان کتابوں کا تقاضہ شروع کیا تو میں نے ان سے کنی کترانا شروع کر دی۔ جب ان کو یہ پتہ چلا کہ وہ نادر کتابیں میں نے ضائع کر دی ہیں تو انہوں نے مجھ سے نارضگی کا اظہار کیا۔ پھر ایک دن میں پنڈی سے ممتاز مفتی کی کتاب تلاش لے کر آیا تو سلیم صاحب نے مجھ سے لے لی۔ میں نے ابھی اس کتاب کو کھول کر دیکھا بھی نہیں تھا۔ سلیم صاحب سے وہ کتاب کوئی اور لے گیا۔ حساب کچھ تو برابر ہوا۔

سلیم احسن شاعر ہونے کا ساتھ ساتھ ایک مورخ بھی ہیں۔ انہوں نے روکھڑی شہر کے قدیم کھنڈرات پر تحقیق کی۔ ان کے پتھر، مجسمے اور سکے وغیرہ اپنے ڈرائنگ روم میں سجا کر رکھے۔ یاد آیا ان کا ڈرائنگ روم جسے ہم میانوالی میں بیٹھک کہتے ہیں بڑا پرسکون ہوا کرتا تھا خاص کر گرمیوں کے دنوں میں۔ یہ میں ان کے گرو بازار کے ایم سی ہائی سکول کے قریب واقع گھر کی بات کر رہا ہوں۔ اسی گھر میں منور علی ملک اپنے گھر سے پیدل چل کر آتے اور دونوں ویسپا سکوٹر پر بیٹھ کر کالج جایا کرتے۔ ان کی بیٹھک کے ایک کونے میں ایک تبلہ بھی پڑا ہوتا تھا جو ان کے موسیقی کے ذوق کی وکالت کرتا۔

ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو ان کا وسیع القلب اور انسان دوست ہونا ہے۔ہندوستان سے جو ہندو بھی میانوالی آتا ہے سلیم صاحب کا مہمان بنتا ہے۔ روشن لال چہکر تو اب بھی ہر سال ان کے گھر آتا رہتا ہے۔ سلیم صاحب کا حلقہ احباب بہت وسیع رہا ہے۔ ریڈیو پاکستان کے نامور سٹیشن ڈائریکٹر ظفر خان نیازی اور معروف وکیل نیک محمد کے ساتھ ان کا یارانہ بہت مشہور تھا۔اس تکون کو دیکھ کر مجھے ممتازمفتی، شہاب اور اشفاق احمد کا ٹرائیکا یاد آ جاتا تھا۔

وقت کا پہیہ گھوما اور یوں گھوما کہ سب کچھ بدل کے رکھ دیا۔ شاعر، تاریخ دان، موسیقار اور سکالر محمد سلیم احسن اچانک سب کچھ تیاگ کے ایک مولوی بن گئے۔ سر پر بڑی سی پگڑی سجا لی۔ چہرے پر نور پہلے بھی تھااس نئی تبدیلی کے بعد اور بھی بڑھ گیا۔ ان کی صحبت میں پہلے جہاں ادبی خوشبوؤیں بکھرا کرتی تھیں اب مافوق الفطرت واقعات نے لے لی۔ لیکن اس تبدیلی کے باوجود ان کی شخصیت کی چاشنی اور گفتار کی شیرینی ہنوز قائم و دائم ہے۔ وہ مجھے جہاں بھی ملتے ہیں بڑی محبت سے ملتے ہیں۔ شاعری اب بھی کرتے ہیں لیکن بہت کم۔ گل و گلزار اور لب و رخسار کے قصوں کی جگہ اب حمد اور نعتیں کہنے کی سعادت حاصل کر چکے ہیں۔ انہوں نے پہلے ہمارا محلہ چھوڑا، پھر شہر بھی چھوڑ دیا اور پنڈی جا بسے۔ کبھی کبھی میانوالی آتے ہیں تو حافظ سویٹ شاپ پر ان سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ مولوی محمد سلیم احسن سے گفتگو کرتے ہوئے کبھی کبھی جی کرتا ہے کہ کاش کبھی پرانے اپ ٹوڈیٹ، سوٹڈ بوٹڈ اور رومینٹک سلیم احسن سے بھی مڈبھیڑ ہو جائے۔ لیکن ایسا کب ہوتا ہے

جھوٹ ہے یہ تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے

اچھا میرا خوابِ جوانی تھوڑا سا دہرائے تو

سلیم احسن کی کتاب جکھڑ جھولے میانوالی کی ادبی تاریخ میں اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس کی اشاعت اور کامیابی سے یہاں کے لکھاری کو حوصلہ اور کامرانی کا رستہ ملا – اس کتاب پر مفصل بات کی جاسکتی ہے اور اس سلسلے میں میں نے بھی ایک آرٹیکل لکھا تھا جو سلیم احسن کے پاس ہے – اس وقت سرائیکی میں میانوالی کے کچھ نوجوان بہت اچھا لکھ رہے ہیں لیکن ابھی وہ سرائیکی غزل میں زبان کے حسن اور خیال کی نزاکت کے اعتبار سے سلیم احسن کے قد کو نہیں پہنچ سکے –
سلیم احسن کو عملی تصوف نے جہاں ذاتی تسکین اور شخصیت کو ایک نئی ڈائی مینشن دی ہے ، مجھے افسوس ہے ، تصوف کی دستار تلے اس کی غزل اور شاعری کی نمو دب گئی ہے – اور یہ ادبی دنیا کیلئے ایک اچھی خبر نہیں – سلیم احسن کو یہ دلچسپ حقیقت یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ پاکستانی زبانوں کے ادبی خزانوں کو صوفیا کرام مالامال کیا ہے اور ان کے پائے کی شاعری ابھی تک تخلیق نہیں ہوسکی – ان کے ساتھ الٹا معاملہ کیوں ہوا ہے

 

سرائیکی ادب کا سرمایہ پروفیسرمحمد سلیم احسن

تعارف احسان اعوان

1959ء۔۔ بچوں کی شاعری سے آغاز کیا “ بچوں کی دنیا” رسالے میں حمد باری تعالی چھپی۔ بچوں کے رسائل اور قومی اخبارات کے بچوں کے صفحات میں کلام شائع ہوتا رہا ۔ اردو غزل اورنظم کی اصناف سے باقاعدہ اردو شاعری کا آغاز ہوا اور مختلف جریدوں کی زینت بنتا رہا

نام : محمد سلیم

تخلص: احسن…..

والد کانام : الحاج غلام حسن ۔۔

تاریخ پیدائش:12,جولائ 1944ء

جاۓ پیدائش: میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔

ذات: اعوان ۔جنگی خیل۔۔۔۔۔۔۔

آبائ وطن : ڈیرہ اسماعیل خان

موجودہ سکونت: E/37 سلطان ٹاؤن ، میانوالی

تعلیم:ایم اے سیاسیات، ایم اے تاریخ

ملازمت:آغاز۔۔ 17دسمبر1973

لیکچرارگورنمنٹ انٹرکالج جلالپورجٹاں ، گجرات

ریٹائرمنٹ:11جولائ2004ء

عہدہ : ہیڈ آف پولٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ

(1995 —2004 )

گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج میانوالی

آغازشاعری:

1959ء۔۔ بچوں کی شاعری سے آغاز کیا “ بچوں کی دنیا” رسالے میں حمد باری تعالی چھپی۔ بچوں کے رسائل اور قومی اخبارات کے بچوں کے صفحات میں کلام شائع ہوتا رہا ۔ اردو غزل اورنظم کی اصناف سے باقاعدہ اردو شاعری کا آغاز ہوا اور مختلف جریدوں کی زینت بنتا رہا

سرائیکی شاعری :

سرائیکی گیت نگاری اور دوھڑوں سے سرائیکی شاعری کی ،پھر سرائیکی غزل، نظم اور سرائیکو کو محبوب بنا لیا ،

تصانیف :

  • جھکڑ جھولے (1984ء)۔۔۔۔۔۔۔

ناشر: میانوالی اکیڈیمی میانوالی

  • چیتے چنتے (1993ء)۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناشر : سرائیکی ادبی بورڈ ملتان

تاریخی، تحقیقی اور ثقافتی مضامین :r

  • میانوالی کی زبان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  • میانوالی سندھ کنارے۔۔۔۔۔۔۔۔
  • میانوالی کاتاریخی پس منظر۔۔
  • میانوالی کا تہذیبی منظر نامہ
  • روکھڑی کے کھنڈرات۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  • میانوالی میں ڈائنوسار۔۔۔۔۔۔۔۔
  • سرہند یاترا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  • وچھڑاوطن ( ہریش چند نکڑہ کی تصنیف) اردو ترجمہ کی نظرثانی

زیر ترتیب تصانیف :

  • اولے گھولے ۔۔۔۔۔۔۔۔(سرائیکی نعت)
  • خواب کچاوے۔۔۔( سرائیکی ہائیکو )
  • سُر ساونی۔۔۔۔۔۔۔۔۔( سرائیکی گیت)

محمد سلیم احسن کا کلام گانے والے فنکار :

عطاءاللہ خان عیسی خیلوی،مسرت نذیر،ثمر اقبال، ترنم ناز،شمسہ کنول، اقبال باہو، محمد ایوب نیازی، عطامحمدنیازی داؤد خیلوی،شفیع اختر وتہ خیلوی،لیاقت علی خان وتہ خیلوی،عبدالستار زخمی، محمد حسین بندیالوی،علی عمران اعوان( مظہر ملک)،اور مسعود ملک۔

ایوارڈ و اعزازات:——————-

  • خواجہ غلام فرید قومی ایوارڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔1984ء
  • گولڈ میڈل۔ڈسٹرکٹ کونسل میانوالی۔1984ء
  • سرگودھا ہائر سیکنڈری بورڈ ایوارڈ۔۔ ۔1984ء
  • ظہورنظر ایوارڈ، بہاول پور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1985ء
  • بخت ایوارڈ ( حسن کارکردگی) ۔۔۔۔۔۔۔۔1991ء
  • ادبی ایوارڈ، نیلاب اکیڈمی میانوالی۔۔2004ء
  • ۔ ہفت روزہ” ضرب قلندر” مجاہد ملت ایوارڈ۔2011ء

استاد شاعری: نہ شاعری میں استاد تھا نہ شاگردہیں ۔

خاندان:———

خاندان میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں شامل ہیں ، بیٹیاں اپنے گھروں کو سدھار گئیں۔ ایک بیٹا اور ایک پوتا ،پوتی ہے۔

  • اقبال فاطمہ( شریک حیات)بی اے ،بی ایڈ……..

ریٹائرڈہیڈمسٹریس( پی۔ اے۔ ایف کالج میانوالی)

  • ابرار محمد علی ملک (بیٹا)۔بی ۔ ایس سی انجینئرنگ،ایم ۔ ایس سی،ایم فل۔ حال مقیم کنیڈا۔
  • ڈاکٹر منزہ مجید( بہو)۔ ایم بی بی ایس۔حال مقیم کنیڈا
  • ڈاکٹر نافعہ سلیم( بیٹی) ایم سی پی ایس، حال مقیم ریاض سعودی عرب۔
  • ڈاکٹر وردہ سلیم ( بیٹی)ایم سی پی ایس۔راولپنڈی
  • اقداس سلیم ۔۔( بیٹی) ایم ۔بی ۔اے( فنانس)…….

دو سرائیکو :

وینڑ کرینداں رات گزردی، ہاواں بھرداں ڋینہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

توں وی چاہویں میں وی چاہواں چاہواں دی ہک جھوک

مِلنڑ نہ ڋیندے لوک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھمدی کھمنڑ، وسدے بدل ،پرنالاں داشور ۔۔۔۔

میڋے ہوش حواس دی اصلوں بہوں ہینڑیں دیوار

مولا خیر گزار۔۔۔۔

 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top