بچپن کے یار اور “جماعتی” سے ملاقات:
پچھلا ہفتہ بڑا مصروف گزرا ۔فیملی میں دو شادیاں تھیں ۔ایک ننھیالوں کی اور ایک سسرال میں ۔دونوں میں شرکت نہ کرنے کی گنجائش نشتہ ۔چنانچہ جمعہ سے اتوار تک میانوالی میں رہا۔ایک شام شہر سے گاؤں شہبازخیل آ رہا تھا کہ ریلوے پھاٹک کے نزدیک بچپن کا جگری یار خان میر (مِیرا) مل گیا ۔تقریبا پچاس برس کے بعد ہماری ملاقات ہوئی۔ۃوہ اصرار کرکے گھر لے گیا ۔گھر میں وہ اور بھابھی ہی نظر آے ۔ بچوں کے بارے میں پوچھنے پر وہ گویا ہؤا :
“”ڈاکٹُر شِنا۔۔کے پّچھدا ہیں۔
ّبًھکھ(غربت) دیرے لا گھتے ہن ۔ اٹھویں چًوں سکول چھوڑ ڈتا ہم۔مربعے تاں ہسے کوناں۔چھیکڑوں (آخر کار) تنگ تھی کے کراچی مًونھ کر گیوم ۔۔پہلے پنج ڈاہ سال تاں بہوں کًتے خصی کِتوم۔جیبے کپًنڑ(جیب تراشی)توں گِھن کے کوئی گندہ کم نم چھوڑا ۔وت اللہ راضی تھی پیا۔ توباں کر کے ڈرائیوری شروع کر ڈتوم۔وت دوبئی لگا گیوم ۔پندرہ سال دوبئی وڈا ٹریلا چلایا ہم ۔۔
اللہ دے کرم نال کراچی اچ آپڑاں ترائے منزلہ مکان بنڑایا ہم ۔آپڑیں ڈوں ڈبے ہن ۔اًکا چِٹی خیر ہِم “”
خان امیر بات کرتے ہوئے پہلی دفعہ رکا .
میں نے پھر اپنا سوال دہرایا ۔۔
“”مِیرا شِنا! کتنے بال ہنیں.. تے او کے کریندے ہن.. تے کتھے ہوندے ہن “”
مِیرا پہلے تو بیوی کی طرف متوجہ ہؤا اور بولا
“”او بھانڑ ماری دی ۔گھنٹہ تھی گیا ڈاکٹّر شِنا ایا بیٹھا ہے تے ہالیں تئیں تیڈی چاہ نیں پکی۔اّکا ٹھڈی ٹھار ہیں ۔۔ماں پانڑیں چوں لنگھ کے چا جایا ۔۔کوئ مِزمانڑ آوے تاں ترِکھ کریندی ہے ۔۔تّوں ہلدی ودی ہیں “”
اس پر بھابھی کہاں چپ رہتی ۔
بولی
“” ہر ویلے اًبھال گھتی ودا ہوندا ہیں ۔دیر تھی گئی جو گوانڈھیاں دے گھر ڈاکٹّر بِھرا واسطے آنڈے گِھنًڑ لگی گئی ہم۔چاہ وی تیار ہے تے آنڈے وی ۔۔بس چینًک گِدی آنی ہاں “””
پھر مِیرا میری طرف متوجہ ہؤا اور بولا
“”لالا ۔۔اللہ ڈوں پٌتر تے ڈوں دِھیاں ڈِتیاں ہن ۔پٌتر وی پڑنا چھوڑے ہم تے دھیاں وی ۔پّتر ڈبے چلیندے ہن ۔دھیاں آپڑیں گھراں اِچ خّش ہن ۔میں اکھا اساں ترمت جنڑاں ھًنڑ وڈکے تھی گئے ہاں ۔۔تے وطن تے ول و نجاں ۔اُنجے وی اماں دے مررًنڑ توں بعد گھر لًگا پیا ہئی۔ اساں ڈوں اتھے ہاں تے او سارے کراچی ہوندے ہن””
اتنے میں چائے اور انڈے آ گئے ۔ بھابھی انتہائی خوش اخلاق اور سادہ گھریلو خاتون ہیں ۔کراچی کی ثقافت اور جدید زندگی کا ان پر کوئی اثر نہیں ہؤا۔۔ہمیں چاے دے کر وہ خود چولہے میں پیڑھی پر بیٹھ کر چائے پینے لگیں ۔
میں اور مِیرا ماضی میں کھو گئے ۔اور ایک ایک کرکے تمام شرارتیں یاد کرنے لگے جو ہم اکٹھی کرتے تھے ۔۔
میں نے کہا “مِیرا یاد ہئی کِنجیں(کس طرح)ہِک راتیں ڈھیر الے مونگے کولوں ہدوانڑیں(تربوز )کھونڑ گئے ہسے۔تے ساہیں جاگ گیا ہئی ۔۔تے کنجیں ملے(دوڑے )ہسے ۔۔
رنگو(اورنگزیب )تے خانہ(خان زمان)تاں انھی گّوئ(اندھا دھند)بًوٹ سًوٹ(پوری شدت سے)بھجے(دوڑے )ہن تے اکڑے نال اڑ کے مونھ دے بھار ونج ڈٹھے ہن ۔”””
مِیرے نے زور سے دل لگا کے قہقہہ لگایا اور کہا ۔۔
“”شِنا ہئی تاں فائر اًچا(اگرچہ فائر اونچا تھا)بھلا انجے لگا ہئی جنجیں کن نالوں لنگھ گئی ہے ۔۔اساں وی وت گالیاں نال ہاں ٹھڈا تاں کیتا ہئی “”
پھر مِیرا مجھے کہنے لگا ۔۔
“”لالا ۔۔خانے نوں خانا نہ آکھیں پیا ۔۔اج کل خانے دیاں دًھوڑاں ہِن ۔او خان زمان خان بنڑ گیا ہے۔کچے اِچ چار ہزار کنال واہئی ہوئ ہِس ۔ہر سال تریاے چار ہزار بوری کنڑنک(گندم )دی چیندا ہے ۔اس نوں کوئی خانا آکھے تاں بھڑ دا ہے ۔””
باتوں میں ایسے مشغول ہؤے کہ پتہ ہی نہیں چلا اور تین گھنٹے گزر گئے ۔۔ ادھر گاؤں میں کھانے پر میرا انتظار ہو رہا تھا ۔۔
میں نےاجازت مانگی تو مِیرا کہنے لگا
“”لالا تًوں وت کڈاں مل سیں ۔اج قسمت نال مل گئے ہاں تاں رات کٹھی کر ساں ۔تینوں۔دیسی کًکڑی کھلویساں ۔۔””
میں نے دوبارہ انے کا وعدہ کرکے مِیرے سے اجازت لی ۔وہ گاڑی تک مجھے چھوڑنے ایا ۔
مِیرے سے رخصت ہونے کے بعد ایک عجیب سا خوشگوار احساس تھا ۔۔ایک ایسا احساس جو کسی بچپن کے جگری دوست سے مل کر ہی ہوتا ہے ۔۔
دعاؤں کا طالب:
ڈاکٹر طارق مسعود خان شہبازخیل