غلام محمد المعروف ابو المعانی عصری
میانوالی کے ایک عظیم دانشور اور ادیب.
میانوالی شہر سے 17 کلومیٹر دُور واقع ایک چھوٹے سے دیہات دلیوالی میں رہتے ہوئے اردو ادب کی دنیا میں اپنا نام پیدا کرنے والی شخصیت غلام محمد، جنہیں ادبی حلقہ ابوالمعانی عصری کے نام سے جانتے ہیں۔ ابو المعانی عصری آپ کا قلمی نام تھا اور اسی نام سے ملک بھر میں معروف رہے۔ آپ نے زندگی عدم تصنع و انتہائی سادگی سے گزاری۔
اس ادبی شخصیت نے نہ صرف ملک بھر میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی شناخت قائم کی۔ محدود وسائل کے باوجود آپ نے ملک کی معروف علمی شخصیات کے ساتھ قلمی رابطے برقرار رکھے اور اپنے علم و ادب کے سفر کو جاری رکھا۔ ابوالمعانی عصری نے اپنے ورثہ میں شاعری، خطوط اور مختلف تحریریں چھوڑی ہیں جو علمی حلقوں میں تاقیامت یادگار رہیں گی۔
شنوزہ ناول میں فلسفیانہ و داخلی رنگ ہے .نامور ادبا اور شعرا کے خطوط جو آپ کے نام آتے رہے ان کو جمع کرکے 1987ء میں ایک کتاب کی صورت میں شائع کرایا۔ اس کتاب کے علاوہ بے شمار غیر مطبوعہ خطوط بھی آپ کی میراثِ علمی میں شامل ہیں۔ ایک ناول “شنوزہ” بھی لکھا تھا، جس نے ادبی حلقہ میں بڑی پذیرائی حاصل کی اور تاحال ایک غیر مطبوعہ دیوان بھی موجود ہے۔ عصری صاحب کے کئی مضامین اور کالم مختلف کتابوں اور رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں، جبکہ کئی غیر مطبوعہ تحریریں اب تک اشاعت کی منتظر ہیں۔
ابوالمعانی عصری نے بروز منگل 30 نومبر 2010ء کو وفات پائی اور دلیوالی/میانوالی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
20 دسمبر 2024ء بروز جمعہ، ان کی قبر پر حاضری ہوئی، جہاں ان کے لیے دعائیں کیں اور ان کی خدمات کو سراہا۔ مالک آپ کے درجات بلند کرے آمین ثم آمین۔
کتب خانہ میں موجود آپ کی مطبوعہ دو کتابوں: مکتوباتِ دوستاں اور شنوزہ، کے سرورق احباب کی نذر، پوسٹ میں عصری صاحب کی تصویر بھی دیکھی جاسکتی ہے۔
تحریر: محمد منشا خان، میانوالی—-22 دسمبر 2024، اتوار