حضرت مولانا محمد اکبر علی چشتی میروی رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ (میانوالی)
تحریر-سید طارق مسعود کاظمی-مصنف کتاب سرزمین اولیا میانوالی
آپ کی پیدائش 1884ء میں حضرت غلام حسین کے گھر میانوالی میں ہوئی۔ آپ کا خاندان موچھ سے نقل مکانی کرکے میانوالی میں آباد ہوا۔
ابتدائی تعلیم
ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے لی۔ قرآن پاک حفظ کیا ۔ پھر مولانا نورالزمان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ (رسول نما) سے کوٹ چاندنہ میں تعلیم پائی۔ اس کے بعد چکی شیخ جی کے مقام پر مولانا میاں محمد کی خدمت میں حاضر ہو کر دین کا علم حاصل کیا۔ 1901 میں دیو بند میں دورۂ حدیث کے لئے گئے اور 1904 میں سند فراغت حاصل کر کے میانوالی آ گئے۔
میانوالی میں قیام
تحصیل علم سے فراغت کے بعد آپ نے میانوالی کے محلہ زادے خیل بلو خیل روڈ پر واقع چھوٹی سی مسجد کو امامت اور خطابت کے لئے منتخب فرمایا لیکن لوگوں کی سردمہری دیکھ کر دل ٹوٹ گیا۔ان حالات میں اللہ تعالیٰ کے ایک نیک بندے حضرت خواجہ احمد میروی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ اس مسجد میں نماز پڑھنے آئے اور انہوں نے آپ سے فرمایا کہ آپ اسی مسجد میں رہیں آپ کو سب کچھ مل جائے گا اور آپ نے مخلوق خدا کو فیض پہنچانا ہے ۔ حضرت شاہ سلیمان تونسوی کے خلیفہ کے یہ الفاظ آپ پر بہت اثر کر گئے ۔ آپ نے مشکلات پر قابو پانے کا فیصلہ کر لیا اور اسی جگہ پر رہنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔
مدرسہ کی بنیاد
آپ نے یہاں ایک اسلامی مدرسہ کی بنیاد رکھی طالب علموں کو گھر سے لنگر کھلا کر ان کو دین کی تعلیم دی۔آہستہ آہستہ یہ مدرسہ ترقی کی جانب چلا اور آج یہی مدرسہ جامعہ اکبریہ کے نام سے مشہور و معروف دینی درسگاہ ہے۔
بیعت و خلافت:
خواجہ میروی رحمتہ اللہ تعالیٰ کی ایک ملاقات سے ہی آپ ان کے گرویدہ ہو گئے اور ان کے ہاں آمدورفت ہونے لگی اور پھر آپ کے ہاتھ پر بیعت فرمائی۔ سلوک کی تمام منازل اپنے پیر و مرشد کی نگرانی میں طے کیں اور آپ کو 1907 میں خلافت عطا کر دی گئی۔
عبادت و ریاضت:
آپ شروع سے ہی عبادات کا شغف رکھتے تھے اور تکمیل تعلیم کے بعد تو اس میں اضافہ ہو گیا ۔ آپ نے جامعہ اکبریہ میں ایک تہہ خانہ بنوا رکھا تھا اور وہاں نوافل کی کثرت کرتے ، ذکر کی محفلیں ہوتیں۔آپ کی مسجد میں تہجد کا خاص اہتمام ہوتا تھا اور دور دور سے لوگ تہجد پڑھنے آتے تھے ۔ اس کے بعد ذکر کی محفل ہوتی اور اشراق وغیرہ سے فراغت کے بعد چائے آجاتی ۔ تمام حاضرین کی چائے سے تواضع ہوتی۔ آپ نماز چاشت، اوابین اور تہجد انتہائی پابندی سے ادا فرماتے ۔ نفلی روزے بھی رکھتے لیکن اس کی نمائش سے گریز فرماتے۔آپ نماز اشراق سے فارغ ہو کر درس و تدریس فرماتے ۔ فارغ ہو کر دوپہر میں کچھ دیر آرام فرماتے ۔ پھر ظہر کی نماز کے بعد تلاوت کلام پاک فرماتے جو عصر تک جاری رہتی۔ عصر کی نماز پڑھ کر گھر تشریف لے جاتے۔ پھر مغرب کے وقت واپسی ہوتی۔ عشاء کے بعدعبادات شروع ہو جاتیں اور پھر نہ جانے کس وقت آپ بستر پر تشریف لاتے۔
دینی و علمی خدمات:
آپ کی عظیم الشان دینی خدمات میں سے ایک، عید گاہ کا قیام ہے۔ ایک بہت بڑی عالیشان عیدگاہ بنوائی اور تمام ضروریات کا اہتمام کیا گیا۔ آپ نے 50 سال عیدگاہ کا سارا انتظام خود کیا اور بغیر کسی معاوضے کے خدمات انجام دیں۔
لائبریری کا قیام:
اس زمانے میں کتاب خریدنا بہت مشکل ہوتا تھا ۔ کتاب بہت مہنگی ملتی تھی۔ اکثر کتب قلمی ہوا کرتی تھیں اور غریب طالب علم اس وجہ سے کتابوں کو خریدنے کی طاقت نہ رکھتے تھے حتیٰ کہ ایک کتاب پر بعض اوقات دس دس طلباء درس لیتے تھے اور پھر باری باری مطالعہ کرتے تھے۔آپ نے لائبریری کا قیام عمل میں لایا ۔ آہستہ آہستہ اس میں 5000 کتابیں جمع ہو گئیں ۔ ان کی خوبصورت جلد بندی کرائی اور ہر شخص اس لائبریری سے استفادہ کر سکتا تھا۔
دارالافتاء کا قیام:
شرعی ضروریات میں لوگوں کی راہنمائی کے لئے دارالافتاء کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ آپ خود بڑے عالم اور مفتی تھے ۔ خوبصورت تحریر کے ساتھ فتویٰ نویسی فرماتے اور مسائل کے حل کا شرعی جواب تحریراً دیا جاتا۔ آپ کے فتاویٰ کا ایک ضخیم مجموعہ قلمی شکل میں لائبریری میں موجود ہے۔جسے اب فتاویٰ اکبریہ کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔
جذبۂ بیداری:
آپ نے مسلمانوں میں بیداری کی لہر دوڑا دی ۔ ان میں یہ سوچ پیدا کی کہ وہ بھی علم کے میدان میں آگے بڑھیں ۔ اس کے علاوہ دنیا داری کے معاملات میں آگے آنے کی دعوت لوگوں میں عام کی۔ یہاں ہندو ہرشعبہ ہائے زندگی میں چھائے ہوئے تھے اور مسلمانوں کو ان کی کم علمی کی بنیاد پر لوٹتے تھے انہیں اپنا ماتحت بنا کر رکھتے تھے ۔ خاص طور پر تجارت کا شعبہ ہندوؤں کی مکمل اجارہ داری میں تھا ۔ مسلمان تجارت میں بہت کم آتے نتیجۃً ہندو ساہوکاروں کے ہاتھوں ان پر ظلم ہوتا تھا ۔ مولانا اکبر علی صاحب نے انجمن اسلامیہ کے نام سے تنظیم بنائی جس نے مسلمانوں میں شعور پیدا کیا۔
دارالاطفال (یتیم خانہ) کا قیام:
اسی تنظیم کے زیر اہتمام جس کے صدر محمد اکبر خان(مرحوم) خنکی خیل تھے ۔لاوارث اور یتیم بچوں کے لئے پہلی بار دارالاطفال بنایا گیا ۔ اس کی بہترین عمارت تعمیر کرائی گئی اور ہزاروں یتیم بچے وہاں پروان چڑھے اور اس کے اخراجات یہ تنظیم برداشت کرتی تھی۔
تحریک پاکستان میں حصہ:
آپ نے مسلم لیگ کو مکمل حمایت دی۔تحریک پاکستان کا ایک مشہور جلسہ جامعہ اکبریہ میں مولانا عبدالستار خان نیازی (مرحوم) کی صدارت میں ہوا۔وہاں پاکستان کے حق میں تقریریں ہوئیں ۔ انجمن اسلامیہ نے ایک اشتہار شائع کرایا۔ جس میں قیام پاکستان کے حق میں مسلمانوں کے لئے مسلم لیگ کی حمایت ضروری ہے کا فتویٰ مسلمان علماء اور مفتیان نے دیا جس میں نمایاں نام مولانا اکبر علی کا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آبادکاری میں آپ کے حکم پر آپ کے صاحبزادے مولانا غلام جیلانی پیش پیش رہے۔
ہمیشہ سچ بولا:
آپ کے خادم محمد شریف بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا حضور! اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلند مقام عطا فرمایا ہے اس بزرگی کا راز بتائیں۔ فرمانے لگے کہ میں نے جب سے شعور حاصل کیا ہے اس وقت سے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا۔
اپنی ذات کی خاطر کبھی سوال نہیں کیا:آپ فرماتے ہیں کہ زندگی میں بارہا تنگدستی کے مواقع آئے لیکن اپنی ذات کی خاطر لوگوں کے سامنے میں نے کبھی دست سوال دراز نہیں کیا ۔حالانکہ بڑے بڑے امراء آپ کی خدمت کرنے میں فخر محسوس کرتے لیکن تکلیف برداشت کر لیتے کسی کے سامنے پاتھ نہ پھیلاتے تھے۔ایک انگریز ڈپٹی کمشنر نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر لنگر کے لئے زمین وقف کرنے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ لنگر غوثِ اعظم (رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ) کے نام ہے اس کے کفیل وہی ہیں اور زمین قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
سنتِ مصطفی ﷺ سے پیار:آپ مقام رضا پر فائز تھے ۔ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ ادنیٰ غلام کی کیا مجال کہ بڑے بادشاہ کے فیصلوں میں اپنی رائے کا تصور لائے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ فرماتے تھے ۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ کہیں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی سنت مبارکہ ترک نہ ہونے پائے ۔ جو سنت ادا ہوجائے شکر خداوندی ادا کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی توفیق طلب کرتا ہوں کہ اپنے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی ہر ہر سنت پر عمل ہوتا رہے اور یقینا اپنی ذات کو صفات محبوب خدا(عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم) میں رنگ دینے کا عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔
ولی اللہ:
آپ نے فرمایا کہ ولی اللہ ایک دلہن کی طرح ہوتا ہے جو سمٹ سمٹ کر بیٹھتی ہے سارا وجود اس نے کپڑوں میں چھپایا ہوا ہوتا ہے ۔ یہی حال ولی اللہ کا ہے کہ وہ ولایت کا مظاہرہ نہیں کرتا بلکہ اپنے آپ کو چھپاتا ہے اور محرم کے سوا اس کے مراتب کو کوئی نہیں پہچانتا۔
معمولات و مشغولات:
آپ نے اپنے پیر و مرشد خواجہ آحمد میروی (رحمتہ اللہ تعالیٰ) کے حکم کے بعد ضروریات دنیاوی کے سلسلہ میں مسجد سے باہر جانا ترک کر دیا۔ دن کا اکثر حصہ مسجد یا اپنے حجرہ میں گزارتے۔ دوسرے تیسرے روزحضرت سلطان زکریا اور مخدوم حاجی صاحب (رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہما) کے مزارات پر حاضری دیتے تھے ۔ آپ اپنے حاضرین محفل پر یکساں توجہ ڈالتے کہ ہر شخص یہی سمجھتا کہ آپ مجھے زیادہ توجہ سے سنتے ہیں۔
کشف و کرامات:
مولوی محمد عظیم شاہ جوکہ نہایت نیک بزرگ تھے اور آپ کے مریدوں میں سے تھے ۔ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نے خواب میں ارشاد فرمایا کہ تہجد کے وظیفہ کے طور پر سورہ زلزال اکتالیس مرتبہ پڑھا کرو۔ خواب سے بیدار ہوا تو سب واقعہ یاد تھا جب پڑھنے کا وقت آیا تو سورہ کا نام بھول گیا اس لئے وظیفہ نہ کرسکا ۔ چند روز بعد حاضر ہوا تو دیکھتے ہی فرمانے لگے جو چیز بتائی تھی فوراً بھول گئے بھئی اکتالیس مرتبہ اذا زلرلت الارض بعد نماز تہجد پڑھا کرو۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے یقین ہوگیا کہ کامل پیر اپنے مرید پر دور سے نگاہ رکھتا ہے۔یہی حضرت محمد عظیم شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ خواب میں مجھے کوئی شخص کہتا ہے کہ یااللہ کا ورد کیا کرو۔ میں ورد کرنے لگاپھر وہ شخص روپوش ہو گیا اور میں پہچان نہ سکا۔ اس خواب کی تعبیر کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ابھی خواب بتایا نہ تھا کہ فرمایا شاہ صاحب! چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ مرتبہ یا اللہ کا ورد کیا کرو۔
ہم عصر اولیائے کرام:
آپ کے حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب (رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ) گولڑہ شریف سے دوستانہ مراسم تھے چنانچہ مہر منیر سوانح حیات حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب (رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ) میں آپ کو ان الفاظ کے ساتھ خراج تحسین پیش کیا گیا ہے ‘‘ آپ حضرت خواجہ آحمد میروی (رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ) کے خلفاء میں سے تھے اور ہمارے حضرت کے ساتھ ان کا گہرا روحانی رابطہ تھا۔ مستند عالم تھے۔ تصوف ، کشف اور روحانیت میں بلند مقام رکھتے تھے ۔ چوہدری اورنگ زیب ڈپٹی کمشنر میانوالی سے جو حضرت قبلہ عالم قدس سرہ کے دامن گرفتہ ہیں ان کے خصوصی تعلقات تھے اور ان سے بعض اوقات خاص اسرار کی باتیں بھی بیان فرما دیتے تھے کہ مثلاًآج سبق کے دوران فلاں بزرگ کی روح تشریف فرما ہوئی ۔ ان کے صاحبزادے علامہ غلام جیلانی صاحب اب میانوالی کے خطیب اور اپنے والد صاحب کی مسند پر متمکن ہیں’’۔
آپ نے سفرآخرت کی تیاری پہلے سے شروع کردی تھی ۔ مسجد کے ساتھ متصل قطعہ اراضی میں سے کچھ آپ نے خرید لی ۔ اس میں چار دیواری بنا کر نہر والی صاف پاکیزہ مٹی ڈلوادی ۔ آپ کو معمولی سی پیشاب کی تکلیف ہوئی تین دن تک علاج ہوتا رہا بالآخر 29 دسمبر 1956 رات دس بجے یہ پیکر صدق و صفا درویش صفت انسان خالق حقیقی سے جاملے۔ آپ کے جنازہ میں ہزاروں عشاق حاضر ہوئے اور حضرت علامہ آحمد دین گانگوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ کا مزار مبارک جامعہ اکبریہ بلو خیل روڈ میانوالی پر ہے۔
آپ کی اولاد:آپ کی اولاد میں غلام ربانی اور مولانا غلام جیلانی دوبیٹے اور پانچ بیٹیاں ہوئیں ۔ مولانا غلام جیلانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ آپ کے سجادہ نشین بنے۔
آپ کے خلفاء:
(۱) الحاج الحافظ مولانا غلام جیلانی جو کہ آپ کے فرزند تھے
(۲) غلام جعفر شاہ بن مخدوم سیدسلطان اکبر شاہ سکنہ بھکر جن کے صاحبزادے نے آپ کے حالات پر رسالہ اکبر السوانح تحریر کیا ۔ غلام جعفر شاہ صاحب بڑے عالم فاضل تھے اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔
حوالہ:
(۱)فتح مبین
(۲)جمال فقر
(۳)اکبر السوانح