MERA MIANWALI  APRIL 2024منورعلی ملک کے اپریل 2024 کے فیس  بک   پرخطوط

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید کا پہلا دن بچوں اور نوجوانوں کی عید کہلاتا تھا۔ نماز عید ادا کرنے کے بعد رنگ برنگے چمکتے دمکتے لباس پہنے بچوں اور نوجوانوں کی ٹولیاں شہر میں ہر طرف پھیل جاتی تھیں۔ دکان دار اپنا مال دکانوں سے باہر سڑک کے کنارے سجا دیتے تھے۔ بچے اور نوجوان اپنی اپنی پسند کی کھانے پینے کی چیزیں خرید کر وہیں بیٹھ کر کھا پی لیتے تھے۔
چاچا اولیا، حاجی سلطان محمود المعروف حاجی کالا اور حمید اللہ خان امیرے خیل المعروف ماما حمید اللہ کی جلیبیاں دھڑا دھڑ بکتی تھیں۔ حاجی کالا کے پکوڑے بھی بہت چلتے تھے۔ محلہ داوخیل میں رب نواز خان المعروف رب نواز کریلا اور میچن کمہار سوڈا واٹر کی ٹھاہ کر کے کھلنے والی بوتلوں کے سٹال لگاتے تھے۔ سوڈا واٹر بچوں اور نوجوانوں کا پسندیدہ مشروب تھا۔
بچے اپنی چھوٹی بڑی بہنوں کی پسند کی چیزیں بھی خرید کر لے جاتے تھے۔
بہت سادہ اور معصوم دور تھا۔ لوگ اپنی سادہ غریبانہ زندگی سے مطمئن تھے۔۔ جس سے حال پوچھتے یہی جواب ملتا تھا اللہ دا فضل اے۔
عید کے دن راہ چلتے لوگ گلے مل کر عید چن مبارک کہا کرتے تھے۔ صرف دوستوں سے ہی نہیں راہ چلتے ناواقف لوگوں سے بھی گلے مل کر عید چن مبارک کہنا فرض سمجھا جاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔1  اپریل 2024 -منورعلی ملک۔۔۔
سلام یا علی۔۔۔۔۔
قتل کر کے جسے انعام لیا تھا تو نے،
ابن ملجم ترا مقتول ابھی زندہ ہے
————-1  اپریل 2024
عید کا دوسرا دن “ترمتیں نی عید”۔۔۔۔خواتین کی عید۔۔۔۔ کہلاتا تھا۔ اس دن خواتین شہر میں گھوم پھر کر اپنی پسند کی چیزیں خریدتی تھیں۔ مرد اس دن گھر سے باہر کم ہی نکلتے تھے۔ اگر کسی وجہ سے باہر جاتے بھی تو راستے میں خواتین کو آتے دیکھ کر راستہ بدل لیتے یا دیوار کی طرف منہ کر کے رک جاتے تھے ۔
دیہات میں برقعہ یا نقاب پہننے کا رواج نہ تھا ، مگر لوگ غیور تھے۔ راہ چلتی خواتین کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی سخت گناہ سمجھتے تھے۔
خواتین ٹولیوں کی صورت میں گھروں سے نکلتی تھیں۔ گلیوں میں سجی ہوئی دکانوں سے اپنی پسند کی چیزیں خریدتیں۔ کھانے کو دیسی مٹھائیاں ٹانگری ، ریوڑیاں ، چاولوں یا تلوں کا مرونڈا ، پکوڑے وغیرہ لے لیتی تھیں۔
بچیاں کانچ کی چوڑیاں، پیتل کے زیورات، چھلے، انگوٹھیاں پراندے وغیرہ خریدتی تھیں۔
خواتین اپنی ضرورت کی بجائے گھر کی ضرورت کی چیزیں کپ ، گلاس اور دوسرے چھوٹے موٹے برتن خرید لیتی تھیں۔ دن بھر گلیوں میں خواتین کے قہقہے گونجتے رہتے تھے۔
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔2  اپریل 2024 
ہمارے علاقے میں عید کا تیسرا دن خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ اس دن ماڑی انڈس ریلوے سٹیشن کے جنوب میں واقع سید شاہ گل حسن کے مزار پر میلہ لگتا تھا۔ یہ میلہ ضلع میانوالی کا سب سے بڑا عوامی اجتماع ہوا کرتا تھا۔ گردونواح کے لوگ اس میلے کو سیل یا سہل ( سیر) کہتے تھے۔ بچے بوڑھے اور جوان سب لوگ اس میلے میں شرکت فرض سمجھتے تھے۔ عیسی خیل سے بھکر تک کے لوگ اس میلے میں شریک ہوتے تھے۔ بھکر سے داودخیل تک کے لوگ ماڑی انڈس ٹرین سے آتے تھے۔ ٹرین کی حالت اس دن دیکھنے کے لائق ہوتی تھی۔۔ ٹرین کی چھت پر، انجن کے اندر اور باہر ، دروازوں کے پائدانوں پر ہر جگہ لوگ مکھیوں کی طرح چمٹے ہوئے ہوتے تھے۔ ٹرین تو نظر ہی نہیں آتی تھی۔
داودخیل، کوٹ بیلیاں، پائی خیل ، کوٹ چاندنہ، جلالپور ، خدوزئی اور مندہ خیل کے کئی نوجوان سائیکلوں پر سوار ہو کر میلے میں آتے تھے۔ جنہیں کوئی سواری میسر نہ ہوتی وہ پیدل ہی میلے میں پہنچ جاتے تھے کیونکہ میلے میں حاضری بہر حال ضروری سمجھی جاتی تھی۔ بچے اپنی عیدی اس دن کے لیئے بچا رکھتے تھے۔
کالاباغ اور داودخیل کے دکاندار کھانے پینے کی چیزوں کے سٹال میلے میں لگاتے تھے ۔ ایک دو فرشی ہوٹل بھی اس دن لگتے تھے جہاں لوگ زمین پر بیٹھ کر کھاتے پیتے تھے۔
میلہ ماڑی انڈس ریلوے سٹیشن کے جنوب میں دریائے سندھ کے کنارے درختوں کے جھنڈ میں واقع شاہ گل حسن کے مزار کے ارد گرد منعقد ہوتا تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ یہاں چلنے پھرنے اور کھانے پینے کے علاوہ کوئی خاص شغل بھی نہیں ہوتا تھا۔ پھر بھی اس میلے میں حاضری ضروری سمجھی جاتی تھی۔
سنا ہے میلے کے مقام کے قریب ٹیلوں کی اوٹ میں جوئے کا ورلڈ کپ ٹائپ میچ بھی ہوتا تھا۔ مگر جواری ادھر ہی بیٹھ کر منہ کالا کر لیتے تھے۔ میلے کے اندر داخل نہیں ہوتے تھے۔
صبح آٹھ بجے سے شام 5 بجے تک لوگوں کی آمدورفت جاری رہتی تھی۔ شام 5 بجے کے بعد میلہ ویران ہو جاتا تھا اور اگلےسال اس دن تک یہاں جنوں بھوتوں کا راج رہتا تھا۔ عام دنوں میں لوگ ادھر نہیں آتے تھے۔
یہ میلہ ہمارے کلچر کا ایک شاندار مظاہرہ ہوتا تھا۔ افسوس کہ اب عوام کو سیروتفریح کی یہ سہولت میسر نہیں ۔
گذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔3  اپریل 2024
عید کی سب سے زیادہ خوشی ان لوگوں کو ہوتی تھی جنہیں اچھا کھانا اور اچھا لباس صرف عید کے دن ہی نصیب ہوتا تھا۔ ماضی میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ملازمت نہیں مل سکتی تھی، سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے کاروبار بھی نہیں کرسکتے تھے۔۔ پانچ سات کنال آبائی زمین کی پیداوار ہی سے وہ اپنی سب ضروریات پوری کرتے تھے۔ نقد پیسے کی بجائے گندم دے کر چیزیں خریدتے تھے۔ بارانی زمین سال میں ایک ہی فصل دیتی تھی۔ اسی فصل کی پیداوار کو بہت کنجوسی سے خرچ کرکے سال بھر گذارہ چلانا پڑتا تھا۔ عید پر بہرحال نئے لباس اور اچھے کھانوں کا کچھ نہ کچھ اہتمام کرنا پڑتا تھا۔ اسی وجہ سے عید ان لوگوں کے لیئے بے حساب مسرت کا باعث ہوتی تھی۔
بچے تو امیر ہوں یا غریب سب بچے عید کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔ ہمارا گھر اللہ کے فضل سے اچھا خاصا کھاتا پیتا گھرانہ تھا۔ بابا جی اور دادا جی سرکاری ملازم تھے۔ اچھی خاصی نقد رقم ہر ماہ گھر میں آتی تھی۔ لیکن عید کا ہم بھی اس قدر بے چینی سے انتظار کرتے تھے جیسے سال میں ایک ہی بار اچھا کھانا اور اچھے کپڑے نصیب ہو رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔4  اپریل 2024
ایسا سفر کسی نے نہ کیا ہوگا۔۔۔۔ وہ بھی عید کے دن۔۔۔۔!
صدر ایوب کا دور تھا۔ 29 رمضان المبارک کی شام ریڈیو ٹی وی سے سرکاری اعلان نشر ہوا کہ عید کا چاند ملک بھر میں کہیں نظر نہیں آیا اس لیئے کل عید نہیں ہوگی۔
مگر جب لوگ سحری کرنے لگے تو اچانک یہ Breaking News چلنے لگی کہ کل شام عید کا چاند نظر آگیا تھا لہذا آج عید ہوگی۔ مساجد سے بھی اعلان ہونے لگا کہ سرکاری اطلاع کے مطابق صبح عید ہوگی۔
لوگوں نے یہ اعلان سن کر سحری کھانا چھوڑ دیا اور عید کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔ مگر میرا دل نہ مانا ۔ میں نے یہ کہہ کر روزہ رکھ لیا کہ اگر دن میں کوئی کنفرم اطلاع مل گئی تو عید کر لوں گا ورنہ روزہ ہی رہے گا۔۔۔ گھر والوں نے بہت سمجھایا مگر میں اپنی بات پر ڈٹ گیا۔
فون کی سہولت داودخیل خیل میں میسر نہ تھی اس لیئے میں نے میانوالی جاکر وہاں سے مصدقہ معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
عید کے دن ٹرانسپورٹ کہاں۔۔۔۔ اس امید پر بس سٹاپ پر کھڑا ہو گیا کہ جو سواری بھی میسر آگئی اسی سے میانوالی چلا جاوں گا ۔
کچھ دیر بعد ایک ٹریکٹر آتا دکھائی دیا۔ میں نے اسے روک کر ڈرائیور سے کہا میانوالی جانا ہے۔
شریف آدمی تھا۔ اس نے کہا میں نے تو پائی خیل تک جانا ہے آپ میرے ساتھ بیٹھ جائیں، راستے میں جہاں بھی میانوالی کی کوئی گاڑی مل گئی آپ کو اس پہ بٹھا دوں گا۔
ہم کچھ دور آگے گئے تو ایک ٹرک میانوالی کی سمت جاتا نظر آیا۔ ٹریکٹر ڈرایئور نے مجھے اس پہ بٹھا دیا۔ ٹرک ڈرایئور نے کہا میں نے تو موچھ جانا ہے۔ آپ کو پائی خیل ریلوے سٹیشن تک لے جا سکتا ہوں ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ دس بجے جو لوکل ٹرین کندیاں جاتی ہے میں پائی خیل سے اس پر سوار ہو جاوں گا۔
ٹرک تو مجھے پائی خیل سٹیشن پر اتار کر موچھ چلا گیا۔ سٹیشن والوں نے بتایا کہ عید کی وجہ سے لوکل ٹرین آج نہیں آئے گی۔
وہاں سے میں واپس سڑک پر آگیا۔ سخت پریشان کہ اب کیا ہوگا۔ اچانک موچھ کی طرف سے ایک تانگہ سڑک پر آکر جنوب کی طرف مڑا تو میں نے کوچوان سے کہا کہاں جا رہے ہو۔ اس نے کہا میانوالی۔ میں نے کہا میں نے بھی میانوالی جانا ہے۔ کوچوان نے کہا پورے پانچ روپے لوں گا۔ میانوالی تک بس کا کرایہ اس وقت ڈیڑھ روپیہ تھا مگر موجودہ حالات میں پانچ روپے میں میانوالی پہنچنا بھی مہنگا سودا نہ تھا۔
کوچوان نے بتایا کہ وہ کچھ رشتہ داروں کے ہاں موچھ آیا ہوا تھا۔ کل شام وہاں تانگے کا سودا بن گیا تو میں نے تانگہ خرید لیا۔ اب میانوالی جا رہا ہوں ۔
کوچوان نے مجھے کمیٹی چوک میانوالی پہنچا دیا۔ وہاں میرے کلاس فیلو اور بہت پیارے دوست بھائی شرافت خان ( ہیڈماسٹر ) شہباز خیل سرراہ جاتے مل گئے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے عید کے دن آپ یہاں کیا کرتے پھر رہے ہیں۔ میں نے سارا قصہ بتایا تو شرافت خان صاحب نے کہا بھائی صاحب ہم نے کل رات فون پر لاہور سے کنفرم کر لیا تھا۔ آج عید ہے۔
پھر شرافت خان نے مٹھائی اور چائے سے میرا روزہ افطار کرایا اور میں نے واپسی کی راہ لی۔
واپسی پر پھر سواری کا مسئلہ تھا۔ حسن اتفاق سے جہاز چوک میں داودخیل کے کفایت اللہ خان امیرے خیل ٹریفک سارجنٹ کی ڈیوٹی پر کھڑے تھے۔ کفایت اللہ خان میرے بہت عزیز سٹوڈنٹ رہ چکے تھے۔ میں نے اپنا مسئلہ بتایا تو کہنے لگے سر فکر نہ کریں۔ ادھر جانے والی جو بھی گاڑی آگئی میں آپ کو اس پہ بٹھا دوں گا۔
چند منٹ بعد ایک ٹرک ادھر آیا۔ وہ بنوں جا رہا تھا۔ کفایت اللہ خان نے ڈرایئور سے کہا یہ میرے سر ہیں۔ انہوں نے داودخیل جانا ہے۔ آپ نے انہیں سڑک پر نہیں اتارنا بلکہ شہر کے اندر ان کے گھر پہنچا کر آگے جانا ہے۔
ٹرک ڈرائیور نے سارجنٹ کے حکم کی تعمیل کردی۔ یوں میں تقریبا تین بجے داودخیل پہنچ گیا۔ گھر والوں نے بہت مذاق اڑایا مگر میں نے کہا جو ہو گیا ٹھیک ہی ہو گیا۔ آج مجھے ایسا دلچسپ سفر کرنے کا موقع ملا جو کسی نے نہیں کیا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔5  اپریل 2024 
یہ موسم لوواں ناں موسم (فصل کی کٹائی کا موسم) کہلاتا تھا کیونکہ گندم کی کٹائی اسی موسم میں ہوتی تھی۔ کٹائی میں پوری فیملی شریک ہوتی تھی۔ اسی لیئے انگریزوں کے دور میں ان دنوں سکولوں کی ایک ماہ چھٹیاں ہوتی تھیں جنہیں لووآں آلیاں چھٹیاں کہا جاتا تھا۔
جن لوگوں کی اپنی زرعی زمین نہیں ہوتی تھی وہ نہری علاقوں میں جاکر بڑے زمینداروں کی فصل کی کٹائی کرتے تھے۔ انہیں اپنی کاٹی ہوئی فصل کا دسواں حصہ معاوضہ ملتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ معاوضہ کمانے کے لیئے پوری فیملی کٹائی میں شریک ہوتی تھی ، کیونکہ گندم کی کٹائی ہی ان لوگوں کا واحد ذریعہ معاش تھا ۔ اسی گندم کے بدلے وہ سال بھر ضروریات زندگی خریدتے تھے۔
تقریبا ایک ماہ میں فصل کی کٹائی کا کام مکمل ہوتا تھا۔ وہ لوگ اپنے سال بھر کے کھانے کے لیئے گندم الگ کرکے بقیہ گندم وہیں بیچ کر نقد رقم لے آتے تھے۔
گذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔6  اپریل 2024 
مانگ کا حلوہ۔۔۔۔۔۔
فصل کی کٹائی کا کام ایک ہی دن میں نمٹانے کے لیئے بعض زمیندار اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کی خدمات حاصل کیا کرتے تھے۔ اس طریقہ ء کار کو مانگ یا مانگھ کہتے تھے۔ مانگ میں شامل ہونے والوں کو مانگی کہتے تھے۔
اس موقع پر مانگیوں کے کھانے کے لیئے ایک خاص قسم کا حلوہ بنایا جاتا تھا۔ یہ ویسے تو خالص دیسی گھی کا عام دودھی والا حلوہ ہوتا تھا لیکن اس میں گھی بہت زیادہ ڈالتے تھے۔ مانگیوں کو چیلنج کیا جاتا تھا کہ سارا حلوہ مکانا ہے۔ جو شخص ہاتھ کھڑے کر دیتا اس کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔
خالص گھی میں تیرتا حلوہ لذیذ تو بہت ہوتا تھا مگر زیادہ کھایا نہیں جا سکتا تھا۔ اس لیئے شکست مانگیوں کو ہی ہوتی تھی۔ پھر بھی اکا دکا لمبے پیٹ والے مانگی اپنے حصے کا حلوہ ختم کرنے کے بعد پلیٹ میں بچا ہوا گھی بھی پانی کی طرح پی لیتے تھے۔ ایسے مانگیوں کو فاتح قرار دیا جاتا تھا۔
مگر حتمی جیت میزبان کی ہوتی تھی کہ مانگیوں کی لاکھ کوشش کے باوجود حلوہ ختم نہیں ہوتا تھا۔ جو حلوہ بچ جاتا وہ ہمسایوں اور رشتہ داروں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا—-7 اپریل 2024۔
فصل کی کٹائی کے بعد اگلا مرحلہ گندم کے پودوں سے گندم کے دانے الگ کرنا ہوتا ہے۔ اب تو یہ سارا عمل تھریشر نامی مشین کے ذریعے ہوتا ہے مگر تھریشر کی آمد سے پہلے کے زمانے میں یہ عمل بیلوں کی مدد سے سرانجام دیا جاتا تھا۔ اس عمل کو گاہیا یا گہائی کہتے تھے۔
گندم کے پودوں کو گول دائرے میں بچھا کر ان کے اوپر پانچ سات بیلوں کو بار بار پھرایا جاتا تھا۔ بیلوں کے پاوں تلے کچل کر گندم کے سٹوں سے دانے باہر نکل آتے تھے۔
کچلے ہوئے پودے بھوسا کہلاتے تھے۔ دانے اور بھوسا الگ کرنے کے لیئے لکڑی کے بنے ہوئے سادہ سے اوزار استعمال ہوتے تھے جنہیں ترینگل اور کراہی کہتے تھے۔ اس عمل کو اڈاری کہتے تھے۔ خاصا بامشقت کام تھا۔ تقریبا ایک ماہ لگ جاتا تھا۔ پسینے میں شرابور کسانوں کو دن بھر دھوپ میں کھڑے ہوکر کام کرتے دیکھ کر ترس آتا تھا۔ مگر ایک ماہ کی مشقت کے بعد ہمارے یہ کسان بھائی گیارہ مہینے ویہلے بھی تو بیٹھے رہتے تھے۔ نہ کوئی کام نہ کاج ، عیاشی ہی عیاشی۔ یہ سہولت تو حکمرانوں کو بھی دستیاب نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔8 اپریل 2024
ڈھیریاں پننڑں ۔۔۔۔۔۔
پننڑں کے معنی ہیں بھیک مانگنا۔ یہ کوئی باعزت کام نہیں ، مگر بچے تو بچے ہوتے ہیں، عزت بے عزتی سے بے نیاز۔ انہیں تو کھانے پینے کو کچھ مل جائے تو خوش ہو جاتے ہیں۔
گندم کی اڈاری کے بعد گندم کی ڈھیری سی بن جاتی تھی۔ یہی زمیندار کی سال بھر کی کمائی ہوتی تھی۔ اس خوشی میں زمیندار فراخ دلی سے گندم تقسیم کرتے تھے۔ مانگنے والوں میں پیشہ ور بھکاریوں کے علاوہ بچے بھی شامل ہوجاتے تھے۔ امیر غریب کا فرق بچے کیا جانیں؟ اچھے خاصے امیر گھرانوں کے بچے بھی بھیک لینے کے لیئے لائین میں لگ جاتے تھے۔
زمیندار گندم کے دانوں کی ایک ایک لپ ہر ایک کی جھولی میں ڈال دیتا تھا۔ ( دونوں ہاتھوں کو پیالے کی شکل دے کر اس پیالے کو گندم سے بھرنا لپ کہلاتا تھا)۔
بچے خوشی خوشی بھاگتے ہوئے دکانوں پر جا کر گندم کے عوض ٹانگری، ریوڑیاں، مونگ پھلی وغیرہ لے لیتے تھے۔ بڑی عیاشی ہوتی تھی۔ ایک ہی دن میں بچے کئی ڈھیریوں سے اپنا حصہ وصول کر لیتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔9  اپریل 2024 
عید کے بارے میں اپنا بہت پرانا قطعہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
آسماں پر نظر ہے لوگوں کی
چاند ان کا وہیں پہ رہتا ہے
میں مگر آسماں پہ کیا دیکھوں
چاند میرا زمیں پہ رہتا ہے
9 اپریل 2024
عزیز ساتھیو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
عید مبارک
فیس بک ، واٹس ایپ، میسنجر ، SMS کی وساطت سے عید مبارک کے بے شمار دعائیہ پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔ الگ الگ جواب دینا ممکن نہیں۔ میری طرف سے آپ سب کو عید مبارک۔۔۔ رب کریم آپ کو سدا شاد و آباد رکھے۔ آپ کی محبت میرا بہت قیمتی سرمایہ ہے۔ دعا کرتے رہیں۔10  اپریل 2024 
عید گذر گئی ۔۔۔۔۔۔
عید کی خالص خوشی تو بچوں کو نصیب ہوتی ہے کہ ان کا کوئی ماضی نہیں ہوتا۔ وہ لمحہ موجود کو ہی زندگی سمجھتے ہیں۔
جوانی اور بڑھاپے میں عید کی خوشیاں دکھ کی ملاوٹ سے پاک نہیں ہوتیں۔ عید کے دن بھی ذرا سی تنہائی میسر ہو تو ان لوگوں کی یاد لمحہ بھر کو اداس کر دیتی ہے جو اب اس دنیا میں موجود نہیں۔
بزرگ صوفی شاعر میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ نے بڑے دکھ سے کہا تھا ۔۔
عیداں تے شبراتاں آئیاں سارے لوک گھراں نوں آئے
او نئیں آئے محمد بخشا جیہڑے آپ ہتھیں دفنائے
یہی خیال ایک اردو شاعر نے یوں شعر میں منتقل کیا تھا۔۔
جانے والوں کی کمی پوری کبھی ہوگی نہیں
آنے والے آئیں گے لیکن خلا رہ جائے گا
دعا ہے کہ رب کریم جانے والوں کی مغفرت فرمائے اور جو لوگ باقی ہیں انہیں سلامت رکھے۔ اس عید پہ جو لوگ ہمارے ساتھ رہے آنے والی عیدوں پر بھی ہماری یہ سنگت قائم رہے۔
رمضان المبارک اور عید کا سفر تمام ہوا ۔ کل سے ان شآءاللہ کسی اور سمت کا رخ کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔13  اپریل 2024 
نقد پیسہ صرف ملازمت یا تجارت میں ملتا تھا۔ کاشتکار کا سرمایہ صرف فصل ہوتی تھی۔ ضرورت کی چیزیں گندم کے عوض خریدی جاتی تھیں۔ اگر نقد رقم کی ضرورت ہوتی تو نقد رقم بھی گندم کے عوض مل جاتی تھی۔
بچوں کی شادیوں کا سارا خرچ بھی گندم بیچ کر پورا کیا جاتا تھا۔ اسی لیئے شادیاں فصل اٹھانے کے فورا بعد کی جاتی تھیں۔ یوں اپریل مئی شادیوں کا سیزن ہوا کرتا تھا۔
سیدھی سادی کم خرچ شادیاں ہوتی تھیں۔ دوچار سادہ سے زیور، دوچار جوڑے کپڑے ، ایک دو بستر اور کچھ برتن بچیوں کا جہیز ہوا کرتا تھا۔
ولیمے میں کٹوے کا سالن اور روٹی دی جاتی تھی۔ دلہن کے گھر بارات کے کھانے کا خرچ دولہا کے والدین ادا کرتے تھے۔
زندگی اتنی سادہ اور ضروریات اتنی کم تھیں کہ شادی بوجھ نہیں بنتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔14  اپریل 2024
ماں کے بعد سب سے سچا پیار بہن کا ہوتا ہے۔ بھائیوں کی خوشی میں ماں کی طرح خوش اور دکھ میں ماں کی طرح اداس بہن ہی ہوتی ہے۔ آپس میں تعلقات کشیدہ بھی ہوں تو مصیبت میں بہن بھائی کے ساتھ شریک ہو جاتی ہے۔
بھائی کی شادی کے موقع پر رسموں کی قیادت بہن ہی کرتی ہے۔ دولہا کو مہندی لگانے سے لے کر جوتا چھپائی کی دلچسپ رسم تک ہر مرحلے میں نمایاں کردار بہن ہی ادا کرتی ہے۔
بڑا مان ہوتا تھا بہنوں کو اپنے بھائیوں پر۔ مرد جو کام کسی اور کے کہنے پر کرنے کو آمادہ نہ ہوتے بہن کے کہنے پر فورا مان جاتے تھے۔ کئی گھروں کو بہنوں نے اجڑنے سے بچایا۔
آج کے ڈیجیٹل دور میں وہ پیار محبت ، رشتوں کا احترام ، فخر اور مان خواب و خیال ہو گئے۔ بھائیوں کو عید کے دن بھی بہنوں کے سر پہ ہاتھ رکھنے کی فرصت نہیں ملتی۔
بھائیوں کو فکر ہو نہ ہو بہنیں بہر حال ان کی توجہ کی منتظر رہتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔15  اپریل 2024
لالا جاگ ۔۔۔۔
بارات کی روانگی سے ایک رات پہلے دولہا کی بہنیں بھابھیاں اور خالہ زاد، ماموں زاد بچیاں آدھی رات کے وقت یہ لوک گیت گاتے ہوئے آتیں اور دولہا کو جگا کر اس کے ہاتھ پاوں میں مہندی لگاتی تھیں۔ گیت کے بول یوں تھے۔۔
اٹھی جاگ لالا نندرایا وے
تیڈیاں ریتاں دا ویلا آیا وے۔۔۔لالا جاگ
میں تاں کیہڑے ویلے دی کھلی آں وے
سڑ گیئاں پیراں دیاں تلیاں وے۔۔۔ لالا جاگ
تیکوں مہندی لاونڑں آئیاں وے
تیڈیاں بھینڑاں تے بھرجائیاں وے۔۔۔ لالا جاگ
بہن کی پاکیزہ محبت کے اظہار پر مبنی یہ گیت بہت سے گلوکاروں نے بھی گایا ، مگر وہ بات نہ بن سکی جو بہنوں اور بھابھیوں کی آوازوں سے پیدا ہوکر دل میں اتر جاتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔—–16  اپریل 2024 
جوتا چھپائی۔۔۔۔۔
کیا زندہ دل لوگ تھے ۔۔ ہنسی مذاق کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔
دولہا کو مہندی لگانے کے دوچار گھنٹے بعد رات کے پچھلے پہر بہنوں اور بھابھیوں کی ٹیم دبے پاوں دولہا کے کمرے میں آکر دولہا اور اس کے سبالوں (قریبی ساتھی، عام طور پر ایک دو کزنز) کے جوتے اٹھا کر لے جاتیں۔ صبح جب دولہا اور سبالے اٹھتے تو دیکھتے کہ جوتے غائب۔۔۔ وہ جانتے تھے کہ یہ واردات بہنوں بھابھیوں نے ہی ڈالی ہو گی۔۔۔ ننگے پاوں چلتے ہوئے بہنوں بھابھیوں کو تلاش کر کے جوتوں کی واپسی کے لیئے منتیں ترلے کرتے ۔ جوتے تو واپس مل جاتے لیکن کچھ شرائط پر۔ پہلی شرط کے طور پر جیبوں کی صفائی کروائی جاتی۔ دوسری شرط یہ ہوتی تھی کہ زمین پر ناک سے دس لکیریں لگائیں۔ تیسری شرط یہ کہ مرغ کی طرح اذان دیں۔
بہنوں بھابھیوں کے آگے سر اٹھانے کی جرات کون کرتا۔۔۔۔ یوں اچھے خاصے دبنگ نوجوان ناک سے زمین پر لکیریں لگاتے اور ککڑوں کوں کہتے نظر آتے تھے۔ یہ منظر دیکھنے والوں کے قہقہوں کی گونج دور تک سنائی دیتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔17  اپریل 2024 
کلچر کی ورائیٹی کے لحاظ سے ضلع میانوالی اپنی مثال آپ ہے۔ ضلع کی شمال مغربی سرحد کے دیہات تبی سر ، ٹولہ بانگی خیل، چاپری، ٹولہ منگلی وغیرہ کی زبان پشتو اور رسم و رواج پشتون ہیں۔ یہاں کی آبادی خٹک قبیلے سے تعلق رکھتی ہے، اس لیئے اس علاقے کو پشتون بیلٹ یا خٹک بیلٹ کہتے ہیں۔
عیسی خیل سے میانوالی تک کے علاقے کا کلچر نیازی کلچر ہے۔ رہن سہن تو اس علاقے کا ایک ہے مگر زبان کی تھوڑی بہت ورائیٹی یہاں بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ مثلا عیسی خیل کی زبان باقی ضلع کی زبان سے قدرے مختلف ہے۔ کمر مشانی سے روکھڑی تک کی زبان ایک آدھ لفظ کے فرق کے ساتھ ایک ہی زبان ہے۔
کندیاں کی زبان میانوالی کی زبان سے کچھ مختلف ہے۔ واں بھچراں کے علاقے کی زبان اور رہن سہن ضلع خوشاب جیسا ہے۔ پپلاں سے بھکر تک کی زبان اور رہن سہن سرائیکی ہے۔
پہاڑ کے پار چکڑالہ ، ڈھوک علی خان ، رکھی، بن حافظ جی وغیرہ کے علاقے کی زبان اور رہن سہن ضلع اٹک/چکوال جیسا ہے۔ یہ علاقہ اتراہد(شمال مشرق) کہلاتا ہے۔
تحصیل عیسی خیل کی جنوب مشرقی سرحد پر واقع کالاباغ کا کلچر اور رسم و رواج ضلع کے بقیہ علاقوں سے بالکل مختلف ہیں۔ دراصل کالاباغ کے لوگ ضلع اٹک کے علاقہ مکھڈ سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے اس لییے ان کا کلچر مکھڈ والا ہی ہے۔کلچر کی ایسی ورائیٹی ملک بھر میں اور کہیں نظر نہیں آتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔18  اپریل 2024 
اگرچہ بنیادی طور پر ضلع میانوالی کی زبان ایک ہے تاہم مقامی سطح پر کچھ ورائیٹی دیکھنے میں آتی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ کیجیئے۔
لفظ۔۔۔۔۔ مجھے
عیسی خیل۔۔۔۔۔ میکوں
کمر مشانی تا موچھ۔۔۔۔ میکو
پائی خیل۔۔۔۔ میں کو
میانوالی۔۔۔۔ مینوں
اتراہد (رکھی، کلری، بن حافظ جی وغیرہ)۔۔۔۔۔۔ ماں
واں بھچراں شادیہ وغیرہ۔۔۔ مئن
2۔ لفظ۔۔۔۔ کرتا
عیسی خیل۔۔۔۔ کردا
کمر مشانی تا روکھڑی۔۔۔۔۔ کرینا
میانوالی ۔۔۔۔۔ کریندا
واں بھچراں۔۔۔۔ کریندا ( ر کے نیچے زیر بولتے ہیں۔
موسی خیل، چھدرو کے علاقے میں آکھدا یا آکھنا کی بجائے اکھینا یااکھیندا بولتے ہیں۔
ضلع میانوالی کی زبان میں یہ ورائیٹی صرف کچھ Pronouns اور Verbs کی حد تک ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔19  اپریل 2024
پارلی کندھی۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ہاں دریا پار کے علاقے کو پارلی کندھی کہتے ہیں۔ یہ علاقہ تحصیل عیسی خیل پر مشتمل ہے۔ کلور، ترگ، کمر مشانی، مندہ خیل ، خدوزئی، جلالپور، کوٹ چاندنہ اور خٹک بیلٹ پارلی کندھی کے کلچر کی نمائندہ بستیاں ہیں۔
پارلی کندھی کے لوگ بہت سادہ ، دوست دار اور مہمان نواز ہیں۔ معاشی لحاظ سے یہ علاقہ پسماندہ، مگر اخلاقی خوبیوں کے لحاظ سے مالامال ہے۔ ادھر دیرینہ دشمنیاں اور قتل و غارت کی مقدار بہت کم ہے ۔
عیسی خیل اور کالاباغ اس علاقے کے بڑے شہر ہیں۔ ان شہروں کا مزاج پارلی کندھی کے دیہات سے مختلف ہے۔ سادگی اور دوست داری کی روایات یہاں اتنی مضبوط نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔—20  اپریل 2024
تھل کچہ اور گاڑھ / مہاڑ ۔۔
سطح زمین کے لحاظ سے ضلع میانوالی کے تین حصے بنتے ہیں۔
کوہستان نمک کے دامن کی پتھریلی زمین گاڑھ یا مہاڑ کہلاتی ہے۔ شمالی علاقہ خٹک بیلٹ ، اور جنوب میں ماڑی شہر ، سوہڑا ، خیر آباد، سمند والا، سوانس، غنڈی، موسی خیل، چھدرو، پہاڑ کے پار چکڑالہ کا کچھ علاقہ بھی گاڑھ کہلاتا ہے۔
عیسی خیل سے پپلاں تک کا میدانی علاقہ تھل کہلاتا ہے۔ اگرچہ تھل ریگستان کو کہتے ہیں، مگر ہمارے ہاں میدانی علاقہ کو بھی تھل ہی کہتے ہیں۔
دریا کے کنارے سیلاب کی زد میں واقع علاقہ کچہ کہلاتا ہے۔ جناح بیراج نے دریا کو تو پنجرے میں بند کردیا مگر یہ علاقہ اب بھی کچہ ہی کہلاتا ہے۔ توحید آباد، شاملات ، بخارا، کوٹ بیلیاں، بستی شاہ گل محمد، اتراء کلاں اور نورنگہ اس علاقے کی معروف بستیاں ہیں۔
مجموعی طور پر ضلع میانوالی کی مٹی بہت زرخیز ہے۔ گاڑھ کے علاقے میں آبپاشی کا مسئلہ بھی ٹیوب ویل لگا کر کافی حد تک حل کر لیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔21  اپریل 2024 
ہمارے بچپن کے زمانے میں سال بھر میں دیرینہ دشمنی کی بنا پر قتل کی ایک آدھ واردات ہوتی تھی جس سے پورے علاقے میں دہشت پھیل جاتی تھی۔ کئی دن تک ہر جگہ یہی موضوع زیر بحث رہتا تھا۔
آج کل تو کوئی ہفتہ خالی نہیں جاتا۔ ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔
اس قتل و غارت کی ایک بنیادی وجہ اسلحے کی فراوانی ہے۔ ہر آدمی جیب میں پستول لیئے پھرتا ہے۔ معمولی سے جھگڑے کا اختتام بھی قتل پر ہوتا ہے۔
پہلے زمانے میں ایسا نہ تھا۔ عام لڑائی جھگڑا ہاتھا پائی یا ڈانگ سوٹے تک محدود رہتا تھا۔ لڑنے والے مرتے نہیں تھے۔
پستول کا تو نام و نشان ہی نہ تھا، بارہ بور یا گولی والی گلٹی بندوقیں بعض لوگوں نے لائسنس کے بغیر گھروں میں رکھی ہوئی تھیں۔ قانون کا خوف اتنا تھا کہ بندوق گھر سے باہر لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
صدر ایوب نے حکومت سنبھالتے ہی حکم جاری کیا تھا کہ بغیر لائسنس اسلحہ فورا قریبی تھانے میں جمع کرا دیا جائے۔ ایک ہفتہ بعد ہر گھر کی تلاشی لی جائے گی اور اسلحہ برآمد ہونے پر سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس اعلان کے بعد تھانوں میں اسلحے کے ڈھیر لگ گئے۔ ہمارے ایک ہمسائے کے پاس دو بڑے سایئز کے چاقو تھے۔ تلاشی کے ڈر سے اس نے وہ بھی ایک ویران کنوئیں میں پھینک دیئے۔
موضوع بہت اہم ہے اس پر مکمل بحث کے لیئے یہ گفتگو دو تین جاری رہے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔—–22  اپریل 2024 
اسلحے کی فراوانی کے علاوہ قتل وغارت کی وارداتوں میں بے تحاشا اضافے کی ایک بڑی وجہ برداشت کی کمی ہے۔ سیاست ہو یا مذہب یا گھریلو معاملات، لوگ مخالفت برداشت نہیں کرتے۔ مل بیٹھ کر اختلافات کو مٹانے کی کوشش کرنے کی بجائےمخالف کا وجود ہی ختم کردینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ ؟ صورت حال یہ ہے کہ لوگ عقل کی بجائے جذبات کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ سوچ کی جگہ غصے نے لے لی ہے۔۔
بے تحاشا جرائم کی ایک بڑی وجہ ہمارا ڈھیلا ڈھالا نظام انصاف بھی ہے۔ اس نظام کا بنیادی اصول مجرم کو سزا سے بچنے کا ہر موقع فراہم کرنا ہے۔ مجرم کو ضمانت پر رہا کر کے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لییے ملتوی کر دی جاتی ہے۔ یوں لوگوں کے دل سے سزا کا خوف ہی رخصت ہو چکا ہے۔
اس تمام صورت حال سے نمٹنے کے لیئے قانون میں بہت سی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ مگر ہمارے قانون ساز ایک دوسرے کے گریبان پھاڑنے سے ہی فارغ نہیں ہوتے۔ اصلاحات کون کرے ۔۔۔ اللہ رحم کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔23  اپریل 2024 
کتنی محنت کی تھی ہمارے اساتذہ کرام نے ہمیں خوشخطی سکھانے پر۔ ! ۔ کچی پہلی کلاس میں لکڑی کی تختی پر کانے (سرکنڈے) کے قلم سے “ا” سے “ے” تک حروف اور 10 تک ہندسے باربار لکھوائے جاتے تھے۔ کچی پہلی کی تعلیم بس اتنی ہی تھی۔ پکی پہلی کلاس میں تختی پر الفاظ ، جملے اور 100 تک ہندسے لکھوائے جاتے تھے۔ پانچویں کلاس تک تمام لکھائی تختی پر قلم سے ہوتی تھی۔ اس محنت کا نتیجہ یہ تھا کہ ہر طالب علم خوشنویس بن جاتا تھا۔
پھر تختی کی جگہ کاپی یا رجسٹر ، اور قلم کی جگہ پین استعمال ہونے لگا ۔ آج کل تو لکھنے کا سارا کام لیپ ٹاپ یا موبائل فون کے کی بورڈ keyboard پر ہورہا ہے۔ ہماری آئندہ نسلیں شاید قلم کے نام سے بھی ناآشنا ہوں۔ یہ سوچ کر دل دکھتا ہے۔
قلم کی اپنی اہمیت ہے۔ قرآن حکیم میں رب کریم نے قلم کی قسم کھائی ہے۔ اس لیئے ضروری ہے کہ بچوں کو قلم سے لکھنا سکھایا جائے اور جہاں تک ممکن ہو لکھنے کا کام قلم ہی سے کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔—24  اپریل 2024۔
پہاڑے
Multiplication Tables
آج اگر کسی پڑھے لکھے نوجوان سے پوچھیں کہ 19×7 کتنا بنتا ہے ، تو وہ موبائل فون کے کیلکولیٹر پر حساب لگا کر یا کاغذ پر 19 لکھ کر اسے 7 سے ضرب دے کر کہے گا 133۔۔
ہمارے زمانے کے کسی آدمی سے پوچھیں تو وہ کیلکولیٹر یا کاغذ پنسل کی مدد کے بغیر ہی فی الفور درست جواب بتا دے گا، کیونکہ 20 × 20 تک کا حساب اسے بچپن ہی میں ازبر کرا دیا گیا تھا۔
اس حساب کو پہاڑے کہتے تھے۔ انگلش میں اسے Multiplication Tables کہتے ہیں۔ دوسری تیسری کلاس میں آخری پیریئڈ پہاڑوں کی مشق کے لیئے مختص ہوتا تھا۔ کلاس کا مانیٹر لڑکا اونچی آواز میں ایک خاص ردھم کے ساتھ پہاڑے بولتا جاتا تھا اور کلاس بلند آواز میں اس کے الفاظ دہراتی رہتی تھی ۔
پہاڑے اردو یا انگلش کی بجائے اپنی زبان میں بولے جاتے تھے مثلا چھیں نم چرنجا (6×9=54) وغیرہ وغیرہ۔
یہ پریکٹس روزانہ بار بار کرائی جاتی تھی۔ اس لیے 20×20 تک تمام اعداد کا حاصل ضرب سوچنے یا حساب لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ درست جواب مشینی انداز میں خودبخود زبان پہ آجاتا تھا۔۔۔یہ حساب عمر بھر یاد رہتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔25  اپریل 2024 
قلم کے ساتھ ساتھ کتاب کا دور بھی رخصت ہو رہا ہے ۔ اب کاغذ پر چھاپی ہوئی کتابوں کی بجائے pdf شکل میں کتابیں فون یا لیپ ٹاپ پر دیکھی پڑھی جا سکتی ہیں۔ کتابوں کی اشاعت کے بڑے بڑے ادارے بند ہوگئے ۔ان اداروں سے وابستہ ہزاروں لوگ بے روزگار ہو گئے۔ جو دوچار ادارے تاحال برقرار ہیں وہ بھی کب تک چلیں گے۔ جب کتاب خریدنے والا ہی کوئی نہ ہو تو کتابیں کون شائع کرے گا ؟
لائبریریوں کا کیا بنے گا ؟ وہ دن دور نہیں جب سکولوں کالجوں میں بھی بچے کتابوں کی بجائے فون سے علم حاصل کیا کریں گے۔
کیا دور تھا جب ہر سال سکول میں امتحان دینے کے بعد بچے اپنی کتابیں آدھی قیمت پر بیچ کر اگلی کلاس کے بچوں سے کتابیں آدھی قیمت پر خرید لیتے تھے۔ دیہات میں کتابوں کی دکانیں تو ہوتی نہیں تھیں۔ ویسے بھی لوگ اتنے غریب تھے کہ نئی کتابیں افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیئے آدھی قیمت پر پرانی کتابیں لینا وارے کا سودا تھا۔ یہ سلسلہ سالہا سال چلتا رہا۔
اکثر اوقات تو کتابوں کی خریداری میں والدین کا دخل ہی نہیں ہوتا تھا۔ بچے خود ہی اپنی کتابیں آدھی قیمت پر پچھلی کلاس کے بچوں کو دے کر اگلی کلاس کی کتابیں آدھی قیمت پر خرید لیا کرتے تھے۔ اچھی قیمت پر کتابیں بیچنے کے لیئےبچے کتابوں کو بہت سنبھال کر رکھتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔—- 26  اپریل 2024 
لوٹی۔۔۔۔۔
قیام پاکستان کے وقت ہم پہلی دوسری کلاس میں پڑھتے تھے۔ اس وقت تک ہندو اور مسلمان مل جل کر رہتے تھے۔ پھر اچانک بھارت والی سائیڈ پہ فسادات کی آگ بھڑک اٹھی۔ ہندووں اور سکھوں نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ اس کے رد عمل میں پاکستان کے علاقے میں ہندووں پر زمین تنگ ہونے لگی۔ بھارت کی طرح قتل عام تو نہ ہوا لیکن کچھ علاقوں میں چند ہندووں کو قتل کر دیا گیا۔ ہمارے داودخیل میں بھی خالقداد خان نمبردار نے ہیرا اور موہرا نامی دو ہندو تاجروں کو رائفل کے فائر مار کر قتل کر دیا۔
اس صورت حال سے خوفزدہ ہوکر ہندو رات کی تاریکی میں فرار ہوکر بھارت جانے لگے۔ روزانہ صبح کوئی نہ کوئی گھر خالی ملتا۔ جانے والے نقد رقم اور زیورات کے سوا باقی سب کچھ یہیں چھوڑ جاتے تھے۔ محلےکے لوگ برتن، بستر، میزیں، کرسیاں ، الماریاں سب کچھ اٹھا کر لے جاتے۔ منٹوں میں گھر صاف ہو جاتا۔ لوٹ مار کے اس عمل کو لوٹی کہتے تھے۔
ایک صبح ہم سکول پہنچے تو معلوم ہوا ساتھ والے دو دکان دار گھر اور دکانیں چھوڑ کر فرار ہو گئے ہیں۔ سب بچے لوٹ مار میں شریک ہو گئے۔ جس کے ہاتھ جو چیز لگی اٹھا لی۔ میزیں کرسیاں بستر چارپائیاں دکانوں کا سامان ، سب کچھ لوگ اٹھا کر لے گئے۔ میں نے خالی دکان کے ایک کونے میں کچھ رجسٹر پڑے دیکھ کر اٹھا لیئے۔ بہت خوش تھا کہ لکھنے کو بہت سی کاپیاں مفت مل گئیں۔ گھر جاکر دیکھا تو ان رجسٹروں پر دکان کا حساب کتاب لکھا ہوا تھا۔ ایک صفحہ بھی خالی نہ تھا۔ گھر والوں نے بہت مذاق اڑایا۔ اس کے بعد میں لوٹی میں کبھی شریک نہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔27  اپریل 2024
وطن کی محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ حالات اور ضروریات انسان کو وطن سے دور رہنے پر مجبور کردیں پھر بھی وطن سے رشتہ نہیں ٹوٹتا۔
میانوالی سے بھارت منتقل ہوجانے والے ہندووں نے تو دہلی میں اپنے محلہ کا نام ہی میانوالی نگر رکھا ہوا ہے۔ یہ محلہ ایک پوری بستی ہے۔ یہی زبان، یہی لباس ، یہی رہن سہن اب ان کی تیسری نسل میں بھی جاری ہے۔
ان میں سے اکثر لوگ تو یہاں سے جانے کے بعد کبھی واپس نہیں آ سکے لیکن زندگی اب بھی میانوالی کے انداز میں بسر کر رہے ہیں۔
چاچا منوہر لال نامی بزرگ ہندو ہر سال میانوالی آکر سلطان زکری صاحب کے مزار پر کھانے کی دیگیں نذر کیا کرتے تھے۔ ساڑھے چھ فٹ قد، سرخ و سفید رنگت، لمبی سفید مونچھوں اور سر پہ پگڑی کے ساتھ وہ دیکھنے میں بھی میانوالی کے لگتے تھے۔
لالہ روشن لال چیکڑ بھی ہر سال چند دن کے لیئے میانوالی آتے رہے ہیں۔ بہت زندہ دل اور مہمان نواز انسان ہیں۔
میانوالی کے لوگوں نے ان ہم وطن بزرگوں کو ہمیشہ خوش آمدید کہا۔ ان کے اعزاز میں دعوتوں کا سلسلہ کئی دن جاری رہتا تھا۔
میانوالی کے جو لوگ خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر حاضری دینے کے لییے یا سیروتفریح کے لیئے بھارت جاتے ہیں میانوالی کے ہندو ان کی بھرپور خاطر تواضع کرتے ہیں۔ پروفیسر محمد سلیم احسن اور ان کے کچھ دوست ہر سال جایا کرتے تھے۔ میرا بیٹا مظہر بھی جاتا رہتا ہے۔
مشہور ہندو افسانہ نگار ہرچرن چاولہ ناروے میں رہتے تھے۔ بیس پچیس سال پہلے چند روز کے لیئے بھارت واپس آئے تو اہلیہ سمیت اپنے آبائی گاوں داودخیل بھی آئے تھے۔ ریلوے کے جس کوارٹر میں انہوں نے بچپن گذارا تھا وہاں جاکر اپنے ماں باپ کو یاد کر کے بہت روئے۔ برآمدے کے ایک کونے سے مٹی اٹھا کر لفافے میں ڈال کر ساتھ لے گئے۔ کہنے لگے یہاں میری امی بیٹھ کر کھانا بنایا کرتی تھیں۔ ان کے پاوں کی مٹی میرے لیئے مقدس ہے اس لیئے یہ ساتھ لے جا رہا ہوں۔
میانوالی کے رام لال بھی بہت معروف افسانہ نگار تھے۔ ایک دفعہ وہ بھی میانوالی آئے۔ ان کا آبائی گھر موتی مسجد کے قریب ایک گلی میں تھا۔ وہاں بیری کا ایک درخت تھا۔ رام لال اس درخت کی ایک چھوٹی سی شاخ کاٹ کر یادگار کے طور پر ساتھ لے گئے۔ وہ بھی گئے دنوں کو یاد کر کے دیر تک روتے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔28  اپریل 2024
اہلیہ کی برسی۔۔۔۔
سفرحیات کا طے ہو تو جائے گا لیکن،
تمہاری یاد رلائے گی ہر قدم پہ مجھے
۔۔۔۔۔ دعاوں کی درخواست
30  اپریل 2024 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top