قسط سوم–کالاباغ کی مختصر تاریخ و تعارف–
ملک اللہ یار خان نے بزور شمشیر اپنا حقِ سرداری حاصل کر لیا تو سکھ سردار محکم سنگھ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ کالاباغ آ دھمکا،ملک اللہ یار خان نے اپنی فہم و فراست سے کسی نہ کسی بہانے سکھوں کو کالاباغ میں داخل ہونے سے باز رکھا لیکن چند ماہ بعد سکھ پھر دل سنگھ کی کمان میں کالاباغ کے دروازے پر آن کھڑے ہوئے ،ملک اللہ یار خان کی دانشمندی اور معاملہ فہمی سے کالاباغ ایک بار پھر لٹنے سے محفوظ رہا،(بالاج )سکھوں کی بار بار کی یورش سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس وقت کالاباغ ایک خوشحال ریاست بن چکی تھی اور مختلف محصولات کے علاوہ مسان کی جاگیر سے بھی اچھی خاصی آمدنی حاصل ھو رہی تھی کیونکہ اس وقت تک موضع مسان پر کوئی بیرونی مال گزاری مقرر نہیں تھی .
موضع مسان پر پہلی مرتبہ 1876 بکرمی میں سردار دل سنگھ نے مالگزاری مقرر کی کہ کھڑی فصل کا دو حصہ خالصہ سرکار جب کہ تین حصہ معافی یعنی رئیس کالاباغ کا حصہ ھو گا ،جب 1822 بکرمی میں رنجیت سنگھ اس علاقے میں آیا تو اس نے موضع مسان کی جاگیر ملک اللہ یار خان کو بخش دی اور سالانہ نذرانہ اس حساب سے طے ہوا کہ کالاباغ کے سردار زر مالگزاری چالیس فیصد کے علاوہ گیارہ اونٹ ،دو اعلیٰ نسل کے گھوڑے ،پانچ تازی کتے،دو باز کٹہ،سالانہ ادا کریں گے ،اگر گھوڑا پسند نہ آیا تو پانچ سو روپے ،اونٹ اور باز پسند نہ آۓ تو ایک ایک سو روپے ،اور سگ تازی کے عوض پچیس روپے ادا کۓ جائیں گے ،جب نمک کی کان کی آمدن وصولی کا اختیار گلاب سنگھ کے سپرد ہوا فیصدی من دس روپے ملک اللہ یار خان کو عطا کر کے باقی بحق سرکار ضبط کر لیا ،اور سکھوں کے دور تک اس پر عملدرآمد ہوتا رہا .
جب پنجاب کا انتظام ریزیڈنٹ لاہور کے سپرد ہوا تو اس نے اجناس تجارت پر محصول مسدود کر دیا اور آبی گذرگاہ کا ٹھیکہ مصر صاحب دیال پسر مصر لبا رام کو دے دیا،لیکن ملک یار خان کے استغاثہ کرنے پر یہ ٹھیکہ واگزار ھو گیا تا آنکہ انگریزوں نے 1849 میں پنجاب کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا تو سکھوں کا محصول معاف اور چند خلاف انصاف رسمیں بند کر دیں ،محصول نمک و چونگی بحق سرکار ،اور اعوان خاندان کی کارگزاری سے اطمینان پا کر موضع مسان اور دیگر جاگیر پر دائمی حقوق اس خاندان کو عطا ہوۓ ۔انگریز سرکار سے خوش گوار تعلقات استوار کرنے کا موقع ملک اللہ یار خان کو یوں بیٹھے بٹھائے میسر آ گیا کہ 1840ء میں جب انگریزی فوج کابل کی طرف گامزن تھیں تو کرنل میکشن اور الیگزنڈر برنس نے ملک اللہ یار خان کو رسد کی بحالی و قاصدوں کی آمد و رفت بحال رکھنے کے لیے دریا پر کشتیوں کا انتظام کرنے کا فریضہ سونپا ،اس فریضے کو بخوبی نبھانے پر دربار انگلشیہ میں ملک اللہ یار خان کی قدر و منزلت بڑھ گئی ،
مارچ1846 میں سکھ انگریز معاہدہ کے تحت بنوں میں ہر برٹ ایڈ ورڈ اسسٹنٹ ریزیڈنٹ مقرر ہوا یہ انتہائی زیرک انگریز آفیسر تھا یکم دسمبر 1847 کو جنرل کورٹ لنڈت کی قیادت میں ایک انگریز دستہ کالاباغ سے گزرا جس میں ایڈورڈ بھی شامل تھا تو اس نے ملک اللہ یار کی طاقت و اثرورسوخ کا اندازہ لگا لیا اور ملک اللہ یار خان کے ساتھ خوش گوار تعلقات بنانے رکھنے میں اسے دیر نہ لگی جب ایڈورڈ نے دلیپ گڑھ (بنوں) میں ایک قلعہ بنانا شروع کیا تو ملک اللہ یار خان نے مصالحے و مزدورں سے اس کی خوب خوب مدد کی اس قلعے کی حفاظت کے لیے ایک سو سواروں کا دستہ بھرتی کیا جس کا سپہ سالار اپنے بیٹے ملک مظفر خان اول کو بنا کر ایڈورڈ کے پاس بنوں بھیجا ،اس دستے میں ملک اللہ یار خان کا بھائی ملک نواب خان بھی شامل تھا ،ھب سکھوں کی شورش میں اضافہ ھو گیا اور ایڈورڈ کو عجلت میں ملتان جانا پڑا تو اس قلعے کی حفاظت کی ذمہ داری ملک فتح خان ٹوانہ کے سپرد کر دی ،ملک مظفر خان اول بھی اس کے ساتھ قلعہ میں موجود رہا ،بںوں میں موجود سکھ سپاہیوں نے موقع غنیمت جانا اور رام سنگھ چھاپہ والا اور ندہان سنگھ کی قیادت میں بغاوت کردی ،قلعہ سے نکلنے کی کوشش میں ملک فتح خان ٹوانہ تو مارا گیا جبکہ ملک مظفر خان اول نے اپنے آپ کو سکھوں کے حوالے کر دیا جو اسے قیدی بنا کر اپنی فوج کے مرکز گجرات لے گئے اور پانچ ہزار روپے زر فدیہ دے کر رہائ پائی ، واپس آ کر ڈپٹی کمشنر ضلع بنوں بٹلر صاحب کی برابر معاونت کرتا رہا ،1863ء ملک اللہ خان وفات پا گیا تو ملک مظفر خان اول اپنے مرحوم باپ کا مختار دستار مقرر ہوا اور اس ریاست کی رئیس بھی بن گیا ،تو اس نے بھی انگریزوں سے بنا کر رکھنے میں عافیت سمجھی ۔
ملک اللہ یار خان نے اپنی زندگی میں ہی ملک مظفر خان اول کو اپنا مختار دستار مقرر کر دیا تھا جو بنوں کے علاقے میں فوجی خدمات سر انجام دے چکا تھا ،1857ء کی جنگ آزادی جسے انگریز غدر کا نام دیتے ہیں شروع ہوئی تو ملک مظفر خان اول بحکم جان نکلسن کے پندرہ سوار اور تیس پیادہ سپاہی ہمراہ لیۓ کمشنر قسمت پشاور کی خدمت میں پشاور رہا جہا اس کے ذمے ایک دروازے کی حفاظت سپرد ہوئی اور نو ماہ تک یہ اس دروازے کی محافظت کرتا رہا جب کہ ملک مظفر خان اول کا دوسرا بھائی رنباز خان سوار اور پیادہ سپاہیوں کے ہمراہ ڈپٹی کمشنر بنوں کپتان کوکس کی خدمت میں حاضر رہا ،ملک مظفر خان اول کا بیٹا ملک یار محمد خان جنگ آزادی کے دنوں میں پشاور میں دفعدار تھا جو اپنے والد کے شانہ بشانہ رہا ان خدمات و جذبہ وفاداری کی وجہ سے
ملک یار محمد خان کو بھی انگریز دربار میں قدر و منزلت اور اعتماد حاصل تھا،،ملک مظفر خان اول نے افغان اینگلو وار میں انگریزی فوج کو بہت مدد کی ۔انگریز فوج کو سامان کی باربرداری کے لئے بہت سے مویشی دۓ،اور کرم کے راستے سامان کی رسد رسانی میں مدد کی ،ان خدمات کے اعتراف میں گورنر جنرل وائسرائے کشور ہند کی طرف سے ” خان بہادر ” کا خطاب ملا ۔اس کے ساتھ خوشنودی سرکار کا سرٹیفیکیٹ اور ایک ہزار روپے نقد انعام عطا ہوا ،اور اپنے علاقے میں پولیس کے اختیارات ذیل داری عطا ہوۓ ،کالاباغ کی نمک کی کانوں کے ٹھیکے بھی ملے اور کالا باغ کی ریاست کی دائمی ملکیت اعوانان کالاباغ کے لئے تسلیم کر لی گئی ۔
ملک مظفر خان کے دور میں کالا باغ سٹیٹ کی سالانہ آمدن گیارہ ہزار روپے تھی جو اس دور میں ایک بہت بڑی رقم تھی ،مسٹر تھارن نے 1868ء میں اشیاء کی قیمتوں کا ایک جائزہ پیش کیا جس کے مطابق ہل چلانے والے بیل کی قیمت 16 روپے ،اونٹ اور بھینس کی قیمت 40 سے 50 روپے ،گھوڑا 80 روپے، گدھا 6 روپے اوربھیڑ 2 روپے اور بکری 3 روپے کی تھی ۔ملک مظفر خان 1885, ء میں وفات پا گیا تو اس کا بیٹا ملک یار محمد خان ریاست کا سربراہ مقرر ہوا کیونکہ کالاباغ ریاست کا یہ غیر تحریری آئین تھا کہ ہمیشہ بڑا بیٹا ریاست کا سربراہ بنتا اور باقی بھائیوں کو گزارہ الاؤنس ملتا تھا اس تقسیم جائیداد و منتقلی اقتدار کو انگریز عدالتوں نے قانونی حیثیت دے دی تھی ۔ملک یار محمد خان اپنے والد کی زندگی میں ہی اعزازی میجسٹریٹ کے عہدے پر فائز تھا ،یہ بھی انگریز سرکار کا منظور نظر تھا اس لیے 1907ء میں اسے ” خان بہادر ” کا خطاب عطا ہوا،ملک یار محمد خان نے کالاباغ کی آبادی سے باہر ایک قلعہ تعمیر کروایا اس قلعے کا صدر دروازے چونے کا پتھر بلاک کی صورت تراش کر لگایا گیا جو بارش میں دھل کر زیادہ سفید اور خوبصورت نظر آنے لگتا ہے ،
،ملک یار محمد خان سے بھی زندگی نے وفا نہ کی اور 1908ء میں جہان فانی سے رخصت ہو گیا اور زمام اقتدار ملک عطا محمد خان نے سنبھالی جس کے دور اقتدار میں پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی تو ملک عطا محمد خان نے انگریز سرکار کو ایک لاکھ روپے ایڈوانس ،پچھتر ہزار روپے جہازوں کی مرمت کے لیے ،پینتیس ہزار روپے گھوڑا رجمنٹ کے لئے ،اور سات ہزار روپے متاثرین جنگ کی بحالی کے لیے امداد دی سینکڑوں مقامی لوگوں کو انگریز فوج میں بھرتی کروایا اور پانچ لاکھ روپے بطور قرضہ انگریز سرکار کو دیا جو بعد میں انگریز سرکار نے لوٹا دیا اس امداد کو لینے دہلی سے پولیس کی بھاری نفری کالاباغ آئ تھی
ان خدمات کے اعتراف میں ملک عطا محمد خان کو1916ء میں منعقد ہونے والے دہلی کورونیش دربار میں مدعو کیا گیا ،تعریفی سرٹیفیکیٹ ،میڈل،اور خان بہادر کے خطاب کے ساتھ ” نواب ” کا منصب بخشا گیا ،لیکن یہ عہدے اور جاگیر تو باقی رہی ملک عطا محمد خان کی زندگی کا سورج بھی ڈھل گیا اور 1924ء میں لمبی چوڑی جاگیر ،مال ومنال اور اعزازات کے ساتھ ایک فرزند ارجمند چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے
بالاج جیسل (محمد اقبال حجازی) راجپوت بھٹی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک تجربہ کار استاد، حساس قلمکار، اور تہذیبی ورثے کے سچے محافظ ہیں۔ انہوں نے تین دہائیوں تک تدریس سے وابستہ رہتے ہوئے علم کی روشنی پھیلائی، اور ساتھ ہی ساتھ کالاباغ، کوٹ چاندنہ اور میانوالی کی ثقافت، یادیں اور تاریخ اپنے سادہ مگر پُراثر انداز میں قلمبند کیں۔ ان کی تحریریں خلوص، سچائی اور دیہی زندگی کے جذبے سے لبریز ہوتی ہیں۔ وہ فیس بک پر فعال ادیب ہیں اور اپنی زمین، لوگوں اور ماضی سے جڑے تجربات کو محفوظ رکھنے کے لیے مسلسل لکھ رہے ہیں۔۔ اُن کا قلم مقامی زبان، محبت اور روایت کا ترجمان ہے.