کالاباغ کی مختصر تاریخ و تعارف–قسط چہارم
ملک عطا محمد خان کے گھر میں جس سپوت نے آنکھ کھولی اس نے نہ صرف اپنے خاندان اور قصبہ کالاباغ کو بلکہ پورے ضلع میانوالی کو عالمی سطح پر بام شہرت پر پہچا دیا .یہ شیر دل اعوان ملک امیر محمد تھا جو 20 جون 1910ء کو پیدا ھوا ،باپ کی وفات کے وقت اس کی عمر صرف چودہ برس تھی ،کم عمری کے باوجود آپ کو ریاست کالاباغ کی سربراہی سونپ دی گئی لیکن اس کی جائیداد انگریزی قانون کے مطابق کورٹ آف ورڈ میں چلی گئی ،ایچی سن کالج لاہور سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے انگلستان چلے گئے ،تعلیم مکمل کر کے واپس آئے تو 1932ء میں اپنی جائیداد کورٹ آف ورڈ سے واگزار کرا لی ،کالاباغ کے مشہور بوہڑھ بنگلہ میں 1934ء میں ایک اعوان کانفرنس منعقد ہوئی جس میں کل پاکستان اعوان قبائل کے نمائندے شریک ہوئے اور متفقہ طور پر ملک امیر محمد خان کو ” چیف آف اعوان قبائل ” تسلیم کیا گیا ،1935ء میں اُنہیں سلور جوبلی میڈل عطا کیا گیا ,(بالاج)،پنجاب میں اگرچہ یونینسٹ پارٹی کی حکومت تھی لیکن آپ نے بیباکی سے آل انڈیا مسلم لیگ کا ساتھ دیا جب قائد اعظم نے متحدہ ہندوستان کے رؤساء سے تحریک پاکستان کے لئے مالی تعاون کی اپیل کی تو تمام رؤساء نے بساطِ بھر مالی تعاون و عطیات کا اعلان کیا ، پچھلی صف میں بیٹھا تیس سالہ جوان اٹھا اور دبنگ آواز میں بولا “اب تک جتنی رقم جمع ہو چکی ہے میں اکیلا اس کے برابر عطیہ دینے کا اعلان کرتا ہوں” قائد اعظم محمد علی جناح نے ساتھ بیٹھے نواب افتخار حسین ممدوٹ سے پوچھا یہ جوان کون ھے؟ تو نواب ممدوٹ نے بتایا یہ نواب آف کالاباغ ہیں تو قائد اعظم بہت خوش ہوئے اور ملک امیر محمد خان کو بلوا کر پاس بٹھا لیا (راوی محمد حسین اعوان) نواب ملک امیر محمد خان نے مسلم لیگ کے حامی اخبار نوائے وقت کو بھی ایک خطیر رقم عطیہ کی ،1946ء کے انتخابات میں ملک امیر محمد خان نے مسلم لیگ کے امیدوار مولانا عبد الستار خان نیازی کی حمایت کی اور کامیاب کروایا ،قیام پاکستان کے بعد ملک امیر محمد خان 1951ء پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ،1955ء میں قومی اسمبلی کے اور 1956ء میں مغربی پاکستان کے اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ،9 نومبر 1958ء کو انہیں پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کا چئیر مین بنا دیا گیا ،اس دور میں آپ نے اسکندر آباد میں سیمنٹ ،کھاد،اور پنسلین کے کارخانے منظور کروائے ،1959ء میں انہیں خوراک و زراعت کمیشن کا چئیر مین بنا دیا گیا اور 1960 میں گورنر مغربی پاکستان مقرر ہوۓ ،،ون یونٹ کی وجہ سے پورا مغربی پاکستان آپ کے زیر گورنری تھا آپ نے چھ سال اور ساڑھے تین ماہ اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ،17ستمبر 1966ءکوصدر ایوب خان سے کسی ناچاقی کے بعد گورنری سے مستعفی ہو گئے بعد ازاں صدر ایوب خان نے بہت کوشش کی کہ ملک امیر محمد خان اپنا استعفیٰ واپس لے لیں لیکن ملک امیر محمد خان نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مردوں کے استعفے صرف دکھانے ،ڈرانے یا واپس لینے کےلئے نہیں ھوتے ،ملکہ الزبتھ نے ملک امیر محمد خان کی انتظامی صلاحیتوں کو یوں خراج تحسین پیش کیا کہ ملک امیر محمد خان ایسے منتظم ہیں کہ ان کی ایڈمنسٹریش جنگلی شیر بھی مانتا ہے پیر علی محمد راشدی نے اپنی کتاب روداد چمن میں لکھا ھے کہ ملک امیر محمد خان راست گو،دوستی و دشمنی کے پکے،صاف گو،شکل و شباہت میں رعب دار ،عظیم منتظم اور سخت منتقم مزاج تھے ایک سوٹ کیس لے کر گورنر ہاؤس میں داخل ہوۓ اور وہی سوٹ کیس اٹھا کر چل دیئے ۔گورنری چھوڑی تو زندگی نے بھی وفا نہ کی کسی خانگی معاملہ پر 26نومبر 1967 ء کو گولیوں کا نشانہ بن گئے ،اءف آئی آر میں ان کے سگے بیٹے ملک اسد خان مرحوم کو نامزد کیا گیا لیکن ثبوت کی عدم موجودگی میں باعزت بری ھو گیۓ ان کی موت کا سانحہ گھریلو مسئلہ ہونے کی وجہ سے راز ہی رہا ۔اپ نے پسماندگان میں چار بیٹے ملک محمد مظفر خان ،ملک محمد اسد خان ،ملک محمد اللہ یار خان اور ملک محمد اعظم خان چھوڑے تادم تحریر سارے اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں ،جن میں ملک مظفر خان اور ملک اسد خان نے والد کے بعد بھرپور سیاسی و سماجی کردار ادا کیا ،بلکہ ملک محمد مظفر خان اپنے والد کی زندگی ہی میں سیاست و ریاست کے امور میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا ۔
ملک امیر محمد خان کے فرزندوں میں سے ملک اللہ یار خان کا سیاسی کردار صرف صدر ضیاء الحق کی مجلسِ شوریٰ کی رکنیت تک نظر آتا ھے جبکہ اس کی دو بیٹیاں محترمہ سمیرا ملک اور محترمہ عائلہ ملک نے سیاست میں خاصا کردار ادا کیا ،اور دونوں بہنیں قومی اسمبلی کی ممبر رہیں ،ملک امیر محمد خان کے باقی تین بیٹوں میں سے ملک اعظم خان لاولد تھے اور اپنی جاگیر کے معاملات اور سیاسی و سماجی محفلوں میں بہت کم شرکت کرتے ۔جب کہ ملک مظفر خان اپنے والد مرحوم کی جیتی جاگتی تصویر تھے،(بالاج)،اگرچہ والد صاحب کی طرح بڑی بڑی مونچھیں تو نہیں رکھی ھوئی تھیں لیکن سخت مزاج کے ساتھ ساتھ جلال ،تمکنت اور رعب و دبدہہ بھی خوب رکھتے تھے ۔۔ ملک مظفر خان نے ایچی سن کالج لاہور سے ہائیر سینئر کیمبرج کا امتحان گولڈ میڈل کے ساتھ پاس کیا ،اور ایف سی کالج لاہور سے بھی گولڈ میڈل کے ساتھ گریجویشن مکمل کی ،اور اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان کا رخ کیا اور میڈل ٹپل لندن سے بار ایٹ لاء کیا اور اپنے وطن واپس آۓ تو خاندانی رسم و رواج کے مطابق سیاست میں حصہ لینا شروع کیا ،،جون 1962 میں بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت انتخابات ہوئے اور این ڈبلیو 36 کے حلقے میں قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا اپنے مد مقابل مولانا عبد الستار خان نیازی مرحوم کو شکست سے دوچار کیا ،ممبر قومی اسمبلی کی حیثیت سے آپ کو بیرونی ممالک کے دورے کرنے کا موقع ملا ،1963ء میں ویٹ گیروز ایسوسی ایشن کی دعوت پر امریکہ کا دورہ کیا اور گڈ ول مشن کے ساتھ ایک وفد لے کر 1964ء میں جاپان گیۓ ،ان غیر ملکی دوروں میں آپ کے جاندار کردار نے حکومتی حلقوں میں آپ کا اثرورسوخ بڑھا دیا ،جون 1965م میں قومی اسمبلی کے بلا مقابلہ ممبر منتخب ہوئے ،1966ء اور 1967ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پورے سیشن میں پاکستان کے نمائیندہ کے طور پر شامل رہے اور 7, دسمبر 1970ء کو ہونے والے عام انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ھوۓ اور منتخب ہو کر پاکستان پپیلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ،۔1973ء ایک وفد کے ہمراہ ایران کا سرکاری دورہ کیا ،27جون1973ء کو بوہڑھ بنگلہ ،کالاباغ میں تحریک ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی جس میں کی میزبانی ملک مظفر خان نے کی ،جب قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو کافر قرار دینے کا بل قومی اسمبلی میں پاس ھوا تو اس پر سب سے پہلے ملک مظفر خان نے دستخط کیے ،1975ء میں سرکاری دورے پر انگلینڈ جانے کا موقع ملا ،اور ان کی سیاسی تاریخ میں موڑ اس وقت آیا جب 7, مارچ 1977 کے قومی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر مولانا عبد الستار خان نیازی کے مد مقابل الیکشن لڑا اور کامیاب ہو گئے لیکن اس الیکشن میں پیپلز پارٹی کے مدمقابل قومی اتحاد نے مختلف حلقوں میں کھلی دھاندلی کا الزام لگایا اور تحریک نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے حکومت مخالف تحریک شروع کر دی اس تحریک کا خاتمہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے نفاذ پر ہوا،جس نے نہ صرف پیپلز پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی پھانسی پر چڑھا دیا اور یہ ملک مظفر خان کی آخری جیت تھی کیونکہ 25,فروری 1985ء کو ہونے والے غیر جماعتی قومی انتخابات میں مقبول خان آف عیسیٰ خیل نے ملک مظفر خان کو شکست سے دوچار کیا اور پہلی بار سیاسی میدان میں اترنے والے ملک مخالف گروپ سے غلام رسول خان شادی خیل صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے 16, نومبر 1988ء کو قومی اسمبلی کے اور 19, نومبر کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے ،ملک مظفر خان نے دونوں نشستوں پر الیکشن لڑا لیکن قسمت کی دیوی اتنی نا مہربان تھی کہ دونوں نشستوں پر ہار گئے اور مولانا عبد الستار خان نیازی نے جیت کر اپنا سابقہ حساب برابر کر دیا اور صوبائی اسمبلی میں غلام رسول خان شادی خیل دوسری دفعہ پھر کامیاب ہو گئے ،،نواب آف کالاباغ کے اقتدار کی چولیں 1979ء میں پہلی بار بغوچی محاذ نے ہلائ تھیں اب دوسری بنی افغان میں ایک ناخوشگوار واقعے نے ایک بار نواب آف کالاباغ کے اقتدار کو ہلا کر رکھ دیا ،
موضع مسان میں نواب آف کالاباغ کی چراگاہ اور ہرنوں کی شکار گاہ تھی جہاں اکثر موقع پاکر مقامی لوگ ہرنوں کا شکار کر لیتے اور نواب آف کالاباغ نے اس جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے مسلح گارڈز رکھ لیے جن میں سے کسی ایک کی گولی کا شکار ایک چرواہا لڑکا تاج رسول خٹک نامی ہوا اور موقع پر جاں بحق ھو گیا لواحقین نے اس قتل کا الزام ملک مظفر خان پر لگایا اور بنی افغان کے خٹک قبائل نے مسلح تحریک شروع کر دی جس میں فریقین کے نصف درجن مزید قتل ھو گیۓ،یہ ایک الگ داستان ہے اسی تحریک کے نتیجہ میں 19, جون 1989 ء کو ملک مظفر خان مسان کے راستے پہاڑی میں گھات لگائے بیٹھے افراد کی گولیوں کا نشانہ بن گئے ،پہاڑی میں چھپ کر گھات لگائے افراد گولیوں کا میہنہ برسا رہے تھے اور ڈرائیور نے گاڑی بھگانے کی کوشش کی لیکن ملک مظفر خان نے گاڑی رکوا لی نیچے اتر کر خود فائرنگ شروع کردی لیکن دونوں اطراف سے برستی گولیوں نے ان کا جسم چھلنی کردیا،اس کے محافظوں نے بھی حق نمک ادا کیا اور لڑتے ہوئے جانیں قربان کر دیں اور اپنے آقا کے اوپر لیٹ گئے اور اس کے چہرے پر گولی نہ لگنے دی ،،ملک مظفر خان نے پسماندگان میں تین بیٹے ملک وحید خان ،ملک ادریس خان اور ملک فرید خان چھوڑے جن میں سے صرف ایک ملک عبدالوحید خان زندہ ہیں باقی اپنی فانی زندگی کا سفر تمام کر چکے ہیں۔ان کے بعد زمام کار نوابزادہ ملک محمد اسد خان مرحوم نے سنبھالی جو دھیمے مزاج کے امن پسند اور خوش مزاج انسان تھے.
Comments
جس کسی نے بھی ان تاریخی حقائق کو یکجا کر کے پریس کے حوالے کیا ہے ان کا بہت مشکور ہوں،
دربار سے وابسطہ تاریخ نویسوں کا یہ بھی المیہ ہے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود بھی طاقت سے وابسطہ افراد کا ذکر کرتے ہیں تو انہیں بے یار و بے وسیلہ چیخوں کا ذکر ہدف کر دیتے ہیں جو تاریخی حقائق میں دبی ہوتی ہیں، میں 1969 سے پی پی پی سے ذہنی طور پر وابسطہ ہوں اور ان متعدد افراد کا آخری فرد ہوں جنہیں 1977 کے الیکشن کی آڑ میں 2 مارچ 1977 کو میرے دو مرحوم بھائیوں عبدالرحمان نیازی طارق نیازی، عبداللہ خان اندالی خیل، جہانگیر خان اندالی خیال اور دوسرے افراد کو مار دھاڑ کر کے اغوا کیا گیا اور 39 دنوں تک اپنے ٹارچر کیمپوں میں رکھا گیا، کاروبار، جائیداد اور گھریلو زیورات کے بدلے نوابوں نے رہا کیا اور ہمارے کاروباری ادارے فینسی جنرل سٹور کا سر عام لوٹا گیا۔۔۔۔دوسرا یہ کہ مسان کے علاقے میں غلام رسول نامی لڑکے کو خود نوابوں نے مارا۔۔۔ان تمام واقعات کی شنواوئی جج خواجہ خالد پال کے ایک رکنی بینچ میں موجود ہے اگر اس فائل کو ڈی سی آفس سے غائب نہ کر دیا گیا ہو۔۔۔۔۔
بالاج جیسل (محمد اقبال حجازی) راجپوت بھٹی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک تجربہ کار استاد، حساس قلمکار، اور تہذیبی ورثے کے سچے محافظ ہیں۔ انہوں نے تین دہائیوں تک تدریس سے وابستہ رہتے ہوئے علم کی روشنی پھیلائی، اور ساتھ ہی ساتھ کالاباغ، کوٹ چاندنہ اور میانوالی کی ثقافت، یادیں اور تاریخ اپنے سادہ مگر پُراثر انداز میں قلمبند کیں۔ ان کی تحریریں خلوص، سچائی اور دیہی زندگی کے جذبے سے لبریز ہوتی ہیں۔ وہ فیس بک پر فعال ادیب ہیں اور اپنی زمین، لوگوں اور ماضی سے جڑے تجربات کو محفوظ رکھنے کے لیے مسلسل لکھ رہے ہیں۔۔ اُن کا قلم مقامی زبان، محبت اور روایت کا ترجمان ہے.