کالاباغ کی مختصر تاریخ و تعارف–قسط ششم
کالا باغ میں تجارتی سرگرمیوں کو فروغ ملنے لگا تو مسلمان پیشہ ور اور ہنر مند خاندانوں کے ساتھ ساتھ ہندو تاجر بھی کالا باغ کی آبادی کا حصہ بننے لگے ،کالاباغ اور گردونواح میں بسنے والے ہندو زیادہ تر کراڑ ذات سے تعلق رکھتے تھے ،اور عموماً ہندوؤں کے لئے یہی لفظ کراڑ ہی بولا جاتا ہے ،ہندوؤں نے کالاباغ کی تجارتی سرگرمیوں کو عروج بخشا،اور کثیر تعداد میں یہاں آباد ہونے لگے ،سکھوں کے دور تک دریا کنارے ہندؤوں کی نو دھرم سالیں(دھرم شالہ) قائم تھیں اور کالاباغ میں مقیم ان ہندؤوں کو مذہبی آزادی تھی ،اور وہ اپنے مذہبی تہوار دھوم دھام سے مناتے ، خصوصاََ دیوالی اور دسہرہ کی تقریبات دیکھنے گردونواح کے لوگ کالاباغ آجاتے ،دسہرہ کے تہوار کی خاص بات یہ تھی کہ ایک بڑا سا کپڑے کا بت بناتے اور اس میں پٹاخے اور پھلجڑیاں بھر دیتے ،سارا دن کی تقریبات اختتام پذیر ہونے لگتیں تو اسے آگ لگا دیتے تو پٹاخوں اور پھلجڑیوں سے تقریب کو رنگ لگ جاتا ۔ہندو کاروباری اور دولت مند لوگ تھے ان کو لوٹنے کے لئے مسلح قبائلی لوگ اور مفرور اشتہاری آ جاتے تھے ،،ان حملوں کو مقامی زبان میں ” دھاڑا ” کہتے ہیں ،دھاڑا مارنے والے گھوڑوں سمیت شہر میں گھس آتے تو شہریوں نے ان سے بچنے کے لیے گھروں کے دروازے چھوٹے اور گلیاں تنگ بنانا شروع کردیں تاکہ ان کی اچانک یلغار سے بچا جا سکے ۔ عموماً یہ ہندوؤں کو ہی لوٹتے تھے اس لیے ہندو اپنی دکانیں سر شام ہی بند کر دیتے ،اور کالا باغ میں یہ روایت اب تک موجود ھے کہ بازار سر شام ہی بند ھو جاتا ھے ۔
کالاباغ اپنے جغرافیائی خدو خال اور منفرد محل وقوع کی وجہ سے دریا سے گزرنے والوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لیتا ،لاہور کرسچین کالج کے سابق پروفیسر مسٹر لہری رام گپتا اپنی کتاب ” لائف اینڈ ورک آف موہن لال کشمیری ” میں صفحہ نمبر 103 پر لکھتے ہیں ” موہن لال کشمیری اس وفد میں شامل تھے جو ہندوستان کے وائسرائے لارڈ آک لینڈ کے حکم پر کابل جا رہا تھا اس وفد میں مسٹر لیچ، لیفٹیننٹ ووڈ، نوروز جی اور فردون جی بھی شامل تھے ، اس وفد نے دریائے سندھ کا آبی راستہ اختیار کیا اور کالا باغ میں ملک اللہ یار خان کے مہمان نوازی کا لطف اٹھانے کے ساتھ ساتھ کالاباغ کی سیر کی اور اپنے چشم دید حالات یوں لکھے کہ ” کالاباغ کا منظر بیان کرنے کی زبان میں طاقت نہیں ،مکانات پتھر اور گارے سے تعمیر کۓ گئے ہیں تنگ بازار ھے جس میں دو جوان شانہ بشانہ نہیں چل سکتے ،بازارمیں ایک سو چالیس دکانیں ہیں جو رات کو بند ھو جاتی ھیں اس علاقے کے رئیس ملک اللہ یار خان کی سالانہ آمدنی 32000 روپے ھے دو سو گھڑ سوار اور اتنے ہی پیادہ سپاہی اس کی ملازمت میں ہیں ،پھٹکڑی بنانے کے دس کارخانے کالاباغ میں اور دو موچھ میں ہیں ،ان کارخانوں کو کچہ کے علاقے سے ایندھن مہیا کیا جاتا ہے اور یومیہ چار روپے کا ایندھن صرف ھوتا ھے ،پھٹکڑی کے دو دو من وزنی ڈلے تیار کۓ جاتے ہیں ہر ڈلہ کی قیمت آٹھ آنے ہوتی ہے ،کالاباغ کی پہاڑیوں سے بیس مقامات پر سے نمک نکالا جاتاہے اور نکالے جانے والے نمک کی سالانہ آمدن تین لاکھ روپے ھوتی ھے نصف آمدن مزدوری کی مد میں چلی جاتی ہے اور ایک تہائی حصہ مقامی سردار ملک اللہ یار خان وصول کرتاہے جبکہ بقیہ رقم مہاراجہ رنجیت سنگھ کو بطورِ ٹیکس ادا کی جاتی ہے ،یہاں گندھک کی کانوں سے نکلنے والی گندھک سے مقامی رئیس بارود بناتے ہیں ” ۔
مسٹر الفنسٹون جب کشتی کے ذریعے 1908 ء میں کالاباغ کے دریا سے گزرا تو اس نے اپنے تاثرات یوں قلم بند کیے” جب ہم نیچے گیۓ توہم نے بہت بلندی پر کھڑکیاں اور بالکونیاں دیکھیں جہاں عورتوں اور بچوں کا ہجوم تھا ،آگے سڑک ٹھوس نمک کو کاٹ کر ، نمک کی چٹانوں کے دامن میں بنائ گئی تھی ،جو کئ جگہ دریا کی سطح سے ا یک سو فٹ بلند ہے ، یہاں نمک سخت ،خالص اور شفاف ھے۔اس میں کہیں کہیں سرخ پتھر نہ ھوتا تو یہ کرسٹل کی طرح ہوتا ،بعض جگہ چٹانوں کے نیچے سے چشمے نکلتے ہیں اور زمین پر سفید تہہ بچھا دیتے ہیں ۔ خصوصاً قصبے کے قریب زمین خون کی طرح سرخ ھے، عجیب اور خوبصورت نمک کی چٹانیں ،گہرائ میں دریائے سندھ کا شفاف پانی اور پہاڑوں کی قربت یہ نظارے اس قصبے کو نمایاں اور غیر معمولی حیثیت بخشتے ہیں ۔۔بالاج ۔۔۔جاری۔ ھے
کالاباغ اپنی جغرافیائی خوبصورتی اور دلکش خدو خال کی وجہ سے مقبول و معروف قصبہ تھا اس کی بڑھتی ہوئی تجارتی سرگرمیاں بھی حملہ آوروں کو اکساتی تھیں ، خٹک قبائل اور خوانین آف عیسیٰ خیل نے بھی اپنی سی ہمت کرکے دیکھ لی ،سکھوں نے بھی اس ک دیواروں سے سر ٹکرایا لیکن کالاباغ کے اعوانوں نے اپنی فراست و حکمت عملی سے اس قصبے کو ہر حملہ آور کے قبضے اور دست برد سے بچاۓ رکھا ،لیکن قدموں میں بہنے والے شیر دریا کی یورش سے نہ بچا سکے 1841ء میں جب یہ بپھر گیا تو آدھے قصبے کو بہالے گیا اور اس قصبے کا رقبہ مزید کم کردیا ،اس کی خوبصورتی کو بھی نقصان پہنچایا ،،لیکن کالاباغ کے اعوانوں اور مقامی محنت کشوں نے ہمت نہ ہاری اور زندگی کا یہ سفر عزم و ہمت سے جاری رکھا ،،جب سکھوں کے اقتدار کا سورج غروب ہونے لگا تو انگریز حکمرانوں نے رنجیت سنگھ کے جانشینوں سے 1849ء میں پنجاب کا انتظام بذریعہ الحاق سنبھال لیا ،سکھ جنگجو اور بہادر تو تھے لیکن رموز حکمرانی سے نابلد تھے ،ان کا دور بد نظمی،لوٹ کھسوٹ اور افراتفری کا دور تھا انگریزوں نے الحاق پنجاب کے بعد اپنی انتظامی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اور مقامی لوگوں کو طابع فرمان رکھنے کے لئے فلاحی کاموں پر توجہ دی، کالاباغ کا قصبہ ان کی نظروں سے کیسے اوجھل رہتا ۔کیونکہ یہ گنجان آباد قصبہ بن چکا تھا
کالاباغ قصبہ کی آبادی 1868ء میں 6419 نفوس پر مشتمل تھی اس میں وانڈھا ککڑانولہ کی آبادی بھی شامل تھی۔لیکن تیرہ سال بعد 1881ء میں صرف کالاباغ کی آبادی 6056 نفوس تک بڑھ چکی تھی ۔اس میں اضافے کی رفتار ملاحظہ فرمائیں کہ یہی آبادی 1998ء میں 14598 نفوس تک اور 2017ء کی مردم شُماری کے مطابق 22937 تک پہنچ چکی تھی 2023ء کے اعدادوشمار کے مطابق 27916 نفوس پر مشتمل ھے جس میں 13723 مرد ،14186 خواتین اور 07 مخنث (خسرے) شامل ہیں ۔
علاقہ بھر میں کثیر آبادی کا حامل قصبہ انگریز افسران کی توجہ کا مرکز بن گیا اور کالاباغ کو انگریزوں نے 1874ء میں میونسپلٹی کا درجہ دے دیا ،کالاباغ سے بنوں تک کا راستہ کچا تھا جو برسات کے موسم میں بارش کے دنوں میں بند ھو جاتا اس راستے پر بے شمار برساتی و آبپاشی کے لئے بنائے گئے نالے تھے جن کی وجہ سے اس راستے پر پہیہ والی سواری نہیں چل سکتی تھی ۔البتہ اشیاء کی درآمد و برآمد کے لئے دریائی راستے سارا سال کھلے رہتے تھے ۔جون اور ستمبر کے مہینوں میں اٹک سے کالاباغ تک کشتی بارہ گھنٹے لگاتی تھی ۔یہ فاصلہ تقریباً ایک سو بیس میل ھے ۔اور کالاباغ سے اٹک جانے والی کشتی دو دن لگا دیتی تھی ۔ بالاج۔پکی سڑک اور ریلوے لائن بننے سے قبل باربرداری کا کام گدھوں ،بیل گاڑیوں اور اونٹوں سے لیا جاتا تھا ،کالاباغ کا نمک اور پھٹکڑی کشتیوں کے ذریعے علاقوں میں بھیجا جاتا تھا ۔ڈسٹرکٹ گزیٹئر کے مطابق 1884ء میں مسلمانوں کے پاس بارہ نمک کی کانیں تھیں جن میں سے روایتی طریقوں سے نمک نکال کر سرکاری ڈپو پر لایا جاتا تھا اور ایک سو من نمک کے چار روپے دو آنے ملتے تھے ۔ ایک تخمینے کے مطابق کالاباغ کی کانوں میں سات ملین ٹن نمک کا ذخیرہ موجود ہے جو اگلی کئ دہائیوں تک کافی ہے ۔ بالاج
کالاباغ کی دوسری بڑی صنعت پھٹکڑی سازی تھی ۔1884ء میں بائیس ہزار من پھٹکڑی بنائی گئی اس وقت پھٹکڑی کی قیمت فی من چار سے چھ روپے تھی ۔پھٹکڑی سازی کا کام کالاباغ اور گردونواح کے علاقوں بلکہ چاپری تک میں کیا جاتا تھا ۔پھٹکڑی سازی سے نکلنے والے دھوئیں اور ناخوشگوار بو سے باشندگان کالاباغ گوناں گوں بیماریوں کا شکار رہتے ،، دمہ اور گلپھڑ (گپ) کی بیماری عام تھی ۔اور کالاباغ کے باشندوں کی عمومی صحت کا معیار گردونواح کے لوگوں سے کم تھا۔
کالاباغ کی قدیم دستکاریوں میں دوسری ایک اہم دستکاری کھڈیوں پر کپڑا بننا تھا 1915ء تک کالاباغ میں چھ سو کھڈیاں تھیں ۔ان کھڈیوں پر کمبل ،کھیس، دھسے ، لنگیاں اور پہننے کا موٹا کپڑا بنا جاتا تھا ۔ان کھڈیوں پر تیار شدہ کپڑا بنوں ،کوہاٹ،اور ڈیرہ جات کو برآمد کیا جاتا ،کالاباغ کے جس کپڑے کی خصوصی مانگ تھی وہ “سوسی” نامی کپڑا تھا یہ کپڑا مہنگا ھونے کے باوجود بہت پسند کیا جاتا تھا۔کھڈیوں پر کپڑا بننا تو اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے لیکن جو دستکاریاں تا حال کالاباغ کے باشندوں کی اکثریت کا پیشہ ہیں وہ لوہے کے برتن بنانا اور مزیری سے چھکورے،دستی پنکھے وغیرہ بنانا ہیں۔
لوہے کے برتن بنانا کالاباغ کی قدیم ترین گھریلو صنعت ھے ۔پرانے دور میں لوہا کانیگرم کی پہاڑیوں سے درآمد کیا جاتا ۔اس لوہے کو آگ پر گرم کر کے بھاری ہتھوڑوں سے کوٹا جاتا اور پھر مطلوبہ شکل میں ڈھالا جاتا ،یہ ایک انتہائی سخت محنت طلب اور پر مشقت کام تھا ،اپنی تھکاوٹ اور جسمانی درد کو کم کرنے کے لیے لوہار افیم کھانے کی عادی تھے ۔اب بھی یہ صنعت عروج پر ھے لیکن زیادہ تر کام مشینوں سے لیا جاتاہے ،،اور کالاباغ کے لوہاروں کے ہاتھ سے بنے گھریلو استعمال کے مختلف قسم کے برتن اور کسانوں کے اوزار ملک کے دور دراز علاقوں میں بھیجے جاتے ہیں ۔دوسری اہم گھریلو دستکاری ” مزیری ” کے پودے کے لمبے نوکدار خشک پتوں سے چھکورے ،روٹی کے دھبے ،دستی پنکھے ، چنگیریں اور چھوٹے چھوٹے جھاڑو تیار کرنا ہے اور یہ سارا کام اپنے ہاتھ سے کرنا پڑتا ہے یہ عموماً خواتین خانہ کرتی ہیں ،فارغ وقت کو ضائع کرنے کے بجائے پیداواری کام میں لگانا صرف کالاباغ والوں کو آتا ہے۔
بالاج جیسل (محمد اقبال حجازی) راجپوت بھٹی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک تجربہ کار استاد، حساس قلمکار، اور تہذیبی ورثے کے سچے محافظ ہیں۔ انہوں نے تین دہائیوں تک تدریس سے وابستہ رہتے ہوئے علم کی روشنی پھیلائی، اور ساتھ ہی ساتھ کالاباغ، کوٹ چاندنہ اور میانوالی کی ثقافت، یادیں اور تاریخ اپنے سادہ مگر پُراثر انداز میں قلمبند کیں۔ ان کی تحریریں خلوص، سچائی اور دیہی زندگی کے جذبے سے لبریز ہوتی ہیں۔ وہ فیس بک پر فعال ادیب ہیں اور اپنی زمین، لوگوں اور ماضی سے جڑے تجربات کو محفوظ رکھنے کے لیے مسلسل لکھ رہے ہیں۔۔ اُن کا قلم مقامی زبان، محبت اور روایت کا ترجمان ہے.