کالاباغ کی مختصر تاریخ و تعارف–قسط ہفتم
کالاباغ میں تعلیم و تدریس کے اداروں کا جب کھوج نکالنے نکلیں تو تاریخ میں کسی پرانے مدرسے یا سکول یا ادارے کا سراغ نہیں ملتا لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مسلمان عموما بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مساجد خانقاہ اور درس گاہوں کو استعمال کرتے تھے اور ان سے مدرسے اور تربیت گاہ کا کام لیا جاتا ۔ جب انگریزوں نے پنجاب کاانتظام و انصرام سنبھالا تو انہوں نے تعلیم ادارے قائم کرنے کی طرف خاص توجہ دی تو کالاباغ میں سرکاری سکول کھولا گیا۔1907ء میں کالا باغ میں ایم بی پرائمری سکول کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے ہیڈ ماسٹر مولوی غلام محمود ساکن کالا باغ تھے۔ 1916 میں اس پرائمری سکول کو مڈل سکول کا درجہ ملا، اور اس مڈل سکول کے پہلے ہیڈ ماسٹر محمد عظیم آف کمر مشانی مقرر ھوۓ اور 1924 میں اس مڈل سکول کو ایم بی ہائی سکول کا درجہ دے دیا گیا اس ہائی سکول کا پہلا ہیڈ ماسٹر ہونے کا شرف خان محمد اف جھامبرہ کو حاصل ہوا ،1913 میں انڈسٹریل سکول کھولا گیا تھا ،جس کی کلاسز کا اجراء اسی سابقہ پرائمری سکول میں کیا گیا اس سکول میں ٹیلرنگ ، کارپینٹری اور اس جیسی دیگر فنی تعلیم دی جاتی تھی اس وقت سکول میں 92 طالب علم زیر تعلیم تھے اور عام تعلیم کے لیے پرائمری سکول کے طلباء کی تعداد اس سے الگ تھی.
1921 میں کالا باغ میں صحت عامہ و علاج معالجے کے لیے ڈسپنسری قائم کی گئی، جسے قیام کے فورا بعدہ ہی ہسپتال کا درجہ دے دیا گیا ۔اس ہسپتال میں میں مریضوں کے لئے 18 بیڈ کی گنجائش تھی اور 1912 ء میں اس ہسپتال میں 621 اپریشن ہوئے ، 1913 ء میں 480 اور 1914 ء میں 476 اپریشن کیے گئے۔اب کالاباغ میں ڈی ایچ کیو لیول ہسپتال قائم ھے لیکن گردونواح سے آنے والے مریضوں کے تناسب سے کم گنجائش کا حامل ہے ۔۔ملیریا کی موسمی وباء کے دنوں میں سرکار کی طرف سے کونین کی گولیاں تقسیم کی جاتی تھیں اور یہ گولیاں ریونیو آفیسر ،ذیلدار اور نمبردار کی معرفت تقسیم کی جاتی تھیں ۔
1872ء تک کالاباغ کا قصبہ اسی پرانی حدود پر واقع تھا ریلوے لائن سے آگے مغرب کی طرف کوئی آبادی نہ تھی البتہ کنویں تھے جن پر ارائیں سبزیاں کاشت کرتے تھے۔آبادی بڑھی تو کنویں بھی ختم ہو گۓ اور آرائیں بھی اپنا آبائی پیشہ ترک کر دیا ۔ملاز مت اور کاروبار میں مصروف ھو گئے۔
انگریزوں نے قبائلی علاقوں اور افغانستان تک فوجی سازو سامان کی نقل و حمل کے لیے ماڑی تا بنوں چھوٹی ریل کی پٹڑی بچھائی،
پہلی بار 1913ء میں اس پٹڑی پر ریل گاڑی دوڑنا شروع ہوئی، دریائے سندھ پر پل نہیں تھا،لوگ کشتیوں ہر دریا عبور کرتے تھے اور بنوں آنے جانے والے ریل کے انجن کو فیری پر لاد کر دریا کے پار پہنچایا جاتا تھا، 1931ء میں کالاباغ ریلوے برج بن گیا جس کا افتتاح 30 اگست 1931 کو ہوا سامان تجارت وغیرہ بھی ریل کی بوگیوں پر دور دراز تک علاقوں تک جانے لگا ۔
کالا باغ کے قدیم باشندے جن پیشوں سے وابستہ تھے، وہ پیشے درد نسل در نسل منتقل ہوتے رہے اور یہی پیشے ان خاندانوں کی ذات کہلانے لگے ،اگر چہ ان کی ذاتیں اور تھیں، کالا باغ اب بھی تجارتی و کاروباری سرگرمیوں کا مرکز ہے۔یہاں پورے ضلع سے لوگ کپڑا خریدنے آتے ہیں۔ لیکن کپڑے کی زیادہ تر دکانیں اب افغان مہاجرین کی ہیں۔کچھ مقامی لوگ بھی کپڑے کے بڑے تاجروں میں شامل ہیں۔کالا باغ سے مٹی اور لوہے کے برتن، مزیری سے تیار شدہ گھریلو استعمال کے چھکورے ،دستی پنکھے وغیرہ پورے پاکستان کو برآمد کیے جاتے ہیں۔
کالا باغ کی آبادی قدیم محلوں میں آباد ھے ،ان محلوں میں اکثر لوگ باہر سے نقل مکانی کر کے یہاں آباد ہوئے، کالا باغ کے پراچے جن کا ابائی مسکن مکھڈ ہے یہ مکھڈ سے نقل مکانی کر کے کالا باغ آۓ ،یہاں بھی ان کی ابادی کو محلہ پراچگان کہا جاتا ہے ،کالا باغ کے کلیار اپنی جنم بھومی پنڈی گھیپ کو قرار دیتے ہیں ۔ دھبے (گازر) اور آرائیں کالا باغ کی آبادی کا بہت بڑا حصہ ہیں بہت سے ارائیں اپ اپنا پیشہ ترک کر چکے ہیں لیکن ان کی ایک تعداد اپ بھی ٹیوب ویلوں پر سبزیاں کاشت کرنے کا پیشہ زندہ رکھے ہوئے ہے اگرچہ اپ دیگر ذاتوں کے لوگ بھی سبزیاں اگانے کا کام کرتے ہیں لیکن اس میدان میں اس قوم کا ہم پلہ کوئی اور نہیں ہو سکتا گویا جس کا کام اسی کو سا جھے، محلہ اوٹھیاں والا یا محلہ نواب صاحب کے مکین کہتے ہیں کہ ہم تلاش معاش کے لیے کالا باغ آۓ تو ہمیں کوئی ڈھنگ کا کام نہ ملا تو اونٹوں پر باربرداری کا کام شروع کر دیا اور اس کام میں ہماری ذات گم ہو گئ ۔اور اعوان ہوتے ہوئے بھی اوٹھی کہلانے لگے حالانکہ ہم اعوان قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔
تادم تحریر کالا باغ میں اعوان پراچے، ارائیں، لوہار بلوچ، راجپوت،کلیار، دھبے یعنی گازر ،سید گیلانی و بخاری، گنھیال اور اترخیل ،احمد خیل رنگلے خیل،کلو، دھائے، مغل ، میکن ، قریشی کبیال ،چھتیال، دھالے ، زرگر ، موہانے ، کمہار ،موچی حجام اور ہندالی خیل ، خدر خیل اور خٹک پٹھان آباد ہیں۔کالا باغ کے باشندوں کو بغوچی کہا جاتا ہے اور یہ بغوچی اپنے بغوچی پن پر شاداں و فرحاں ریتے ہیں اور بغوچی کسی بھی ذات اور پیشے کو کمتر یا حقیر نہیں سمجھتے ،بلکہ ہر ذات سے پیار ،خلوص ، ہمدردی اور مساویانہ سلوک روا رکھتے ہیں ضلع میانوالی کا یہ واحد شہر ہے، جہاں کسی سے ذات نہیں پوچھی جاتی اور نہ ذات پات پر توجہ دی جاتی ہے۔ ورنہ ضلع میانوالی میں کسی بھی اجنبی سے ملتے وقت نام سے پہلے ذات پوچھی جاتی ہے۔ کالا باغ کے لوگ خوش مزاج، کاروباری، پر مزاح اور محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ مذہب سے بھی گہرا لگاؤ رکھتے ہیں ۔قیام پاکستان سے قبل ہندوؤں کی نو دھرم سالیں تھیں ،ہندوؤں نے ہندوستان ہجرت کی تواب مندروں کے بجائے مسجدوں کی بہتات ہے، مسجد عیدگاہ، مسجد، لوہاراں والی مسجد، اتلا پتن والی مسجد، دریا کے کنارے واقع ہیں اور ان سب سے مسجد عید گاہ بڑی ہے جس کی حال ہی میں تعمیر نو کی گئی ھے،اس کے علاوہ دیگر مساجد میں مسجد بلال رضی اللہ تعالی عنہ ، مسجد قاضیاں والی جسے موتی مسجد کہتے ہیں ،مسجد ابوبکر صدیق( ہسپتال والی مسجد) ، مسجد حافظ شیر محمد والی (ملک والی مسجد), سبیل والی مسجد( مسجد جماع اسلامی ) سناراں والی مسجد موجودہ نام فاروق اعظم مسجد شامل ہیں اب ہر نئی آبادی میں بہت سی نئی مساجد تعمیر ہو چکی ہیں یہ مساجد نہ صرف مسلمانوں کی مذہبی ضروریات کے ساتھ ساتھ سماجی ضروریات بھی پوری کرتی ہیں، خصوصاََ کالاباغ شہر میں کسی کی فوتگی ھو جائے تو فاتحہ خوانی کے لئے اپنی قریبی مسجد میں بیٹھتے ہیں ۔کالاباغ کی ساری مساجد فن تعمیر کے لحاظ سے پیاری و خوبصورت ھیں لیکن ان میں سے چند تاریخی مساجد کالا باغ کے حسن کو بھی چار چاند لگاتی ہیں ۔بلال مسجد میں لکڑی کا کیا گیا کام اور لکڑی پر بناۓ گۓ نقش و نگار ایک تاریخی ورثہ ہیں۔کالا باغ میں اہل تشیع کی تین مساجد ہیں جن میں صرف ایک مسجد میں نماز جمعہ اور عید ادا کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے ،اہل تشیع کے فقہ کے مطابق تین میل تک کے علاقے میں صرف ایک جگہ نماز جمعہ و عید کا اہتمام کیا جا سکتا ہے، اس لئے اگر ماڑی انڈس میں نماز جمعہ کا اہتمام ہو تو پھر کالا باغ میں نہیں پڑھایا جاتا۔ کالا باغ میں اہل تشیع کی تین امام بارگاہیں ہیں جن سے عاشور کے دن تعزیہ و ماتم کے جلوس نکلتے ہیں سول ہسپتال کے عقب سے وانڈھی سیداں والی کی امام بارگاہ قصر شبیر سے تعزیہ و ماتم کا جلوس نکالا جاتا ہے جو مین بازار سے گزرتا ھوا چھن موری تک جاتا ہے ۔دوسرا ماتمی جلوس تنگ بازار کی گلیوں میں واقع امام بارگاہ قصر سجاد اور تیسرا قصر عباس سے نکلتا ہے اور چھن موری میں یہ تینوں جلوس مل جاتے ہیں ۔ کالاباغ کے لوگوں کے اکثریت بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہے البتہ دیوبندی مکتبہ فکر کی بھی خاصی تعداد ہے ۔جن کے زیر انتظام اپنی مساجد ہیں ۔اہل حدیث کی الگ مسجد بھی تعمیر ہو چکی ہے جہاں نماز جمعہ وعیدین پڑھائی جاتی ہیں۔ دعوت اسلامی نے اپنی مسجد فیضان مدینہ کے نام سے بنائی ہے جس میں ہر ہفتے شب جمعہ منعقد کی جاتی ہے۔ہر مسلک کے اپنے اپنے مدارس بھی قائم ہیں ۔کالاباغ میں گیلانی سادات کا گھرانہ موجود ہے اور پیر بشیر الحسن شاہ پیری مریدی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں مگر کالاباغ کے لوگوں کی اکثریت پیر صاحب آف مکھڈ شریف ،پیر صاحب آف تونسہ شریف، پیر صاحب آف وادی عزیز شریف کے خانوادوں کی عقیدت مند ہے۔ عقیدوں کے مرکز کال باغ کے پیروں کے گھرانے بھی ہیں اور کالا باغ میں موجود صحابہ کرام کی قبور اور سائیں چپ شاہ اور سید جلال شاہ کے مزار بھی عقیدت و محبت کے مراکز ہیں صحابہ کرام جن کے نام نامی حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بتا ۓ جاتے ہیں ان کی کالا باغ آمد کی شہادت کا کوئی تاریخی ثبوت دستیاب نہیں شاید وہ مہلب بن صفرا کے ہمراہ جہاد کی کی غرض سے آۓ ہوں یا تبلیغ کے لیے انہیں کالا باغ کی ذمہ داری سونپی گئی ہو اور شہادت کے بعد یہ کالاباغ ان کی ابدی آرام گاہ قرار پائی ھو۔
قصبہ کالاباغ مخصوص رسم و رواج ،قدیم تہذیب و ثقافت اور خوبصورت جغرافیائی ماحول رکھتا ہے ،اور بر لب دریا اور زیر سایہ پہاڑ ہونے کی وجہ سے نہ صرف تجارتی بلکہ سیاحتی و تفریحی مقام کی حیثیت بھی رکھتا ہے ۔ دور دراز سے لوگ نمک کی کانیں اور تنگ گلیاں و بازار دیکھنے اور دریائے سندھ میں کشتی رانی کرنے آتے ہیں ضلع میانوالی کا یہ پہلا بازار ھے جہاں عورتیں سودا سلف اور کپڑے خریدنے آتی ہیں اور یہ عورتوں کی خریداری کے لیے محفوظ اور پر امن بازار ھے ،کالاباغ کے باسی فطری طور پر امن پسند ہیں اور کاروباری مزاج رکھتے ہیں ،گاہک کو مطمئن کرنا کوئی ان سے سیکھے، صرف یہی نہیں ان کے جدا گانہ رسم و رواج اور مخصوص لب و لہجہ بھی انہیں انفرادیت عطا کرتا ہے ۔کالاباغ میں سرائیکی لہندی بولی کا نرم لہجہ برتا جاتا ہے اور روز مرہ بول چال میں کچھ ایسے الفاظ بولے جاتے ہیں جو قرب و جوار کے دیہاتوں میں نہیں بولے جاتے ،جیسے مائیں (میں) کو میں (میم کے نیچے زیر) بولنا وغیرہ ۔(بالاج) ۔کالاباغ کے شادی بیاہ کے قدیم رسم و رواج انتہائی دلچسپ بھی ہیں اور ان کی باہمی محبت اور خلوص کا مظہر بھی ہیں ،تیس چالیس قبل تک یہ رواج تھا جب شادی کے دن قریب آتے اور گھر کی عورتیں شادی کے سہرے شروع کرتیں تو ہر اس گھر میں ابلے ہوئے چاول بھیجے جاتے جسے شادی میں بلانا مقصود ھوتا اور یہ ابلے ھوۓ چاول گویا شادی کے سہروں کی دعوت تھی ،ولیمے کے موقع پر اپنی خوش مزاجی کا مظاہرہ یوں کرتے کہ جب سب باراتی ولیمے کے دسترخوان پر بیٹھ جاتے اور ابھی کھانا کھایا جا رہا ھوتا کہ ایک من چلا نعرہ لگاتا ،اللہ اللہ او بی اللہ ،کچھ اور باراتی بھی آواز ملا لیتے اور سب لوگ دستر خوان سے اٹھ کھڑے ھوتے ،مقامی لوگ تو اس حملے سے پیشگی آگاہ ھوتے اور جلدی جلدی چند لقمے کھا ہی لیتے اور باہر سے آئے ہوئے باراتی بھی ندامت سے بچنے کے لیے اٹھ کھڑے ھوتے اور اکثر بھوکے رہ جاتے۔پرانے وقتوں میں جوڑیوں والی شادی کی بڑی دھوم دھام ھوتی تھی ۔کسی بھی صاحب حیثیت بغوچی کی شادی پر مدعوئین اپنی اپنی جوڑیاں لاتے ، جوڑیوں سے مراد ملتے جلتے قدو قامت والے ایسے جوان جن کے لباس اور پگڑیاں ایک ہی رنگ کی ہوتی تھیں ،جوڑیوں والی شادی کی بارات جب نکلتی تو اتلا پتن تک باراتی ناچتے ہوئے جاتے اور وہاں سے کشتیوں پر سوار ہو کر ناچتے گاتے نیچے آتے ،ایک ہی قدو قامت والے جوانوں کی مختلف رنگوں کے لباس اور پگڑیوں والی جوڑیاں شادی کے حسن اور رونق کو دوبالا کر دیتی تھیں ،اور بغوچی کا مخصوص رقص ” گھمر ” ایک الگ سماں باندھ دیتا،شادی پر گھڑولی بھرنے کی رسم شاید اب تک موجود ھے ،کالاباغ کے ڈھولچی تو اپنے فن میں خاصی مہارت رکھتے ہیں ،جب بغوچی نو جوان روایتی گھمر میں محو ھوتے ہیں تو ڈھول کی ہر تھاپ ان کے اندر ایک نیا جوش پیدا کر دیتی ہے اور اور نوجوان سانپ کی طرح بل کھانے لگتے ہیں اور جب یہ جوان لڈی ڈالنا شروع کر دیتے ہیں تو تالیوں کی تڑک تڑک دریا و پہاڑوں سے صداۓ بازگشت بن کر ماحول پہ سحر طاری کر دیتی ہیں اور دیکھنے والے عش عش کر اٹھتے ہیں ۔
کالاباغ کے باسی نہ صرف خوشی کے مواقع مل جل کر مناتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے دکھ درد بھی مل کر بانٹتے ہیں ،کسی کے گھر فوتگی ھو جائے تو عزیز و اقارب تین دن تک فوتگی والے گھر کھانا بھیجتے ہیں ،تیسرے دن نمازِ فجر کے بعد قل خوانی میں شریک ہوتے ہیں ،کالاباغ شہر میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے وقت کا اعلان نہیں کیا جا تا بلکہ اس طرح اعلان کیا جاتا ہے کہ گھر سے جنازہ اتنے بجے اٹھایا جائے گا،اور مقامی لوگ جنازہ کے ساتھ جانے کے لئے نکل پڑتے ہیں،اور نماز جنازہ کی ادائیگی کا وقت خود سمجھ جاتے ہیں ۔کالاباغ میں قبرستان کوہ نمک کی ڈھلوانوں کو ہموار کر کے بنائے جاتے ہیں ، پہاڑی پر قبر کھودنا بھی مشکل کام ھے لیکن امداد باہمی و ثواب کی نیت سے لوگ مل جل کر قبر کھودتے ہیں،گویا نمک نکال کر پہاڑ کا پیٹ میتوں سے بھرا جا رہا ہے ۔
کالاباغ کی ایک مشہور سوغات دھودی والا حلوہ جسے مکھڈی حلوہ بھی کہتے تھے اب اس کو کالاباغ والا حلوہ ہی کہتے ہیں ،حلوہ بنانے کا طریقہ و ترکیب تو پورا ضلع جانتا ہے لیکن کالاباغ کے حلوے کی لذت کے کیا کہنے ،کڑاہی میں پڑا ھوا حلوہ دیکھتے ہی منہ میں پانی بھر آتا ہے ،یہ حلوہ کھانے کے شوقین گردونواح سے ٹولیوں کی صورت کالاباغ آتے ہیں ،توے پر بھونی گئی کلیجی اور چٹخارے دار کبابوں کی دکانوں پر بھی رش لگا رہتا ہے ۔ (بالاج)
کالاباغ میں جرات و بہادری کے کھیل تودھ اور کبڈی کے نامور کھلاڑی ہو گزرے ہیں ،نواب اف کالاباغ تودھ کے مقابلے کراتے تھے تو دور دور سے کھلاڑی اپنی مہارت اور زور و قوت کے جوہر دکھانے آتے ، بعد ازاں کالاباغ ریلوے اسٹیشن کے قریب ” پڑا ” پر بھی کبڈی کے مقابلے ھوتے رہے ،فخرو ماما ،پاکستانی اور کالا باغ کے چند دیگر جوان مشہور کھلاڑی تھے، دریا کنارے واقع ھونے کی وجہ سے کالاباغ کے مردو خواتین تیراکی جانتے ہیں ،مردوں کے نہانے اور عورتوں کے کپڑے دھونے کے الگ الگ پتن ہیں ،عورتوں کے پتن کی طرف مردوں کا جانا سختی سے منع ھوتا ھے ۔ مقامی لوگ اپنے شہر کی روایات کا احترام کرتے ہیں ۔
فیس بک پوسٹ پر زائرین کے تبصرے
ابادی کے حساب سے سب بڑی تعداد دھبہ گازر قوم کی ہے اس کے بعد آرائیں آتے ہیں
اب تو نماز کے بعد مسجدوں کو تالے لگ جاتے ہیں چار دہائیاں پہلے تک مسجد عیادت کے ساتھ رفاعی کاموں کیلئے بھی جو کہ اسلام کی روح بھی ہے استعمال ہوتی تھی مسجد کا حجرہ مسافروں کے لئے ہر وقت کھلا ہوتا تھا مسجد کا کنواں محلے کیلئے وقف ہوتا تھا مسجد کا اس کے ساتھ لینا دینا نہیں تھا اب تو لوگوں کی اٹھنے بیٹھنے کی جگہ کو بھی مسجد میں شامل کر لیا ہے جیسے عید گاہ مسجد کے ساتھ کیا گیا ہے عام آدمی اور مسافر کے بیٹھنے کی جگہ کو بھی شام کر لیا گیا ہے آدھے سے زیادہ برگد کے درخت کو کاٹ دیا گیا ہے اور ام کے درختوں کو تو سرے سے کاٹ دیا ہے اور ساتھ جو ہائ سکول گرلز کے برگد کے درخت کو جڑ سے کاٹ دیا گیا ہے یہاں پہلے دھرم شالہ ہوا کرتی تھی
آپ نے تفصیلات جمع کرنے میں بہت ہی جانفشانی سے کام کیا ہے اور حتالوسع اپنے تئیں حقیقت کے قریب مواد دیا ہے چند ایک گزارشات میں بھی کر دیتا ہوں۔ اندالی خیل نیازی پٹھانوں کے ساتھ ساتھ نیازیوں کا ایک اور قبیلہ خدر خیل بھی ہے(میرا تعلق بھی خدر خیلوں سے ہے) جن کے بیشتر افراد نقل مکانی کر چکے ہیں، بغوچی محاذ کے صدر یوسف خان مرحوم بھی خدر خیل تھے, خدر خیل داود خیل سے ہجرت کر کے آئے تھے، نیز داؤدخیل میں اب بھی ان کی کثیر تعداد موجود ہے
پراچوں کے دو محلے تھے، ایک محلہ جو دریا کے کنارے تھا کے افراد ہاتھ والے پنکھوں کی ہینڈی کرافٹ کرتے تھے اور کر رہے ہیں دوسرا محلہ جس سے میرا بھی تعلق ہے محلہ پراچگان ٹیڑھا کے نام سے مشہور ہے
1979 سے پہلے مذہبی انتہا پسندی نہیں تھی، ضیاء الحق نے یہ تحفہ کالاباغ سمیت پورے پاکستان کو دیا
جو لکھا گیا ہے صحیح ہے
ابلے ہوئے چاولوں میں میوہ بھی ہوتا تھا اور ہم بڑے شوق سے کھاتے تھے روٹی کھانے کے دوران ڈھول کا بجنا اچھی رسم نہیں تھی آدھے لوگ بھوکے رہ جاتے تھے اب یہ سلسلہ کافی عرصہ سے ختم ہو گیا ہے اور بھی کافی رسمیں تھیں جو شادی کے دوران منائی جاتی تھیں جو کہ اب ختم ہو گئیں ہیں دلہا کو کھارے کے اوپر بٹھا کر دودھ انڈیلا جاتا تھا گرولی دریا پر جاتے تھے یہ بھی اب ختم ہو گئ ہے جوتا چھپائی بھی اب ختم ہے
فوتگی پر کھانا پڑوسی بھیجتے ہیں یہ روایت ہے جو جاری ہے اور خوش آئند ہے فوتگی والے گھر تین دن چولا نہیں جلتا ہے
فوتگی کی پہلی جمعرات کو درود شریف پڑھ کر حلوہ دراڑیوں میں لپیٹ کر گھر گھر دیا جاتا تھا یہ رسم بھی ختم ہو گئ ہے اور ساتھ کھٹاؤ قبر کھودنے والوں کے گھر کھانا بھیجا جاتا تھا یہ روایت اب بھی جاری ہے
بہت شکریہ بالاج میرے شہر کی ثقافت اور رسوم ورواج آپ محنت سے قلم بند کر رہے ہیں رسوم ورواج اور شادی بیاہ کی رسموں بارے تھوڑی سے مزید وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ “جوڑیوں والی جنج” میں ہر جوڑی تین افراد پر مشتمل ہوتی تھی اور ہر جوڑی میں تینوں افراد کے قد کاٹھ تقریباً برابر ہوتے تھے ، یہ بارات دھیرے دھیرے آگے بڑھتی تھی اور ہر جوڑی کے تینوں افراد پر ایک مخصوص سنجیدگی اور شرمیلا پن طاری ہوتا تھا جیسے انہوں نے ہلکی شراب یعنی وائن پی رکھی ہو۔
سہروں والی یعنی شادی سے ایک رات پہلے والی رات 2 بجے جب رات بھی سوئی سوئی سے لگتی تھی تو شہر کے سازندے یعنی ڈھولچی ڈھول پر ہلکی تھاپ سے شرنا یعنی شہنائی کی سنگت میں ایک مخصوص دھن جسے “کٹورا” کہتے ہیں بجائ جاتی تھی جو ہر ہر سننے والے کو مسحور کر دیتی تھی۔ رات کا سماں، خاموشی اور میوزک کی دریائ پانیوں سے ٹکراتی دھن پورے ماحول کو بدل کے رکھ دیتی تھی، مجھے یوں لگتا ہے جیسے ان دھنوں کو ترتیب دینے میں استاد بسماللہ خان کی شہنائی سے استفادہ کیا گیا ہو گا جو بھارت کے چوٹی کے شہنائی نواز ہیں
چاول ابلے ھوئے نہیں ھوتے تھے بلکہ جھبھے(بھگوئے )ھوئے ھوتے تھے جس میں میوے گری بھی ھوتی تھے اور جس گھر سے جتنے نفر بلائے جاتے اتنی مٹھیاں چاول دیئے جاتے اور دراڑیوں میں حلوہ ان گھروں میں بھیجا جاتا جو فوتگی والے گھر کھانا یا پیسے بھیجتے انہیں حلوہ دراڑیوں کا بخرہ بیجھا جاتا جو اس بات کی سند ھوتا کہ آپ کی طرف سے کھانا یا پیسے مل گئے ھیں باقی غریب غرباء کو بھی صدقہ کے طور پر حلوہ دراڑی دیا جاتا کچھ کے گھروں میں پہنچایا جاتا
تھوڑی تصحیح بھی فرمالیں کہ دوران جنج لوگ بھوکے نہیں رہتے تھے۔ بلکہ دوسری ٹولی کو بٹھانے کے لیے یہ ایک قسم کا اشارہ ہوتا تھا
شادی کے موقع پر اور بھی بہت سی رسمیں تھیں جو اب ماضی کا حصّہ ہیں
بالاج جیسل (محمد اقبال حجازی) راجپوت بھٹی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک تجربہ کار استاد، حساس قلمکار، اور تہذیبی ورثے کے سچے محافظ ہیں۔ انہوں نے تین دہائیوں تک تدریس سے وابستہ رہتے ہوئے علم کی روشنی پھیلائی، اور ساتھ ہی ساتھ کالاباغ، کوٹ چاندنہ اور میانوالی کی ثقافت، یادیں اور تاریخ اپنے سادہ مگر پُراثر انداز میں قلمبند کیں۔ ان کی تحریریں خلوص، سچائی اور دیہی زندگی کے جذبے سے لبریز ہوتی ہیں۔ وہ فیس بک پر فعال ادیب ہیں اور اپنی زمین، لوگوں اور ماضی سے جڑے تجربات کو محفوظ رکھنے کے لیے مسلسل لکھ رہے ہیں۔۔ اُن کا قلم مقامی زبان، محبت اور روایت کا ترجمان ہے.