کالاباغ کی مختصر تاریخ و تعارف-قسط دوم
بغوچی محاذ کا قیام
جب ملک امیر محمد خان صاحب گورنر مغربی پاکستان بنے تو نوابزادگان کا اثرورسوخ مزید بڑھ گیا ،لیکن نرمی کے بجائے ڈنڈہ گردی ور غنڈہ گردی کو عروج دیا گیا ،جس سے مقامی لوگ خوف وہراس کا شکار ہو تے گۓ نواب صاحب کا حکم خدائی حکم کا درجہ رکھتا تھا ،اگر کوئی چوں چرا کرتا تو ڈنڈہ بردار اس کا دماغ ٹھنڈا کر دیتے ،مگر دلوں کے اندر نفرت اور لاوہ پک رہا تھا ،اس نفرت کو احراری لیڈروں نے مزید ہوا دی،جون 1943ء میں جمعہ المبارک کا دن تھا،313 احراریوں کا ایک دستہ صوفی اللہ داد کی قیادت میں کالاباغ آیا ،جسے کچھ مقامی لوگوں نے خوش آمدید کہا ان احراریوں کے باغیانہ نظریات سٹیٹ آف کالاباغ کے آئین کے خلاف تھے ،چنانچہ جمعہ ادا کرنے کے بعد ان احراریوں کو مسجد میں محصور کر دیا گیا ،کالاباغ میں یہ باغیانہ سرگرمیوں کی خشت اول تھی، مگر اس کوشش کو سختی سے دبا دیا گیا ،اس کے بعد کوئی اجتماعی اعلانیہ بغاوت تو نہ ابھری البتہ انفرادی کوششیں ہوتی رہیں ،غلام علی علوی بھی ایسا ہی کردار تھا جو مزدور تحریک کا رکن تھا اپنے باغیانہ نظریات کی بھینٹ چڑھ گیا ،نامعلوم افراد کے ہاتھ چڑھا اور پھر میانوالی سٹیشن کے قریب بے گورو کفن لاش پڑی ملی تھی جسے امان اللہ خان ایڈووکیٹ نے کفن دے کر سٹیشن کے قریب ہی دفنا دیا ،نہ کوئی ثبوت ملے نہ کوئی لب کھول سکا ،،سامنے ا کر کچھ کر دکھانے کی ہمت کسی میں نہیں تھی کیونکہ ایسی باغیانہ سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے مؤثر نظام قائم تھا ،سٹیٹ آف کالاباغ کے وفادار جیسے چوہدری رمضان مرحوم ،افضل پراچہ ،شاہنواز, گل خان ،عبداللہ ہندالی خیل، اللہ وصایا پراچہ ،نصراللہ پراچہ اور دیگر چند افراد کار آمد پرزے تھے جو نوابزادگان کے وفادار مصاحب تھے ،بعد ازاں ان میں سے چند ایک نے بغوچی محاذ کے لئے بھی خدمات سر انجام دیں ،ان دگرگوں حالات میں بھی جرآت رندانہ رکھنے والے چند افراد سامنے آ جاتے ایک ایسا نام ماسٹر محمد اقبال احراری کا ھے جسے سٹیٹ کی حکم عدولی کی وجہ سے کالاباغ بدر ھونا پڑا ،جبر کے اس ماحول میں بغوچیوں نے ایک اور راہ نکال لی ،طے شدہ حکمتِ عملی کے تحت ایک تنظیم “دل نواز ” قائم کی ،جس کا ظاہری کام فلاح و بہبود اور اندرون خانہ لوگوں کی باغیانہ نظریات کو فروغ دینا تھا ،یہ غالباً 1976ء کے محرم الحرام کا عاشورہ تھا جب لوگ قبرستان گیۓ تو ہر قبر ایک پمفلٹ ان کے سامنے تھا جو کالاباغ فرنٹ نامی زیر زمین تنظیم کی کاروائی تھی ،اس پمفلٹ میں ایک مردہ انسان کی طرف سے زندہ افراد کے نام سٹیٹ آف کالاباغ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا پیغام تھا ،اس کاروائی نے نوابوں کے کان کھڑے کر دیے اور ان افراد کا کھوج لگانے کا کام سخت کر دیا گیا ، 1977ء کے دنوں میں فینسی جنرل سٹور کے مالکان عبد الرحمٰن نیازی ،خالد نیازی اور طارق نیازی کو نامعلوم افراد نے اغواء کر لیا اور خفیہ مقام پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں اپنے کاروبار و جائیداد سے ہاتھ دھو کر شہر بدر ھونا پڑا ۔کچھ ا مزید افراد اسی طرح تشدد کا نشانہ بننے لگے اور ایسے غائب کۓ گئے کہ لوٹ کر گھروں کو نہ آۓ ،چوہدری رمضان بھی غائب ھو گیا اور قاضی غلام مرتضیٰ بھی اغواء ھوا اور غائب ھو گیا ،نہ کوئ ثبوت نہ گواہ،اہل خانہ کوئی چارہ جوئی نہ کرسکے ،الزام نوابزادگان پر لگایا جاتا رہا لیکن نوابزادگان نے کبھی اس الزام کی صحت کو تسلیم نہیں کیا ،
مصطفے کلیار۔۔حافظ غلام قاسم۔۔پیر بشیر الحسن۔۔حاجی عبدالخالق ۔۔حاجی انور اختر پراچہ ۔۔حاجی غلام قادر۔۔۔نورزمان اتلاپتن۔۔حافظ اقبال پراچہ۔۔۔حافظ حنیف کلیار۔۔عجب گل۔
کالاباغ فرنٹ کے تقسیمم شدہ پمفلٹ کے بعد اب نۓ پمفلٹ چھپنے لگے جن پر ایک نئی خفیہ تنظیم “کالاباغ انقلابی محاذ” کا نام چھپا ھوا تھا ان پمفلٹوں کی تقسیم کے الزام کی زد میں حافظ عبد الرحیم آیا جسے تھانہ کندیاں کی حدود میں ٹرین سے اتار کر غائب کر دیا گیا ،تھانہ کندیاں میں گم شدگی کی رپورٹ ہائیکورٹ کے حکم پر درج ھوئ لیکن نہ حافظ عبد الرحمٰن برآمد ھو پاۓ نہ عدم ثبوت کی بناء پر کوئی قابل ذکر کاروائی ھو سکی ،لیکن ایسی کاروائیوں سے لوگوں کے حوصلے پست ھونے کے بجائے بڑھ گۓ اور قاضی امیر عبداللہ ایڈووکیٹ کے گھر 30 سے 40 ہم خیال لوگوں کا ایک خفیہ اجلاس ہوا اور ایک نئ تنظیم بنانے اور منظر عام پر آنے کا فیصلہ کیا گیا ،اس تنظیم کا نام ” بغوچی محاذ ” رکھا گیا ،امیر عبداللہ ایڈووکیٹ مرکزی چیئرمین اور مظفر خان خٹک وائس چیئرمین مقرر ہوئے اور بغوچی محاذ کے یونٹ ہر اس شہر میں کھولے گئے جہاں کالاباغ کے لوگ کثیر تعداد میں آباد تھے ۔کالاباغ یونٹ کے صدر یوسف خان ،لاہور یونٹ کے صدر مشتاق احمد پراچہ مقرر ہوئے اس کے علاوہ لانڈھی کراچی ،ڈیرہ غازی خان ،ملتان،پیر ودھائی راولپنڈی ،میں بغوچی محاذ کے یونٹ قائم ہوۓ ،کالاباغ یونٹ میں مہر محمد مسافر ،سلیم مغل ،محمد صدیق کلیار محمد حنیف عرف دھودا زرگر ،مشتاق مغل ،شیراز مغل ،عبدالطیف کریانہ محمد خان عرف خانی ،مشتاق راہی ،حافظ خلیل الرحمٰن اور فاروق بابر جیسے کارکنان شامل تھے اور 27 اپریل 1979ء میں عبد الرحمٰن مجاہد کی دکان میں بغوچی محاذ کا دفتر کھول دیا گیا ۔یہ جنرل ضیاء الحق کا دور حکومت تھا ۔نوابزادگان پیپلز پارٹی میں شامل تھے اب حکومتی اثرورسوخ دستیاب نہیں تھا اور ان نا موافق حالات میں نوابزادگان اور تو کچھ نہ کر سکے لیکن بغوچی محاذ کے دفتر کے سامنے اپنا دفتر کھول دیا جس میں ایسے افراد بٹھاۓ گئے جو بغوچی محاذ کے دفتر میں آنے جانے والوں پر نظر رکھتے ،دفتر کے افتتاح کے دنوں ایک عدالتی فیصلہ آیا جس نے بغوچی محاذ کی ہمت اور بڑھا دی ،1974ء میں چوہدریوں اور پراچوں کی لڑائی میں چوہدری رمضان کا بھانجا محمد اسلم قتل ھو گیا اس قتل کے نتیجے میں پراچوں کے دو افراد سزائے موت اور تیرہ کو عمر قید سنا دی گئی ،نوابزادگان کی کھلی حمایت چوہدری رمضان کی طرف تھی،عام لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ سزا نوابزادگان نے اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے دلوائی ھے ،مگر بغوچی محاذ کے ابتدائی دنوں میں دائر کی گئی اپیل کے فیصلے کے تحت یہ سزا یافتہ افراد بری کر دیے گئے تو بغوچی محاذ نے اسے نیک شگون سمجھا ۔لیکن یہ خوش قسمتی انہیں راس نہ آئی ،صدر ضیاء الحق نے ملک اللہ یار خان مرحوم کو مجلس شوریٰ کا ممبر منتخب کر لیا تو فوجی حکومت میں اثرورسوخ بڑھنے سے یہ نتیجہ نکلا کہ بغوچی محاذ کے کارکنان کی مار پیٹ شروع ھو گئی ،کمزور دل افراد بوڑھ بنگلہ میں پناہ ڈھونڈنے لگے ،یہ 5جولائ 1979 کا دن تھا لاہور یونٹ کے صدر مشتاق پراچہ اپنے والد عبدالغفور پراچہ سے ملنے کالاباغ آۓ تو نقاب پوش ڈنڈا برداروں نے مشتاق پراچہ کو پکڑ لیا اور اتنا مارا پیٹا نیم مردہ حالت میں چھوڑ دیا ،اس وحشیانہ تشدد کو دیکھ کر بغوچیوں کا خون کھول اٹھا اور پہلا نعرہ محمد بخش عرف نتھو پراچہ نے لگایا تو حافظ محمد قاسم اور خیر محمد عرف چنو دکاندار اس کے ہمنواء بن گئے ۔ان کی جرآت دیکھ کر دیگر لوگوں نے بھی ڈنڈے ،سوٹے اور پتھر اٹھا لۓ ،وہ غنڈے تو بھاگ گئے لیکن یہ قدم بغوچی محاذ کے عروج کا سبب بن گیا،اس غنڈہ گردی کا حکم کس نے دیا تھا لیکن نوابزادگان کی ساکھ کو بڑا نقصان پہنچا اب کالاباغ کے تاجروں نے تاریخ کی طویل ترین یعنی چھ ماہ کی شٹر ڈاؤن ہڑتال شروع کر دی بازار کی بندش سے انتظامیہ حرکت میں آگئی اور ایک انکوائری کمیشن راولپنڈی کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج خواجہ خالد پال کی سربراہی میں بنا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تھانہ کالاباغ میں چوہدری رمضان اور قاضی غلام مرتضیٰ کے اغواء اور مشتاق پراچہ کے تشدد کی ایف آئی آر درج ھو گئی ۔اب محاذ زور پکڑنے لگا دوسرے ہونٹ باقاعدہ چندہ بھیجنے لگے اور نوابزادگان کے سیاسی مخالفین نے بھی اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا اب روازنہ کی بنیاد پر جلوس نکلتے جن میں نوابزادگان کے خلاف نعرے لگائے جاتے ان جلوسوں کا کبھی پولیس سے اور کبھی نوابزادگان کے آدمیوں سے تصادم ھو جاتا,18 اگست 1979 کے ایک ایسے تصادم میں ایک کم عمر نوجوان وارث نامی اندھی گولی کا شکار ہو گیا ،اس کے قتل کا الزام نوابزادہ ملک مظفر خان پر لگایا گیا لیکن عدم ثبوت کی بناء پر الزام الزام ہی رہا ،اسی تصادم میں ASP اظہر حسن ندیم کو بھی گولی لگی جسے جیپ میں ڈال کر میانوالی ہسپتال لے جایا گیا لیکن اس کی بیوی جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں ڈاکٹر تھی اسے ہیلی کاپٹر کے ذریعے لاھور لے گئ،اس کا الزام بغوچی محاذ پر لگایا گیا ،لیکن حافظ محمد یوسف ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ کی انکوائری میں بغوچی محاذ کے نوجوانوں کو بے گناہ قرار دے دیا گیا ۔اس صورت حال کے بعد انتظامیہ نے کالاباغ کے حالات کو سنجیدگی سے لیا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سرگودھا ،کمشنر سرگودھا ، DIG سرگودھا رینج اور دیگر اعلیٰ حکام کالاباغ ریسٹ ہاؤس تشریف لائے ، نوابزادگان اور بغوچی محاذ کے نمائندوں سے مذاکرات کۓ جس کے نتیجے میں بغوچی محاذ نے اپنے مورچے خالی کر کے اسلحہ پولیس کے حوالے کر دیا اور کالاباغ شہر کا کنٹرول پولیس نے سنبھال لیا ،اس کے بعد بغوچی محاذ دم توڑتا گیا ،اور نوابزادگان بھی عوام دوستی کی طرف پلٹنے لگے وہی بغوچی محاذ جو نوابزادگان کی شدید ترین مخالفت کرتا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ یہ منظر بھی دیکھنے کو ملا کہ اہلیان کالاباغ نے 2008ء کے قومی انتخابات میں نوابزادہ ملک عماد خان کو بھاری اکثریت سے جتوایا اور جیت کے دن کالا باغ میں جشن خوشی منایا گیا ،ملک عماد کو کندھوں پر اٹھا لیا گیا اور نوجوان مسرت و شادمانی سے سرشار والہانہ رقص کرتے ،نعرے لگاتے بوہڑھ بنگلہ کی طرف ردواں دواں تھے ،اب دونوں فریق شیر و شکر ہو چکے تھے.
کالاباغ کو حملہ آوروں سے محفوظ رکھنے کے لیے اعوان سرداروں نے جلال پور کے مقام دفاعی نوعیت کی ایک چوکی ملک جلال خان اعوان کی سرکردگی میں قائم کی ،جس کے نام پر موجودہ جلال پور کا قصبہ آباد ھے اور یہاں خالص اعوان قبیلہ کثرت سے آباد ہے ۔اس دفاعی چوکی نے یہ اثر دکھایا کہ جانب غرب سے ہجرت کرکے آنے والے نیازیوں نے کالاباغ کی جانب بڑھنے کے بجائے دریا پار کا رخ کیا ،موچھ داؤدخیل سے ہوتے ہوئے آگے تو پھیلتے گیۓ لیکن جلال پور ،کوٹ چاندنہ اور کالاباغ کو اپنا مسکن نہ بناسکے ۔
اب کالاباغ کا مکمل علاقہ اعوان قبیلہ کی سرداری میں تھا ، اس کے بعد کافی عرصہ امن و شانتی رہی ۔(بالاج )کتب تاریخ میں 1114ھجری میں شہزادہ بہادر شاہ ابن اورنگزیب کا ذکر ملتا ہے جو بنوں کے راستے کالاباغ آیا , اسے بنوں کے دفاع کے لئے ایک طاقتور سردار کی ضرورت تھی یہ ہامی حاکم دانگلی مبارز خان گھکھڑ نے بھر لی ،تو شہزادہ بہادر شاہ نے علاقہ کالاباغ کے محصول وصولی کی ذمہ داری مبارز خان گھکھڑ کو سونپ دی،چند سال گھکھڑ محصول وصول کرتے رہے پھر اس خدمت گزاری پر محمد افضل خان خٹک مامور ھوا مگر وہ کالاباغ میں دخل نہ پا سکا ،احمد شاہ ابدالی جب اس علاقے میں آیا تو اس جاگیر کے محصول وصولی کا اختیار ساٹھ تومان تبریزی جس کے ایک ہزار دو سو روپے سکہ رائج الوقت بنتے تھے کے عوض معاذ خان ساغری خٹک کو دے دیا ،معاذ خان اس آمدنی سے بیس تومان یعنی چار سو روپے براۓ دوستی و انتظام علاقہ کالاباغ ملک محمد اعظم خان اول کو دیتا تھا ،احمد شاہ ابدالی کی وفات کے بعد کے بعد شہزادہ تیمور 1188ھجری میں کالا باغ آیا تو ملک اعظم خان نے تیمور شاہ کے مخالف چند سکھ سرداروں کے سر قلم کر کے بادشاہ کو نذرانہ کے طور پر بھیجے تو تیمور شاہ نے کالا باغ کا 1200 روپے کا محصول بنام ملک محمد اعظم خان اول کر دیا اور ملک اعظم خان کو علاقے کا سردار تسلیم کر لیا اس وقت ہر قسم کی جنس پر آٹھ ٹکے محصول تھا اور ایک روپیہ میں اڑتالیس ٹکے شمار کۓ جاتے تھے ،تیمور شاہ کے اس محصول کے عوض ملک اعظم خان اپنے علاقے سے گزرنے والی بنوں تا دہلی گزرنے والی شاہراہ کی حفاظت کرتا تھا اور دیگر خدمات شاہی بھی اس کے سپرد تھیں ،تیمور شاہ کے بعد اس کے جانشینوں آپس میں دست وگریباں ھو گۓ تو سکھ نئی طاقت کے طور پنجاب کے افق پر نمودار ہونے لگے تھے ( بالاج) لیکن خود ملک اعظم خان کو خانگی جھگڑوں نے الجھا لیا ،ملک اعظم خان کے والد ملک سرخرو خان کی تین بیویاں تھیں زوجہ اول سے ملک اعظم خان ،زوجہ دوم سے شاہ عالم خان اور زوجہ سوم سے تین بیٹے ملک امانت ،ملک ملک خلاص اور ملک غلام حسین پیدا ہوئے ،ملک سرخرو خان نے ملک اعظم کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔
ملک اعظم با صلاحیت سردار تھا اور اس نے پانچ شادیاں کیں جن سے بارہ بیٹے پیدا ہوئے ،جن میں سے ملک اللہ یار خان سب بھائیوں سے ہوشیار اور دانش مند تھا لیکن ملک اعظم خان نے اخیر عمر میں زوجہ دوم کے بیٹے حافظ محمد خان کو اپنا قائم مقام اور مختار دستار مقرر کر دیا یہ فیصلہ نہ ملک اعظم خان کے دیگر بھائیوں کو پسند نہ آیا اور بیٹے ملک اللہ یار خان کو بھی اس فیصلے سے دکھ پہنچا۔( بالاج) چنانچہ ملک اللہ یار خان اور اس کے دو چچوں ملک خلاص خان اور ملک امانت خان نے دغا بازی سے ملک اعظم خان کو قتل کردیا اسی روز حافظ محمد خان کے بھائی یاسین کو بھی مسجد میں پھرتے ھوتے قتل کر دیا گیا اب حافظ محمد خان کو سرداری کے بجائے جان بچانے کی فکر پڑ گئی اور وہ اپنے بھائی سلطان احمد کے ساتھ عیسیٰ خیل پناہ گزیں ھوا ،اس واقعہ کے بعد ملک اللہ یار خان نے ان دو بھائیوں کو مال و جائیداد تقسیم کرنے کے بہانے بلا کر تلوار کے گھاٹ اتار دیا اور ملک اللہ یار خان کے ملازمین نے تیسرے بھائی غلام حسین کو بھی باغ میں موت کے گھاٹ اتار دیا جب کالاباغ میں یہ خونریزی جاری تھی تو موقع غنیمت جان کر حافظ محمد خان کا ایک بھائی سلطان احمد خان نے مشانیوں اور عیسیٰ خیل کے خان زمان خیلوں کو اکٹھا کیا اور کر کالاباغ پر چڑھائی کر دی،لیکن اس کے ساتھیوں نے مکمل ساتھ نہ نبھایا اور سلطان احمد خود گرفتار ھو گیا ،اب حافظ محمد خان نے عیسیٰ خیل سے نکل کر لاوہ کا رخ کیا اور کچھ ہمدرد اکٹھے کۓ اور مسان کے علاقے پر قابض ہو گیا،ملک اللہ یار خان نے کمال ہوشیاری سے کام لیا محمد خان کے گرفتار شدہ بھائی سلطان احمد کو رہا کر دیا اور جب سکھوں کی اعانت پا کر مسان سے بھی حافظ محمد خان کو بیدخل کروا دیا حافظ محمد خان جان بچانے کے لیے ٹانک کے کٹی خیل سردار سرور خان کے پاس جا کر پناہ کا طالب ہوا،حافظ محمد خان سے مکمل جان چھڑوانے کے لیے ملک اللہ یار خان نے اپنے بھائی ملک نواب خان کو تعاقب میں ٹانک روانہ کیا جس نے ملک سرور خان کو بے خبر رکھ کر اس کے بیٹے سے حافظ محمد خان کے قتل کی ساز باز کی لیکن حافظ محمد خان کو کسی طریقے خبر ھو گئی اور وہ راتوں رات ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف نکل بھاگا مگر ملک نواب خان کے سوار دستے نے اسے موضع بٹ کے قریب پکڑ کر موت کے گھاٹ اتار دیا اور سلطان احمد طبعی موت مر گیا اب حافظ محمد خان اور سلطان احمد کی اولادیں عداوت و کینہ تو سینوں میں پالتے رہے لیکن عملاً کچھ نہ کر سکے ۔ملک اللہ یار نے اپنے اقتدار و جاگیر کو اندرونی خطرات سے تو محفوظ کر لیا مگر بیرونی خطرہ سکھوں کی صورت اس کے سر پر منڈلانے لگا اور کچھ عرصہ بعد کالاباغ کے دروازے پر محکم چند کی سربراہی میں سکھ حملہ آؤر دستک دینے لگے۔
بالاج جیسل (محمد اقبال حجازی) راجپوت بھٹی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک تجربہ کار استاد، حساس قلمکار، اور تہذیبی ورثے کے سچے محافظ ہیں۔ انہوں نے تین دہائیوں تک تدریس سے وابستہ رہتے ہوئے علم کی روشنی پھیلائی، اور ساتھ ہی ساتھ کالاباغ، کوٹ چاندنہ اور میانوالی کی ثقافت، یادیں اور تاریخ اپنے سادہ مگر پُراثر انداز میں قلمبند کیں۔ ان کی تحریریں خلوص، سچائی اور دیہی زندگی کے جذبے سے لبریز ہوتی ہیں۔ وہ فیس بک پر فعال ادیب ہیں اور اپنی زمین، لوگوں اور ماضی سے جڑے تجربات کو محفوظ رکھنے کے لیے مسلسل لکھ رہے ہیں۔۔ اُن کا قلم مقامی زبان، محبت اور روایت کا ترجمان ہے