منورعلی ملک کے     فروری 23 کے فیس  بک   پرخطوط

یادیں۔۔۔۔۔۔۔۔ 1981

گورنمنٹ کالج میانوالی میں ایک تقریب سے خطاب

2فروری  23-منورعلی ملک۔۔۔

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری سب سے پہلے شائع ہونے والی تحریر The Interview کے عنوان سے ایک مزاحیہ سیاسی کالم تھا جو فروری 1983 میں انگریزی اخبار پاکستان ٹائیمز میں شائع ہوا – پاکستان ٹائیمز اُس دور میں پاکستان کا سب سے بڑا انگریزی اخبار تھا –
میں نے تو وہ تحریر پاکستان ٹائیمز کے سینیئر کالم نگار محمد ادریس کی رائے معلوم کرنے کے لیئے بھیجی تھی – یہ نہیں کہا تھا کہ اسے شائع کروادیں – ادریس صاحب نے اپنی رائے مجھے بتانے کی بجائے وہ تحریر کسی رد و بدل کے بغیر اخبار میں شائع کروا دی – ادریس صاحب سے میری نہ جان پہچان تھی ، نہ ہی ان سے کبھی ملاقات ہو سکی – میں نے تو وہ تحریر انہیں اس لیئے بھیجی تھی کہ میں اُن کی خوبصورت انگریزی کا فین تھا – میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ انگریزی زبان پر میری گرفت کے بارے میں وہ کیا کہتے ہیں – میری تحریر کسی ردوبدل کے بغیر شائع کرنے کا مطلب صاف ظاہر تھا کہ یہ تحریر انہیں پسند آئی – اس سے مجھے اعتماد ملا اور میں نے ایسی ہی ایک اور تحریر براہ راست اخبار کے ایڈیٹر کو بھیج دی ، دو چار دن بعد وہ تحریر بھی شائع ہوگئی ، اس میں ایک لفظ کا بھی ردوبدل نہ کیا گیا –
اس کے بعد تو چل سو چل پاکستان ٹائیمز میں ہر ہفتے میرے کالم شائع ہونے لگے – یہ سلسلہ 1996 میں پاکستان ٹائیمز کی بندش تک 13 سال چلتا رہا – میرے کُچھ کالم انگریزی روزنامہ The Nation اور The News میں بھی شائع ہوئے ، مگر پاکستان ٹائیمز کی بندش سے دل ایسا ٹوٹا کہ میں نے کالم لکھنا ہی چھوڑ دیا –
ایک دن منصور آفاق نے کہا “ سر ، میں نہیں مانتا کہ کسی وسیلے یا سفارش کے بغیر میانوالی کے کسی شخص کی تحریریں پاکستان ٹائیمز جیسے اخبار میں شائع ہو سکتی ہیں- صاف صاف بتادیں آپ کی سفارش یا وسیلہ کون تھا ؟“
میں نے کہا کوئی بھی نہیں –
اس وقت تو منصورآفاق کو میری بات پر یقین نہ آیا – پھر جب ایک دن میرے ساتھ پاکستان ٹائیمز کے آفس گئے تو وہاں میری آؤ بھگت دیکھ کر ماننا پڑا کہ میرا پاکستان ٹائیمز سے تعلق کسی سفارش کے بغیر خالص میرٹ پر مبنی تھا –——————- رہے نام اللہ کا —4  فروری  23-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انگریزی اخبار پاکستان ٹائیمز میں شائع ہونے والے میرے طنزیہ مزاحیہ کالم انگریزی کے صاحبِ ذوق قارئین میں بہت مقبول ہوئے – نامور شاعر ادیب اور نقاد جناب محمد سلیم الرحمن ، سابق کمشنر ملتان جناب شہزاد قیصر ، سابق ڈپٹی کمشنر جناب محمد افسر ساجد ، پروفیسر شعیب بن حسن ، ایک بہت بڑے عہدے پر فائز خاتون اور کئی پروفیسر ، ڈاکٹر ، وکیل اور صحافی میرے اندازِ تحریر کے فین بن گئے – محمد سلیم الرحمن اور محمد افسر ساجد صاحب سے تو ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں – باقی سب لوگوں سے تعارف غائبانہ ہی رہا –
خاتون افسر کے بارے میں ایڈیٹر سید اقبال جعفری صاحب نے بتایا کہ وہ میرے انگریزی اندازِ تحریر پر بُری طرح فدا ہیں ، اور اُن کی فرمائش ہے کہ ملک صاحب جب کبھی لاہور آئیں اُن سے میری ملاقات کرا دیں — میں نے کہا شاہ جی ، رہنے دیں – میری انگریزی تحریر دیکھ کر تو وہ یہ سمجھتی ہوں گی کہ آکسفورڈ یا کیمبرج یونیورسٹی کا پڑھا ہوا ماڈرن نوجوان ہوگا ، سر پہ ہیٹ منہ میں سگار ، انگریزی کے سوا کسی اور زبان میں بات ہی نہیں کرتا ہوگا ، مگر اپنے سامنے ایک سِدھا سادہ میانوالی دا چھور دیکھ کر صدمے سے فوت نہیں تو بیہوش ضرور ہو جائیں گی –
کالم لکھنے کا میرا اپنا الگ تخلیقی انداز تھا – لطیف طنزو مزاح کے ذریعے میں نے سیاست ، صحافت ، تجارت ، منافقت ، خوشامد اور تاجرانہ نظام تعلیم کی زبردست چھترول کی- کسی کا نام لیئے بغیر سب حکمرانوں کو نشانہ بنایا – پاکستان کی انگریزی صحافت میں میرے کالم کو تازہ ہوا کا جھونکا کہا جاتا تھا –
— رہے نام اللہ کا —-5  فروری  23-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ میں پاکستان ٹائیمز کے آفس گیا تو ایڈیٹر اقبال جعفری صاحب نے کہا “ ہمارے چیف صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں ، آئیں ان سے مل لیں “
ہم چیف ایڈیٹر جناب مقبول شریف کے کمرے میں پہنچے تو علیک سلیک کے بعد انہوں نے کہا “ پروفیسر صاحب ، ہمارے پاس اشاعت کے لیئے معلوماتی مضامین اور سیاسی تجزیئے تو بہت آتے رہتے ہیں – طنزیہ مزاحیہ کالم صرف آپ ہی لکھ رہے ہیں – ہمارے بہت سے قارئین آپ کی تحریریں بہت پسند کرتے ہیں – اگر آپ روزانہ کالم لکھ دیا کریں تو ہم آپ کو 300 روپے فی کالم معاوضہ ادا کریں گے – ( 300 روپے فی کالم کا مطلب تھا 9000روپے ماہانہ – کالج میں اس وقت میری تنخواہ 7500 روپے ماہانہ تھی) –
چیف ایڈیٹر صاحب کی پیشکش خاصی معقول تھی ، مگر اس دور میں کالم روزانہ میانوالی سے لاہور پہنچانے کا کوئی وسیلہ میسر نہ تھا – ای میل تو کجا ، فیکس کی سہولت بھی دستیاب نہ تھی – بال پین سے کاغذ پر کالم لکھ کر ڈاک سے بھیجا کرتا تھا – پہنچنے میں دو تین دن لگ جاتے تھے – اس لیئے میں نے روزانہ کالم بھیجنے سے معذرت کرلی –
چیف ایڈیٹر صاحب نے میرے ہفتہ وار کالم کا معاوضہ 200 روپے فی کالم سے بڑھا کر 500 روپے فی کالم کردیا اور کہا “ٹھیک ہے ، آپ اپنی سہولت کے مطابق ہفتہ میں ایک کالم ہی لکھتے رہیں“-
یوں میرا کالم پاکستان ٹائیمز میں حسب سابق ہر ہفتے شائع ہوتا رہا –——————– رہے نام اللہ کا –6  فروری  23-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ایک کالم پر پاکستان ٹائیمز کے دفتر میں اچھا خاصا ہنگامہ برپا ہوا – یہ کالم میں نے کشمیری بازار راولپنڈی میں ہونے والے ہولناک بم دھماکے کے بارے میں لکھا تھا – وہ بم دھماکہ پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز تھا – بہت سے لوگ اس دھماکے سے جاں بحق ہوئے تھے – میں نے اپنے کالم میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ اس قسم کے واقعات کا سد باب کرنے کے لیئے افغان مہاجرین کو اُن کے کیمپوں تک محدود کر دیا جائے –
یہ کالم شائع ہونے سے پہلے پاکستان ٹائیمز کے ایگزیکٹو ایڈیٹر درانی صاحب کی نظر سے گذرا تو سخت برہم ہوئے – ایڈیٹر اقبال جعفری صاحب سے کہا آپ جانتے ہیں کہ جنرل ضیاءالحق نے افغان مہاجرین کو معزز مہمانوں کا درجہ دے رکھا ہے – ان مہاجرین پر کسی قسم کی پابندی کی تجویز ہمارے اخبار میں شائع ہوئی تو جنرل صاحب ہمارا اخبار بند کر دیں گے ، ہمارے خلاف بھی ایکشن ہوگا اور کالم نگار بھی مصیبت میں پھنس جائے گا – اس لیئے یہ کالم شائع نہیں ہو سکتا – آئندہ اس کالم نگار کی کوئی تحریر ہمارے اخبار میں شائع نہیں ہونی چاہیئے –
جعفری صاحب نے یہ داستان خط میں لکھ کر مجھے بھیج دی اور ساتھ یہ بھی لکھا کہ درانی صاحب نے تو آپ کی تحریریں شائع کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے ، مگر میں اپنے قارئین کو آپ کی خوبصورت انگریزی سے محروم نہیں کرسکتا ، اس لیئے آپ اپنے نام کی بجائے کسی اور نام سے لکھتے رہیں، اور ہاں ، ہاتھ ذرا ہلکا رکھیں –
اپنے عظیم دوست جعفری صاحب کے حکم کی تعمیل میں میں نے Munawar Ali Malik کی بجائے M A Malik کے نام سے لکھنا جاری رکھا – ہاتھ بھی ذرا ہلکا رکھا، اس لیئے پھر کبھی کوئی رولا نہ ہوا-——————- رہے نام اللہ کا —7   فروری  23-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان ٹائیمز کو تبصرے کے لیئے جو کتابیں موصول ہوتی تھیں اُن میں سے کُچھ کتابیں جناب اقبال جعفری تبصرے کے لیئے مجھے بھیج دیتے تھے – اس طرح بہت سی کتابوں پر میرے لکھے ہوئے تبصرے بھی پاکستان ٹائیمز میں شائع ہوئے – کراچی کے معروف شاعر ثروت حسین کے شعری مجموعہ “ آدھے سیارے پر“ پہ میرا تبصرہ شائع ہوا تو جناب محمد سلیم الرحمن کا خط موصول ہوا – لکھا تھا “ میں نے آپ کے تبصرے کی فوٹو کاپی ثروت حسین کو بھیج دی ہے – کچھ عرصہ پہلے ثروت ذہنی توازن سے محروم ہو گیا تھا – خود کشی کی دو کوششیں کر چکا ہے – آپ کا تبصرہ اُسے اس لیئے بھیجا ہے کہ ممکن ہے آپ کی طرف سے یہ حوصلہ افزائی اُسے اس دنیا میں کُچھ دن مزید رہنے پر آمادہ کر لے-“
جانے والوں کو کون روک سکتا ہے – تین چار ماہ بعد خبر آئی کہ ثروت یہ دنیا چھوڑ کر سرحد حیات کے پار جابسے –
کالموں اور تبصروں کے علاوہ میں نے پاکستان ٹائیمز کے لیئے دو مفصل معلوماتی مضامین بھی لکھے – A Library in the Desert کے عنوان سے پہلا مضمون چشمہ بیراج کے نواحی گاؤں خانقاہ سراجیہ کی تاریخی لائبریری کے بارے میں تھا – لائبریری کے مالک پروفیسر حامد سراج ہمارے دوست تھے ، انہوں نے اس مضمون کے سلسلے میں ہم سے بہت تعاون کیا – موبائیل فون کا دور نہیں تھا ، اس لیئے لائبریری کی پکچرز بنانے کے لیئے کیمرہ ساتھ لے جانا پڑا – منصورآفاق نے کیمرہ مین کے فرائض سرانجام دیئے –
KAFIR KOT
کے عنوان سے دوسرا مضمون چشمہ بیراج سے تقریبا دو کلومیٹر شمال میں پہاڑوں کے درمیان واقع 1000 سال پرانے پُراسرار قلعہ کافر کوٹ کے بارے میں تھا – یہ قلعہ ایک کشمیری ہندو راجہ نے اپنے علاقے پر وزیرستان کے پٹھانوں کے حملوں سے بچنے کے لئے بنوایا تھا – میں , پروفیسر محمد سلیم احسن ، پروفیسر ملک محمداسلم گھنجیرہ ، اور کُچھ دوسرے ساتھی کئی بار اس قلعے کی سیر کو جاتے رہے ، قلعے کی پکچرز پروفیسر محمد سلیم احسن صاحب نے فراہم کر دیں – میرا یہ مضمون لاہور عجائب گھر کے ریکارڈ میں بھی محفوظ ہے
—————— رہے نام اللہ کا —8  فروری  23-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سے پاکستان ٹائیمز میں 13 سال تک اپنی کالم نگاری کا تذکرہ چھیڑا ہے احباب ان تحریروں کو کتاب کی صورت میں منظرعام پر لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں – چاہتا میں بھی یہی تھا ، مگر —————
ہوا یوں کہ 1998 میں ہم نے مکان تبدیل کیا تو گتے کی وہ پیٹی carton خدا جانے کہاں گُم ہو گئی جس میں میں نے اپنے تمام کالم محفوظ کر رکھے تھے – کوشش کے باوجود پتہ نہ چل سکا کہ اسے آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی – بہت بڑا نقصان ہوا ، مگر صبر کے سوا اور کیا کِیا جا سکتا ہے – ایک موہوم سی اُمید اب بھی ہے کہ اس پوسٹ کے قارئین میں سے کسی صاحب کو اس متاعِ گُم شدہ کے بارے میں علم ہو تو میری رہنمائی کردیں – بات بہت پرانی ہو گئی ، امکان بہت کم ہے – پھر بھی اُمید پہ دنیا قائم ہے –
اپنے دس پندرہ کالم ایک الگ فائیل میں پڑے تھے ، وہ تو مل گئے ، مگر دس پندرہ کالموں سے کتاب تو نہیں بنتی – سوچتا ہوں اسی قسم کی کُچھ اور تحریریں لکھ کر کتاب مکمل کر لُوں – کوشش کروں گا ، دعا کریں کہ اس کام کے لیئے فرصت اور مہلت مل جائے –
—————— رہے نام اللہ کا —9 فروری  23-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کالج لائبریری کی کتابیں خریدنے کے لیئے لائبریرین حاجی محمد اسلم خان غلبلی کے ہمراہ لاہور آنا جانا رہتا تھا – انگریزی کی کتابوں کا انتخاب میں کرتا تھا – ایک آدھ بار حاجی صاحب نے کہا “یار ، انگریزی کے علاوہ دوسرے مضامین بھی کالج میں پڑھائے جاتے ہیں ، آپ انگریزی کی کتابوں کے ڈھیر لگا رہے ہیں “-
میرا جواب یہ تھا “ بھائی صاحب ، مجھے تو کتابیں پڑھنے کا شوق ہے ، اس لیئے کتابیں منتخب کرنے کے لیئے خود آتا ہوں – دوسرے مضامین کے پروفیسر صاحبان کو اپنے مضامین کی کتابیں پڑھنے کا شوق ہوتا تو خود آپ کے ساتھ آکر کتابیں منتخب کرتے “ —
حاجی صاحب ہنس کر کہتے “ بات تو ٹھیک ہے آپ کی – کسی کو پڑھنے کا شوق ہوتا تو خود آتے کتابیں منتخب کرنے کے لیئے – وہ تو بار بار کہنے کے باوجود اپنی پسند کی کتابوں کی لسٹ بھی نہیں دیتے – آپ صرف اپنی پسند کی کتابوں کے لیئے میانوالی سے لاہور آتے ہیں ، اس لیئے پہلا حق آپ ہی کا بنتا ہے – جتنی کتابیں چاہیں اٹھا لیں ، مجھے کوئی اعتراض نہیں “-
انگریزی کی کتابوں کی خریداری کے سلسلے میں کتاب محل (اردو بازار لاہور ) بھی آنا جانا رہتا تھا – کتاب محل ایم اے انگلش کے نصاب سے متعلق کتابوں کی اشاعت کا سب سے بڑا ادارہ تھا – یہاں آمدورفت کے نتیجے میں کتاب محل کے بانی سید سردار جاوید صاحب ہمارے مہربان دوست بن گئے – ایک دن کہنے لگے “ ملک صاحب ، انگریزی اخبارات میں کالم تو آپ لکھتے رہتے ہیں ، کبھی ہمارے ادارے کے لیئے بھی کُچھ لکھ دیں “-
میرے لیئے تو یہ ایک اعزاز تھا ، اس لیئے انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا – یوں ایم اے انگلش کے کورس سے متعلق کتابیں لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا ، جو اب تک چل رہا ہے-
—————– رہے نام اللہ کا—-10 فروری  23-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آردو میں میری سب سے پہلے شائع ہونے والی تحریر “ٹیم کا تعاون“ کے عنوان سے ایک مختصر سی کہانی تھی جو مارچ 1983 میں اُردو ڈائجسٹ میں شائع ہوئی –
کہانی یوں تھی کہ ایک گھر میں میاں بیوی اور بچے پاکستان اور انڈیا کے درمیان ورلڈکپ کرکٹ میچ ٹی وی پر دیکھ رہے ہیں – اچانک ایک بچہ ساتھ والے کمرے سے واپس آکر بتاتا ہے کہ داداابُو فوت ہوگئے – دل ہی دل میں سب لوگ دادا ابو کی اس حرکت کی مذمت کرتے ہیں ، کہ مرنا ہی تھا تو کم ازکم آج رات تو رنگ میں بھنگ نہیں ڈالنا تھا – بچوں کے ماں باپ شکایت آمیز نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں – پھر بچوں کا باپ اپنا فیصلہ سناتا ہے – فیصلہ یہ ہے کہ اس وقت تو دادا ابو کو ہم سے کسی خدمت کی ضرورت نہیں – کفن دفن کا بندوبست تو صبح ہی ہوگا – اس لیئے فی الحال میچ ہی دیکھا جائے کیونکہ یہ میچ ہر روز دیکھنے کو تو نہیں ملے گا –
یہ سُن کر مُرجھائے ہوئے چہرے خوشی سے کھِل اُٹھتے ہیں – میچ دیکھنے کے بعد سب لوگ آرام سے سو جاتے ہیں –
صبح ناشتہ کرتے ہوئے ایک بچہ کہتا ہے ، میں نے دادا ابو کو خواب میں دیکھا ہے – کرکٹ کا میچ ہورہا تھا – ایک ٹیم کے کپتان دادا ابُو تھے – میچ ہارنے کے بعد دادا ابو ایک صحافی کو انٹرویو میں بتا رہے تھے کہ میں یہ میچ ہرگز نہ ہارتا ، مگر میری ٹیم نے مجھ سے تعاون نہیں کیا ۔
—————— رہے نام اللہ کا —11  فروری  23-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج میری سالگرہ پر بے شمار ساتھیوں نے واٹس ایپ، میسنجر اور فیس بک کمنٹس کے ذریعے مجھے دعاوں اور نیک تمناؤں سے نوازا۔ سب کا الگ الگ شکریہ ادا کرنا ممکن نہیں۔ دعاہے کہ رب کریم آپ سب کو بے حساب نعمتیں اور مسرتیں عطا فرمائے، اور ہماری اس سنگت کو ہم سب کے لیئے خیرو برکت کا وسیلہ بنادے ۔
12 فروری  23-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“درد کا سفیر“ ہر سطح پر مقبول و معروف ہوئی – قارئین کے خطوط کے ڈھیر لگ گئے – فیصل آباد جیل سے ایک قیدی کا خط آیا ، لکھا تھا ایک دوست نے آپ کی کتاب لا کر دی – اس کتاب نے قید کی تلخیاں بُھلا دی ہیں – پڑھتے ہوئے ایسے لگتا ہے میں جیل میں نہیں بلکہ عیسی خٰیل میں لالا کے میکدے میں آپ کے ساتھ شریکِ محفل ہوں “-
کئی لوگوں نے پُوری کتاب ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی – انہوں نے بتایا کہ کتاب پڑھتے ہوئے ہم بار بار ہنسے بھی اور روئے بھی ، ایک عجیب سا لُطف محسوس ہوتا ہے اس ہنسنے اور رونے میں ۔
علمی اور ادبی سطح پر اس کتاب کو جناب مستنصر حسین تارڑ نے صبح کے ٹی وی پروگرام میں بھی متعارف کرایا – ظفر خان نیازی نے ریڈیو پاکستان سے درد کا سفیر پر ڈاکٹر توصیف تبسم کا تبصرہ نشر کیا اور مجھے ڈاکٹر توصیف تبسم کے مضمون کی فوٹو کاپی کے ساتھ اُن کے تبصرے کی آڈیو کیسیٹ بھی ارسال کی – لیجنڈ افسانہ نگار ممتاز مفتی صاحب نے بھی میرے کھُلے ڈُلے اندازِ تحریر کو بہت سراہا – روزنامہ امروز کے ایڈیٹر ملک محمد اسلم صاحب نے خط میں لکھا پشاور سے لاہور کی پرواز کے دوران میں اور میری اہلیہ درد کا سفیر کا باب “ سیما بہن ، ہم تُم کو نہیں بُھولے“ بار بار پڑھ کر روتے رہے – معروف شاعر ، ادیب اور نقاد جناب محمد سلیم الرحمن نے کہا کتاب ختم کرنے کے بعد تشنگی کا احساس ہوتا ہے –
غلطی سے میں نے پہلے ایڈیشن کے تعارف میں کہا تھا کہ داستان ابھی ختم نہیں ہوئی ، کچھ واقعات کتاب کے اگلے ایڈیشن میں لکھوں گا – بس پھر لوگ تو پیچھے پڑ گئے ، جو بھی ملتا یہی ایک سوال پُوچھتا “ سر ، درد کا سفیر کا اگلا ایڈیشن کب آرہا ہے” – تین ایڈیشن آچکے ، پھر بھی یہ مطالبہ جاری ہے – لالا سے شکایت کی کہ یار تُم پر کتاب لکھ کر تو میں مصیبت میں پھنس گیا – اگلے ایڈیشن کا مطالبہ ختم ہی نہیں ہو رہا –
لالا نے کہا “پنگا لے جو لیا ہے تو اب لگے رہو“
میں نے کہا “ وہ تو ٹھیک ہے ، مگر ————
جا میکدے سے میری جوانی اُٹھا کے لا
——————— رہے نام اللہ کا –14  فروری  23-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درد کا سفیر کے بارے میں بہت سے ساتھیوں نے پوچھا ھے یہ کتاب کہاں سے ملے گی۔ ان کی اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ یہ کتاب وسیم سبطین صاحب سے پی ڈی ایف فارمیٹ میں مل سکتی ھے۔ برطانیہ سے علمدار شیرازی صاحب نے بھی میری اجازت سے پی ڈی ایف فارمیٹ میں یہ کتاب پیش کی ہے ۔ انہوں نے کمنٹ میں اس کا لنک بھی دیا ہے۔
اگر کتاب اپنی اصلی شکل میں چاہیئے تو اسلام آباد کے پبلشر سے 0300 8502456 پر رابطہ کریں۔14  فروری  23-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
میرے بھائی، میرے ہمدم، میرے ہمراز، میرے مشیر، میرے ناصح، میرے محسن
ممتاز حسین ملک کی آج برسی ھے۔
بچپن اور جوانی کی منازل میں ہر قدم پہ میرے ہمسفر۔۔۔میری علمی اور ادبی صلاحیتوں کو مارپیٹ کر منظر عام پر لانے والے
۔۔۔۔کہا کرتے تھے، اوئے کمینے، جتنی انگریزی تمہیں آتی ہے اتنی میرے پاس ہوتی تو سارے پاکستان کو آگے لگا لیتا۔
روز روز کے طعنوں سے تنگ آکر میں نے یہ خزانہ تقسیم کرناشروع کردیا، انگریزی اخبارات میں کالم نگاری سے لے کر ایم اے انگلش کے نصاب سے متعلق کتابوں تک بہت کچھ لکھ ڈالا۔ بہت خوش تھے ممتاز بھائی، بڑے فخر سے علمی و ادبی حلقوں میں میرا تعارف کراتے رہے۔ اردو شاعری اور نثر کے میدانوں میں بھی ممتاز بھائی ہی مجھے زبردستی گھسیٹ کر لائے۔۔۔۔۔
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔15  فروری  23-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چکوال سے وسیم سبطین صاحب نے کل واٹس ایپ میسیج میں بتایا کہ وہ دو دن میں 438 لوگوں کو میری کتاب درد کا سفیر پی ڈی ایف فارمیٹ میں ارسال کر چکے ہیں ، اور 100 سے زائد مزید لوگوں کی فرمائش اب تک موصول ہوچکی ہے –
اللہ بھلا کرے وسیم سبطین کا کہ میرا کام آسان کردیا ، کیونکہ فرمائیشیں مجھ سے بھی ہو رہی تھیں ، مگر میرے پاس تو یہ کتاب پی ڈی ایف فارمیٹ میں ہے ہی نہیں –
————————————
****** اب جبکہ بہت سے لوگوں کو کتاب پی ڈی ایف فارمیٹ میں موصول ہو چکی ہے، وسیم سبطین صاحب کی منصبی اور گھریلو ذمہ داریوں کا لحاظ کرتے ہوئے پی ڈی ایف فارمیٹ میں کتاب دوسرے دوستوں سے لے لیں ******
————————————
اس کتاب کے حوالے سے عجیب و غریب واقعات پڑھنے سُننے میں آتے رہتے ہیں – اوکاڑہ سے ایک صاحب نے لکھا کہ کتاب کی تلاش میں میں لالا کے دفتر لاہور پہنچا تو لالا کے پرسنل سیکریٹری نے کہا ہمارے پاس اس کتاب کی صرف ایک ہی کاپی موجود ہے – یہیں بیٹھ کر پڑھ لیں ، ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں – میں نے وہیں بیٹھ کر کتاب پڑھ لی – اتنی پسند آئی کہ سیکریٹری صاحب سے اجازت لے کر پوری کتاب کی فوٹو سٹیٹ کاپی بنوا کر لے آیا –
——————– رہے نام اللہ کا –16  فروری  23-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درد کا سفیر کے بعد میری نثر کی بقیہ تین کتابیں ( پسِ تحریر ، جان ملٹن اور تاریخِ انگریزی ادب ) اہلِ علم و ادب کے ذوق کی تسکین کا سامان فراہم کرتی ہیں –
پسِ تحریر 6 لیجنڈ افسآنہ نگاروں ( ممتاز مفتی، میرزا ادیب ، شفیق الرحمن ۔ احمد ندیم قاسمی ، رام لعل اور ڈاکٹر سلیم اختر) کے قلمی انٹرویوز پر مشتمل ہے – میں نے ان شخصیات کو تقریبا پچاس سوالات پر مشتمل سوال نامہ ڈاک سے بھیجا اور ان کے جوابات کو کتاب کی شکل میں مرتب کر دیا – ان شخصیات کا انتخاب اس بنا پر کیا کہ عمر کے حساب سے یہ لوگ زیادہ عرصہ تک دستیاب نہ رہتے – آج ان 6 شخصیات میں سے کوئی بھی اس دنیا میں موجود نہیں – ایک ایک کرکے سب زیرِ زمین جا سوئے – ان میں سے ہر فرد ادب کی تاریخ کا ایک الگ باب تھا – ان کی تحریروں کا مطالعہ کیئے بغیر افسانہ نگاری کی تاریخ کا علم نامکمل رہتا ہے – ہر ایک کا اپنا انداز اور اپنے موضوعات تھے –
ممتاز مفتی کے افسانے انسان کی نفسیات ، شخصیت اور سماجی رویوں کے پرت کھولتے ہیں – دو ضخیم جلدوں ( علی پور کا ایلی ، ایلی اور الکھ نگری) پر مشتمل مفتی صاحب کی کھُلی ڈُلی آپ بیتی ناول اور آپ بیتی کا حسین امتزاج ہے –
مفتی صاحب کے والد محترم ایجوکیشن آفیسر تھے ، کُچھ عرصہ میانوالی میں بھی رہے – مفتی صاحب نے ابتدائی تعلیم رائے موہن رام ہائی سکول ( موجودہ گورنمنٹ ہائی سکول میانوالی) میں حاصل کی – اس دور کے میانوالی کی کُچھ یادیں بھی مفتی صاحب کی تحریروں میں ملتی ہیں-
پسِ تحریر کی اشاعت کے کُچھ عرصہ بعد خبر ملی کہ مفتی صاحب بیمار ہیں – میں نے عیادت کے لیئے خط لکھا – مفتی صاحب کا جواب یہ تھا –
میری عمر اس وقت 89 سال ہے – اس عمر میں بیماری جانے کے لیئے ، لے جانے کے لیئے آتی ہے ——- سامان باندھ کر سٹیشن کے پلیٹ فارم پر بیٹھا گاڑی کا انتظار کر رہا ہوں –
چند روز بعد خبر آئی کہ مفتی صاحب گاڑی میں بیٹھ کر اپنی آخری منزل کی جانب روانہ ہو گئے –
—————– رہے نام اللہ کا —-17  فروری  23-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پس تحریر میں شامل 6 معتبر ادبی شخصیات کے قلمی انٹرویوز کے علاوہ ان میں سے ہر شخصیت کا مختصر تعارف ، پکچر، قلمی تحریر کا نمونہ اور ان کی لکھی ہوئی کتابوں کی فہرست بھی کتاب کی زینت ہے۔
مجھ سے خط و کتابت میں ان تمام شخصیات نے میری کاوش کو سراہا، کیونکہ جیسا کام میں نے کیا، پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ان شخصیات کے بارے میں ریسرچ کے لیئے میری کتاب بہت کار آمد ثابت ہو سکتی ہے۔ اسی لیئے ملتان یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹرانوار احمد صاحب نے میرے نام خط میں لکھا کہ انہوں نے پس تحریر شعبہ اردو کی لائبریری میں رکھوا دی ہے تاکہ ان ادبی شخصیات پر ریسرچ کرنے والے لوگ اس کتاب سے مستفید ہو سکیں۔
فیس بک کے ساتھیوں کی سہولت کے لیئے میرا ارادہ ہے کہ اپنی اردو کی پانچوں کتابیں پی ڈی ایف فارمیٹ میں فراہم کر دی جائیں۔ ان شآءاللہ عنقریب یہ کام ہو جائے گا۔ دعا فرمائیں کہ یہ کام جلد مکمل ہو جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔18  فروری  23-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری اُردو نثر کی تیسری کتاب” جان ملٹن ” مشہور و معروف انگریز شاعر جان ملٹن (1608 — 1674) John Milton کی شخصیت اور فن کا احاطہ کرتی ہے – ملٹن کی اہمیت چارسو سال بعد آج بھی برقرار ہے – آج بھی دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کے انگریزی ادب کے کورس میں ملٹن کی شاعری پڑھی اور پڑھائی جا رہی ہے – ملٹن کے فن اور شخصیت کے بارے میں 400 سے زائد کتابیں شائع ہو چُکی ہیں – ہر سال تقریبا ڈیڑھ سو تحقیقی مضامین شائع ہوتے ہیں – ملٹن نے کیمبرج یونیورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کی تھی – اس یونیورسٹی ًمیں ملٹن پر اعلی سطح کی ریسرچ کے لیئے ملٹن ڈیپارٹمنٹ کے نام سے ایک الگ شعبہ بھی قائم کیا گیا – ملٹن ریویو کے نام سے ایک سہ ماہی رسالہ بھی جاری ہوا جس میں ملٹن کے بارے میں مضامین شائع ہوتے ہیں – شیکسپیئر کے بعد ملٹن کو انگریزی زبان کا سب سے بڑا شاعر مانا جاتا ہے –
میری ملٹن سے محبت کی وجہ اس شخص کا اللہ کی ذات پر غیر متزلزل ایمان ہے – قصہ آدم و ابلیس کے حوالے سے دانشور لوگ اللہ کے علم اور قدرت پر اعتراض کرتے تھے کہ اگر اللہ کو یہ علم ہوتا کہ ابلیس نافرمانی کرے گا تو اُسے پیدا ہی نہ کرتا – اور جب اُس نے نافرمانی کی تو اُسے وہیں ختم کر دیتا-
ملٹن نے ان اعتراضات کے جواب میں دس ہزار سے زائد مصرعوں کی شاہکار نظم Paradise Lost لکھی ، اس نظم کے آغاز ہی میں بتادیا کہ یہ نظم لکھنے کا مقصد ہے
To assert eternal Providence
And justify the ways of God to Men
یعنی یہ ثابت کرنا ہے کہ اللہ جو کُچھ بھی کرے انسان کو بالآخر اس سے فائدہ ہی ہوتا ہے اس لیئے میں اس نظم میں قصہ آدم و ابلیس میں اللہ تعالی کی وکالت کرنا چاہتا ہوں –
ملٹن کو بچپن ہی سے اپنی اعلی تخلیقی صلاحیتوں کا ادراک تھا ، اس لیئے وہ ادب میں ایک بے مثال تخلیق کا اضافہ کرنا چاہتا تھا ، یہ کام اُس نے پچاس سال سے زائد عمر میں Paradise Lost لکھ کر اُس وقت سرانجام دیا جب وہ اندھا ہو چکا تھا – اللہ نے اس کے یقین کی لاج رکھ لی –
چند ماہ پہلے ملٹن کے بارے میں کُچھ مفصل پوسٹس لکھی تھیں – آج تو صرف سرسری سا تعارف کرایا ہے ، کیونکہ میرا اصل موضوع ملٹن کے بارے میں اپنی کتاب ہے
کتاب کا مفصل تعارف ان شآءاللہ کل لکھوں گا –
—————– رہے نام اللہ کا –19  فروری  23-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندازِ تحریر اور دلچسپی کے لحاظ سے میری کتاب درد کا سفیر اور جان ملٹن میں کوئی فرق نہیں – جان ملٹن میں بھی وہی کُھلا ڈُلا بے تکلف اندازِ تحریر شروع سے آخر تک برقرار رہتا ہے – واقعات بھی نہایت دلچسپ ہیں – درد کا سفیر کی طرح یہ کتاب کبھی ہنساتی ، کبھی رُلاتی ہے – بہت سے صاحبِ علم و دانش لوگوں نے کتاب میں دی ہوئی معلومات کے علاوہ اندازِ تحریر کو بھی بہت سراہا ہے –
ملٹن اور لالا عیسی خیلوی میں ایک مشترک خُوبی یہ بھی تھی کہ ملٹن اچھا خاصا گلوکار بھی تھا – اُس کے والد تاجر کے علاوہ خاصے کامیاب موسیقار بھی تھے – وہ جب ملٹن کے ہاں لندن میں مقیم تھے تو وہ ملٹن کی شاعری کی دُھنیں بناتے اور باپ بیٹا مل کر گایا کرتے تھے – افسوس کہ اُس وقت ریکارڈنگ کی سہولت موجود نہ تھی ، اس لیئے وہ نغمے فضاؤں میں بکھر کر غائب ہو گئے –
یہ کتاب لکھنے سے پہلے میں نے ملٹن کے بارے میں تاریخِ انگریزی ادب کی نصف درجن مستند کتابوں کے علاوہ ملٹن پر Frank Kermode کی مشہورومعروف کتاب ، T S Eliot کے ملٹن پر مقالات ، اور جدید ترین تحقیق پر مبنی کتاب Cambridge Companion to Milton سے استفادہ کیا – ملٹن کی شخصیت اور حالات زندگی کے بارے میں معلومات A N Wilson کی کتاب The Life of John Milton سے حاصل کیں –
ایک بار پھر کہوں گا کہ دلچسپی کےلحاظ سے یہ کتاب درد کا سفیر سے کم نہیں –
——————– رہے نام اللہ کا-20 فروری  23-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ہمارے باباجی ملک محمداکبرعلی کی برسی ہے –
اپنے والد کی تعریف کرنا رسمِ دُنیا بھی ہے ، مگر ہمارے بابا جی کو ربِ کریم نے واقعی کُچھ منفرد خُوبیوں سے نوازا تھا – گورے چٹے ساڑھے چھ فٹ قد کے جوان ، شکل و صُورت اور لباس سے انگریز لگتے تھے ، مگر انگریزوں جیسے سراپا والے اللہ کے بندے نے زندگی بھر نہ کوئی نماز قضا کی ، نہ روزہ – ڈیوٹی پہ ہمیشہ کوٹ پتلون اور سر پہ ہیٹ پہن کر جاتے تھے – کبھی شلوار قمیض میں ڈیوٹی پر جاتے نہ دیکھا – گھر میں قمیض اور دھوتی اُن کا پسندیدہ لباس تھا –
محکمہ تعلیم میں اے ای او ، ہیڈماسٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر سکولز کے مناصب پر فائز رہے – گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفہ اور ریاضی (ان مضامین کے نام سُن کر ہی لوگوں کو پسینہ آجاتا ہے ) کے ساتھ فرسٹ ڈویژن میں بی اے کیا – پہلی جنگ عظیم کا دور تھا، اتنی اعلی تعلیم کے ساتھ فوج میں کمیشن نہایت آسانی سے مل سکتا تھا – اگر فوج میں جاتے تو یقینا جنرل ریٹائر ہوتے – مگر دادا جی نے کہا انگریزوں کے مفادات کے لیئے جنگ کرنا جہاد نہیں – اس جنگ میں موت بھی شہادت شمار نہیں ہوگی – دادا جی کے حُکم کی تعمیل کرتے ہوئے بابا جی فوج کی بجائے محکمہ تعلیم سے وابستہ ہو گئے – قابلیت اور دیانت داری کی بنا پر پُورے پنجاب میں مشہور تھے –
انگریزی زبان پر غیر معمولی عبور کے علاوہ پشتو بھی پٹھانوں کے مخصوص لب و لہجہ میں بڑی روانی سے بول لیتے تھے – کسی پشتو بولنے والے پٹھان سے بابا جی کو اردو یا پنجابی میں بات کرتے کبھی نہ دیکھا – ان سے ہمیشہ پشتو میں بات کرتے تھے- اسی وجہ سے ضلع میانوالی کے پشتون بیلٹ ( چاپری ، تبی سر، ٹولہ منگلی ) وغیرہ کے پشتون بابا جی کو پیرو مرشد سمجھتے تھے- جب بابا جی حلقہ کالاباغ کے اے ای او تھے اس پشتون علاقے میں بے شمار بزرگ ان کے دوست بن گئے – ان کے اعزاز میں بڑی بڑی دعوتیں ہوا کرتی تھیں –
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا——————– رہے نام اللہ کا —21  فروری  23-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُردو نثر کی میر ی چوتھی کتاب “ تاریخِ انگریزی ادب“ کتاب محل اُردو بازار لاہور نے پچھلے سال شائع کی – اُردو میں انگریزی ادب کی تاریخ کی یہ پہلی کتاب ہے – اس سے پہلے اُردو میں انگریزی ادب کی مکمل تاریخ کی کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی – ڈاکٹر جمیل جالبی کی کتاب “ ارسطُو سے اِیلیئٹ تک“ صرف ادب کی تنقید کا احاطہ کرتی ہے – انڈیا میں ایک دو کتابیں شائع ہوئیں ، مگر وہ انگریزی کی کتب کا ترجمہ ہیں –
میری کتاب میرے شوق اور تاریخ انگریزی ادب کے وسیع مطالعہ کا حاصل ہے – اپنی پسند کے شاعروں ، ڈراما نگاروں ، ناول نگاروں اور نثر نگاروں کے بارے میں مفصل معلومات حاصل کرنے کا شوق سر پہ سوار ہوا تو میں نے تاریخ ادب کی تمام مستند کتابیں کھنگال ڈالیں – اس وقت تک اپنی کتاب لکھنے کا خواب و خیال بھی نہ تھا –
دوتین سال قبل کتاب محل پبلشرز کے مالک سید محمدعلی جاوید صاحب نے اردو میں انگریزی ادب کی تاریخ لکھنے کی فرمائش کی – انہوں نے تو انگریزی کی ایک کتاب کا ترجمہ کرنے کا کہا تھا ، مگر اپنا دل نہ مانا کیونکہ ترجمہ تو دونمبر قسم کا کام ہوتا ہے – علی صاحب سے بات کی تو انہوں نے کہا ترجمے کو چھوڑیں اپنی مرضی سے کام کریں –
یُوں تقریبا دوسال کی محنت سے کتاب مکمل ہوئی – کتاب پر کام میں نے اہلیہ کی طویل بیماری کے دوران بھی جاری رکھا ، اس لیئے اس کتاب کی اُن سے بھی نسبت بن گئی ، جب یہ کتاب منظرعام پر آئی تو وہ یہ دنیا چھوڑ کر عدم آباد مقیم ہو چُکی تھیں ، تاہم اس نسبت کی بنا پر میں نے یہ کتاب اُن کے نام سے منسُوب کردی –
—————— رہے نام اللہ کا ——-٢٢ فروری  23-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چچا غالب نے کہا تھا ———
کُچھ شاعری ذریعہء عزت نہیں مجھے
چِٹا کُؤڑ ———— ان بزرگوار کی تمام تر عزت کا سبب صرف اور صرف شاعری ہی ہے – عزت بھی ایسی کہ اقبال اور فیض جیسے لوگ بھی انہیں پِیرومُرشد مانتے ہیں –
اسی طرح اگر میں کہوں کہ جی مجھے تو عزت و مقبولیت اپنی انگریزی کالم نگاری اور اُردو نثر نگاری سے ملی ، تو یہ بھی چِٹا کُوڑ ہی ہوگا ، کیونکہ انگریزی اور اُردو نثر نگاری کے آغاز سے بہت پہلے میری شاعری دُنیا بھر میں میری پہچان بن چکی تھی — لاکھوں لوگ مجھے
سچی ڈس وے ڈھولا کل کیوں نئیں آیا
اور — نِت دِل کُوں آہدا ہاں کل ماہی آسی
جیسے گیتوں کے حوالے سے جانتے اور چاہتے تھے – آج سے سات سال پہلے جب میں نے فیس بُک کی دنیا میں قدم رکھا تو انہی لوگوں نے میرا بھرپُور استقبال کیا – میرے فرینڈز اور فالوورز میں بھی خاصی بڑی تعداد انہی لوگوں کی ہے –
ایک فارسی شعر میں غالب نے کہا تھا
فارسی بِیں تا بہ بِینی نقش ہائے رنگ رنگ
بگذر از مجموعہء اُردو کہ بے رنگِ من است
( رنگا رنگ شاعر ی دیکھنی ہو تو میرا فارسی کلام دیکھو ، میری اُردو شاعری کو چھوڑو کہ اس کا تو کوئی رنگ ہی نہیں)
غالب کا یہ دعوی بھی چِٹا کُوڑ ہی نکلا ، کیونکہ غالب کو تمام تر شہرت و مقبولیت تو اُردو شاعر ی سے ملی –
ایسا ہی ہاتھ قسمت میرے ساتھ بھی کر گئی – مجھے فخر تو اپنی اُردو شاعری پہ تھا ، مگر شہرت و مقبُولیت مجھے سرائیکی گیتوں سے ملی — حالانکہ میں تو لالا عیسی خیلوی سے کہا کرتا تھا ، یار یہ منجی پِیڑھی ٹھوکنے والا کام مجھ سے نہیں ہوتا – اور آگے سے لالا کہتا تھا “ تیڈے آر کوئی ہور کر سگے ہا تاں تیکوں آکھاں ہا ؟؟؟؟“
—————– رہے نام اللہ کا —23  فروری  23-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ کے ایک نیک بندے سے سُنا تھا کہ رب کے معنی صرف روٹی دینے والا نہیں ، بلکہ رب انسان کو جوکچھ دیتا ہے اُس کے مطابق اُس انسان کو مقام دلوانا بھی اپنے ذمے لے لیتا ہے – اُس مقام تک پہنچنے کے لیئے وسائل بھی وہ خود فراہم کر دیتا ہے –
اپنے معاملے میں یہی ہوا – داؤدخیل جیسی دُوراُفتادہ جگہ کے ایک شخص کو ربِ کریم نے اُردو ، انگریزی اور سرائیکی زبان میں غیر معمولی مہارت عطا کر دی – پھر کسی سفارش یا وسیلے کے بغیر اُسے انگریزی اخبارات کا کالم نگار بنا دیا- کسی سفارش کے بغیر ایم اے انگلش کے نصاب سے متعلق بارہ کتابوں کا مصنف بھی بنا دیا –
میری شاعری کو دُنیا میں متعارف کروانے کے لیئے لالا عیسی خیلوی کی آواز فراہم کردی – عیسی خیل کالج میں میرا تقرر ، لالا سے دوستی اور گیت نگاری قدرت کے اسی پراجیکٹ کا حصہ تھا –
میری اُردو نثر کو دُنیا میں متعارف کرانے کے لیئے مجھے درد کا سفیر جیسی دلچسپ اور مقبول کتاب لکھنے کی توفیق بھی عطا کر دی – میں نے تو یہ کتاب لکھنے کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہ تھا – ایک دن اچانک کُچھ لکھنے کو جی چاہا تو یہی موضوع ذہن میں در آیا اور میں نے اس پر پُوری کتاب لکھ ڈالی –
میری اُردو نثر کے وسیع تر تعارف کے لیئے مجھے فیس بُک کی وساطت سے دُنیا بھر میں پھیلے ہوئے آپ جیسے مخلص ساتھی مہیا کر دیئے –
اللہ کریم کا ایک خصوصی کرم یہ بھی ہے کہ اُردو ہو ، انگریزی یا سرائیکی ، لکھنے میں ذرا سی بھی جھجک یا ٹینشن محسوس نہیں بوتی ، بلکہ لکھتے وقت طبیعت بہت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے – کسی محنت کے بغیر لفظ ذہن سے کاغذ یا فون/ لیپ ٹاپ کی سکرین پر سلیقے سے اپنی اپنی جگہ بیٹھتے جاتے ہیں – اس میں میرا تو کوئی کمال نہیں، سب دینے والے کا کرم ہے ، ورنہ میں تو جب اس دنیا میں آیا کسی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں بول سکتا تھا – الحمد للہ علی ذالک –
—————— رہے نام اللہ کا —–28  فروری  23-منورعلی ملک۔۔۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top