MERA MIANWALI MARCH – 2023

MERA MIANWALI MARCH – 2023

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہاں گیا مرا بچپن —
ایک دن ماسی گُل بختے نے مجھ سے کہا ذرا میرے ساتھ چلو تُم سے وزیراں بیٹی کے نام خط لکھوانا ہے – قبیلہ بہرام خیل کی ماسی گُل بختے ہماری امی کی سہیلی تھیں – اُن کے حکم کی تعمیل میں میں قلم دوات اور کاغذ لے کر اُن کے ہمراہ اُن کے گھر پہنچا – میں اُس وقت تیسری کلاس میں پڑھتا تھا – خط ماسی کے داماد چاچا محمد خان کے نام تھا جو کراچی پولیس میں ملازم تھے- ماسی بہت غصے میں تھیں ، جوجو گالیاں وہ بولتی گئیں میں نے جُوں کی تُوں لکھ دیں – خاصا لمبا خط تھا –
کُچھ دن بعد چاچا محمد خان داؤدخیل آئے تو ماسی سے کہا میں اُس جوان سے ملنا چاہتا ہوں جس نے وہ خط لکھا تھا – میں ماسی کے ساتھ اُن کے گھر پہنچا تو چاچا محمد خان نے مجھے پیار سے گلے لگا لیا – بہت ہنسے ، کہنے لگے بیٹا تُم نے کمال کردیا – آپ کا خط میں نے کئی دوستوں کو بھی سُنایا – سب وہ گالیاں پڑھ کر بہت ہنسے –
میں نے کہا چاچا ،کمال تو ماسی کا ہے ، گالیاں اُنہوں نے دی تھیں ، میں نے تو صرف وہ گالیاں لکھ دی تھیں –
—— رہے نام اللہ کا –1  مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح دس گیارہ بجے خاکی وردی میں ملبُوس ڈاکیہ چمڑے کا تھیلا کندھے سے لٹکائے ڈاک خانے (پوسٹ آفس) سے نکل کر گاؤں کے دورے پر روانہ ہوتا – سائیکل کی گھنٹی کی آواز سُنتے ہی اپنے پیاروں کے خطوں کے منتظر لوگ گھر سے نکل کر اُمید بھری نظروں سے ڈاکیئے کو آتے دیکھنے لگتے – اگر ڈاکیہ گھر کے سامنے نہ رُکتا تو آنکھوں میں خوشی کی چمک حسرت بھری آہ یا آنسوؤں میں ڈھل جاتی – جس گھر کے پتے کا خط نکل آتا اُس گھر کے لوگوں کی تو گویا عید ہوجاتی – اگر گھر میں کوئی تعلیم یافتہ فرد نہ ہوتا تو خط پڑھ کر سُنانے کا کام بھی ڈاکیئے کو سرانجام دینا پڑتا – خط کی خبر پُورے محلے میں پھیل جاتی – خط میں لکھی ہوئی باتیں پُورے محلے سے شیئر کی جاتیں –
خط کا جواب لکھنے کاکام سکول ماسٹر یا سکول کے کسی بچے سے لیا جاتا – گھر کے علاوہ محلے بھر کی خبریں بھی خط میں لکھوائی جاتیں – فلاں گھر کے بیٹے یا بیٹی کی شادی ہوئی – فلاں گھر کا فلاں فرد فوت ہو گیا ، محلے کا فلاں شخص بیمار ہے – گھر کی مُرغی انڈوں پر بیٹھی تھی ، اتنے چُوچے اتنی چُوچیاں انڈو ں سے نکلیں – اس طرح کی بھولی بھالی معصوم خبریں ہر خط کی زینت بنتی تھیں –
رقم بھیجنے کا وسیلہ بھی محکمہ ڈاک تھا – اس طریقے کو منی آرڈر Money order کہتے تھے – منی آرڈر کا فارم پُر کرنے کے بعد فارم اور رقم پوسٹ ماسٹر کے حوالے کر دی جاتی تھی – فارم ڈاک کے ذریعے دو چاردن میں منزلِ مقصود پر پہنچتا تو فارم پر رقم وصول کرنے والے فرد کے دستخط یا انگوٹھا لگوا کر رقم اُس کو دے دی جاتی تھی – منی آرڈر بھی ڈاکیہ لاتا تھا – اس خدمت کے عوض لوگ اپنی خوشی سے کُچھ پیسے ڈاکیئے کو دے دیتے تھے – ضعیف العمر والدین بیٹوں کے منی آرڈر کے منتظر رہتے تھے –
موبائیل فون میں لاکھ عیب سہی اس کا یہ فائدہ کیا کم ہے کہ خط کے انتظار میں کئی کئی دن پریشان رہنے کی بجائے دُور دراز علاقوں میں مقیم بیٹوں ، بیٹیوں ، بہن بھائیوں اور دوستوں سے فوری رابطے کی سہولت چوبیس گھنٹے میسر ہے – رقم بھیجنے اور وصول کرنے کی سہولت بھی موبائیل فون فراہم کر دیتا ہے –
—————– رہے نام اللہ کا —2  مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔۔

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل کی پوسٹ پر مدینہ ء منورہ سے میرے دو سعادت مند بیٹوں کے کمنٹس نے دل خوش کردیا – احمد نواز خان نیازی نے اپنے کمنٹ میں لکھا :
اللہ اور اللہ کا حبیب ِ پاک آپ کو بُلا لے -آپ کے لیئے دعا گو ۔۔۔۔۔ مدینہ پاک سے احمد نواز خان نیازی –
عامر ملک نے لکھا : السلام علیکم سر، میں ابھی بھی روضہء رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بیٹھا ہوں – میرے لیئے آپ حُکم کریں
جواب میں میں نے کہا بس میرے آقا کی خدمت میں میرا سلام عرض کر دیں ٠
عامر نے میرے جواب کے جواب میں لکھا : جی سر، ضرور، ابھی آپ کے سلام عرض کر دیتا ہوں – اللہ پاک اپنے پیارے رسول پاک کے صدقے آپ کے لیئے آسانیاں پیدا کر دے –
ربِ کریم میرے ان دو بیٹوں کو بے حساب جزائے خیر عطا فرمائے کہ میری وہاں حاضری لگوا دی – ایسے کئی اور بیٹے بھی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ آتے جاتے رہتے ہیں ، اور فیس بُک کے وسیلے سے مجھ سے رابطے میں رہتے ہیں – خوشاب کے فاروق سید بھی بارگاہِ رسالت مآب میں میرے سلام عرض کرتے رہتے ہیں – مکہ معظمہ میں معظم عباس سپرا مجھ سے ملنے آئے تھے – فاروق سید کے کزن شعیب سید صاحب تقریبا 1000 کلومیٹر کے فاصلے سے ملاقات کے لیئے حرم ِ کعبہ پہنچے – صبح انہوں نے ڈیوٹی پہ بھی جانا تھا- کُچھ دیر بیٹھ کر واپس چلے گئے –
اللہ کریم کا یہ خاص کرم بھی میرے لیئے بہت بڑا اعزاز ہے کہ میری پوسٹس مکہ ء معظمہ اور مدینہ ء منورہ میں بھی پڑھی جاتی ہیں –
میری فجر کی دعاؤں میں تمام فیس بُک فرینڈز کے لیئے خصوصی دعا بھی شامل ہوتی ہے – رب ِ رحمن و رحیم ہمارے اس تعلق کو ہم سب کے لیئے باعث ِ خیرو برکت بنادے –
—————– رہے نام اللہ کا ———-———4  مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیہات میں فروٹ کی دُکانیں تو نہیں ہوتی تھیں ، مگر پُوری کائنات کو رزق دینے والا رب دیہات کے لوگوں کو بھی فروٹ سے محروم نہیں رہنے دیتا تھا – دو چار قسم کے سادہ مگر لذیذ پھل بہار کے موسم کے ساتھ ہی وارد ہوتے تھے – یہ خود رو پھل مُفت دستیاب ہوتے تھے – ہمارے داؤدخیل کے علاقے میں بیر ، پِیلُو اور ڈیہلے اس موسم کی سوغات تھے –
بیر کے درخت کئی گھروں میں بھی تھے – ہمارے اپنے گھر میں بھی بیر کے دو بڑے درخت تھے – ہردرخت کے بیروں کا اپنا الگ ذائقہ تھا – سحر کے وقت جابہ کی تیز ہوا چلتی تو پکے ، سُرخ شہد جیسے میٹھے بیروں کی بارش برسنے لگتی – صبح ہم اُٹھتے تو بیروں سے زمین لالولال ہوئی پڑی ہوتی تھی –
شہر سے باہر ریلوے لائین کے پار تھل کے علاقے میں بھی بیر کے بڑے بڑے درخت ہوا کرتے تھے – ان درختوں کے بیر سائیز میں بڑے اور بے حد لذیذ ہوتے تھے – میں ، میرے کزن ملک ریاست علی ، طالب حسین شاہ اور محمد صدیق خان بہرام خیل ہر دوسرے چوتھے دن ان بیروں کا شکار کِیا کرتے تھے – ریاست بھائی درختوں پر چڑھنے کے ماہر تھے – وہ بیر کے درخت پر چڑھ کر درخت کی شاخوں کو زور سے جُھنڑاتے ( ہلاتے) اور زمین پر بیروں کے ڈھیر لگ جاتے تھے – بیر چُن کر چار برابر حصوں میں تقسیم کیئے جاتے تھے – ریاست بھائی کنڈے پُڑاوی ( کانٹے چُبھنے کا معاوضہ) مُٹھی بھر بیر زائد وصول کرتے تھے –
—————– رہے نام اللہ کا –5  مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پِیلُوں پکیاں نی وے آ چُنڑُوں رَل یار
خواجہ فرید صاحب کا یہ گیت پِیلُوں کے تناظر میں پُورے سرائیکی کلچر کا سماجی اور جذباتی منظر نامہ پیش کرتا ہے – پِیلُوں لال ، سبز ، زرد رنگ کا بیر سے ذرا چھوٹا ، نرم رسیلا میٹھا پھل ہے – مٹھاس اور توانائی کے سوا اس میں اور کُچھ نہیں ہوتا ، مطلب یہ کہ اس پھل سے پیٹ نہیں بھرتا – بس زبان کی چَس ہی ملتی ہے – یُوں سمجھیئے کہ پِیلُو شربت سے بھرے ہوئے لال ، سبز اور زرد رنگ کے کیپسُول ہوتے ہیں – زیادہ کھانے سے زبان پر جلن سی محسوس ہوتی ہے –

پِیلُوں کے درخت کو ہم جالھ کہتے تھے – میاں رِمدی صاحب اور پِیر موج علی شاہ صاحب کے مزاروں کے گرد جالھ کے درختوں کے جُھنڈ ہوا کرتے تھے – میاں رمدی صاحب والے درخت تو مزار کے متولیوں نے کٹوا دیئے ، پیر موج علی شاہ کے مزار والا جھُنڈ برقرار رہا –
مزاروں کے آس پاس والے درختوں کو جِنات کا مسکن سمجھا جاتا تھا ، اس لیئے ان درختوں کے پیلُوًں کو ہاتھ لگانے سے بھی لوگ ڈرتے تھے – محلہ امیرے خیل میں دوچار درخت ہوا کرتے تھے – ان درختوں پر چڑھ کر پِیلُوں ہم نے بھی بہت کھائے- جالھ کی جڑ یا ٹہنی کا مسواک بہترین مسواک سمجھا جاتا ہے- اب تو پِیلُوں صرف کالاباغ سبزی منڈی میں ہی دیکھنے میں آتے ہیں- بہت سی دوسری چیزوں کی طرح پِیلُؤں بھی بالآخر یادوں کے مدفن میں دفن ہو جائیں گے –
ڈاڈا شاہ عبدالوھاب صاحب کا دربار ککڑاںوالہ سے شمالی پہاڑوں میں ھے ھمارے علاقے سے لوگ دنبوں کی منت مانتے اور شادی کی طرح سے لوگون کی دعوت ھوتی… آج بھی ی رسم ھے… ککنگ کا ماحول ڈاڈے کے دربار پ ھے وھین پ دنبہ ذبح کر کےپکایا اور کھایا جاتا… گرمیوں مین پیلون مل جاتی ھین… روٹی پکنے تک چھور چھکر پیلون کھانے ھائیکنگ کرتے… مزے کی بات ھوتی… پیٹ تو نہین بھرتا لیکن… ھاتھ سے توڑ کے کھانے کا اپنا ایک لطف ھوتا…
پشتون ماسیاں سبزی منڈی کالا باع مین پیلوں بیچنے آتی تھین گھرون کیلئے ھم ان سے خریدتے… اس سارے ماحول میں کشتی کا سفرماڑی شہر کی طرف یا کالاباغ کی طرف سے ھوتا جس کا اپنا ایک لطف تھا.————– رہے نام اللہ کا –6  مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ کریم ہم سب کی شب براءت کی عبادات اور دعائیں قبول فرمائے۔

7  مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔۔

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شبِ براءت کو ہمارے ہاں “مُساراں آلی عِید“ کہتے تھے – مُسارے مٹی کی بنی ہوئی پلیٹیں ہوتی تھیں جن میں لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹُکڑے بھر کر سرِشام جلا ئے جاتے تھے- یہ بچوں کا کھیل تھا –
اصل شُغل اس شام آتشبازی ہوا کرتی تھی – شبِ براءت سے ایک آدھ دن پہلے دُکانوں پر قسم قسم کے پٹاخوں کی سیل لگ جاتی تھی – بچے یہ پٹاخے خرید کر شبِ براءت کی شام چلانا شروع کر دیتے تھے – ہر طرف ٹھاہ ٹھاہ ، شُوں شُوں اور زُوں زُوں کی آوازیں گُونجنے لگتی تھیں – فضا ان پٹاخوں کے شعلوں اور چنگاریوں سے جگمگانے لگتی تھی –
“ہوائی“ نامی پٹاخے میزائیل کی طرح چنگاریاں برساتے ہوئے بہت بلندی پر جاکر رات کے اندھیرے میں گُم ہو جاتے تھے – کاغذ کی ایک انچ لمبی سُرخ رنگ کی ٹیوبیں چھوٹے بم کہلاتی تھیں – بم کے ایک سِرے سے نکلے ہوئے دھاگے کو آگ لگاتے ہی بم دھماکے سے پھٹ جاتا تھا – کاغذ کا بنا ہوا تین کونوں والا ایک پٹاخہ “کُکڑ“ کہلاتا تھا – اس میں بھی خاص قسم کا بارُود بھرا ہوتا تھا – کُکڑ کے ایک کونے سے نکلے ہوئے دھاگے کو آگ لگاتے تو کُکڑ شُوں شُوں کرتا ہوا اُچھل کُود کر ہلکے سے دھماکے کے ساتھ پھٹ جاتا تھا- ٹِین کی بنی ہوئی چھوٹی سی گول ڈبیہ کو جہاز کہتے تھے – اس کے دھاگے کو آگ لگاتے تو طیارے کی طرح زُووووں کی آواز کے ساتھ اُڑ کر سیدھا اُوپر بہت دُور تک چلا جاتا تھا – پُھلجڑیاں بھی ہوتی تھیں جن سے دُودھ جیسی سفید کِرنوں کی بارش سی برسنے لگتی تھی – ہم انہیں پُھلکیرنی کہتے تھے – کاغذ کی پٹی پر لگے ہوئے ناخن جیسے بارُود کو تِڑ تِڑ کہتے تھے – اسے دیوار یا پتھر پر رگڑنے سے تِڑتِڑ کی آواز کے ساتھ بارود جلنے لگتا تھا –
خوفناک دھماکے والی ہتھوڑیاں جنہیں ہم ہتھواڑی کہتے تھے ، اُن کی آواز سُن کر اڑوس پڑوس کے لوگ سہم جاتے تھے – اس لیئے ہتھواڑیوں کے دھماکے کرنے والوں کو بہت گالیاں پڑتی تھیں – ہتھواڑی کو بعض علاقوں میں “ڈَزی“ کہتے تھے –
بزرگوں کے لیئے تو شبِ براءت عبادت کی رات ہوتی تھی ، مگر بچے تو بچے ہوتے ہیں ، وہ اس رات مُساروں اور پٹاخوں سے دل بہلایا کرتے تھے –
شب برات پر چھوٹے بچوں کا ایک اور شغل بھی ھوتا تھا جو کہ ابھی شاید بہت ھی کم ھو گیا ھے۔ وہ یہ تھا کہ شب برات آنے سے پہلے کمہار مٹی کے چھوٹے چھوٹے گڑوی نما چیز بناتے تھے ان کو ڈولے کہتے تھے۔ ڈولہ کے اندر چار سے پانچ سوراخ بنا کر ان پر سرخ، سبز، پیلا، نیلا رنگ کے پنی کاغذ لگا تے تھے ۔ جونہی شب برات کی رات شروع ھوتی، اس ڈولے کے اندر سرسوں کے تیل سے جلتا ھوا ایک دیا رکھتے تھے جس سے ڈولے سے مختلف رنگ گی سحر انگیز روشنیاں نکلتی تھیں۔ وہ ڈولے لیکر بچے ٹولیوں کی شکل میں ڈھنگ ڈھنگ مسارے کے نعرے لگاتے ھوئے لوگوں کے گھروں میں جاتے تھے۔ گھر کے بزرگ ان بچوں کے ڈولوں میں 5، 10 پیسے کے سکے ڈالتے تھے۔ اور آخر میں ڈولوں کو دیوار پر مار کر توڑ دیا جاتا تھا۔
———————– رہے نام اللہ کا —–8  مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شب براءت پر آتش بازی کے حوالے سے بعض دوستوں نے اس رسم کی ابتدا کے بارے میں پُوچھا ہے – ابتدا کا تو پتہ نہیں ، ہم نے جب ہوش سنبھالا یہ رسم پہلے سے چل رہی تھی – البتہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ رسم ہندوؤں نے ایجاد کی تھی کیونکہ کھیل کُود اور ناچ گانا اُن کی تو عبادات میں شامل ہے –
قیامِ پاکستان سے پہلے ہندو مسلم مخلوط معاشرے میں بہت سے رسم و رواج مشترک تھے – ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی روایات میں سے کُچھ اچھی کُچھ بُری تھیں – آتشبازی یقینا اچھی روایت نہیں تھی ، لیکن بچوں کا شُغل بن جاتا تھا اس لیئے اس کو روا رکھا گیا – وقت گُذرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے مشاغل بھی بدلتے رہے – اس لیئے یہ رسم اب تو تقرئبا ختم ہو چُکی ہے –
ہندو ہمیں بہت سی کام کی باتیں بھی سکھا گئے – دیسی مٹھائیاں ٹانگری ، لاچی دانہ ، پتاسے ، توشہ ، چاول کی میٹھی پُھلیاں، ریوڑیاں ، بہت سی قسموں کے مرُنڈے , جلیبیاں ، پکوڑے وغیرہ ہندُو دکان دار بنایا کرتے تھے – اُن سے سیکھ کر مسلمان بھی یہ چیزیں بنانے لگے –
تہذیب کے اثرات دو طرفہ تھے – ہندوؤں نے بھی ہماری کئی روایات اپنا لی تھیں – ہندو شاعروں نے بہت خُوبصورت نعتیں اور مرثیئے بھی لکھے – انڈیا کے کئی شہروں میں محرم کے دنوں میں نیاز کا کھانا ہندو بھی تقسیم کرتے ہیں – میانوالی کے ایک بزرگ ہندُو چاچا منوھر لال جب تک زندہ رہے، ہر سال دِلی سے میانوالی آکر سلطان ذکری صاحب کے مزار پر کھانے کی دیگیں بنواکر زائرین میں تقسیم کیا کرتے تھے –
——————- رہے نام اللہ کا —9   مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر موسم کے کئی نام ہوا کرتے تھے –
مارچ اپریل کے موسم کو چیتر کہتے تھے – دوچار جماعتیں پڑھے لکھے لوگ اس موسم کو بہار ، اور کھٹِیٹ اَن پڑھ لوگ “ بیراں تے ڈَڈاں نا موسم “ کہتے تھے –
بیروں کا ذکر چند دن پہلے ہو چُکا ، آج کُچھ ذکر “ ڈَڈوں“ کا –
چنے جب تک پودے پر لگے رہتے ہیں انہیں ڈَڈے کہتے ہیں – ڈڈے دراصل چنے کے پودوں پر لگے سبز رنگ کے کیپسُول (ڈوڈے) ہوتے ہیں جن میں چنے کے دانے پرورش پاتے ہیں – عام طور پر ایک ڈڈے میں چنے کے دو دانے ہوتے ہیں – لیکن عام زبان میں ڈڈے سے مراد سبز کچے چنے ہوتے ہیں –
غذائی اجناس ( گندم ، باجرہ ، چاول ، جَو اور چنا وغیرہ ) میں سے کھانوں کی سب سے زیادہ ورائیٹی چنے کی بنتی ہے – کچے سبز چنے کسی مرچ مسالے کے بغیر بھی کھائے جاتے ہیں – ان کا سالن بھی بہت لذیذ بنتا ہے – کچے چنوں کی چٹنی ، خالص دیسی گھی اور پتلی نمکین لسی دوپہر کا بہترین کھانا سمجھا جاتا تھا –
چنے کے پودوں کو آگ میں جلاکر ڈڈے آگ میں بُھوننے کا عمل “تراڑآ“ کہلاتا تھا – پودے جل کر راکھ ہو جاتے تو راکھ میں سے بُھنے ہوئے ڈڈے نکال کر کھائے جاتے تھے – اس طرح سے بُھنے ہوئے چنوں کا اپنا الگ مزا ہوتا ہے – یہ الگ بات کہ راکھ میں ہاتھ مارنے سے ہاتھ منہ اور کپڑوں کا حشر نشر ہو جاتا تھا – عام طور پر تراڑا لگا کر چنے کھانے کی حرکت بچے کرتے تھے – ان کے ہاتھ منہ اورکپڑوں پر کالک کے داغ دیکھ کر ماؤں کی فریادیں پُورا محلہ سُنتا تھا –
ڈڈے کوئی نایاب چیز نہیں ، آج بھی ہوتے ہیں ، اور جو کُچھ میں نے آج بتایا ہے وہ سب کُچھ آج بھی ہوتا ہے – مزید تفصیلات بھکر کے علاقے کے دوست مجھ سے بہتر بیان کر سکتے ہیں ، کیونکہ جس طرح سیالکوٹ چاول کی پیداوار کا گڑھ ہے اسی طرح بھکر چنے کی پیداوار کا آبائی وطن ہے –
——————- رہے نام اللہ کا –11 مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گندم کا دلیہ اور گُڑ کا شربت اس موسم کا مقبول ناشتہ ہوا کرتا تھا – اسے ہم “چیتُر آلا اوگرا“ کہتے تھے – ویسے تو اوگرا ایک اور کھانے کا نام بھی تھا لیکن گندم کا دلیہ اور گُڑ کاشربت بھی اوگرا ہی کہلاتا تھا – پُرانے زمانے کے لوگ اسے بَھت یا کنجکاں بھی کہتے تھے –
یہ مخصؤص ناشتہ ہندوؤں کی ایجاد تھا ، مگر چونکہ حلال تھا اس لیئے مسلمان بھی بڑے شوق سے کھاتے تھے – نہایت لذیذ غذا اور معدے اور جگر کی گرمی کا بہترین علاج بھی تھا – دراصل یہ ناشتہ آنے والے گرم موسم کے خلاف مزاحمت کے لیئے معدے اور جگر کو قوت فراہم کرتا تھا –
بازاری دلیہ تو دیہات میں دستیاب نہیں ہوتا تھا ، اس کی جگہ خواتین چکی پر گندم دَل کر خود دلیہ بنا لیتی تھیں – رات کو یہ دلیہ پانی میں اُبال کر ، اور گُڑ کا شربت بنا کر الگ الگ برتنوں میں رکھ دیا جاتا تھا – گُڑ کے شربت کو بھی آگ پر دوچار منٹ اُبال لیا جاتا تھا – صبح سویرے ٹھنڈے ٹھار دلیئے میں ٹھنڈا ٹھار گُڑ کا شربت ملاکر کھایا جاتا تھا- کھاتےہی سینے میں ٹھنڈ پڑ جاتی تھی – ہفتے میں ایک دوبار یہ ناشتہ ہر گھر میں بنتا تھا –
اب تو کام بہت آسان ہوگیا ہے – ہر قسم کا دلیہ بازار سے مل جاتا ہے – صرف گُڑ کا شربت بنانے کی ذرا سی زحمت گوارا کر لیں تو بے مثال لذیذ ناشتہ بن جاتا ہے – دلیئے اور شربت کو ٹھنڈا کرنے کے لیئے فریج کی اضافی سہولت بھی ہر گھر میں موجود ہے – تاثیر کے لحاظ سے جَو کا دلیہ گندم کے دلیئے سے بہتر پے –
——- رہے نام اللہ کا —13 مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہ و سال کے ہندی حساب کے مطابق آج چیتر (چیت) کی پہلی تاریخ ہے – چیت ہندی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے – دیہات میں ماہ و سال کا یہی حساب چلتا تھا – اس کا کوئی تحریری کیلنڈر نہیں تھا – ہوتا بھی تو چِٹے اَن پڑھ لوگ کہاں پڑھ سکتے – یہ سارا حساب کتاب لوگوں کے دل و دماغ میں محفوظ ہوتا تھا – وہ جانتے تھے کہ آج کس ہندی مہینے کی کون سی تاریخ ہے – اپنے مستقبل کے کاموں کی منصوبہ بندی بھی وہ اسی حساب سے کرتے تھے – مہینوں کے نام ترتیب وار یہ تھے –
1 چیتر (چیت)
2۔ وساکھ (بیساکھ)
3، جیٹھ
4۔ ہاڑ (اساڑھ)
5 ، ساونڑں ( ساون )
6، بدھریوں (بھادوں)
7۔ اسیوں (اسوج)
8۔ کَتیوں ( کاتک)
9، منگھر (مگھر)
10، پوہ ( پوس)
11. مانہہ (ماگھ)
12. پھگن ( پھاگن)
چیتر بہار کا آغاز ہوتا ہے – سرسوں کے پُھولوں کا رنگ اس موسم کا غالب رنگ ہے – سردی سے مُرجھائے درخت اور پودے نئے پتوں کا نواں نکور سبز لباس پہن لیتے ہیں – رنگا رنگ پھول ان سبز پوش دُلہنوں کا ہار سنگھار بن جاتے ہیں – فضا میں خوشی کی ایک لہر سی دوڑ جاتی ہے – سردی کے ڈر سے چُھپے ہوئے ننھے مُنے پرندے آشیانوں سے نکل کر کُھلی فضا میں چلتے پھرتے اُڑتے چہچہاتے منظرِعام پر آجاتے ہیں –
چیتر کی بارش کے بارے میں کہا جاتا تھا —— وَسے چیتر ، نہ اماوے کھل نہ کھیتر۔۔۔۔۔۔

( چیتر میں بارش ہو جائے تو گندم کی پیداوار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ نہ کھلواڑوں میں سماتی ہے ، نہ کھیتوں میں)

 جب چیتر آتا تھا ۔ نائیوں کے بچے گھاس اور شرینی وغیرہ لے کے گھر گھر جاتے تھے اور بدلے میں ان کو معقول خدمت مل جاتی تھی ۔ یہ بہار کی خوشیوں اور گھاس کی آمد کا سندیسہ تھا ۔ کیونکہ ہمارے بارانی علاقوں میں بھیڑ بکریوں پہ گزارا ہوتا تھا جاڑے کی خشکی کے بعد گھاس کا نکلنا گلہ بانوں اور زمینداروں کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا مگر اب موسم میں خاصی تبدیلی آ چکی ہے فیکٹریوں کی وجہ سے چیتر میں وساکھ جیسا موسم بن گیا ہے ۔ پنکھے چل گئے ہیں
گندم اور سرسوں پکنے کے قریب ہے ۔ میرے خیال میں پھگن میں چیتر والا موسم شروع ہو گیا ہے ۔ گرمی ایک مہینا آگے چلی گئی ہے

14  مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔۔

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا زمانہ تھا ——
جب ہم کالج میں پڑھتے تھے ایک روپے میں چائے کے 8 کپ ملتے تھے – سگریٹ کا جو پیکٹ آج 300 روپے کا ہے اس کی قیمت ایک روپے سے بھی کم تھی – پنڈی میں مری روڈ پر ہمارے گھر کے قریب میرٹھ بیکری سے بہترین نفیس پیسٹری ایک روپے میں چار ملتی تھیں – کمیٹی چوک راولپنڈی سے صدر تک تانگے کا کرایہ چار آنے ( 1/4 روپیہ ) تھا – داؤدخیل سے پنڈی تک ٹرین کا کرایہ تین روپے تھا –
پھر صدر ایوب کا دور آگیا تو مہنگائی میں معمولی سا اضافہ ہوا – اس پر بھی حبیب جالب جیسا حساس شاعر چیخ اُٹھا – حبیب جالب نے کہا :
بیس روپے کا من آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا —! ! !
( آٹا بیس روپے من ہو گیا ، میں حیران ہوں لوگ خاموش کیوں ہیں ؟)
آٹے کی قیمت میں اضافے پر خاموش قوم کی غیرت کو بالآخر چینی کی قیمت میں چار آنے ( 1/4 روپیہ) اضافے نے جگا دیا – اس پر جو احتجاج شروع ہوا بالآخر صدر ایوب کی حکومت کے خاتمے کا سبب بن گیا – لیکن مہنگائی کو لگام کوئی نہ ڈال سکا – تب سے لے کر آج تک جو بھی حکومت آئی مہنگائی میں اضافہ ہی ہوا – انتخابی جلسوں میں ہر سیاسی جماعت کے لیڈر غریبوں کے چاچے مامے بن کر ان کی حالتِ زار پر مگرمچھ کے انسُو بہاتے رہے ، مگر اقتدار میں آنے کے بعد اپنے بھتیجوں بھانجوں کی طرف مُڑ کر بھی نہ دیکھا –
جی چاہتا ہے کسی دن حبیب جالب کی قبر پر جا کر کہوں بھائی صاحب مبارکاں ، آٹا 5000 روپے من ہوگیا ہے –
—————– رہے نام اللہ کا —15  مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرانے زمانے کے لوگوں کی اپنی ہیلتھ سائنس تھی ۔ وہ جانتے تھے کہ جسم کی اکثر بیماریوں کا آغاز معدے کی خرابی سے ہوتا ہے۔ اس لیئے وہ سال میں دو دفعہ، گرمی اور سردی کا موسم شروع ہونے سے پہلے (مارچ اور اکتوبر میں ) معدے کی مکمل صفائی کر لیتے تھے۔ بڑا سادہ مگر کارگر نسخہ تھا۔ ایک حصہ کیسٹر آئل (ہرنولی کے بیج کا تیل ) اور 5 حصے سونف کا عرق ملا کر صبح سویرے پی لینے سے ایک آدھ گھنٹے میں معدہ بالکل صاف ہو جاتا تھا۔ اس کے بعد 24 گھنٹے روٹی کی بجائے دال اور چاول کی کھچڑی یا گندم کے بھونے ہوئے دانوں کی لیٹی (پتلا حلوہ) کے سوا اور کچھ نہیں کھاتے تھے۔
وہ لوگ تھے تو ان پڑھ مگر صحت برقرار رکھنے کا ہنر جانتے تھے۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔18  مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
آج کی پوسٹ اپنے اُن پروفیسر ساتھیوں کے نام جو اب اس دُنیا میں موجود نہیں – کیا لوگ تھے
جن کے دم سے تھیں محفلیں آباد
شعبہء اُردو کے پروفیسر لالا رب نواز خان نیازی صاحب ، اقبال حسین کاظمی صاحب ، محمد فیروز شاہ صاحب ، احمد خان نیازی صاحب ، انوار العزیز کاظمی صاحب ، شعبہ ء انگریزی کے ملک سلطان محمود اعوان صاحب ، ملک غلام حسین اعوان صاحب ، شعبہ ء فارسی کے حافظ محمد عبدالخالق صاحب ، شعبہ ء تاریخ کے ڈاکٹر ملک اسلم گھنجیرہ صاحب ، اقبال قاسمی صاحب ، جغرافیہ کے ملک اسلم صاحب ، باٹنی کے ملک مقصود احمد صاحب ، زوالوجی کے پِیر محمد اقبال شاہ صاحب ، معاشیات کے عبدالخالق ندیم صاحب ، سیاسیات کے اسلم خان صاحب ، ریاضی ( میتھیمیٹکس) کے شیر گُل خان نیازی صاحب اسلامیات کے ڈاکٹر ملک غلام حیدر صاحب ، منصورالرحمن صاحب اور ہمارے جگر حاجی محمد اسلم خان غلبلی لائبریرین صاحب ۔۔۔۔۔۔
پرنسپل صاحبان میں سے ڈاکٹر رشید احمد صاحب، ڈاکٹر سرور خان نیازی صاحب ، ملک محمد انور میکن صاحب ، میاں محمد اشرف علی صاحب ، یہ سب لوگ اب تہہِ خاک آسُودہ ہیں – مگر ان کی محبتوں اور عنایات کی خوشبوؤں سے دل کا صحن آج بھی معطر ہے – ہر شخصیت سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں ، بہت سے واقعات ہیں ، سب لکھوں تو اچھی خاصی ضخیم کتاب بن جائے – رب کریم ہمارے ان مہربان ساتھیوں کی اگلی منزلیں آسان فرمادے – ان کی کمی بہر حال محسوس ہوتی رہے گی – شاعر نے سچ ہی کہا تھا ——-
جانے والوں کی کمی پُوری کبھی ہوتی نہیں
آنے والے آئیں گے ، لیکن خلا رہ جائے گا
———————- رہے نام اللہ کا —20 مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرندوں کی یاریاں —–
انسان سے پرندوں کی دوستی کی کئی دلچسپ مثالیں دیکھنے سُننے میں آتی ہیں – ہمارے محلے کے ایک بزرگ چاچا سہراب خان نے ایک سفید تیتر پالا ہوا تھا – رات کو تو کتوں بلیوں سے تحفظ کے لیئے اُسے پنجرے میں بند رکھتے تھے ، مگر دن کو اُسے کُھلا چھوڑ دیتے تھے – چاچا سہراب خان جہاں بھی جاتے تیتر اُن کے پیچھے بھاگتا ہوا اُن کے ساتھ جاتا تھا –
صدر ایوب کے دور میں جب ضلع میانوالی ڈی آئی خان ( ڈیرہ اسمعیل خان) ڈویژن میں شامل تھا ایک دفعہ ڈی آئی خان ڈویژن کے انسپکٹر آف سکولز کے ایم سرور (خان محمد سرور) صاحب داؤدخیل سکول کے معائنے کے لیئے تشریف لائے – کے ایم سرور ساڑھے چھ فٹ قد کے گورے چِٹے بھاری بھرکم ، کلین شیو ، کوٹ پینٹ میں ملبوس صآحب بہادر قسم کی شخصیت تھے – دیکھنے میں انگریز لگتے تھے ،مگر اندر سے اچھے خاصے صُوفی تھے – ان کے بارے میں سنا تھا کہ ایک نیل چاں (نیل کنٹھ) اُن کا دوست ہے – جہاں بھی جائیں وہ نیل کنٹھ وہیں پہنچ جاتا ہے – خان صاحب کے ساتھ گاڑی میں نہیں ، اُڑ کر ہر جگہ پہنچ جاتا ہے –
سکول کا معائنہ کرنے کے بعد خان صاحب ٹیچرز اور سٹوڈنٹس سے خطاب کرنے لگے تو اچانک نیل چاں کی ٹاں ٹاں کی آواز سُن کر انہوں نے فضا میں اُڑتے نیل چاں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
“ وہ آگیا ہے ، مجھے لینے کے لیئے – اب میں چلتا ہوں –
خان صاحب کے کھانے کا بندوبست داؤدخیل نہر کالونی کے ریسٹ ہاؤس میں تھا – گائیڈ کے طور پر مجھے اُن کے ساتھ بھیجا گیا – ہم گاڑی میں جا رہے تھے تو سامنے ایک کھمبے پر نیل چاں بیٹھا دیکھ کر خان صاحب نے کہا
“ وہ دیکھو ، اب یہ ہم سے پہلے نہر کالونی پہنچے گا – پھر کہنے لگے “ اللہ جانے یہ کون سی مخلوق ہے – بہت عرصہ سے میرے آس پاس رہتا ہے – صبح تہجد کی نماز کے لیئے یہی مجھے اُٹھاتا ہے – میرے قریب تو کبھی نہیں آتا ، بس آس پاس پھرتا رہتا ہے “-
عظیم شاعر ناصر کاظمی نے بہت سے کبوتر پال رکھے تھے – ناصر کی وفات پر ایک کالم نگار نے لکھا کہ جب ناصر کاظمی کا جنازہ گھر سے نکلا تو اُن کے کبوتر جنازے کے اُوپر اُڑتے ہوئے قبرستان تک گئے ، اور جب ناصر کو سپرد ِ خاک کر دیا گیا تو منتشر ہوگئے –
——————– رہے نام اللہ کا —21 مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آمدِ رمضان مبارک ———-
عزیز ساتھیو ، السلام علیکم ورحمتہ اللہ
اب کی بار یہ ماہِ مقدس ہمارے ایمان و عمل کی ایک بڑی آزمائش بن کر آیا ہے – بے رحم مہنگائی کی وجہ سے بے شمار لوگ سحرو افطار کے سامان سے محروم ہیں – روزے تو انہوں نے بہرحال رکھنے ہیں – اپنے ارد گرد رہنے والے ایسے لوگوں کی مدد کرنا بھی روزے سے کم فرض نہیں – حسبِ توفیق راشن لے کر ان لوگوں کو مہیا کیا جا سکتا ہے – ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس ایک روٹی ہے تو اس میں سے آدھی اپنے ضرورتمند ہمسائے کو دے دیں –
تاجر حضرات پر خصوصا یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس مہینے میں لوگوں کو خصوصی رعایت دیں – اس سے آپ کا رزق کم نہیں ہوگا بلکہ بڑھے گا – ناجائز منافع کما کر رزق میں جو اضافہ ہوتا ہے وہ حادثات ، بیماریوں اور دوسری آفات کی راہ سے نکل جاتا ہے –
رمضان المبارک میں عبادات تو حسبِ توفیق سب لوگ کرتے ہیں ، لیکن رُوحانی پہلو سے مُلحق رمضان المبارک کا یہ معاشی پہلو نظر انداز نہیں ہونا چاہیئے – وما علینا الا البلاغ-
——————– رہے نام اللہ کا –23 مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ہاں رمضان المبارک کا ایک مخصوص کلچر ہوا کرتا تھا – اس کلچر کے رسم رواج کا ذکر ہر سال میری پوسٹس کا موضوع بنتا ہے – ویسے تو کوئی بات بار بار دُہرانا اچھا نہیں لگتا ، مگر موقع محل کے مطابق بعض باتیں دُہرانا ضروری ہو جاتا ہے –
افطار تو سب لوگ اپنی اپنی پسند اور استطاعت کے مطابق کرتے تھے ، مگر سحری کا کھانا ہر گھر میں ایک ہی بنتا تھا جسے وَشِلی کہتے تھے – وَشِلی پتلے آٹے کا فرائی کیا ہوا پراٹھا ہوتا تھا ، جسے پُوڑی بھی کہتے تھے – توے پر تھوڑا سا گھی ڈال کر پانی میں بھگویا ہوا آٹا اُس پر روٹی کی شکل میں پھیلا دیتے تھے – پھر اس کے اُوپر کُچھ مزید گھی ڈال کر فرائی کر لیتے تھے – وَشِلی اسی کو کہتے تھے –
گرما گرم تازہ وشِلی پر سُرخ پشاوری شکر کی چھوٹی سی ڈھیری بنا کر اس ڈھیری کو انگوٹھے سے دبا کر ننھی سی کٹوری بنالیتے اور اس کٹوری میں گرم گھی بھر دیتے ، پھر وشلی کے نوالے گھی شکر کی اس کٹوری میں ڈبو کر کھاتے تھے – کیمیائی اثرات سے پاک دیسی گندم ، خالص دیسی گھی اور شہد جیسی میٹھی پشاوری شکر سے بنی ہوئی وشلی بہت لذیذ اور مقوی غذا تھی – وشلی سے سحری کرنے کے بعد دن بھر بُھوک اور پیاس نہیں لگتی تھی — رمضان المبارک کے اختتام پر یہ ماھیا بھی سننے میں آتا تھا ۔
لنگھ گئے روزے بہوں ارمان وشلیاں ناں
۔۔۔۔۔۔ وشلی بنانا مشکل نہیں – ہمارے ہاں کبھی کبھار اب بھی بنتی ہے۔ مگر اب پہلے جیسی سو فی صد خالص دیسی چیزیں کہاں – وشلیاں بنانے کے ماہر ہاتھ بھی زیرِ زمین جا سوئے – پھر بھی ان کے ذکر سے دل تو بہل جاتا ہے – لالا عیسی خیلوی نے ٹھیک ہی کہا تھا
تُوں نئیں تے تیریاں یاداں سہی
 باجرے کی روٹی کو پیاچہ کہتے تھے۔ وشلی گندم کے آٹے سے بنتی تھی ۔
———————- رہے نام اللہ کا –24 مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افطار کا اپنا اپنا الگ پروگرام ہوتا تھا – بچےاور نوجوان لوگ چینی اور لیموں کی شکنجی( سکنجبین شربت ) میں برف ڈال کر پیتے تھے – ہمارے شہر میں میانوالی سے برف کے دو بلاک آتے تھے – برف بیچنے والوں کے تھڑوں پر خریداروں کی لائینیں لگ جاتی تھیں – منتوں ترلوں اور سفارشوں سے مٹھی بھر برف ملتی تھی وہ بھی پیسے دے کر —
کُچھ نوجوان لیموں کی بجائے پنسار کی دکانوں سے شربت انار لا کر اُس میں چینی ، برف اور پانی ملا کر پیتے تھے – میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی کالاباغ سے مچلزمینگو سکواش ( آم کا گاڑھا شربت ) لایا کرتے تھے –
بزرگ برف سے مکمل پرہیز کرتے تھے – کہتے تھے ، اور بالکل ٹھیک کہتے تھے کہ برف تو پیاس بُجھانے کی بجائے پیاس بھڑکاتی ہے – برف والے شربت کے دوچار گلاس مسلسل پینے کے بعد پیٹ میں کھانے کی جگہ ہی نہیں بچتی – بُھوک تو پھر بھی لگی ہوتی ہے ، اس لیئے پانی سے بھرے پیٹ میں زبردستی کھانا ٹھونسنے سے طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے – نہ کھانے پینے کا مزا ، نہ عبادت کا لُطف –
بزرگ لوگ گھڑے کا ٹھنڈا پانی مٹی کی بٹھلی یا بادیہ ( پیالہ ) میں ڈال کر اُس میں گڑ یا شکر، املی آلُو بخارہ ، تخم ملنگا ، گوند کتیرہ یا عِشق بول ( اسپغول) ملا کر پیتے تھے – یہ مشروب پیاس کی بھڑکی (جلن) کو بھی ختم کر دیتا تھا ، جسم کو طاقت بھی دیتا تھا –
خواتین گھڑے کے پانی میں صرف گُڑ یا شکر ملا کر پیتی تھیں –
کھانا بالکل سادہ ہوتا تھا – گھر میں جو کُچھ بنا ہوتا لوگ کھالیتے تھے – بزرگ لوگ عشآء کی نماز اور نماز تراویح کے بعد کھانا کھاتے تھے –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
———————- رہے نام اللہ کا —25 مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسڑیلیا سے ہمارے سابق سٹوڈنٹ اویس کاظمی صاحب نے کل کی پوسٹ پر کمنٹ میں کہا “ سر ، یہ بتائیں کہ جب پنکھے ، اے سی وغیرہ نہیں ہوتے تھے اُس دور میں میانوالی کی 50 ڈگری گرمی میں جون جولائی کے روزے کیسے گذرتے تھے “-
سوال کا جواب بہت آسان ہے کہ ہم لوگ اس قدر شدید گرمی کے عادی ہیں – انگریزی کا ایک لفظ ہے acclimatise — یہ لفظ climate سے بنا ہے – climate آب و ہوا کو کہتے ہیں – acclimatise کے معنی ہیں آب و ہوا کا عادی ہوجانا ، آب و ہوا کی شدت کو محسوس نہ کرنا – ہم میانوالی کے لوگوں کا بھی یہی معاملہ ہے – 50 درجے کی شدید گرمی بھی ہمارا کُچھ نہیں بگاڑ سکتی –
بجلی ، پنکھے اور اے سی کی آمد سے پہلے بھی ہم لوگ جون جولائی کے روزے باقاعدہ رکھتے تھے – روزہ نہ رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا – گرمی کے اثر کو کم کرنے کے لیے دن میں دو چار بار نہا لیتے تھے – بچے اور نوجوان نہر میں نہاتے تھے – بزرگ لوگ گھر کے ہینڈپمپ پر یا کنوئیں پر جا کر نہا لیتے تھے-
بچے اور نوجوان تو سارا دن نہر پر گذار کر شام کو واپس آتے تھے – بزرگوں کا معمول یہ تھا کہ صبح گیارہ بارہ بجے تک کام کاج سے فارغ ہوکر کپڑوں سمیت نہا لیتے اور پھر چھپر کے سائے میں بچھی ہوئی چارپائیوں پر لیٹ کر ظہر کی نماز کے وقت تک سوئے رہتے تھے – گیلے کپڑوں سے گذرتی ہوئی گرم لُو سے اے سی جیسا خوشگوار ماحول بن جاتا تھا – ظہر کی نماز کے بعد ایک بار پھر نہا کر عصر تک سوئے رہتے تھے – عصر کے بعد افطار کی تیاریوں میں مشغولیت کے باعث گرمی کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا –
سب سے اہم بات یہ کہ قرآن ۔ حکیم میں ارشاد ہوا اللہ تعالی کسی کو اس کی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا – دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کریم انسان کو تکلیف کے مطابق برداشت کی قوت بھی عطا کر دیتا ہے – شدید گرمی برداشت کرنے کا ہم میانوالی کے لوگوں کا معاملہ بھی کُچھ ایسا ہی ہے –
50 ڈگری ٹمپریچر پہ گاؤں میں کسانوں کا روزہ سب سے زیادہ صبر کی مثال ہوتا تھا ۔
روزہ رکھ کر نماز کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کرکے اپنے مال مویشی کی دیکھ بھال چارہ دینا وغیرہ مشقت طلب ہوتا تھا ۔ اور مئی کی سخت گرمی میں گندم کی کٹائی وہ بھی درانتیوں سے کرتے تھے ۔دن کو کپڑوں سمیت نہاکر گھر واپس آنا اور ظہر کی نماز کے بعد کسی “دریکھ ” یا پیپل کے ساۓ میں آرام کرتے تھے ۔دادا حضور کا کمرہ سکون دہ اور باہر کے ٹمپریچر سے قدرے کم ہوتا تھا۔میں بچپن میں اپنے دادا حضور کے بہت قریب ہونےکی وجہ سے اس کمرے میں آرام کرتا تھا ۔دادی اماں ہر تین چار ماہ بعد ان کے کمرے کی دیواروں اور فرش پہ مٹی کی لیپائی کرکے تازہ کردیتی تھیں ۔اور مزے کی بات کہ سردیوں میں یہی کمرہ گرم انگیٹھی جلانے سے جلد گرم ہوجاتا تھا ۔
شام کو افطاری سے ایک گھنٹہ پہلے جب سورج کی تپس میں کمی آتی تو کھلے صحن میں پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا تھا۔ مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو آتی تھی ۔
وہ دور ہر لحاظ سے اچھا اور بہترین تھا ۔
پنکھے اور اے سی کے شور سے پاک پُرسکون ماحول تھا ۔موسم کی شدت میں جمالِ خداوندی اور قدرت کی رعانیاں تھیں ۔
محبت احساس نیکی اور ایثار کا جذبہ تھا ۔
سادگی اور حقیقت پسندی تھی ۔
اوہ ویلے سچے سن ،،،!!
جدوں کوٹھے کچے سن !!
—— رہے نام اللہ کا —26 مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریڈیو اور ٹی وی کی آمد سے پہلے ہمارے بچپن کے دور میں رمضان المبارک اورعید کا چاند دیکھنے کا مقامی سسٹم رائج تھا –
داؤدخیل ، کالاباغ ، خٹک بیلٹ اور جلالپور کے علاقے میں کوٹ چاندنہ کے پیر فخرالزمان صاحب شرعی شرائط کے مطابق تحریری فتوای جاری کرتے تھے – عصر کے بعد ہر گاؤں سے دوچار لوگ چاند نظر آنے کا فتوای لینے کے لیئے پِیر صاحب کے ہاں پہنچ جاتے تھے- چاند نظر آنے کی شرعی شہادت موصول ہونے پر پیر صاحب تحریری فتوای جاری کرتے تھے – نواحی دیہات کے لوگ فتوے کی ایک ایک نقل لے کر اپنے اپنے علاقے میں چاند نظر آنے کی خبر پہنچایا کرتے تھے –
اسی طرح عیسی خیل میں بھور شریف کے پیر صاحب ، مندہ خیل میں مولانا محمد حیات صاحب ، موچھ میں پیر عبیداللہ شاہ ، دلیوالی ، خواجہ آباد شریف کے پیر صاحبان اپنے اپنے علاقے کے لیئے فتوی جاری کِیا کرتے تھے – میانوالی میں پیر محمد اکبر علی شاہ صاحب فتوای جاری کرتے تھے –
سحر اور افطار کا اعلان مساجد میں نغارہ( نقارہ) بجا کر کیا جاتا تھا – نقارہ ڈھول اور طبلے سے ملتی جُلتی چیز تھا جسے لکڑی کی دو ڈنڈیوں سے بجایا جاتا تھا – نقارہ بجانے کا کام موذن یا مسجد کا پانی بھرنے والا پانی ہارا (پنہارہ) کرتا تھا –
فقہ جعفریہ کے مطابق سحرو افطار کا حساب مقامی بخاری سادات مشتہر کیا کرتے تھے-—— رہے نام اللہ کا–28 مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سِوَئیاں بنانا رمضان المبارک کی خاص روایت تھی – چکی پر پِسے ہوئے گندم کے آٹے کی سِوئیاں جس مشین پر بنتی تھیں اُسے “گھوڑٰی“ کہتے تھے –

‘جس گھر میں گھوڑی ہوتی وہاں سِوئیاں بنانے والی خواتین کا میلہ لگا رہتا تھا – موٹے گُندھے ہوئے آٹے کا پیڑا مشین کے مُنہ میں ٹھونس کر ہینڈل گُھمانے سے سوئیوں کے لچھے مشین کی چھاننی میں سے نکلنے لگتے تھے – ان لچھوں کو چارپائیوں پر بچھی صاف چادروں پر سلیقے سے سجاتے رہتے – ایک آدھ گھنٹے میں سوئیاں خُشک ہو جاتیں تو انہیں سمیٹ کر کپڑے کے تھیلوں یا چادروں میں میں لپیٹ کر گھر لے جاتے تھے —–
سوئیاں بنانے کی مشین کا ہینڈل گھُمانا خاصا بامشقت کام تھا – اس کام کے لیئے محلے کے کسی کملے بھولے نوجوان کو لالا ، میڈا وِیر ۔ ویرنڑں کہہ کہہ کر دن بھر کام میں لگائے رکھتے تھے- ہمارے ہاں ماموں غلام فرید یہ خدمت سرانجام دیتے تھے – اُنہیں سارے محلے کی خواتین ماما فرید کہتی تھیں- بھانجیوں کی فرمائش کون نظر انداز کر سکتا ہے ، اس لیئے ماموں جان دن بھر مشین کا ہینڈل گُھماتے رہتے تھے —
—–
سوئیوں کو پانی میں اُبالنے کے بعد پانی الگ کر کے سوئیوں میں گھر کا خالص گھی اور سُرخ پشاوری شکر ملا کر کھایا کرتے تھے – ویسے تو رمضان المبارک کے دوران بھی کھائی جاتی تھیں ، مگر خاص طور پر عید کے دن کا ناشتہ یہی سوئیاں ہوتی تھیں – بے حد لذیذ غذا تھی – سوئیوں کو منہ میں ڈالتے ہوئے شَڑُپ جیسی آواز منہ سے نکلتی تھی ، اس لیئے انہیں شڑُپ والی سوئیاں بھی کہتے تھے – ہمارے داؤدخیل میں سوئیوں کو سِیمِیاں کہتے تھے – آج بھی ہم سِیمِیاں ہی کہتے ہیں –

تلی واٹویں سوئیاں
گھر کی باکمال، ھنر مند اور سگھڑ عورتیں اپنے پیارے پیارے ھاتھوں سے سیمیاں بناتی تھیں ۔ بڑی نویں نکور ماٹی کا باہر سے تلوہ خوب رگرائی+ صفائی کر کے ، اس ماٹی کامنہ زمین کی طرف کر کے رکھ دیتی تھیں ۔ پھر ساری گھر کی عورتیں+ کزنیں+ پڑوسنیں چھپر کے نیچے گول دائرہ شکل میں بیٹھ کر بہت باریک باریک سیمیاں بناتی تھیں اور ھم چھوٹے چھوٹے لڑکے ان کو پانی پلاتے تھے ۔ ماشاءاللہ  بہت خوبصورت منظر ھوتا تھا-
آٹے کے پیڑے کو ہلکا سا سرسوں کا تیل لگایا کرتے تھے تاکہ گھوڑی کے اندر آسانی اور بغیر چپکے ہوئے چلا جائے۔ایک اور بات کہ یہ سویاں ہاڑ میں گندم کا گاہ گاہنے والوں کسانوں کی ظہر کے بعد ہائی ٹی بھی ہوا کرتی تھی۔ہاڑ کے مہینے میں گندم گاہنے والے کسانوں کیلیئے شکر اور دیسی گھی یقیناً گردن توڑ بخار کے خلاف ایک انتہائی طاقت ور ویکسین کا کام کرتی تھی۔
عید کی روائیتی ڈش دیسی سویاں جو میانوالی میں آج بھی بڑے ہتمام کے ساتھ بنائی اور پکائی جاتی ہے لیکن کچھ سال پہلے تو ایک ہی مشین(گھوڑی) پورے محلے میں ہوتی تھی اللہ کیا منظر ہوتا کیا محبت تھی آج میرے گھر تو کل آپ کے اور مشین (گھوڑی )کے ساتھ اس کو چلانے کے لئے سب کو دعوت دی جاتی تھی کہ ”ماسی گھوڑی وی ڈیو تے گھیڑن کنڑ وی آسو اماں پئ اکھیندی اے“
افسوس یہ ثقافت بھی دم توڑتی جا رہی ہے اور اپنے آخری سانس لی رہی ساتھ وہ محبتیں اپنائیت بھی مٹتی جا رہی.— رہے نام اللہ کا ——29 مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاتھ پاوں میں مہندی لگانا بھی عید کا خاص رواج ہوا کرتا تھا۔ بچے ، بوڑھے اور جوان سب مہندی لگاتے تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ مہندی صرف مرد لگاتے یا لگواتے تھے۔ خواتین اس موقع پر مہندی نہیں لگاتی تھیں۔ وہ صرف مہندی پانی میں بھگو کر گھر کے مردوں کے سپرد کر دیتی تھیں، باقی کارروائی مرد خود کرتے تھے۔
مہندی آج کل والی کیمیکل آلودہ مہندی نہیں بلکہ خالص قدرت کی تخلیق مہندی ہوتی تھی۔ مہندی کے خشک پتے مہندی پاوڈر کی نسبت چار پیسے سستے ملتے تھے، اس لیئے خواتین مہندی پاوڈر کی بجائے پتے ہی خرید لاتی تھیں، اور انہیں گھر پر پیس کر پاوڈر بنا کرپانی میں بھگو دیتی تھیں۔ چاند رات کو لوگ یہ مہندی ہاتھ پاوں میں لگا لیتے تھے۔
میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ عید کے دن نماز عید کے بعد دعا کے لیئے اٹھے ہوئے مہندی لگے ہاتھوں کی قطاریں دیکھ کر آسمان پر فرشتے بھی مسکرا دیتے ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا سادہ، سچے، سیدھے سادے، بھولے بھالے لوگ تھے۔
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
———– رہے نام اللہ کا—

30 مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔۔

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید کی تیاریاں ماہِ رمضان کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی تھیں – کپڑوں کی خریداری کے بعد سلائی کے لیئے درزیوں کے ہاں پھیرے ، تاریخ پہ تاریخ پڑتی تھی عدالتوں کی طرح-
اُس زمانے میں شلوار سوٹ ( ایک رنگ کی قمیض شلوار ) کا رواج نہ تھا – شلوار ہمیشہ سفید لٹھے کی اور قمیض کسی دُوسرے رنگ کی ہوتی تھی – قمیض کے لیئے لنن linen نام کا کپڑا بہت مقبول تھا – یہ نیم ریشمی کپڑا ہر رنگ کا ملتا تھا – سیدھے سادے ان پڑھ لوگ اسے لِیلنگ یا نیلم کہتے تھے ، کیونکہ اس کا اصل نام لِنن بولنے میں زبان کی ذرا سی لغزش سے گالی بن جاتا تھا – قمیض کے لیئے چیک (لکیر دار ریشمی کپڑا) بھی خاصا مقبول تھا – وی آئی پی قسم کے لوگ دوگھوڑا مارکہ جاپانی بوسکی کی قمیض اور چابی والے نفیس لٹھے کی شلوار پہنتے تھے – کالر والی چھوٹے سائیز کی قمیںض کا رواج تھا –
بزرگ سفید لٹھے کا کُرتا پہنتے اور شلوار کی بجائے لٹھے کی سفید چادر باندھتے تھے ، سر پہ سفید ململ کی پگڑی بھی ضرور باندھتے تھے —– شرم و حیا کا دور تھا ، خواتین سادہ ، سستا کُھلی سلائی والا لباس پہنتی تھیں –
عید کے کپڑوں کی اصل خوشی بچوں کو ہوتی تھی – کپڑے سِل کر آتے تو بچے دن میں کئی کئی بار اُنہیں دیکھتے اور پہننے کے تصور سے دل بہلاتے رہتے تھے – اندر کی بات یہ تھی کہ لوگ بہت غریب تھے – سال میں کپڑوں کے ایک دو جوڑے سے زیادہ افورڈ نہیں کر سکتے تھے – اس لیئے عید کے کپڑوں کی اہمیت بہت زیادہ ہوا کرتی تھی –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ———————- رہے نام اللہ کا –31 مارچ 2023-منورعلی ملک۔۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top