مرا میانوالی جن

MERA MIANWALI JANUARY – 2023

منورعلی ملک کے    جنوری  2023  کے فیس  بک   پرخطوط

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خدا کرے یہ نیا سال سب کو راس آئے،

مرے وطن سے خزاں جائے اور بہار آئے

1    جنوری 2023-منورعلی ملک۔۔۔

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔ میرے دائیں طرف جناب نجف بخاری اور بائیں جانب جناب سونا خان بے وس

یکم جنوری 2023 کو مقبول و محبوب شاعر محمد محمود احمد کی شاعری کے دوسرے (اور آخری ) مجموعے “واپسی ممکن نہ ہوگی “ کی تعارفی تقریب جناح ہال میانوالی میں منعقد ہوئی – تقریب سے چند دن قبل عصمت بیٹی ( محمود کی بڑی بہن ) نے ہمارے ہاں آکر کہا “ بابا جی، تقریب کی صدارت آپ کریں گے” –

صحت کے کُچھ مسائل کی وجہ سے انکار تو بنتا تھا ، مگر میں بیٹیوں کی فرمائش کو حُکم سمجھتا ہوں اس لیئے تعمیل کرنا واجب تھا –

بھکر سے سینیئر براڈکاسٹر اور مقبول و محترم شاعر سید نجف بخاری اس تقیب کے مہمانِ خصوصی تھے – مشہورومعروف بزرگ شاعر ملک سونا خان بے وس اور دائرہ دین پناہ سے جواں فکر جواں قلم شاعر اور ادیب تنویر شاہد محمد زئی تقریب کے مہمانِ اعزازی تھے –

بہت خُوبصورت بھر پُور تقریب تھی – وہ جو فیض صاحب نے کہا تھا

بڑا ہے درد کا رشتہ ، یہ دل غریب سہی

تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے

کُچھ ایسی ہی کیفیت تھی اس تقریب کی —- محمود خود تو سرحدِحیات کے پار عدم آباد جا بسے مگر اُن کے چاہنے والوں نے اس تقریب کو یادگار بنا دیا – میانوالی کے تمام نمائندہ اہلِ قلم اس تقریب میں شریک تھے – تقریب کا اہتمام محمود کے کزن افتخار ہاشمی اور اُن کی فیملی نے کیا – محمود کے فن اور شخصیت کے بارے میں جناب نجف بخاری ، ملک سونا خان بے وس ، تنویر شاہد محمد زئی ، وقار احمد ملک ، مظہر نیازی ، صاحبِ علم و ذوق ایڈووکیٹ ملک عابد سعید اور محمود کے قریب ترین دوست (نام یاد نہیں آرہا) نے بہت خُوبصورت خیالات و احساسات کا اظہار کیا – تقریب کے دُوسر ے دور میں محفل مشاعرہ بھی برپا ہوئی ، مگر میری نحیف صحت نے اس میں شرکت کی اجازت نہ دی –

شاعر اور گیت نگار کی حیثیت سے محمود کے لاکھوں چاہنے والے دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں ، اس لیئے اُسے کسی مفصل تعارف کی ضرورت نہیں – اپنی مقبولیت کا راز آُس نے یہ کہہ کر بتا دیا تھا —

علی کے چاہنے والوں میں میرا نام بھی ہے

اسی لیئے تو زمانے میں احترام بھی ہے رہے نام اللہ کا —3   جنوری 2023-

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2023 اللہ جانے کیسا ہوگا ؟؟؟

بزرگ شاعروں کا تو حیات اور کائنات کے بارے میں اپنا رویہ تھا۔ چچا غالب نے کہا

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ،

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا ؟؟؟

اقبال نے تو براہ راست خالق کائنات سے کہہ دیا ۔۔۔۔۔۔۔

مجھے فکرجہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا ؟؟؟؟

انگریزی کے معروف شاعر Robert Browning نے کہا

God’s in His Heaven

All’s right with the world یعنی اللہ آسمان

پرموجودھے،اس لییے جوکچھ ہو رہا ہے ٹھیک ہی ہو رہاہے

ان بابوں کی بے نیازی اپنی جگہ درست ، مگر حالات کو بدلنے کے لیئے اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا اور اپنی توفیق کے مطابق کوشش بہرحال کرنی چاہیئے۔

 

 

اپنا پرانا شعر یاد آگیا

رحمت کا در کھلا تو رہا اور کچھ نہ یاد،

ہم نے خدا سے مانگ لی اپنے وطن کی خیر

۔۔4    جنوری 2023-منورعلی ملک۔۔۔

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دُھند ، ٹھنڈی یخ ہوائیں ——– سردی اپنا آخری برسٹ مار رہی ہے — دیسی حساب سے آج پوہ کے مہینے کی 24 تاریخ ہے – سات آٹھ دن بعد مانہہ کا مہینہ شروع ہوگا – مانہہ کا مہینہ سردی کے زوال کا آغاز شمار ہوتا ہے – سردی آہستہ آہستہ کم ہوتے ہوئے پندرہ سولہ دن میں اتنی کم ہو جاتی ہے کہ بزرگ کہا کرتے تھے

“ اَدھ مانہہ ، تے بَھگُل بانہہ “
یعنی مانہہ کا آدھا مہینہ گذر جائے تو سردی اتنی کم ہوجاتی ہے کہ جسم پر لپیٹی ہوئی چادر یا شال اُتار کر بازُو پر ڈالنی پڑتی ہے – سردی کا تھوڑا بہت احساس صبح سویرے اور شام کے بعد ہوتا ہے – اس حساب سے دیکھیں تو سردی کے صرف بیس پچیس دن باقی ہیں – فروری کے آغاز سے سردی خاصی کم ہو جائے گی – ہونا تو یہی چاہیئے ، مگر قدرت کی اپنی پلاننگ ہوتی ہے – ہو سکتا ہے بارشوں کا کوئی سلسلہ جاتی ہوئی سردی کو دوچار دن روک لے – دیکھئے اب کے برس کیا ہوتا ہے –
——————— رہے نام اللہ کا –6   جنوری 2023–منورعلی ملک۔۔۔

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں اس کرم کے کہاں تھا قابل

الحمد للہ ،

مدینہ منورہ سے اقبال ملک صاحب کا پیغام ۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں انہوں نے کل رات روضہ ء رسول کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کے سامنے میری نعت پڑھی ھے جس کا پہلا شعر یہ ھے۔۔۔۔۔۔

آنکھیں بھی برستی ہیں ساون کا مہینہ بھی،

ھے شام بھی ھونے کو اور دور مدینہ بھی

کسی شاعر نے سچ ہی کہا تھا،

ذکر میرا مجھ سے بہتر ھے کہ اس محفل میں ھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الحمدللہ الکریم

یہ ہے میری وہ خوش نصیب نعت جو پرسوں رات مدینہ منورہ میں ملک اقبال صاحب نے دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم میں پیش کی۔ رب کریم اس نعت کو پڑھنے ، سننے، سنانے والوں کے لیئے وسیلہ خیرو برکت بنا دے۔7 جنوری 2023-منورعلی ملک۔۔۔

2001 میں لکھی ھوئی اپنی مختصر نظم

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الحمد للہ الکریم۔

شام ہوئی پنچھی لوٹ آئے

47 سال بعد ہم کل بعد دوپہر داودخیل واپس منتقل ھو کر اپنے آبائی گھر میں مقیم ھو گئے۔

1975 میں عیسی خیل کالج میں تقرر کے بعد میں فیملی سمیت عیسی خیل منتقل ھو گیا، 1980 میں وہاں سے گورنمنٹ کالج میانوالی ٹرانسفر ہوا تو ہم میانوالی منتقل ھوئے۔ تین بچوں کی شادیاں بھی ادھر ہی ہوگئیں۔ اس لیئے میانوالی میں رہنا آسان ہو گیا۔ 42 سال میانوالی میں قیام نہایت خوشگوار رہا ۔اہل میانوالی کو رب کریم شاد و آباد رکھے، یہاں اتنی محبت اور احترام ملا کہ میں ادھر ہی کا ہو کر رہ گیا۔ کبھی کبھار چند دن کے لیئے داودخیل آنا جانا ھوتا رہا، مگر بالآخر گھر کی کشش غالب آگئی۔ اس لیئے یہاں مستقل قیام کا فیصلہ کرنا ضروری ھو گیا۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ

ماں نے کہا تھا شام سے پہلے گھر آجانا

میانوالی میں آنا جانا ان شآءاللہ ہوتا رہے گا۔ میانوالی سے ہمیشہ رہنے والی محبت کی وجہ سے میری پوسٹس کا عنوان میرا داودخیل کی بجائے ” میرا میانوالی ” ہی رہے گا۔ دعاوں میں یاد رکھئے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔10   جنوری 2023–منورعلی ملک۔۔۔

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بحمداللہ تعالی داؤدخیل میں ہمارا خاندان شہر کے سرکردہ خاندانوں میں شمار ہوتا ہے – بیس پچیس سال پہلے ایک دن مرحوم ماسٹر فیض اللہ خان انزلے خیل سے داؤدخیل لاری اڈہ پر ملاقات ہوئی – کہنے لگے ملک صاحب ہم لوگ آپ کے خاندان کو داؤدخیل کا سردار خاندان سمجھتے ہیں – آپ کے بزرگ تو سب رُخصت ہوگئے – اب ہم خود کو لاوارث سمجھتے ہیں – چھوڑیں میانوالی کو ، یہاں آکر اپنی سرداری سنبھالیں ، ہمیں علم اور اخلاق سکھائیں ، جس طرح آپ کے بزرگ ہمیں سکھاتے رہے – میانوالی کی نسبت داؤدخیل کو آپ کی زیادہ ضرورت ہے –

میں اس وقت تک ریٹائر نہیں ہوا تھا ، میں نے کہا بھائی صاحب ، سروس پُوری کر لینے دیں ، میں آجاؤں گا – کُچھ عرصہ بعد خبر ملی فیض اللہ خان اس دنیا سے رُخصت ہوگئے – اب اُن کی قبر پہ جاکر بتاؤں گا کہ بھائی صاحب میں تو آگیا ، آپ ہی انتظار نہ کر سکے – اتنی بھی کیا جلدی تھی یار –

چاچا ہدایت اللہ خان نمبردار کے بڑے صاحبزادے عنایت اللہ خان (ایڈووکیٹ کفایت اللہ خان کے بڑے بھائی) تقریبا میرے ہم عمر تھے – ایک دن کہنے لگے “ملک صاحب ، میں اپنی کنوئیں والی زمین پر ایک معیاری کالج بنانا چاہتا ہوں ، عمارت پر خرچہ تو میں کردوں گا ، لیکن صرف اس شرط پر کہ میرے کالج کے پرنسپل آپ ہوں “-

میں نے کہا “عنایت اللہ خان ، صرف چند سال صبر کر لیں ، میں ریٹائرمنٹ کے بعد سیدھا ادھر آکر آپ کی خواہش کے مطابق ذمہ داریاں سنبھال لُوں گا – آپ کالج بنا دیں – میری ریٹائرمنٹ تک کسی اور پرنسپل کے ذریعے کام چلالیں – کہیں تو میں اپنے کسی ریٹائرڈ ساتھی کو بھیج دوں –

عنایت اللہ خان نے کہا “ جی نہیں ، مجھے اپنے کالج کے لیئے صرف اور صرف منورعلی ملک پرنسپل چاہیئے – آپ کے ہوتے ہوئے میں اس کُرسی پر کسی اور کو کیسے بٹھا سکتا ہوں ؟“

میں نے کہا پھر چند سال صبر کرلیں –

افسوس کہ فیض اللہ خان کی طرح عنایت اللہ خان کو بھی تقدیر نے انتظار کی مہلت نہ دی –

اللہ کریم اہل داؤدخٰیل کو شاد و آباد رکھے ، میرے خاندان سے محبت و احترام اس شہر کے خمیر میں ہے ، اس لیئے ان لوگوں کی خدمت کرنا میرا فرض بنتا ہے – گھر میں تعمیر و توسیع کا کام مکمل کرنے کے بعد کوئی صورت نکال لوں گا ، ان شآءاللہ –— رہے نام اللہ کا–۔۔۔۔11   جنوری 2023

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے داؤدخیلوی دوست ریڈیو پاکستان کے مشہورو معروف پروڈیوسر ظفر خان نیازی نے کہا تھا

میں اپنے گاؤں لَوٹا تو وہی منظر پُرانا تھا

کئی لوگوں سے ملنا تھا، کئی قبروں پہ جانا تھا

اپنے ساتھ معاملہ اس کے برعکس ہوا – 47 سال بعد میں مستقل قیام کے لیئے اپنے آبائی گھر پہنچا ہوں تو میرا گاؤں داؤدخیل ایک اچھا خاصا تجارتی قصبہ flourishing commercial town بن چکا ہے – جہاں پہلے ہر ًمحلے میں صرف ایک آدھ کریانے کی دکان ہوتی تھی ، وہاں اب ہر گلی بازار بنتی جا رہی ہے –

ہمارے گھر کے سامنے سے گُزرنے والی جرنیلی سڑک کے دونوں جانب دکانوں کا سلسلہ خٹکی خیلانوالا ڈیرہ سے لے کر بینک چوک تک پہنچنے کو ہے – 47 سال پہلے اس سڑک کے مشرقی کنارے پر صرف بھائی عبداللہ خان ربزئی کا حفیظ جنرل سٹور، ماسٹر عبدالحکیم کی کریانے کی دکان ، محلہ امیرے خٰیل میں ماما حمید اللہ خان کا ہوٹل اور محلہ سالار کی حدود میں احمد شیر خان کی کپڑے کی دکان تھی ، سڑک کے مغربی کنارے پر احسان خان کا ہوٹل اور شاہنواز خان ولد بلند خان کا کریانہ سٹور ، یعنی تقریبا ڈیڑھ کلو میٹر لمبی سڑک کے دونوں طرف کُل چھ دکانیں تھیں – اب تو قدم قدم پر دکانیں کھڑی ہیں-

صرف منظر ہی نہیں بدلا – طفرخان کے شعر کے مطابق جن قبروں پہ جانا تھا آُن کی تعداد دوگُنا سے زیادہ ہو چُکی ہے – جن لوگوں سے ملنا تھا اُن میں سے بھی کئی لوگ قبروں میں جا سوئے – ان سے ملاقاتوں کے لیئے میاں رمدی صاحب اور پیر موج علی شاہ صآحب کے قبرستانوں میں قبروں کے کتبے دیکھنے پڑیں گے – لالا عیسی خیلوی ایک ماہیا گایا کرتے تھے

رُل کے میں انج مرساں ودے کتباں توں ناں پڑھسو

چلتے چلتے اسی موضوع پر اپنا ایک شعر بھی یاد آگیا ————-

خیر ہو دلِ ناداں ، اب یہ غم بھی سہنا ہے

اُن سے بھی نہیں ملنا ، شہر میں بھی رہنا ہے—— رہے نام اللہ کا —۔۔۔12    جنوری 2023۔

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے داؤدخیلوی دوست ریڈیو پاکستان کے مشہورو معروف پروڈیوسر ظفر خان نیازی نے کہا تھا
میں اپنے گاؤں لَوٹا تو وہی منظر پُرانا تھا
کئی لوگوں سے ملنا تھا، کئی قبروں پہ جانا تھا
اپنے ساتھ معاملہ اس کے برعکس ہوا – 47 سال بعد میں مستقل قیام کے لیئے اپنے آبائی گھر پہنچا ہوں تو میرا گاؤں داؤدخیل ایک اچھا خاصا تجارتی قصبہ flourishing commercial town بن چکا ہے – جہاں پہلے ہر ًمحلے میں صرف ایک آدھ کریانے کی دکان ہوتی تھی ، وہاں اب ہر گلی بازار بنتی جا رہی ہے –
ہمارے گھر کے سامنے سے گُزرنے والی جرنیلی سڑک کے دونوں جانب دکانوں کا سلسلہ خٹکی خیلانوالا ڈیرہ سے لے کر بینک چوک تک پہنچنے کو ہے – 47 سال پہلے اس سڑک کے مشرقی کنارے پر صرف بھائی عبداللہ خان ربزئی کا حفیظ جنرل سٹور، ماسٹر عبدالحکیم کی کریانے کی دکان ، محلہ امیرے خٰیل میں ماما حمید اللہ خان کا ہوٹل اور محلہ سالار کی حدود میں احمد شیر خان کی کپڑے کی دکان تھی ، سڑک کے مغربی کنارے پر احسان خان کا ہوٹل اور شاہنواز خان ولد بلند خان کا کریانہ سٹور ، یعنی تقریبا ڈیڑھ کلو میٹر لمبی سڑک کے دونوں طرف کُل چھ دکانیں تھیں – اب تو قدم قدم پر دکانیں کھڑی ہیں-
صرف منظر ہی نہیں بدلا – طفرخان کے شعر کے مطابق جن قبروں پہ جانا تھا آُن کی تعداد دوگُنا سے زیادہ ہو چُکی ہے – جن لوگوں سے ملنا تھا اُن میں سے بھی کئی لوگ قبروں میں جا سوئے – ان سے ملاقاتوں کے لیئے میاں رمدی صاحب اور پیر موج علی شاہ صآحب کے قبرستانوں میں قبروں کے کتبے دیکھنے پڑیں گے – لالا عیسی خیلوی ایک ماہیا گایا کرتے تھے
رُل کے میں انج مرساں ودے کتباں توں ناں پڑھسو
چلتے چلتے اسی موضوع پر اپنا ایک شعر بھی یاد آگیا ————-
خیر ہو دلِ ناداں ، اب یہ غم بھی سہنا ہے
اُن سے بھی نہیں ملنا ، شہر میں بھی رہنا ہے
——————– رہے نام اللہ کا ——-13    جنوری 2023

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صرف داؤدخیل شہر میں نہیں ، گھر میں بھی بہت کُچھ بدل گیا – 47 سال پہلے جب ہم یہاں سے نکلے تھے تو ہمارے داؤدخیل والے آبائی گھر میں ہمارے بابا جی ملک محمد اکبرعلی ، میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی، دو چھوٹے بھائی ملک محمد سرور علی اور ملک مظفرعلی ، ہمارے دو چچا ملک ظفرعلی اور ملک محمد صفدر علی ، ہماری دونوں خالائیں ، میرے کزن ملک شوکت اصغر علی موجود تھے – اب ان میں سے کوئی بھی اس دنیا میں نہیں –
تھیں جن کے دم سے رونقیں قبروں میں جا بسے
چچا ملک محمد صفدر علی بزرگوں کی آخری نشانی تھے – جب تک وہ رہے خاندانی روایت کے مطابق چونک کو آباد رکھا – چند سال پہلے دُنیا سے رُخصت ہونے لگے تو مجھ سے کہا “ منور، ہُنڑں گھر اِچ وڈا تُوں ایں “ – ان الفاظ کے ساتھ خاندان کی تمام تر ذمہ داریاں اور روایات میرے سپرد کر کے چچا جی عدم آباد جا بسے – دعا کریں کہ میں یہ ذمہ داریاں نبھا سکوں –
سب سے پہلا کام تو گھر میں تعمیرو مرمت کے بعد چونک کی بحالی کا ہے – پرانی بیٹھک کی جگہ نئی بیٹھک کی تعمیر کا کام جاری ہے – گھر کا کُچھ سامان لانے کے لیئے ایک دو پھیرے میانوالی کے بھی لگانے پڑیں گے – بہت سے لوگ ملنا چاہتے ہیں ، اس لیئے میں چاہتا ہوں کہ چونک جلد از جلد آباد ہو جائے – ان شآءاللہ جب یہ کام مکمل ہوگیا تو سب ملنے والوں کو مطلع کر دوں گا- پھر آنا جانا لگا رہے گا – چونک کی بحالی میں دو تین ہفتے لگیں گے۔
میری معاونت کے لیئے یہاں میرا بیٹا ارشد ، پوتا احمد عباس علی ، بھتیجے ملک ذی شان انور علی اور ملک رضوان علی اور دو کزن ملک اظہر علی اور ملک اختر علی موجود ہیں –
اللہ سلامت رکھے بیٹا مظہر علی ملک اسلام آباد میں ، امجد علی ملک میانوالی میں اور محمد اکرم علی ملک لاہور میں مقیم ہیں – اُن کے ہاں بھی آنا جانا رہے گا، لیکن زیادہ تر وقت داؤدخٰیل ہی میں بسر ہوگا – اللہ کرے سب کام آسان ہو جائیں –——————— رہے نام اللہ کا —14    جنوری 2023

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی دل جلے شاعر نے کہا تھا—————–
اس کے گاؤں سے پہلے قبرستان
عاشقوں کے لیئے اشارہ تھا
شاعر نے تو پتہ نہیں کس گاؤں کے بارے میں کہا تھا ، مگر قبرستان ہمارے داؤدخیل کے دونوں سروں پر بھی ہیں – میانوالی کی طرف سے آئیں تو خٹکی خیلانوالا ڈیرہ کے سامنے سڑک کے دائیں جانب میاں رِمدی صاحب کا قبرستان آتا ہے – میاں رمدی صاحب قریشی خاندان کے بزرگ تھے – یہ قبرستان تقریبا سو سال پُرانا ہے – ہمارے خاندان کے مرحومین بھی اسی قبرستان میں آسُودہ تہہِ خاک ہیں – بہت بڑا قبرستان ہے –
اس قبرستان سے ملحق مشرق میں میاں کھِچی صاحب کا قبرستان بھی ہے – میاں کھچی صاحب اللہ جانے کہاں سے آئے تھے – ہم نے تو ہوش سنبھالا تو ان کی قبر ہی دیکھی – بالکل سادہ سی قبر بیس پچیس فٹ لمبی چوڑی حویلی میں واقع ہے – میاں کھچی صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کی قبر کے گرد لکڑی کی چار پانچ انچ لمبی آدھ انچ موٹی کِلی زمین میں گاڑنے سے دانت کا درد ختم ہو جاتا ہے – نانیوں دادیوں کا یہ آزمُودہ ٹوٹکہ تھا – اسی لیئے میاں کھچی صاحب کی قبر کے گرد بے شمار کِلیاں زمین میں گڑی ہوئی تھیں – ایک آدھ بار ہم نے بھی یہ نسخہ آزمایا تھا ۔ دانت کا درد واقعی غائب ہو گیا – پرانے زمانے میں درد بھی صاحبِ ایمان ہوتے تھے ، پیروں فقیروں کی سفارش مان لیتے تھے – اب تو ڈاکٹروں کا دور ہے ، میاں کھچی صاحب کے پاس کون جاتا ہوگا ؟ کبھی جا کر دیکھیں گے کہ اب وہاں کا کیا حال ہے – اب تو میاں رمدی صاحب اور میاں کھچی صاحب کے قبرستان مل کر ایک ہو گئے ہیں –
داؤدخٰیل کے شمالی سرے کے قبرستان کا ذکر ان شآءاللہ کل –
—————– رہے نام اللہ کا —–15    جنوری 2023

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو دن سے داودخیل میں عجب صورت حال ہے۔ جرنیلی سڑک کے مشرق کے علاقے میں بجلی صبح سے شام تک غائب رہتی ھے۔ یہ سہولت صرف سڑک کے مشرق میں رہنے والی آبادی کو حاصل ھے۔ سڑک کے مغربی علاقے میں بجلی سارا دن دھڑا دھڑ چلتی ہے۔ صبح دیکھا تو فون اور لیپ ٹاپ دونوں چارجنگ مانگ رہے تھے۔ سڑک کے پار محلہ علاول خیل میں فون اپنے رشتہ داروں کے ہاں لے جا کر ابھی چارج کروایا ھے۔
آج کل جو کلچر ملک بھر میں آگیا ھے اس کا تقاضا یہ ھے کھانے پینے سے زیادہ فکر فون کی چارجنگ اور پیکیج کی رہتی ھے۔ اس صورت حال میں بجلی کی غیر حاضری بہت بری لگتی ھے۔ اور پھر اپنا تو معاملہ ہی کچھ اور ہے، دنیا بھر میں پھیلے ھوئے میری پوسٹس کے قارئین بھی پریشان ھوتے رہتے ہیں، کہ خدا جانے کیا ہوا، آج پوسٹ نہیں ائی۔
داودخیل میں اگر واپڈا کے کوئی والی وارث ہیں تو از راہ کرم جرنیلی سڑک کے مشرق میں بھی بجلی کی باقاعدہ فراہمی ممکن بنائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔۔ 16   جنوری 2023

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آٹھ دس دن سے سردی نے مت مار کے رکھ دی ہے۔ ایسی بے رحم سردی پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ دھوپ تو نکلتی ھے ، مگر اس کے ساتھ ہی ایک نامراد ٹھنڈی یخ، پسلیوں میں چاقو کی طرح گھس جانےوالی ہوا پتہ نہیں کہاں سے نازل ہو جاتی ہے۔ اب تو اوہلہ (سردی سے بچنے کے لیئے دیوار کی آڑ) بھی کام نہیں کرتا۔ جہاں بھی بیٹھیں یہ ظالم ہوا وہیں پہنچ جاتی ھے۔ سردی کے دیوانے عاشق بھی کہہ رہے ہیں یار سردی بہت زیادہ ہے۔ اللہ کریم رحم فرمائے۔
داؤدخیل میں صبح سے شام تک بجلی غائب رہنے کے بارے میں کچھ دوستوں نے بتایا کہ یہ سلسلہ جمعرات 19 جنوری تک چلے گا، کیونکہ ایک مقامی سیمنٹ فیکٹری کو بجلی سپلائی کرنے کے لییے کھمبے وغیرہ نصب کیئے جا رہے ہیں۔
اسی لیئے فون اور لیپ ٹاپ کی چارجنگ کل رات مکمل کر لی تھی، ورنہ آج پھر آپ کی محفل میں حاضری ناممکن ھوتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔17    جنوری 2023

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لکھنے کے لیئے بے شمار موضوعات ہیں، مگر یہ موسم نامراد کسی اور موضوع پر لکھنے ہی نہیں دے رہا۔ سردی تو ہر سال ہوتی ہے، مگر میں نے اپنی پوسٹس میں اس کا شکوہ کبھی نہیں کیا۔ تاہم پچھلے دو ہفتوں سے اتنے غضب کی سردی پڑ رہی ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، چار دن چٹی سفید دھوپ تھی مگر اس کے ساتھ یخ بستہ ہوا عذاب جاں بنی رہی، آج دھوپ بھی غائب ھو گئی ، مگر ہوا زور و شور سے جاری و ساری ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ جابے کی ہوا ہے، داودخیل کے شمال مشرق میں پہاڑ کا درہ ہے جسے جابہ کہتے ہیں، وہاں سے تیز ہوا دن کے پہلے پہر آتی ہے۔ جابہ کو تو میں اچھی طرح جانتا ہوں، ساری زندگی جابے کے ساتھ گذری ہے، لیکن جابہ تو صحتمند ہوا ہے، اب جو ہوا چل رہی ہے یہ صرف جابہ نہیں اس میں شمالی علاقہ جات کی برفانی ہوا کی ملاوٹ نے زہر گھول دیا ھے۔ خالص جابہ تو اپنا پرانا یار ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ مجھے سردی کا احساس کچھ زیادہ ہوتا ہے — اپنا اپنا مزاج ہوتا ہے ، کسی کو سردی اچھی لگتی ہے ، کسی کو گرمی، مجھے تو گرمی بہت اچھی لگتی ہے۔ کڑکتی دوپہر میں بھی مزے سے باہر پھرتا رہتا ہوں۔ مگر سردی کے موسم میں کہیں آنے جانے کو دل نہیں مانتا۔ یہ پوسٹ بھی کوئلوں کی آگ کے پاس بیٹھ کر لکھی جا رہی پے۔
اللہ رحم کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔18    جنوری 2023

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خالق کائنات اپنا نظام چلانے کے لییے موسم میں مناسب رد و بدل کرتا رہتا ھے، کبھی گرمی ، کبھی سردی، کبھی بارش، کبھی دھوپ۔۔۔۔۔ سمندروں سے بادلوں کو ہانک کر لانے والی ہوائیں، جہاں رب کا حکم ہو وہیں بارش برساتی ہیں۔ کون ھے جو دن بھر آسمان میں تیرتے بادلوں کو ایک ہی رات کے چند لمحوں میں ہٹا کر آسمان کو سلیٹ کی طرح صاف کر دے۔ ؟
کل تو یہ لگتا تھا آسمان دوچار دن ابر آلود رہے گا، ٹھنڈی یخ ہوائیں ہمارے تعاقب میں ہر جگہ نازل ہوتی رہیں گی ، لیکن آج صبح اٹھے تو چٹی سفید دھوپ، جیسے بادل ادھر کبھی آئے ہی نہ تھے۔ ہوا بھی آج اپنی جانی پہچانی جابے کی خوشگوار ہوا ہے، وہ چاقو جیسی کاٹ والی ظالم ہوا شکر ہے کہیں دفع ہو گئی۔
دھوپ نکلی ہوئی ہو تو اس موسم کو ہم داودخیل کے لوگ “کھرا” کہتے ہیں۔ موسم بہت زیادہ صاف ھوتا تو اسے “بھانگی کھرا” کہتے تھے۔ بھانگی کے معنی جاننے والے بزرگ تو قبروں میں جاسوئے۔ اس لفظ کے معنی نہ ہم نے پوچھے ، نہ انہوں نے بتائے، اس لیئے ہم نے یہ لفظ بولنا ہی چھوڑ دیا۔
ابر آلود موسم کو “جھڑ” کہتے تھے۔ یہ لفظ اب بھی چل رہا ہے۔
موسم کی تبدیلیاں تو رب اپنی مرضی سے کرتا رہتا ہے، ہماری سوچ یہ ہونی چاہیے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس میں ہمارا کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور ھے۔ ہمیں نظر نہ آئے تو الگ بات۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔9 1   جنوری 2023

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داودخیل ایک چھوٹا سا گمنام سا گاوں ھوا کرتا تھا-

1945-46 میں دریائے سندھ پر جناح بیراج کی تعمیر داودخیل کا ملکی سطح پر پہلا تعارف بنی۔

1950-60 کے عشرے میں یہاں صنعتی ترقیاتی کارپوریشن PIDC کے چار کارخانوں، پاک امریکن فرٹیلائیزر فیکٹری، میپل لیف سیمنٹ فیکٹری، پاک ڈائیز اینڈ کیمیکلز اور پنسلین فیکٹری کا قیام داودخیل کی مزید تشہیر کا وسیلہ بن گیا. ان کارخانوں میں ملک بھر سے لوگ آکر رزق کمانے لگے ۔

2021-22 میں سی پیک کی توسیع نے داودخیل کو ضلع بھر سے پنڈی ، اسلام آباد آنے جانے والی ٹریفک کی راہ کا ایک اہم سنگ میل بنا دیا، کیونکہ اس سڑک سے پنڈی،اسلام آباد صرف 2 گھنٹے کا سفر بنتا ھے ، میانوالی سے پنڈی ، اسلام آباد تک صرف اڑھائی گھنٹے کا سفر ھے۔ اس سے پہلے تلہ گنگ سے پندرہ بیس کلومیٹر آگے بلکسرسے موٹروے کے ذریعے پنڈی، اسلام آباد تک چار پانچ گھنٹے لگتے تھے۔ میانوالی سے داودخیل تک ون وے روڈ بن جائے تو مزید آسانی ہو جائے گی-

ہمارے سیاسی قائدین ایک دوسرے کی منجی ٹھوکنے سے فارغ ہو کر ادھر ضرور توجہ فرمائیں۔ ان شآءاللہ میرا داودخیل بہت جلد پاک سرزمین کا ایک اہم تجارتی اور سیاحتی مرکز بن جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔20جنوری 2023

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اردو ادب میں داودخیل کا ایک اپنا مقام ھے۔ داودخیل کے ملک منظور حسین منظور اور ظفر خان نیازی ملک گیر شہرت کے حامل شعراء تھے۔ افسانہ نگاری میں ہرچرن چاولہ بین الاقوامی سطح کے معروف افسانہ نگار تھے۔ ظفرخان نیازی شاعر کے علاوہ جدید انداز کے اہم افسانہ نگار بھی تھے۔

داودخیل کو یہ اعزاز بھی نصیب ہوا کہ اردو کا سب سے عظیم ناول ” اداس نسلیں” عبداللہ حسین نے داودخیل (سکندر آباد ) میں بیٹھ کر لکھا۔ عبداللہ حسین اس وقت یہاں میپل لیف سیمنٹ فیکٹری میں انجینیئر تھے۔

داودخیل سے وابستہ ادب کی ان تمام نامور شخصیات کے بارے میں دوچار سال پہلے بھی میں نے کچھ مختصر پوسٹس لکھی تھیں ، مگر اب داودخیل کا مفصل تعارف کرا رہا ہوں تو ان شخصیات کا مفصل تعارف بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ ان شآءاللہ کل سے ان میں سے ہر شخصیت کا الگ الگ مفصل تعارف لکھوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔21جنوری 2023—

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضلع میانوالی میں اردو کےپہلے دو شاعر تلوک چند محروم اور ملک منظور حسین منظور تھے۔

ملک منظور حسین منظور داؤدخیل کے پہلے شاعر تھے۔ ایم اے فارسی میں پنجاب یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن لے کر گولڈ میڈل وصول کرنے کے بعد انگلش ٹیچر کی حیثیت میں محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوگئے۔ انگلش کے بھی بہترین ٹیچر تھے ۔ ملازمت کا آغاز کلورکوٹ ضلع بھکر (اس وقت ضلع میانوالی) سے کیا۔ کچھ عرصہ بعد گورنمنٹ ہائی سکول بھاگٹانوالہ ضلع سرگودہا میں ھیڈ ماسٹر کے منصب پر فائز ھوئے۔ تقریبا 20 سال وہاں رہے۔ اس زمانے میں داؤدخیل میں ہائی سکول نہیں تھا، اس لیئے داودخیل کے کئی بچوں کو ماموں جان نے بھاگٹانوالہ سکول میں داخلہ دے کر وہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کرایا۔ میرے بڑے بھائی ملک محمد انور علی، بھائی فتح خان سالار(نیکوخیل) اور شریف خیل قبیلہ کے محمد شریف خان (جماعت اسلامی کے رہنما) نے بھی بھاگٹانوالہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔

ملک منظور حسین منظور میرے مامُوں تھے۔

شاعری میں جناب منظور حسین منظور نے علامہ اقبال کا انداز اختیار کیا۔ نامور نقاد ڈاکٹر وحید قریشی نے ان کے بارے میں کہا کہ اقبال کے انداز میں شاعری بہت لوگوں نے کی، لیکن اقبال کے کامیاب ترین مقلد منظور حسین منظور ہیں۔

جناب منظور حسین منظور کا سب سے اہم شعری کارنامہ “جنگ نامہ اسلام” کے عنوان سے عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی جنگوں ، بدر ، احد ، خندق وغیرہ کا منظوم بیان ھے، جو اردو شاعری میں رزمیہ اندازسخن epic poetry کی بہترین مثالوں میں شمار ہوتا ہے۔ جنگ نامہ اسلام دو جلدوں پر مشتمل ھے۔ جلد اول کا تعارف مجاہد ملت عبدالستار خان نیازی نے لکھا۔

کیف دوام اور حدیث درد کے عنوان سے غزلوں کے دو مجموعے بھی شائع ہوئے۔ گلبانگ عجم کے عنوان سے اپنی فارسی شاعری کا مجموعہ مرتب کر رہے تھے، مگر تقدیر نے کام مکمل کرنے کی مہلت نہ دی۔

فارسی شاعری میں جناب منظور حسین منظور کے مقام کا اندازہ اس بات سے کیجیئے کہ ایران کے سرکاری ادارے خانہ فرہنگ ایران نے برصغیر پاک و ہند کے فارسی شعرا کاجو تعارف ایک خوبصورت کتاب کی شکل میں شائع کیا اس میں غالب و اقبال کے ساتھ منظور حسین منظور کا تعارف اور نمونہ کلام بھی شامل ھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔22 جنوری 2023

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہر چرن چاولہ۔۔۔۔۔۔۔1
نامور افسانہ نگار ہر چرن چاولہ داودخیل کے ایک معروف ہندو خاندان کے منفرد فرد تھے۔ ان کا آبائی گھر محلہ لمے خٰیل میں چاچا چمن خان کے گھر کی پچھلی گلی میں واقع تھا، لیکن چاولہ کا بچپن داودخیل ریلوے سٹیشن پر ریلوے ریسٹ ہاوس کے سامنے ایک کوارٹر میں بسر ہوا ۔ یہ کوارٹر چاولہ کے والد کو الاٹ ھوا تھا۔ چاولہ کے والد ریلوے میں ملازم تھے۔
چاولہ نے داودخیل سکول سے مڈل کا امتحان پاس کیا۔ سکول کے ھیڈ ماسٹر میرےدادا جی ملک مبارک علی تھے۔ چاولہ کو ان سے بے پناہ عقیدت تھی۔
قیام پاکستان کے وقت دوسرے ہندو خاندانوں کے ساتھ چاولہ کا خاندان بھی انڈیا منتقل ہوگیا، مگر داودخیل سے والہانہ محبت چاولہ کے دل میں آخری دم تک موجزن رہی۔ داودخیل کا دیوانہ تھا وہ شخص۔ اپنی تحریروں اور گفتگو میں بڑی حسرت سے داودخیل کی گلیوں اور لوگوں کا ذکر کرتا رہتا تھا۔ وہ دنیا کے آخری کونے پر ناروے میں رہا تو بھی داودخیل سے رابطہ برقرار رکھا۔
وطن کی محبت انسان کے خون میں شامل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپ میں رہنے والے میری پوسٹس کے پاکستانی قارئین بھی بڑے شوق سے اپنے سادہ سے دورافتادہ، پسماندہ علاقے کا ذکر بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔
چاولہ کی تو بات ہی اور تھی، اس نے تو ہمیشہ داودخیل ہی کو اپنا وطن سمجھا۔ قسمت کی بات کہ اسے 50 سال بعد صرف ایک دن کے لیئے داودخیل آنا نصیب ھوا۔
بہت سے لوگ چاولہ کے بارے میں بہت کچھ جاننا چاہتے ہیں، اس لیئے اس کا تذکرہ مزید ایک دو دن جاری رہے گا۔ خاصی دلچسپ داستان بنے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔23   جنوری 2023
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر چرن چاولہ۔۔۔۔۔۔ 2
لاھور کے معروف ادبی رسالہ “ادب لطیف” میں “دوسا” کے عنوان سے ہرچرن چاولہ کا افسانہ ہمارے لیئے ایک بڑا سرپرایئز تھا۔ کیونکہ یہ داودخیل کی ایک سچی کہانی تھی۔ چاچا دوسا (دوست محمد خان) اور اس کی بیوی چاچی بختی کو ہم سب لوگ جانتے تھے۔ چاچا دوسا محلہ داوخیل میں رہتے تھے۔ داودخیل لاری اڈہ سے ریلوے سٹیشن جانے والی سڑک کے موڑ پر ان کا چھوٹا سا خوبصورت گھر اور کریانے کی چھوٹی سی دکان تھی۔
چاچا دوساکی کہانی یہ تھی کہ خاندانی عداوت کی بنا پر چاچا دوسا کے مخالفین نے ایک رات ان کے گھر پر حملہ کرکے چاچا دوسا کے دونوں بازو اور چاچی بختی کی ناک کاٹ دی۔ بازووں سے محروم چاچا دوسا اور ناک سے محروم چاچی بختی کی کوئی اولاد نہ تھی، اس لیے دکان بھی وہ دونوں خود ہی چلاتے رہے۔ ادھر سے گذرتے ہوئے ہم بھی ان سے علیک سلیک کر لیتے تھے۔
میرے بڑے بھائی ہیڈ ماسٹر ملک محمد انور علی نے یہ کہانی پڑھی تو جاکر چاچا دوسا کو بھی سنائی۔ چاچا بہت خوش ہوئے، اور چاولہ کو شکریہ کا خط بھیجنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ یہ اندازہ تو ہو گیا کہ کہانی لکھنے والا داودخیل کا ہندو ہے، مگر اس کا موجودہ پتہ معلوم نہ تھا۔ بھائی جان نے ادب لطیف کے دفتر سے چاولہ کا پتہ معلوم کر کےچاچا دوسا کا شکریہ کا خط بھجوا دیا۔ چاولہ اس وقت انڈیا کے شہر دہلی میں رہتے تھے۔ دوسا کے خط کا فورا جواب دیا۔ یوں چاولہ اور چاچا دوسا کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ بہت عرصہ چلتا رہا۔ چاولہ کے خطوط بھائی جان انور ہی لکھتے تھے، کیونکہ چاچا دوسا کے تو بازو ہی نہیں تھے، ویسے بھی وہ ان پڑھ تھے۔ ہر خط کے ساتھ چاولہ بھائی جان کے نام الگ خط بھی بھیجتے تھے جس میں داودخیل کے بارے میں سوالات اور معلومات ہوتی تھیں ۔
1989 میں چاولہ تقریباً 50 سال بعد صرف ایک دن کے لیئے داودخیل آئے تو چاچا دوسا اور بھائی جان دونوں اس دنیا سے رُخصت ہو چکے تھے۔ چاولہ اپنی کتاب “تم کو دیکھیں” میں بھائی جان کی قبر کی تصویر ہی شامل کر سکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہادر جنجوعہ کا منور ملک کی پوسٹ پر تبصرہ


استاد محترم میانوالی کی ایسی بڑی ادبی شخصیت کا تعارف اور اسکی ماں دھرتی سے محبت ہم سب تک پہچانے کا بہت شکریہ ۔ ایک عجب سانحہ تھا 47 کا بھی ۔ وہ لوگ جو گھر کی چاردیواری سے مر کر ہی نکلتے تھے انہیں جیتے جی ان گھروں کو ہمیشہ کیلئے الوداع کہنا پڑا ۔ یہ دکھ تمام عمر انکے ساتھ رہا اور وہ اسی کو ساتھ لیکر اس جہاں سے رخصت ہوئے ۔ سوشل میڈیا کے توسط سے میری اپنے گاؤں شادیہ سے ہجرت کرنے والے ہندو خاندان کے ایک فرد سے بات ہوئی تو میں یہ سن کر دم بخود رہ گیا کہ مرتے وقت انکے والد کے لبوں پر آتا آخری نام شادیہ تھا۔
پنجاب یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کے دوران شیخوپورہ کے ایک گاوں میں میرا ٹریننگ کے سلسلہ میں ایک ماہ کیلئے قیام تھا ۔ وہاں ایک بزرگ ملے جو قیام پاکستان کے وقت اوائل جوانی کے ایام میں تھے جسکی وجہ سے 47 سے قبل اس گاؤں میں بستے سب ہندو اور سکھ گھروں کا انہیں بخوبی علم تھا ۔ ایک دن بتانے لگے کہ ہر سال درجنوں سکھ اور ہندو خاندانوں کے افراد اس گاؤں آکر مجھ سے اپنے آبائی گھروں کا پوچھتے ہیں ۔ اور ہر فرد اپنی بوڑھی نانی دادی کی خواہش پر اس آبائی گھر کی خاک ، اینٹ اور اگر سالم ہو تو چوکھٹ سے کچھ حصہ کاٹ کے لے جاتا جسے بزرگوں نے باقی کی تمام عمر سینے سے لگا کے جینا تھا۔ جنم بھومی ہی ہر کسی کا مکہ و مدینہ ہوتی ہے
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

کفایت خان

ہرچرن چاولہ کیساتھ میری خط و کتابت تھی انہوں نے مجھے دہلی میں واقع میانوالی نگر میں ہر سال اکتوبر کے مہینے منعقد ہونے والے کسی میلے میں شرکت کی دعوت بھی دی تھی لیکن نہ جا سکا انکے خطوط میں داؤدخیل اور اس کے باسیوں کیلئے محبت اور عقیدت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ان کا آخری خط ہمارے رشتہ دار شیر محمد ولد دوست محمد کی وفات والے دن ناروے سے موصول ہوا جس کا جواب میں ابھی تک نہ دے سکا

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہرچرن چاولہ۔۔۔۔۔۔3
ہرچرن چاولہ ناروے میں ایک بڑی لائبریری کےلائبریریئن کےمنصب پر فائز تھے۔ ایک دفعہ ناروے سے انڈیا آئے تو پاکستان کا ویزہ لگوا کر داودخیل بھی آئے۔ دراصل پاکستان آنے کا مقصد ہی یہی تھا۔ داودخیل آنے کی صرف ایک دن کی اجازت ملی۔
چاولہ کی اہلیہ پورنیما بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ بہت اچھی خوش اخلاق خاتون تھیں۔ ہمارے گھر والوں کے ساتھ اس طرح گھل مل گئیں جیسے اسی گھر میں رہتی ہوں۔
چاولہ کے لیئے وہ دن عید کا دن تھا۔ بہت خوش تھے 50 سال بعد اپنے داودخیل کو دیکھ کر- شہر میں بہت کچھ بدل گیا تھا، مگر شہر کا نقشہ آج بھی وہی ہے، وہی گلیاں، وہی گھر، چاولہ کےبچپن کے دور کے کچھ لوگ بھی اس وقت اس دنیا میں موجود تھے۔
سب سے پہلے چاولہ ہمارے ساتھ ریلوے سٹیشن کے اس کوارٹر میں گئے جہاں ان کا بچپن گذرا تھا۔ وہ کوارٹر اب ویران پڑے تھے، ان کی جگہ نئے کوارٹر بن گئے تھے۔ ویران کوارٹر میں قدم رکھتے ہی چاولہ بچوں کی طرح بلند آوازمیں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ برآمدے کے ایک کونے میں جا کر فرش کو بوسہ دیتے ہوئے کہا “یہاں ہماری اماں بیٹھ کر کھانا بنایا کرتی تھی۔ فرش پر ہاتھ پھیر کر ماں کے پاوں کی مٹی اپنے ماتھے پر لگائی، اور وہیں کچھ دیر بیٹھ کر روتے رہے۔
سٹیشن سے ہم محلہ لمے خیل میں چاولہ کے سکول گئے جہاں چاولہ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ چاولہ بہت جذباتی ہو گئے ۔ درودیوار کو چومتے رہے۔ پھر کہا ہمارے دور میں سکول کا بہت سریلا گھنٹہ ہوتا تھا ، جو حاضری اور چھٹی کے وقت بجایا جاتا تھا۔
گھنٹہ سکول میں اب بھی موجود اور زیراستعمال تھا۔یہ ریلوے لائین کا دو فٹ لمبا ٹکڑا تھا، جو لوہے کی ہتھوڑی سے بجایا جاتا تھا۔ اس کی سریلی آواز دور دور تک گونجتی تھی۔ چاولہ نے گھنٹے کو بوسہ دے کر بجا کر بھی دیکھا، گھنٹے کی آواز سن کر چاولہ کی آنکھیں خوشی کے آنسووں سے بھیگنے لگیں۔
سکول سے نکلے تو چاولہ نے اپنے بچپن کے دوست اکبر خان کے بارے میں پوچھا۔ اتفاق سے چاچا اکبر خان اسی وقت ادھر سے گذرے۔ چاولہ نے ان کا راستہ روک کر کہا ” سینیاتئی؟”(مجھے پہچانا؟)
چاچا اکبر خان نے آنکھوں پر ہاتھ کا سایہ بنا کر غور سے دیکھتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ” چرن ایں ؟”
پھر یہ دونوں بزرگ گلے مل کر دیر تک روتے رہے۔ چاچا اکبر خان نے چائے پانی کے لییے بہت اصرار کیا، مگر چاولہ کو اسی شام اسلام آباد پہنچنا تھا،اس لیئے چاچا کی دعوت قبول نہ کر سکے۔ کہا ” بھائی ، میں وت آساں” (میں پھر آوں گا)۔
تقدیر نے چاولہ کو دوسری بار داودخیل آنے کی مہلت نہ دی۔ موت ناروے میں معین تھی، وہیں سے عدم آباد سدھارگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔25   جنوری 2023

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ظفرخان نیازی کا داودخیل۔۔
معروف و مقبول ریڈیو پروڈیوسر، منفرد شاعر اور افسانہ نگار ظفرخان نیازی داودخیل کے قبیلہ شریف خیل کے چشم و چراغ تھے۔ والد کا سایہ بچپن ہی میں سر سے اٹھ گیا، والدہ سسرالی رشتہ داروں کے ناروا سلوک سے دل برداشتہ ہوکر اپنے میکے گھر میانوالی منتقل ہوگئیں۔ یوں ظفر خان کو بچپن کے صرف پہلے دوتین سال ہی داودخیل میں رہنا نصیب ہوا، ان کی پرورش میانوالی میں نانکےگھر میں ھوئی ، پھر بھی داودخیل سے والہانہ محبت ان کے دل میں آخری سانس تک برقرار رہی۔ داودخیلوی ہونے کے ناطے ظفرخان مجھ سے بہت پیار کرتے تھے، اور دل کی ایسی باتیں مجھ سے شیئر کرتے تھے جو وہ داودخیل سے باھر کے کسی آدمی کو نہیں بتا سکتے تھے۔ جب کبھی میں اپنی پوسٹ میں داودخیل کا ذکر کرتا ظفر خان بھرپور داد دیتے تھے۔ ان کے پیار بھرے کمنٹ آج بھی کانوں میں گونج رہے ہیں۔
داودخیل کچہ میں نہر کے پل دس ہزار کے پار ظفر کی اچھی خاصی وسیع آبائی زمین تھی، جو انہوں نے ادھ پر (آدھی پیداوار کے عوض) مزارعین کو دی ہوئی تھی۔ ہر سال گندم کی پیداوار میں اپنا حصہ وصول کرنے کے لیئے ظفر خان یہاں آیا کرتے تھے، مگر رشتہ داروں سے رنجش کے باعث شہر میں آنے کی بجائے صرف اپنی زمین پر جاکر ایک ہی دن میں واپس چلے جاتے تھے۔ اپنے گھر نہ جا سکنے کا دکھ بھی وہ مجھ سے شیئر کیا کرتے تھے۔ بڑی حسرت تھی ظفر کے دل میں اس گھر میں آباد ہونے کی، مگر حالات نے اجازت نہ دی۔
بالآخرحالات سے مجبور ہو کر ظفر نے وہ زمین بیچ کر داودخیل سے اپنا آخری تعلق بھی توڑ دیا۔ پھر بھی داودخیل سے ان کی محبت کم نہ ہو سکی ۔کسی شاعر نے ایسی ہی صورت حال کے بارے میں کہا تھا۔۔۔۔۔
ہمارے پیار کی مجبوریاں کوئی دیکھے،
خود اپنے آپ کو ہم بے وفا بنا بیٹھے
ظفر خان کا کچھ ذکر ان شآءاللہ کل۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔26    جنوری 2023
ظفر خان نیازی۔۔۔
ریاضی میں ایم ایس سی (MSc in Mathematics) کرنے کے بعد ظفر خان کو تلاش معاش کی فکر لاحق ہوئی تو کئی جگہ ملازمت کے لیئے درخواستیں دیں ، مگر قدرت نے ان کے حصے کا رزق ریڈیو پاکستان میں مختص کر دیا تھا، وہیں سے ملازمت کا آغاز ہوا۔ کوئٹہ، آزاد کشمیر اور راولپنڈی میں پروڈیوسر/ سینیئر پروڈیوسر کی حیثیت میں خدمات سرانجام دینے کے بعد ریڈیو پاکستان اسلام آباد کے سٹیشن ڈائریکٹر مقرر ھوئے، اور یہیں سے 2007 میں ریٹائر ھوئے۔
پروڈیوسر کی حیثیت میں ظفر کا شاہکار پروگرام “سوغات” تھا۔ سامعین کے خطوط سے ترتیب دیا ہوا یہ پروگرام ریڈیو پاکستان کا مقبول ترین پروگرام تھا۔ ملک بھر سے لاکھوں لوگ خط و کتابت کے ذریعے اس پروگرام میں شریک ہوتے تھے۔۔۔ ظفر خان نیازی کی آواز اور لب و لہجے میں بلا کی کشش تھی۔ سامعین کی فرمائشوں اور تجاویز پر ظفر خان کے جوابات بہت دلچسپ ہوتے تھے۔
داودخیل میں آباد ہونے کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو ظفر خان نے داودخیل والی آبائی زمین بیچ کر میڈیا سٹی اسلام آباد میں گھر بنا لیا۔ اور وہیں کی مٹی ان کا آخری ٹھکانہ بھی بن گئی۔
ایک اور ظفر (مغل شہنشاہ بہادرشاہ ظفر) کا شعر یاد آ رہا ہے۔ وطن سے دور قید میں اس دنیا سے رخصت ہونے سے بہت پہلے بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا۔۔۔
کتنا ہے بد نصیب ظفر، دفن کے لیئے،
دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
یہی دکھ ہمارا ظفر بھی سینے میں لیئے اسلام آباد کی مٹی میں سوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔26    جنوری 2023
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ظفر خان نیازی۔۔۔
ریاضی میں ایم ایس سی (MSc in Mathematics) کرنے کے بعد ظفر خان کو تلاش معاش کی فکر لاحق ہوئی تو کئی جگہ ملازمت کے لیئے درخواستیں دیں ، مگر قدرت نے ان کے حصے کا رزق ریڈیو پاکستان میں مختص کر دیا تھا، وہیں سے ملازمت کا آغاز ہوا۔ کوئٹہ، آزاد کشمیر اور راولپنڈی میں پروڈیوسر/ سینیئر پروڈیوسر کی حیثیت میں خدمات سرانجام دینے کے بعد ریڈیو پاکستان اسلام آباد کے سٹیشن ڈائریکٹر مقرر ھوئے، اور یہیں سے 2007 میں ریٹائر ھوئے۔
پروڈیوسر کی حیثیت میں ظفر کا شاہکار پروگرام “سوغات” تھا۔ سامعین کے خطوط سے ترتیب دیا ہوا یہ پروگرام ریڈیو پاکستان کا مقبول ترین پروگرام تھا۔ ملک بھر سے لاکھوں لوگ خط و کتابت کے ذریعے اس پروگرام میں شریک ہوتے تھے۔۔۔ ظفر خان نیازی کی آواز اور لب و لہجے میں بلا کی کشش تھی۔ سامعین کی فرمائشوں اور تجاویز پر ظفر خان کے جوابات بہت دلچسپ ہوتے تھے۔
داودخیل میں آباد ہونے کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو ظفر خان نے داودخیل والی آبائی زمین بیچ کر میڈیا سٹی اسلام آباد میں گھر بنا لیا۔ اور وہیں کی مٹی ان کا آخری ٹھکانہ بھی بن گئی۔
ایک اور ظفر (مغل شہنشاہ بہادرشاہ ظفر) کا شعر یاد آ رہا ہے۔ وطن سے دور قید میں اس دنیا سے رخصت ہونے سے بہت پہلے بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا۔۔۔
کتنا ہے بد نصیب ظفر، دفن کے لیئے،
دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
یہی دکھ ہمارا ظفر بھی سینے میں لیئے اسلام آباد کی مٹی میں سوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

بہادر جنجوعہ کا منور ملک کی پوسٹ پر تبصرہ

استاد مکرم ! ظفر خان نیازی آپکے مزاج کے بہت معترف تھے اور میں نے انہیں ہمیشہ آپکی تعریف کرتے پایا ۔ آپ نے ان سے وابستہ یادوں کو جس خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے اس نے میری سوئی ہوئی یادوں کو بھی جگا دیا ہے
ریڈیو پاکستان میں سوغات کو وہی اہمیت حاصل تھی جو آجکے جدید فون میں فیس بک کو حاصل ہے ۔ ویسے تو سوغات کا سب سے مقبول سلسلہ خواب جزیرے تھا مگر اسکے ساتھ ساتھ تاریخ اور ادب پر بھی کئی لاجواب سلسلے اس پروگرام کا حصہ تھے ۔ میں نے نیازی صاحب کو باقاعدگی سے اسوقت سننا شروع کیا جب میں ابھی چوتھی جماعت میں تھا جبکہ ساتویں کلاس میں نے انہیں باقاعدگی سے خط لکھنا شروع کیا یوں میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ میرے بچپن کے دوست تھے ۔
یاد رہے کہ مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان نیازی صاحب کے پروگرام کے باقاعدہ سامعین میں سے تھے ۔بحیثیت ادارہ ریڈیو پاکستان اسلام آباد کیلئے یقینا وہ یادگار دن تھا جب ڈاکٹر صاحب کا خط پروگرام میں نشر ہوا۔ وہ زمانہ کہ جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آواز تو کیا انکا سایہ بھی کسی نے نہ دیکھا تھا اور انکی سکیورٹی کے متعلق کئی مافوق الفطرت کہانیاں مشہور تھیں ان دنوں نیازی صاحب کی درخواست پر ڈاکٹر صاحب پروگرام سوغات میں بذات خود انٹرویو کیلئے تشریف لائے تھے ۔ میں نے وہ انٹرویو اس انہماک سے سنا گویا ریڈیو کی دیواروں کے پیچھے سے انسانی آواز میں وہ فرشتہ بول رہا ہو کہ جس کی آواز کو سننے کا حکم ہزاروں سال پہلے کسی الہامی کتاب کے ذریعے ہمیں مل چکا تھا ۔ یہ انٹرویو ظفر خان نیازی کی بحیثیت پروڈیوسر محنت ، لگن ، کامیابی اور عظمت کا منہ بولتا ثبوت تھا جس میں ڈاکٹر صاحب نے بہت کھلی ڈلی گفتگو کی تھی جس میں یہ بھی بتایا تھا کہ وہ راولپنڈی سے کہوٹہ کے اپنے عمومی سفر میں بہت عرصہ سے بڑی باقاعدگی کیساتھ یہ پروگرام سنتے چلے آرہے ہیں ۔ لگ بھگ چالیس منٹ کی اس گفتگو کو نیازی صاحب نے اس سلیقے سے ترتیب دیا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ کے مزیدار پراٹھوں ، انکا ادبی ذوق ، موسیقی سے رغبت اور بھوپال سے وابستہ یادوں تک ہر موضوع پر مرحوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بات کی تھی ۔ یہ بات سامعین کیلئے خوشگوار انداز میں باعث حیرت اور نیازی صاحب کیلئے باعث افتخار تھی کہ خود محسن پاکستان کو بھی ظفر خان نیازی سے ملنے کا اشتیاق تھا ۔ بعد میں اس انٹرویو کے اقتباسات اخبارات کی بھی زینت بنے تھے ۔ یہی نہیں بلکہ دیگر کئی یادگار انٹرویوز بھی سوغات کا حصہ بنے ان میں سے ایک بزرگ عبدالعزیز کا انٹرویو بہت مقبول ہوا جو سکھ مذہب سے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے ۔ وہ ایک بہت جزباتی انٹرویو تھا ۔ جسکے دوران عبدالعزیز صاحب کیساتھ ساتھ نیازی صاحب اور سامعین بھی روئے تھے ۔ سامعین کی فرمائش پر پروگرام میں یہ انٹرویو کئی بار نشر ہوا تھا یہ گفتگو یوٹیوب پر آج بھی موجود ہے ۔
استاد مکرم ! مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سوغات میں سب سے زیادہ فرمائش آپ کے بیٹے کی آواز میں آپکی تخلیق ” پنچھی لوٹ آئے ” کی ہوا کرتی تھی ۔ نیازی صاحب بتایا کرتے تھے کہ بیرون ملک مقیم کئی سامعین کو انکی منت سماجت پر یہ غزل وہ کیسٹ کے توسط سے ریکارڈ کرکے بھی بھیج چکے ہیں
زندگی کی۔مصروفیات کے باعث ریڈیو سے دوری ہوئی تو ہم نیازی صاحب کی محفل سے بھی دور ہو گئے ۔ مدت کے بعد دوبارہ تعلق فیس بک کے ذریعے قائم ہوا تو ایسا کہ انکے آخری دم تک قائم رہا ۔
نیازی صاحب بہت صاحب علم شخصیت تھے ۔ انگریزی و اردو ادب کیساتھ ساتھ پامسٹری اور روحانیت پر گھنٹوں گفتگو کرسکتے تھے ۔ پامسٹری کی بابت ایک دفعہ فرمانے لگے کہ میں نے اس علم کو بہت پڑھا اور مجھے اسکی وسعت پر بڑی حیرانگی تھی پھر میں پپلاں کے پیر مظہرالقیوم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس بزرگ باکمال کے سامنے پامسٹری کے علم کا پہاڑ چند ساعتوں میں ریزہ ریزہ ہوگیا ۔ن اوائل جوانی میں جماعت اسلامی سے مذہبی وابستگی رکھنے والے ظفر نیازی پیر مظہرالقیوم صاحب کے روحانی کشف کے بہت قائل تھے ۔
نیازی صاحب بہت خوش ذوق و خوش لباس انسان تھے ۔ فون پرگھنٹوں کی گپ شپ منٹوں میں گزر جاتی ۔ دوران گفتگو ایک دفعہ پوچھنے لگے کہ لندن میں اس وقت کتنے بجا چاہتے ہیں ۔ میں نے کلائی پر باندھی گھڑی کی تصویر جھٹ سے بھیج دی کی خود ہی دیکھ لیجیے۔ اب جو گھڑیوں پر بات شروع کی تو پتہ چلا کہ انکی الماری میں اسوقت لگ بھگ دو سو گھڑیاں موجود ہیں ۔ کس زمانے میں کونسی گھڑی کہاں سے لی ، کتنے میں لی ، کون کونسی گھڑیاں صرف پٹھانوں سے اچھی ملتی ہیں اور کونسی مارکیٹ سے ، سب پر تفصیل سے روشنی ڈالی ۔ نفیس مزاج کے نیازی صاحب ایک دفعہ مجھ سے ناراض بھی ہوگئے اور پورا ایک دن ناراض رہے ۔
یہ عجب اتفاق ہے کہ وہ Shakeel Haider جسکی وال پر وہ فیس بک کی دنیا میں مجھے ملے تھے ، اسی شکیل نے مجھے انکے جہان فانی سے کوچ کرنے کی خبر دی تھی ۔
انا لا اللہ وانا الیہ راجعون
اللہ تعالٰی نیازی صاحب کے درجات بلند فرمائے اور انکی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل ہوں۔
آمین ثم آمین
بہادر جنجوعہ ، لندن27    جنوری 2023
سالار نیازی صاحب گورنمنٹ سکول مین بھای صادق کے ٹیچر تھے… ایک دفعہ میانوالی شہر کے ایک مشاعرے مین جب بھائ کالج یونین کے صدر تھے.. کسی نے دروازہ ناک کیا تو سالار صاحب کو کھڑکار اچھا نہ لگا انہون نے برجستہ فالبدیہہ کہا…
بند کرو کھڑکار غزل پئ تھیندی ھے….
سردا ممتاز صاحب… ڈاکٹر اسحاق صاحب کے ابو ھین…. ان کی کتاب شاید گوھر تابدار دیکھی ھوئ ھے…
واہ سر جی! واہ! آج آپ نے اپنے گاؤں کی اردو ادب سے وابستہ معروف شخصیات کا ذکر فرمایا
دلی خوشی ہوئی!
آپ سدا بہار رھیں اور آپ کا سایہ ھم پہ ھمیشہ قائم رھے!
آمین یارب العالمین  جزاک اللہ
گو کہ وزیر خان سالار صاحب داؤدخیل سے تھے مگر میرا تعارف نہیں تھا جب میں میانوالی کالج میں سٹوڈنٹس یونین کا سیکرٹری جنرل تھا تو ایک مشاعرہ میں تشریف لائے جہاں انہوں نے بتایا کہ وہ بھی داودخیلوی ہیں میرے والد صاحب کو جانتے تھے اس واسطے سے میرے تادمِ مرگ چچا رہے بڑے مشفق اور مہربان تھے جبکہ سردار ممتاز خان اکثر اپنا نعتیہ کلام مسجد محلہ امیرے خیل میں عشا کی اذان سے پہلے ترنم سے پڑھتے تھے اللّٰہ تعالٰی سب کی مغفرت فرمائے آمین
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبداللہ حسین نے اپنا شاہکار ناول “اداس نسلیں” داودخیل (سکندرآباد) میں بیٹھ کر لکھا، اس وقت عبداللہ حسین میپل لیف سیمنٹ فیکٹری میں کیمیکل انجنیئر تھے۔ یہ ناول اردو کا سب سے عظیم ناول شمار ہوتا ھے۔ اس پر عبداللہ حسین کو کئی ایوارڈ بھی ملے۔
سکندرآباد میں قیام کے دوران عبداللہ حسین میرے بڑے بھائی ملک محمد انور علی کے دوست بن گئے۔ اپنی چھوٹی سی FIAT کار میں ہمارے ہاں آتے رہتے تھے۔
چندسال بعد یہاں سے برطانیہ چلے گئے۔ بہت عرصہ بعد واپس آکر لاھور میں اپنی بیٹی کے ہاں مقیم ھوگئے۔ خون کے کینسر میں مبتلا ھونے کی وجہ سے وہ کہیں آجا بھی نہیں سکتے تھے۔ 84 برس کی عمر میں 4 جولائی 2015 کو اس دنیا سے رُخصت ہوگئے۔۔
اداس نسلیں جیسے شاہکار ناول کی داودخیل میں تخلیق داودخیل کے لیئے ایک اعزاز ھے۔
دکھ کی بات تھی میں نے ذکر کرنا مناسب نہ سمجھا، مگر کچھ دوستوں نے کمنٹس میں اس کا ذکر کردیا اس لیئے یہ بتانا ضروری ہو گیا کہ عبداللہ حسین کے جنازے اور تدفین میں صرف ان کے ملازم شریک ہوئے۔ کسی اور کو خبر ہی نہ ہوئی کہ عبداللہ حسین اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
You are absolutely right,sir. I got a job in maple leaf in jan, 1964. He was chemical engineer, very smart and beautiful young man. He was really a capable and genius man. He often used to deliever a lecture on chemistry cntd.
عبداللہ حسین نے یہ ناول داؤد خیل میں قیام کے دوران 1956 میں لکھنا شروع کیا تھا اور 961 میں مکمل کیا۔یہ ناول پہلی بار 1963 میں شائع کیا گیا اور آدم جی جیسے ایشیا کے اس وقت کے سب سے زیادہ قدر و قیمت والے اعزاز سے نوازا گیا۔اس ناول کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے ابتک پچاس سے زائد ایڈیشنز شائع ہوچکے ہیں
اداس نسلیں واقعی پچھلی صدی کا ایک شاہکار ناول ہے۔ آج کے دور میں جہاں کتابیں پڑھنا لگ بھگ ختم ہو چکا ہے وہاں اداس نسلیں اور اس کے مصنف کا تعارف بےشک کئی اور لوگوں کو اس عظیم تخلیق کا مطالعہ کرنے کی طرف راغب کرے گا۔
عبداللہ حسین بتایا کرتے تھے کہ سکندر آباد میں 8 گھنٹے ڈیوٹی اور 8 گھنٹے نیند میں گذر جاتے تھے۔ بقایا 8 گھنٹے میں کرنے کو کچھ نہ ہوتا تھا، اس لئیے بوریت سے بچنے کے لئیے لکھنا شروع کردیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔28   جنوری 2023
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سردار خان ممتاز اور جناب سالار نیازی داودخیل کے دو بزرگ شاعر تھے۔ دونوں نظم کے شاعر تھے۔
سردار خان ممتاز صاحب داودخیل کے قبیلہ امیرے خیل سے تھے۔ پاک امریکن فرٹیلائیزر فیکٹری میں اکاؤنٹنٹ تھے۔ شاعری میں جناب منظور حسین منظور کے شاگرد تھے اور انہی کے انداز میں لکھتے تھے۔ بہت اچھے شاعر تھے۔
جناب سالار نیازی داودخیل کے قبیلہ سالار کے بزرگ تھے۔ اصل نام وزیر خان تھا، قلمی نام سالار نیازی ۔ میانوالی کی معروف سماجی، سیاسی شخصیت امیر عبداللہ خان سالار اور ایڈووکیٹ طاھر خان سالار کے والد تھے۔گورنمنٹ ہائی سکول میانوالی میں اردو فارسی کے ٹیچر رہے ۔ ریٹائرمنٹ کےبعد میانوالی ہی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جناب سوز زیدی اور نظام ہاشمی کےبعد میانوالی کے سب سے سینیئر شاعر تھے۔ شرر صہبائی اور انجم جعفری سکول میں ان کے سٹوڈنٹ رہے۔ سردار خان ممتاز کی طرح سالار نیازی بھی قومی موضوعات پر نظمیں لکھتے تھے۔
داودخیل میں ہم نے حبیب اللہ خان نوید کی اکیڈمی میں ہفتہ وار مشاعرے کا آغاز کیا تو سالار نیازی صاحب داودخیل میں شعر و ادب کی سرپرستی کے لیئے ہر ہفتے میانوالی سے داودخیل آیا کرتے تھے۔ اس مشاعرے میں حبیب اللہ خان نوید کے علاوہ ملک غلام عباس سنگوال، فیض محمد فانی اور چند دوسرے نوجوان شعراء بھی شریک محفل ہوا کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔29    جنوری 2023—منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقصد اپنی تعریف نہیں، تاریخ میں حاضری لگوانا ہے۔ ان دنوں داودخیل کی ادبی تاریخ میری پوسٹس کا موضوع ہے، جناب منظور حسین منظور، ہرچرن چاولہ، ظفرخان نیازی، عبداللہ حسین، سردار خان ممتاز اور جناب سالار نیازی کا ذکر ہوچکا، اب اپنی خدمات کا ذکر واجب ہوگیا، تاکہ میرے داودخیل کی نئی نسل کو معلوم ہو کہ ادب کی حسب توفیق خدمت میں نے بھی کی ہے۔
تعریف اپنی نہیں اس رب کریم کی کرنی چاھیئے جس نے داودخیل جیسی دور افتادہ جگہ کے رہنے والے ایک شخص کو اتنی متنوع صلاحیتوں سے مالامال کردیا۔
انگریزی نثر، اردو نثر اور شاعری، اور سرائیکی گیت نگاری کی بنا پر الحمدللہ میرا نام اور کام دنیا بھر میں متعارف و مقبول ھے۔ تین زبانوں پہ یکساں عبور کی کوئی اور مثال میں نے تو نہیں دیکھی۔ اردو سرائیکی کی حد تک تو ایسی کئی مثالیں موجود ہیں ، لیکن انگریزی میں اتنی ہی مہارت کہیں اور نہیں دیکھی۔ اردو، سرائیکی کے کئی اہل قلم انگریزی بھی لکھ لیتے ہوں گے، لیکن وہ انگریزی جس کے بارے میں انگریزی اخبار PAKISTAN TIMES کے ایڈیٹر سید اقبال جعفری صاحب نے کہا تھا کہ میں صرف اس شخص کو دیکھنے کے لیئے میانوالی آیا ہوں جو میانوالی میں بیٹھ کر آکسفورڈ کی انگریزی لکھ رہا ہے، لکھنے والا بحمداللہ میں ہی تھا۔
شکر نعمت کے طور پر ان شآءاللہ آئندہ دوچار دن تینوں زبانوں میں اپنی کاوشوں کا قدرے مفصل تعارف لکھوں گا۔ مختصر ذکر تو کبھی کبھار پہلے بھی ہوتا رہا، لیکن تاریخ کی تکمیل کے لیئے مفصل ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔۔۔منورعلی ملک۔۔۔30    جنوری 2023۔

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔ر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top