منورعلی ملک کےدسمبر 2022 کےفیس بک  پرخطوط

میرا میانوالی

ایک اور حوالے سے یہ واقعہ چند ماہ پہلے بھی بیان کیا تھا – اب کُچھ دنوں سے اپنے سٹوڈنٹس کی سعادت مندی کا تذکرہ چل رہا ہے تو یہ واقعہ یہاں بھی بتانا ضروری سمجھتا ہوں – مقصد اپنی تعریف کرنا نہیں ، تعریف کے مستحق میرے وہ بیٹے ہیں جو اپنے ٹیچر کا اس قدر احترام کرتے ہیں –
چند سال پہلے کی بات ہے ہمارے ایک قریبی رشتہ دار کی ضمانت کا کیس تھا – بظاہر ضمانت خاصی مشکل تھی – وکیل نے اپنے دلائل کے دوران ملزم کی مجھ سے رشتہ داری کا حوالہ دیا تو جج صاحب کا نوجوان ریڈر اپنی سیٹ سے اُٹھ کر کھڑا ہوگیا – جج صاحب نے کہا “ کیا بات ہے؟“ اس نوجوان نے کہا “سر ، جن پروفیسر صاحب کا وکیل نے نام لیا ہے وہ گورنمنٹ کالج میانوالی میں ہمیں انگلش پڑھاتے تھے “-
جج صاحب نے مُسکرا کر کہا “ اچھا ، یہ بات ہے ، کمال ہے “ یہ کہہ کر اُنہوں نے ملزم کی ضمانت منظور کر لی “-
اس قسم کے بے شمار واقعات ہوتے رہتے ہیں – اللہ کریم بے حساب عزت عطا فرمائے میرے اُن بیٹوں کو جن کی نظر میں میرا مقام اتنا بلند ہے ، جو ہر جگہ ہر وقت میری خدمت کے لیئے کمر بستہ رہتے ہیں –
————————– رہے نام اللہ کا-١دسمبر 2022

میرا میانوالی

کل کی پوسٹ پر likes میں اپنی ایک بہت پیاری بیٹی کا نام دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ یہ ایک طرح کا خاموش احتجاج ہے – وہ ٹیچر ہی کیا جو اپنے سٹوڈنٹس کے دل کی بات نہ سمجھ سکے – خاموش احتجاج اس بات پر تھا کہ بیٹوں کی تعریفوں کے تو پُل باندھ دیئے ، مگر ہم لوگوں کا ذکر کرنا بھی زحمت سمجھا –
ایسی کوئی بات نہیں – آنکھیں دونوں برابر ہوتی ہیں – میرے قلم پر بیٹوں اور بیٹیوں ، دونوں کا حق برابر ہے —
مجھے رب العزت نے یہ منفرد اعزاز بھی عطا کیا کہ میں کچھ عرصہ اپنے کالج کے علاوہ میانوالی کے گورنمنٹ کالج برائے خواتین میں بھی انٹرمیڈیئٹ اور بی اے کی کلاسز کو انگلش پڑھاتا رہا – 1985 – 86 کی بات ہے ، خواتین کے کالج میں انگلش کے لیکچررز کی کمی کے باعث محکمہ ءتعلیم نے ہمارے کالج کے پرنسپل صاحب سے تعاون طلب کیا – ہمارے پرنسپل ڈاکٹر عبدالرشید صاحب نے یہ ذمہ داری میرے سپرد کر دی – میں روزانہ اپنے کالج میں ایک کلاس کو پڑھا کر دو پیریئڈ خواتین کالج میں پڑھاتا اور پھر اپنے کالج واپس آکر ایک پیریئڈ اپنی بی اے کی کلاس میں لگاتا – یہ آمدورفت تقریبا 6 ماہ جاری رہی –
ایک دفعہ اپنے کالج میں بی اے کے سٹوڈنٹس نے کہا “ سر ، آپ ہمیں بھی پڑھاتے ہیں ، ہماری بہنوں کو بھی ، ہم میں اور اُن میں کوئی فرق ؟ میں نے کہا “ بیٹا ، ایک چیز ہوتی ہے شرم و حیا ، وہ اُدھر آپ سے زیادہ ہے – بچی کو ایک بار ڈانٹ دیا جائے تو وہ دوبارہ وہ غلطی کبھی نہیں کرتی – آپ لوگوں کو بار بار ڈانٹنا پڑتا ہے “-
جب ہمارے کالج میں ایم اے کی کلاسز کا آغاز ہوا تو بچوں اور بچیوں کی تقریبا برابر تعداد پر مشتمل مخلوط کلاسز تھیں – کل کی پوسٹ پر خاموش احتجاج ریکارڈ کرانے والی بیٹی میری ایم اے کی سٹوڈنٹ رہیں – مجھے بابا جانی کہتی ہیں – عمارہ نیازی صاحبہ میانوالی کے سیاسی منظر نامے کا ایک اہم نام ہیں – ضلع میانوالی میں تحریک انصاف کے خواتین ونگ کی سربراہ ( چیئر پرسن) ہیں- پچھلے سال مجھ سے کہا بابا جانی کبھی میرے بارے میں بھی کچھ لکھ دیں – میں نے کہا بیٹا میرے قارئین میں ہر سیاسی جماعت کے لوگ شامل ہیں – آپ ایک قد آور سیاسی شخصیت ہیں ، میں نہیں چاہتا کہ کمنٹس کی شکل میں کسی دوسری پارٹی کا کوئی ورکر دل آزاری کی بات کہہ دے – کبھی موقع محل دیکھ کر آپ کا ذکر کر دوں گا – بالآخر آج موقع ملا تو میں نے یہ فرض ادا کردیا –
عمارہ بیٹی کے خاندان کے اور بھی بہت سے لوگ میرے سٹوڈنٹ رہے – ان کے شوہر سعید انور خان نیازی بھی میرے بہت پیارے بیٹے ہیں – اللہ آباد رکھے ، ان کے گھر کو میں اپنا گھر سمجھتا ہوں –
——————– رہے نام اللہ کا-2 دسمبر 2022

میرا میانوالی

خدوزئی سےملک نصیر صاحب کا خوبصورت تحفہ اس پکچر کے روپ میں کل واٹس ایپ سے موصول ہوا۔
ملک نصیر فرٹیلائیزر فیکٹری سکندر آباد میں سب انجینیئر مکینیکل ہیں۔ اپنے علاقے کے غریب لوگوں کی امداد کے لیئے احساس ویلفیئر فاؤنڈیشن کے نام سے فلاحی تنظیم بھی چلا رہے ہیں۔ میری پوسٹس کے مستقل قاری ہیں۔ اللہ کریم انہیں بے حساب جزائے خیر عطا فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔3 دسمبر 2022

میرا میانوالی

گذشتہ ہفتے اپنے بچوں (سٹونٹس) کی محبت اور سعادت مندی موضوعِ سخن رہی – میں نے اپنے ذاتی تجربات سے چند مثالیں بیان کیں – ممکن ہے دوسرے محترم اساتذہ کرام کے تاثرات مجھ سے مختلف ہوں – اللہ کا بے پایاں احسان ہے کہ اپنا تقریبا 50 سال کا سفر شروع سے آخر تک خوشگوار ہی رہا – ڈسپلن کا مسئلہ کبھی نہ بنا –
موضوع تبدیل کر نے سے پہلے آج کُچھ ذکر پیرومُرشد علامہ اقبال کا –
اللہ تعالی سے اقبال کا تعلق ہمیشہ ایک لاڈلے بچے جیسا رہا – کبھی کہا ——
ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں
کبھی کہا ——–
کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تُوبھی تو ہر جائی ہے
مرشد کی ایک فارسی نظم اس حوالے سے خاصی دلچسپ ہے – کہتے ہیں میں نے سُورج ، چاند ، زمین ، سمندر سب سے پُوچھا بتاؤ میں کیا ہوں ، کوئی بھی نہ بتا سکا – آخر میں ——–
شُدم بہ حضرتِ یزداں ، گذشتم از مہ و مہر
کہ در جہانِ تو یک ڈرہ آشنایم نیست
تبسمے بہ لب ِ اُو رسید و ہیچ نہ گُفت
( چاند سُورج وغیرہ نے کو ئی جواب نہ دیا تو میں نے جا کر خالقِ کائنات سے شکوہ کیا کہ تیری کائنات میں تو کوئی مجھے جانتا بھی نہیں – جواب میں مالکِ ارض و سما بس صرف مُسکرا دیا – مجھے امید تھی مجھے بتادے گا کہ میں کون ہوں ، کیا ہوں ، مگر بتانے کی بجائے صرف مُسکرا دیا ) –——————– رہے نام اللہ کا –4 دسمبر 2022

میرا میانوالی

دسمبر کی چھٹیاں بڑے دنوں کی چھٹیاں کہلاتی تھیں – ان دس چھٹیوں کو بڑے دنوں کی چھٹیاں کہنے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ انہی دنوں میں دن بڑے اور راتیں چھوٹی ہونے کا آغاز ہوتا ہے – 22 دسمبر سال کا سب سے چھوٹا دن ہوتا ہے – 23 دسمبر سے دن روزانہ ایک ڈیڑھ منٹ بڑھنے لگتا ہے —- ان چھٹیوں کو بڑے دن کا نام دراصل انگریزوں کی حکومت نے دیا تھا – سرکار کے عیسائی عقیدے کے مطابق یہ دن بڑے دن اس لیئے تھے کہ 25 دسمبر جنابِ عیسی علیہ السلام کا یومِ ولادت تھا – اس حوالے سے یہ چھٹیاں کرسمس کی چھٹیاںChristmas holidays ( عیسی علیہ السلام کی ولادت کی تقریبات کی چھٹیاں) بھی کہلاتی تھیں – اب تو دنیا میں عیسائیت کا صرف نام ہی باقی رہ گیا ہے – اہلِ مغرب دنیاوی ترقی کے شوق میں دین سے منہ موڑ کر بہت آگے نکل گئے – ایک زمانہ وہ بھی تھا جب عیسائی لوگ پُورا دسمبر اپنے نبی علیہ السلام کا میلاد منایا کرتے تھے – 16 ویں صدی میں شیکسپیئر کے ڈراما ہیملٹ Hamlet کا ایک کردار کہتا ہے “ ہمارے آقا عیسی علیہ السلام کی ولادت کا مہینہ سراسر رحمت و برکت ہے – اس مہینے میں آسمان سے کوئی عذاب نازل نہیں ہوتا – کوئی جِن کسی انسان کے سر پر مسلط نہیں ہوتا ، کوئی پری کسی بچے کو اغوا کر کے نہیں لے جاتی “-
بات بہت دُور نکل گئی – بتانا یہ تھا کہ جب ہم دسویں کلاس کے سٹوڈنٹ تھے اُس زمانے میں کرسمس کی چھٹیوں کے بعد دسویں کلاس کے تمام سٹوڈنٹس کے بستر سکول میں منتقل ہو جاتے تھے ، کیونکہ جنوری اور فروری میں اساتذہء کرام رات کو بھی پڑھایا کرتے تھے – ہم لوگ شام کا کھانا کھانے کے بعد سکول پہنچ جاتے تھے – اس زمانے میں بجلی تو ہوتی نہیں تھی، اس لیئے مٹی کے تیل سے جلنے والے لالٹینوں سے کام چلایا جاتا تھا – پانچ سات لڑکے گھر سے لالٹین لے جاتے تھے – ایک کمرے میں چٹائیوں پر بستر بچھا کر وہیں بیٹھ کر پڑھتے اور سوتے تھے – سائنس ماسٹر حمیداللہ خان صاحب ہمیں فزکس کیمسٹری اور ریاضٰی پڑھاتے تھے – بیالوجی اس زمانے میں میٹرک کے کورس میں شامل نہ تھی – غلام مرتضی خان صاحب ہمیں انگلش پڑھاتے تھے – دوتین گھنٹے کی کلاس کے بعد ہم لوگ ایک دو گھنٹے ٹیچرز کا دیا ہوا ہوم ورک کرتے تھے – صبح سویرے اُٹھ کر سب لوگ گھروں کی راہ لیتے — ناشتہ کرنے کے بعد دن کی کلاسوں میں حاضری کے لیئے پھر سکول آجاتے تھے –
رات کی دوتین گھنٹے کی اس تعلیم کی کوئی ٹیوشن فیس نہ تھی – ٹیچرز اپنی کلاس کا اچھا ریزلٹ دکھانے کے لیئے مُفت پڑھاتے تھے –
گذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ——————— رہے نام اللہ کا ——-5 دسمبر 2022

میرا میانوالی

ٹیوشن فیس کے بغیر پڑھانے کا رواج کم ازکم دیہاتی علاقوں میں بہت عرصہ چلتا رہا – سرکار سے ملنے والی تنخواہ کے علاوہ ٹیچر کسی اور معاوضے کا سوچ ہی نہیں سکتے تھے – جب ہم ٹیچر بنے تو ہم نے بھی بغیر ٹیوشن فیس پڑھانے کا کارِخیر جاری رکھا –
میں نے گورنمنٹ ہائی سکول داؤدخیل سے انگلش ٹیچر کی حیثیت میں ملازمت کا آغاز کیا – آٹھویں کلاس کے ایک سیکشن کو انگلش میں پڑھاتا تھا ، دوسرے مضامین ماسٹر ممریز خان صاحب – آٹھویں کلاس کا امتحان مڈل کہلاتا تھا – یہ امتحان محکمہ تعلیم کے زیر اہتمام فروری میں ہوتا تھا – اس زمانے میں یہ امتحان خاصا اہم تھا کیونکہ مڈل پاس کرنے کے بعد سکول ٹیچر اور اس درجے کی دوسری ملازمت مل جاتی تھی – ہمارے سکول میں ماسٹر نواب خان ، ماسٹر ممریز خان ، ماسٹر رب نواز خان ، ماسٹر حافظ رانجھا ، ماسٹر عالم خان بھی مڈل پاس تھے –
سٹوڈنٹس کو مڈل کے امتحان کی تیاری کرانے کے لیئے دسمبر اور جنوری میں ماسٹر ممریز خان صاحب کے گھر پہ شام کے بعد دوتین گھنٹے کی کلاس ہوتی تھی – اس کلاس کو انگلش میں پڑھاتا تھا ، بقیہ مضامین ماسٹر ممریز خان صاحب پڑھاتے تھے – مڈل کی کلاس کے دوسرے سیکشن کے ٹیچر انچارج ماسٹر رب نواز خان صاحب تھے وہ بھی دسمبر جنوری میں اپنے گھر پہ شام کے بعد کلاس چلاتے تھے – اس کلاس کو انگلش ماسٹر غلام مرتضی خان صاحب پڑھاتے تھے –
بہت سی اچھی روایات کے ساتھ ساتھ خدمت ِخلق کی یہ مستحسن روایت بھی رفتہ رفتہ ختم ہوگئی – اس کی جگہ نقد پیسے لے کر پڑھانے کا رواج برپا ہوا جو آج ہرجگہ چل رہا ہے – جو غریب سٹوڈنٹ ٹیوشن فیس نہ دے سکیں وہ اضافی تعلیم کی سہولت سے محروم رہ جاتے ہیں –——————— رہے نام اللہ کا —6 دسمبر 2022

میرا میانوالی

ہر تصویر کےکم از کم دو رُخ ہوتے ہیں – ٹیوشن فیس کے بغیر پڑھانا کارِ خیر تھا ، ٹیوشن فیس لے کر پڑھانا آج کے ٹیچر کی مجبوری ہے – جس دور کا میں نے کل ذکر کیا اُس دور میں نہ بجلی ہوتی تھی ، نہ گیس ، اس لیئے اے سی فریج ، پنکھے کولر وغیرہ کا نام و نشان تک نہ تھا – تعلیم بھی سستی تھی – سرکاری سکول میں ماہانہ فیس دو چار روپے سے زیادہ نہ تھی – دُودھ ، گھی اپنے گھر کا ہوتا تھا ، اور وہ بھی خالص – چینی کی بجائے گُڑ اور شکر سے میٹھی چیزیں بنائی جاتی تھیں – چینی ایک روپے میں چار کلو ملتی تھی ، پھر بھی عام طور پر گُڑ اور شکر کو ترجیح دی جاتی تھی – چائے بھی گُڑ اور شکر کی بہت مزیدار بنتی تھی – مطلب یہ کہ اُس دور میں روزمرہ کے اخراجات بہت کم تھے –
پرائمری سکول کے ٹیچر کا ماہانہ تنخواہ کا سکیل 50—3—80 تھا – یعنی ماہانہ تنخواہ پچاس روپے ، تین روپے سالانہ اضافے کے ساتھ دس سال میں 80 روپے تک پہنچتی تھی ، اس کے بعد اگلا سکیل ملتا تھا – مڈل سکول کے ٹیچر کا سکیل 60—4—100 تھا ، مطلب ساٹھ روپے ماہانہ تنخواہ چار روپے سالانہ اضافے کے ساتھ دس سال میں 100 روپے تک پہنچتی تھی –
تین اور چار روپے اضافے کے لیئے پُورا سال انتظار کرنا مذاق سا لگتا ہے – لیکن تین چار روپے بھی معمولی رقم نہ تھی – تین روپے میں ایک کلو گھی اور دو تین کلو چینی مل جاتی تھی- اس لحاظ سے پچاس ساٹھ روہے ماہانہ میں اچھی خاصی سفید پوشی کی زندگی بسر ہو سکتی تھی – میں چونکہ گریجوئیٹ تھا اس لیئے میری ابتدائی تنخواہ 85 روپے تھی –
آج کی پوسٹ میں دو اور دوچار کا حساب سُن کر یقینا آپ کا سر چکرا رہا ہوگا ، مگر یہ آپ کا مسئلہ ہے ، میں نے حقائق بیان کرنے تھے ، کردیئے –
نفسا نفسی کے اس دور میں بھی اچھی خبر یہ ہے کہ ہمارے محترم ساتھی گورنمنٹ کالج میانوالی کے پروفیسر عامر کاظمی ، روکھڑی سے مطیع اللہ خان نیازی ، جناح سکول داؤدخیل کے اساتذہ اور کُچھ دوسرے اساتذہء کرام نادار بچوں کو ٹیوشن فیس کے بغیر پڑھا رہے ہیں –——————– رہے نام اللہ کا —7دسمبر 2022

میرا میانوالی

حبیب اللہ خان نوید ——
تعلیم کے میدان میں حبیب اللہ خان نوید کی خدمات داؤدخیل کی تاریخ کا ایک تابناک دور تھیں – قبیلہ انزلے خیل کے حبیب اللہ خان میرے بہت پیارے بیٹے تھے – داؤدخیل سکول میں میرے سٹوڈنٹ تھے — نویں کلاس میں تھے تو ان کے والد رضائے الہی سے اس دُنیا سے رُخصت ہوگئے – والدین کے اکلوتے , لائق بچے کی اچانک یتیمی کا دُکھ مجھے اتنی شدت سے محسوس ہوا کہ میں نے حبیب اللہ خان کو اپنا بیٹا بنالیا – اس سے کہہ دیا بیٹا ، جس چیز کی ضرورت ہو مجھے بتا دیا کرو – پڑھنے کے لیئے تم پر کوئی روک ٹوک نہیں ، جس وقت چاہو مجھ سے رہنمائی لے لیا کرنا –
ایف ایس سی کرنے کے بعد حبیب اللہ خان کو سکندرآباد فرٹیلائیزر فیکٹری میں آپریٹر کی حیثیت میں ملازمت مل گئی – ملازمت تو اس کی مجبوری تھی ، مگر اصل میں اُسے ٹیچر بننے کا شوق تھا – اس شوق کی تکمیل کے لیئے اُس نے اپنے گھر پہ فری ٹیوشن سنٹر بنا لیا – 8 گھنٹے فیکٹری میں ڈیوٹی دینے کے بعد وہ شام کو اپنے گھر پہ میٹرک کے بچوں کو فیِس کے بغیر فزکس ، کیمسٹری ، ریاضی ، بیالوجی اور انگلش پڑھانے لگا –
گھر سے ملحق ایک کنال کی حویلی میں دو کمروں اور برآمدے پر مشتمل ٹیوشن سنٹر کاشانہ ء نجیب کے نام سے معروف تھا – شہر کے علاوہ نواحی علاقوں کے بچے بھی اس ٹیوشن سنٹر سے مستفید ہوتے رہے – میانوالی کے ڈی ای او سیکنڈری ایجوکیشن ملک ساعد رسول بھی حبیب اللہ خان کے گُلشن کا شجرِ سایہ دار ہیں –
کاشانہ ء نجیب ایک قسم کا اقامتی سکول Residential school تھا – نواحی علاقوں کے بچوں کے علاوہ شہر کے دُوردراز محلوں کے بچے بھی رات سکول میں رہتے تھے کیونکہ کلاس رات کو دیرتک چلتی تھی –
جب حبیب اللہ خان کو سینیئر آپریٹر کے منصب پر ترقی ملی تو فیکٹری کی انتظامیہ کو درخواست دے کر حبیب اللہ خان نے سینیئر ٹیچر کی حیثیت میں ہاؤسنگ کالونی ہائی سکول سکندرآباد میں ٹرانسفر کروا لیا – کچھ عرصہ بعد اس سکول کے پرنسپل بن گئے – سکول ٹائیم کے بعد کاشانہء نجیب میں اپنا فری ٹیوشن سنٹر بھی چلاتے رہے- پھر اچانک دل کا مرض لاحق ہو گیا – پنڈی سے انجیوگرافی کرانے کے بعد گھر واپس آرہے تھے تو گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا – دل کے مریض کے لیئے معمولی سا جھٹکا بھی جان لیوا ہوتا ہے – یُوں اللہ تعالی نے اچانک حبیب اللہ خان کو اپنے پاس بُلا لیا –
حبیب اللہ خان داؤدخیل کے سینیئر صحافی نجیب اللہ خان کے والد تھے –
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے
——————– رہے نام اللہ کا —8 دسمبر 2022

میرا میانوالی—————–

معروف مخیر بزرگ مرحوم عبدالستار ایدھی سے ایک انٹرویو میں پُوچھا گیا کہ کیا کبھی کسی لاوارث لاش کو دیکھ کر آپ کو رونا بھی آیا ؟
ایدھی صاحب نے کہا ہمارے ادارے کا کام ہی لاوارث لاشوں کی تجہیز و تکفین ہے – روزانہ لاوارث لاشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، لیکن ایک بار ایک میت کی لاوارثی دیکھ کر میں بہت رویا – ہوا یُوں کہ ایک دن میرے ورکرز ایمبولینس میں ایک بزرگ کی میت لے کر آئے اور بتایا کہ یہ لاش ہمیں ایک عالیشان بنگلے کے سامنے سڑک پر پڑی ہوئی ملی ہے – میت ایک صاف سُتھرے خوبصورت بزرگ کی تھی – اس کے وارثوں کا اتا پتہ پُوچھنے کے لیئے ہم ایمبولینس لے کر اُس بنگلے پر پہنچے جس کے سامنے سے لاش ملی تھی – بنگلے کے سامنے سڑک پر ایک ٹیکسی کار کھڑی تھی – ہمیں دیکھ کر کار میں سے ایک نوجوان نکل کر آیا اور ایک لفافہ مجھے تھما کر کہنے لگا – اچھا ہوا آپ آگئے – اس لفافے میں ہمارے ابُو کے کفن دفن کے لیئے رقم ہے – ہم نے بیرون ِ مُلک جانا ہے اس لیئے ہم یہاں نہیں رُک سکتے –
اتنے میں کار سے ایک خاتون کی آواز آئی “ یہ تقریر ختم کرو ، ہماری فلائیٹ نکل جائے گی” – یہ سُنتے ہی وہ نوجوان بھاگ کر واپس کار میں جا بیٹھا اور کار تیزی سے ایئرپورٹ کی جانب روانہ ہوگئی – اس بزرگ کی لاوارثی دیکھ کر میں روپڑا – اس میت کو غسل بھی میں نے خود دے کر اس کی تجہیز و تکفین کا مناسب بندوبست کردیا-
بزرگ کی تجہیز و تکفین تو ہو گئی – اس کی لاوارثی پر ایدھی صاحب نے آنسُو بھی بہا لیئے – لیکن اُمید ہے قصہ یہیں ختم نہیں ہوا ہوگا ، کیونکہ یہ منظر وہ بھی دیکھ رہا تھا جس نے قرآن ِ حکیم میں والدین سے حُسنِ سلوک کی بار بار تاکید کی ہے – اور والدین کی بے قدری کی سزا وہ اِس دنیا میں بھی ضرور دیتا ہے –
ایک حدیث پاک کا مفہوم یاد آرہا ہے – ایک دفعہ جنابِ سیدالانبیاءصلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم والدین سے حُسنِ سلوک کی تاکید فرما رہے تھے تو ایک صحابی نے اُٹھ کر کہا “ حضور، اگر والدین ہم پر ظُلم کریں تو کیا پھر بھی اُن سے حُسنِ سلوک کیا جائے –
رُخِ انور یہ سُن کر غصے سے سُرخ ہو گیا – سخت لہجے میں تین دفعہ فرمایا “ ہاں پھر بھی ، ہاں پھر بھی ، ہاں پھربھی , والدین سے حُسنِ سلوک واجب ہے “
——————- رہے نام اللہ کا —9 دسمبر 2022

میرا میانوالی

ابھی ناشتہ کرتے ہوئے خیال آیا کہ گاجروں کا موسم شروع ہو گیا ہے – کُلچوں کا پروگرام بننا چاہیئے – ہمارے بچپن کے دنوں میں ہر گھر میں کُلچے بنتے تھے – رات کو پانی میں گاجریں اور کُچھ گُڑ ڈال کر اتنی دیر آگ پر پکاتے تھے کہ گاجریں نرم ہو جائیں اور پانی بہت کم رہ جائے – پھر دیگچی کو چُولہے سے اُتار کر رکھ دیتے تھے – اس طریقے سے پکائی ہوئی گاجروں کو کُلچے کہتے تھے – ٹھنڈے ٹھار کُلچے صبح نہار منہ کھانے کا اپنا الگ لُطف ہے – ہمارے گھر میں اب بھی بنتے ہیں –
آج کل تو نارنجی رنگ کی پھیکی گاجریں باراز سے ملتی ہیں ، کسی زمانے میں کنوؤں پر میٹھی دیسی گاجریں ہوا کرتی تھیں – یہ گاجریں دو رنگ کی ہوتی تھیں — گُلابی اور جامنی (بینگن جیسا رنگ)- جامنی رنگ کو ہماری زبان میں اُودا رنگ کہتے تھے – گلابی رنگ کی گاجریں تو دیہات میں کنوؤں پر اب بھی کاشت ہوتی ہیں ، اُودے رنگ والی بہت عرصے سے نہیں دیکھیں – شاید نسل ہی ختم ہو گئی –
گاجر کے بے شمار طبی فوائد بھی ہیں ، لیکن ہم تو کُلچے دوا کے طور پر نہیں ، مزیدار ذائقے کی خاطر کھاتے تھے – ویسے توگجریلہ اور گاجر کا حلوہ بھی بہت مزیدار چیزیں ہیں ، لیکن کُلچے تو پھر کُلچے ہیں – آج ہی کہیں سے پتہ کرتے ہیں گاجروں کا –——————– رہے نام اللہ کا —10دسمبر 2022

میرا میانوالی

اب تو نایاب ہوگئے ، بعض خود رو پودے بڑی کام کی چیزیں ہوا کرتے تھے -” ہَرمُل” نام کا ایک چھوٹا سا سرسبز ، سفید پُھولوں والا پودا بنجر ریتلی زمین میں بکثرت دیکھنے میں آتا تھا – اس کا سیاہ رنگ کا کلونجی جیسا بیج ذرا سے نمک کے ساتھ پیٹ کے اکثر امراض کا بہت کامیاب علاج ہوا کرتا تھا — بچوں کو خسرہ کا مرض لاحق ہوتا تو ہرمل کے بیج کا دھؤاں اس مرض کا جلد خاتمہ کر دیتا تھا – یہ دھؤاں ایک قسم کا موثر antibiotic تھا – ہرمل کا بیج اب بھی پنساریوں کی دکانوں پر ملتا ہو گا ، مگر اب تو اسے کوئی پوچھتا ہی نہیں –
داؤدخیل کے قبرستان میں ہرمل کے بُوٹے اب بھی کہیں کہیں دکھائی دیتے ہیں – میرے والدین کی قبروں پر بھی ہرمل کا ایک ایک بُوٹا بہت عرصہ سے موجود ہے – یہ بُوٹے بہار اور ساون میں پُورے جوبن پر ہوتے ہیں –
ریتلی ویران زمین کا ایک تحفہ “کھار” کہلاتا تھا – اس کے پتے گول اور رس بھرے ہوتے تھے – رس کا ذائقہ خاصا کڑوا ہوتا تھا – یہ بُوٹے اُونٹوں کی پسندیدہ غذا بھی تھے ، مگر کھار کا ایک خاص استعمال یہ تھا کہ اس کے بُوٹوں کو جلاکر اُن کی راکھ سرف اور سن لائیٹ وغیرہ کی طرح واشنگ پاؤڈر کے طور پر استعمال کی جاتی تھی —– راکھ پانی میں اُبال کر کھولتے ہوئے پانی میں کپڑے ڈبو کر نچوڑنے سے سب مَیل کُچیل نکل جاتا تھا –
گُذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ——————— رہے نام اللہ کا –11 دسمبر 2022

میرا میانوالی

بڑی ورائیٹی ہوتی تھی گلی محلے کی دکانوں پر بچوں کے کھانے کی چیزوں کی – دکان کو ہَٹی کہتے تھے -ہمارے محلے میں چاچا اولیا کی ہٹی ، محلہ علاؤل خیل اور انزلے خیل کے سنگم پر حاجی کالا کی ہٹی ، محلہ انزلے خیل میں لالہ لوکُو اور لالہ نَندُو نامی دو ہندو دکان داروں کی ہٹیاں ، محلہ لمے خٰیل میں چاچا چمن لال کی ہٹی ، اور سکُول کے قریب بھائی نورمحمد کی ہٹی سے کھانے کو بہت کچھ مل جاتا تھا –
گُڑوالی ٹانگری ، سفید تِلوں والی گُڑ کی چپٹی کڑاکے دار ریوڑیاں ، گُڑ والا بُھنے ہوئے چاولوں کا مرُنڈا ، کالے تِلوں کا مرُنڈا ، چینی والی ٹانگری جسے توشہ کہتے تھے ، پتاسے ، لاچی دانہ ، بھُنے ہوئے چاولوں کی میٹھی پھُلیاں ، رنگ برنگی کھٹی میٹھی پیپرمنٹ Peppermint پُودینے کے سَت والی گولیاں ، کُوندر کے پودوں پر لگنے والے بُور سے بنی ہوئی پیلے رنگ کی بُوری بھی ہم لوگ بڑے شوق سے کھایا کرتے تھے – چاچا اولیا گُڑ کی بہت کراری پَت بھی بناتے تھے جسے ہم لوگ میسُو کہتے تھے ، مونگ پھلی کے دانوں والا میسُو بہت مزیدار ہوتا تھا –
اب تو صاف سٰتھری ٹافیاں ، چاکلیٹ ، کوکومو ، جیلیاں وغیرہ جیسی لذیذ چیزیں آگئی ہیں ، مگر ہم پرانے زمانے کے لوگ اب بھی اپنے بچپن کے دور کی ٹانگریوں ،ریوڑیوں اور پِپل منٹ کی گولیوں کو یاد کر کے آہیں بھرتے رہتے ہیں ، کیونکہ ان چیزوں کے ذکر کے ساتھ کئی نام ، کئی چہرے یاد آجاتے ہیں ، دوستوں کے جو اب اس دُنیا میں موجود نہیں۔۔۔۔۔
گُذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ——————– رہے نام اللہ کا12دسمبر 2022

 

 

میرا میانوالی

آج کُچھ ذکر انڈوں کا —-
انڈہ سردی کا بہترین علاج ہے – اس کے پکانے کے بہت سے طریقے تو سب لوگ جانتے ہیں – لیکن اس کے ایک دو استعمال ایسے ہیں جو بہت کم لوگ جانتے ہوں گے — نیم گرم پانی میں انڈے کی سفیدی پھینٹ کر پینا پیچش اسہال diarrhea وغیرہ کا بہترین علاج ہے – ہمارے والد صاحب کو یہ مرض لاحق ہوا تھا – 88 سال کی عمر کے مریض کو عام دوائیں دینا خطرے سے خالی نہیں ہوتا – خوش قسمتی سے سکندرآباد ہسپتال کے ڈاکٹر ابوالحسن زیدی صاحب میرے مہربان دوست تھے – انڈے والا نُسخہ انہوں نے بتایا تھا – اور اس کا فوری اثر ہوا –
یہ توخیر انڈے کا بطور دوا استعمال تھا – انڈے کا ایک مخصوص حلوہ محلہ امیرے خیل کے اس گھر(ضیاء نیازی کا آبائی گھر) میں بنتا تھا جہاں میرا بچپن بسر ہوا – کمال کی چیز تھا وہ حلوہ – انڈہ ، دُودھ ، گھر کا خالص دیسی گھی، الائچی اور چینی کو ملا کر یہ حلوہ ایک بڑے تھال میں بناتے تھے – بہت نرم اور لذیذ چیز تھا – کیک کی طرح اس کے پِیس کاٹ کر کھایا کرتے تھے – آج اچانک یاد آگیا ، یہ بھی ایک بار پھر بنانا پڑے گا –
انڈے کی زردی کھانے سے بلڈ پریشر فورا بڑھ جاتا ہے – اس لیئے بلڈ پریشر کے مریضوں کو کسی بھی شکل میں انڈے کی زردی سے پرہیز کرنا چاہیئے –
——————— رہے نام اللہ کا13دسمبر 2022

میرا میانوالی

صُفہ ——-
تاریخ کے لحاظ سے تو صُفہ ایک مقدس لفظ ہے ، جو مسجِد نبوی کے ایک مخصوص حصے کا نام تھا – یہی لفظ ہمارے کلچر میں ایک قسم کے برآمدے کا نام بھی ہوا کرتا تھا – برآمدہ اور صُفہ میں فرق یہ ہے کہ برآمدہ پُختہ اینٹوں کا بناہوا مکان کا فرنٹ ہوتا تھا ، صُفہ کچی انیٹوں کی بیس پچیس فٹ لمبی ، دس بارہ فٹ چوڑی عمارت ہوتی تھی جو مکان کے دائیں یا بائیں جانب تعمیر کی جاتی تھی – برآمدے کی طرح یہ بھی تین طرف سے بند ہوتی تھی ، سامنے کا حصہ کھُلا ہوتا تھا – گرمی کے موسم مٰیں صُفہ دوپہر کو بیٹھنے ، سونے کا ٹھکانہ ہوتا تھا – رات کو بارش سے بچنے کا ذریعہ بھی تھا – صفہ کے ایک کونے میں آٹا پیسنے کی چکی ، دوسرے کونے میں کھانا بنانے کے لیئے چُولہا ہوتا تھا – بارش کے موسم میں صفہ بہت کارآمد ثابت ہوتا تھا – اس کی ایک سائیڈ گائے بھینس یا بھیڑ بکری کا مسکن بھی ہوتی تھی –
مختصر یہ کہ صُفہ گھر کا ایک کثیر المقاصد multi-purpose حصہ ہوتا تھا ، جو بوقتِ ضرورت بیڈ رُوم ، ڈائیننگ ہال یا سٹور کاکام بھی دیتا تھا – اب تو یہ کارآمد عمارت کسی گھر میں شاید ہی باقی رہ گئی ہو – سب کُچھ بدل گیا ، بہت سی اچھی روایات اور عمارات کانام ونشان بھی باقی نہ رہا – اور بھی سب کُچھ بدل جائے گا ، صرف باقی رہے گا نام اللہ کا جو ازل سے ابد تک ، اور اُس کے بعد بھی ہمیشہ رہے گا -سر ہم ایسے ہال نما کمرے کو “”دلاں”” کہتے تھے۔ دلاں کے چاروں ساٸیڈوں پہ کھڑکیاں ٹاٸپ ہوتی تھیں۔ جنہیں گرمیوں میں کھول دیا جاتا اور سردیوں میں اینٹوں اور لپاٸی سے بند کر دیا جاتا تھا۔ اور موسم سرما کے اختتام پہ اس کو پانی میں مٹی بھگو کر چوپہ بھی دیا جاتا تھا جس سے یہ کلرڈ نظر آتی تھی اور سردیوں میں ہونے والے دھوٸیں کے داغ بھی صاف ہوجاتے تھے۔—— منورعلی ملک —–14دسمبر 2022

میرا میانوالی

آج صبح ایک مختصر سا درود پاک پوسٹ کیا۔ فضائل درود پاک کی ایک کتاب میں لکھا ھے کہ ایک دن جناب سیدالانبیاء علیہ وعلیہم السلام مسجد نبوی میں تشریف لائے تو صحابہ کرام درود پاک کا ورد کر رہے تھے۔ حضور اکرم نے فرمایا درود مکمل پڑھا کرو۔ پھر آپ نے یہی درود پاک پڑھ کر فرمایا مکمل درود یہ ھے۔
مختصر وقت میں ورد کے لیئےیہ درود پاک بہت موزوں ھے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ درود پاک
۔۔۔۔۔۔
اللہم صل علی محمد
وعلی آل محمد

16 دسمبر 2022

میرا میانوالی

اسلام آباد سے کرنل شیربہادر خان نیازی نے کل یہ خوشگوار اطلاع دی کہ انہوں نے “میرا میانوالی” کے عنوان سے جنوری 2016 سے نومبر 2022 تک کی میری تمام پوسٹس اپنی ویب سائٹ Mianwali Mianwalian پر upload کردی ہیں۔ کرنل صاحب کو رب کریم بے حساب جزائے خیر عطا فرمائے، ان کی یہ مہربانی میرے لیئے ایک اعزاز اور دنیا بھر میں پھیلے ھوئے میری پوسٹس کے قارئین پر ایک احسان ھے۔ 2000 سے زائد پوسٹس کو سنبھال کر رکھنا میرے لیئے آسان نہ تھا، کرنل صاحب نے یہ مسئلہ حل کردیا۔ 6سال11ماہ اور 3 ہفتے پر محیط 2517 دن کی پوسٹس کرنل صاحب نے محفوظ کردی ہیں۔۔ قارئین سے التماس ھے کہ اس ویب سائٹ کو visit کرکے کرنل صاحب کو دعاوں سے مالامال کردیں۔ اتنے خلوص سے اپنے کلچر کے تحفظ کاکام ایک لیجنڈ ہی کر سکتا ھے۔
Col Sher Bahadur Khan Niazi is certainly a legend in his own right. Let’s wish him all the best.
اس پوسٹ میں شامل پکچر بھی کرنل صاحب نے عنایت کی ھے۔۔۔۔ پکچر ہمارے محلے کی مسجد شکور خیل اور مین روڈ کی ھے جو شہید جنرل ثناءاللہ خان نیازی سے منسوب ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔22 دسمبر 2022

میرا میانوالی

ان حالات میں بندہ کیسے لکھ سکتا ہے ؟
شہر کل صبح سے دُھند کی ٹھنڈی یخ چادر میں لپٹا ، سردی سے تھر تھر کانپ رہا ہے – انگلیاں برف کی ڈلیاں بن گئی ہیں – اس کے باوجود اپنی تازہ تحریر کے منتظر دوستوں کی خاطر آج صبح لکھنا شروع کیا تو اچانک بجلی غائب ہوگئی – اس کے ساتھ ہی WiFi نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا –
کیا خوبصؤرت زمانہ تھا ، نہ بجلی ، نہ گیس ، نہ لوڈشیڈنگ ، نہ لمبے لمبے بِل ، نہ موبائیل فون ، نہ پیکیج ختم ہو نے کی فکر ، نہ چارجنگ ختم ہونے کا ڈر ، لوگ اپنی مرضی کی زندگی گذارتے تھے – ایسے موسم میں لئی اور سنسنڑاں کے جھامبوں کی آگ کے گرد بیٹھے کھاتے پیتے ، گپیں لگاتے دن گذار لیتے تھے – کاشتکار تو مارچ اپریل تک فارغ ہی رہتے تھے – بچوں کے سکول بھی دسمبر کے ان دنوں میں بند رہتے تھے – گھر میں خُوب رونق لگی رہتی تھی –
بارش والے دن ہر گھر میں کرکنڑاں بنتا تھا – گُڑ اور گھی کی پَت بنا کر اُس میں سُوجی یا چکی کا آٹا ڈال کر چند منٹ ہلکی آنچ پر پکاتے تو گرماگرم حلوہ سا بن جاتا تھا – اسی کو کرکنڑاں کہتے تھے – کرکنڑاں تازہ گرما گرم کھایا جاتا تھا کیونکہ چند منٹ بعد یہ ٹھنڈا ہوکر پتھر کی طرح سخت ہو جاتا تھا ، اس لیئے بچے اور بزرگ اس نعمت سے مستفید نہیں ہو سکتے تھے –
موسم کا کُچھ اعتبار نہیں ، تاہم آپ کی محفل میں شرکت ان شآءاللہ بلاناغہ جاری رہے گی ، کیونکہ وہ جو امریکی شاعر Robert Frost نے کہا تھا—-
For I have promises to keep,
And miles to go before I sleep
——————- رہے نام اللہ کا-24 دسمبر 2022

میرا میانوالی

ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے
زندگی کے آخری دنوں میں بیماری کی شدت کے باعث قائداعظم نے کھانا پینا چھوڑدیا – آپ اُس وقت بلوچستان کے صحت افزاء مقام زیارت میں مقیم تھے – بہن محترمہ فاطمہ جناح کو فکر لاحق ہوگئی کہ اب کیا ہوگا – اچانک اُنہیں یاد آیا کہ کُچھ عرصہ قبل فیصل آباد کا ایک خانساماں (cook) ان کے ہاں کام کرتا تھا – اُس کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا قائداعظم بہت پسند کرتے تھے – محترمہ نے گورنر پنجاب سردار عبدالرب نشتر سے فون پر کہا کہ فیصل آباد سے اُس خانسامے کو تلاش کر کے بھجوا دیں – گورنر صاحب نے فی الفور حکم کی تعمیل کردی – خانساماں کو ہوائی جہاز سے زیارت بھجوا دیا –
اگلی شام قائداعظم نے کھانا بڑے شوق سے کھایا – بہن سے پُوچھا آج کھانا کس نے بنایا ؟ محترمہ فاطمہ جناح نے بتایا کہ میں نے گورنر پنجاب سے کہہ کر آپ کا پسندیدہ باورچی بُلا لیا ہے – یہ کھانا اُسی نے بنایا ہے –
قائد اعظم یہ سُن کر سخت ناراض ہوئے – انہیں یہ بات گوارا نہ ہوئی کہ اُن کی ذات کی خاطر سرکاری اثرو رسوخ اور سرکاری خزانے سے پیسہ استعمال کیا گیا – آپ نے فورا خانسامے کی آمدورفت کے تمام اخراجات اپنی جیب سے سرکاری خزانے میں جمع کرا دیئے اور خانسامے کو اس کے کام کا معاوضہ اور واپسی کا کرایہ دے کر واپس بھیج دیا-25 دسمبر 2022

 

ایک روح پرور منظر۔۔۔۔۔۔
سچیاں سنگتاں۔۔۔ دو یہ بزرگ افراد اور تیسرا ان کا رب کریم

میرا میانوالی

جسے اللہ رکھے ۔۔۔۔۔۔
ٹوٹی ھوئئ چپل سیلاب کے دوران مرغی کے ان دوبچوں کے لیئے کشتی بن گئی۔

26 دسمبر 2022

میرا میانوالی

میرا جانُو —————-
12 سال ہو گئے —– جب بھی اُس کے بارے میں تفصیل سے لکھنا چاہوں ، الفاظ ہاتھ جوڑ کر معذرت کر لیتے ہیں کہ اتنے گہرے دُکھ کا اظہار ہمارے بس کی بات نہیں —–‘
آج اُس کی بارہویں برسی ہے –
کیا بتاؤں علی بیٹا (میرا پوتا , محمد علی ملک ابنِ مظہر علی ملک) میری نظر میں کیا تھا – 18 سال کی عمر میں اُس کی اچانک موت کا دُکھ ایسا ہے جیسے کوئی کانٹا ہاتھ یا پاؤں میں چُبھ کر اندر ہی ٹُوٹ جائے —- یہ کانٹا تو دل میں پیوست ہو کر ٹُوٹا ہے ، اس کا کیا علاج – ؟ —- جس دن سے وہ گیا ہے روزانہ قرآنِ کریم اور درُود پاک پڑھ کر اس کو ایصال ثواب کرتا ہوں – اس سے دل کو کُچھ تسلی مل جاتی ہے کہ شُکر ہے اُس سے رابطے کا یہ وسیلہ تو میسر ہے –
اللہ کے فضل سے بچے اور بھی ہیں ، مگر علی بیٹے کا اپنا الگ مقام ہے ، اور وہ اس مقام پر اب بھی فائز ہے-
بہت کُچھ لکھنا چاپتا تھا ، مگر الفاظ ہاتھ جوڑ کر کہہ رہے ہیں ، اب بس کر دیں —–
اللہ کی رضا کے آگے سرِتسلیم خم ہے – دُعا کریں کہ اللہ کریم علی بیٹے کو اپنی رحمت کی امان میں رکھے اور ہمیں صبرِ جمیل عطا فرمائے —— اور اس کے ساتھ بارگاہ رب کریم میں یہ التجا بھی ہے کہ ایسا دکھ کسی بھی صاحب اولاد کو نہ ملے۔——————— رہے نام اللہ کا —27 دسمبر 2022

میرا میانوالی

میرا میانوالی —————–
ایک شاعر نے کہا تھا ——–
جانے والوں کی کمی پُوری کبھی ہوتی نہیں
آنے والے آئیں گے لیکن خلا رہ جائے گا
میرے مہربان و محترم بھائی ملک عنایت اللہ اعوان کی آج 17 ویں برسی ہے – ملک صاحب ہمہ جہت شخصیت تھے – تجارت ، سیاست ، صحافت اور سماجی زندگی میں ان کی خدمات اہلِ میانوالی کے لیئے سرمایہء افتخار ہیں – مرحوم ہمارے قریبی رشتہ دار تھے۔
سیاست میں ملک صاحب میانوالی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے اولیں رہنماؤں میں شمارہوتے تھے – اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور شہید محترمہ بےنظیر بھٹو بھی ان کی خدمات کے معترف تھے – ملک صاحب پی پی پی کے ضلعی چیئرمین بھی رہے – وہ اُس دور میں بھی پارٹی سے وابستہ رہے جب پی پی پی کا نام لینا بھی جُرم سمجھا جاتا تھا – جنرل ضیاء کے آمرانہ قہرو غضب کا نشانہ بھی بنے – جیل میں بھی رہے ، کوڑے بھی کھائے مگر اپنے سیاسی مؤقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے – میانوالی جیل میں پی پی پی کے جتنے بھی سیاسی قیدی آتے رہے اُن سب کا کھانا ملک صاحب کے گھر سے جاتا رہا – ان تمام تر قُربانیوں ، خدمات اور اعلی قیادت تک رسائی کے باوجود ملک صاحب نے پیپلز پارٹی کے اقتدار سے ایک پیسے کا فائدہ بھی نہ اُٹھایا – ملک صاحب وہ لیڈر تھے جنہوں نے پارٹی کو دیا تو بہت کُچھ ، مگر پارٹی سے لیا کُچھ بھی نہیں –
ملک صاحب صوم و صلوات کے سختی سے پابند تھے – ہمیشہ نماز باجماعت ادا کرتے رہے – ماہ رمضان المبارک میں محلے کی مسجد میں اعتکاف کرنے والوں کی پُرتکلف دعوتیں کیا کرتے تھے – قول و فعل کے سچے ، کھرے اور دلیر انسان تھے – شہر کی سماجی تقریبات میں بھر ُپور شرکت کرتے تھے – یُوں ہر لحاظ سے ملک عناہت اللہ اعوان میانوالی کی ایک محبوب و محترم شخصیت تھے –
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا——————- رہے نام اللہ کا —29 دسمبر 2022

میرا میانوالی

سرائیکی سر سنگت اور وتہ خیل کیسیٹ ہاوس کے بانی لیاقت علی خان کے نئے کاروباری ادارے وتہ خیل بلڈنگ میٹیریل کی افتتاحی تقریب 28 دسمبر 2022

30 دسمبر 2022

1 thought on “MERA MIANWALI-DECEMBER 2022”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top