منورعلی ملک کےجون 2022 کےفیس بک پرخطوط
میرا میانوالی-
اب تو چند دُھندلی سی یادیں باقی رہ گئی ہیں —– محلہ انزلے خٰیل اور امیرے خیل کی درمیانی گلی میں کِراڑوں (ہندوؤں) کی تین دکانیں تھیں – انزلے خیل والی سائیڈ پہ چاچا لوکُو (لوک رام) اور چاچا نندُو (نند راج) کی کریانے کی دُکانیں تھیں – محلہ امیرے خیل والی سائیڈ پہ لالہ کراڑ کی کپڑے کی دکان تھی – گورا چِٹا ، اُچا لما , لمبی مُونچھوں اور سفید پگڑی والا لالہ کراڑ تو دیکھنے میں مسلمان لگتا تھا –
کراڑوں کے دوچار گھر اور دکانیں محلہ علاؤل خیل اور محلہ لمے خیل میں بھی تھیں – محلہ لمے خیل میں ہمارے سکول سے ملحق ہمارے دوست چِمَن (چمن لال) کے والد کی کریانے کی دکان تھی – چمن کا ایک کزن جگی (جگدیش) ہمارا کلاس فیلو تھا – سکول کے ہیڈماسٹر بھگوان داس اور ہمارے پکی پہلی کلاس کے ٹیچر ماسٹر میوہ رام بھی ہندو تھے – ماسٹر میوہ رام زبردست خوشنویس تھے – ہمیں خوشخطی انہوں نے ہی سکھائی –
محلہ لمے خیل میں ہِیرا اور موہرا نامی دو ہندوؤں کی کپڑے کی بہت بڑی دکان تھی – شہر میں تمام دکانیں ہندوؤں کی تھیں – ہندو دکان دار بہت محنت کرتے تھے، ہرقسم کی دیسی مٹھائیاں، ریوڑیاں، مرنڈے، ٹانگری وغیرہ خود بنا لیتے تھے۔ ہم مسلمان بادشاہ قوم ہیں ، مجبوری کے بغیر اپنے فائدے کاکام بھی نہیں کرتے – سُکے دے شہنشاہ بنے رہتے ہیں –
محلہ داؤخٰیل میں شہر کا اکلوتا سِکھ بھی رہتا تھا – نام یاد نہیں آرہا ، اُس کی بھی کریانے کی دکان تھی – بہت خُشکیل مزاج غصے والا بندہ تھا – مسلمانوں سے بہت پیار کرتا تھا، ہندوؤں سے سخت نفرت – ان کو لمبی لمبی گالیاں دیتا تھا —– ویسے آپس کی بات ہے یہ جو گالیاں ہمارے پنجاب میں رائج ہیں ، یہ سب سِکھ ہی ہمیں سِکھا گئے تھے – گالیاں دینے میں سِکھ دُنیا میں سب سے آگے ہیں – شرم حیا تو ہے نہیں ، جو منہ میں آئے کہہ دیتے ہیں –—— رہے نام اللہ کا ——— منورعلی ملک —–-١ جون 2022
قیامِ پاکستان کے وقت ہم سکول کی دُوسری کلاس میں پڑھتے تھے – ہندو پاکستان چھوڑ کر بھارت جانے لگے – اُدھر سے مسلمان ہجرت کر کے پاکستان آنے لگے- افراتفری کا عالم تھا – فسادات کی آگ روز بروز شدت اختیار کرنے لگی –
ایک صبح ہم سکول پہنچے تو معلوم ہوا محلہ علاول خیل اور لمے خیل کے ہندو گھرانے رات کی تاریکی میں شہر چھوڑ کر چلے گئے – وہ لوگ بھرے گھر چھوڑ کر گئے تھے – صرف زیور اور پیسے ساتھ لے گئے – گھروں اور دکانوں کا سب سامان جُوں کا تُوں پڑا تھا – لوگوں نے اس موقع سے پُورا پُورا فائدہ اٹھایا – جس کے ہاتھ جو لگا اُٹھا کر لے گئے – چارپائیاں ، بستر ، میزیں ، کرسیاں ، بکس ، برتن ، دکانوں میں رکھی ہوئی چیزیں ، ذرا سی دیر میں مکان اور دکانیں خالی ہوگئیں – اس لُوٹ مار کو لوٹی کہتے تھے –
سکول کے قریبی گھروں میں لوٹی لگی تو ہم بچہ لوگ بھی اپنا حصہ وصول کرنے کے لیئے ان گھروں میں داخل ہوگئے- سب نے کُچھ نہ کُچھ اٹھا لیا – میں نے بھی دکان میں سے اپنی پسند کی چیز اُچک لی -میری پسند کی چیز خُوبصورت لال جِلد والی دوتین کاپیاں تھیں –
خوشی سے نہال واپس گھر پہنچا تو پہلے تو گھر والوں سے سخت ڈانٹ پڑی کہ تم نے یہ حرکت کیوں کی – جب میں نے کاپیوں کو کھول کر دیکھا تو ان پر دکاندار نے اپنی دکان کا حساب کتاب لکھ رکھا تھا – ایک ورق بھی خالی نہ ملا – اس پر سب گھر والوں نے میرا خُوب مذاق اڑایا — امی نے کہا “اللہ کا شُکر ہے ، ہم چوری کے حرام مال سے بچ گئے “ – کاپیوں کو جلادیا گیا –———————- رہے نام اللہ کا ———————-—— منورعلی ملک — –٢ جون 2022
میرا میانوالی-
تنُور کی گرماگرم روٹی ، اس پر مکھن کی ٹکیہ ، مٹھی بھر مردان کی سُرخ شکر اور ساتھ پتلی نمکین لسی کا ایک گلاس —– ہزاروں سِری پائے ، نہاریاں ، آلُوچھولے اور حلوے پُوریاں اس سادہ سے ناشتے پر قربان – کیمیائی کھاد سے پاک ، گھر کی رَتی کنڑک (سُرخ گندم) کی روٹی کی سوندھی خوشبو ، ناشتہ سامنے آتے ہی دل باغ باغ ہو جاتا تھا – نوالہ منہ میں ڈالتے ہی توانائی کا احساس ہونے لگتا تھا ، ناشتہ کرتے ہوئے دل چاہتا تھا پرندوں کی طرح ہوا میں اُڑنا شروع کردیں –
یہ ناشتہ اُس زمانے میں نصیب ہوتا تھا جب گھر میں ایک دو گائیں بھینسیں دودھ ، دہی ، گھی مکھن وغیرہ کے لیئے موجود ہوتی تھیں – اب تو اگر کسی گھر میں موجود بھی ہوں ، نہ وہ کھاد سے پاک بارانی سُرخ گندم ہے ، نہ ان مویشیوں کے لیئے خالص چارہ – نہ روٹی کا وہ مزا ، نہ لسی مکھن کا سواد – پھر بھی سری پایوں اور نہاریوں سے تو یہ ناشتہ بہتر ہے –
میں تو تیس پینتیس سال سے ناشتے میں صرف دہی اور چائے لیتا ہوں ، کوئی انڈہ ، پراٹھا ، سالن ، سری پائے وغیرہ نہیں —- ایک دفعہ میں اور پروفیسر سرور نیازی کالج لائبریری کی کتابیں خریدنے کے لیئے کالج کے لائبریریئن حاجی محمد اسلم خان ( ہائے بہت یاد آتا ہے یہ بندہ ، اللہ اپنی رحمت کا سایہ نصیب فرمائے , بہت پیارا ساتھی تھا ہمارا) کے ہمراہ لاہور گئے – ہمارا قیام بھاٹی چوک کے پائلٹ ہوٹل میں تھا – صبح ناشتے میں سرور صاحب اور اسلم خان نے سری پائے کا آرڈر دیا ، میں نے رولا ڈال دیا کہ میں تو یہ نہیں کھاؤں گا – بھلا ہو حاجی صاحب کا , کہیں سے میرے لیئے دہی ڈھونڈھ لائے –
تنور کی تازہ روٹی ، مکھن کی ٹکیہ ، شکر کی ڈھیری اور نمکین لسی والا ناشتہ اب کہاں – اس لیئے دہی پر گذارہ کرنا پڑتا ہے –———————- رہے نام اللہ کا ———————–—— منورعلی ملک —-٣ جون 2022
میرا میانوالی-
اُردو میں بِھڑ ، انگلش میں wasp , پنجابی میں تبُوڑی اور کئی دوسرے ناموں سے پکاری جانے والی اس مُوذی مخلوق کو ہماری زبان میں ڈَبُوک کہتے ہیں – اس کا ڈنک اتنا زہریلا ہوتا ہے کہ جسم پر جہاں لگ جائے وہاں شدید درد ہوتا ہے اور جسم کا وہ حصہ سُوج جاتا ہے – یہ سوجن دو تین دن میں آہستہ آہستہ ختم ہوتی ہے – ناک ، کان ، منہ پر اس کا ڈنک لگ جائے تو سوجن کی وجہ سے اچھا خاصا خوش شکل انسان کارٹون بن جاتا ہے ، کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا کیونکہ لوگ مذاق اُڑاتے ہیں – بچوں کو اس کا ایک فائدہ بھی ہوتا ہے کہ جس بچے کو ڈبوک ڈنک ماردے وہ شرم کے مارے دو تین دن سکول نہیں جاتا – دوتین چُھٹیاں مفت میں مل جاتی ہیں –
بچپن میں ہمارا ڈبُوکوں سے بہت قریبی واسطہ رہا ، کیونکہ ہمارے گھر میں پانی کے ہینڈ پمپ کی نالی سے پانی پینے کے لیئے ڈبُوکیں بہت آتی تھیں – احتیاط کے باوجود گھر کے کسی نہ کسی فرد کو کاٹ لیتی تھیں ، اس لیئے ہم ان کا شکار کر کے ان کو ماردیتے تھے – شکار کا طریقہ یہ تھا کہ نالی پر پانی پیتی ہوئی ڈبوک کو گیلا کپڑا پورے زور سے مارتے تو ڈبوک اڑنے کے قابل نہ رہتی – پھر اُسے پاؤں کے نیچے کچل کر مار ڈالتے –
برسات کے موسم میں ڈنک گرجانے کی وجہ سے ڈبوک بے ضرر ہوجاتی ہے – جہاں بیٹھی ہوتیں ہم بڑی آسانی سے پکڑ کر ان کے ساتھ ایک کھیل کھیلا کرتے جسے ” پِڑی چُھڑوانا” کہتے تھے – اسے ڈبوکوں کی دوڑ کا مقابلہ race سمجھ لیں- دو ڈبوکوں کے پر کاٹ کر اُن کی کمر دھاگے سے باندھ کر ان کی دوڑ کا مقابلہ کروایا جاتا تھا – جس کی ڈبوک مقررہ نشان پہلے کراس کر لیتی وہ جیت جاتا تھا —– یہ ساری ٹیکنالوجی پتہ نہیں آپ سمجھ بھی سکیں گے یا نہیں –——————– رہے نام اللہ کا ————————— منورعلی ملک —–٤ جون 2022
میرا میانوالی-
اپنا پرانا شعر۔۔۔۔۔۔
آج طبیعت ٹھیک نہیں ، یہی شعر آج کی حاضری سمجھ لیں ، دعاوں کی درخواست کے ساتھ۔ -٥ جون 2022
میرا میانوالی-
فجر کا وقت —- جیل کی ایک کوٹھڑی میں ایک قیدی بلند آواز میں قرآنِ حکیم کی تلاوت کر رہا تھا کہ ہندو سپرنٹنڈنٹ جیل روتا ہوا آیا اور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا “شاہ جی، خدا کے لیے بس کرو ، میں بہت دیر سے رو رہا ہوں – ادھر سے گذر رہا تھا تو آپ کی آواز نے میرے پاؤں جکڑ لیئے ، آنکھوں سے آنسُو بہہ نکلے ، آگے جانے کی ہمت نہ رہی ۔ اب بس کریں میں نے واپس جانا ہے “-
قیدی نے مسکرا کر کہا “اب تم جا سکتے ھو”۔
وہ قیدی تھا سید عطاءاللہ شاہ بخاری – بیسیویں صدی کا سب سے بڑا خطیب ، ان جیسا جادوبیاں خطیب پچھلے ستر برس سے نہ دیکھا ، نہ سُنا ۔ خطاب میں کہیں بپھرے ہوئے سمندر کا جلال ، کہیں پھولوں پہ دھیرے دھیرے اترتی شبنم کا جمال ، زبان سے کبھی شعلے برستے کبھی بارانِ رحمت کا گُماں ہوتا – ہزاروں کا مجمع ان کی جادو بیانی کے سحر میں گرفتار گھنٹوں مؤدب بیٹھا رہتا –
گورنمنٹ کالج میانوالی کے سابق پرنسپل مرحوم پروفیسر سید محمد عالم بتایا کرتے تھے کہ جب ہم علی گڑھ کالج کے سٹوڈنٹ تھے تو ایک شام ہاکی کھیل کر واپس آرہے تھے- ایک کھلے میدان میں بہت بڑا ہجوم دیکھ کر رُک گئے – پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہاں سید عطآءاللہ شاہ بخاری کا خطاب ہوگا – جب شاہ جی سٹیج پر آئے تو سیاسی مخالفت کی بنا پر ہم سٹوڈنٹس شور مچانے لگے کہ نہیں سنیں گے ، نہیں سنیں گے – شاہ جی بہت سکون سے ہمارے یہ نعرے سُنتے رہے ، پھر مسکرا کر فرمایا “ قرآن سُنو گے ؟“
کون کافر کہتا نہیں سنیں گے – شاہ جی نے قرآنِ حکیم کی چند آیات تلاوت کیں – بس پھر ہم زمین سے چپک کر رہ گئے – شاہ جی نے انہی آیات کی تشریح سے خطاب کا آغاز کیا – خطاب فجر کی اذان تک جاری رہا – خطاب کے دوران شاہ جی نے مجمع کو کئی بار رُلایا ۔ کئی بار ہنسایا ، وہاں سے اُٹھنے کو جی ہی نہیں چاہتا تھا –
سید عطاءاللہ شاہ بخاری ملتان کے رہنے والے تھے – اللہ کریم کا خصوصٰی کرم ہوا تو محبوبِ زمانہ بین الاقوامی شخصیت بن گئے – 1961 میں اس عالمِ فانی سے رخصت ہو کر سرحدِ حیات کے اُس پار جابسے — رحمتہ اللہ علیہ –
———————– رہے نام اللہ کا —————————— منورعلی ملک – –٦ جون 2022
میرا میانوالی-
مرحوم فاروق روکھڑی کے ایک شہرہءآفاق گیت کا ایک ًمصرع ہے
کیس میانوالی دا تے کُھٹڑاں لہور اے
( میانوالی کے کیس کا فیصلہ لاہور میں ہوتا ہے)
ہمارے نظام انصاف کی ستم ظریفی پر یہ مصرع ایک بھر پور طنز ہے – بے شمار خامیاں ہیں جن کی وجہ سے بے گناہ لوگ جیلوں میں پڑے ہوتے ہیں اور مجرم دندناتے پھرتے ہیں – اس نظام کی خامیوں کی اصلاح بہت آسان ہے – پارلیمنٹ میں قانون سازی کر کے نظام انصاف بہتر بنایا جا سکتا ہے ، مگر پارلیمنٹ میں بیٹھے بزرگ آپس کی لڑائیوں سے ہی فارغ نہیں ہوتے – نظام جائے جہنم میں – ہاں اگر اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرنا ہو تو سب اچھے بچے بن کر منٹوں میں قانون میں ترمیم کر دیتے ہیں –
میرے چچا مرحوم ملک برکت علی تحصیلدار تھے – اس زمانے میں اے سی (اسسٹنٹ کمشنر) نہیں ہوتے تھے ، اے سی کے تمام انتظامی اور عدالتی اختیارات تحصیدار کے پاس ہوتے تھے – چچا جی بتایا کرتے تھے کہ ایک دن میں کسی گاؤں کے دورے پر جانے لگا تو بس کے اڈے پر ایک خاتون زاروقطار روتی دیکھی ، قریب ہی کچھ پولیس کے لوگ بھی کھڑے تھے –
خاتون سے رونے کی وجہ پوچھی تو روتے ہوئے کہنے لگی “ میرا شوہر قتل ہوگیا ہے – اس کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیئے ضلع کے مرکزی ہسپتال لے جانی ہے – پولیس والے لاش لے جانے کا کرایہ مانگ رہے ہیں – میرے پاس اپنے یتیم بچوں کی روٹی کے پیسے بھی نہیں ہیں ، لوگوں کے گھروں میں کام کر کے دو وقت کی روٹی کماتی ہوں ، لاش کے کرائے کی رقم کہاں سے لاؤں ؟“
چچا جی نے پولیس والوں کو ڈانٹا کہ اس کام کے پیسے تمہیں سرکاری خزانے سے ملتے ہیں پھر یہ ظُلم کیوں کر رہے ہو – پولیس چونکہ تحصیلدار کے بھی ماتحت ہوتی تھی اس لیئے پولیس والوں نے معافی مانگ کر لاش کو لے جانے کا بندوبست کر دیا –
چچا جی بتاتے تھے کہ نظامِ انصاف کی ایسی ہی خامیوں کے حوالے سے میں نے ایک کیس کے فیصلے میں لکھا
We are selling justice, not dispensing it.
( ہم انصاف دینے کی بجائے انصاف بیچ رہے ہیں )
اس پر بڑا ہنگامہ ہوا – ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب میرے خلاف انکوائری کے لیئے تشریف لائے – میں نے صورتِ حال بتائی تو ہنس کر کہنے لگے “ بیٹا جی ، گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ہم بھی نظام انصاف پر خُوب تنقید کرتے ہیں – ہم بھی کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں انصاف بِکتا ہے – مگر یہ بات کسی کیس کے فیصلے میں نہیں لکھنی چاہیے، آئندہ احتیاط کریں” –————————- رہے نام اللہ کا —————————— منورعلی ملک — -٧ جون 2022
میرا میانوالی-
ایک شاعر نے کہا تھا
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کردے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
مگر آج معاملہ اس کے برعکس ہے – امیر غریب سب پریشاں حال – وہ زندہ دل مجلسیں ، فلک شگاف قہقہے ، وہ چھیڑ چھاڑ، ہنسی مذاق اب تو خواب و خیال میں بھی نہیں آتے – بچوں اور نوجوانوں کی بات نہیں کر رہا ، بزرگ بھی بہت زندہ دل ہوتے تھے، چھیڑ چھاڑ ، ہنسی مذاق میں بچوں اور نوجوانوں سے بھی دو قدم آگے – اب تو شاعر کو یوں کہنا چاہیئے
ہر وقت کا رونا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی ہنس بھی لیا کر
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس دور میں لوگوں کو ہنسانا بھی صدقہ ہے – اسی خیال سے آج کُچھ ہنسنے ہنسانے والی باتیں – حال ہی میں “جہازوں“ کے دو لطیفے نظر سے گذرے – شاید آپ نے پہلے بھی کہیں پڑھے سُنے ہوں ، ایک بار پھر سہی –
—————————————-
ایک جہاز گلی کے کونے پر بیٹھا سگریٹ میں ہیروئن بھر رہا تھا – ایک بزرگ نے دیکھ کر کہا “ اوئے خبیث ، دنیا چاند پہ جاپہنچی ہے اور تم زہریلے دھوئیں سے زندگی برباد کر رہے ہو-
نوجوان جہاز نے کہا “ چاچا جی ، سگرٹ مُکداں تئیں میں وی چن تے پہنچ ویساں – کوئی ہور حکم ؟؟؟؟“
——————————————————
ایک جہاز کے بچے نماز کے لیئے جانے لگے تو جہاز کے باپ نے اُس سے کہا
کُچھ شرم حیا کر ، معصوم بچے نماز کے لیئے مسجد جا رہے ہیں اور تُو مسٹنڈا گھر میں لیٹا ہوا ہے –
نوجوان نے کہا “ ابا ، فرق ڈیکھ ، آپنڑیں تربیت تے ساڈی تربیت دا “-—————————- رہے نام اللہ کا ————————–—— منورعلی ملک —–٨ جون 2022
میرا میانوالی-
دوکزن اپنے چچا کی کار میں گھر سے نکلے کچھ دور جا کر کار کا انجن بند ہو گیا – جو ڈرائیونگ کر رہا تھا ، اس نے بہت کوشش کی مگر بے سُود – کار ٹس سے مس نہ ہوئی – دُوسرے کزن نے اس کا بازو مروڑ کر اُسے ڈرائیونگ سیٹ سے ہٹا دیا اور کہا چل دفع ہو نکما ، تُو گاڑی کے بارے میں ککھ بھی نہیں جانتا – اب گاڑی میں چلاؤں گا ، میرے پاس اس کام کا تجربہ ہے ، کئی دفعہ چاچا کا ٹریکٹر چلا چُکا ہوں –
دوسرا کزن ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا ، اُس نے بھی کار سٹارٹ کرنے کی پوری کوشش کی مگر ، کار سٹارٹ نہ ہوئی – ادھر سے ایک ٹرک گذرا تو انہوں نے اُسے روک کر ڈرائیور سے کہا “ چاچا جی ، گاڑی اچانک بند ھو گئی ہے – پتہ نہیں کیا وجہ ہے – آپ پلیز ہماری مدد کر دیں –
ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر بزرگ ٹرک ڈرائیور نے ڈیش بورڈ پر ایک نظر ڈالی اور کہا “ اَنی دیو ، پٹرول کے بغیر گاڑی کیسے چل سکتی ہے – یہ دیکھو ، پٹرول والی سُوئی بتا رہی ہے کہ پٹرول کی ٹینکی خالی ہے –
یہ کہہ کر چاچا تو چلاگیا ، مگر ایک اور مسئلہ یہ نکل آیا کہ پٹرول کے لیئے پیسے دونوں جوانوں کے پاس نہ تھے –پٹرول پمپ تو کُچھ فاصلے پر سامنے نظر آ رہا تھا ، مگر پیسے ——؟؟؟
لوڈ شیڈنگ کی صورتِ حال ذہن میں رکھیں تو یہ کہانی آسانی سے سمجھ میں آجائے گی کہ گاڑی تو ہمارا پیارا ہاکستان ہے اور چلانے والے دو جوان ————!!
———————- رہے نام اللہ کا ———————-—— منورعلی ملک —–-١٠ جون 2022
میرا میانوالی-
اس باہمت بچے کا اللہ حامی و ناصر ھو، آپ بھی اس کو دل سے دعا دیں۔ پتہ نہیں یہ کون ھے ؟ کہاں کا رھنے والا ھے؟ ٹویٹر پر اس کی یہ پکچر دیکھ کر دل بھر آیا ۔ یہ بچہ رول ماڈل ھے سب بچوں کے لیئے ۔ اپنے بچوں کو یہ پکچر دکھا کر بتائیں کہ تمام تر مشکلات کے باوجود اگر انسان تعلیم و ترقی کی منزلیں طے کرنا چاہے تو کوئی رکاوٹ اس کی راہ نہیں روک سکتی ۔ اللہ بھی اس انسان کی مدد کرتا ھے۔ بات صرف احساس کی ھے، احساس بیدار ھو جائے تو کوئی سفر کٹھن نہیں رہتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منورعلی ملک۔۔ –١١ جون 2022
میرا میانوالی-
معروف کالم نگار جاوید چوہدری نے ایک ایمان افروز واقعہ بیان کیا ہے – آپ بھی سُن لیجئے – واقعہ بیرونِ ملک کاہے –
ایک صاحب کہتے ہیں میں ایک ہوٹل میں بیٹھا تھا – سامنے والی میز پر بیٹھا داڑھی والا نوجوان مجھے بڑے غور سے دیکھ رہا تھا – میں نے پُوچھا بھائی آپ بھی مسلمان ہیں – اُس نے کہا جی نہیں ، میں یہودی ہوں “ —- میں نے پوچھا کیا کام کرتے ہیں آپ ؟ —- کہنے لگا “میں فرانس کی ایک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیئے اسلام پر ریسرچ کر رہا ہوں “-
میں نے پُوچھا “ اسلام کے بارے میں آپ کون سے موضوع پر ریسرچ کر رہے ہیں ؟“
اُس نے کہا “ مسلمانوں کی شدت پسندی “
میں نے کہا “ اس موضوع پر تحقیق کے بعد آپ کس نتیجے پر پہچے ہیں ؟“
اس نے کہا “ میں پانچ سال کی تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مسلمان اور تو سب کُچھ برداشت کر لیتے ہیں ، چاہے آپ اُن کے ملک پر قبضہ کر لیں ، مسجدیں ویران کردیں، اُن کے گھر برباد کر دیں ، لیکن اُن کے نبی (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے خلاف ایک لفظ بھی کہہ دیں تو چاہے آپ پہلوان ہوں یا شیطان ، وہ آپ سے ٹکرا جاتے ہیں – اس لیئے اسلام کو ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مسلمانوں کے دل سے اُن کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نکال دی جائے – مگر یہ ممکن ہی نہیں “-
یہی بات علامہ اقبال نے اپنی نظم “ ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام “ میں یوں بیان کی ہے کہ شیطان اپنے پیروکاروں سے کہتا ہے ، مسلمانوں کو گمراہ کرنے کا
ایک یہی طریقہ ہے کہ ان کے دل سے محمد کی محبت نکال دی جائے- ابلیس کہتا ہے :
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا ،
رُوحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو-———————- رہے نام اللہ کا ———————–—– منورعلی ملک —-١٣ جون 2022
میرا میانوالی-
ہمت ِ مرداں ، مددِ خدا ——
میٹرک میں ہماری کلاس میں دو احمد خان تھے – ایک لمبے قد کا ،جسے ہم احمد خان اُچا کہتے تھے ، دوسرا چھوٹے قد کا ، جسے ہم احمد خان نِکا کہتے تھے – احمد خان نکا میٹرک کرنے کے بعد تلاشِ معاش میں کراچی چلا گیا – وہاں ایک رشتہ دار نے اُسے دنیا کی مشہور و معروف آڈٹ اینڈ کنسلٹنسی فرم Audit and Consultancy اے ایف فرگوسن میں چپراسی بھرتی کرادیا – احمد خان کی ذہانت ، دیانت اور محنت دیکھ کر فرم کے ایک انسان دوست چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نے ایف اے کا امتحان دینے کا مشورہ دیا – ایف اے کرنے کے بعد احمد خان نے بی کام بھی کر لیا اور پھر چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننے کے مراحل طے کر کے اسی فرم اے ایف فرگوسن کا ممبر بن گیا – ترقی کی منازل تیزی سے طے کرتے ہوئے احمد خان سری لنکا میں اقوامِ متحدہ کے کنسلٹنٹ کے منصب تک جا پہنچا – اس کے ایک ساتھی ذکاءاللہ نے بتایا کہ آخری اطلاعات تک احمد خان سری لنکا ہی میں مقیم تھے – اب وہ ایک اہم بین الاقوامی شخصیت شمار ہوتے ہیں –
احمد خان سے بہت عرصہ سے ملاقات نہیں ھوئی۔ کچھ عرصہ پہلے وہ اپنے گھر داودخیل آئے تھے، مگر میں ان دنوں لاہور میں تھا، ملاقات نہیں ھو سکی۔ اتنا پتہ تھا کہ وہ کراچی میں چارٹرڈ اکاونٹنٹ ہیں۔ بقیہ تفصیلات ان کے ساتھی ذکا ء اللہ نے فراہم کی ہیں۔
اس پوسٹ پر کمنٹ میں ظفراللہ خان جمالی نے بتایا ھے کہ احمد خان 6 سال قبل اس عالم فانی سے رخصت ھوگئے۔ اللہ کریم ان کی اگلی منزلیں آسان فرمائے، ایک مثالی شخصیت تھے۔
———————- رہے نام اللہ کا ——————-—— منورعلی ملک —- –١٤ جون 2022
میرا میانوالی-
کلاس فیلو کا رشتہ بھی کیا پیارا رشتہ ہے – دوچار سال کی سنگت عمر بھر کے پیار کو جنم دیتی ہے – تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد لوگ اپنے مقدر اور اہلیت کے مطابق اپنی اپنی منزلوں کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں – کوئی کہاں ، کوئی کہاں ، کئی کئی سالوں بعد ملتے ہیں تو دونوں طرف خوشی دیکھنے کے لائق ہوتی ہے – بچپن اور جوانی کے قہقہے دوبارہ گونج اُٹھتے ہیں – وہ شوخیاں ، شرارتیں ، چھیڑ چھاڑ یاد کر کے قہقے لگائے جاتے ہیں – دوسرے کلاس فیلوز اور ٹیچرز کا ذکر ہوتا ہے – ان میں سے جو اس دنیا میں نہیں رہے اُن کے بچھڑجانے پر دُکھ کا اظہار کیا جاتا ہے – اپنے اپنے دُکھ سُکھ شیئر کیئے جاتے ہیں –
باہر کے دوستوں سے تو ہم اپنی کمزوریاں چھپاتے ہیں ، لیکن کلاس فیلوز سے کوئی بات چُھپی نہیں رہتی – مزے کی بات یہ ہے کہ تمام خامیوں اور کمزوریوں کے علم کے باوجود بھائیوں کی طرح ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں – کلاس فیلوز کے درمیان مکمل مساوات ہوتی ہے – امیر، غریب ، اور ہر قوم قبیلے کے کلاس فیلوز کی آپس میں بے تکلفی عمر بھر قائم رہتی ہے – زیادہ تر تو ایک دُوسرے کو آپ اور تُم کی بجائے تُو اور یار کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے –
گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں جب میرا تقرر ہوا تو میں نے محلہ بمبرانوالہ میں ایک کرائے کے مکان میں قیام کیا -وہاں میرے دو لیکچرر ساتھی پہلے سے رہتے تھے – انہوں نے مکان کا ایک کمرہ مجھے دے دیا – شام کو جب ہمارا کھانا بنانے والا ملازم آیا تو اُسے دیکھ کر میری آنکھیں بھیگ گئیں – یہ ملازم میرے ساتویں کلاس کے کلاس فیلو سیدطالب حسین شاہ بخاری تھے – مفلسی کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکے – پھر شادی ہو گئی ، دوچار بچے بھی ہوگئے ، کوئی اور ذریعہء معاش نہ ملا تو کالج میں بیلدار بھرتی ہو گئے – سرکاری تنخواہ کے علاوہ کُچھ پیسے ہمارا کھانا بنا کر کمالیتے تھے – نہایت شریف النفس اور خاموش طبع انسان تھے – میں نے انہیں کبھی ملازم نہ سمجھا – ساتھیوں سے بھی کہہ دیا کہ طالب شاہ میرے لیئے قابلِ احترام ہیں ۔ آپ نے بھی ان سے ملازموں والا سلوک نہیں کرنا –
کل کی پوسٹ میں اپنے داؤدخیل کے کلاس فیلو احمد خان کا ذکر ہوا ، جو ایک معمولی سی ملازمت سے کسبِ معاش کا آغاز کرکے بین الاقوامی سطح کے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بن گئے- کمنٹس سے معلوم ہوا کہ انہوں نے داؤدخیل میں کئی فلاحی کام بھی کیئے – سکول کی چار دیواری اور گیٹ بنوایا ، کئی گلیوں میں بھی کام کروایا ، کئی غریب لوگوں کو اپنی جیب سے مستقل امداد دیتے ریے – اللہ کریم ان کی تمام خدمات قبول فرمائے ، ایک مثالی شخصیت تھے –
کُچھ دوستوں نے کمنٹس میں ہماری کلاس کے دُوسرے احمد خان کا ذکر کرنے کو کہا ،جسے اُونچے قد کی وجہ سے ہم احمد خان اُچا کہتے تھے – احمد خان اُچا کی اہمیت
بس اُونچائی تک ہی محدود رہی – اُن کا کوئی اور کارنامہ دیکھنے سُننے میں نہ آیا – بہت زندہ دل ، خوش مزاج انسان تھے – پتہ نہیں اب کہاں ہیں –
————————- رہے نام اللہ کا ————————–—— منورعلی ملک —— -١٥ جون 2022
میرا میانوالی-
اصل نام سکندرحیات خان تھا ، کلاس کے لوگ سکندراعظم کہتے تھے – سکول میں ہم سے دوچار سال آگے تھے ، مگر دوچار سال مڈل (آٹھویں کلاس) میں فیل ہونے کے بعد ہمارے کلاس فیلو بن گئے – اس زمانے میں مڈل اور میٹرک کے سپلیمنٹری امتحانات نہیں ہوتے تھے – فیل ہونے والے سٹوڈنٹس کا نام سکول سے خارج نہیں ہوتا تھا ، اگلاسال پھر اسی کلاس میں بیٹھ کر دوبارہ امتحان دینا پڑتا تھا – اگر کوئی خود سکول چھوڑ دیتا تو الگ بات ورنہ امتحان پاس کرنے تک کلاس میں حاضری ضروری تھی – یُوں سکندر خان مڈل میں تین چار سال فیل ہونے کے بعد آٹھویں کلاس میں ہمارے بھی کلاس فیلو بن گئے – عمر میں تو اب وہ دسویں کلاس کے لڑکوں سے بھی بڑے تھے ، اس لیئے ہم لوگ انہیں بابائے سکُول بھی کہتے تھے –
سکندراعظم ذہین تو بہت تھے ، مگر تعلیم کی بجائے اپنی تمام تر ذہانت ہروقت نئی شرارتیں سوچنے اور اُن پر عمل کرنے میں صرف کرتے رہے – ان کی وجہ سے کلاس کا ماحول بہت خوشگوار رہتا تھا – ٹیچر بھی سکندرِاعظم کی معصوم باتوں اور شرارتوں پر ہنس دیتے تھے – کبھی کبھار کوئی ٹیچر کسی کی شکایت پر مارپٹائی بھی کر دیتے تھے – مگر سکندراعظم وہ بھی ہنس کر برداشت کر لیتے تھے –
عجیب شرارتیں سُوجھتی تھیں اللہ کے اس بندے کو – ایک دن کہنے لگے “ یارو ، بڑی زبردست فلم لگی ہے میانوالی کے سینما پر ، کسی دن چل کر دیکھتے ہیں – ہم نے کہا “کون سی فلم؟“ سکندر خان نے کہا “بختورے“-
بختورے در اصل کسی فلم کا نہیں ہمارے ایک کلاس فیلو کی امی کا نام تھا – وہ بہت
چڑچڑے مزاج کا لڑکا تھا – اُس نے اُٹھ کر سکندراعظم کا گریبان پکڑ لیا – ہم نے بیچ میں پڑ کر دونوں کو الگ کیا – وہ لڑکا مسلسل گالیاں دیتا رہا ، مگر سکندر اعظم آگے سے قہقہے ہی لگاتا رہا — سکندر بھائی کی ایک بڑی خُوبی یہ تھی کہ گالیاں بھی ہنس کر برداشت کر لیتے تھے –
اس قسم کے لطیفوں اور حرکتوں سے سکندراعظم کلاس میں رونق لگائے رکھتے تھے – ہمارے ساتھ ہی مڈل اور پھر میٹرک کا امتحان پاس کر کے مقامی فیکٹری میں ملازم ہو گئے – آج سے چند سال قبل سرحدِ حیات کے اُس پار جابسے – زندہ دِلی آخر دم تک برقرار رہی –
——————– رہے نام اللہ کا ————————— منورعلی ملک —–١٦ جون 2022
میرا میانوالی-
بڑے لوگ —–
سیاہ رات کی تاریکی میں ایک آدمی نے عرب کے صحرا میں ایک خیمے کے سامنے آکر صدا دی “ میں مسافر ہوں ، اللہ کے نام پر آج رات کے لیئے پناہ چاہتا ہوں “-
خیمے کے مالک یُوسف نامی شخص نے کہا “ اندر آجاؤ ، یہ خیمہ مجھے اللہ نے دیا ہے، تم بھی اس کی مخلوق ہو ، اس لیئے اس خیمے پر تمہارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا میرا- مجھے اللہ نے جو رزق دیاھے اس پر بھی تمہارا برابر کا حق ہے ” –
مسافر خیمے میں داخل ہوا ، یُوسف اُسے کھانا کھلا کر خیمے کے دوسرے حصے میں جا کر سو گیا – صبح منہ اندھیرے یُوسف نے مسافر کو جگا کر کُچھ سونے کی اشرفیاں
اُس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا “ یہ رقم لو ، باہر میرا سب سے تیز رفتار گھوڑا تمہاری سواری کے لیئے تیار کھڑا ہے – رات کی تاریکی میں نکل جاؤ“-
مسافر نے روتے ہوئے یوسف کے ہاتھ کو بوسہ دے کر کہا “ سردار ، اب کہاں جاؤں -؟ رات کے اندھیرے میں آپ کو پہچان نہ سکا – میں آپ کے جوان بیٹے کا قاتل ہوں- آپ نے مجھ سے جو حُسنِ سلوک کیا اس کے صلے میں میرا سر حاضر ہے – میرا سر قلم کرکے اپنے بیٹے کے قتل کا بدلہ لے لیں “-
یُوسف نے کُچھ اور اشرفیاں اُس کے ہاتھ پر رکھ کر کہا “ یہ تین گُنا رقم لے لو ، اور یہاں سے نکل جاؤ- میں مہمان کے قتل کا مجرم نہیں بننا چاہتا – میں نے تو تمہیں آتے ہی پہچان لیا تھا ، مگر تم نے اللہ کے نام پر پناہ مانگی تھی -اب جاؤ ، یہاں سے فورا نکل جاؤ ، کہیں صبح کی روشنی میں بیٹے کے قاتل کو سامنے دیکھ کر میں تمہیں قتل نہ کردوں “ –
مسافر کو رُخصت کر کے یُوسف نے رو تے ہوئے اپنے مقتول بیٹے کی رُوح کو مخاطب کر کے کہا “ بیٹا ، میں نے تمہارے قتل کا انتقام لے لیا ہے – میرا ضمیر مطمئن ہے ، تم بھی مطمئن ہو کر سوجاؤ“-
———————– رہے نام اللہ کا —————————— منورعلی ملک — -١٧ جون 2022
میرا میانوالی-
کُچھ دوست ایسے ہوتے ہیں کہ اس دنیا سے چلے بھی جائیں تو کسی نہ کسی بہانے اکثر یاد آتے رہتے ہیں – عتیل عیسی خیلوی میرے ایسے ہی دوست تھے – صاحبِ علم ، صاحبِ قلم ، صاحبِ دل ، اعلی درجے کے خوشنویس ، خوش ذوق ، خوش مزاج انسان تھے –
عیسی خیل میں میرا زیادہ تر وقت عتیل ہی کے ساھ گذرتا تھا – کالج میں تو مجھے صرف دو پیریئڈ پڑھانے ہوتے تھے ، پھر سارا دن فارغ – لالا عیسی خیلوی سارا دن اپنی دکان (الصدف جنرل سٹور) پر مصروف رہتے – دکان کا نام عتیل ہی نے الصدف رکھا تھا – دکان کی پیشانی پر یہ نام خُوبصورت انداز میں لکھا بھی عتیل ہی نے تھا –
عتیل کو نئے پُرانے سب بڑے شعراء کے بے شمار شعر یاد تھے – یہ جو لالا عیسی خیلوی یونس خان ، آڈھاخان ، مجبور عیسی خیلوی اور بے وس صاحب کے گیتوں میں فیض ، ساحر ، عدم ، فراز اور پروین شاکر وغیرہ کے شعر کلاشنکوف کے فائر کی طرح چھوڑتا ہے یہ سب اسلحہ عتیل صاحب ہی کی عطا تھا – مثلا سید خورشید شاہ کے ڈوھڑے ‘ تساں کنڈ کیتی میتھوں سنگتی پُچھدن ڈس کتھ گیا تیڈا سائیں“ کے ساتھ فراز کا شعر
کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے اُس سے
وہ جو اک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا
اور کبھی پروین شاکر کا شعر
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اُس نے
بات تو سچ ہے ، مگر بات ہے رُسوائی کی
اس قسم کی سب وارداتیں لالا کو عتیل ہی نے سکھائی تھیں –
شاعروں کے بارے میں عتیل کا علم بہت وسیع تھا – اقبال کا تو دیوانہ تھا وہ شخص – اقبال کے بارے میں بہت سی کتابیں اُس کی ذاتی لائبریری کی زینت تھیں – غالب کو بڑی پیار بھری گالیاں دیتا تھا – غالب کے بارے میں بھی کئی کتابیں تھیں اس کے پاس – جگر مراد آبادی ہم دونوں کے پسندیدہ شاعر تھے – جگر کا ایک شعر دیکھئے
میرا کمالِ شعر بس اتنا ہے اے جگر
وہ مُجھ پہ چھا گئے ، میں زمانے پہ چھا گیا
بہت بڑی بات ہے – اللہ کرے آپ کی سمجھ میں آجائے –
———————– رہے نام اللہ کا —————————— منورعلی ملک — –١٨ جون 2022
میرا میانوالی-
ہنسنے ہنسانے والے لوگوں کی یادیں کبھی کبھی اُداس بھی کر دیتی ہیں –
عتیل دُوسری خُوبیوں کے علاوہ زبردست مہمان نواز بھی تھے – میرے گھر کے لوگ کبھی داؤدخیل چلے جاتے تو عیسی خیل میں میرے کھانے پینے کا بندوبست عتیل اپنے ذمے لے لیتے تھے – کھانے میں ہمیشہ تین چار قسم کے سالن ہوتے تھے – ایک دن میں نے کہا “ یار ، اتنا تکلف کیوں کرتے ہو؟“
عتیل نے ہنس کر کہا “ بھائی صاحب ، یہ تکلف نہیں ، آپ کی بھابھی کی سلیقہ شعاری ہے – جب کوئی مہمان آتا ہے تو گھر میں بنے ہوئے سالن کے علاوہ اِدھر اُدھر کے دو چار گھروں سے بھی سالن کی ایک ایک پلیٹ منگوا لیتی ہے ، اچار گھر میں پڑا ہوتا ہے ، ساتھ سلاد بھی بنا دیتی ہے ، اس طرح دسترخوان کی رونق بھی بڑھ جاتی ہے ہماری عزت بھی“-
ایک رات لالا عیسی خیلوی کی محفل سے فارغ ہو کر عتیل اور میں اڈے کی طرف نکل گئے – رات ایک بجے کے قریب واپس آئے تو میں نے عتیل سے کہا “ یار ، چائے پینی ہے“ –
عتیل مجھے اپنے گھر لے گئے – مجھے ڈرائنگ رُوم میں بٹھا کر گھر میں چائے کا کہنے کے لیئے گئے تو واپسی پر ہنس ہنس کر دوھرے ہو رہے تھے – میں نے کہا کیا ہوا؟
عتیل نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا “ یار ، ٹکرگئِی ہم – میں نے بتایا منور صاحب آئے ہیں , چائے بنا دو ، بیگم نے کہا دُودھ نہیں ہے، چائے کیسے بناؤں ؟ میں نے غصے کا اظہار کیا تو کہنے لگی —–
زیادہ بک بک نہ کر ، یار تیرا ہے ، میرا تو نہیں کہ مجھے پتہ ہوتا اُس نے آنا ہے اس کے لیئے دودھ کا بندوبست کر دیتی “-
ہم ابھی عتیل کی اس چھترول پر ہنس رہے تھے کہ گھر کے اندر والے دروازے پر دستک ہوئی – عتیل کو صاف جواب دینے کے باوجود میری اُس بہن نے کہیں سے دُودھ لاکر بھائی کے لیئے چائے بنا دی تھی – بھائی کے صدقے میں چائے کی ایک پیالی عتیل کو بھی مل گئی –
اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ، میری بہت پیاری بہن تھیں –
عتیل کی اچانک وفات کے بعد اپنی بیٹی کے ہاں کلُور شریف منتقل ہوگئیں – زندگی کا سفر زیادہ لمبا نہ تھا – کُچھ دن بعد سُنا کہ وہ بھی عتیل کے پاس عدم آباد جا بسیں ———
ایسی خواتین گھر کے لیئے اللہ کی خاص رحمت ہوتی ہیں –
———————- رہے نام اللہ کا ———————–—— منورعلی ملک —-١٩ جون 2022
میرا میانوالی-
مغرب کی ہر رسم پہ تنقید کرنا مناسب نہیں – کُچھ رسمیں ایسی بھی ہیں جو ہمیں نیک کام کرنے کی ترغیب دیتی ہیں – باپ کا دن FATHERS’DAY ایک ایسی ہی اچھی رسم ہے جو ہمیں اپنے والدِ محترم سے محبت و عقیدت کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے – زندگی بڑی بے رحم ہے – بہت کُچھ بُھلا دیتی ہے – FATHERS’ DAY
جیسی رسمیں ہمیں وہ کام یاد دلاتی ہیں جو ہم پہ فرض بھی ہیں قرض بھی –
کل کے FATHERS’ DAY پر فیس بُک کے ہر فعال قلم کار نے اپنے اپنے انداز میں یہ فرض ادا کیا – جن لوگوں کے والد اب اس دنیا میں موجود نہیں ، اُن کا احساسِ محرومی اور والد سے محبت و عقیدت کا اظہار دیکھ کر بار بار آنکھیں بھیگتی رہیں – اللہ کریم تمام مرحومین کی مغفرت فرما کر انہیں اپنے جوارِ رحمت میں مقامِ قرب عطا فرمائے – میں بھی انہی میں سے ہوں – الحمد للہ بہت عرصے سے میرے لیے ہر دن FATHERS’ DAY ہوتا ہے – روزانہ ظہر اور عشآء کی نماز کے بعد قرآنِ کریم میں سے کُچھ نہ کُچھ تلاوت کر کے دونوں والدین کو ایصالِ ثواب کرتا رہتا ہوں –
بظاہر ماں کی فضیلت باپ سے زیادہ ہے ، مگر دو معاملات میں باپ کی فضیلت ماں کی فضیلت سے افضل تر ہے – ایک تو یہ کہ اللہ تعالی نے اپنا کام ( رزق کی فراہمی ) کرنے کا اعزاز باپ کو عطا فرما دیا — دُوسری بہت بڑی فضیلت سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بیان فرمائی کہ بیٹے کے حق میں باپ کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے —— بے شک ماں کے قدموں میں جنت سہی ، اس کی دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں ، لیکن قبولیت کی گارنٹی باپ کی دعا کو حاصل ہے – اسی لیئے یہ بھی سُنا کہ اگر کوئی مشکل وقت آجائے تو باپ کو راضی کرو ، مشکل ٹل جائے گی – اگر باپ اس دنیا میں موجُود نہیں تو ان کی قبر پر جا کر اللہ کے حضور میں آُن سے سفارش کرواؤ، مسائل حل ہو جائیں گے-
بیٹیوں کو تو باپ کی یاد دلانے کے لیئے کسی دن اور موقع کی حاجت ہی نہیں – اُن کا تو سب کُچھ ہوتا ہی باپ ہے – اُن کا تو باپ سے تعلق ایسا ہوتا ہے کہ ———-
او گھڑی کیہری ، جیہری گھڑی یاد نہ تُوں ماہیا
دعا ہے کہ جن لوگوں کے والد اس دنیا میں موجود ہیں ربِ کریم انہیں والد کی خدمت کی سعادت عطا فرمائے ، اور جو والد عدم آباد جابسے انہیں اپنی رحمت کا سایہ عطا فرمائے-
———————— رہے نام اللہ کا ———————–—— منورعلی ملک ——پکچر ۔۔ میرے والد محترم ملک محمد اکبر علی ، غفراللہ لہ –٢٠ جون 2022
میرا میانوالی-
پرندوں سے پیار بچپن کی عادت ہے جو اب تک ساتھ چل رہی ہے – صحن کے ایک کنارے پر مٹی کے پیالوں میں باجرے کے دانے اور پانی رکھا ہوتا ہے – گھر اور گرد و نواح کی چڑیاں ، فاختائیں ، ایک دو بُلبلیں ، ایک آدھ کالی چڑیا اس بندوبست سے مستفید ہوتی رہتی ہیں – پچھلے سال ایک ٹانگ والا کوا بھی آتا تھا ، پتہ نہیں کدھر چلا گیا –
دن کے پچھلے پہر میں صحن میں کُرسی ڈال کر بیٹھ جاتا ہوں – موبائیل فون سے چھیڑ چھاڑ کے علاوہ آتے جاتے پرندوں کو بھی دیکھتا رہتا ہوں –
میرے کمرے کے ایک روشندان میں چڑیوں کا بسیرا ہے – تقریبا دو ہفتے قبل چڑیا کا ایک بچہ وہاں سے اُترا – تھوڑا بہت اُڑ تو لیتا تھا ، مگر روشندان تک واپس نہیں جا سکتا تھا – اُس نے پانی کی موٹر کے نیچے رکھی ہوئی دواینٹوں کے درمیان اپنا ٹھکانہ بنا لیا – رات اُدھر بسر کرتا دن کو صحن میں چل پھر کر وقت گذار لیتا تھا – اُس کی ماں تو شاید مر گئی تھی ، باپ زمین پر گرے پڑے دانے چُن کر اس کے منہ میں ڈالتا رہتا تھا – باپ ادھر اُدھر جانے لگتا تو یہ کمینہ اُس کے پیچھے بھاگ کر چونچ سے باپ کو مارنا شروع کردیتا تھا – باپ چاہتا تو اُڑ کر اس کی دسترس سے دُور بھی جا سکتا تھا ، مگر آخر باپ تھا ، بچے کو بُھوکا کیسے رہنے دیتا – بچے کا پیٹ بھرنے کے بعد ہی اُڑ کر ادھر ادھر جایا کرتا تھا –
اب وہ بچہ جوان ہو کر اپنی کھانے پینے کی ضروریات خود پوری کر لیتا ہے – شام کو اُڑ کر روشندان میں اپنے گھر بھی چلا جاتا ہے ، باپ کو اب پہچانتا بھی نہیں –
پرندوں اور جانوروں سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں – اسی لیئے قرآنِ حکیم میں بھی بعض پرندوں اور جانوروں کا ذکر ارشاد ہوا – مشہور و معروف صوفی بزرگ شیخ فریدالدین عطار کی شہرہء آفاق کتاب منطق الطیر ( پرندوں کا مباحثہ) تصوف کی نمایاں کتب میں شمار ہوتی ہے – اس میں تیس پرندوں کی داستان کی صورت میں تصوف کے اہم امور پر بحث کی گئی ہے –
یہ جو سچا واقعہ میں نے آج سنایا ہے ، اس میں بھی اہلِ دل کے لیئے ایک آدھ سبق پنہاں ہے –————————– رہے نام اللہ کا ——————————— منورعلی ملک —–-٢١ جون 2022
میرا میانوالی-
“بولتی حقیقتیں “ کے عنوان سے شفقت اللہ خان نیازی کی اولیں تصنیف حال ہی میں منظرِعام پر آئی ہے – یہ خوبصورت کتاب مثال پبلشرز امین پور بازار فیصل آباد نے شائع کی ھے۔
شفقت اللہ خان نیازی پنجاب پولیس میں ڈی ایس پی کے منصب سے ریٹائر ہونے کے بعد سرگودہا میں مقیم ہیں – موصوف موسی خیل کے ایک مردم خیز قبیلہ کے چشم و چراغ ہیں – میں ان کے قبیلے کو اس حوالے سے قلم قبیلہ کہتا ہوں کہ نامور اہلِ قلم مرحوم کوثر نیازی اور ڈاکٹر اجمل نیازی دونوں شفقت اللہ خان کے کزن تھے – ان کے ایک کزن پروفیسر محمد اکبر خان نیازی گورنمنٹ کالج تلہ گنگ کے پرنسپل کے منصب سے ریٹائر ہوئے – پروفیسر محمد اکبرخان نیازی ڈاکٹراجمل نیازی کے بڑے بھائی تھے – جدید لب و لہجہ کے شاعر اکرم زاہد نیازی بھی شفقت نیازی کے قریبی رشتہ دار ہیں –
کتاب کے آغاز میں موسی خیل کے قبائل کی مختصر تاریخ اور نمایاں شخصیات کا ذکر اس کتاب کی اہم خصوصیت ہے –
” بولتی حقیقتیں “ چار حصوں پر مشتمل ہے – حصہ اول میں دینی موضوعات پر مضامین ہیں – حصہ دوم (شخصیات) علم و ادب کی لیجنڈ شخصیات کے بارے میں مصنف کے ذاتی تاثرات پر مشتمل ہے – کتاب کا تیسرا حصہ سماجی موضوعات پر لکھے ہوئے کالموں کا انتخاب ہے – شفقت نیازی کے یہ کالم مختلف اخبارات میں شائع ہوتے رہے – کتاب کا آخری حصہ “ بیٹآ“ کے عنوان سے سوز میں ڈوبی ہوئی تاثراتی تحریرں کا مجموعہ ہے – کتاب کا یہ حصہ پڑھتے ہوئے قاری کی آنکھیں بار بار بھیگ جاتی ہیں – اپنی بچیوں سے والہانہ پیار شفقت نیازی کی شخصیت کا سب سے دلکش پہلو ہے –
خوبصورت طباعت سے آراستہ یہ کتاب اہلِ ذوق و نظر کے لییے ایک قابلِ قدر تحفہ ہے – امید ہے شفقت نیازی تحائف کا یہ سلسلہ جاری رکھتے ھوئے اپنے قلم کی سیاہی خشک نہیں ہونے دیں گے –
————————– رہے نام اللہ کا ————————–– منورعلی ملک – –٢٣ جون 2022
میرا میانوالی-
شاعر نے کہا تھا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
وہی ہو رہا ہے —- ہم دونوں ہاتھوں سے پانی میں بھی زہر گھول رہے ہیں ، ہوا میں بھی – پچیس تیس سال پہلے ہمارے ہاں پینے کو کنوئیں ، ہینڈپمپ یا واٹر سپلائی سسٹم کا صاف شفاف ، صحتمند پانی ہر جگہ دستیاب تھا – ہم تو اپنے داؤدخیل کے پانی کو جنت کا پانی کہا کرتے تھے ، مگر اب وہی زمین پانی کی بجائے زہراُگل رہی ہے – ہر جگہ یہی حال ہے – وجہ زیر زمین زہریلے نمکیات کی آمیزش والی سیم – داؤدخیل میں تباہی کا یہ عمل مشرق میں تھل والی چھوٹی نہر اور مغرب میں بڑی نہر سے پیدا ہونے والی سیم نے برپا کیا – میانوالی میں بھی نہر ہی کی مہربانی سے زیرزمین پانی زہر آلُود ہو چُکا ہے ، اس لیئے واٹرسپلائی سسٹم کا پانی بھی پینے کے قابل نہیں رہا – صرف داؤدخٰیل ، میانوالی نہیں تقریبا مُلک بھر ، بلکہ دُنیا بھر میں یہی حال ہے –
ہوا میں زہر کی ایک بڑی وجہ تو کارخانوں اور اینٹوں کے بھٹوں وغیرہ کا دھواں ہے ، اور شہروں میں گاڑیوں کا دھواں – مگر فضا کی آلُودگی کا سب سے بڑا سبب وہ سینکڑوں پروازیں ہیں جو رات دن دنیا بھر میں رواں دواں ہیں – سینکڑوں بھاری بھرکم جہاز ہر لمحہ سینکڑوں ٹن پٹرول ( ہائی آکٹین) کے بخارات ہوا میں پھنیک رہے ہیں- صرف ایک دن کی پروازوں سے ہوا میں گُھلنے والے زہر کا حساب لگائیں تو انسان سرپکڑ کر بیٹھ جائے – اور یہ عمل سالہا سال روزانہ چلتا رہا تو نہیں لگتا کہ یہ دُنیا سو سال مزید نکال لے گی – تباہی کے کُچھ اثرات تو گلوبل وارمنگ اور سموگ smog کی شکل میں سامنے آ گئے ہیں –
کُچھ دنوں سے جنگلوں میں آگ لگنے کے متواتر سانحے دیکھنے میں آرہے ہیں – کارخانوں میں آگ کے بھی واقعات آئے دن ہو رہے ہیں – سڑکوں پر پٹرول ٹینکوں میں آگ بھڑک اٹھتی ہے –
کسی شاعر نے کہا تھا
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
مگر اب سوال یہ نہیں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی ، اصل سوال یہ ہے کہ یہ دنیا پتہ نہیں کب تک چل سکے گی ——– یا اللہ رحم –
میرا میانوالی-
انسان کے ہاتھوں ماحول کی تباہی کا کُچھ ذکر چند دن پہلے کیا تھا ، ہمارے ہاں تو عنقریب آنے والی تباہی کا ابھی شعور ہی نہیں آیا ،مگر خطرے کی بُو سونگھ کر پُوری دنیا اس خوف میں مبتلا ہے کہ اگر تباہی کا یہ عمل یونہی چلتا رہا تو قیامت سے پہلے قیامت بہت جلد برپا ہو سکتی ہے – جب ہوا میں زہر کی مقدار ایک حد سے بڑھ جائے تو ہر سانس موت کا پیغام بن سکتی ہے – سانس لیتے ہی انسان ختم – جب پانی میں زہر گھُل جائے تو پانی کا ایک گھونٹ بھی موت کا سبب بن سکتا ہے – ہوا اور پانی کے ساتھ جو کھلواڑ ہم کر رہے ہیں اس کا نتیجہ بالآخر ہونا تو یہی ہے – ترقی یافتہ ممالک میں اس پر تحقیق ہو رہی ہے – وہ تو چلتی رہے گی ، اس تباہی سے بچنے کے لیئے جو کُچھ ہم سے ہو سکتا ہے وہ تو کردیں –
زمین کا درجہ ء حرارت کم کرنے اور ہوا میں آکسیجن کی مقدار متوازن رکھنے کے لیئے وسیع پیمانے پر شجر کاری ضروری ہے – ساون کا مہینہ شروع ہونے والا ہے – درخت لگانے کے لیئے یہ بہترین موسم ہے – اگر گھر کے صحن میں گنجائش ہو تو وہاں بھی درخت ضرور لگائیں – دیہات میں تو گھروں میں درخت عام ہوا کرتے تھے – داؤدخیل میں ہمارے گھر کے چار کنال صحن میں دو بڑے بیری کے درخت اور چار پانچ کیکر ہوا کرتے تھے – بیری کے درخت تو تیس چالیس سال کی عمر پوری کر کے گِر گئے – کیکر کُچھ کٹوا دیئے گئے – دو چار ابھی باقی ہیں – ہماری چونک ( بیٹھک) پر بھی کیکر کے چند بھاری بھرکم درخت تھے – چند ٹاہلیاں ( شیشم) بھی تھیں- وہ سب کٹ گئے – دوچار کیکر باقی رہ گئے –
ماحول کو صاف ستھرا اور صحتمند رکھنے کے لیئے شجر کاری بہت ضروری ہے – درختوں کی وسیع پیمانے پر کٹائی روکنے کے لیئے قانون کی پُوری قوت استعمال کی جائے- محکمہ ماحولیات اور محکمہ زراعت شجر کاری کا شعور عام کرنے اور وسیع ہیمانے پر شجر کاری کے لیئے بھرپُور مہم چلائیں – اس سلسلہ میں اقوامَ متحدہ اور
عالمی بینک وغیرہ سے مالی امداد بھی مل سکتی ہے – حکومت اور عوام مل کر کوشش کریں تو چند ہی سال میں یہ ملک سرسبز وشاداب ہو سکتا ہے – حکومت کا کام تو حکومت جانے ، جو کام ہمارے بس میں ہے وہ تو کرنا ہمارا فرض بنتا ہے – زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں –
آگ لگنے کے حادثات سے بچنے کے لیئے گھروں میں بجلی کی وائرنگ سال میں کم از کم دو دفعہ چیک کر کے شارٹ سرکٹ سے آگ لگنے کا امکان ختم کیا جا سکتا ہے – دھوئیں سے فضا کو محفوظ رکھنے کے لیئے کارخانوں اور اینٹوں کے بھٹوں سے احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرایا جائے ——- وما علینا الاالبلاغ –————————- رہے نام اللہ کا —————————— منورعلی ملک —- –٢٥ جون 2022
میرا میانوالی-
اُردُو مِڈل ————-
انگریزوں کے دورِ حکومت میں مڈل (آٹھویں کلاس) تک انگریزی لازمی مضمون نہ تھا – انگریزی کے بغیر مڈل پاس کو اُردو مڈل کہتے تھے – اُردو مڈل ملازمت کے لیئے شارٹ کٹ تھا – پرائمری اور مڈل سکولوں کے ٹیچرز زیادہ تر اردو مڈل ہوتے تھے – مگر تعلیم کا معیار ایسا تھا کہ مڈل پاس آدمی آٹھویں کلاس تک بآسانی پڑھا سکتا تھا – اردو مڈل کے بعد صرف ایک سال کا جے وی ( جونیئر ورنیکلر ) کورس کرکے لوگ مستقل پرائمری سکول ٹیچر بن سکتے تھے – سینیئر ورنیکلر ( ایس وی ) ٹیچر پانچویں سے آٹھویں تک ہر کلاس پڑھا سکتے تھے –
قیامِ پاکستان کے بعد بھی کُچھ عرصہ یہی نظام چلتا رہا – ہمارے اساتذہ ء کرام ماسٹر نواب خان ، ماسٹر میوہ رام ، ماسٹر عالم خان ، ماسٹر مظفرخان ، ماسٹر ممریز خان ، ماسڑ عیسب خان ، ماسٹر عبدالحکیم ، ماسٹر شاہ ولی خان ، ماسٹر سید قاسم شاہ بخاری ، ماسٹر سردارخان ، ماسٹر حافظ رانجھا ،ماسٹر رب نواز خان ، سب اُردو مڈل تھے- سب بہت لائق اور محنتی ٹیچر تھے –
میٹرک سے بی اے تک انگریزی لازمی مضمون تھا – اگر کوئی اردو مڈل آدمی میٹرک کرنا چاہتا تو پہلے اُسے آٹھویں کلاس کی انگلش کا امتحان پاس کرنا پڑتا تھا – میٹرک میں اُردو لازمی مضمون نہ تھا ، اس کے مقابلے میں سائنس (صرف فزکس اور کیمسٹری — بیالوجی میٹرک کے کورس میں شامل نہ تھا) ایک مضمون شمار ہوتا تھا – ہر کوئی ڈاکٹر یا انجینیئر تو نہیں بننا چاہتا – غریب لوگوں کے پاس میڈیکل اور انجینیئرنگ کی تعلیم کے وسائل ہی نہ تھے – سائنس کے بغیر میٹرک کرنے والے لوگ بی اے کے بعد ٹیچر ، وکیل ، سول جج ، مجسٹریٹ ، یا پی سی ایس ، سی ایس پی انتظامی افسر بن جاتے تھے –
———————- رہے نام اللہ کا —————————— منورعلی ملک —–-٢٦ جون 2022
میرا میانوالی-
قلم سے کی بورڈ تک —–
کتنی محنت کی تھی ہم نے لکھنے کا فن سیکھنے کے لیئے – پہلے لکڑی کی تختی پر کانے (سرکنڈے) کے قلم سے ایک ایک حرف کئی کئی بار لکھنا ، لکھائی کی نوک پلک سنوار کر خوشخط لکھنے پر مشقت – انگریزی لکھنے کے لیئے لکڑی کا خوبصورت رنگین ہولڈر – جی G مارکہ نِب اور نیلی روشنائی (سیاہی) استعمال ہوتی تھی – آٹھویں کلاس تک پین کے استعمال کی اجازت نہ تھی – پین کا پُورانام فاؤنٹین پینFountain pen تھا – لفظ فاؤنٹین گلے میں پھنس جاتا تھا ، اس لیے صرف پین کہا جاتا تھا – اس کا ابتدائی نام انڈی پینڈنٹ Independent ( آزاد) پین تھا – انڈی پینڈنٹ اس لیئے کہ اس کے ساتھ سیاہی کی دوات کی ضرورت نہ تھی – سیاہی پین کے اندر ہی بھر دی جاتی تھی –
کئی قسم کے پین ہوتے تھے – وی آئی پی لوگ پارکر Parker اور شیفرز Sheaffers کے مہنگے قلم استعمال کرتے تھے – یہ قلم آج بھی بن رہے ہیں – ایک قلم ہزاروں روپے میں آتا ہے ، مگر یہ صرف حیثیت کی علامت status symbol ہیں – عام لکھائی کے لیئے اچھی قسم کے پین بلیک برڈ Blackbird ، سوان Swan ، واٹرمین Waterman وغیرہ استعمال ہوتے تھے – یہ پین پڑھے لکھے خوشحال لوگ استعمال کرتے تھے – عوام الناس دیسی پین ایگل وغیرہ سے گذارہ چلا لیتے تھے – میرے بابا جی میرے لیئے قسم قسم کے ہین لایا کرتے تھے – جب میں نے آٹھویں کلاس کا امتحان دیا میرے پاس آٹھ مختلف کمپنیوں کے بنے ہوئے پین تھے ، ان میں Blackbird, Swan جیسے خاصے مہنگے قلم بھی شامل تھے –
پھر بال پوائںٹ پین کا دور آگیا ،جسے عُرفِ عام میں بال پین کہتے ہیں – یہ بہت بڑی سہولت تھی ، سیاہی بھرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی – قیمت بھی برائے نام – سیاہی ختم ہوگئی تو خالی پین پھینک کر نیا پین خرید لیا – بال پین کا رواج ابھی چل رہا ہے –
آج سے چند سال قبل کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ اور پھر موبائیل فون کے ساتھ کی بورڈ keyboard آگیا – قلم کی ضرورت ہی نہیں پڑتی – یہ جو میں سات آٹھ سال سے روزانہ پوسٹس لکھ رہا ہوں یہ سب کام کی بورڈ keyboard پہ کرتا ہوں – قلم پچھلے سال انگریزی ادب کی تاریخ لکھنے میں استعمال کیا – اس کے بعد قلم کو ہاتھ لگانے کی نوبت شاذونادر ہی آتی ہے – لیکن اب سوچ رہا ہوں کہ قلم بھی استعمال کرنا چاہیئے – جلد ہی کچھ لکھنا شروع کر دوں گا ان شآءاللہ –
قلم مقدس ہے – قرآنِ کریم میں اللہ تعالی نے قلم کی قسم کھائی ہے – یہ بھی فرمایا کہ ہم نے انسان کو قلم کی مدد سے علم سکھایا – القلم کے عنوان سے قرانِ حکیم میں ایک سُورہ بھی شامل ہے – اس لیئے قلم کو ترک کرنا اچھا نہیں لگتا –
———————- رہے نام اللہ کا ———————–—— منورعلی ملک —––٢٧ جون 2022
میرا میانوالی-
کل قلم کا ذکر ہوا تو کمنٹس میں کُچھ دوستوں نے کہا سر ، کچی پنسل کو تو آپ بھُول ہی گئے – بات بھولنے کی نہیں دراصل میں نے اُن چیزوں کا ذکر کیا تھا جو اب رواج میں نہیں – کچی پنسل تو بچے اب بھی استعمال کرتے ہیں – ہمارے بچپن میں کچی پنسل کا استعمال یہ تھا کہ کلاس میں ٹیچر جو نوٹ لکھواتے تھے وہ ہم کچی پنسل سے
رف کاپی پر لکھ لیتے تھے – گھر جا کر وہ عبارت صاف کاپی پر قلم سے لکھ لیتے تھے – یہ ہمارا روزانہ کا ہوم ورک ہوتا تھا –
کچی پنسل کو ہم سِکے والی پنسل کہتے تھے – انگلش میں بھی اسے لَیڈ پنسل lead pencil کہتےہیں – لیکن اس میں سکہ lead نہیں بلکہ گریفائیٹ graphite (کاربن) کی پتلی سی سلاخ ہوتی ہے – جو گریفائیٹ پاؤڈر میں کوئی اور کیمیکل ملا کر بناتے ہیں –
ہمارے ڈرائنگ ماسٹر عبدالغفور خان نیازی نے ہمیں بتایا تھا کہ کچی پنسل کی کئی قسمیں ہیں – عام لکھنے کے لیئے جو پنسل استعمال ہوتی ہے اُس پر HB لکھا ہوتا ہے – HB کا مطلب ہے Hard Black – لیکن HB کے کئی درجے ہیں ، ڈرائنگ میں خاکہ بنانے کے لیئے 4H پنسل استعمال ہوتی ہے جو بہت ہلکی لکیریں لگاتی ہے – خاکے میں شیڈ لگانے کے لیے Soft Black SB پنسل استعمال ہوتی ہے- SB کے بھی کئی درجے ہیں – سب سے نرم SB وہ ہوتی ہے جس سے میک اپ میں ابرُو سنوارتے ہیں ( اللہ معاف کرے)-
ایک پکی پنسل بھی ہوتی تھی – یہ Copying پنسل تھی جس کے ساتھ تحریروں کی کاربن کاپیاں بنائی جاتی تھیں – اس کی لکھائی مٹ نہیں سکتی تھی – اس کو پانی میں ڈبو کر لکھیں تو تحریر بینگن کے رنگ کی purple ہوتی ہے – اب تو کاربن کاپیاں بنانے کا رواج ہی ختم ہوگیا ، اس لیئے پکی پنسل اب کہیں نہیں دیکھی – پہلے تو ہردفتر میں پکی پنسل استعمال ہوتی تھی-————————– رہے نام اللہ کا ——————————— منورعلی ملک —-٢٨ جون 2022
میرا میانوالی-
دِل کا حساب ——————-
دِل کا حساب میٹرک میں ہمارے ایک لازمی مضمون کی کتاب کا نام تھا – مذاق نہ سمجھیں کتاب کا سچ مُچ یہی نام تھا ، اس کے ساتھ اسی مضمون کی دو اور کتابیں دِل کا الجبرا اور دل کی جیومیٹری بھی تھیں – تین بھاری بھرکم کتابیں ، ہر کتاب میں پُوری 100 مشقیں – یہ تھا ہمارا ریاضی (Mathematics) کا کورس – دماغ کی لسی بن جاتی تھی یہ کورس مکمل کرتے ہوئے –
دل کا حساب ، دل کا الجبرا اور دل کی جیومیٹری اسلامیہ کالج لاھور کے پروفیسر خواجہ دِل محمد صاحب کی لکھی ہوئی تھیں- انگریزوں کے دورِحکومت میں میٹرک کی ریاضی انگلش میں پڑھائی جاتی تھی – اس لیئے ابتدا میں یہ تین کتابیں Dil’s Arithmetic , Dil’s Algebra , Dil”s Geometry کے نام سے انگلش میں لکھی گئیں – قیامِ پاکستان کے بعد جب یہ مضامین اُردو میں پڑھانے کا قانون نافذ ہوا تو خواجہ دل محمد نے خود ہی ان کتابوں کا اردو میں ترجمہ کر دیا – پُورے پاکستان میں میٹرک میں یہی کتابیں بہت عرصہ پڑھائی جاتی رہیں –
انگریزی کی طرح ریاضی سے بھی ہم اہلِ ایمان لوگوں کی جان جاتی ہے – سکولوں اور کالجوں میں ریاضی کے زیادہ تر ٹیچر ہندو ہوا کرتے تھے – کہتے ہیں قیامِ پاکستان کے وقت ایک ہندو پروفیسر نے طنزا کہا ، ہم تو چلے جائیں گے ، پھر تمہاری قوم کو ریاضی کون سکھائے گا ِ؟
خواجہ دِل محمد صاحب نے ہنس کر کہا “ ً میں ہُوں ناں“-
خواجہ صاحب نے اپنا یہ قول سچا ثابت کر دکھایا – قوم کو ریاضٰی کی تعلیم دینے کے لیئے بے مثال کتابیں تحریر کر دیں جو بہت عرصہ تک پُورے ملک میں نصاب کا لازمی جُزو رہیں –
خواجہ دل محمد صاحب بہت اچھے شاعر بھی تھے – لاہور کی ایک سڑک دِل محمد روڈ اُن ہی کے نام سے منسُوب ہے – میرے بابا جی کو یہ اعزاز نصیب ہوا کہ وہ ایف اے ( انٹرمیڈیئٹ) میں پروفیسر خواجہ دل محمد کے سٹوڈنٹ رہے – اسی لیئے باباجی بھی ریاضی کے نامور ٹیچر ثابت ہوئے –
————————- رہے نام اللہ کا ———————–—— منورعلی ملک —- –٢٩ جون 2022
میرا میانوالی-
دوتین دن سے اندھا دُھند لوڈ شیڈنگ نے بُرا حال کر رکھا ہے – شُکر ہے گھر میں یو پی ایس موجود ہے – لیکن جن گھروں کو یہ سہولت میسر نہیں اُن کا کیا حال ہوگا –
مسئلہ سیدھا سادہ سا ہے کہ گاڑی تو موجُود ہے پٹرول کے پیسے جیب میں نہیں ہیں – بجلی بنانے کے کارخانے تو ہیں ایندھن کے پیسے نہیں ہیں ہمارے پاس – آئی ایم ایف کی منتیں ترلے کر رہے ہیں لیکن وہ پیسے مل بھی جائیں تو قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کے بعد بجلی کے کارخانوں کے تیل پانی کے لیئے پیسے پُورے نہیں ہوں گے – اللہ جانے کیا ہوگا –
سرکار کی طرف سے تو کوئی حوصلہ افزا بات دیکھنے سُننے میں نہیں آرہی – اس محکمہ کے وزیر انجینیئر خُرم دستگیر صاحب تو زمین پر کم ہی نظر آتے ہیں – انجینیئر شاید اُن کا تخلص ہے ، کیونکہ سچ مُُچ کے انجینیئر ہوتے تو کُچھ تو کر کے دکھاتے – عجیب صُورتِ حال ہے –
اپنے ایک عزیز تحریکِ انصاف کے سرگرم رُکن ہیں – کہنے لگے دیکھا ، ہماری حکومت میں تو یہ حال نہ تھا – میں نے کہا ایک بچے نے ماں سے کہا تھا “ اماں ، میں چنگا ہاں کہ بھائی ؟“
ماں نے جواب دیا “ پُتر تُوں مِٹی ہیں تے او چھائی —– میرے کنڑں تاں ڈوہائیں بے کار ھاو”-
آفرین ہے صابر شاکر عوام پر ، فوجی حکومت ہو یا سیاسی ، ہر ظُلم و ستم خاموشی سے سہہ لیتے ہیں – حُکمران ہمارے اسی صبر شُکر سے ناجائز فائدہ اُٹھا تے ہیں – حالات کُچھ بھی ہوں آدھی قوم “ میاں دے نعرے وجن گے “ اور آدھی قوم “ جدوں آوے گا کپتان “ کی صدائیں لگاتی رہے گی – سمجھ نہیں آتی بندہ ہنسے یا روئے –———————— رہے نام اللہ کا —————————— منورعلی ملک – -٣٠ جون 2022