MERA MIANWALI-JULY-2022

MERA MIANWALI-JULY-2022

منورعلی ملک کےجولائی 2022 کےفیس بک پرخطوط

میرا میانوالی- 

عیسی خیل دور تے نئیں۔۔۔۔
اپنا گھر تو داؤدخیل ہے، مگر کئی حوالوں سے عیسی خیل ہمارے خاندان کی تاریخ کا ایک اہم سنگِ میل رہا ہے – میرے دادا جی ملک مبارک علی نے ٹیچر کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز عیسی خیل سے کیا، میرے بابا جی ملک محمد اکبر علی کی ملازمت کا سفر بھی گورنمنٹ ہائی سکول عیسی خیل میں انگلش ٹیچر کی حیثیت میں شروع ہوا – بہت عرصہ مختلف شہروں میں اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز رہنے کے بعد ہیڈماسٹر کے منصب پر اُن کا پہلا تقرر بھی گورنمنٹ ہائی سکول عیسی خیل میں ہوا – میرے بھائی ملک محمد انور علی بھی اسی دور میں گورنمنٹ ہائی سکول عیسی خیل میں انگلش ٹیچر متعین ہوئے – میں اُں دنوں ساتویں کلاس میں پڑھتا تھا ، بابا جی مجھے بھی اپنے ساتھ عیسی خیل لے آئے – امی نے اس پر احتجاج کیا تو یہ طے ہوا کہ ہر اتوار کو مجھے داؤدخیل آنے کی اجازت ہوگی –
تقریبا 20 سال بعد انگلش کے لیکچرر کی حیثیت میں میری ملازمت کا آغاز بھی عیسی خیل ہی سے ہوا – میرے بیٹے پروفیسر ملک محمد اکرم علی کی دُنیا میں آمد بھی اسی شہر میں ہوئی –
قدرت کے فیصلے ہیں ، کہ ایک خاندان کی تین نسلوں کی ملازمت کا آغاز اسی شہر سے ہوا – بہت اُداس ، ویران ، خاموش ، پُرامن سا شہر تھا – اب پتہ نہیں وہاں کیا حال ہے – سال میں ایک آدھ دفعہ بعض دوستوں کے اصرار پر لالا عیسی خیلوی کے ہاں آنا جانا اب بھی ہوتا ہے – مگر اُن کا گھر تو اب شہر سے باہر ہے ، ہمارے پاس شہر جانے کا وقت بھی نہیں ہوتا – شہر میں بہت سی یادیں ہماری راہ تکتی رہ جاتی ہیں —
———————— رہے نام اللہ کا ———————–—— منورعلی ملک –١ جولائی 2022

میرا میانوالی-

عیسی خیل میں اپنے قیام کا ذکر چل رہا ہے – اس موضوع پر چند سال پہلے بھی کُچھ پوسٹس لکھی تھیں ، اس لیئے شاید کُچھ دوست یہ بھی کہیں کہ سر ،
یہ تو وہی جگہ ھے گُذرے تھے ہم جہاں سے
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ———–
کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو
عیسی خیل کالج کے اُس دور کے کُچھ پروفیسر دوستوں کا حُکم ہے کہ۔۔۔۔۔
ہمیں لے چلو آج پھر اُس گلی میں
جہاں پہلے پہلے یہ دِل لڑکھڑایا
حُکم کی تعمیل واجب ہے۔۔۔۔۔۔
عیسی خیل کالج میں میرا تقرر میری کوشش یا خواہش کا نتیجہ نہ تھا – میں تو گورنمنٹ کالج میانوالی میں تقرر چاہتا تھا – گورنمنٹ کالج میانوالی میں انگلش کے لیکچرر کی دو اسامیاں خالی تھیں اور اُمیدوار بھی صرف دو تھے ، میں اور سرور نیازی صاحب – لیکن ہوا یُوں کہ پبلک سروس کمیشن کی ہدایت کے مطابق جب میں نے تقرر کے لیئے ڈائریکٹر کالجز سرگودہا کے آفس سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے کہا عیسی خیل کالج میں اس وقت انگلش کا کوئی لیکچرر موجود نہیں ، لڑکوں نے احتجاجا ہڑتال کی ہوئی ہے – میانوالی بنوں روڈ پر ٹریفک بھی انہوں نے روک دی ہے- امن و امان کا مسئلہ بنا ہوا ہے – اس لیئے حکومت پنجاب کا حُکم ہے کہ عیسی خٰیل کالج میں فوری طور پر انگلش کا لیکچرر متعین کیا جائے – آپ کا گھر داؤدخیل چونکہ عیسی خیل سے زیادہ دُور نہیں اس لیئے ہم آپ کو عیسی خٰیل بھیج رہے ہیں –
یُوں مجھے مجبورا عیسی خیل جانا پڑا —- بالکل نواں نکور کالج تھا – اپنی بلڈنگ بھی نہ تھی – گورنمنٹ ہائی سکول عیسی خیل کی بالائی منزل کو کالج کا نام دے دیا گیا – سٹاف تاریخ کے پروفیسر چوہدری محمد رمضان اور سیاسیات کے محمد سلیم احسن (صرف دو ٹیچرز) پر مشتمل تھا – باقی سب مضامین کے ٹیچرز کی اسامیاں خالی تھیں- جب میرا وہاں تقرر ہوا اُسی ہفتے اکثر خالی اسامیاں پُر کر دی گئیں- عربی کے جناب اشرف علی کلیار، اسلامیات کے منیرحسین بھٹی ، ریاضٰی کے ملک عبدالستار جوئیہ ، فزکس کے اکبر علی رندھاوا ، کیمسٹری کے محمد اکبر خان ، نفسیات کے حسین احمد ملک اور معاشیات کے ملک محمد یُوسف چھینہ ، ایک آدھ دن کے وقفے سے ہم سب لوگ وہاں پہنچ گئے
اس زمانے میں لیکچرر (گریڈ — 17 ) کی ماہانہ تنخواہ 500 روپے تھی – اللہ بھلا کرے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا اُنہوں نے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں یکمشت 50 فی صد اضافہ کردیا – ہم بہت حیران بھی ہوئے ، پریشان بھی – پریشان اس لیئے کہ عیسی خیل جیسی جگہ پر اتنی بڑی رقم کا کوئی خاص مصرف نہ تھا – بڑی رقم پر مسکرائیں نہیں ، اس زمانے میں 750 روپے واقعی خاصٰی معقول رقم تھی – اندازہ کیجیے کہ تین کمروں اور ایک بیٹھک پر مشتمل جس مکان میں ہم رہتے تھے اُس کا کرایہ صرف ایک سو روپے تھا – یہ 1975 کی بات ھے۔
عیسی خٰیل کا یہ حال تھا کہ اچھے کپڑے اور جُوتے خریدنے کے لیئے بنوں یا میانوالی جانا پڑتا تھا –( یہ داستان چند روز چلتی رہے گی)———————— رہے نام اللہ کا —— منورعلی ملک ——٢  جولائی 2022

میرا میانوالی- 

تاریخ کے لیکچرر چوہدری محمد رمضان اور سیاسیات کے محمد سلیم احسن ہم سے چند ماہ سینیئر تھے – پروفیسر طاھرالقادری صاحب بھی اسلامیات کے لیکچرر تھے ، مگر جب ہم وہاں پہنچے اُس وقت موصوف کا تقرر پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں ہو چکا تھا – تنخواہ وغیرہ کی وصولی کے لیئے ایک آدھ بار عیسی خیل آئے تو اُن سے ملاقات ہوئی تھی – عیسی خیل میں ملازمت کے دوران اُن کا قیام بھور شریف کی درگاہ پر ہوتا تھا – نماز جمعہ کی امامت اور خطابت بھی وہی کرتے تھے –
چوہدری محمد رمضان سرگودھا سے تھے – خاصی میچیور اور باوقار شخصیت تھے ، بہت کم گو ، مگر ہنسی مذاق میں کسی سے کم نہ تھے – باتوں باتوں میں کوئی ایسا شگُوفہ چھوڑ دیتے کہ ہنس ہنس کر سامعین کا بُرا حال ہوجاتا تھا – بہت مخلص اور ہر ایک کے خیر خواہ انسان تھے — عیسی خیل سے سرگودہا ٹرانسفر ہوگئے – اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں ، اللہ کریم مغفرت اور خصوصی رحمت سے نوازے – بہت یاد آتے ہیں –
سیاسیات کے لیکچرر محمد سلیم احسن بہت خوش مزاج ، دوست نواز انسان تھے – تقریبا دو سال عیسی خیل کالج میں رہے ، مگر عیسی خیل میں ایک رات بھی قیام نہ کیا – میانوالی سے روزانہ آتے جاتے رہے – گورنمنٹ کالج میانوالی میں اُن سے طویل رفاقت رہی – ہم دونوں بیس سال سلیم صاحب کے لال رنگ کے سکُوٹر پر ایک ساتھ کالج آتے جاتے رہے – بہت اچھے شاعر بھی ہیں – اُن کی سرائیکی شاعری کے مجموعے “جکھڑ جھولے“ کو صدارتی ایوارڈ کا اعزاز بھی نصیب ہوا – آج کل اپنے بچوں کے ہاں پنڈی ، اسلام آباد میں مقیم ہیں – ان کے بارے میں مفصل پوسٹس گورنمنٹ کالج میانوالی کے ساتھیوں کے تذکرے میں لکھ چکا ہوں –
یہ تو تھا مختصر ذکر گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں اپنے سینیئر ساتھیوں کا – اپنے ساتھ وارد ہونے والے دوستوں کا ذکر اگلے دوتین دن میں ہوگا ، ان شآءاللہ –
———————— رہے نام اللہ کا —————————— منورعلی ملک —-3  جولائی 2022

میرا میانوالی-

عیسی خیل کالج میں تقرر کے بعد میں محلہ بمبرانوالہ کے جس مکان میں مقیم ہوا وہ تین کمروں پر مشتمل تھا – ریاضی کے لیکچرر ملک عبدالستار جوئیہ اور کیمسٹری کے محمد اکبر خان کے ساتھ تیسرا کمرہ میں نے لے لیا –
ملک عبدالستار جوئیہ بہت سیدھے سادے بھولے بھالے بِیبے انسان تھے – نِت نئی دلچسپ غلطیاں کر کے ہمیں بھی ہنساتے ، خود بھی قہقہے لگاتے رہتے تھے – ایک دن کالج سے فارغ ہو تے ہی غائب ہوگئے – شام کو واپس آئے تو ہم نے پُوچھا کدھر گئے تھے – کہنے لگے “جُتیاں لینڑں گیا ساں ، بنوں “ –
جُوتوں کا ڈبہ کھول کر ہمیں دکھایا تو ہنس ہنس کر ہمارا بُرا حال ہوگیا – دائیں پاؤں کے بُوٹ کا ڈیزائین بائیں پاؤں کے جُوتے سے مختلف تھا – رنگ دونوں کا ایک ہی تھا ، ڈیزائین مختللف – اگلی صبح پھر بنوں جا کر تبدیل کروا لائے – جُوتوں کی قیمت سے زیادہ پیسے بنوں کے دو پھیروں پر خرچ ہوگئے –
علم کے لحاظ سے منفرد تھے – میٹرک سے لے کر ایم ایس سی تک ہر امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا – ٹیچر بھی بہت اچھے تھے -والد ان کے بچپن ہی میں دنیا سے رُخصت ہو گئے تھے – والدہ نے اکلوتے بیٹے کو شہزادوں کی طرح پالا – شاہپور ضلع خوشاب کے نواحی گاؤں چاوے والا میں گھر کے علاوہ اچھی خاصی زمین تھی – اس کی آمدنی ماں بیٹے کی تمام ضروریات کے لیئے کافی تھی –
ستار صآحب کی کئی عادات بہت معصوم ، دلچسپ اور عجیب و غریب تھیں — ہر رات ٹھیک ایک بجے اکیلے پُورے شہر کا چکر لگانا اُن کا مستقل معمول تھا – شروع میں تو ہم نے اس عادت کا مذاق اُڑایا ، مگر ستار صاحب اپنی روش پر قائم رہے – اللہ جانے اس میں کیا راز تھا ، دسمبر ، جنوری کی یخ بستہ سرد راتوں میں بھی یہ اللہ کا بندہ تن تنہا سُنسان گلیوں میں پھرتا رہتا تھا –
چند سال بعد عیسی خیل کالج سے گورنمنٹ کالج شاہپور ٹرانسفر ہو گئے – وہیں سے پرنسپل کی حیثیت میں ریٹائر ہو ئے – بہت عرصے سے ملاقات نہیں ہوئی ، اللہ کرے بخیروعافیت ہوں-
————- رہے نام اللہ کا———————-—— منورعلی ملک –  –4 جولائی 2022

میرا میانوالی-

فزکس اور کیمسٹری کی طرح عربی اور اسلامیات کو بھی جڑواں بہنیں کہا جا سکتا ہے – اس کا عملی مظاہرہ عیسی خیل کالج میں عربی کے پروفیسر جناب اشرف علی کلیار اور اسلامیات کے جناب منیر حسین بھٹی کی گہری دوستی کی شکل میں دیکھا – ویسے تو ہم سب دوستوں کے آپس میں تعلقات الحمد للہ ہمیشہ خوشگوار رہے ، تاہم ان دو ساتھیوں کی آپس میں وکھری ٹائیپ کی دوستی تھی – اکثر برآمدے کے کسی کونے میں کھڑے رازو نیاز کی باتیں کرتے نظرآتے تھے – رازو نیاز کی باتوں کا موضوع عربی اور اسلامیات تو یقینا نہیں ہوتا ہوگا ، اور ہو بھی تو عربی اور اسلامیات میں ان قہقہوں کی کیا گنجائش جو یہ دونوں حضرات گفتگو کے دوران لگاتے رہتے تھے – ان کی گفتگو باہمی دلچسپی کے کسی موضوع پر ہوتی ہوگی، جو ہمیں کبھی معلوم نہ ہوسکا –
عربی اور اسلامیات کے پروفیسر ہونے کے باوجود یہ دونوں حضرات روایتی مولوی ہرگز نہ تھے ، بلکہ روشن خیال پڑھے لکھے زندہ دل نوجوان تھے – اسلامیات کے منیر بھٹی صاحب کلین شیو ، درازقد , دبنگ نوجوان تھے – سرگودہا کے زمیندار طبقے کے مخصوص لب و لہجے میں بات کرتے تھے- اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر کسی کالج کے سٹاف اور پرنسپل کے درمیان یا سٹاف کی آپس میں چپقلش ہو تو اس کی بنیاد ہمیشہ اسلامیات کا پروفیسر ہوتا ہے – اس بات پر خود بھی قہقہے لگاتے ، ہمیں بھی ہنسایا کرتے تھے-
کلیار صاحب کلین شیو تو نہ تھے ، زندہ دلی ، خوش مزاجی اور وسیع المشربی ان کے بھی نمایاں اوصاف تھے – بھٹی صاحب ٹرانسفر ہو کر اپنے وطن سرگودہا چلے گئے ، کلیار صاحب نے لیکچرر کی حیثیت میں گورنمنٹ کالج عیسی خیل سے ملازمت کا آغاز کیا تھا ، یہیں سے پرنسپل کے منصب پر ریٹائر ہوئے – مرغابی کے زبردست شکاری ہیں – میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ کلیاربھائی اکتوبر نومبر میں پاکستان آنے والی پہلی مرغابی کے استقبال سے لے کر مارچ اپریل میں آخری مرغابی کی روس واپسی تک دریا کے کنارے خیمہ زن رہتے ہیں -اپنے جیسے دو اور بزرگ بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں – شکار ہوکر دریا میں گرنے والی مرغابیوں کو پکڑنے کے لیئے اللہ کے اس بندے نے کشتی بھی رکھی ہوئی ہے – اللہ سلامت رکھے فیس بُک پر اکثر ان کی زیارت ہوتی رہتی ہے – منیر بھائی کا کُچھ پتہ نہیں ، ریٹائر تو یقینا ہو گئے ہوں گے – اللہ کرے بخیر و عافیت زندہ و سلامت ہوں-———————- رہے نام اللہ کا ———————–—— منورعلی ملک —–  –٥  جولائی 2022

میرا میانوالی- 

کیمسٹری کے لیکچرر محمد اکبر خان داؤدخیل کے نواحی گاؤں پکی شاہ مردان کے رہنے والے تھے – خاموش طبع شریف آدمی تھے – میرے کمرے کے بائیں جانب والا کمرہ اُن کا تھا – گورنمنٹ کالج لاہور سے کیمسٹری میں ایم ایس سی کے بعد لیکچرر منتخب ہوکر عیسی خیل کالج میں تعینات ہوئے – کُچھ عرصہ بعد سرکار کی اجازت سے دوسال کے لیئے بیرونِ ملک چلے گئے – واپس آئے تو ان کی پوسٹ پر کسی اور کا تقرر ہو چکا تھا – ان کو حکم یہ ملا کہ جب تک پنجاب میں کیمسٹری کے لیکچرر کی خالی اسامی دستیاب نہیں ہوتی آپ پنجاب سیکیریٹیریئٹ میں ًمحکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی Services & General Administration Department میں بیٹھ کر انتظار کریں ، اور دعا بھی کرتے رہیں – اخبار ، چائے پانی سب کُچھ وہاں ملتا رہے گا – چُونکہ سرکار نے آپ کو تنخواہ دینی ہے اس لیئے ایس ینڈ جی اے ڈی میں روزانہ حاضری لازم ہوگی-
اکبر خان باہمت انسان تھے – فارغ بیٹھنے کی بجائے پی سی ایس / پی ایم ایس کا امتحان دے کر مجسٹریٹ بن گئے – مجسٹریٹ کی حیثیت میں مختلف شہروں میں کام کرتے رہے – کُچھ عرصہ ہمارے سُسرالی شہر تلہ گنگ بھی رہے -وہاں بھی ان سے ملاقات ہوتی رہی – ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے منصب سے ریٹائر ہوکر کچھ عرصہ نائب صُوبائی محتسب بھی رہے – اب آرام سے ریٹائرڈ زندگی گذار رہے ہیں – آخری خبریں آنے تک فیصل آباد میں مقیم تھے – اب پتہ نہیں کہاں ہیں – اللہ سلامت رکھے ہمارے بہت پیارے ساتھی ہیں –
———————- رہے نام اللہ کا ———————-—— منورعلی ملک —–٦  جولائی 2022

میرا میانوالی-

زندگی کے سفر کی طرح ملازمت کے سفر کا بھی کُچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کہاں جا کر ختم ہوگا ، جیسے ہمارے ساتھی محمد اکبر خان نے سفر کا آغاز تو کیمسٹری کے لیکچرر کی حیثیت میں کیا مگر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے منصب سے ریٹائر ہوئے – اسی طرح ہمارے فزکس کے ساتھی اکبر علی رندھاوا بھی عسیی خیل سے لاہور اور پھر اسلام آباد جاپہنچے –
اکبر علی رندھاوا شورکوٹ ضلع جھنگ کے رہنے والے تھے – ہمارے ساتھ ہی عیسی خیل کالج میں تقرر ہوا – بہت پیارے خوش مزاج انسان تھے – عیسی خیل سے شورکوٹ ٹرانسفر ہوئے – پھر گورنمنٹ سائنس کالج وحدت روڈ لاہور جا پہنچے ، وہیں سے اپنے مضمون فزکس میں پی ایچ ڈی کر کے ڈاکٹر اکبر علی رندھاوا بن گئے – چند سال پہلے خبر ملی کہ سائنس یونیورسٹی اسلام باد میں ہیں – اب تو ریٹائر ہوگئے ہوں گے – جہاں بھی ہوں سلامت رہیں ، ہمارے بہت پیارے ساتھی ہیں –
عیسی خیل میں ہمارے قیام کے دوران ایک دن اچانک زلزلوں کا سلسلہ شروع ہوگیا – دن میں دوچار بار اچانک زمین لرز اُٹھتی تھی – شہر پہ خوف و ہراس طاری ہوگیا – زلزلوں کا یہ سلسلہ دوچار دن مسلسل جاری رہا ۔کُچھ لوگ عارضی طور پر شہر ہی چھوڑ گئے – میں بھی اپنے بچوں کو داؤدخیل چھوڑآیا کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا ، کم از کم بچے تو بچ جائیں گے —
ایک دن رندھاوا صاحب کالج آئے تو ہنس کر کہنے لگے حضرات، زلزلوں کا سبب مجھے معلوم ہوگیا – ڈر خطرے کی کوئی بات نہیں ، یہ دراصل ایٹمی توانائی کے لیئے یورانیئم کی تلاش میں قریبی پہاڑوں پر ریسرچ کی جارہی ہے – اس مقصد کے لیئے زیرِزمین بم دھماکے کرنے پڑتے ہیں – جب بھی دھماکہ ہوتا ہے ارد گرد کے کئی میل علاقے میں زمین لرز جاتی ہے – بس یہ ہے ہمارے ان بم دھماکوں کی حقیقت – ہمارے ایم ایس سی فزکس کے ایک کلاس فیلو اٹامک انرجی کمیشن میں ریسرچ آفیسر ہیں – کل اچانک عیسی خیل بازار میں مل گئے – میں نے پُوچھا آپ یہاں کیا لینے آئے ہیں ، انہوں نے بتایا کہ ہم یورانیئم کی تلاش کے لیئے تجربات کر رہے ہیں——
اللہ بھلا کرے رندھاوا صاحب کا کہ شہر کو خوف و ہراس سے نجات دلادی – یہ کارِخیر ان کے نامہ اعمال میں نمایاں ہوگا –
———————- رہے نام اللہ کا —————————— منورعلی ملک –  –٧  جولائی 2022

میرا میانوالی- 

کہتے ہیں عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ماضی سے محبت بھی بڑھتی رہتی ہے – آپ کا تجربہ شاید اس سے مختلف ہو ، مجھے تو اپنے بچپن کا دور اپنی زندگی کا بہترین دور لگتا ہے ، اسی لیئے فیس بُک پر بھی زیادہ تر اُسی دور کی باتیں لکھتا ہوں – اب عید آرہی ہے تو اس حوالے سے بھی بچپن بڑی شدت سے یاد آرہا ہے –
ہمارے گھر میں قربانی کے لیئے ہمیشہ دُنبہ خریدا جاتا تھا – اب بھی یہی رواج چل رہا ہے ، مگر دُنبے سے والہانہ پیار ، اُس سے رازو نیاز کی باتیں اب نہیں ہوسکتیں کہ
اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
جتنے دن دُنبہ گھر میں رہتا اپنا تمام تر وقت اسی کی دیکھ بھال میں صرف ہوتا – صبح سویرے اور دن کے تیسرے پہر ہم سب کزن اپنے اپنے دُنبوں کو چرانے کے لیئے گھرکے پچھواڑے کھُلی فضا میں لے جاتے – اُدھر خانے خیلوں کی زمین میں کنوئیں کے ساتھ درختوں کا ایک جھُنڈ اور اُس کے درمیان خودرو گھاس کا ایک پلاٹ ہوا کرتا تھا – دُنبوں کو چرنے کے لیئے چھوڑ کر ہم درختوں کے سائے میں بیٹھ کر ہنستے گاتے ، گپیں لگاتے رہتے تھے – اپنے اپنے دُنبوں کی وہ وہ خُوبیاں بیان کرتے جو انسانوں میں بھی نہیں پائی جاتیں – جس طرح فسانہ ء آزاد میں نواب صاحب کے بٹیرے کے مرنے پر تعزیت کرتے ہوئے ایک درباری کہتا ہے “ حضور ، میں نے بارہا اپنی ان گنہگار آنکھوں سے مرحوم (بٹیرے) کو نماز ادا کرتے دیکھا ہے “- کُچھ اسی طرح ہم بھی اپنے اپنے دُنبوں کی شرافت ، دیانت اور رُوحانیت کی داستانیں اپنے پاس سے گھڑ کر بیان کرتے رہتے تھے جن کو حاضرین سو فی صد سچ سمجھ کر حیران اور مرعوب ہوتے رہتے تھے –
وہ جو محمد رفیع کہتے ہیں “ مِلن کے سنگ جُدائی “ ———— عید کا دن اپنے پیارے دُنبوں سے ہمیشہ کے لیئے جُدائی کا دن ہوتا تھا – اس دن عیدالفطر کی طرح نئے کپڑوں کی نمائش اور کھانے پینے جیسی خُوشیاں نہیں منائی جاتی تھیں ، بلکہ دُنبے ذبح ہوتے وقت رونے دھونے کا ایک الگ سین ہوتا تھا – گھر کے باقی افراد تو ہمارے رونے دھونے کا مذاق اُڑاتے تھے ، صرف بہنیں اس آہ و زاری میں ہمارا ساتھ دیتی تھیں –
دوچار دن سے عیسی خٰیل کا تذکرہ چل رہا تھا – کُچھ باتیں ابھی باقی تھیں ، عید کی وجہ سے وقفہ کرنا پڑگیا – اب ان شآءاللہ عید کے تیسرے دن 12 جولائی کو آپ سے ملاقات ہوگی-
——————— رہے نام اللہ کا ———————-—— منورعلی ملک٨  جولائی 2022

میرا میانوالی-مسجد اقصی بیت المقدس میں وہ جگہ جہاں معراج کی رات سیدالانبیا صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے نماز میں تمام انبیاء علیہم السلام کی امامت کی۔  –٩  جولائی 2022

میرا میانوالی- 

پنجاب کی شمال مغربی سرحد کا آخری کالج ہونے کی وجہ سے عیسی خیل کالج میں تبادلہ سزا کے طور پر ہوتا تھا – بھٹو صاحب کے دور میں اساتذہ کی دائیں بازو کی تنظیم کے سرگرم رُکن اردو کے پروفیسر ملک محمد اکرم صاحب کا عیسی خیل میں تبادلہ سزا کی پہلی مثال تھا – جنرل ضیاءالحق کے دور میں پیپلز پارٹٰی کے جیالے پروفیسر افغانی صاحب کا ایم اے او کالج لاہور سے عیسی کالج تبادلہ بھی عبرت ناک سزا کی ایک اہم مثال تھا –
افغانی صاحب بھی اُردو کے پروفیسر تھے – اُن کا جُرم صرف پیپلز پارٹی سے والہانہ وابستگی تھا – ویسے وہ بہت پیارے انسان تھے – عُمر اور سروس کے لحاظ سے ہم سب سے سینیئر تھے – جدی پُشتی لاہورئیے تھے – سب سے محبت ، سب کی خیرخواہی ، سب کی خدمت ان کا شعار تھا – ایک دفعہ سٹاف نے دریائے کُرم کے کنارے پکنک کا پروگرام بنایا تو افغانی صاحب نے کھانا بنانے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی – چکن کڑاہی جو افغانی صاحب نے بنائی اُس کا مخصوص لذیذ ذائقہ چالیس سال بعد آج بھی نہیں بھُولا –
افغانی صاحب دربار داتا صاحب کے قریب اندرُون بھاٹی گیٹ کے رہنے والے تھے – بول چال اور رکھ رکھاؤ کا خالص لاہور ی انداز اُن کی شخصیت کا نمایاں وصف تھا – دوسال سزا کے طور پر عیسی خیل میں گذارنے کے بعد کسی افسر دوست کی مہربانی سے واپس ایم اے او کالج لاہور ٹرانسفر ہوگئے – ایک دفعہ اُردو بازار میں سرِراہ چلتے چلتے مل گئے- اصرار کر کے مجھے اندرون بھاٹی گیٹ اپنے گھر لےگئے – بہت پُر تکلف کھانا کھلایا – کھانے کے مختلف آئیٹمز کا تعارف بھی کراتے رہے – کہ یہ اچار فلاں دکان کا ہے ، یہ آلُو چھولے فلاں دُکان سے لایا ہوں ، یہ مٹن کڑاہی فلاں کاریگر کی دُکان سے آئی ہے – یہ سب لوگ نسل در نسل مُغلیہ دور سے یہ چیزیں بنا رہے ہیں – پُورے لاہور، بلکہ پاکستان میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے –
افغانی صاحب اب جہاں بھی ہوں اللہ خوش رکھے ، ناقابلِ فراموش شخصیت تھے –—————— رہے نام اللہ کا ———————-—— منورعلی ملک —١٢  جولائی 2022

میرا میانوالی- 

نفیس مزاج ، وجیہہ، خوش کلام حسین احمد ملک نے عیسی خیل کالج میں ہمارے ساتھ ہی ملازمت کے سفر کا آغاز کیا – بہت دلنشیں شخصیت تھے – اُن کا دلآویز تبسم آج بھی دل پر نقش ہے – نفسیات کے لیکچرر تھے – کم گو ، مگر جب بولتے تو منہ سے پُھول جھڑتے تھے – ویسے تو نفسیات خاصا خُشک مضمون ہے ، مگر حسین ملک کے مزاج میں خُشکی کا نام و نشان بھی نہ تھا –
سرگودہا کے ایک نواحی گاؤں سے تعلق رکھتے تھے – زاہد و متقی والد کے حُسنِ تربیت کا شاہکار تھے – ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر رؤف ملک راولپنڈی میڈیکل کالج میں پروفیسر تھے – چھوٹے بھائی غفور ملک ٹیچر اور سب سے چھوٹے بھائی ابوبکر صدیق بھی ڈاکٹر تھے – ڈاکٹر ابوبکر کُچھ عرصہ ڈی ایچ کیو میانوالی میں بھی رہے – موتی مسجد کے قریب اپنا کلینک بھی بنا لیا – پھر یہاں سے ٹرانسفر ہوگئے – میانوالی سے والہانہ محبت کرتے ہیں –
پروفیسر حسین احمد ملک چند سال عیسی خیل میں رہے ، پھر گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی ٹرانسفر کروا لیا – گورنمنٹ کالج نُورپور تھل ضلع خوشاب میں پرنسپل بھی رہے – نُور پور تھل میں تبادلہ اپنے قریب ترین دوست ملک عالمشیر کی فرمائش پر کرایا – ملک عالمشیر نور پور کے نواحی گاؤں گنگانوالہ میں ٹیچر تھے –
حسین احمد ملک احباب سے خط و کتابت کا باقاعدہ ایک فائیل اور رجسٹر میں ریکارڈ رکھتے تھے – بہت خوبصورت شاعرانہ نثر لکھتے تھے – ریٹائرمنٹ کے بعد پنڈی میں مقیم ہوگئے – صاحبزادے آرمی آفیسر تھے ، اس لیئے پنڈی میں قیام آسان ہوگیا – ایک آدھ سال فیس بُک پر ان سے تکلم کا شرف حاصل رہا – پھر فیس بُک سے کنارہ کش ہو کر اللہ جانے کدھر مشغول ہوگئے – فیس بک پر ڈاکٹر ابوبکر سے اُن کی خیر خبر ملتی رہتی ہے – سدا خُوش رہیں ان سے بہت سی حسین یادیں وابستہ ہیں –
——————— رہے نام اللہ کا —————————— منورعلی ملک —١٣  جولائی 2022

میرا میانوالی- 

بھکر سے ملک محمد یُوسف چھینہ صاحب معاشیات کے لیکچرر تھے – ہمارے ساتھ ہی گورنمنٹ کالج میں عیسی خیل میں وارد ہوئے – دبنگ شخصیت تھے – اپنے مضمون پر مکمل عبور اور خداداد صلاحیتِ ابلاغ کی بنا پر بہت کامیاب اور مقبول ٹیچر تھے – بہت حساس تھے ، لیکن اگر کوئی بات ناگوار گذرتی تو پھٹ پڑنے کی بجائے خاموشی سے منہ پھیر لیتے تھے – احساس اور ضبط کا ایسا توازن بہت کم دیکھنے میں آتا ہے –
ملک صاحب باکمال خوشنویس بھی ہیں۔
پرنسپل ڈاکٹر عبدالمجید قریشی صاحب ٹرانسفر ہوگئے تو ملک یُوسف صاحب ان کے مکان میں منتقل ہوگئے – چند ماہ وہاں اکیلے رہے ، پھر فیملی لے آئے – جب تک اکیلے رہے میں دن کا بیشتر حصہ ان کے ہاں گذارتا تھا – معاشیات اور معیشت کے بارے میں باتوں باتوں میں مجھے بہت کُچھ سکھادیا – انگریزی زبان اور ادب پر میری گرفت کے بہت مداح تھے – ملک یُوسف صاحب کے پاس ایک چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈر تھا – جب ملک صاحب کچن میں یا اِدھر اُدھر مصروف ہوتے تو میں اُن کے ٹیپ ریکارڈر پر اپنی آواز میں اپنی پسند کے محمد رفیع اور طلعت محمود کے گیت ریکارڈ کرتا رہتا تھا – میری سموکنگ کی عادت پر بھی انہوں نے کبھی اعتراض نہ کیا –
ملک یوسف چھینہ صاحب کی ایک اہم خُوبی یہ دیکھی کہ اپنے تمام کام اپنے ہاتھوں سے سرانجام دیتے تھے – کسی قسم کے کمپلیکس سے ماورا , گھر کی صفائی ، کچن کاکام ، کپڑے دھونا ، یہ سب کُچھ خود کر لیتے تھے – سیرت ِ مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ایسی تقلید بہت کم لوگ کر سکتے ہیں – اس زمانے میں کلین شیو اور خاصے سمارٹ تھے ، لیکن علم و عمل میں اچھے خاصے علمائے کرام کے ہمسر تھے – کردار بھی مجاہدانہ ، طرزِعمل بھی مجاہدانہ ، یہی صفات رٰیٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کی پہچان ہیں- کئی تعلیمی اور رفاہی اداروں کے سربراہ اور مُشیر ہیں – عیسی خیل سے بھکر ٹرانسفر ہوگئے تھے – پرنسپل کے منصب سے ریٹائر ہوئے – اب بھکر ہی میں مقیم ہیں- بہت سی مثبت ، تعمیری سرگرمیوں میں مشغول رہتے ہیں – اللہ سلامت رکھے بہت دلنواز ، دوست نواز شخصیت ہیں –
میری پوسٹس کے کُچھ قارئین کا یہ مطالبہ بالکل بجا ہے کہ عیسی خیل کالج میں اپنے جن ساتھیوں کا ذکر کیا اُن کی پکچرز بھی پوسٹس میں شامل ہونی چاہیئیں – مگر مجبوری یہ ہے کہ اس وقت موبائیل فون تھا نہیں ، اس لیئے نہ کسی دوست کی پکچر محفوظ ہوسکی ، نہ فون نمبر-
——————– رہے نام اللہ کا ——————–—– منورعلی ملک —١٤  جولائی 2022

میرا میانوالی- 

گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں اپنے ہمعصر پروفیسر صاحبان کا ذکر کل کی پوسٹ پر تمام ہوا – عیسی خیل کو خیرباد کہنے سے پہلے مختصر ذکر اپنے آُس دوست کا جس نے عیسی خٰیل کو پُوری دنیا میں متعارف کروایا – اس کا مفصل تعارف تو تقریبا 30 سال پہلے اپنی کتاب “درد کا سفیر“ کی صورت میں لکھ چکا ہوں – اس میں مزید اضافے کی گنجائش نہیں – لیکن عیسی خیل کے دوستوں کا ذکر کرتے ہوئے لالا عیسی خیلوی سے منہ پھیر کر گذرجانے کو دل نہیں مانتا – فیس بُک پر تو میرے بیشتر دوستوں کی مجھ سے دوستی کا آغاز بھی لالا کے حوالے سے ہوا –
لالا سے میرا تعلق اس زمانے میں استوار ہوا جب میں نے گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں لیکچرر کی حیثیت میں ملازمت کا آغاز کیا – رسمی تعارف پہلے سے تھا ، دوستی میرے عیسی خیل کالج میں تقرر کے بعد شروع ہوئی – ہرشام ہم لوگ میکدہ (لالا کی بیٹھک) میں مل بیٹھتے تھے – اس بیٹھک کو میکدہ کا نام عتیل عیسی خیلوی نے دیا تھا –
اُس زمانے میں لالا کی پہچان عیسی خیل سے کُندیاًں تک محدود تھی – لالا کا ذریعہ ء معاش مین بازار عیسی خیل میں الصدف نامی چھوٹآ سا جنرل سٹور تھا – سواری کے لیئے سہراب سائیکل تھی جو پیپلز پارٹٰی کی ذیلی تنظیم پیپلز یُوتھ لیگ کے صدر کی حیثیت میں لالا کو پیپلز پارٹی نے دی تھی – ہر ماہ دکان کا سودا خریدنے کے لیے لالا بسوں کے ذریعے لاہور آتے جاتے تھے – پھر دیکھتے ہی دیکھتے لالا دنیا کے مقبول ترین گلوکار بن گئے – شہرت ، دولت ، عزت سب کُچھ اللہ نے بارش کی طرح برسا دیا-
میرا لالا سے تعلق تقریبا 45 برس سے برقرار ہے – یہ تعلق اتنا عرصہ اس لیئے چل گیا کہ یہ برابری کا تعلق ہے – ہم نے کبھی ایک دوسرے کو پِیر و مُرشد نہیں سمجھا – ایک پیاری سی بے تکلفی ہے – لالا نے ایک دفعہ کہا تھا “منور بھائی“ یہ سب اللہ کا کرم ہے آس نے مجھے آواز کا عطاءاللہ عیسی خیلوی اور آپ کو قلم کا عطاءاللہ عیسی خیلوی بنا دیا ” –
مُجھ سے ملنے کے لیئے لالا کئی بار داؤدخٰیل بھی آتے جاتے رہے – ہر سال عید الفطر کے دوسرے دن مجھ سے ملنے آتے تھے – ایک دفعہ آئے تو کہنے لگے “ آپنڑاں گیت سُنڑسیں ؟ “
میں نے کہا ہارمونیم وغیرہ تو تمہارے پاس ہے نہیں ان چیزوں کے بغیر تُم کیسے گاؤ گے ؟” لالا نے اپنی گاڑی کا دروازہ کھول کر گاڑی کے ساؤنڈ سسٹم پر اپنا تازہ کیسٹ چلادیا – میرا گیت “سچی ڈس وے ڈھولا کل کیوں نئیں آیا“ اسی عید پر ریلیز ہوا تھا – ہماری چونک کے سب بزرگ یہ گیت سُن کر جُھوم اٹھے —- آہ ، اب ان بزرگوں میں سے کوئی بھی اس دنیا میں موجود نہیں – میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی ، چچا ملک محمد صفدر علی ، چاچا مقرب خان بہرام خٰیل ، ماسٹر نواب خان ، بھائی فتح خان سالار ، ماسٹر محمد حسین آزاد ، بھائی ریاست علی ملک ، غلام حسین خان خانے خیل سب زیر زمین جا سوئے –
زندگی بہت مصروف ہو گئی ہے – اب تو لا لا سے سال بھر میں ایک آدھ ملاقات ہوتی ہے ، مگر دونوں طرف محبت بدستور برقرار ہے –
———————– رہے نام اللہ کا ———————-—— منورعلی ملک —–١٥  جولائی 2022

میرا میانوالی-

ساتویں سالگرہ ——
جب ہم پہلی بار ملے تھے
تاریخ یاد نہیں ، جولائی 2015 کے یہی دن تھے جب میں نے فیس بُک کی دنیا میں قدم رکھا – سچی بات تو یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں
بیٹے پروفیسر محمد اکرم علی ملک کے اصرار پر یہاں آنا پڑا – پہلے تو میں اس اصرار کو ہنس کر ٹالتا رہا ، پھر اکرم بیٹا نے خود ہی میرا پیج بنا کر اس محفل میں میری حاضری لگوانی شروع کردی – کچھ دن بعد مجھ سے کہا “ دیکھیں ابُو کتنے لوگ آپ سے محبت اور آپ کا احترام کرتے ہیں – چند ہی دن میں آپ کے فیس بُک فرینڈز کی تعداد 2000 ہوگئی اور دوستی کے اُمیدواروں کی بھی ایک لمبی قطار ہے ، جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے – اب یہ کاروبار آپ خود سنبھالیں ، مجھے اور بھی بہت سے کام ہیں –
میں نے پیج پر نظر ڈالی – کمنٹس کی صورت میں محبت و احترام کے اظہار کے بے شمار انداز دیکھ کر دل نے کہا اب یہیں رہنا ہے – ایسے بے لوث لوگوں کا دل توڑنا جُرم ِ عظیم ہوگا –
مجھے فیس بک کے استعمال کے چند بنیادی اصول بتا کر اکرم بیٹا نے اپنا Lenovo کا لیپ ٹاپ میرے سپرد کرتے ہوئے کہا “ یہ لیپ ٹاپ آج سے آپ کا ہوا – اب آپ جانیں آپ کاکام –
اُس دن سے آج تک بحمد اللہ یہ محفل آباد ہے – اس کی آبادی میں اب بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے
۔۔۔ اس وقت فیس بُک فرینڈز کی تعداد 5000 اور فالوورز کی تعداد 10280 ہے – اس میں اضافہ جاری ہے – 1008 Friend requests بھی ہیں —- اللہ جانے کیا بات ہے جو کُچھ لکھ دوں لوگ پسند کر لیتے ہیں – اپنا شعر یاد آ رہا ہے
آج کوئی اُس سے یہ پُوچھے
اُس نے مجھ میں کیا دیکھا تھا
اللہ کریم آپ سب کو شاد اور ہماری اس محفل کو آباد رکھے –
——————– رہے نام اللہ کا ———————-—— منورعلی ملک —  –١٦  جولائی 2022

میرا میانوالی- 

جانے کہاں گئے وہ لوگ
کیا سیدھے سادے بھولے بھالے ، سچے کھرے لوگ تھے وہ پرانے زمانے کے بزرگ — خود بھی ہنستے، دوسروں کو بھی ہنساتے رہتے تھے – بات کرنے کا انداز ایسا دلچسپ کہ جس موضوع پر بھی بات کرتے ہر طرف مُسکراہٹیں بکھیر دیتے تھے –
ایک بلدیاتی الیکشن میں میں موسی خیل کے پاروانڈھی پولنگ سٹیشن پہ پریزائیڈانگ افسر تھا – اُمیدواروں میں یُوسف خان نامی ایک بزرگ بھی شامل تھے جن کا انتخابی نشان کنگھا تھا – شہر کے لوگ اُن کا مذاق اُڑاتے رہے کہ سر پہ صرف چار بال ہیں اور انتخابی نشان کنگھا ، چاچا یُوسف خان ہنسی مذاق پر ناراض نہیں ہوتے تھے ، آگے سے ایسا کراراجواب دیتے تھے کہ ہر طرف قہقہے گُونج اُٹھتے تھے –
جب ہم دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے تو چاچا یُوسف خان ہمارے کمرے میں آئے اور ہنس کر کہنے لگے “ مجھے ووٹ تو کوئی دے گا نہیں ، آپ لوگ کھانا تو کھلا دو “ – ہم نے کہا آئیں ،بسم اللہ – کھانا کھانے کے دوران میرے سٹاف کے ایک آدمی نے یُوسف خان سے کہا “ چاچا جی ، جب آپ کو پتہ تھا کہ آپ کو کوئی بھی ووٹ نہیں دے گا ، تو الیکشن میں حصہ نہیں لینا تھا “
یُوسف خان نے کہا “ بس یار، دِل آکھا اے ایہہ پنگا وی گھِن کے ڈیکھ – ووٹ کوئی ڈیوے نہ ڈیوے مشہوری تاں تھی ویسی -“
گُذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ——————— رہے نام اللہ کا ———————–—— منورعلی ملک—١٨  جولائی 2022

میرا میانوالی-

جانے کہاں گئے وہ لوگ
معاشرے کا حُسن ہوتے تھے سیدھے سادے ، سچے ، کھرے بزرگ لوگ –
جب میں عیسی خیل کالج میں تھا ، ایک بلدیاتی الیکشن میں میں کمر مشانی کے قریب دلہ میر والا کے پولنگ سٹیشن پر پریزائیڈنگ افسر تعینات ہوا – الیکشن کے دوران کُچھ لوگ ایک بابے کو چارپائی پر اُٹھا کر لائے اور بتایا کہ باباجی جلدی میں ہیں ان کا ووٹ ڈلوا کر ان کو جلد فارغ کردیں –
قانون یہ تھا کہ معذور یا بیمار ووٹر کو پریزائیڈنگ افسر خود پولنگ بُوتھ میں ووٹ کی پرچی پر مہر لگانے کی جگہ پر لے جائے اور اس ووٹر کی خواہش کے مطابق بیلٹ پیپر پر مُہر لگا کر بیلٹ بکس میں ڈال دے— میں اُن بابا جی کو سہارا دے کر اندر لے گیا اور پُوچھا “ بابا جی کون سے نام پر مُہر لگانی ہے “ –
بابا جی بہت غُصے میں تھے ، کہنے لگے “ کئیں ہِک خنزِیر نے ناں تے مُہر لا ڈیو ، سارے ہِک بئے تُوں ودھ کے بے غیرت ہِن – میں مرنا پیا ہاں تے اے ماء نے ووٹ چائی وتے ہِن ، اکھے آ تُوں وی ووٹ ڈے —-“
بابا جی کی پسند تو کوئی تھی نہیں – جس اُمیدوار کے لوگ بابا جی کو چارپائی پر اُٹھا کر لائے تھے ، میں نے اُس کے نام پر مہر لگا کر بابا جی کو فارغ کردیا –
اسی طرح کا ایک واقعہ میانوالی کا بھی بہت مشہور ہے کہ ایک بزرگ امیدوار کے صرف تین ووٹ نکلے تو انہوں نے کہا “ ہِک ووٹ تاں تھی گیا میڈا آپنڑاں ، ڈُوجھا میڈی ٹبری (بیوی) دا ، تے اے ترِیجھا ووٹ کیہرا بے غیرت ڈے گیا اے ؟؟؟؟ “
کیا پیارے لوگ تھے ، ایک ایک کرکے اپنی باری پر زیرِزمین جا سوئے – اللہ کریم سب کی مغفرت فرمائے – یہ لوگ ہمارے معاشرے کی زینت تھے –
———————- رہے نام اللہ کا ———————-—— منورعلی ملک —  –١٩  جولائی 2022

میرا میانوالی-

سوشل میڈیا پر ایک ایمان افروز واقعہ نظر سے گذرا –
ایک صاحب لکھتے ہیں میں عیداالاضحی پر قربانی کے لیئے جانور خریدنے منڈی گیا – اللہ کے فضل سے پیسے بہت تھے میرے پاس – اپنے لیئے ایک بکرا خریدنے کے بعد خیال آیا کہ ایک قربانی اپنے آقا صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کے نام پر بھی کردوں – ایک بہت خوبصورت موٹا تازہ بکرا پسند کرکے میں نے بکرے کے مالک سے کہا یہ بکرا میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے نام پر قربان کروں گا – میں نے سمجھا تھا وہ آدمی اس بکرے کی قربانی کا مقصد معلوم ہونے کے بعد قیمت میں مناسب رعایت کر دے گا –
اُس اللہ کے بندے نے بکرے کی رسی مجھے تھما کر کہا “ لے جائیں “ –
میں نے کہا “ کتنے پیسے دوں -؟“
اُس نے مُسکرا کر کہا “ کوئی پیسے نہیں لُوں گا – جن (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نام پر آپ قربانی دینا چاہتے ہیں اُن سے میرا حساب چلتا ہے “-
یہ کہہ کر وہ شخص لوگوں کے ہجوم میں گُم ہو گیا –—————– رہے نام اللہ کا ——————-—— منورعلی ملک —–  –20  جولائی 2022

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آرائش ۔۔۔۔۔۔ مناظر گوندل٢١  جولائی 2022

میرا میانوالی- 

الحمد للہ – طویل انتظار کے بعد میانوالی کو بھی کل ساون کی پہلی مُوسلا دھار بارش نصیب ہوئی – اب یہ سلسلہ ان شآءللہ وقفے وقفے سے کُچھ دن چلتا رہے گا –
کسی زمانے میں اس علاقے کی زندگی کا تمام تر دارومدار ساون کی انہی بارشوں پر ہوا کرتا تھا – خوراک اور آمدنی کا واحد ذریعہ گندم کی فصل ہواکرتی تھی – گندم کی کاشت اور اُس کی افزائش کے لیئے پانی ساون کی بارشیں فراہم کرتی تھیں – زمینوں میں زیادہ سے زیادہ پانی ذخیرہ کرنے کے لیئے بند باندھے جاتے تھے – پانی آہستہ آہستہ زمین میں جذب ہو جاتا تھا – لیکن اُس کی زیرِزمین نمی ( وَتر) اکتوبر نومبر میں گندم کی کاشت تک برقرار رہتی تھی – یہی نمی گندم کی فصل کو اُگانے اور اُس کی پرورش کرنے کے لیئے کافی ہوتی تھی – پھر منگھر پوہ ( دسمبر جنوری) کی جھڑیاں (مسلسل ہلکی بارشیں) فصل کو توانائی فراہم کر کے اسے منزلِ مقصود تک پہنچاتی تھیں –
کیا منظر ہوتا تھا —– ساون کی بارش شروع ہوتے ہی کسان اپنی اپنی زمینوں تک پانی کی راہ ہموار کرنے کے لیئے کہیاں ، ہوولے اور بیلچے لے کر بھاگتے – تیز بارش اور ژالہ باری سے سر کو بچانے کے لیئے خالی بوری سے برساتی کا کام لیتے تھے – داؤدخٰیل میں دو بڑے برساتی نالوں بھڑکی اور جابہ کے علاوہ پہاڑ کے دامن سے بھی خاصی مقدار میں کھلا پانی بہہ کر زمینوں کو سیراب کرتا تھا – ریلوے لائین سے پہاڑ کے دامن تک تقریبا دو کلومیٹر لمبا چوڑا رقبہ اسی پانی سے سیراب ہوتا تھا –
اب تو زندگی بہت آسان ہوگئی ہے – آبپاشی کے لیئے نہریں اور ٹیوب ویل میسر ہیں – زیادہ تر لوگ کاشتکاری کی بجائے کاروبار میں مشغول ہوگئے ہیں – زمینوں کو کاشتکاری کی بجائے رہائشی سکیموں کے نفع بخش کاروبار کے لیئے استعمال کیا جارہا ہے – اب بارش نہ ہونے سے بھوکا مرنے کا خطرہ باقی نہیں رہا – ضروریات زندگی خریدنے کے لیئے گندم کی بجائے نقد پیسہ چلتا ہے – اب پہلے کی طرح بے چینی سے ساون کی بارشوں کا انتظار نہیں کیا جاتا –
محوِ حیرت ہوں کہ دُنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
——————— رہے نام اللہ کا ————————— منورعلی ملک —٢٢  جولائی 2022

میرا میانوالی-

حاجی صاحب
حاجی خان محمد سے میری شناسائی اُس زمانے میں ہوئی جب وہ سول ہسپتال داؤدخیل میں ڈسپنسر کی حیثیت میں متعین تھے – بہت قابل اور خوش اخلاق انسان تھے – میں جب میں عیسی خیل سے ٹرانسفر ہو کر میانوالی آیا تو محلہ موتی مسجد میں میرے گھر کے بائیں جانب والے گھر میں وہ رہتے تھے – ہم تقریبا 17 سال اُس گھر میں رہے – یُوں حاجی صاحب سے بہت قریبی تعلق بن گیا – ہمارے بہت مہربان اور خیر خواہ دوست تھے –
بہت زندہ دل ، ہر وقت ہنستے ہنساتے رہتے تھے – اُن کی یہ زندہ دلی دراصل کچھ اذیت ناک دُکھوں کو بھُلانے کی کاوشِ مسلسل تھی – بڑا بیٹا امیر عبداللہ خان ایک حادثے میں جان بحق ہوگیا – اہلیہ سالہا سال بیمار رہیں ، بڑی بیٹی بیوہ ہوگئی – اُسے اپنے گھر لے آئے – بہت باہمت انسان تھے – اتنے صدمات کے باوجود گھر کو سنبھالے رکھا – بچوں کی بہت اچھی تربیت کی –
ایک دفعہ میں نے کہا حاجی صاحب ، سروس کے دوران آپ بہت اچھے معالج ہوا کرتے تھے – اپنا کلینک کیوں نہیں بنا لیتے – آہ بھر کر بولے “ ملک صاحب ، امیر عبداللہ بیٹے کی موت نے مجھے توڑ پھوڑ کے رکھ دیا – یہ نازک کام اب مجھ سے نہیں ہوتا – ذہن صحیح کام نہیں کرتا –
میری فرمائش پر کبھی کبھار ہاضمے کی لال دوا Carminative Mixture اور کھانسی کا کالا شربت Glycyrrhiza Syrup بنا دیتے تھے –
جب ہم محلہ موتی مسجد سے گلی مسجد لوہاراں منتقل ہو گئے تو یہاں بھی اکثر مجھ سے ملنے کے لیئے آیا کرتے تھے – میں لاہور میں تھا تو ایک دن فیس بُک پر یہ المناک خبر دیکھی کہ حاجی صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے – اللہ مغفرت فرمائے ، ناقابل فراموش انسان تھے – اُن کے بچے ذکاءاللہ خان ، ثناءاللہ خان اور امیر امان اللہ میرے لیے اپنے بچوں کی طرح ہیں – حاجی صاحب کُچھ عرصہ قبل محلہ موتی مسجد سے محلہ پنوں خیل منتقل ہوگئے تھے – اللہ سلامت رکھے اب اُن کی فیملی وہیں رہتی ہے –
——————– رہے نام اللہ کا ————————— منورعلی ملک –  –٢٣ جولائی 2022

میرا میانوالی- 

یہی موسم تھا ، میں اُس وقت دوسری تیسری کلاس میں پڑھتا تھا – صبح تقریبا دس بجے کوٹ چاندنہ ، جلالپور کی سمت سے کالا سیاہ بادل نمودار ہوا – اس سمت سے آنے والے بادل کو ہمارے ہاں چچالی والا بادل کہتے تھے – بادل کا خوفناک مُوڈ دیکھ کر ہمارے ٹیچرز نے چُھٹی کا اعلان کردیا – ہم سکول سے نکلے تو تیز بارش شروع ہوگئی – ہم بارش میں بھیگتے بھاگتے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے – گھر پہنچنے تک بارش کُچھ دیر کے لیئے تھم گئی مگر بادل کی گرج اور بجلی کی چمک مزید بارش کا اعلان کر رہی تھی –
میں اپنے گھر کے گیٹ کے قریب پہنچا تو اچانک بم پھٹنے جیسا انتہائی زور دار دھماکہ ہوا اور بجلی کی تیز چمک سے آنکھیں چُندھیا گئیں – بجلی میرے بائیں جانب چند قدم کے فاصلے پر چاچا اولیا دکاندار کے گھر میں رُکھ (کھگل) کے بھاری بھرکم درخت پر گری تھی – درخت کی دھجیاں اُڑ گئیں – قریب ہی بندھی ایک بکری بھی ہلاک ہوگئی –
میں بھاگ کر گھر میں داخل ہوا اور روتا ہوا اپنی امی سے لپٹ گیا – دونوں کی انکھوں سے آنسو برسنے لگے – یہ آنسو خوشی اور تشکر کے آنسو تھے – خوشی اور شُکر اس بات کا کہ اللہ نے مجھے بچا لیا – امی نے فورا گُڑ کی بوری منگوا کر شُکرانے کا صدقہ ادھر ادھر کے گھروں میں بانٹ دیا –
اس سانحے کے اثرات آج بھی باقی ہیں – بادل کی بم جیسی کڑک سے میری سماعت شدید متاثر ہوئی – مجھے معمول سے کم سنائی دینے لگا – اب تو عمر ڈھلنے کے ساتھ سماعت اور بھی کم ہوگئی ہے ،لیکن نقص کی ابتدا اُسی دن سے ہوئی – اس سانحے کا دوسرا اثر یہ ھے کہ بادل کی گرج اور بجلی کی چمک کا خوف دل میں بیٹھ گیا – اب بھی گرج چمک کے موسم میں میں کمرے سے باہر نہیں نکلتا ، حالانکہ بجلی تو کمرے پر بھی گر سکتی ہے ، لیکن کمرے کے اندر کُچھ تحفظ کا احساس بہر حال ہوتا ہے – بچپن کا احساس ابھی تک نہیں گیا۔
——————— رہے نام اللہ کا ———————-—— منورعلی ملک —٢٤  جولائی 2022

میرا میانوالی-

اللہ کا لاکھ لاکھ شُکر ، آج پھر میانوالی پر نظرِکرم ہوئی – صبح سے بارش ہو رہی ہے ، کبھی ہلکی ، کبھی تیز ، کبھی سُورج بادلوں کی اوٹ سے جھانکتا ہے تو پتلی سی شرمیلی سی دُھوپ لمحہ بھر کو سامنے آتی ہے ، مگر بارش پھر بھی جاری رہتی ہے – صبح سے سورج اور بادل کی کُشتی جاری ہے – ہماری ہمدردیاں فی الحال بادل کے ساتھ ہیں-
کچھا پہن کر بارش میں بھاگتے دوڑتے نہانے کا زمانہ تو کب کا گُذر گیا ، کاغذ کی کشتیاں پانی میں ڈال کر پانی کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ بھاگنے کا دور بھی خواب وخیال ہوا – گلیوں میں کچھ بچے اب بھی یہ شُغل میلہ کرتے نظر آتے ہیں ، مگر وہ پہلے جیسی بات اب نہیں رہی —– بچھڑے ماضٰی کا رونا رونے اور آپ کو رُلانے کی بجائے بہتر ہے کہ یہ پوسٹ یہیں ختم کردی جائے اور باہر جا کر بارش سے لُطف اندوز ہوں-
——————- رہے نام اللہ کا ——————–—— منورعلی ملک —-٢٥  جولائی 2022

میرا میانوالی- 

لَوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے (فیض)
اب تو اپنا کوئی شعر اچانک نظر سے گذرتا ہے تو دِل دُکھتا ہے کہ میں نے اپنی شاعری کی قدر نہیں کی – یہی بات میرے دوست معروف شاعر اور نقاد محمد سلیم الرحمن نے یُوں کہی تھی “ ملک صاحب ، آپ اپنی شاعری سے سوتیلی اولاد جیسا سلوک کیوں کرتے ہیں ، حالانکہ معیار کے لحاظ سے آپ کی شاعری اِس دَور کے کسی بھی بڑے شاعر سے کم نہیں –
اللہ جانے کیا بات ہے – بس ادھر کبھی توجہ ہی نہیں دی – یہ الگ بات کہ شاعری ہی دنیا بھر میں میری پہچان بنی ، مگر وہ اور قسم کی شاعری تھی – دُنیا مجھے
سچی ڈس وے ڈھولا کل کیوں نئیں آٰیا
اور
نِت دِل کُوں آہدا ہاں کل ماہی آسی
جیسے گیتوں کے حوالے سے جانتی اور پسند کرتی ہے – مگر میرا اصل میدان اُردو غزل تھا ، ناصر کاظمی ، محسن نقوی ، منیر نیازی ، فراز، پروین شاکر اور شکیب جلالی کے انداز کی شاعری میرا بھی میدان تھا – لیکن میں ہمہ وقتی شاعر نہیں تھا – بہت کم لکھتا تھا جب کبھی دل چاہتا تھا – دل کو میں نے کبھی لاڈلا نہیں ہونے دیا – اسے اپنی اوقات میں رکھا – اس لیئے بعض اوقات دل شعر کہنے کو چاہتا بھی تو میں کسی اور کام میں مشغول ہو جاتا –
غزل کے شاعر کی حیثیت میں اپنا تعارف میانوالی تک محدود رہا ، وہ بھی صرف مشاعروں کی حد تک – پروفیسر گُلزار بخاری ، فاروق روکھڑی اور میں ایک ساتھ اس میدان میں وارد ہوئے – فاروق روکھڑٰی بھی دراصل اردو غزل کے شاعر تھے ( ہم تُم ہوں گے بادل ہوگا ) – بعد میں فاروق روکھڑٰ ی صاحب اردو غزل کہنا ترک کر کے ہمہ وقتی سرائیکی گیت نگار بن گئے – گیت نگاری میں پہچان اور واہ واہ بہت ہوتی تھی ، مگر میں نے اس میدان میں بھی مستقل قیام مناسب نہ سمجھا –
اپنی شاعری اور شخصیت کا یہ تجزیہ ابھی دوچار دن چلے گا ، کسی کو اچھا لگے یا بُرا مجھے اس سے غرض نہیں – میں چاہتا ہوں کہ اس حوالے سے جو باتیں میں کہنا چاہتا ہوں وہ ریکارڈ پر آجائیں –
——————— رہے نام اللہ کا ————————— منورعلی ملک –٢٦  جولائی 2022

میرا میانوالی- 

میری غزل غمِ جاناں اور غمِ دوراں کی ملی جُلی شاعری ہے – دُکھ کا ایک گہرا تاثر دونوں قسم کی شاعری میں محسوس ہوتا ہے – غمِ جاناں کی شاعری میں زُلف و رُخسار کی تعریف میں نے کبھی نہیں کی ، محبوب کی منت خوشامد اور اُس کے بغیر زندہ نہ رہ سکنے کے دعوے میں نے کبھی نہیں کیئے ، بلکہ اُس سے دوٹوک کھری بات کہہ کر اُسے اوقات یاد دلائی ہے – مثلا
تُم سے بچھڑ کر بھی میں زندہ رہ لُوں گا
دریا راہ بدلتا ہے رُکتا تو نہیں
——————–
وہ محبت نہیں ، ضرورت تھی
میں اکیلا تھا آپ بھی تنہا
———————
چھوڑ تو دیا مُجھ کو
اب بُھلا کے بھی دیکھو
———————
آپ سے پہلے بھی لوگ آتے رہے ، جاتے رہے
دِل کا دروازہ کھُلا پے آنے جانے کے لیئے
———————-
ایسی دوٹوک کھری باتیں میری شاعری میں جابجا ملتی ہیں – یہ انا اور خودداری ( غیرت کہہ لیں) شاید دریائے سندھ کے پانی اور میانوالی کی مٹٰی کی عطا ہے – محبوب بھی اگر تڑی لگائے تو جائے جہنم میں –
بجلی غائب ہوگئی ، کمرے میں اندھیرا چھاگیا ہے ، اس لیئے باقی باتیں بعد میں –
————————— رہے نام اللہ کا —————————-—— منورعلی ملک —٢٧  جولائی 2022

میرا میانوالی-

لفظ شہر مختلف حوالوں سے بار بار میری شاعری میں آیا ہے ، مثلا
اداس ہیں در و دیوار تو خطا کس کی ؟
تمہارے کہنے پہ میں نے وہ شہر چھوڑا تھا
————————————
اپنی اپنی ہے زندگی تنہا
شہر آباد آدمی تنہا
————————————
کہنا، تیرے بعد وطن پردیس ہوا ہے
شہر وہی ہے لوگ پرائے اُس سے کہنا
————————————–
خیر ہو دلِ ناداں اب یہ غم بھی سہنا ہے
اُس سے بھی نہیں ملنا شہر میں بھی رہنا ہے
—————————————
شہر ، ویرانہ اور دیوانہ کا آپس میں گہرا تعلق ہے – دیوانے شہروں کی بجائے ویرانوں میں رہنا پسند کرتے ہیں ، کیونکہ شہروں میں لوگ اُن کا مذاق اڑاتے ہیں ، پتھر مارتے ہیں – دیوانہ کا مطلب صرف پاگل ہی نہیں ، ہر وہ شخص جو عام لوگوں سے مختلف سوچ رکھتا ہو اُسے پاگل یا دیوانہ کہا جاتا ہے – اسی لیئے جاہل لوگ انبیا علیہم السلام کو بھی دیوانہ کہتے تھے – بڑے بڑے شاعروں اور سائنسدانوں کو بھی دیوانہ کہا جاتا رہا – اس حوالے سے میرے کئی شعر ہیں ، مثال کے طور پر
اب یہ پتھر سمیٹ کے رکھ لو
شہر سے جا رہے ہیں دیوانے
————————————–
دِل کی بات سُنی اُس نے دیوانے کی
شہر سے اچھی تھی قسمت ویرانے کی
————————————–
کیوں رہیں شہر میں اب دیوانے
چھیڑنے والا ہی جب کوئی نہیں
————————————–
ان دو شعروں میں لوگوں کی بے حسی اور بے قدری پر بھر پُور طنز ہے
کیوں چراغاں کی فکر کرتے ہو ؟
شہر جلتا ہوا نہیں دیکھا ؟؟
—————————————
تمام شہر کی پلکوں پہ جل رہے تھے چراغ
فقیرِ شہر کے اُٹھنے پہ جشنِ عام ہوا
—————————————-
ان شعروں میں ڈھولے ماہیے وغیرہ کا ذکر بالکل نہیں کیا گیا ، اللہ کرے آپ یہ اشعار سمجھ سکیں –
—————————- رہے نام اللہ کا —————————
—— منورعلی ملک ——  –٢٨  جولائی 2022

میرا میانوالی-

آج میرے بہت پیارے بھائی شہزادہوٹل میانوالی کے بانی امان اللہ خان نیازی کی برسی ہے- شہزاد ہوٹل میانوالی کا اولیں اقامتی ہوٹل تھا – امان اللہ خان کا ایک ویژن تھا – اگر ان کے پاس سرمایہ ہوتا تو وہ پی سی کی طرح ایک فائیو سٹار ہوٹل بنا دیتے – مگر سرمایہ محدود تھا – اس لیئے فائیو سٹار ہوٹل تو نہ بنا سکے لیکن ہوٹل کی آمدنی ہوٹل کی توسیع اور آرائش پر خرچ کرکے اسے مسلسل اَپ گریڈ کرتے رہے – اس ہوٹل کی مزید توسیع اور تزئین کے کئی منصوبے اُن کے ذہن میں تھے ، مگر زندگی نے وفا نہ کی –
امان اللہ خان مجھے بھائی کہتے تھے – اکرم بیٹے کی شادی کی ایک تقریب کے لیئے میں نے ہال کی بکنگ کی بات کی تو کہا تقریب کس وقت ہوگی میں نے کہا شام آٹھ بجے سے صبح تک – کہنے لگے ٹھیک ہے ، شام آٹھ بجے سے صبح آٹھ بجے تک ہال آپ کا ہوگیا ، ہوٹل کا عملہ بھی آپ کی خدمت کے لیئے وہاں حاضر رہے گا – میں نے کہا ہال کی بکنگ کا بِل کتنا ہوگا – ہنس کر کہنے لگے جب میں نے آپ کو بھائی کہہ دیا تو کیسا بِل ؟ میں کوئی بِل نہیں لوں گا –
کئی اور مواقع پر بھی میرے ساتھ ہمیشہ ترجیحی سلوک کرتے تھے – اللہ کریم اُن کی مغفرت فرما کر اپنی رحمت کا سایہ نصیب فرمائے – بہت یاد آتے ہیں –
—————————- رپے نام اللہ کا —————————–—— منورعلی ملک –  –٢٨  جولائی 2022

میرا میانوالی-

میرے کئی اشعار کے پسِ منظر سے ایک دردناک داستان جھانکتی نظر آتی ہے – مثلا یہ چند شعر دیکھیئے :
پُوچھ رہا تھا کوئی گلی کے بچوں سے
جانے والا رستے میں رویا تو نہیں ؟
————————————–
دریا نے رُخ بدلا تو اِک گاؤں اُجڑا
مِل نہ سکے پھر دو ہمسائے ، اُس سے کہنا
————————————–
پیاسی ماں کی لاش سے بچہ
ٹھنڈا پانی مانگ رہا تھا
————————————–
کون تھا ، کیا لینے آیا تھا ، کہاں گیا ؟؟
دروازے تک خُون کی ایک لکیر تو ہے
—————————————
حشر تک انتظار کرنا ہے
راستے میں بٹھا گیا کوئی
—————————————
ایسے کئی اور شعر بھی ہیں ، اس وقت یہی یاد آ رہے ہیں – ایسی باتیں کسی کوشش کے بغیر خُود بخود شعر کی صُورت میں آجاتی ہیں – ذہن میں ایک منظر سا بنتا ہے اور وہ منظر الفاظ کی شکل میں مجسم ہو کر شعر بن جاتا ہے – یہ خاصیت میرے سرائیکی گیتوں میں بہت نمایاں ہے – لیکن منظر پُورے گیت میں شروع سے آخر تک چلتا ہے , جبکہ غزل میں پُورا منظر دو سطروں کے شعر میں سما جاتا ہے – فی الحال غزل کا ذکر چل رہا ہے – گیتوں کا تذکرہ ایک آدھ دن بعد ہوگا –
——————————— رہے نام اللہ کا —————————-—— منورعلی ملک —٢٩  جولائی 2022

میرا میانوالی- 

میری صرف دو اُردو غزلیں گُلو کاروں کی آواز میں منظر عام پر آئیں ، دونوں بہت مقبول ہوئیں – پہلی غزل “لوگ کہتے ہیں کہ گُلشن میں بہار آئی ہے“ لالا عیسی خیلوی نے ریکارڈ کروائی – لالا کو میں نے صرف یہی ایک غزل دی – دراصل غزل کی گلُوکاری لالا کا میدان نہیں – ویسے تو میرے بھائی پر قسمت ایسی مہربان ہے کہ وہ اخبار بھی پڑھ کر سناتا رہے لوگ واہ واہ کرتے رہیں گے ، لیکن غزل کی گلوکاری اور چیز ہے – یہ طلعت محمود ، مہدی حسن ، غلام علی جیسے شہسواروں کا میدان ہے – شُستہ لب و لہجہ اور پُرسوز آواز کے لحاظ سے طلعت محمود سب سے آگے ہیں- میں بچپن ہی سے طلعت محمود کا فین ہوں –
ایک دفعہ اپنے کزن غلام حبیب ہاشمی کے ساتھ ماڑی انڈس ریلوے سٹیشن پر ریلوے کے ایک افسر کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا – وہ کراچی کے رہنے والے تھے ، غالبا نذیر نام تھا – اُن صاحب نے خود ہمارے لیئے چائے بنائی – چائے پیتے ہوئے اچانک میری نظر دائیں جانب کی دیوار پر لگی ہوئی طلعت محمود کی تصویر پر پڑی ، بہت خُوبصورت پکچر تھی – میں نے اُن صاحب سے کہا آپ بھی طلعت محمود کے فین ہیں – ؟ ہنس کر بولے جی ہاں ، ساری دنیا کی طرح میں ان کا فین بھی ہوں ، ویسے وہ میرے بہنوئی ہیں – کبھی کبھار ہمارے ہاں کراچی آتے جاتے رہتے ہیں- یہ سُن کر جو خوشی ہوئی میں بیان نہیں کر سکتا – طلعت صاحب سے ملاقات تو ناممکن تھی ، اُن کے اتنے قریبی رشتہ دار سے تعارف بھی میرے لیئے بڑی بات تھی ۔
بات بہت دُور نکل گئی – ذکر میری غزلوں کا ہورہا تھا — بقیہ باتیں ان شآءاللہ کل کر لیں گے –————— رہے نام اللہ کا ——-—— منورعلی ملک —٣٠ جولائی 2022

میرا میانوالی- 

میری دوسری غزل جو ریکارڈ ہو کر منظرِعام پر آئی “اس سے کہنا“ کے نام سے معروف ہے – غزل کا کوئی عنوان نہیں ہوتا ، لیکن اس غزل کے الفاظ “اس سے کہنا“ کو لوگوں نے اس غزل کا عنوان بنا دیا – یہ غزل ریڈیو کے توسط سے مُلک بھر میں معروف و مقبول ہوئی – ریڈیو پاکستان کے مایہ ناز پروڈیوسر ظفر خان نیازی نے اپنے مشہور و معروف ریڈیو پروگرام “سوغات “ کے لیئے یہ غزل میرے بیٹے مظہر علی ملک کی آواز میں ریکارڈ کی تھی – جُونہی یہ غزل ریڈیو پر نشر ہوئی مُلک بھر سے فرمائشوں کے ڈھیر لگ گئے – اس لیئے بہت عرصہ تک ظفر خان کے پروگرام کا مستقل آئیٹم بنی رہی –
ایک دفعہ میں ظفر خان سے ملنے ریڈیو پاکستان اسلام آباد گیا تو ظفر خان نے میز پر پڑے خطوط کے ڈھیر میں سے ایک خط نکال کر مجھے دکھایا – یہ خط چکوال سے ایک بزرگ نے ارسال کیا تھا – لکھا تھا
نیازی صاحب السلام علیکم ، میں آپ کا پروگرام بہت شوق سے سُنتا ہوں – آپ سے گذارش ہے کہ “ اُس سے کہنا “ والی غزل ریڈیو پر نہ لگایا کریں – میں دِل کا مریض ہوں، اتنا دُکھ برداشت نہیں کر سکتا – یہ غزل مجھے اپنی کہانی لگتی ہے ، اسے سُنتا ہوں تو میرے دِل کی دھڑکن ڈانواں ڈول ہونے لگتی ہے – مہربانی فرما کر یہ غزل ریڈیو پر نہ لگایا کریں ———-
میں خط پڑھ چُکا تو ظفرخان نے مُسکرا کر میری طرف دیکھا – میں نے کہا یار اس بزرگ پر رحم کرو ، آئندہ یہ غزل ریڈیو پہ مت لگانا – ظفر نے مُسکرا کر کہا کُچھ کرنا پڑے گا –
ویسے تواس غزل کا ہر شعر یادگار ہے ، خاص طور پر یہ تین شعر اس غزل کی جان ہیں –
کہنا تیرے بعد وطن پردیس ہوا ہے
شہر وہی ہے لوگ پرائے ، اس سے کہنا
اُس کے کہنے پر میں نے تو صبر کِیا ہے
اپنے دِل کو بھی سمجھائے ، اُس سے کہنا
دریا نے رُخ بدلا تو اِک گاؤں اُجڑا
مِل نہ سکے پھر دوہمسائے ، اُس سے کہنا
یہ غزل یُوٹیوب پر بھی دستیاب ہے – لطیف کامران صاحب کے کمنٹ میں یوٹیوب کا لنک دیکھ لیں۔ لطیف کامران صاحب، بہت شکریہ۔
—————————– رہے نام اللہ کا ———————————— منورعلی ملک —–٣١  جولائی 2022

 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top