منورعلی ملک کےاگست 2022 کےفیس بک پرخطوط

میرا میانوالی-

اُردو شاعری تو میں نے دِل کے کہنے پر شروع کی ، گیت نگاری کے میدان میں مجھے لالا عیسی خیلوی نے دھکا دیا –
ایک دن ماسٹر وزیر کے ہاں دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے لالا نے کہا “ منور بھائی ، آپ کی اُردو شاعری تو بہت اچھی ہے ، میری خاطر سرائیکی میں بھی ایک گیت لکھ دیں تو بہت مہربانی ہوگی “ – میں نے کہا ٹھیک ہے کوشش کروں گا – لالا نے کہا وہ جو انڈین گیت ہے “پنجرے کے پنچھی رے تیرا درد نہ جانے کوئی “ اسی طرز پر ایک گیت لکھ دیں – یہ گیت اور اُس کی دُھن مجھے یاد تھی – میں نے اُسی شام سرائیکی ، پنجابی ملی جُلی زبان میں گیت لکھ دیا – گیت کے ابتدائی بول تھے
کملی دا ماہی وے ڈَس کیہڑے پاسے جاواں
لالا بہت خُوش ہوئے ، فورا ہارمونیم لے کر یہ گیت گانے کی مشق شروع کردی – پہلی بار مکمل گیت گا کر کہنے لگے “ کمال ہے ، ایک لفظ بھی دُھن سے اِدھر اُدھر نہیں ہوا – آپ کے الفاظ میں کسی ردوبدل کی ضرورت نہیں – میکدے کے ساتھی عتیل صاحب ، ماسٹر وزیر ، چاچا احسن خان ، حمید خان وغیرہ بھی جُھوم جُھوم کر اس گیت پر داد دیتے رہے —- اس کے بعد چل سو چل ، لالا کوئی نہ کوئی دُھن بتا دیتے اور میں اُس دُھن پر گیت لکھ دیتا – ایک دن ایک پُرانے لوک گیت میں کُچھ نئے بول لگانے کی فرمائش کی ، میں نے کہا یار یہ منجی پیڑھی ٹھوکنے والا کام مُجھ سے نہیں ہوتا – لالا نے ہنس کر کہا “ یار ، میری خاطر کُچھ تو کردو ، مجھے یہ دُھن بہت اچھی لگتی ہے – میں مان گیا – وہیں بیٹھے بیٹھے چند بول لکھ دیئے – گیت تھا
ساوی موراکین تے بُوٹا کڈھ ڈے چولے تے
یہ پہلا بول قدیم لوک گیت کا تھا ، باقی سات آٹھ بول میں نے لکھ دیئے – بہت ہِٹ hit ہوا یہ گیت – ہر رات میکدے کی محفل کا اختتام اسی گیت پر ہوتا تھا – میکدے کے سامعین ہر بول پر ہائے ہائے اور واہ واہ کے فلک شگاف نعرے لگایا کرتے تھے –
میں نے لالا کی فرمائش پر بہت سے گیت لکھے صحیح تعداد یاد نہیں ، شاید وسیم سبطین بتا سکیں – کُچھ اہم گیتوں کا تذکرہ کل ہوگا –
————————– رہے نام اللہ کا ———- منورعلی ملک —-  –١ اگست 2022

 

میرا میانوالی-

غلطی ہوگئی – عشرہء محرم کے دوران اپنی گیت نگاری کا ذکر نہیں کرنا چاہیئے تھا – معذرت کے ساتھ یہ سلسلہ دس محرم الحرام تک موقوف کرتے ہوئے تب تک ذکر صرف اپنے علاقے کے محرم کلچر کا ہوگا –
کیا رواداری کا زمانہ تھا – محرم کی مجالس میں ہمارے ہاں اہلِ سُنت بھی اہلِ تشیع کی طرح عقیدت و احترام سے شریک ہوتے تھے – بلکہ آبادی کے تناسب سے اہلِ سنت کی تعداد ان مجالس میں اہلِ تشیع سے زیادہ ہوتی تھی – نیاز کا کھانا بھی ہر گھر میں بنا کر تقسیم کیا جاتا تھا ، تشنگانِ کربلا کی نیاز کے طور پر شربت اور دُودھ کی سبیلیں بھی لگائی جاتی تھیں – عشرہ کے آخری تین دنوں کی مجالس اور جلُوسوں میں سیکیورٹی کے فرائض اہلِ سنت نوجوان سرانجام دیتے تھے – ہمارے داؤدخٰیل میں بحمداللہ یہ اہتمام اب بھی ہوتا ہے – یُوں محرم قربانی ، تعاون اور رواداری کا ایک دلکش ماحول قائم کر دیتا ہے – شیعہ سُنی اختلافات ہمارے ہاں شدت اور تشدد کی صورت اختیار نہیں کرتے – ایک ہی گھر میں ایک بھائی شیعہ ایک سُنی ، کبھی دونوں کے درمیان تنازعہ دیکھنے میں نہیں آیا –
ہمارے اپنے گھر میں میرے نانا جی ذاکر تھے – جب تک وہ زندہ رہے ڈھیر امیدعلی شاہ میں محرم کی مجالس سے وہی خطاب کرتے رہے – باہر سے ذاکر بلانے کی ضرورت ہی نہ پڑی – ہم نے جب ہوش سنبھالا تو وہ اس دنیا میں نہیں تھے – سُنا ہے اُن کی آواز میں بے پناہ ترنم اور سوز تھا – یہ ترنم ان کے ورثے کے طور پر ہماری امی کے حصے میں آیا ، اور اُن سے مجھے ورثے میں ملا – اور پھر آگے میرے بچوں کے حصے میں آیا –
ہمارے دادا جی اور نانا جی ایک دوسرے کے چچا زاد تھے – دادا جی سُنی اور فقہ حنفیہ کے پیروکار تھے ، نانا جی شیعہ اور فقہ جعفریہ کے مقلد تھے – دونوں ایک ہی گھر
میں رہتے تھے – مذہبی معاملات پر تنازعہ کبھی نہ ہوا – ایسی ہی خوشگوار فضا تقریبا ہر خاندان میں ہوا کرتی تھی –
———————- رہے نام اللہ کا ———————-—– منورعلی ملک —–٢  اگست 2022

میرا میانوالی-

داؤدخیل کے سادات غریب تھے ، اس لیئے محرم کی عزاداری بھی غریب و سادہ ہوتی تھی – لیکن وہ مخلص لوگ تھے ، غمِ حسین دِل سے محسوس کرتے تھے – اُن پر رقت طاری کرنے کے لیئے لفظ کربلا ہی کافی تھا –
سادات کے تین گھر تھے – محلہ علاول خیل میں گُل عباس شاہ کی چونک ، محلہ داؤدخیل میں شاہ غلام محمد کی چونک اور محلہ شریف خیل میں غلام عباس شاہ کی چونک – تینوں جگہ عزاداری ہوتی تھی – ذاکر مقامی ہوتے تھے – گُل عباس شاہ کی چونک پہ سید جعفر شاہ ، شاہ غلام محمد کی چونک پر غلام سرور خان داؤخیل ، اور غلام عباس شاہ کی چونک پر محلہ شریف خیل کے غلام مرتضی خان المعروف مُرتا ملنگ سانحہء کربلا کے واقعات ذاکرین کی مخصوص سرائیکی زبان میں بیان کرتے تھے – واقعات کے بیان میں مناسب مقامات پر ڈوہڑے بھی شامل کرتے تھے – غم کے موثر اظہار کے لیئے چار مصرعوں کا سرائیکی ڈوہڑہ اپنی مثال ہے – ان ذاکرین کے پاس ڈوہڑوں کا اچھا خاصا ذخیرہ تھا — ڈوہڑہ اور مضمون دونوں عام طور پر انتہائی درد انگیز راگ جوگ میں ادا کرتے تھے – مجلس کا آغاز مختصر خُطبے سے ہوتا تھا ، اس کے بعد قصیدے کی شکل میں فضائلِ اہلِ بیت اور آخر میں مسافرانِ کربلا کے مصائب کا ذکر ہوتا تھا – داستاںِ کربلا کے یکم سے دس محرم تک کے واقعات ترتیب وار دس دن میں بیان کیئے جاتے تھے — ان مجالس میں کوئی فرقہ وارانہ اختلاف کی بات نہیں کی جاتی تھی – اس لیئے اہلِ سنت بھی بڑی تعداد میں ان مجالس میں شریک ہوتے تھے –
کربلا کے علامتی اظہار کے طور پر صرف تعزیہ اور شہزادہ علی اصغر کا جُھولا ہوتا تھا – ذوالجناح اور عزاداری کے دُوسرے مظاہر ہمارے ہاں کے غریب سادات افورڈ نہیں کر سکتے تھے-
————————- رہے نام اللہ کا ————————-—— منورعلی ملک —  –٣  اگست 2022

میرا میانوالی-

1960 – 1970 کی دہائی میں محلہ سمال خیل کے ایوب خان ٹھیکیدار نے داؤدخیل میں عزاداری کے خصوصی اہتمام کا آغاز کیا – ایک وسیع و عریض امام بارگاہ بنوائی جہاں محرم کے عشرہ اول میں مجالس عزاء اور نیازِامام کا اہتمام نہایت عقیدت و احترام سے کِیا جاتا تھا – عشرہ کے ایام میں روزانہ کئی من کھانا نیاز کے طور پر تقسیم کیا جاتا تھا – ایوب خان کی وفات کے بعد اُن کے صاحبزادوں نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا –
ایوب خان سے کسی نے پُوچھا اتنا خرچ کیوں کرتے ہیں – ایوب خان کی آنکھوں میں آنسُو آگئے ، کہنے لگے بھائی صاحب آپ جانتے ہیں پہلے ہم کتنے غریب تھے – پھر اہلِبیتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے طفیل اللہ کریم نے مجھے مالامال کردیا – گاڑیاں ، کوٹھیاں، زمینیں ، یہ سب کُچھ مجھے اس در کی غلامی سے ملا – اس لیئے اس در سے محبت و عقیدت کا اظہار میرا فرض بنتا ہے – جب تک زندہ ہوں عزاداری کا اہتمام کرتا رہوں گا – اپنے بچوں کو بھی وصیت کر جاؤں گا کہ اس در کو نہ چھوڑنا –
——————— رہے نام اللہ کا ———————-—— منورعلی ملک  –٤  اگست 2022

میرا میانوالی- 

شیعہ سُنی اخوت اور باہمی تعاون کی بہترین مثال لاہور کا دربار بی بی پاک دامن ہے – دربار کی انتظامی مجلسِ عاملہ میں سُنی مسلک کے لوگ بھی شامل ہیں – شیعہ سُنی سب لوگ بھائیوں کی طرح مل جُل کر مزار کی دیکھ بھال اور تزئین و آرائش میں حصہ لیتے ہیں – مزار کے عین سامنے مغرب کی طرف سنگِ مرمر کے محراب پر چاروں خلفائے راشدین کے نام لکھے ہوئے ہیں – مزار کے احاطے کی مشرقی دیوار کے جنوب مشرقی کونے میں ایک تختی پر یہ الفاظ لکھے نظر آتے ہیں
“یہاں سید علی الہجویری ( داتا گنج بخش) حاضری دیا کرتے تھے “
تقریبات کے لیئے ٹینٹ سروس بھی مشترکہ ہے – محرم کی عزاداری اور عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی تقریبات میں دونوں مسالک کے لوگ بھرپُور حصہ لیتے ہیں – اتحاد اور تعاون کا یہ سلسلہ نسل در نسل صدیوں سے چل رہا ہے – اللہ کریم باقی علاقوں کے لوگوں کو بھی یہ توفیق عطا فرمائے –
سچ کہتے ہیں “ لہور لہور اے “ ۔ اپنی مثال آپ ، دوسروں کے لیئے رول ماڈل –
———————- رہے نام اللہ کا ———————-—— منورعلی ملک –٥  اگست 2022

میرا میانوالی- 

میں نے شاعری میں بھی سانحہ ء کربلا پر بہت کُچھ لکھا ہے – اصغرِ معصوم کی شہادت کے حوالے سے میری ایک آزاد نظم کا اختتام یوُں ہوتا ہے –
حسین نے پُھول سا وہ لاشہ زمیں پہ رکھا،
لہُو میں تر ہاتھ اپنے چہرے پہ پھیر کر آسماں کو دیکھا،
کہا “ترا شُکر میرے مولا
کہ میں تری بارگاہ میں پیش کر رہا ہوں
یہ ننھا مُنا حسِین تحفہ
مرا یہ تحفہ قبول کر لے”
کمر سے تلوار کھول کر پھر زمین کھودی
لہُو میں تر پوٹلی اٹھا کر لحد میں رکھ دی
شہید بچے کو دفن کر کے
سپاہیانہ وقار سے سر اُٹھا کے چلتے
حُسین خیموں کی سمت لَوٹے
————————— رہےنام اللہ کا —————————-—— منورعلی ملک —٦  اگست 2022

میرا میانوالی- 

ہمارے بچپن کے زمانے میں تلہ گنگ کے ذاکر سید نذرحسین شاہ پنجاب بھر میں مقبول و معروف تھے – بے پناہ درد تھا اس سید کی آواز میں- آواز کے درد کی بنا پر ذاکروں میں موچھ کے سید ریاض حسین شاہ اور گلوکاروں میں لالا عیسی خیلوی بھی اپنے دور کے لیجنڈ شمار ہوتے ہیں ، مگر جن لوگوں نے جوانی کے زمانے میں سید نذر شاہ کو سُنا ہو وہ گواہی دیں گے کہ نذر شاہ ان دونوں سے بہت آگے تھے – عجیب سا کرب تھا نذر شاہ کی آواز میں – میں نے پہلی بار انہیں داؤدخیل میں شاہ گُل عباس کی چونک پر ایک مجلس میں دیکھا اور سُنا – اس وقت شاہ جی پندرہ بیس برس کے گورے چِٹے دُبلے پتلے خُوبرو نوجوان تھے –
کُچھ عرصہ بعد سُنا کہ وہ ذہنی توازن سے محروم ہوگئے – بعض لوگ کہتے کسی کی نظر لگ گئی – کُچھ لوگ کہتے تھے کسی نے جادو کردیا – لالا عیسی خیلوی کی طرح اُن کے نام سے ایک سکینڈل بھی سُننے میں آیا تھا ، کہ کسی سے محبت نے نذر شاہ کو ہوش و حواس سے محروم کردیا – واللہ اعلم جتنے منہ اُتنی باتیں – ذہنی توازن سے محرومی کے باعث تلہ گنگ کے لوگ اُنہیں نذر “جھلا“ (پاگل) کہتے تھے –
تلہ گنگ میرے سُسرال کا شہر ہے – بہت عرصہ ہوا محرم کے دوران قریبی امام بارگاہ میں مجلس سُننے گیا – ایک ذاکر مصائبِ اہلِ بیت بیان کر رہے تھے – اچانک نذر شاہ وہاں آئے اور سیدھے مائیک کے سامنے کھڑے ہوگئے – اب بُوڑھے ہو چُکے تھے – رنگ سنولا گیا تھا ، سر کے بال سفید ، لوگوں نے بتایا کہ یہ وہی نذر شاہ ہیں –
جب نذرشاہ مائیک کے سامنے آئے تو ذاکر احتراما پیچھے ہٹ گیا – شاہ جی نے مختصر سے خطاب کے بعد صرف دو ڈوھڑے پیش کیئے – شاہ جی کی شکل و صورت تو تبدیل ہو گئی تھی مگر آواز کا درد جُوں کا تُوں سلامت تھا – سامعین کی چیخیں نکل گئیں – دوچار منٹ کے مختصر خطاب کے بعد نذر شاہ صاحب جس بے نیازی سے آئے تھے ، اسی انداز میں خاموشی سے واپس چلے گئے –
————————- رہے نام اللہ کا ——————————— منورعلی ملک —٧  اگست 2022

میرا میانوالی-

سلام یا حسین۔۔۔۔۔۔
وہ سر جھکا تو بدن اس کا ریزہ ریزہ تھا،
وہ سر بلند ہوا پھر تو جسم نیزہ تھا

  –٩  اگست 2022

میرا میانوالی-

شام غریباں۔۔۔۔۔۔ اپنا قطعہ
لوگ کہتے ہیں شام غریباں
ھے یہ دراصل شام سکینہ
آج مٹی پہ سوئے گی معصوم
جس کا بستر تھا بابا کا سینہ

٩  اگست 2022

میرا میانوالی- 

اپنے گیتوں کے بارے میں پچھلے سال بہت کُچھ لکھ چکا ہوں – اس میں مزید اضافہ ضروری نہیں سمجھتا – اپنی نعت کے بارے میں کُچھ اہم باتیں کہنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے – میں نے ایک نعت میں کہا تھا
حضور آپ کا خاص احسان ہے
مری نعت ہی میری پہچان ہے
یہی بات میں نے ایک اور نعت میں یُوں کہی
اِک بے نوا فقیر کی پہچان نعت بن گئی
میرے تو صرف لفظ ہیں ، حُسنِ کلام آپ کا
الحمد للہ بہت سی نعتیں کہنے کی سعادت نصیب ہوئی – میری نعت اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں روایتی باتوں سے ہٹ کر میں نے اپنے آقا سے اپنے دِل کی باتیں کہی ہیں ، اپنے دُکھ بیان کر کے بارگاہِ الہی میں سفارش کی درخواست کی ہے – جو بات دل میں آئی سیدھے سادے الفاظ میں بیان کردی ہے – اور بڑی بات یہ ہے کہ میرا دِل گواہی دیتا ہے میری نعت وہاں بھی پسند کی گئی ، میری بات سُنی گئی ، اور میری درخواست منظور ہوئی – میں نے ایک نعت میں کہا تھا
اب تو فقیرِ راہ کو در پر بُلا ہی لیجیئے
مانا کہ ہوں گُناہ گار ، ہوں توغلام آپ کا
درخواست منظور ہوگئی – میرے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا – بیٹھے بٹھائے اچانک عُمرے کا پروگرام بن گیا – پاسپورٹ ، ویزا ، ضروری سامان کی خریداری سب کچھ صرف ایک دو دن میں مکمل – فلائیٹ بھی ڈائریکٹ مدینہ کی مل گئی – سرزمینِ مقدس پر پہلا قدم مدینہ طیبہ کی زمین پر رکھنا نصیب ہوا- وہاں حاضری کی باتیں پہلے لکھ چُکا ہوں- یہ تفصیلات پھر کبھی دُہراؤں گا – انوکھے تجربات اور کیفیات کا سامنا ہوا –
اپنی نعت کی بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں قبولیت کے کُچھ اور ثبوت بعض اہلِ دل دوستوں نے فراہم کردیئے – واں بھچراں کے حاجی احمد نواز بھچر میرے بہت مہربان دوست ہیں – سچے عاشقِ رسول ہیں – چند سال قبل میں لاہور میں تھا تو انہوں نے فون پر رابطہ کر کے کہا “ ملک صاحب ، میں ابھی عُمرے سے واپس آیا ہوں – مبارک ہو آپ کی نعت بارگاہِ رسالت مآب میں قبول ہوئی “-
میں نے کہا وہ کیسے ؟ —- انہوں نے کہا جب میں سرکار کے روضہءاطہر کے سامنے پہنچا تو اچانک آپ کی نعت کا یہ شعر میری زبان پر آگیا –
بے طلب اتنا ملا مُجھ کو کہ اب کیا مانگوں
اب تو آقا تری رحمت سے حیا آتی ہے
بس پھر مجھے کُچھ ہوش نہ رہا – میں بار بار یہی شعر پڑھتا اور روتا رہا – یُوں لگتا تھا یہ شعر مجھ سے بار بار پڑھوایا جارہا ہے –
اسی طرح میرے محترم دوست پروفیسر شیخ گُل محمد نے بتایا کہ حج کے دوران جب وہ مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے تو روضہء اطہر کے سامنے میری ایک نعت کا شعر اُن کا وردِ زبان بن گیا –
مولانا کوثر نیازی کی بات یاد آ رہی ہے —————
یہ تو کرم ہے اُن کا وگرنہ مجھ میں تو ایسی بات نہیں
————————- رپے نام اللہ کا ————————–—— منورعلی ملک ——١٠  اگست 2022

میرا میانوالی- 

میری بعض نعتیں ایک خاص ماحول اور کیفیت میں عطا ہوئیں –
1977 میں مرحوم انجم جعفری گورنمنٹ مڈل سکول ماڑی انڈس میں ہیڈ ماسٹر تھے – انہوں نے وہاں ایک نعتیہ مشاعرے کا اہتمام کِیا – مجھے مشاعرے سے ایک دن پہلے پہنچنے کا حکم تھا — میں نے اس وقت تک کوئی نعت نہیں لکھی تھی – جعفری بھائی کو بتایا تو انہوں نے کہا آپ کا آنا ضروری ہے – نعت نہ بھی پڑھیں حاضری ضرور لگوائیں –
حسبِ حُکم میں ایک دن پہلے ماڑی انڈس پہنچ گیا – رات دریا کے کنارے سکول میں بسر ہوئی – فجر کے وقت سکول سے نکل کر دریا کے کنارے پہنچا تو دِل بھر آیا ، آنکھیں بھیگنے لگیں اور میری پہلی نعت کا پہلا شعر وارد ہوا – شعر یہ تھا ————-
یہ تیرا چہرہ، یہ تیری زُلفیں ، یہ صُبح آقا ، یہ شام آقا
درُود آقا ، سلام آقا ، سلام خیرُالاَنام آقا
اس کے بعد آنسُوؤں کی جھڑی کے ساتھ نعت کے شعروں کی برسات کُچھ دیر جاری رہی – پندرہ بیس منٹ میں نعت مکمل ہوگئی – میں نے کمرے میں واپس جاکر لکھ لی – یہ نعت میری معروف ترین نعت ثابت ہوئی –
صبح مشاعرے میں یہ نعت پڑھی – مشاعرے کی صدارت عیسی خیل کے اسسٹنٹ کمشنر اور بہت اچھے شاعر توقیر احمد فائق نے کی ، ڈاکٹر اجمل نیازی اور میانوالی ، بھکر کے تمام سینیئر شاعر شریکِ محفل تھے – اس نعت پر بے حساب داد ملی – اس نعت میں ایک شعر یہ تھا —
خُدا سے خائف ، نہ تُجھ سے نادم ، زباں پہ اسلام کے قصیدے
یہ لوگ کیا اِس زمیں پہ نافذ کریں گے تیرا نظام آقا ؟
جنرل ضیاءالحق کے نفاذِ اسلام کے دعووں پر یہ شعر بھرپُور طنز تھا – اسسٹنٹ کمشنر صاحب نے ہنس کر کہا “ ملک صاحب ، مشاعرے کی رپورٹنگ میں آپ کا یہ شعر اُوپر والوں کی نظڑ سے گُذرا تو نوکری آپ کی بھی جائے گی ساتھ میری بھی “
جعفری صاحب نے کہا “ ملک صاحب نے دربارِ رسالت مآب میں شکایت لگائی ہے – ان کی بات پر گرفت کرنے کی جراءت کون کر سکتا ھے – ؟
اس نعت کے ایک شعر میں خودستائی ( اپنی تعریف) کا پہلو نکلتا تھا ، میں نے شعر کا پہلا مصرعہ بعد میں تبدیل کر دیا – مصرع یہ تھا
ہوئی ہے جب سے نگاہ مجھ پر عطا ہوئی ہے وہ شان مجھ کو
میں نے الفاظ تبدیل کر کے یُوں لکھ دیا ————
ہوئی ہے جس پر نگاہ تیری عطا ہوئی ہے وہ شان اُس کو
لالا عیسی خیلوی کی آواز میں یہ نعت دنیا بھر میں مشہور و مقبول ہوئی –
———————– رہے نام اللہ کا ———————–—— منورعلی ملک —-١١  اگست 2022

میرا میانوالی-

یہی ساون کا مہینہ تھا ، شام کا وقت ، ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی – میں اس وقت تلہ گنگ جارہا تھا – جب کوچ نمل کالج کے قریب بائیں جانب مُڑ کر پہاڑ سے نیچے اُترنے لگی تو اچانک دل میں ایک ہُوک سی اُٹھی – آنکھوں سے آنسُو بہہ نکلے اور ساتھ ہی نعت کا پہلا شعر وارد ہوا – شعر یہ تھا ——
آنکھیں بھی برستی ہیں ، ساون کا مہینہ بھی
ھے شام بھی ہونے کو ، اور دُور مدینہ بھی
پھر آنسوؤں کی برسات کے ساتھ نعت کے مزید شعر وارد ہونے لگے – دندہ شاہ بلاول تک پہنچنے میں نعت مکمل ہوگئی – اس وقت قلم کاغذ پاس نہ تھا ، میں شعر گُنگناتا رہا – دُوسرے دن تلہ گنگ سے واپس میانوالی آکر نعت ڈائری میں لکھ لی –
واپسی کے سفر میں اس نعت کے حوالے سے ایک اور حیرت انگیز تجربہ ہوا – رات آٹھ بجے کے قریب ہماری کوچ کوٹ قاضی سے آگے ایک تنگ سے درے سے گذرنے لگی تو سامنے سڑک کے درمیان ایک ٹرالی کھڑی تھی اور دائیں طرف سے ایک ٹرک آگیا – ہماری کوچ پُوری رفتار سے آرہی تھی – بریک لگانے سے گاڑی اُلٹ سکتی تھی – ٹرالی یا ٹرک کی ٹکر سے بچنے کی بظاہر کوئی صورت نہیں تھی – موت سامنے نظر آرہی تھی – اچانک ہماری گاڑی کا انجن بند ہوگیا اور گاڑی ایک جھٹکے سے رُک گئی – اللہ کی شان دیکھیئے اس وقت میری زبان پر اس نعت کا یہ شعر تھا –
کٹتا ہے سفر میرا ، تیرے ہی سہارے پر
ہے بس سے مرے باہر ، دریا بھی سفینہ بھی
——————– رہے نام اللہ کا ——————-—— منورعلی ملک —–  –١٢  اگست 2022

میرا میانوالی-

پاکستان زندہ باد ———– بابا ہم شرمندہ ہیں
کیا کیا خواب دیکھے تھے اُس شخص نے – ان خوابوں کو تعبیر فراہم کرنے کے لیئے اُس نے کیا کیا قربانیاں دیں ، مگر ہم نے اپنی ہوسِ اقتدار کی خاطر پہلے تو آدھا پاکستان گنوا دیا – پھر بچے کُھچے پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لُوٹنا شروع کردیا ، فوجی حکمران ہوں یا سیاست دان سب نے اس لُوٹ مار میں اپنا اپنا حصہ نقد وصول کیا – 75 سال سے آج تک یہی ہوتا رہا ہے-
ایک وہ شخص تھا کہ اُسے اقتدار پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا گیا ، مگر اُس نے کہا نہیں ، مجھے اقتدار نہیں پاکستان چاہیئے – پاکستان کے سابق وزیر اعظم فیروز خان نُون کہتے ہیں مجھے انگریز وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا جناح صاحب سے کہو پاکستان کا مطالبہ چھوڑیں ہم آپ کو پُورے برِصغیر ( ہندوستان + پاکسان) کا گورنر جنرل (حکمران) بنا دیتے ہیں –
فیروزخان نُون یہ پیغام لے کر صبح سویرے بمبئی میں قائد اعظم کی رہائش گاہ پر حاضر ہوئے – بات شروع کرنے لگے تو قائد اعظم نے کہا
First go and have a bath
(پہلے نہالو)
نہا کر واپس آئے تو ناشتہ میز پر آچکا تھا – ناشتہ شروع کرتے ہوئے نُون صاحب نے پھر بات چھیڑی تو قائد اعظم نے تیز لہجے میں کہا
Mr Noon, I thought the bath would bring you back to senses.
( مسٹر نُون میں نے سمجھا تھا تُم نہانے کے بعد ہوش میں آجاؤگے )
نُون صاحب کہتے ہیں اس کے بعد میں مزید بات کہنے کی جراءت نہ کر سکا – واپس آکر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو یہ واقعہ بتایا تو انہوں نے کہا
Now , Noon, follow this man. He’ll win the race
( نُون اب تم اس شخص کا ساتھ دو ، یہ ہارنے والا نہیں)
آہ —-! آج قائداعظم کا وپی محبوب مُلک ساری دُنیا کا مقروض ہے – اب بھی مزید قرض کے لیئے آئی ایم ایف اور دوست ممالک کی منتیں کر رہے ہیں – دنیائے اسلام کی اکلوتی ایٹمی طاقت کشکول اُٹھائے پھر رہی ہے ——- دے جا سخیا راہِ خُدا ——
سونے جیسی زمین اور پانچ دریاؤں کے پانی سے مالامال مُلک گندم بھی باہر سے منگوا رہا ہے – زرعی زمین رہائشی سکیموں کی نذر ہو رہی ہے – گندم ، کپاس ، گنا ، چاول
کی لہلہاتی فصلوں کی جگہ سیمنٹ اور کنکریٹ کی عمارتیں ، پلازے اور کالونیاں لہلہا رہی ہیں – اللہ جانے آگے کیا ہوگا ، کُچھ پتہ نہیں –
75 ویں یومِ آزادی پر ہم بابائے قوم سے صرف یہی کہہ سکتے ہیں ——
“ بابا ہم شرمندہ ہیں“-
———————– رہے نام اللہ کا ———————–—— منورعلی ملک —  –١٣  اگست 2022

 

میرا میانوالی-

یادیں ۔۔۔۔۔۔
اپنی کتاب درد کا سفیر کا ایک صفحہ۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب کا تیسرا ایڈیشن علی پبلشرز اسلام آباد نے 2 سال پہلے شائع کیا تھا۔ اگر کچھ کتابیں موجود ہوئیں تو فون نمبر 0300 8502456 سے رابطہ کرنے پر مل سکتی ہیں۔  –١٤  اگست 2022

میرا میانوالی-

کُچھ دن اپنی شاعری کا ذکر چلتا رہا —
اللہ کریم کا یہ خاص احسان ہے کہ میری نثر کی مقبولیت بھی میری شاعری سے کم نہیں – سات سال سے روزانہ کسی نہ کسی موضوع پر میری تحریر فیس بُک کی وساطت سے منظرِعام پر آتی ہے – سیکڑوں قارئین ہر پوسٹ پر خوشگوار ردِعمل لائیکس ، ایموجیز اور کمنٹس Likes, emojis , comments کی صورت میں ظاہر کرتے رہتے ہیں – موضوع جوبھی ہو لوگ تحریر پسند کرتے ہیں – کئی مہربان ایسے بھی ہیں جو روزانہ صبح میری تازہ پوسٹ کے منتظر رہتے ہیں – بیرونِ ملک رہنے والے دوست میری پوسٹ کو گھر سے آیا بوا خط سمجھ کر خوش ہوتے ہیں – بیرونِ ملک میری پوسٹس کے قارئین آسٹریلیا ، امریکہ ، کینیڈا ، برطانیہ ، فرانس اور عرب ممالک میں مقیم ہیں –
نثر کی اتنی وسیع و عریض مقبولیت اللہ کا خصوصی کرم ہے ، شاعری تو جیسی بھی ہو کُچھ نہ کُچھ لوگ واہ واہ کر دیتے ہیں – لیکن نثر میں جان نہ ہو تو لوگ دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے – نثر میں دلچسپ قصے کہانیاں کُچھ دن چل جاتی ہیں لیکن صرف ادھر ادھر کی باتیں زیادہ عرصہ نہیں چل سکتیں – میری تحریریں تو ہوتی ہی ادھر ادھر کی بے مہار باتیں ہیں – پھر بھی لوگ پسند کر لیتے ہیں –
کُچھ لوگ کہتے ہیں میرے اندازِ تحریر میں کوئی کشش ہے – مجھے تو کوئی کشش نظر نہیں آتی – میں تو قلم سے لکھوں یا کی بورڈ سے ، جو جی میں آتا ہے لکھ دیتا ہوں – نہ لکھنے سے پہلے سوچتا ہوں کہ کیسے لکھوں ، نہ لکھتے وقت سوچتا ہوں کہ یُوں نہیں یُوں لکھنا چاہیئے- آپ کا حُسنِ نظر ہے کہ آپ کو یہ تحریریں پھر بھی اچھی لگتی ہیں –
نوازش ، کرم ، شکریہ ، مہربانی
ان شآءاللہ کل سے اپنی نثر کی کتابوں کا ذکر شروع کروں گا –
——————— رہے نام اللہ کا ————————— منورعلی ملک —  –١٥  اگست 2022

میرا میانوالی-

14 اگست 2022 کو میانوالی کی نوجوان نسل کے رول ماڈل ڈاکٹر حنیف نیازی کے فلاحی ادارے “مُوساز“ کے پانچویں یومِ تاسیس کی تقریب میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت میں شرکت کا اعزاز نصیب ہوا- تقریب حسبِ معمول راج محل مارکی میں منعقد ہوئی – حُسنِ انتظام کے لحاظ سے یہ ایک یادگار تقریب تھی – ضلع بھر کے نامور تعلیمی اداروں کے سربراہ زِینتِ محفل تھے –
مُوساز کا بنیادی مقصد غریب بچوں کو اعلی تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنا ہے – ڈاکٹر حنیف کا نظریہ یہ ہے کہ مفلسی کسی بچے کی تعلیم کی راہ میں حائل نہیں ہونی چاہیئے – ایسے بچوں کو اعلی تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیئے ڈاکٹر صاحب نے مُوساز کی بنیاد رکھی تو صرف دُوسرے لوگوں کو تبلیغ کرنے کی بجائے ابتدا اپنے گھر سے کی – گھر کا زیور اور گاڑی بھی فروخت کر کے مُوساز کو بنیادی ضروریات کی تکمیل کا سامان مہیا کر دیا – پھر ضلع بھر کے تعلیمی اداروں کا دورہ کر کے بچوں کو حوصلہ دیا کہ آپ کی تعلیم کی راہ میں اگر کوئی مالی رکاوٹ ہو تو مجھے بتائیں – میرا ادارہ آپ کو وسائل فراہم کرے گا –
اس عظیم کارِ خیر میں ڈاکٹر حنیف کے دوست اور میانوالی کے مخیر لوگ بھرپُور حصہ لے رہے ہیں – لوگوں کو ڈاکٹر حنیف پر مکمل اعتماد ہے – وہ اس یقین کے ساتھ
مُوساز سے تعاون کرتے ہیں کہ اُن کا دیا ہوا ایک پیسہ بھی ضائع نہیں ہوگا – ڈاکٹر حنیف کے مخیرانہ جذبہ ( بلکہ جنون کہنا زیادہ مناسب ہوگا) کی بنیاد پر لوگ انہیں میانوالی کا عبدالستار ایدھی بھی کہتے ہیں – تعلیم کے فروغ کے لیئے ڈاکٹر حنیف کی بے لوث خدمات کی بنا پر انہیں میانوالی کا سرسید احمد خان کہنا بھی بے جا نہ ہوگا-
مُوساز کا مشن “عطا سے وفا“ ہے – مشن کو یہ نام ڈاکٹر حنیف نے اپنے استادِ محترم ، میانوالی کے عظیم ماہرِ تعلیم سید عطامحمد شاہ سابق ہیڈماسٹر نورنگہ کی یاد میں دیا – سید عطامحمد شاہ نے نورنگہ جیسی دُورافتادہ بستی میں علم کے جو چراغ روشن کیئے اُن سے وطنِ عزیز کے کئی ادارے منور ہیں – سید عطا محمد شاہ کے شاگرد بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں –
ڈاکٹر حنیف بھی سید عطا محمد شاہ صاحب کا روشن کیا ہوا چراغ ہیں – ڈاکٹر حنیف بتاتے ہیں کہ میں تو تعلیم کے نام سے بھی ناآشنا ایک آوارہ مزاج نوجوان تھا جسے سید عطا محمد شاہ کے دستِ ہُنر نے تراش کر ایک تابناک ھیرا بنا دیا – جو کام استادِ محترم عُمر بھر کرتے رہے اُسی کام کو ڈاکٹر حنیف نے اپنا مقصدِ زیست بنا دیا – رب ِ کریم انہیں ہمت اور استقامت عطا فرمائے ، وہ ایک بہت اہم قومی خدمت سرانجام دے رہے ہیں –
————————- رہے نام اللہ کا ————————-—— منورعلی ملک –١٦  اگست 2022

میرا میانوالی- 

شاعری کے ایک مجموعے کے علاوہ اردو نثر کی میری چار کتابیں ( درد کا سفیر ، پسِ تحریر ، جان ملٹن اور تاریخِ انگریزی ادب) شائع ہو چُکی ہیں –
پہلی کتاب درد کا سفیر کا پہلا ایڈیشن1991 -92 میں شائع ہوا – یہ کتاب لالا عیسی خیلوی کے فن اور شخصیت کے بارے میں ہے – کتاب لکھنے کا کوئی ارادہ تھا نہ منصوبہ – ویسے ہی ایک دن ایک خوبصورت ڈائری کسی نے گِفٹ کی تو دل چاہا اس پر کُچھ لکھا جائے – میں نے کچی پنسل سے اُس دور کے دوتین واقعات لکھ دیئے تو لکھنے میں ایسا لُطف محسوس ہوا کہ میں نے روزانہ فارغ وقت میں اس موضوع پر کُچھ نہ کُچھ لکھنا شروع کردیا- دس بارہ دن میں کتاب مکمل ہوگئی – بہت مزیدار تحریر تھی اس لیئے میں نے یہ لُطف اپنے تک محدود رکھنے کی بجائے اسے صاحبِ ذوق لوگوں کے ساتھ شیئر کرنے کے لیئے کتاب چھپوانے کا ارادہ کر لیا –
لاہور میں اردو ادب کے نامور پبلشر “قوسین“ کے مالک چوہدری ریاض احمد سے دیرینہ علیک سلیک تھی – میں نے کتاب کا مسودہ اُن کے سپرد کر دیا – کتاب کے ٹائیٹل کی تصویر لالا عیسی خیلوی نے فراہم کردی – لالا کو کتاب کا بتایا تو بہت خوش ہوئے ، کہنے لگے دکھاؤ تو سہی لکھا کیا ھے – میں نے مسودہ دکھایا پڑھنے کے بعد ہنس کر کہنے لگے “ یار ، کتاب میں تو تُم نے مجھے اچھا خاصا چَبَل آدمی ثابت کر دیا – میں نے کہا “ میرے بھائی تُم جو کُچھ ہو وہی لکھنا تھا “- لالا نےفلک شگاف قہقہہ لگا کر کہا ” یار، گل تاں ٹھیک اے”
درد کا سفیر خاصی دھماکہ خیز کتاب ثابت ہوئی – ہر طبقے کے لوگوں نے یہ کتاب بے حد پسند کی – لالا کے چاہنے والوں کے علاوہ نامور افسانہ نگار ممتاز مفتی اور معروف شاعر ، ادیب اور نقاد محمد سلیم الڑحمن جیسی بلند پایہ ادبی شخصیات نے بھی انداذِ تحریر کو بہت سراہا – ان بزرگوں کا لالا سے تو کوئی لینا دینا نہ تھا ، ان پر اندازِ تحریر کا جادُو چل گیا – ممتاز مفتی صاحب نے کہا ” یہ ہوئی نا بات ، عام لوگوں کے لیئے لکھوگے تو لوگ تمہیں سلام کریں گے ، تمہارے ہاتھ چُومیں گے – شاعروں ادیبوں کے لیئے لکھوگے تو وہ حسد کے مارے تمہیں لِفٹ ہی نہیں کرائیں گے “-
***** کتاب ملنے کا پتہ بہت لوگ پوچھتے ہیں۔ کتاب اسلام آباد میں فون نمبر 0300 8502456 سے رابطہ کرنے پر مل سکتی ھے۔ پی ڈی ایف میں وسیم سبطین اور ذکاء ملک سے بھی مل سکتی ھے۔
———————- رہے نام اللہ کا ————————-—— منورعلی ملک —-١٧  اگست 2022

میرا میانوالی-

آج سے چار پانچ سال قبل لالا عیسی خیلوی نے کہا درد کا سفیر تو تُم نے اپنی مرضی سے لکھ دی ، اب ایک کتاب میری مرضی سے بھی لکھ دو تو بہت مہربانی ہوگی – میں نے کہا کون سی کتاب – لالا نے کہا میری داستانِ حیات – میں نے کہا ٹھیک ہے ، بتاؤ کیا لکھنا ہے – میں چند دن میں لکھ کر مسودہ تمہارے سپرد کردوں گا – لالا نے کہا ایسے نہیں – دس پندرہ دن کے لیئے تمہیں میرے ساتھ ایبٹ آباد یا مری ، کسی ایسی جگہ جاکر رہنا ہوگا جِتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہووے – وہاں میں جو کُچھ بتاؤں تم لکھتے رہنا – دس پندرہ دن میں کتاب بن جائے گی –
میں نے کہا “ اُکا کُوڑ اے“ میں پابند رہ کر لکھنے پڑھنے کاکام نہیں کر سکتا – قلندر آدمی ہوں ، جب جی چاہے قلم کو ہاتھ لگاتا ہوں – کبھی بیٹھ کر ، کبھی لیٹ کر جو لکھنا ہو لکھ دیتا ہوں – ایک آدھ گھنٹہ سے زیادہ مسلسل لکھنے کی عادت ہی نہیں بنائی – کچھ اپنی صحت کے مسائل بھی ہیں، ایسے کرو تم اِدھر ہی بیٹھ کر جو باتیں لکھوانی ہیں ایک دو دن میں مجھے بتا دو ، میں گھر جا کر کتاب لکھ دُوں گا – یہ کام کرنے کے لیئے ایبٹ آباد یا مری جانا ضروری نہیں “ –
لالا نے کہا “ ادھر بیٹھ کر لکھوانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا “-
میں نے کہا “پھر کسی اور سے لکھوا لو، سارے شاعر ادیب تمہارے یار ہیں “-
لالا نے کہا “ کوئی ہور تیڈے آر لِکھ سگے ہا تاں تیکوں کیوں آکھاں ہا ، اُسے کولوں لکھوا گِھناں ہا“
مکھن لگانے والا یہ جُملہ استعمال کر کے لالا مجھ سے کئی گیت وغیرہ تو لکھواتے رہے ، لیکن کتاب لکھنا اور وہ بھی گھر سے کہیں دُور جا کر میرے لیئے ناممکن ہے – اس لیئے لالا کُچھ رُوٹھے رُوٹھے سے رہتے ہیں ، مگر ہمارا ایک دُوسرے سے رُوٹھنا پکا پکا نہیں ، بس نخرہ سا ہوتا ہے – ہم اب بھی کبھی کبھار ملتے ہیں ، مگر کتاب کی بجائے بات چیت دُوسرے موضوعات پر کرتے ہیں – اگلی دفعہ ملے تو پھر یہ بات چھیڑوں گا ۔ لیکن شرط وہی میرے والی ہوگی – تب تک اپنا منشُور یہی رہے گا کہ
عُمر دراز ہووی رُسا وَتا ایں تاں او جانڑیں
**** یہ پوسٹ لکھنے کا ایک مقصد یہ بتانا بھی ہے کہ میں لالا کی خواہش کا احترام کرتا ہوں، لیکن اس کی شرط پر عمل کرنا میرے لیئے ممکن نہیں۔ لالا کوئی وچلا راستہ نکالیں تو منظور۔
———————— رہے نام اللہ کا ————————–—— منورعلی ملک –١٨  اگست 2022

میرا میانوالی- 

میری دُوسری کتاب “پسِ تحریر“ اُردو ادب کے ذخیرے میں ایک منفرد اضافہ ہے – اس سے پہلے اس قسم کی کوئی کتاب موجود نہیں تھی – یہ کتاب 6 سینیئر اہلِ قلم (ممتاز مفتی ، میرزا ادیب ، شفیق الرحمان ، احمد ندیم قاسمی ، رام لعل ، ڈاکٹر سلیم اختر) کے قلمی انٹرویوز پر مشتمل ہے –
قصہ یوں ہے کہ ایک دفعہ اپنے جگر حاجی محمد اسلم خان غلبلی کے ہمراہ کالج لائبریری کے لیئے کتابیں خریدنے کے سلسلے میں مال روڈ کی بڑی دکانوں میں تاک جھانک کرتے ہوئے اچانک میری نظر Writers at Work کے عنوان سے 4 کتابوں کی ایک سیریز پر پڑی – ایک امریکی پبلشر کی شائع کی ہوئی یہ کتابیں مشہور و معروف امریکی شاعروں اور ادیبوں کے قلمی انٹرویوز پر مشتمل تھیں – میں نے وہ کتابیں کالج لائبریری کے لیئے منتخب کر لیں – حاجی صاحب نے ہلکا سا احتجاج کرتے ہوئے کہا “ کیا کروگے ان کتابوں کا ؟“
میں نے مُسکرا کر کہا “ اچار ڈالوں گا“ – جواب میں حاجی صاحب بھی اپنے مخصوص دلفریب انداز میں مُسکرا کر بولے “ پھر ٹھیک ہے“ –
اہل قلم کے قلمی انٹرویوز کا طریقہ واردات یہ تھا کہ پبلشر کے نمائندے ایک سوالنامہ متعلقہ شاعر یا ادیب کو دے دیتے تھے – دوہفتے بعد آکر سوالنامہ تحریری جوابات سمیت وصول کر لیتے تھے – دو ہفتے کا عرصہ سوچ سمجھ کر جواب دینے اور ان میں ضروری کاٹ چھانٹ کے لیئے کافی ہوتا تھا –
مجھے یہ طریقہ ء واردات بہت اچھا لگا – میں نے ایسا ہی کام اُردو میں بھی کرنے کا ارادہ کر لیا – مشکل ایک تو یہ تھی کہ میں نے جو سینیئر اہلِ قلم انٹرویو کے لیئے منتخب کیئے ان میں سے کسی سے بھی میرا براہِ راست تعارف نہ تھا – میں تو بس اُن کا ایک فین تھا – دُوسری مشکل یہ تھی کہ سوالنامہ ان بزرگوں کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے میانوالی سے لاہور ، اسلام آباد اور دہلی کے پھیرے لگانا میرے لیئے ممکن نہ تھا – اللہ کی دی ہوئی عقل کام آگئی – میں نے 50 سوالات پر مشتمل سوالنامہ تیار کر کے 10 بزرگوں کو ڈاک کے ذریعے بھجوا دیا – دس پندرہ دن بعد ان میں سے 6 حضرات کے جوابات موصول ہوگئے – بقیہ چار لوگوں نے خاموشی کو عبادت سمجھ کر کوئی جواب نہ دیا –
جن 6 بزرگوں نے جوابات بھجوائے اردو ادب میں اس وقت سب سے سینیئر اہل قلم وہی تھے – ( بقیہ داستان کل)
———————– رہے نام اللہ کا —————————— منورعلی ملک —–١٩  اگست 2022

میرا میانوالی- 

پسِ تحریر میں شامل شخصیات میں سے سب سے دلچسپ خط و کتابت ممتاز مفتی صاحب سے رہی – میں نے سوالنامہ بھیجا تو اُن کا مختصر سا جواب یہ تھا
“ میں رسمی ، کتابی ، نقادی سوالوں کے جواب نہیں دیا کرتا“
میں سمجھ گیا بابا جی نخرہ کر رہے ہیں – بابوں کے نخروں کا علاج یہ ہے کہ آپ ناراض ہونے کی بجائے ذرا سی منت خوشامد کر دیں – میں نے مفتی صاحب کے مختصر خط کا مختصر جواب یہ دیا کہ جنابِ والا ، سائل کی تنگ دامانی کو نہ دیکھیں ، اپنی شان کے مطابق عطا کریں – بس جی مُفتی صاحب اس سیدھی سی بات پر فدا ہوگئے – میرے خط کے جواب میں مجھے ڈھیروں دُعائیں دیتے ہوئے لکھا “ منور ، تو نے مجھے خوش کر دیا ، اللہ تجھے خوش رکھے – اب میں تیرے ہر سوال کا جواب دُوں گا – دوچار دن انتظار کرو –
مفتی صاحب کا جواب نامہ دیکھنے کے لائق تھا – لکیردار کاغذ پر جوابات لکھنے شروع کیئے ، کاغذ کم پڑگیا تو اسی سائیز کے کاغذ کی چار چار انچ چوڑی پٹیاں کاٹ کر کاغذ کے چاروں سروں پر چپکا دیں – یوُں اخبار کے سائیز کا جواب نامہ دیکھ کر میں شل ہوگیا – ایک مصیبت یہ بھی تھی کہ پُورا جواب نامہ پڑھنے کے لیئے اُسے گراموفون کے ریکارڈ ( توا) کی طرح گُھمانا پڑتا تھا – بہر حال مفتی صاحب کے جوابات انتہائی کھُلے ڈُلے اور دلچسپ تھے –
مفتی صاحب سے خط و کتابت پسِ تحریر کی اشاعت کے بعد بھی چلتی رہی – ایک دفعہ بیمار پڑ گئے ، میں نے عیادت کے لیئے خط لکھا تو جواب یہ تھا —–
“ میری عُمر اس وقت 89 سال ہے – اِس عمر میں بیماری جانے کے لیئے نہیں ، لے جانے کے لیئے آتی ہے – سامان باندھ کر سٹیشن پر بیٹھا ہوں ، پتہ نہیں کس وقت گاڑی آجائے “
کُچھ عرصہ بعد مُفتی صاحب کی گاڑی آگئی اور مفتی صاحب اس میں بیٹھ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے اس دُنیا کی نظروں سے اوجھل ہوگئے –
———————— رہے نام اللہ کا ———————–—— منورعلی ملک ——ممتاز مفتی صاحب٢٠  اگست 2022

میرا میانوالی- 

باقی باتیں بعد میں ہوتی رہیں گی – آج صرف مُلک بھر کے سیلاب زدہ بھائیوں سے اظہارِ ہمدردی اور اُن کی امداد کے لیئے اپیل مقصود ہے – بالخصوص بلوچستان ، کراچی ، اندرونِ سندھ ، جنوبی پنجاب اور کے پی میں رہنے والے صاحبِ حیثیت دوستوں سے گذارش ہے کہ اپنے ان مصیبت زدہ بھائیوں کی ہر ممکن مدد کریں –
مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنا اللہ کو قرض دینے کے مترادف ہے – آپ کسی کی مشکلات آسان کردیں تو اس کارِخیر کے اجر میں اللہ کریم آپ کی مشکلات آسان کردے گا – سودا مہنگا نہیں – وما توفیقی الا باللہ –
————————— رہے نام اللہ کا —————————-—— منورعلی ملک —— 21   اگست 2022
میرا میانوالی- 
دعا کی طاقت
ایک بزرگ سفر کے دوران شام کے وقت عراق کے ایک دُور افتادہ گاؤں پہنچے – وہاں اُن کا کوئی جاننے والا نہ تھا ، اس لیئے رات مسجد میں گُذارنے کا ارادہ کیا ، مگر مسجد کے چوکیدار نے اُنہیں مسجد میں رہنے کی اجازت نہ دی – وہ مسجد کے باہر سڑک کے کنارے رات بسر کرنے کے لیئے لیٹ گئے – چوکیدار بہت کمینہ انسان تھا – اُنہیں پاؤں سے پکڑ کر گھسیٹ کر سڑک کے دُوسری طرف لے جانے کی کوشش کرنے لگا – اتنے میں ایک تندُور والا اُدھر سے گذرا – وہ اُن بزرگ کو اپنے گھر لے گیا اور کھانا وغیرہ بنوانے لگا – بزرگ نے کہا میں نے دیکھا ہے کہ تُم مسلسل استغفار کا وِرد کر رہے ہو – کیا تُم ہر وقت یہ ورد کرتے رہتے ہو ؟
تندُور والے نے کہا جی ہاں ، میں آٹا گُوندھتے ہوئے بھی استغفراللہ ربی کہتا رہتا ہوں – اس وِرد کی برکت سے میری ہر دعا قبُول ہوتی ہے – صرف ایک دُعا قبُول نہیں ہوئی –
بزرگ نے کہا کون سی دُعا ؟
اُس شخص نے کہا وہ دعا یہ ہے کہ مجھے امام احمد بن حنبل کی زیارت نصیب ہو –
بزرگ نے مُسکرا کر کہا “ دعا ضائع نہیں جاتی – تمہاری وہ دعا بھی قبول ہوگئی – میں ہی احمد بن حنبل ہوں ، اور مجھے گھسیٹ کر تمہارے پاس پہنچا دیا گیا “-
——————- رہے نام اللہ کا——————-—— منورعلی ملک –٢٢  اگست 2022

میرا میانوالی- 

الحمد للہ الکریم
صبح سویرے دو دفعہ بارش ہوگئی – میں کل ہی سوچ رہا تھا کہ اگلی پوسٹ میں بادلوں کی اچھی خاصی دُھلائی کروں گا کہ کیا مذاق بنا رکھا ہے میانوالی کے ساتھ پچھلے آٹھ دس دن سے – سارا دن اِدھر ہی پھرتے رہتے تھے ، کبھی مغرب سے آکر ، کبھی مشرق سے نمُودار ہوکر – کبھی اتنے گہرے بادل کہ لگتا تھا اب برسے ہی برسے – مگر کوئی ناں – مجال ہے جو ایک کَنڑِیں بھی زمین پر آئی ہو – رات پتہ نہیں کہاں گذارتے ، صبح پھر نازل ہوجاتے – ہم لوگ للچائی ہوئی نظروں سے آسمان کی طرف دیکھتے رہ جاتے کہ شاید آج بارش ہو جائے –
آج کی بارش اس موسم کی دُوسری بارش تھی – پہلی بارش ساون کے آغاز میں ہوئی تھی – مُوسلادھار تو نہیں ، بس ٹھیک ہی تھی – اب تقریبا ایک ماہ بعد آج دُوسری بارش ہمیں دیکھنے کو مِلی – اتنا خُشک موسم برسات تو کبھی نہ دیکھا تھا – اِدھر تو اس موسم میں کالا سیاہ چچالی پہاڑ والا بادل ہر دُوسرے تیسرے دن آکر مُوسلا دھار بارش برسا دیتا تھا – ہمارے علاقے میں کہتے تھے ——- چچالی بدل گجے ، تریِمُت گاں چُوینی بھجے (چچالی والے بادل کی گرج سنتے ہی گھر کے صحن میں گائے کا دُودھ دوہتی ہوئی خاتون بارش سے پناہ لینے کے لیئے بھاگ کر کمرے میں گھُس جاتی ہے) – بادل برق رفتاری سے آکر زورو شور سے برسنا شروع کر دیتا تھا ، باہر پھرتے ہوئے بے فکر لوگوں کو سنبھلنے بھی نہیں دیتا تھا -بارش اتنے زور کی ہوتی تھی کہ اچھا خاصا تگڑا جوان اس کے سامنے ایک دو منٹ سے زیادہ کھڑا نہیں رہ سکتا تھا –
اب تو چچالی والا بادل بھی پارلی کندھی ( دریا کے پرلے کنارے ) کا چکر لگا کر واپس چلا جاتا ہے – اللہ کا ایک خاص فضل یہ تھا کہ مُوسلادھار بارشوں سے بھی ہمارے علاقے میں جانی مالی نقصان نہیں ہوتا تھا – بلوچستان ، کراچی ، اندرونِ سندھ ، کے پی اور جنوبی پنجاب میں تو اس بار شدید بارشوں نے تباہی مچا رکھی ہے – سوشل میڈیا پر معصوم بچوں کی لاشیں دیکھ کر کلیجہ پھٹتا ہے – یا اللہ تُو آپ ہی رحم کر , ان لوگوں کو انسانوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ – بارش ضرور عطا فرما مگر رحمت کی بارش۔
——————– رہے نام اللہ کا ————————— منورعلی ملک –٢٤  اگست 2022

میرا میانوالی- 

جان ملٹن
(1608_1674)
چند دن پہلے اپنی نثر کی کتابوں کا ذکر چل رہا تھا – آپ کو شاید اس سے دلچسپی نہ ہو لیکن میرے لیئے یہ تذکرہ اہم ہے – ایک تو اس لیئے کہ میں اپنی ادبی خدمات کے بارے میں اہم باتیں ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں ، دوسری بات یہ کہ مصنف کو تو اپنی ہر کتاب اولاد کی طرح عزیز ہوتی ہے – پہلی کتاب درد کا سفیر کا ذکر ہوا تو پسِ تحریر ، جان ملٹن اور تاریخِ انگریزی ادب کا ذکر کیوں نہ ہو –
آج ذکر ہوگا میری تیسری کتاب “جان ملٹن“ کا – انگریز شاعر جان ملٹن John Milton 1608–1674 اہمیت اور شہرت کے لحاظ سے لالا عیسی خیلوی سے پیچھے نہیں کُچھ آگے ہی تھا – جس شخص کی شاعری چارسو سال سے دُنیا بھر میں انگریزی ادب کے نصاب میں پڑھی اور پڑھائی جا رہی ہو وہ کوئی معمولی شخص یا شاعر نہیں ہو سکتا – انگریزی ادب کی تاریخ میں اُسے شیکسپیئر کے بعد سب سے بڑا شاعر مانا جاتا ہے – اُس کے بارے میں400 سے زیادہ کتابیں اور ہزاروں مضامین منظرِعام پر آچکے ہیں – ملٹن مشہورِ زمانہ کیمبرج یونیورسٹی کا گریجویٹ تھا – یو نیورسٹی کو آج بھی اُس پر فخر ہے – یونیورسٹی میں ملٹن پر تحقیق کے لیئے شعبہء ملٹن بھی قائم ہے – ہر تین ماہ بعد ملٹن ریویو Milton Review کے نام سے ایک رسالہ بھی شائع ہوتا ہے جس میں ملٹن کے بارے میں تحقیقی اور تنقیدی مضامین شائع ہوتے ہیں – ہر سال ملٹن کے بارے میں اوسطا ڈیڑھ دو سو مضامین دُنیا بھر میں مختلف رسالوں میں شائع ہوتے ہیں –
ملٹن کی اہمیت کے پیشِ نظر اس کی شخصیت اور فن کا قدرے مفصل تذکرہ اگلی ایک دو پوسٹس میں کروں گا – خاصی دلچسپ باتیں ہوں گی ان شآءاللہ-
———————– رہے نام اللہ کا ————————–—— منورعلی ملک —-٢٥  اگست 2022

میرا میانوالی- 

“ درد کا سفیر“ کی طرح “جان ملٹن “ بھی فن اور شخصیت کے بارے میں ہے – اندازِ تحریر بھی وہی ہے ، مگر میری نظر میں جان ملٹن درد کا سفیر سے زیادہ دلچسپ کتاب ہے ، کیونکہ ملٹن کی شخصیت بھی عجیب و غریب تھی اور اُس کا فن بھی انوکھا – درد کا سفیر کی طرح یہ کتاب ہنساتی بھی ہے رُلاتی بھی ہے – ملٹن کی داستانِ حیات اتنی دلچسپ ہے کہ پڑھنا شروع کریں تو چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا –
ملٹن بچپن اور جوانی میں بہت حسین اور شرمیلا تھا ، اس لیئے کیمبرج یونیورسٹی کے کرائیسٹس کالج میں وہ لیڈی آف کرائیسٹس کالج ( کرائیسٹس کالج کی حسینہ ) کہلاتا تھا – مگر مزاج کے لحاظ سے وہ خاصا رُوکھا ، نک چڑھا اور مغرور تھا ، اس لیئے اُسے چھیڑنے کی جراءت کوئی نہیں کر سکتا تھا -24 سال کی عمر میں اُس نے پہلی شادی کی ، اُس کی سادہ زندگی اور سخت مزاج اُس کی بیوی کو راس نہ آیا ، پھر بھی یہ شادی کسی نہ کسی طرح دس سال چل گئی – پانچ بچے ہوئے جن میں سے صرف تین بیٹیاں زندہ رہیں –
پہلی بیوی کی وفات کے کُچھ عرصہ بعد ملٹن نے دُوسری شادی کی ، چند سال بعد دوسری بیوی فوت ہوگئی ، پھر طویل عرصہ بعد اُس نے تیسری شادی کرلی – ملٹن کا مزاج ایسا تھا کہ گھر یا گھر کے باہر اُس کی کسی سے بھی نہیں بنتی تھی – تینوں بیویاں اُس سے نالاں رہیں ، بیٹیوں کو بھی باپ کا لاڈ پیار نہ مل سکا – صرف ایک بیٹی نے مشکل وقت میں اُس کا ساتھ دیا –
ملٹن کی ذاتی زندگی تو خاصی ناخوشگوار تھی ، لیکن شاعر کی حیثیت میں وہ دنیا کے بہترین شاعروں میں شمار ہوتا ہے – شاعری کا آغاز اُس نے بچپن ہی سے کردیا تھا – یُونانی اور لاطینی زبان کا بھی بہت بڑا ماہر تھا – ابتدائی دور میں اُس نے لاطینی زبان میں بھی بہت خُوبصورت نظمیں لکھیں – بچپن ہی سے وہ ایک شاہکار نظم لکھنا چاہتا تھا جو اپنی مثال آپ ہو – دُنیا اس کی شاعری کی تعریف کرتی تھی ، مگر وہ مطمئن نہ تھا – بالآخر بہت عرصہ بعد اُس نے Paradise Lost عنوان سے ایک ایسی نظم لکھ دی جو ادب کی تاریخ کا سنگِ میل شمار ہوتی ہے –
44 برس کی عمر میں ملٹن بصارت (نظر) سے محروم ہوگیا – اُس نے اندھے پن کے دوران ہی Paradise Lost لکھی – دس ہزار سے زائد مصرعوں پر مشتمل اس نظم کا موضوع حضرت آدم اور اماں حوا کی پہلی خطا اور اُس کی سزا ہے – انتہائی دلچسپ قصہ ہے – اس نظم کا مفصل تعارف بعد میں لکھوں گا – کل سیاست میں اُس کے پنگے کا ذکر ہوگا- حقیقی آزادی کی جدو جہد میں وہ قید بھی ہوا ، پھانسی پر بھی لٹک جاتا مگر اُس کے کچھ بارسُوخ دوستوں نے بادشاہ کی منت سماجت کر کے اُسے معافی دلوا دی – مفصل قصہ انشآءاللہ کل لکھوں گا –
————————– رہے نام اللہ کا ————————–—— منورعلی ملک ——جان ملٹن۔۔۔۔ جوانی-٢٦  اگست 2022

میرا میانوالی-

ملٹن کی شہرت کی ایک وجہ سیاست اور مذہب میں اس کی مداخلت بھی ہے – اس زمانے میں بادشاہ اور پارلیمنٹ کے درمیان اختیارات کی جنگ چل رہی تھی – بادشاہ مکمل اختیارات کو اپنی وراثت سمجھتا تھا – پارلیمنٹ کا دعوی یہ تھا کہ ہم عوام کے نمائندے ہیں ، اس لیئے عوامی مفاد سے متعلق اختیارات ہمارے پاس ہونے چاہیئں – قوم بھی دو دھڑوں میں بٹ چکی تھی – کُچھ لوگ بادشاہ کے حامی تھے ، کُچھ پارلیمنٹ کے –
تقریبا 9 سال یہ جنگ جاری رہی – بالآخر پارلیمنٹ کی فوج کوفتح حاصل ہوئی اور اس فوج کے کمانڈر اولیور کرامویل نے لارڈ پروٹیکٹر ( ریاست کا محافظ) کے لقب سے اقتدار سنبھالا – اس جنگ میں ملٹن نے قلمی جہاد کے ذریعے بھرپُور حصہ لیا – اُس نے جمہوریت اور پارلیمنٹ کے حق میں کئی پمفلٹ لکھ کر عوام کی رائے ہموار کرنے میں زبردست کردار ادا کیا – اولیور کرامویل نے اقتدار سنبھالتے ہی بادشاہ کو سزائے موت دے دی – سزائے موت کے حق میں بھی ملٹن نے بہت کُچھ لکھا –
اولیور کرامویل کی موت کے بعد اُس کے بیٹے نےتخت سنبھالا – مگر وہ سخت نااہل ثابت ہوا – اس لیئے اُس کے خلاف بغاوت کر کے عوام نے بادشاہ کے بیٹے چارلس دوم کو تخت پہ بٹھا دیا – شہنشاہ چارلس دوم نے کرامویل کے ساتھیوں کو چُن چُن کر سزائے موت دے دی –
کرام ویل کے حامیوں کی پکڑ دھکڑ میں ملٹن بھی گرفتار ہوا ، مگر عدالت نے اُسے رہا کر دیا – رہائی کی وجہ یہ تھی کہ جج کُچھ عرصہ پہلے جائداد کے ایک تنازعے میں ملٹن کا وکیل رہ چُکا تھا – ملٹن نے اپنی بیوی کی جائداد کے حصول کے لیئے اپنی ساس کے خلاف کیس درج کرایا تھا ، وکیل وہ کیس تو ہار گیا تھا، مگر جج کی حیثیت میں ملٹن کو پھانسی پر لٹکنے سے بچا لیا –
———————– رہے نام اللہ کا ———————–—— منورعلی ملک —-  –٢٧  اگست 2022

میرا میانوالی-

یااللہ رحم۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دریا نے رُخ بدلا تو اِک گاؤں اُجڑا،
مل نہ سکے پھر دوہمسائے اس سے کہنا

  –٢٧  اگست 2022

میرا میانوالی- 

جب کبھی میں علم کی بات کرتا ہوں ، فیس بُک کے اکثر ساتھیوں پر شاید نیند طاری ہو جاتی ہے – نہ کوئی لائیک ، نہ کمنٹ ، نہ ری ایکشن – مکمل سکُوت —- بچپن کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے – ایک دفعہ ہماری چونک پر ریڈیو پہ قائدِاعظم کی تقریر چل رہی تھی – تقریر انگریزی میں تھی – ہمارے بزرگ تو انگریزی سمجھ سکتے تھے ، محلے کے چند چِٹے اَن پڑھ بزرگ بھی سامعین میں شامل تھے – ان میں سے چاچا مقرب خان بہرام خیل بڑے غور سے تقریر سُنتے ہوئے بار بار سر ہلا کر قائد اعظم کی باتوں سے مکمل اتفاق کا اظہار بھی کر رہے تھے – ایک دُوسرے بزرگ نے اُن سے کہا “ مقرب خان ، لگتا ہے تُم تقریر سُننے کے علاوہ سمجھ بھی رہے ہو “-
چاچا مقرب خان نے کہا “ سمجھ تاں ناں سگنا ، بھلا میکو یقین اے بابا جو کُجھ وی آکھنا پیا اے سچ اکھنا پیا اے “
شاید اسی طرح آپ بھی سر ہلا کر میری باتوں کی تائید کرتے رہتے ہوں گے ، دل ہی دل میں کہتے ہوں گے ہماری سمجھ میں بھلے نہ آئے سر جی جوکُچھ بھی کہہ رہے ہیں سچ ہی ہوگا –
کُچھ دوست ایسی باتیں سمجھ بھی سکتے ہیں ، پسند بھی کرتے ہیں ، اور مجھ سے ایسی ہی باتیں سُننا چاہتے ہیں – مجھے اُن کا خیال بھی رکھنا ہے – باقی لوگوں نے گھبرانا نہیں ہے ، بس دو چار دن اپنی پسند کی باتوں کا انتظار کر لیا کریں –
ملٹن کا قصہ ابھی دوچار دن چلے گا – کل اُس کے مذہبی نظریات کی بات ہوگی – یہ تفصیل خاصی دلچسپ بھی ہوگی ، سبق آموز بھی –
————————- رہے نام اللہ کا ———————-—— منورعلی ملک —-٢٨  اگست 2022

میرا میانوالی- 

یااللہ رحم
ہم چلے اس جہاں سے۔۔۔۔۔
سوات کے یہ پانچ نوجوان کئی گھنٹے امداد کا انتظار کرتے کرتے بالآخر سیلاب کی لہروں کی نذر ھوگئے۔٢٨  اگست 2022

میرا میانوالی- 

پیوریٹن Puritan فرقے سے تعلق کی بنا پر ملٹن کٹر مؤَحِد تھا – وہ عام عیسائیوں کے برعکس حضرت عیسی علیہ السلام کو خُدا کا بیٹا نہیں مانتا تھا – اُس کا عقیدہ یہ تھا کہ اللہ پر کامل ایمان اور اللہ کے احکام پر عمل کے بغیر نبی کی شفاعت بھی انسان کی نجات کا سبب نہیں بن سکتی – وہ انجیلِ مقدس میں درج مذہبی رسموں کے سوا تمام رائج الوقت مذہبی رسموں کو بدعت سمجھتا تھا –
اللہ پر کامل ایمان ملٹن کے کردار کی سب سے بڑی خُوبی تھی – اپنی شاہکار رزمیہ نظم Paradise Lost کے آغاز میں وہ کہتا ہے میں یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ کا ہر کام خیر ہے خواہ بظاہر وہ نقصان ہی کیوں نہ ہو – اس نظم کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ آدم و ابلیس کے حوالے سے اللہ نے جو کُچھ بھی کیا درست تھا –
دراصل بعض بے دین لوگ حضرت آدم کی خطا اور شیطان کے شر کے حوالے سے اللہ تعالی کے علم اور طاقت کے بارے میں گُمراہ کُن سوالات اُٹھاتے تھے کہ اگر اللہ کو علم ہوتا کہ آدم میری نافرمانی کرے گا تو اُسے پیدا ہی نہ کرتا – اگر اُس کے پاس طاقت تھی تو آدم کو خطا سے روک دیتا – شیطان کو قیامت تک کُھلی چِھٹی کیوں دے دی -ملٹن نے اس نظم میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اللہ علیم و بصیر ہے علی کل شئٰ قدیر بھی ہے – اُس کے ہر کام کا حتمی نتیجہ خیر ہی ہوتا ہے –
ملٹن کے ایمانِ کامل کی بہت خُوبصورت مثال اُس کی مختصر نظم On His Blindness میں ملتی ہے – جب وہ نظر سے محروم ہو گیا تو اس نظم کی صُورت میں شکوہ کرتے ہوئے اُس نے کہا میں تو اپنے قلم سے اللہ کے دین کی خدمت کرنا چاہتا تھا ، مگر مجھے نظر سے محروم کردیا گیا ، اس نظم کے آخری مصرعے میں وہ بہت بڑٰی بات کہتا ہے – مصرعے کے الفاظ یہ ہیں
They also serve who only stand and wait
مالک کے حُکم کے انتظار میں کھڑے رہنا بھی مالک کی خدمت ہی ہے – آنکھوں سے محروم ہو کر میں بھی اُن لوگوں کی قطار میں شامل ہو گیا – میرے لیئے یہ بھی ایک اعزاز ہے –
ملٹن کے اس صبروشُکر کا صلہ اللہ تعالی نے یُوں دیا کہ ملٹن آج بھی دُنیا کے سب سے بڑے شاعروں میں شمار ہوتا ہے – ایک تبصرہ نگار کا یہ کہنا درست ہے کہ ملٹن تو اب ایک
ایک انڈسٹری ہے جس سے ہزاروں لوگ روزی کمارہے ہیں ، کُچھ لوگ اُس کی کتابیں چھاپ کر ، بیچ کر ، کُچھ لوگ اُس پر تحقیق کرکے کُچھ لوگ اُس کی شاعری پڑھا کر روزی کمارہے ہیں –
———————- رہے نام اللہ کا ———————-—— منورعلی ملک —٢٩  اگست 2022

میرا میانوالی-

ملٹن کی وفات کے تقریبا سو سال بعد ایک رات شراب کے نشے میں دُھت دو نوجوان ایک شراب خانے سے نکل کر لڑکھڑاتے ہوئے اپنے گھرو ں کو روانہ ہوئے – قبرستان میں سے گُذرتے ہوئے ایک قبر پر JOHN MILTON نام کی تختی نصب دیکھ کر رُک گئے – ایک نے کہا “ یہ دیکھو ، ہمارے دِین کا دُشمن پڑا ہے – آؤ اس کو دین سے دُشمنی کا مزا چکھائیں “-
پھر اُن کمبختوں نے ملٹن کی قبر کھود کر اُس میں سے ملٹن کی بچی کُھچی ہڈیاں نکالیں اور پتھر مار مار کر توڑ پھوڑ کر پھینک گئے –
قبر اور میت کی بے حُرمتی سے ملٹن کا تو کُچھ نہ بگڑا – وہ اُس وقت بھی دنیا کے سب سے بڑے شعراء میں شمار ہوتا تھا ، بعد میں بھی اُس کا یہی مقام برقرار رہا – آج چارسو سال بعد بھی اُس کا وہی مقام قائم و دائم ہے – دُنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں ملٹن کی شاعری انگریزی ادب کے کورس کا جُزوِ لازم ہے – جو عزت اللہ عطا کردے وہ کون چھین سکتا ہے –
دلچسپ بات یہ ہے کہ شراب کے نشے میں مدہوش نوجوان دین کے ٹھیکیدار بنے ہوئے تھے –
ملٹن کا ذکر فی الحال اتنا ہی کافی ہے – یہاں تو میں نے مختصر خلاصہ دوچار دن میں بیان کردیا – مکمل داستان میری کتاب “جان ملٹن“ میں پڑھنے کے لائق ہے – بہت سے دلچسپ اور سبق آموز واقعات ہیں – یہ کتاب 1998 میں شائع ہوئی – گُلبرگ لاہور میں کتابوں کی مشہور و معروف دُکان READINGS پر دستیاب ہے – لاہور کے اگلے دورے میں یہ کتاب وہاں سے لا کر فیس بُک کے ساتھیوں کی سہولت کے لیئے پی ڈی ایف پہ ڈال دوں گا –
——————— رہے نام اللہ کا ——————–—— منورعلی ملک —٣٠  اگست 2022

میرا میانوالی-

میرا میانوالی ———————–
بعض اوقات یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آج کِس موضوع پر لکھا جائے – موضوعات کی ایک لمبی قطار سامنے کھڑی ہوتی ہے – ایسے میں اچانک کوئی مہربان چہرہ ذہن کی سکرین پر نمودار ہوتا ہے جسے نظرانداز کرنا ظُلم لگتا ہے ، اس لیئے وہی شخصیت میری تحریر کا موضوع بن جاتی ہے – آج بھی یہی ہوا – صبح سویرے ہی اپنے مہربان استاد سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور کے پرنسپل پروفیسر اے جی بٹ صاحب یاد آگئے – کیا دبنگ شخصیت تھے – !،
بی ایڈ کلاس میں داخلے کے لیئے انٹرویو بورڈ پرنسپل صاحب ، وائس پرنسپل صاحب اور چند سینیئر پروفیسر صاحبان پر مشتمل تھا – پرنسپل صاحب اور وائس پرنسپل صاحب کسی زمانے میں ہمارے بابا جی کے کولِیگ رہ چکے تھے – مگر ابھی میرا اُن سے تعارف نہیں ہوا تھا –
میں انٹرویو کے لیئے کمرے میں داخل ہوا تو وائس پرنسپل صاحب نے کڑک کر کہا “ یہ کیا طریقہ ہے ، نہ سلام ، نہ دعا ، کیا ہم مسلمان نہیں ہیں ؟ باہر جائیں اور واپس آکر سلام کریں ، پھر آپ انٹرویو دے سکتے ہیں “-
میں شرمندہ ہو کر کمرے سے باہر نکل آیا – اتنے میں پرنسپل صاحب نے اپنے سامنے رکھی ہوئی لسٹ میں میرا نام اور والد کا نام دیکھا تو کمرے میں آُن کی آواز گُونج اُٹھی – قہقہہ لگا کر وائس پرنسپل صاحب سے کہا “ بارون صاحب ، ایہہ ملک اکبر دا پُتر ای – ایہدے پیو نے کدی افسراں نُوں سلام نئیں سی کیتا ، ایہہ کیوں کرے گا “ – پھر مجھے آواز دی “ آجا ، کاکا ۔ اندر آجا “-
میں واپس کمرے میں آیا – اب کی بار سلام بھی کیا ، اور پرنسپل صاحب کے سامنے والی کُرسی پر بیٹھ گیا – پرنسپل صاحب نے کہا
So, you are Malik Akbar Ali’s son. How is the good old man ?
میں نے کہا He’s fine, Sir
پھر پرنسپل صاحب انٹرویو بورڈ کے ارکان کو بابا جی کے بارے میں بتانے لگے کہ وہ کتنے لائق تھے – کہنے لگے “ ملک اکبر علی دی انگریزی پُورے پنجاب وِچ مشہور سی – انگریزاں ورگی انگریزی بولدا تے لِکھدا سی “ –
پھر مجھ سے کہا “ .
Say my Salaam to him. Whenever you need my help come straight to me
بس یہ تھا میرا انٹرویو – کالج میں میرے قیام کے دوران بھی جب کبھی سرِراہ چلتے چلتے مِل جاتے بہت شفقت کا سُلوک کرتے تھے –
————————– رہے نام اللہ کا ————————-—— منورعلی ملک ——  –٣١  اگست 2022

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top