منورعلی ملک کے مارچ 2020 کےفیس بک پرخطوط
میرا میانوالی————-
مانگ کا حلوہ ——-
مانگ ، مانگھ یا ونگار گندم کی فصل کاٹنے کے لیے دوستوں اور رشتہ داروں کے تعاون کی ایک صورت ھؤا کرتی تھی – شاید کچھ علاقوں میں یہ رسم اب بھی موجود ھو ، لیکن اب مانگ والے حلوے کا دستور شاید ھی کہیں نظر آئے -مانگ والا حلوہ ایک عجیب نعمت تھا – کیمیائی کھاد سے باک خالص دیسی سرخ گندم (رتی کنڑک) کے آٹے کی دودھی ، شہد جیسے میٹھے سرخ پشاوری کڑ اور گھر کے خالص دیسی گھی سے بناھوآ یہ حلوہ نہایت لذیذ ھوتا تھا – فصل کی کٹائی کے لیے بلائے گئے مہمانوں کی یہ مخصؤص خوراک تھی – کھانے اور کھلانے والوں کے درمیان مقابلہ ھوتا تھا – حلوہ اتنا وافر مقدار میں بنایا جاتا تھا کہ کھانے والے پیٹ بھر کر کھانے کے بعد ھاتھ کھڑے کردیں – اس مقابلے میں شکست ھمیشہ کھانے والوں کا مقدر ھوتی تھی – جب وہ ھاتھ کھڑے کر دیتے تو کھانے اور کھلانے والے مل کر خوب تالیاں بجاتے تھے – میزبان ایک شرارت یہ بھی کرتے تھے کہ حلوے میں بے تحاشہ گھی ڈال دیتے – نوالہ اٹھاتے وقت گھی ھاتھوں سے ٹپک رھا ھوتا تھا – دیسی گھی زیادہ نہیں کھایا جا سکتا ، اس لیئے کھانے والے جلد ھاتھ جوڑ کرمعافی مانگ لیتے تھے – زندہ دل لوگ تھے، کھانے کے ساتھ ساتھ دیچسپ ھنسی مذاق بھی چلتا رھتا – پیار بھری گالیوں کا تبادلہ بھی جاری رھتا –
مانگ ھمارے کلچر کی ایک نمائندہ تقریب ھؤا کرتی تھی – اب نہ وہ لوگ رھے ، نہ وہ چیزیں – مانگ والا حلوہ کوئی بنانا بھی چاھے تو سرخ گندم کا آٹا ، سرخ پشاوری گڑ اور سو فی صد خالص دیسی گھی کہاں سے لائے – مانگ کے حلوے میں معیار کے علاوہ مقدار کا بھی خاص خیال رکھا جاتا تھا – حلوہ پورے محلے میں تقسیم کیاجاتا تھا –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ-رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-2 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
مظفری شیرے آلا ————–
مظفرخان ولد شیر خان لمے خٰیل کبڈی کے لیجنڈ کھلاڑی تھے – 1955 /56 میں گورنمنٹ ھائی سکول داؤدخیل کی کبڈی ٹیم نے راولپنڈی ڈویژن میں پہلی پوزیشن حاصل کی – پنڈی ڈویژن اس وقت 6 اضلاع (میانوالی ، اٹک، جہلم ، گجرات، سرگودھا اور راولپنڈی) پر مشتمل تھا – چکوال ، خوشاب اور بھکر کو ضلع کا درجہ بعد میں ملا –
ڈویژن کے ٹورنمنٹ میں پہلی پوزیشن لینے والی داؤڈخیل سکول کی ٹیم کے کپتان مظفر خان تھے ، جنہیں لوگ پیار سے مظفری شیرے آلا کہتے تھے – مظفرخان کو ڈویژن کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا —-
مظفرخان سکول میں ھم سے دوسال سینیئر اور ھمارے بہترین دوست تھے -بجلی بھری تھی مظفر کے انگ انگ میں – انہیں کبھی کوئی مخالف کھلاڑی آؤٹ نہ کر سکا – سکول سطح کے میچوں کے علاوہ موچھ ، پائی خٰیل اور دوسرے نواحی علاقوں کی ٹیموں کے خلاف میچوں میں بھی مظفرخان داؤدخیل کی ٹیم کی قیادت کرتے رھے – کھیل کے علاوہ ٹیم کوتیار کرنے اور نظم و ضبط قائم رکھنے میں بھی مظفرخان اپنی مثال آپ تھے – بہت نرم مزاج انسان تھے – ان کی یہی دوستانہ نرمی ان کی شخصیت کی اصل طاقت تھی – کھلاڑی ان کی شرافت سے شرما کر ان کے حکم کی تعمیل کرتے تھے – پنجاب بھر میں شہرت اور عزت کے باوجود مظفر خان میں تکبر کا نام و نشان بھی نہ تھا –
میٹرک پاس کرنے کے بعد مکڑوال میں الیکٹریشن کی حیثیت سے ملازم ھوگئے – کچھ عرصہ بعد ٹیکسلا ، واہ فیکٹری میں ملازمت مل گئی – وھاں جاکر خدا جانے کس طرح منشیات کی عادت پڑگئی – اور دیکھتے ھی دیکھتے سپورٹس کی دنیا کا یہ خوبصورت پھول مرجھا کر مٹی میں مل گیا –
اللہ مغفرت فرمائے بہت پیارا انسان تھا – ایسے کامیاب کھلاڑئ صدیوں بعد پیدا ھوتے ھیں
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-3 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
میری کل کی پوسٹ کبڈی کے لیجنڈ کھلاڑی مظفرخان ولد شیرخان لمے خیل المعروف مظفری شیرے آلا کے بارے میں تھی – کچھ دوستوں نے مظفرخان کی پکچر کی فرمائش کی تھی – میرے پاس تو پکچر نہیں تھی ، تاھم مظفرخان کے بھتیجے زیارت خان نیازی اور ضیاء نیازی نے ایک پکچر بھیجی ھے – اس پکچر میں سرخ دائرے کے اندرمظفرخان کا چہرہ ھے ، مظفر خان کے ساتھ ان کے والد شیر خان اور بھائی عمرحیات خان (زیارت خان کے والد ) ھیں –
آپ نے اگر مظفر خان کو کبڈی کھیلتے ھوئے دیکھا ھوتا تو آپ کو پتہ چلتا کہ یہ شخص کیا تھا – پورے میدان پر مظفر خان ھی چھایا ھوتا تھا – ھر مخالف کھلاڑی مظفرخان سے ڈرتا تھا – مظفرخان عام کھلاڑیوں کی طرح جسم پرتیل مل کر میدان میں نہیں آتا تھا – اس کی رفتار اور طاقت ھی ایسی تھی کہ کوئی اسے پکڑنہیں سکتا تھا – اللہ مغفرت فرمائے، ھمارے داؤدخیل کی شان تھا یہ شخص-
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-4 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
اس موسم میں ھر جمعہ کو نماز جمعہ کے بعد داؤدخیل میں کبڈی کا میچ ھؤا کرتا تھا – کبڈی سے لوگوں کو ایسی ھی گہری دلچسپی تھی جیسی آج کل کرکٹ سے ھے – بچے ، بوڑھے اور جوان سب لوگ میچ دیکھنے کے لیے جایا کرتے تھے – کبڈی کا میدان محلہ امیرے خیل کے شمال مشرق میں واقع تھا – اب اس میدان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رھا ، وھاں ایک پورا محلہ آباد ھو گیا ھے –
میچ داؤدخیل ، موچھ ، پائی خٰیل ، روکھڑی اور دوسرے نواحی دیہات کی ٹیموں کے درمیان ھوتا تھا – فتح ھمیشہ داؤدخٰیل ھی کو نصیب ھوتی تھی — بہت بمب ٹیم تھی داؤدخٰیل کی اس زمانے میں – کپتان مظفر خان کے علاوہ عبداللہ خان ولد نورباز خان ربزئی (عرب زئی) المعروف بجلی ، جہانگیر خان ولد علاؤل خان لمے خیل ، محمدامیرخان بہرام خٰیل جو تیز رفتاری کی وجہ سے ھرن کہلاتے تھے ، غلام سرورخان شریف خٰیل (آٹے کی مشین والے) بھچر نام کے ایک بھاری بھرکم نوجوان ، اصل نام پتہ نہیں کیا تھا ، لوگ بھچرھی کہتے تھے – مظفرآرائیں ، المعروف مظفری ملیار ، سمال خیل قبیلے کے ملنگی ، ھرکھلاڑی اپنی مثال آپ تھا – جب کوئی کھلاڑی نمایاں کامیابی حاصل کرتا وہ ڈھولوں اور شہنائیوں کی گونج میں میدان کا چکر لگاتا، لوگ اس سے ھاتھ ملاتے اور اسے نقد انعام دیتے تھے -میچ کے منتظم اور جج امیرے خیل قبیلہ کے بزرگ حبیب اللہ خان ھؤا کرتے تھے – ان سے بھی سینیئر جج ماموں امیر قلم خان تھے ، مگر وہ ماڑی انڈس میں رھتے تھے – داؤدخٰیل بہت کم آتے جاتے تھے –
س دور کے کھلاڑیوں میں سے صرف عبداللہ خان ولد نوربازخان اورجہانگیرخان ولد علاؤل خان منظرعام پر موجود ھیں – عبداللہ خان شوگر کے مرض کی وجہ سے تقریبا معذور ھو چکے ھیں ، جہانگیر خان ملنگ کے روپ میں پھرتے نظرآتے ھیں —– کل من علیہا فان –
فیس بک پر یہ خبر دیکھ کر بہت مسرت ھوئی کہ داؤدخیل میں کبڈی کا شوق پھر سے زندہ ھو رھا ھے – بہت اچھی بات ھے، اس شوق کی حوصلہ افزائی کرکے داؤدخٰیل کی عظمت رفتہ بحال کرنے کی کوشش ضرور ھونی چاھیے –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-5 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
یہ کیا ھو رھا ھے ——؟
حکومت ، اپوزیشن ، میڈیا ، عوام ، سب خواتین مارچ کے ایک قابل اعتراض نعرے “میرا جسم میری مرضی“ پر زورو شور سے بحث میں یوں مشغول ھیں جیسے اس ملک میں کوئی اور مسئلہ ھےھی نہیں ادھر مہنگائی نہ صرف اس وقت آسمان کو چھورھی ھے بلکہ آئی ایم ایف کے مسلط کردہ مشیر خزانہ اورسٹیٹ بنک کے گورنر بار باریہ “خوشخبری “ بھی سنا رھے ھیں کہ مہنگائی ابھی اور بڑھے گی – آئی ایم ایف سے طے شدہ معاھدے کے مطابق تیل ، گیس اور بجلی کی قیمتیں مسلسل بڑھتی رھیں گی – مگر موسم کی تبدیلی کے باعث سبزیوں کی قیمیتیں ذرا سی کم ھوں تو سرکاری ترجمان بھنگڑے ڈالنا شروع کر دیتے ھیں ، کہ دیکھا ، ھماری کامیاب معاشی پالیسیوں کے باعث شلجم کی قیمت پورے دوروپے کم ھو گئی –
بے روزگاری کا یہ عالم ھے کہ ابھی کل ھی ایک خبر نظر سے گذری کہ پچھلے چند روز میں ٹیکسٹائیل کی صنعت کے پانچ لاکھ مزدور بے روزگار ھوگئے ، دوسری صنعتوں سے وابستہ لاکھوں لوگ اس کے علاوہ ھیں —- ان لاکھوں بے روزگار لوگوں کے بچوں کو دووقت کی روٹی کیسےفراھم کی جائے ؟؟؟ حکومت اور عوام دونوں کو اس بات پر غور کرنا چاھیئے –
امن و امان کی صورت حال بھی تشویشناک ھے – لاھور ، کراچی اور اسلام آباد جیسے شہروں میں بھی دن دیہاڑے ڈاکے پڑ رھے ھیں –
مگر ھم ھیں کہ مسلسل بڑھتی ھوئی مہنگائی ، بے روزگاری اور بد امنی کو بھول کر ایک مخصؤص کلچر کی چند خواتین کے ایک متنازعہ نعرے پر آپس میں الجھ رھے ھیں –
اللہ کے بندو، ان خواتین کو روکنا ان کے گھر والوں کاکام ھے – یہ مسئلہ ان کے والدین ، بھائیوں اور شوھروں کا ھے – ویسے جس کلچر کی یہ خواتین نمائندگی کر رھی ھیں ، نعرہ لگائیں نہ لگائیں ان کا کلچر یہی ھے اور یہی رھے گا – سو ڈیڑھ سو خواتین ایک آدھ دن سڑکوں پرپھرتی رھیں تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی – انہیں اپنا شوق پورا کرنے دیں ، اور آپ (حکومت ، اپوزیشن ، میڈیا اور عوام ) مہنگائی ، بے روزگاری اور بے امنی پر توجہ دیں ، یہ مسائل “میرا جسم میری مرضی “ سے کہیں زیادہ خطرناک ھیں –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-6 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
خواتین مارچ کے لیے نعرہ اگر “عورت کو عزت دو“ ھوتا تو اعتراض کی گنجائش بہت کم ھوتی –
“میرا جسم میری مرضی “ جیسے ننگے الفاظ دیکھ کر ھی شرم آتی ھے – کوئی باپ اپنی بیٹی سے ، بھائی اپنی بہن سے اور شوھر اپنی بیوی سے یہ الفاظ سننا گوارا نہیں کرسکتا – اس لیے اس نعرے کے خلاف خاصا سخت رد عمل دیکھنے میں آیا ھے -یہ قیاس بھی غلط نہیں کہ یہ نعرہ باھر سے آیا ھے – منصوبہ یہ ھے کہ لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ھٹا کر پاکستان کی معاشی اور معاشرتی بربادئ کا ایجنڈا جلد ازجلد مکمل کیا جائے – بہت سوچی سمجھی سکیم لگتی ھے – منصوبہ سازجانتے ھیں کہ جب غیرت کو چیلنج کیا جائے گا تو لوگ سب مسائل چھوڑ کر ادھر متوجہ ھو جائیں گے
اسی لیے اس نعرے کے رد عمل میں کل لاھور میں غیرت مارچ اور اسلام آباد میں حیا مارچ بھی ھوگا – عام طور پر یہ دیکھنے میں آرھا ھے کہ بیشتر خواتین بھی اس نعرے کے خلاف ھیں – ان کا مؤقف یہ ھے کہ ھمیں عزت ، وراثت میں حصہ اور جان مال کا تحفظ ضرور چاھیئے ، مگر میرا جسم میری مرضی کہنا تو سراسر فحاشی اور دعوت گناہ ھے – ھم لعنت بھیجتی ھیں ایسی آزادی پر –
دیکھیں کل کیا ھوتا ھے – اللہ خٰیر کرے —————–
پردہ اٹھنے کی منتظر ھے نگاہ-رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-7 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
تصویر کا دوسرا رخ ایک الگ داستان ھے –
ماں کی حیثیت میں عورت کا مقام یہ ھے کہ کائنات کے سب سے معزز انسان جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی رضاعی ماں جنابہ حلیمہ سعدیہ کے بیٹھنے کے لیے اپنی چادر بچھا دیتے تھے ، اور خود فرش پر بیٹھ جاتے تھے –
بیٹی کی حیثیت میں عورت کا مقام یہ ھے کہ وہ نبی اکرم جن کے احترام میں فرشتے بھی کھڑے ھو جاتے تھے اپنی صاحبزادی جناب فاطمتہ الزھرا علیہاالسلام کے استقبال کے لیے اٹھ کھڑے ھوتے تھے –
بیوی کی حیثیت میں عورت سے حسن سلوک کے حوالے سے حجتہ الوداع کے خطبے میں ایک بار نہیں ، تین بار فرمایا : عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو-حضور کا ھر عمل ھمارے لیے مشعل راہ ھے – ماں ، بیٹی اور بیوی کے احترام کا جو معیار حضور نے قائم کیا وھی ھمارے لیے مشعل راہ ھے –
افسوس اس بات کا ھے کہ یہ سب کچھ جانتے ھوئے بھی اکثر لوگ خواتین کو حقیر اور ادنی مخلوق سمجھتے ھیں – ساحرلدھیانوی نے ایک نظم میں کہا تھا :———
عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاھا مسلا کچلا ، جب جی چاھا دھتکار دیا
ا س نظم کا یہ مصرع دیکھ کر تو آنسو روکنا مشکل ھوجاتا ھے —————
عصمت کے بدلے روٹی دی اور اس کو بھی احسان کہا
یاد رکھیے اگر گھر میں رزق ، عزت اور پیار ملے تو عورت کبھی گھر سے باھر قدم نہیں رکھتی –
رب کریم ھم سب کو عورت کی تکریم کی توفیق عطا فرمائے
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-8 مارچ 2020
قدرت کی اک تدبیر علی ،دشمن کے لیے تقدیرعلی,
اسلام کی بالادستی کے ھر خواب کی ھے تعبیرعلی
میرا میانوالی————-
انوارحسین حقی بھی بھری محفل چھوڑ کر چل دیئے
انوارحسین حقی میانوالی کی سیاست ، صحافت ، ثقافت اور ادب کا ایک منفرد کردار تھے – سیاست میں ان کی اھمیت کا اعتراف کرتے ھوئے وزیراعظم عمران خان نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا “انوارحسین حقی اس زمانے سے پی ٹی آئی کا ساتھ دے رھے تھے جب لوگ پی ٹی آئی کا مذاق اڑایا کرتے تھے “-عمران خان کی شخصیت اور سیاست کے بارے میں انوارحسین حقی کی کتاب حال ھی میں شائع ھوئی – یہ کتاب مشاھدے اور تحقیق کا حسین امتزاج ھے –
چکوال کے سابق ڈپٹی کمشنر ڈاکٹرلیاقت علی خان نیازی کی کتاب “تاریخ میانوالی“ کی ترتیب و تدوین میں بھی انوارحقی نے بہت اھم خدمات سرانجام دیں –
انوارحسین حقی مہانوالی کے سینیئرصحافی تھے – مقامی اورقومی اخبارات میں وقائع نگاری کے علاوہ “آج“ ٹی وی کے ڈسٹرکٹ رپورٹر بھی تھے –
ادبی محفلوں میں بھی بھرپور شرکت کرتے تھے – اسلام آباد ، راولپنڈی کےمعروف اھل قلم کے اعزاز میں میانوالی میں محفلیں برپا کرتے رھتے تھے –
انوارحسین حقی تقریبات کے بہت اچھے منتظم بھی تھے –
واضح سیاسی وابستگی کے باوجود انوارحسین حقی ھر مکتب فکر کے لوگوں میں یکساں مقبول تھے – وہ سب کا احترام کرتے تھے ، اس لیے سب ان کا احترام کرتےتھے – ان کی موت نے میانوالی سے ایک دلنشیں شخصیت چھین لی – ان کی وفات پر فیس بک پر بے شمار تعزیتی پیغامات انوارحسین حقی کی ھمہ گیر مقبولیت کا بین ثبوت ھیں –
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
میں ذاتی طور پہ جانتا ھوں کہ انوار حقی ایک غریب خاندان کے فرد تھے – امید ھے وزیراعظم مرحوم کی خدمات مدنظر رکھتے ھوئے ان کے اھل خانہ کو مناسب معاشی سہارا فراھم کر دیں گے -رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-10 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
یہ موسم تو پھولوں، پھلوں اور سیر وتفریح کا موسم ھوتا تھا – دوتین مہینے شدید سردی کے باعث لوگ گھروں سے باھر بہت کم نکلتے تھے – بہار آتے ھی گلیوں ، بازاروں، کھیتوں اور کھیل کے میدانوں میں چہل پہل شروع ھوجاتی تھی – ھر طرف خوشیاں نظرآتیں ، قہقہے سنائی دیتے –
مگراب کی بار کورونا وائرس نام کی بیماری نے خوف و ھراس کی ایسی فضا پیدا کر دی ھے کہ بڑے شہروں میں تو لوگ گھر سے نکلتے ھوئے بھی گھبراتے ھیں – یہ خوف و ھراس ابھی دیہات میں نہیں پہنچا – بہرحال خاصی تشویشناک صورت حال پیدا ھو گئی ھے – اپنی ایک بہت پرانی غزل کا یہ مصرع یاد آ رھا ھے :بہار آئی ، مگر ھم بہار کو ترسے-
آج صبح کی خبر ھے کہ 119 ممالک کورونا وائرس کی لپیٹ میں آچکے ھیں – پاکستان میں بھی کورونا وائرس کے چند کیسز منظرعام پر آئے ھیں — اللہ رحم کرے، ھمارے ھاں تو ابھی تشخیص کی سہولتیں بھی دستیاب نہیں –
فیس بک پر موجود ڈاکٹر دوستوں سے گذارش ھے کہ اس معاملے میں لوگوں کی رھنمائی کریں – بیماری سے زیادہ اس وقت بیماری کے خوف کا مقابلہ کرنا ضروری ھے –
زیادہ خوف و ھراس پڑھے لکھے لوگوں کو لاحق ھے – عام پاکستانی تو اللہ کے فضل سے خاصے بادشاہ لوگ ھیں ،– کہتے ھیں “ آپے آسی تاں ڈیکھ گھنساں“
دعا ھے کہ رب کریم ھمیں اس آفت سے محفوظ رکھے –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-11 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
اللہ معاف فرمائے
کل سوشل میڈیا پر ایک دردناک منظر دیکھ کر آنکھیں بھیگ گئیں –
منظرکل خانہ کعبہ میں نمازجمعہ کا —— نمازیوں کی تعداد بہت کم —– امام کعبہ نمازجمعہ میں سورہ الرحمن پڑھتے ھوئے پھوٹ پھوٹ کر رو رھے تھے —– کہاں اس مقدس مقام پرسارا سال دن رات دنیا بھر سے آئے ھوئے اھل ایمان کا روح پروراجتماع ، اور کہاں یہ چند مقامی لوگوں کی جماعت ، کسی محلے کی مسجد جیسا منظر – مسجد نبوی میں بھی یہی حال —– یا اللہ رحم کورونا وائرس جو کچھ بھی ھے ، کسی انسان کی ایجاد نہیں ، بلکہ عذاب الہی کی ایک شکل ھے – قرآن حکیم میں ارشاد ھؤا تم اللہ کے لشکروں کو نہیں جانتے –
تاریخ شاھد ھے ، کبھی ابابیل جیسے ننھے منے پرندوں کی فوج نے ھاتھیوں کے لشکر کو تباہ و برباد کر دیا – کبھی ٹڈی دل نے مصر میں قیامت بربا کردی – قحط کے باعث ھزاروں لوگ بھوکے مرگئے – تقریبا 400 سال پہلے لندن میں طاعون کی وبا پھیلی – دیکھتے ھی دیکھتے ایک لاکھ لوگ لقمہ اجل بن گئے – ھزاروں بھرے گھر اجڑ گئے –
شکر ھے رب کریم نے انسان کو ایسی ھولناک وباؤں سے نمٹنے کے لیے علم ، عقل اور وسائل بھی عطا کردئیے – چیچک، ھیضہ اور طاعون جیسی مہلک وباؤں کا نام و نشاں بھی باقی نہیں رھا – بالآخر کورونا کا بھی کوئی حتمی علاج دریافت ھوجائے گا – تب تک بہت احتیاط کرنی ھوگی – میڈیا پر آنے والی ڈاکٹڑوں کی ھدائات پرعمل کرنا ھوگا –
ملک بھر میں تعلیمی ادارے تین ھفتوں کے لیے بند کر دیئے گئے ھیں – ھر قسم کے اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی ھے – تشخیص کے مراکز قائم کیے جارھے ھیں – سنا ھے بازار اور مارکیٹیں بھی بند ھو جائیں گی – خوف و ھراس کی عجیب سی فضا بن گئی ھے – اللہ رحم کرے –
میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کہتے ھیں پانچ وقت کا وضو کوروناسے موثر تحفظ فراھم کرتا ھے – اللہ ھمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-14 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
اللہ اکبر—————-
اس پوسٹ میں شامل پکچر امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹوئیٹر پر اپنی قوم کے نام پیغام ھے – کہتے ھیں-
میں قوم سے اپیل کرتا ھوں کہ اتوار 15 مارچ کو یوم دعا سمجھ کر سب لوگ دعا کریں – ھماری قوم کی تاریخ گواہ ھے کہ ھر مصیبت میں ھم اللہ سے مدد کی درخواست کرتے ھیں –
آپ جہاں کہیں بھی ھیں دعا کریں – ھم متحد ھو کر اس مصیبت (کورونا) کو شکست دے سکتے ھیں -اللہ کی عظمت کے اس اعتراف سے یہ بھی ظاھر ھوتا ھے کہ دنیا کی سپرپاور بھی تمام تر طاقت ، علم اور دولت کے باوجود اللہ سے مدد کی محتاج ھے –
دنیا پر حکمرانی کے دعویداروں کی یہ حیثیت ھے تو ھم کس قطاروشمار میں ھیں ، نہ علم ، نہ دولت ، نہ طاقت ، اللہ کے سوا ھر در سے بھیک مانگنے والے –
چلیں آج مصیبت کے وقت تو اس دروازے پر بھی دستک دے کر دیکھ لیں – اب تو جنہیں ھم کافر کہتے ھیں وہ بھی اسی در پہ جھولی پھیلائے کھڑے ھیں –
سبحان اللہ و بحمدہ ، سبحان اللہ العظیم
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-15 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
موسم کی مناسبت سے چند اور موضوعات پہ لکھنا تھا ، مگر کورونا درمیان میں ٹپک پڑا – جدھر دیکھو کورونا ھی گفتگو کا موضوع ھے – ٹیلی ویژن کا ھر چینل اسی حوالے سے خبریں ، معلومات اور ٹاک شو دکھا رھا ھے ٠ ٹویٹر پر چٹ پٹی ، مسالے دار سیاسی باتیں ھؤا کرتی تھیں ، پٹواریوں اور یوتھیوں کی دلچسپ نوک جھونک دیکھنے میں آتی تھی – دونوں طرف سے نت نئی گالیاں اور جگتیں دیکھنئے سننے میں آتی تھیں – فون پر لوگ اپنے دوستوں رشتہ داروں سے غیر سیاسی گپ شپ لگایا کرتے تھے – اب یہ سب مشغلے فی الحال معطل ھیں – البتہ کورونا کے حوالے سے ناقص اور ناکافی اقدامات پر حکومت کی دھلائی ھر سطح پر ھو رھی ھے -کورونا سے نمٹنے کے لیے سندھ حکومت کے اقدامات کی تعریف ھورھی ھے – پنجاب کے وزیراعلی بزدارصآحب سائیں سرکار قائم علی شاہ کی طرح اللہ لوک آدمی ھیں – انہیں روزانہ یاد دلانا پڑتا ھوگا کہ سر، کورونا نام کی وبا ملک میں تیزی سے پھیل رھی ھے – لگتا ھے ابھی تک تو وہ یہ سمجھ ھی نہیں سکے کہ کورونا اچھی چیز ھے یا بری- اس خبر پر خوش ھونا ھے ، یا ایکشن لینا ھے – نتیجہ یہ ھے کہ لاھور کے کسی ھسپتال میں بھی اب تک کورونا کا علاج تو کجا ، تشخیص کی مناسب سہولتیں بھی فراھم نہیں کی جا سکیں – وہ تو اللہ کا شکر ھے کہ پنجابی خاصی سخت مٹی کے بنے ھوئے ھیں ، اس لیے کورونا کی رفتار یہاں خاصی سست ھے –
سکول کالج بند ھیں – دفتربھی بند ھو رھے ھیں – یہ جبری چھٹیاں ٹیچرز ، سٹوڈنٹس اور ملازمین کو بہت وارے میں ھیں ، ٹیچرز اور دوسرے سرکاری ملازمین کو تو گھر بیٹھے تنخواہ ملتی رھئے گی – دیہاڑی دار مزدوروں کا کیا بنے گا – کورونا کی وجہ سے تعمیراتی کام بھی ایک ایک کرکے بند ھورھے ھیں – اللہ رحم کرے ، عجیب صورت حال ھے ھر طرف –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-16 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
ابھی کچھ لوگ باقی ھیں جہاں میں
سندھ کے وزیراعلی سید مراد علی شاہ کا یہ بیان دیکھ کر دل خوش ھوگیا
کرونا کے مریضوں کے ایک مرکز میں مریضوں سے خطاب کرتے ھوئے وزیراعلی نے کہا :ھم جانتے ھیں کہ آپ کمانے والے لوگ ھیں – مگر اس وقت آپ اپنے گھر والوں کی روزی روٹی کی فکر نہ کریں ، یہ کام ھم پر چھوڑ دیں – آپ کے گھر والوں کو راشن اور دوسری ضروریات ھم فراھم کریں گے – آپ فی الحال صرف اپنی صحت پر توجہ دیں –
اللہ مرادعلی شاہ کو بے حساب جزائے خیر عطا فرمائے – ادھر باقی تین صوبوں کے مریضوں کا حال دیکھ کر حیدرعلی آتش کا یہ شعر یاد آتا ھے ———–:
مری نماز جنازہ پڑھی ھے غیروں نے
مرے تھے جن کے لیئے وہ رھے وضوکرتے
کوئی بھی حکمران فرشتہ نہیں ھوتا ، لیکن جو حکمران مصیبت میں عوام کا خیال رکھے ، اس کی قدر کرنی چاھیئے –
کرونا کا ذکر بہت ھو چکا – کل سے ان شآءاللہ دوسرے موضوعات پر لکھنا شروع کروں گا –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-17 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
یہ موسم شادیوں کا موسم ھؤا کرتا تھا – گندم کی فصل اٹھانے کے بعد کچھ گندم بیچ کر لوگ بچوں کی شادیاں کرتے تھے – بہت سادہ سی شادیاں ھوتی تھیں – بچیوں کوجہیزمیں دوتین تولے سونے کا زیور ملتا تھا ، یہ زیور عام طور پر بچی کی ماں اپنے جہیز کے زیورکو تڑوا کر بنوا لیتی تھی – چاندی کے کڑے ، ھار اور پازیبیں (پنج زیب) دینے کا رواج بھی عام تھا – زیور کے علاوہ دو چارپائیاں ، دوبستر، کالاباغ کی بنی ھوئی کڑاھی ، چمچہ (شپیتا) توا، تین ٹانگوں والا چولہا ، دوچار برتن ، کپڑوں کے دوچار جوڑے اور ایک لوھے کا ٹرنک (بکس) بھی جہیز میں ملتا تھا – یہ سب سامان دوتین ھزارمیں آجاتا تھا – (سونا اس وقت 60 / 70 روپے تولہ تھا) –
دولہا کا لباس سفید شلوار ، قمیض ، سفید ململ کی پگڑی اور کالاباغ کی بنی ھوئی فرمے والی کھیڑی پر مشتمل ھوتا تھا – ولیمہ سمیت شادی کا کل خرچ دوتین ھزار بنتا تھا -کہاں وہ دور، اور کہاں آج کا دور – ابھی پچھلے دنوں ھمارے ایک سابق چیف جسٹس المعروف ڈیم والے بابا نے بیٹے کی شادی پر چار پانچ کروڑ روپیہ پھونک دیا – اللہ معاف کرے -“
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-18 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
بارات میں دولہا، اس کے والدین ، رشتہ دار اور دوست جاتے تھے – اگر شادی ساتھ والے گھرمیں ھوتی تو دلہن کو ایک چادر پر بٹھا کر چاروں کونے چار آدمی پکڑ کر دلہن کو سسرال پہنچا دیتے – اگر شادی دوسرے محلے یا ساتھ والے گاؤں میں ھوتی تو دلہن کو اونٹ پر کچاوے میں بٹھا کر بارات کے ھمراہ لے جاتے – اونٹ کو اس موقع پر گھنگھرو، ھار وغیرہ پہنا کر خوب سجایا جاتا – ایک آدھ ڈھول شہنائی بھی بارات کے ساتھ ھوتی تھی — دولہا کے سسرال پہنچ کر ڈانس (گھمر) بھی ھوتا تھا – بارات کو کھانا بھی کھلایا جاتا تھا–کچاوے میں بیٹھنے کے لیے تلائی یا رضائی بچھائی جاتی – دلہن کے ھمراہ اس کی ساس ، نندیں، ایک آدھ بہن یا بھابھی بھی کچاوے میں بیٹھتی تھی – دلہن کا جہیز لے جانے اور دوسری خواتین کی سواری کے لیے دو تین اونٹ اور بھی بارات میں شامل ھوتے تھے –
کاریں دیہات میں ھوتی نہیں تھیں – گھوڑی پر بٹھانے کا رواج شہروں میں تھا – دیہات میں دولہا بارات کے ھمراہ پیدل آتا جاتا تھا ، یوں اسے پہلے دن ھی اپنی اوقات کا پتہ چل جاتا تھا –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-19 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
ماضی کی خوبصورت روایات کے بارے میں لکھنے میں بھی لطف محسوس ھوتا ھے پڑھنے میں بھی – مگر آج کل جن نازک حالات سے ھم گذر رھے ھیں ان کا ذکر بھی بہت ضروری ھے – فیض صاحب نے بھی کسی ایسی ھی صورت حال کے حوالے سے کہا تھا
لوٹ جاتی ھے ادھر کو بھی نظر کیا کیجےکورونا سے موت بے شک بہت بڑا المیہ ھوتی ھے ، مگر اس سے بھی بڑا المیہ موت سے بدتر زندگی ان لوگوں کی ھے جو کورونا کے مریض تو نہیں ، مگر اس وبا کی وجہ سے روٹی روٰزی سے محروم ھو گئے ھیں – روزانہ اجرت پہ کام کرنے والے یہ دیہاڑی دار مزدور ان دنوں روزگار سے محروم ھیں کیونکہ دوسرے روزمرہ کاروبار کی طرح تعمیراتی کام بھی رک گئے ھیں –
یہ مزدورپیشہ لوگ صبح سویرے بیلچے اور کوپرے وغیرہ لے کر کسی مخصوص جگہ جمع ھوتےتھے – تعمیراتی کام کروانے والے لوگ آکر دودوتین مزدوروں کوکام کے لیے لے جاتے تھے – میانوالی میں ریلوے سٹیشن کے باھرمین بازار کے سرے پر ان کا ٹھکانہ ھؤا کرتا تھا، شاید اب بھی ھو – اس طرح کے ٹھکانے دوسرے شہروں میں بھی ھوں گے –
ٹھکانے ھوں نہ ھوں ایسے لوگوں کو تلاش کرکے ان کی مدد کرنا اب ھماری ذمہ داری ھے – یہ خوددار لوگ بھیک مانگنے آپ کے در پہ نہیں آئیں گے ، اب آپ کو ان کے در پہ جانا ھوگا ، کیونکہ حاجت مند صرف یہ لوگ نہیں ، آپ بھی ھیں – کیا آپ یہ نہیں چاھتے کہ آپ کی جان ، مال اور اھل و عیال کی حفاظت اور آپ کے رزق میں خیروبرکت اللہ اپنے ذمے لے لے ِ ؟
سرکار دوعالم نے مزدور کو “الکاسب حبیب اللہ“ کہا تھا جس کے معنی ھیں مزدوراللہ کا دوست ھے – اللہ کے ان دوستوں کی مدد کر کے دیکھیے اللہ آپ پہ کتنا مہربان ھوتا ھے –
اپنے قریبی دوستوں کی ایک انجمن بنا کر بے روزگارمزدوروں کے گھروں میں راشن مہیا کرنا مشکل کام نہیں – صرف احساس کی ضرورت ھے – کندیاں میں “ یاربیلی“ نام کی تنظیم یہی کار خیر سرانجام دے رھی ھے – بلوخیل کے سی ایس پی افسر خان شاہ رخ پکھی واس بھی ایسی ھی ایک تنظیًم چلا رھے ھیں – ڈاکٹر حنیف نیازی بھی ادھر متوجہ ھوں – عصمت گل خٹک صآحب بھی ایسی تنظیم بنائیں ، سب لوگ حتی الوسع یہ کارخٰیر سرانجام دیں –
یاد رکھیے یہ جو قرآن حکیم میں باربار کہا گیا ھے اللہ کو قرض دو ، آپ جو کچھ ان بے روزگار لوگوں کو دیں گے وہ بھی اس قرض کی ایک صورت ھے – آگے آپ کی مرضٰی –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-21 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
کارخیر کی ایک اچھی مثال – بے روزگار اوربے سہارا مزدوروں کی مدد کے لیئے آپ بھی اپنے علاقے میں اس قسم کی تنظیم بنا کر اللہ کی رضا حاصل کر سکتے ھیں۔
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-22 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
-IMPORTANT
اٹلی میں کورونا سے تباھی اس لیئے ھوئی کہ حکومت نے وقت پر لاک ڈاون نہیں کیا۔ صرف 18 دن بعد حالات قابو سے بابر ھوگئے ۔ اٹلی کے وزیراعظم نے خود اعتراف کیا کہ ھم نے لاک ڈاون کرنے میں بہت دیر کر دی –
ان کے پاس تو بہترین ڈاکٹر اور طبی سہولتیں بھی ھیں۔ ھمارے پاس کیا ھے۔ خدارا لاک ڈاون میں دیر نہ کیجیئے۔ مزدوروں کے لیے آپ کے پاس زکوات فنڈ بھی ھے ، بیت المال بھی ۔ عوام اپنے طور پربھی بے
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-22 مارچ 2020
مقام سدرہ پہ جبریل رک گئے کہہ کر ،
حضور آپ ھی جائیں، مری مجال نہیں
میرا میانوالی———— میرا پاکستان
تو سلامت رھے ، تا قیامت رھے میرے پیارے وطن
آج 23 مارچ ھے – یہ دن تاریخ میں یوم پاکستان بھی کہلاتا ھے ، یوم جمہوریہ بھی –
یوم پاکستان اس لیے کہ 23 مارچ 1940 کو برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے لیے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کیا-
یہ دن یوم جمہوریہ اس لیے کہلایا کہ 23 مارچ 1956 کو پاکستان کا پہلا آئین منظور ھؤا ، جس میں پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام دیا گیا —
ھر سال یہ دن بڑی شان و شوکت سے منایا جاتا تھا، ملک بھر میں ھر سطح پر تقریبات کا اھتمام کیا جاتا تھا ، مگر آج —————– اللہ معاف کرے
کورونا کی وجہ سے ھم سب اپنے اپنے گھروں میں محصور ھیں – اللہ جانے کب تک یہ صورت حال رھے
اے خاصہء خاصان رسل وقت دعا ھے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ھے
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-23 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
-انجوائے ———– !!!!!!
کورونا کے باعث پابندی کے باوجود وادی ء کالام کی سیر کے لیے جانے والے سیاحوں کو وھاں کی پولیس سیر کروا رھی ھے 😄–
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-23 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
500 سال بعد سپین میں اذان کی آواز گونج اٹھی
اللہ اکبر، اللہ اکبر
اشہدان لآالہ الااللہ
500 سال بعد سپین کے شہر غرناطہ میں ایک بار پھر اذان کی آواز گونج اٹھی –
سپین یورپ کا وہ ملک ھے جہاں تقریبا 800 سال مسلمانوں کی حکومت رھی – 711 میں مشہور مسلمان جرنیل طارق بن زیاد کی آمد سے سپین میں مسلمانوں کی حکومت قائم ھوئی – تقریبا 780 سال بعد مسلمان حکمرانوں کی نااھلی کی وجہ سے یہاں ایک بار پھر 1492 میں عیسائیوں کا تسلط قائم ھوا ، جو آج تک برقرار ھے –
آج سپین کورونا کی وبا کے باعث عذاب میں مبتلا ھے – یورپ میں اٹلی کے بعد سپین سب سے زیادہ اس وبا سے متاثر ھؤا – ھزاروں لوگ مر چکے ھیں ، ھزاروں زیر علا ج ھیں – روک تھام کی تمام تر کوششوں کے باوجود وبا جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی چلی جارھی ھے
ھر جانب آہ وزاری کی آوازوں کے درمیان کل (500 سال بعد) اچانک سپین کے شہرغرناطہ کی مسجد البیضا سے اذآن کی آؤاز گونج اٹھی – انسانی کوششوں کو بے بس دیکھ کر کسی نے اللہ کو پکارنا شروع کیا – اس کے بعد شہر کے تمام لوگ بآواز بلند اذان دہرانے لگے – شہر , اشہدان لآالہ الااللہ – اشہدان محمدرسول اللہ کے اعلان سے گونج اٹھا –
اللہ بہت بے نیاز ھے – وہ ھماری دعاؤں اور فریادوں کا پابند نہیں – مگر وہ رحیم و کریم بھی ھے – اذیت میں مبتلا کافر بھی اس کو پکارے تو اس کی بھی مدد کرتا ھے -آئیے دعا کریں کہ رب کریم ان لوگوں کی بے بسی پر ترس کھا کر انہیں بھی اس اذیت ناک عذآب سے نجات دے اور ھمیں بھی اس سے محفوظ رکھے
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-24 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
کیسی گذر رھی ھے رضاکارانہ قید تنہائی ———
بہت سے لوگ تو پہلے بھی سارا دن اکیلے بیٹھ کر سمارٹ فون سے کھیلتے رھتے تھے – دوستوں سے گپ شپ کا نشہ اور سیاسی توتومیں میں کی ٹھرک بھی اسی سے پوری کر لیتے تھے – ستم تو یہ ھے کہ کئی لوگ گھربیٹھے ھوئے بھی سمارٹ فون سے کھیلتے رھتے ھیں – گھر والوں سے بات چیت بھی نہیں کر سکتے – اب کچھ وقت گھر والوں کو بھی دے دیا کریں -اس مشکل وقت میں کچھ دیر اللہ تعالی سے بھی رازونیازکی باتیں کر لیا کریں – نماز، تلاوت قرآن حکیم اور تسبیح و اذکار سے دل کو بہت سکون ملتا ھے – کیوں نہ ملے ، اللہ کا اپنا وعدہ ھے اور وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا – کریم اتنا ھے کہ مانگو تو خوش ، نہ مانگو تو ناراض – مانگتے رھیے، اپنے لیے بھی ، دوسروں کے لیے بھی – جو مسائل آپ کی کوششوں سے حل نہ ھوئے ، دعا سے حل ھو سکتے ھیں – ایمان اور خلوص شرط ھے –
چارپائی پر بیٹھے بیٹھے حکم چلانے کی بجائے تھوڑا بہت کچن کا کام بھی سیکھ لیں – یہ بھی ایک فن ھے – ھمارے جگرحاجی اکرام اللہ خان آج کل یہی کام کر رھے ھیں – کالج میں ھمارے سٹوڈنٹ رھے ، اب میانوالی جا کر ھم ان کے کچن کے سٹوڈنٹ بنیں گے –
خوش رھیں ، خوش رکھیں ، اللہ ھم سب کا حافظ و ناصر ھو –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-25 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
آج کی اذیت ناک صورت حال میں آغاحشر کاشمیری کی تقریبا 100 سال پہلے لکھی ھوئی یہ دعا ھمارے قومی احساس کی ترجمان ھے—
آہ جاتی ھے فلک پر رحم لانے کے لیے
بادلو، ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لیے
اے دعا ھاں عرض کر عرش الہی تھام کے
اے خدا اب پھیر دے رخ گردش ایام کے
رحم کر، اپنے نہ آئین کرم کو بھول جا
ھم تجھے بھولے ھیں لیکن تو نہ ھم کو بھول جا
خلق کے راندے ھوئے دنیا کے ٹھکرائے ھوئے
آئے ھیں اب در پہ تیرے ھاتھ پھیلائے ھوئے
خوار ھیں ، بدکارھیں، ڈوبے ھوئے ذلت میں ھیں
کچھ بھی ھیں لیکن ترے محبوب کی امت میں ھیں
حق پرستوں کی اگر کی تو نے دلجوئی نہیں
طعنہ دیں گے بت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-26 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
-یزیدیت ھوس اقتدارودولت وجاہ،
حسینیت ھے فقط لآ الہ الا اللہ
—سلام یاحسین
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-27 مارچ 2020
—آج کی دعا
ربناولاتحملنامالا طاقتہ لنا بہ۔
اےھمارےرب ھم پرایسابوجھ نہ ڈال جو ھماری طاقت سے زیادہ ھو
–البقرہ–
-سلام یاحسین —–
صبر کی زندہ مثال
استقامت باکمال
جاں نثاری بن گئی
سنت ابن علی
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-27 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
کل ایک خبر اور پکچر دیکھ کر دل لرز اٹھا –
مردان کا واقعہ ھے – 8 سالہ معصؤم بچی ماھا کوئی چیز لینے کے لیے گھر سے باھر گئی اور واپس نہ آئی – دوسرے دن اس کی بوری میں بند لاش ایک نالے سے برآمد ھوئی -پاک سرزمین پر یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں- پچھلے دوتین سال سے ایسے واقعات مسلسل ھو رھے ھیں – سینکڑؤں معصوم بچے زیادتی کا شکار ھوکر موت کی وادی میں اتر گئے – ھمارا لولا لنگڑا قانون اورمفلوج نظام انصاف قاتلوں کو سزا دینا تو کجا ، تلاش بھی نہ کر سکا –
پچھلے دنوں بچوں سے زیادتی اور قتل کے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کی بات چلی تو ھمارے نام نہاد لبرل طبقے کی چیاؤں چیاؤں آسمان کو چھونے لگی – انسانی حقوق کا واویلا شروع ھوگیا – قاتلوں کے انسانی حقوق کے پاسبان میدان میں آگئے – کیا معصؤم بچی زینب ، ماھا اور ان جیسے سینکڑوں معصوم مقتول بچوں کے کوئی انسانی حقوق نہیں تھے ؟؟؟؟ کیا ان کو جینے کے حق سے محروم کرنے والے ھی انسانی حقوق کے مستحق ھیں — قرآن تو صاف کہتا ھےکہ جو کسی کو جینے کے حق سے محروم کردے اسے جینے کا کوئی حق نہیں – اس کی سزا موت ھے –
دل میں ٹھنڈ پڑ گئی سعودی عرب میں ریپ (زنابالجبر) کے تین مجرموں کی سرعام سزا ئے موت کے منظر کا ایک مووی کلپ دیکھ کر – تینوں مجرموں کو زمین پر دوزانو بٹھایا گیا – جلاد ایک لمبی تیزدھار تلوار اٹھائے آگے بڑھا اور ایک ھی وار میں پہلے آدمی کا سرتن سے جدا کردیا ، ابھی وہ تڑپ رھا تھا کہ دوسرے اور پھر تیسرے مجرم کا سر بھی قلم کردیا – بہت سے لوگ یہ منظر دیکھ رھے تھے –
کاش ۔ کاش ، کاش یہی دستور ھمارے ھاں بھی رائج ھوتا تو سینکڑؤں معصؤم بچوں کی جان بچ جاتی – ایک دو مجرموں کو اس طرح سرعام سزا دی جاتی تو کوئی مائی کا لال بچوں سے زیادتی اور قتل کی جراءت نہ کر سکتا –
خدارا مظلوم بچوں کو انصآف دیں – اللہ کے قہر سے ڈریں ، ورنہ نہ تخت بچے گا نہ تاج ، جج ، جرنیل، سیاست دان ، ڈاکٹر ، وکیل ، ٹیچر کوئی بھی باقی نہیں بچے گا – کچھ بھی باقی نہیں رھے گا –
کورونا کو خطرے کی گھنٹی سمجھیں – !!!!!
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک- 28 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
لمن الملک الیوم
بتاو آج حکومت کس کی ھے ؟
— القرآن —
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-28 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
-السلام علیکم میری اھلیہ شفا انٹرنیشنل ھسپتال اسلام آباد میں داخل ھیں۔ آج ان کا ڈایئلیسز ھورھاھے- دعاوں کی استدعا ھے۔
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-30 مارچ 2020
میرا میانوالی————-
-اللہ کے فضل سے ڈائیلیسز دو مراحل میں مکمل
ھو گیا۔ اب اینجیو گرافی ایک آدھ دن میں ھوگی۔ مزید دعاوں کی درخواست ھے، جزاکم اللہ الکریم
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-31 مارچ 2020