منورعلی ملک کے اکتوبر 2021 کےفیس بک پرخطوط

 

میرا میانوالی–

ناصرکاظمی نے کہا تھا ———–
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھا تھا
ناصر نے تو کسی اور حوالے سے یہ بات کہی تھی ، مجھ پر اللہ کا یہ خصوصی کرم ہوا کہ میری شاعری کا آغاز ہی نعت سے ہوا – میں نے تو کبھی شعر کہنے کا سوچا ہی نہ تھا – شاعری سے دلچسپی صرف پڑھنے تک محدود تھی – لیکن جس اللہ نے مجھے شعر کہنے کی صلاحیت عطا کی تھی ، اس نے اس صلاحیت کے استعمال کے وسائل اور مواقع بھی فراہم کر دیئے – 1970 کا یہی موسم تھا ، اچانک نعت کے یہ دو شعر وارد ہوئے جو میں نے لکھ لیئے –
گَردِ رہِ حجاز ہے
میری تمام کائنات
میں بھی تو اک غلام ہوں
مجھ کو بھی ہیں توقعات
چند اور شعر بھی تھے – اس نعت کے کچھ عرصہ بعد غزل کے کچھ شعر وارد ہوئے – اہم بات یہ ہے کہ مجھے شاعری پر محنت کبھی نہیں کرنی پڑی – خود بخود ہوگئی تو ہوگئی ، ورنہ میں نے شعر کہنے کی کوشش کبھی نہیں کی – یہ کچھ ایسا ہی معاملہ ہے جیسے پودوں پر پھُول یادرختوں پر پھل خود بخود لگتے ہیں ، اس میں پودے یا درخت کی کوئی کوشش نہیں ہوتی-
پہلی نعت کے کچھ عرصہ بعد غزل کے چند شعر وارد ہوئے – وہ بھی اچانک ، کسی کوشش کے بغیر – اس غزل میں ایک سیاسی شعر بھی تھا – الفاظ کچھ یوُں تھے –
خدا کا شُکر ، کنارے پہ آلگی کشتی
کہ ناخُدا سے تو خطرہ رہا سفینے کو
ایک شعر آپ کے کام کا بھی تھا ————
حسیں لبوں پہ تبسم بھی ایک بوجھ سہی
بس اک لکیر سی کافی ہے میرے جینے کو
میری ابتدائی شاعری الفاظ کی حد تک کچھ مشکل تھی ، مگر میری شاعری میں کوئی شعر بے معنی نہیں ہوتا – میں صرف غزل پُوری کرنے کے لیئے دس ، بارہ ، پندرہ شعر زبردستی گھڑنے کی کوشش نہیں کرتا – اس لیئے میری اکثر غزلیں پانچ سات اشعار پر مشتمل ہیں –
یہ تعارفی باتیں کہنے کے بعد آگے چل کر اپنی شاعری کا مکمل تعارف کراؤں گا – آپ کے ذہن میں جو سوالات ہیں ان کابھی مجھے اندازہ ہے ، ان شاءاللہ دوچار پوسٹس میں سب کُچھ کہہ دوں گا –
———————– رہے نام اللہ کا—بشکریہ-منورعلی ملک-1اکتوبر2021

میرا میانوالی–

نعت لکھنے کی سعادت اللہ کریم کا خاص احسان ہے ، کیونکہ ————
نعت لکھنے کی بھی توفیق وہی دیتا ہے
میری نعت روایت سے ہٹ کر دل کی باتیں ہوتی ہیں ، جو میں اپنے آقا علیہ السلام کے ساتھ شیئر کرتا ہوں – کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دل بہت زیادہ اُداس ہو ، ہر طرف اندھیرا نظر آئے تو اچانک نعت روشنی کی کرن بن کر ذہن میں اُترتی ہے اور دل و دماغ کو منور کر دیتی ہے – دُکھ کی جگہ دل کو سکون مل جاتا ہے –
نعت کا شعر خیال کی صورت میں وارد ہوتا ہے ، اور مناسب الفاظ خود بخود آکر اپنی اپنی جگہ ادب سے بیٹھ جاتے ہیں – کوئی کوشش ، کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی – میری ایک نعت کا یہ شعر دیکھیئے —
فرشِ زمیں سے عرشِ بریں تک ، عرشِ بریں سے عرش نشیں تک
راہ نُما ہے آپ کی چاہت ، صلی اللہ علیک وسلم
ایک اور نعت کا شعر ہے
اکِ بے نوا فقیر کی پہچان نعت بن گئی
میرے تو صرف لفظ ہیں ۔ حُسنِ کلام آپ کا
یہ شعر سرکارِ دوعالم کے فیض کی عکاسی کرتا ہے ——
جوکُچھ بھی ملا مجھ کو ، اُس در سے ملا مُجھ کو
جینے کا سلیقہ بھی ، مرنے کا قرینہ بھی
نعت کا ذوق میری امی کی وراثت ہے – وہ ہروقت کوئی نہ کوئی نعت گُنگُناتی رہتی تھیں – اسی حوالے سے میں نے ایک نعت میں کہا —————-
یہ آغوشِ مادر کا فیضان ہے ، میں کسی اور کو رہنما کیسے مانُوں
مری تربیت ہی کُچھ ایسی ہوئی ہے ، مُجھے ایک ہی دَر دِکھایا گیا ہے
لالا عیسی خیلوی کی آواز میں میری ایک نعت بہت مقبول ہوئی – یہ ایک خاص وقت میں خاص مقام پر وارد ہوئی ——- دریا کا کنارا ، سحر کا وقت —- میں اُس رات جناب انجم جعفری کی دعوت پر ماڑی انڈس سکول میں مقیم تھا – علی الصبح سکول سے باہر دریا کے کنارے پہچا تو اچانک دِل بھر آیا ، آنکھوں سے آنسُو بہہ نکلے اور نعت کے شعر وارد ہونے لگے – ذراسی دیر میں نعت مکمل ہو گئی تو میں نے واپس کمرے میں آکر ڈائری میں لکھ دی – نعت کا پہلا شعر تھا ——
یہ تیرا چہرہ، یہ تیری زُلفیں ، یہ صبح آقا ، یہ شام آقا
درود آقا ، سلام آقا ، سلام خیر الانام آقا
اپنی نعتوں کے بارے میں کُچھ اہم باتیں ان شاءاللہ کل بتاؤں گا –———————– رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-2اکتوبر2021

میرا میانوالی–

بحمداللہ تعالی ، بارگاہِ رسالت مآب میں اپنی نعت کی قبولیت کی اطلاع مختلف حوالوں سے ملتی رہتی ہے –
ہمارے ساتھی پروفیسرشیخ گُل محمد حج پر گئے تو روضہء رسولِ اکرم کے سامنے میری نعت کا ایک شعر اُن کی زباں پہ آگیا ، اور وہ بار بار یہی شعر پڑھتے رہے – شعر تھا —-
مرے شوقِ سجدہ کو آستاں ، مری بندگی کو خُدا دیا
مرے ہم نشیں تجھے کیا خبر کہ مجھے حضور نے کیا دیا
شعر دیکھنے میں عجیب سا لگتا ہے ، مگر بات سو فی صد درست ہے ، ہمیں تو حضور ہی نے بتایا کہ تمہارا رب اللہ ہے ، اُسی کو سجدہ کرو ، جبریل نے یہ باتیں ہمیں براہِ راست تو نہیں آکر نہیں بتائیں – ہمیں تو ایمان ، قرآن ، سب کُچھ حضور ہی سے ملا-
میرے محترم دوست واں بھچراں کے حاجی ملک احمد نواز صاحب عُمرے کے لیے گئے تو واپس آکر مجھے فون پر بتایا کہ ملک صاحب مبارک ہو ، آپ کی نعت دربارِ رسالت مآب میں قبول ہوئی ، میں نے پُوچھا وہ کیسے ؟ —– کہنے لگے جب میں روضہ ء رسالت مآب کے سامنے پہنچا تو آپ کی نعت کا شعر یاد آگیا – پھر مجھے ہوش نہ ریا ۔ بار بار یہ شعر پڑھتا اور روتا رہا – شعر یہ تھا –
بے طلب اتنا ملا مُجھ کو کہ اب کیا مانگُوں ؟
اب تو آقا تری رحمت سے حیا آتی ہے
کہتے ہیں یُوں لگتا تھا یہ شعر مجھ سے باربار پڑھوایا جا رہا ہے –
اللہ اکبر ————— یہ تو کرم ہے اُن کا وگرنہ مُجھ میں تو ایسی بات نہیں
پیل ضلع خوشاب کے پیرزادہ فاروق سید مدینہ منورہ میں رہتے ہیں ، وہ ہر ہفتے دربارِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں میری نعت پیش کرتے ہیں – اُن کا بڑا احسان ہے ، اللہ کریم اُن کو بے حساب جزائے خیر عطا فرمائے –
ایک نعت میں میں نے کہا تھا ——
اُداس راتوں میں چشمِ تر کے دیئے جلا کر میں منتظر ہوں،
مری غریبی کی لاج رکھ لیں ، کبھی تو تشریف لائیں آقا
خود تو تشریف نہ لائے ، مجھے بُلا لیا ، بالکل اچانک پروگرام بن گیا – میرے تو خواب و خیال میں بھی نہ تھا – وہاں جا کر جو واقعات و تجربات پیش آئے وہ پچھلے سال ایک پوسٹ میں لکھ چُکا ہوں –
میری نظر میں نعت اللہ کے حضور میں ایک درخواست ہوتی ہے ، جس میں ہم اپنے دُکھ ، حسرتیں اور مطالبات لکھ کر سفارش کے لیئے آقا کے سپرد کرتے ہیں – وہ تو سراپا رحمت ہیں ، سفارش سے کسی کو بھی انکار نہیں کرتے –
نعت کے بارے میں یہی کافی ہے- اللہ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے – کل سے اپنی غزل کا تذکرہ شروع کروں گا ، ان شآءاللہ –
——————– رہے نام اللہ کا ———————
پکچر۔۔۔۔۔ دربار رسالت مآب میں حاضری—بشکریہ-منورعلی ملک-3اکتوبر2021

میرا میانوالی–

غزل شاعری کی بہت کثیرالجہت قِسم ہے – صرف دو مصرعوں میں مکمل خیال ، واقعہ یا کہانی بیان کرنا غزل ہی میں ممکن ہے – ہر شعر کا الگ موضوع، عشق ، فطرت ، سیاست ، رویئے سب کچھ ایک ہی غزل میں سمیٹا جا سکتا ہے –
میں نے پڑھا تو غزل کے تمام جدید شاعروں کو ہے لیکن زیادہ متاثر ناصرکاظمی ، شکیب جلالی اور محسن نقوی سے ہوا – ناصر کاظمی کی طرح چھوٹی بحر میں میری کئی غزلیں بہت کامیاب غزلیں ہیں – ناصر کاظمی کے انداز کی ایک غزل کے یہ شعر دیکھیئے –
آج کوئی اُس سے یہ پُوچھے
اُس نے مجھ میں کیا دیکھا تھا
اس شعر کا منظر دیکھیے ————-
پیاسی ماں کی لاش سے بچہ
ٹھنڈا پانی مانگ رہا تھا
اور اسی غزل کا یہ شوخ رنگ کا شعر ——-
چُوڑی کے ٹُکڑے سے اُس نے
اپنے ہاتھ پہ “م“ لکھا تھا
اس وقت بجلی نہیں ہے ، لیپ ٹاپ چارجنگ مانگ رہا ہے – اس لیئے فی الحال یہی کافی سمجھیں – باقی باتیں ان شآءاللہ کل –
———————– رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-4اکتوبر2021

میرا میانوالی–

ناصر کاظمی نے کہا تھا ————-
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
اسی انداز کی میری غزل کے یہ شعر دیکھیئے –
دِل دھڑکنے کا سبب کوئی نہیں
پہلے تُم تھے ، مگر اب کوئی نہیں
سانس لینے کو ذرا بیٹھے ہیں
کُچھ نہ مانگیں گے، طلب کوئی نہیں
کیوں رہیں شہر میں اب دیوانے
چھیڑنے والا ہی جب کوئی نہیں
بے نیازی کا یہی تاثر اس غزل میں آخر تک برقرار رہتا ہے ——–
فیض صاحب کے انداز میں میری ایک غزل کے یہ شعر دیکھئے ——
تری راہ میں نہ ٹھہر سکے ، تجھے شرمسار نہ کر سکے
وہ جو گھر سے سوچ کے آئے ہم ، سرِرہگذار نہ کر سکے
مرے ہمسفر بھی عجیب تھے، کہ نہ رُک سکے مرے واسطے
وہ مجھے بُھلا نہ سکے مگر، مرا انتظار نہ کر سکے
کئی نیک لوگ حریفِ آتشِ جسم ہو نہ سکے ، مگر
فقط اِک نظر کا مطالبہ ، یہ گُناہ گار نہ کر سکے
انداز جس کا بھی ہو ، خیال ہمیشہ میرا اپنا ہوتا ہے – کسی کا خیال چوری کرنا میری نظر میں بہت بڑا جُرم ہے – یہ الگ بات کہ کبھی ایک آدھ شعر میں وہ بات آجائے جو پہلے کسی اور شاعر نے بھی کہی ہو ، لیکن جان بُوجھ کر کسی دُوسرے شاعر کے خیال پر ڈاکہ دونمبر شاعری ہی کہلائے گا –
ناصر کاظمی تو میرتقی میر کی طرح بہت سادہ الفاظ میں شعر کہتے تھے – میری شاعری کے الفاظ ترقی پسند شعراء —- ساحر، فیض ، ندیم وغیرہ سے ملتے جُلتے ہیں ، کیونکہ میں نے جوانی کے آغاز میں انہی شعراء کو پڑھا تھا –
—————————– رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-5اکتوبر        2021

میرا میانوالی–

میری غزلوں میں سے “اُس سے کہنا “ ردیف والی غزل بہت مقبول و معروف ہوئی – مرحوم ظفرخان نیازی جب ریڈیو پاکستان اسلام آباد کے پروگرام منیجر تھے ، انہوں نے یہ غزل مظہر بیٹے کی آواز میں ریکارڈ کی – سامعین کی فرمائش پر یہ غزل ہر دوسرے تیسرے دن ریڈیو پر چلتی رہی – ایک دفعہ میں ظفرخان سے ملنے اُن کے دفتر میں گیا تو ظفرنے مجھے ایک خط دکھایا- یہ خط چکوال سے ایک بزرگ نے لکھا تھا – انہوں نے لکھا —–
نیازی صاحب، السلام علیکم ،
مہربانی فرما کر “ اُس سے کہنا “ والی غزل ریڈیو پر نہ لگایا کریں – میں بُوڑھا آدمی ہوں ، دل کا مریض ہوں ، اتنا دُکھ برداشت نہیں کر سکتا – یہ غزل سُنتے ہوئے مجھے اپنی زندگی کے کُچھ واقعات یاد آجاتے ہیں، رو رو کر بُرا حال ہوجاتا ہے –
یہ واقعی بہت اُداس غزل ہے – اس کے یہ چند شعر دیکھیئے ——–
کہنا ، تیرے بعد وطن پردیس ہؤا ہے
شہر وہی ہے، لوگ پرائے ، اُس سے کہنا
اُس کے کہنے پر میں نے تو صبر کِیا ہے
اپنے دِل کو بھی سمجھائے اُس سے کہنا
دریا نے رُخ بدلا تو اِک گاؤں اُجڑا
مِل نہ سکے پھر دوہمسائے ، اُس سے کہنا
ایک دفعہ محسن نقوی میانوالی تشریف لائے – اُن کے اعزاز میں ہم نے ایوب نیازی کے ہاں استقبالیہ اور مشاعرے کا اہتمام کیا – میں نے وہاں جو غزل پڑھی محسن نقوی نے بہت پسند کی – خاص طور پر یہ دو شعر انہوں نے بار بار سُنے اور بہت داد دیتے رہے – شعر یہ تھے –
حُکمراں جب سے ہوا ہے غمِ دَوراں جاناں
بن گئے چارہ گراں ، چارہ فروشاں جاناں
میں نہ فرہاد ، نہ مجنُؤں ، نہ مہینوال ہوا
تُو جو ارزاں ہے مرا عشق ہے آساں جاناں
یہ رُوکھا ، دو ٹوک شعر بھی اس غزل میں شامل تھا ———
میں اگر بھُول گیا ہوں ترے احساں جاناں
کیا کروں ، میں بھی ہوں اِس دور کا انساں جاناں
محسن نقوی جیسے بڑے شاعر کی داد میرے لیئے ایک بڑا اعزاز تھا —
———————- رہے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک-6اکتوبر2021

میرا میانوالی–

غزل میں شاعر کا تخیئل آزاد ہوتا ہے – ذاتی دُکھ درد کے علاوہ تصوف سے لے کر سیاست تک ہر موضوع غزل میں سما سکتا ہے – ہر شعر کا موضوع الگ ہوتا ہے –
سیاسی حالات پر تبصرہ کہیں کہیں میری غزلوں میں بھی ملتا ہے – بھٹو صاحب نے مساوات کا نعرہ لگایا تھا ، مگر پیشہ ور لوٹوں نے اُن کے گرد گھیرا ڈال کر بھٹو کے خواب کو مذاق بنا دیا – یہی حشر آج کل تبدیلی کے نعرے کا بھی ہورہا ہے – مساوات کے حوالے سے میں نے کہا تھا —–
ضمیر اب کسی کا بھی زندہ نہیں
مرے شہر میں اب مساوات ہے
لوٹوں کے حوالے سے یہ شعر بھی اس غزل میں شامل تھا ——
دُکانیں ضمیروں کی سجنے لگیں
کہ پھر موقعِ انتخابات ہے
آج کل بھی یہ کاروبار زوروں پر ہے – حمزہ صاحب جنوبی پنجاب سے ہر قسم کے لوٹے اکٹھے کر کے بوریاں بھر رہے ہیں – ان میں وہ لوٹے بھی شامل ہیں جو تین سال پہلے جہانگیر ترین خرید کر لائے تھے-
2008 میں جب جنرل مشرف کے اقتدار کا سُورج ڈُوب رہاتھا ، اور زرداری صاحب مشرف کے نیچے سے دری کھینچ رہے تھے ، میں نے ایک سیاسی غزل لکھی تھی ، اس کے یہ شعر دیکھیئے –
حاصل نہ ہوا کُچھ بھی مسافر کو سفر سے
رہزن ہی گذرتے رہے اِس راہ گُذر سے
اِک سانپ گیا ، اُس کی جگہ دُوسرا آیا
ڈر لگنے لگا اب تو پرندوں کو شجر سے
ہوتی رہی شب بھر بھی یہاں خُون کی بارش
بارُود کی بُو آتی ہے آثارِ سحر سے
برسات کی حسرت ہی رہی اب کے برس بھی
بادل جو اُٹھے بھی تو سمندر ہی پہ برسے
ظالم کو سزا ظُلم کی کیا خُوب ملی ہے
اب گھر سے نکلتا نہیں مظلُوم کے ڈر سے
————————- رہے نام اللہ کا–بشکریہ-منورعلی ملک-7اکتوبر        2021

میرا میانوالی–

میری شاعری کا اکلوتا مجموعہ “جو تُم سے کہہ نہ سکا“ 2002 میں شائع ہوا – چالیس پینتالیس غزلوں پر مشتمل اس مختصر سے مجموعے میں بے کار شعر ایک بھی نہیں – میں کبھی غزل کی لمبائی بڑھانے کے لیئے فضول شعر نہیں لکھتا – اس لیئے میری زیادہ تر غزلیں پانچ سات اشعار پر مشتمل ہیں –
ایک اہم بات یہ کہ بحروں کی اتنی ورائیٹی کسی اور شاعر کے ایک مجموعے میں نظر نہیں آتی – میں نے تقریبا ہر بحر میں لکھا ہے – تیس چالیس غزلوں میں تیس چالیس بحریں استعمال کرنا معمولی بات نہیں ۔ یہ سب اللہ کا کرم ہے ، جس نے مجھے یہ صلاحیت اور علم عطا کیا – میرا اس میں کوئی کمال نہیں – میں نے تو کبھی شعر کہنے پر محنت ہی نہیں کی – شعر خود بخود مکمل شکل میں وارد ہوتے رہتے ہیں –
میرے اس مجموعہ ءکلام میں غزلوں کے علاوہ چند نظمیں ، دوتین سرائیکی گیت ، ایک پنجابی غزل اور انگریزی میں دو نظمیں بھی شامل ہیں – شروع میں میں ہر نئی چیز ایک ڈائری میں لکھ لیتا تھا – خدا جانے کس ظرح وہ ڈائری گُم ہوگئی – بہت سی اچھی غزلیں اور نظمیں میری دسترس سے نکل گئیں – جو یاد آسکیں انہیں لکھ کر مجموعے میں شامل کر لیا ، کئی چیزیں رہ گئیں –
بہر حال دُوسرے شاعروں کی نسبت میری شاعری کی مقدار ویسے بھی کم ہے – اس کی ایک وجہ میری متفرق صلاحیتیں ہیں – اردو نثر ، انگریزی میں کالم نگاری اور سرائکی گیت نگاری میں بہت سا وقت صرف ہوتا رہا – اب ارادہ ہے کہ کچھ نئی چیزیں شامل کرکے “جو تُم سے کہہ نہ سکا “ کا نیا ایڈیشن شائع کراؤں گا ، ان شاءاللہ – اس کے لیئے آپ کی دعائیں چاہیئیں –
اپنی شاعری کے مفصل تعارف کے لیئے اپنی پسند کے کُچھ شعر کل کی پوسٹ میں لکھوں گا –
———————- رہے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک-8اکتوبر2021

میرا میانوالی–

ویسے تو شاعری ہو یا نثر ، اپنی ہر تخلیق اچھی لگتی ہے ، پھر بھی کُچھ چیزیں خاص طور پر دِل کو بہت بھاتی ہیں – اپنی شاعری میں سے مجھے یہ شعر زیادہ اچھے لگتے ہیں –
میں اکیلا تو نہیں ، میرے کئی ساتھی ہیں
آپ کی یاد ہے، غم ہے ، مری تنہائی ہے
——————————————
اب وہ آئیں تو اُن سے کہہ دینا
تُم نہ آئے ، چلا گیا کوئی
——————————————
سُنا ہے ترکِ مراسم پہ وہ پشیماں تھا
کہ میرے گھر کی طرح اُس کا گھر بھی ویراں تھا
اسی غزل کا یہ شعر دیکھیئے —————-
مری ادائیں وہ اب ڈھونڈھتا ہے لوگوں میں
وہ جب مِرا تھا تو کم بخت کتنا ناداں تھا
———————————————-
ڈاکٹر اجمل نیازی کو میری ایک غزل کے یہ دو شعر بہت اچھے لگے –
جسے کبھی تُونے شہر کی آبرُو کہا تھا
تِری گلی میں وہ اب غریب الدیار کیوں ہے ؟
کبھی منور کو دیکھ کر تُو نے یہ بھی سوچا
یہ شخص لُٹ کر بھی اس قدر باوقار کیوں ہے ؟
———————————————–
بنیادی طور پر میری شاعری اُداس شاعری ہے – شوخ شعر اس میں بہت کم ہیں – شوخ انداز کا یہ شعر دیکھیئے –
لب کھُلے ، پلکیں اُٹھیں ، شرما گئے
کُچھ نہ کہہ کر بھی وہ کُچھ فرما گئے
غزل میں شاعر کا تخیئل آزاد ہوتا ہے – اسی غزل میں یہ خوفناک شعر بھی ہے –
موت کی دستک سے دھوکہ کھا گئے
ہم نے سمجھا آپ واپس آ گئے
————————————————
ایک اور غزل کے یہ دوشعر بھی بہت لوگوں نے پسند کیئے –
میں نے مانا ساتھ تُم کُچھ بھی نہیں لے جاؤگے
اُٹھ گئے جب تُم تو میرے پاس کیا رہ جائے گا ؟
دو دِلوں کے قُرب کی اس انتہا کے باوجُود
تیرے گھر سے میرے گھر تک فاصلہ رہ جائے گا
————————————————-
اپنا یہ شعر بھی مجھے بہت اچھا لگتا ہے
تُم سے بچھڑ کر بھی میں زندہ رہ لُوں گا
دریا راہ بدلتا ہے ، رُکتا تو نہیں
————————————————–
اس شعر کا درد ناک منظر دیکھیئے ———–
پُوچھ رہا تھا کوئی گلی کے بچوں سے
جانے والا رستے میں رویا تو نہیں ؟
————————————————-
بہت سے شعر اور بھی ہیں ، پھر کبھی سہی – کل اپنے گیتوں کے بارے میں کُچھ لکھوں گا ، ان شآءاللہ –
—————————- رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-9    اکتوبر2021

میرا میانوالی–

گیت نگاری کو میں منجی پیڑھی ٹھوکنے کا کام کہا کرتا ہوں – گلوکار کی بتائی ہوئی دُھن پر گیت لکھنا مشکل کام نہیں ، مناسب الفاظ کا استعمال اور تخیئل کی فسوں کاری گیت کے معیار کاتعین کرتی ہے –
میں نے تو گیت نگاری کا کبھی سوچا ہی نہیں تھا ، عیسی خیل میں قیام کے دوران لالا کی محفل میں آمدورفت ہونے لگی تو ایک دن ماسٹروزیر کے ہاں دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے لالا نے کہا ، منور بھائی آپ کی اُردو شاعری تو بہت اچھی ہے ، میری خاطر ایک گیت اپنی زبان میں بھی لکھ دیں تو بہت مہربانی ہوگی –
میں نے کہا ٹھیک ہے ، کوشش کروں گا ، لالا نے کہا وہ جو انڈین نغمہ ہے “پنجرے کے پنچھی رے تیرا درد نہ جانے کوئی “ اسی طرز پر گیت مجھے جلد چاہیئے ، میں ریکارڈ کرانا چاہتا ہوں –
انڈین نغمہ میرا پسندیدہ گیت تھا ، اس کی دُھن اور بول بھی میرے ذہن میں محفوظ تھے – یہ بھی پتہ تھا کہ یہ اُداس گیت ہے ، اس لیئے لکھنا مشکل نہ تھا – میں نے اُسی شام گیت
لکھ کر لالا کو دے دیا – گیت کا پہلا مصرعہ یہ تھا —-
کملی دا ماہی وے ، ڈس کیہڑے پاسے جاواں
اُسی رات اپنی محفل میں لالا نے یہ گیت گایا تو ہِٹ (hit) ہوگیا ، سب نے بہت پسند کیا – بعد میں یہ گیت لالا نے رحمت گراموفون کمپنی کے کیسیٹ میں ریکارڈ کروادیا – اس کے بعد کبھی کبھی لالا کی فرمائش پر کسی نہ کسی معروف دھُن پر گیت لکھتا رہا –
مرحُوم یونس خان اور مجبورعیسی خیلوی صاحب کے بعد لالا کا تیسرا گیت نگار میں ہی تھا – اسی زمانے میں کمر مشانی کے اظہر نیازی صاحب بھی لالا کے ہاں آنے جانے لگے – اُنہوں نے بھی بہت خُوبصورت گیت ( کیوں ڈِتا ای ساکُوں رول ، اور شالا تیری خیر ہووے , وغیرہ) لکھے –
میری ایک اچھی یا بُری عادت یہ رہی کہ کبھی اپنے گیت کی کاپی اپنے پاس نہ رکھی – لالا کی فرمائش پر گیت لکھ کر وہی کاغذ لالا کو دے دیتا تھا – بعد میں چند گیت فرمائش کے بغیر اپنی پسند پر بھی لکھے – یوُں کم ازکم تیس چالیس گیت لالا کی آواز میں منظرِعام پر آئے – سب گیت بہت مقبُول ہوئے ، ان گیتوں کی وجہ سے میرا نام دنیا بھر میں معروف ہو گیا – آج بھی لاکھوں لوگ مجھے انہی گیتوں کے حوالے سے غائبانہ طور پر جانتے ہیں – زیادہ تر فیس بُک فرینڈز اور فالوورز بھی اسی حوالے سے مجھ سے متعارف ہوئے –
میں نے تو اِس شہرت اور مقبوُلیت کی کبھی خواہش ہی نہیں کی تھی – جس رب کریم نے مجھے شاعر بنایا تھا اُسی نے میرے کلام کی تشہیر کاوسیلہ بھی لالا عیسی خیلوی کی صُورت میں فراہم کردیا –
—————————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-10اکتوبر2021

میرا میانوالی–

الوداع ، محسنِ پاکستان ————
فیض صاحب کا شعر یاد آرہا ہے —–
جورُکے تو کوہِ گراں تھے ہم ، جو چلے تو جاں سے گُذر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنادیا
پاکستان کو ایٹمی طاقت ہونے کا اعزاز دینے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان زندگی کا سفر مکمل کر کے سرحدِ حیات کے پار جابسے –
انا للہ و انا الیہ راجعون
مختصر ترین الفاظ میں ڈاکٹر صاحب کا کارنامہ یہ ہے کہ اگر وہ پاکستان کو ایٹمی طاقت نہ بناتے تو خدا نخواستہ پاکستان اب مقبوضہ کشمیر کی طرح انڈیا کا حصہ بن چُکا ہوتا – مگر اب امریکہ جیسی سُپر پاور بھی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جراءت نہیں کر سکتی – ہم خود ہی لیٹ جائیں تو ہماری بے غیرتی – مشرف نے یہی کیا ، جس کا خمیازہ ہم آج تک بھُگت رہے ہیں۔
تعلیم اور صحت کے میدان میں بھی ڈاکٹر صاحب کی خدمات ہماری تاریخ کی زینت ہیں – ضلع میانوالی میں ٹیکنیکل ٹریننگ کالج چاہ میانہ اس ضلع پر احسان ہے – ڈاکٹر صاحب نے ملک کے کئی شہروں میں ایسے اور ادارے بھی قائم کیئے۔
چند دن پہلے اخبارات میں ڈاکٹر صاحب کی یہ وصیت نظر سے گذری کہ میرے مرنے کے بعد میری غائبانہ نمازِ جنازہ ہر شہر اور گاؤں میں ادا کی جائے – جو لوگ یہ اہتمام کر رہے ہیں اللہ کریم انہیں جزائے خیر عطا فرمائے – جو لوگ کسی وجہ سے شامل نہیں ہو سکتے وہ گھر میں بیٹھ کر ہی فاتحہ خوانی اور دعائے مغفرت تو کر سکتے ہیں – یہ کارِخیر ابھی کردیں –بشکریہ-منورعلی ملک-10اکتوبر2021

میرا میانوالی–

سچی ڈس وے ڈھولا کل کیوں نئیں آیا ، میرا مقبول ترین گیت ہے – ہجر ، انتظار اور شکوہ کی ملی جُلی کیفیات کا اظہار ایک کہانی کی صورت میں کیا گیا ہے –
1979 میں لالا لاہور سے عیسی خیل آئے تو یہ شکوہ کیا کہ آپ نے کافی عرصہ سے کوئی گیت لکھ کر نہیں دیا ، آپ کے جو گیت پہلے سے میرے پاس تھے وہ تو سب میں نے ریکارڈ کرادیئے – اب اگلے ہفتے میری ریکارڈنگ ہے اس کے لیئے مجھے آپ کا گیت چاہیئے –
لکھنے بیٹھا تو ذہن میں ایک منظر سا نمودار ہوا – میں نے اُسی منظر کو گیت کی شکل دے دی – شام سے ذراپہلے عتیل صاحب کے ساتھ لالا کے ہاں جاکر گیت لالا کو دے دیا – گیت دیکھ کر لالا خوشی سے اُچھل پڑے – فورا ہارمونیم نکالا اور گیت کی دُھن بنانے بیٹھ گئے – مرحوم ناطق نیازی بھی وہاں موجُود تھے – انہوں نے بھی گیت بہت پسند کیا – لالا نے جو دُھن بنائی وہ بھی زبردست تھی – لالا مجھے دعائیں دیتے ہوئے اسلام آباد روانہ ہو گئے –
کیسیٹ میں ریکارڈنگ سے پہلے لالا نے یہ گیت پی ٹی وی اسلام آباد کے ایک پروگرام میں گایا – اُنہی دنوں لالا اور میں پنڈی کے ایک میوزک سنٹر پر گئے تو لالا نے سنٹر کے مالک سے کہا
“پی ٹی وی پر میرا نیاگیت “سچی ڈس وے ڈھولا کل کیوں نئیں آیا “ آپ نے سُنا ہے ؟
وہ نوجوان ہنس کر کہنے لگا “ جی صرف سُنا ہی نہیں ، تین دن میں اس کی 700 کاپیاں بیچ بھی چُکا ہوں – اس کی ایک کاپی میں ٹی وی پروڈیوسر سے لے آیا تھا آگے اُس سے کاپیاں بنا کر بیچتا رہا – بڑی طلب ہے اِس گیت کی – کیا کمال کا گیت ہے “-
یہ کہہ کر اُس نے فورا ہمارے لیئے کھانا کُکڑ روسٹ ، سلاد اور کوک وغیرہ منگوا لیا – کُچھ دیر خُوب گپ شپ رہی –
اِس گیت کی خوش نصیبی ہے کہ رحمت گراموفون کے والیئم میں اس کی موسیقی لیجنڈ فلمی موسیقار بخشی وزیر نے مرتب کی ، ساز اور آواز کا سنگم اِس گیت میں بے حد مؤثر ہے –
————————- رہے نام اللہ کا–بشکریہ-منورعلی ملک-11اکتوبر2021

میرا میانوالی–

چاچاجی (لالا عیسی خیلوی کے والد ) نے مُجھ سے کہا —- “بیٹا ، آپ کے گیت نے کل مجھے بہت رُلایا – ہم عیسی خیل سے لاہور آرہے تھے تو عطا بیٹے نے گاڑی میں یہ گیت لگا دیا – اِس گیت کا پہلا بول ‘نِت دِل کُوں آہدا ہاں کل ماہی آسی‘ سُنتے ہی مجھے سیما بیٹی یاد آگئی ، اور میں زاروقطار رونے لگا – پھر لاہور تک میں بار بار یہی گیت سُنتا اور روتا رہا – لگتا تھا آپ نے یہ پُورا گیت میرے اِسی دُکھ کے بارے میں لکھا ہے “ یہ کہتے ہوئے بھی چاچا جی کی آنکھیں بھیگنے لگیں –
سیما لالا عیسی خیلوی کی چھوٹی بہن تھیں جو جوانی ہی میں اِس دُنیا سے رُخصت ہوگئیں –
ہماری اِس گفتگو کے دوران لالا باہر آئے تو میں نے بتایا کہ چاچا جی “نِت دِل کُوں آہدا ہاں کل ماہی آسی “ کی بات کر رہے ہیں – لالا نے کہا اِس گیت کی ریکارڈنگ کراتے ہوئے میں بھی باربار رو پڑا ، کئی بار نئے سرے سے ریکارڈنگ کرنی پڑی – یار ایک عجیب سا دُکھ ہے اِس گیت میں – بچھڑے لوگ بڑی شدت سے یاد آجاتے ہیں –
ہجر، انتظار، محرومی اور شکوہ میرے گیتوں کا مستقل موضوع ہیں – یہ گیت بچھڑنے والوں کی یاد دِلا تے ہیں – میرے گیتوں میں ماہی اور ڈھولا صرف محبوب ہی نہیں ، ہمیشہ کے لیئے جُدا ہوجانے والا بیٹا ، بیٹی ، ماں , باپ ، بھائی یا دوست بھی ہوسکتا ہے – گیت سُنتے ہوئے ہر آدمی کو اپنا اپنا دٰکھ یاد آجاتا ہے – “ نِت دِل کُوں آہدا ہاں کل ماہی آسی“ میں درد کا یہ احساس بہت زیادہ ہے –
اِس گیت کی دُھن میانوالی کے سینیئر موسیقار اُستاد امیر حُسین امیر نے بنائی تھی – ریکارڈنگ کے وقت وہ بھی ریکارڈنگ روم میں موجود تھے – اُنہوں نے بھی بتایا کہ ریکارڈنگ کراتے ہوئے صرف لالا ہی نہیں ، وہاں موجود سب لوگ بھی روتے رہے –
————————- رہے نام اللہ کابشکریہ-منورعلی ملک-12اکتوبر2021

میرا میانوالی–

میرے دو مایہء ناز گیتوں کا لالا عیسی خیلوی نے ستیاناس ماردیا – لالا کی بھی مجبوری تھی کہ کمرشل گلوکاری میں ریکارڈنگ کمپنی کی مرضی چلتی ہے – لالا کا نام بِکتا تھا ، اس لیئے ریکارڈنگ کمپنیاں اس کے زیادہ سے زیادہ کیسیٹ مارکیٹ میں لاکر پیسے کمانا چاہتی تھیں – گلوکار کا مُوڈ ہونہ ہو ، تیاری ہو نہ ہو معاہدے کے مطابق گلوکار کو ریکارڈنگ کرانا پڑتی تھی – میوزیشین (سازندے) بھی کمپنی والے فراہم کرتے تھے – کبھی اچھے مل جاتے ، کبھی اناڑی – اس لیئے بعض کیسیٹ لالا کے نام پر بِک تو گئے ، مگر ریکارڈنگ معیاری نہ تھی – یہی المیہ میرے ان دو گیتوں کے ساتھ ہوا – دونوں اُردو گیت تھے –
ایک گیت دردناک کہانی کی شکل میں قبرستان کا منظر پیش کرتا تھا – یہ چند قطعات تھے اور ہر قطعے کے ساتھ ایک ماہیا – آغاز یُوں تھا —
اِک خُوبرو جوان جو گاؤں کا مرگیا
اِک رات اُس کی قبر پہ دیکھا یہ ماجرا
اِک مہ جبیں سیاہ لبادے میں سر کھُلے
لَوحِ مزار چُوم کے دیتی تھی یہ صدا
———- وے کِتھے آ وسیا ایں ساڈی جھوک تباہ کرکے
بہت درد بھری کہانی ہے یہ گیت —— لالا کے پہلے چار والیوم ایک ساتھ ریکارڈ ہوئے – یہ گیت والیوم کے آخر میں آیا – سات آٹھ گھنٹے کی ریکارڈنگ سے گلُوکار بھی تھک چُکا تھا ، سازندے بھی پسینہ پسینہ ہو رہے تھے – نتیجہ یہ کہ گیت کا ستیاناس ہوگیا – اس کا وہ تاثر نہ بن سکا جو ہونا چاہیئے تھا –
دُوسرے گیت کے ابتدائی بول تھے —— “ تُم بُھول گئے ہو یار سجن اب تُم کو یاد دِلاؤں کیا “ — یہ بھی بہت آداس دُھن میں بہت درد انگیز کہانی تھی – مگر ریکارڈنگ انتہائی فضول – دُکھی گیت کے ساتھ طبلے کی تیز رفتار ٹِک ٹِک ٹِک ٹِک بہت بُری لگتی ہے —– لالا نے پہلی بار یہ کیسیٹ مجھے سُنوایا تو میں نے کہا “ یار ، یہ کیا بے غیرتی ہے ؟ یہ طبلے والا کہاں سے پکڑ لائے تھے ؟“
لالا نے کہا “ یار ، کمپنی والے لے آئے تھے – میں خود بھی اس کے کام سے مطمئن نہیں تھا – ہیروئینی سا تھا ۔ اس کے ہاتھوں میں جان ہی نہیں تھی “-
لالا کی مجبوریاں اپنی جگہ مگر مجھے اپنے ان دو گیتوں کے ضائع ہونے کا دُکھ ہمیشہ رہے گا – یہ وہ گیت تھے جن پر میں فخر کرسکتا تھا – ہر شاعر ایسا گیت نہیں لکھ سکتا –
——————– رہے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک-13اکتوبر    2021

میرا میانوالی–

میرا ایک اور دردانگیز گیت بھی بہت مقبول ہوا – یہ گیت 2003 میں ریکارڈ ہوا – اتفاق سے میں بھی اس وقت لالا کے سٹوڈیو میں موجود تھا – اس گیت کی موسیقی الطاف حیدر صاحب نے ترتیب دی ، دُھن کا آئیڈیا میرا تھا – اِس گیت کے چند بول دیکھیئے –
وَلدے پَکھیاں آنڑں ڈسایا
تیڈے وَلنڑں دا ویلا آیا ——–تُوں نئیں آیا
طعنے ظالم لوک مریندے
اُجڑ کے وی نئیں جیونڑں ڈیندے
میں بہوں اَوکھا وقت نبھایا ——– تُوں نئیں آیا
سُنجھے گھر وچ عُمر گُذر گئی
کملی راہواں ڈیہدی مرگئی
غیراں آنڑں جنازہ چایا ——— تُوں نئیں آیا
شکوہ کا یہ درد بھرا انداز بہت رقت انگیز ہے – لالا نے بھی یہ گیت بہت ڈُوب کر گایا – محفل میں موجود سب لوگ بھی آبدیدہ ہوگئے –
اپنی شاعری کے بارے میں پوسٹس کا یہ سلسلہ لکھ کر ضمیر کا بوجھ ہلکا ہو گیا – بڑی شدت سے یہ احساس رہتا تھا کہ میں نے اپنی شاعری کے بارے میں کبھی کُچھ نہیں لکھا، حالانکہ میری شاعری ہی میری پہچان تھی – فیس بُک پر آنے سے پہلے بھی بہت سے لوگ مجھے میری شاعری کے حوالے سے جانتے تھے – فیس بُک پر زیادہ تر لوگ میری نثر کے شیدائی ہیں – شاعری بہر حال میری شخصیت کا ایک اہم پہلُو پے- جہاں میں نے روزانہ پوسٹس میں اپنی شخصیت کے دُوسرے پہلوؤں پر بحث کی ہے ، وہاں شاعری کا ذکر بھی ضروری تھا – پوسٹس کا یہ سلسلہ تقریبا دو ہفتے پہلے شروع ہوا – بات کا آغاز میری نعتوں سے ہوا ، پھر اُردو غزل سے ہوتے ہوئے بات میرے گیتوں تک پہچ کر مکمل ہوئی —– مقدار کے لحاظ سے میری شاعری بہت کم ہے ، لیکن معیار کے لحاظ سے الحمدللہ آج کے کسی شاعر سے کم تر نہیں – شاعری میں میرا کوئی اُستاد نہیں- شعر کہنے کی صلاحیت اور سلیقہ ربِ کریم کی عنایت ہے – جتنا بھی شُکر ادا کروں کم ہے –
————————- رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-14اکتوبر    2021

میرا میانوالی–

کُچھ دن آپ کی محفل میں اپنی شاعری کا ذکر ہوتا رہا – بعض ساتھیوں کی فرمائش ہے کہ یہ تذکرہ جاری رہنا چاہیئے – لیکن مجھے سب دوستوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے ، اس لیئے شاعری کا تذکرہ فی الحال اتنا ہی کافی ہے –
بڑی طویل کہانی ہے پھر کبھی اے دوست
میری پوسٹس کے قارئین کئی قِسم کے لوگ ہیں — ایک وہ جو صرف لالا عیسی خیلوی کا ذکر سُننا پڑھنا چاہتے ہیں ، لیکن اکثریت اُن لوگوں کی ہے جو ماضی کی باتیں پسند کرتے ہیں ،اُس ماضی کی باتیں جو اُنہوں نے اپنی آنکھوں سے تو نہیں دیکھا لیکن اپنے آباو اجداد سے اس کے بارے میں سُنا ہے – ماضی کی ان داستانوں میں صاحبِ احساس لوگوں کے لیئے کئی سبق بھی ہیں –
میری پوسٹس کے تیسری قسم کے قارئین وہ ہیں جنہیں میرا اندازِتحریر پسند ہے میں جو کُچھ بھی لکھوں انہیں اچھا لگتا ہے —–
میانوالی کے جو لوگ ملازمت یا کاروبار کے سلسلے میں کراچی یا کسی دُوسرے دُوردراز شہر میں مقیم ہیں ، وہ بھی بڑے شوق سے میری پوسٹس پڑھ کر اپنے وطن کی یادوں سے دِل بہلاتے رہتے ہیں —- بیرونِ ملک مقیم کئی ساتھی میری پوسٹس کو گھر سے آنے والا خط سمجھ کر میری ان تحریروں کے منتظر رہتے ہیں –
اللہ کریم آپ سب کو سلامت رکھے – میں آپ کے لیئے لکھتا ہوں – دُعا کرتے رہا کریں کہ ہماری یہ محفل یونہی آباد رہے – کل سے پھر ہم ماضی کی وادیوں کے سفر پر روانہ ہوں گے —– ایک اور اہم بات یاد آگئی، کچھ دوستوں کی فرمائش ہے کہ نوجوان نسل کی اصلاح کے لیئے بھی لکھا کریں – میں نے تو زندگی بھر نوجوان نسل کی تعلیم وتربیت ہی کاکام کیا ہے —– میری ان پوسٹس میں بھی نوجوان نسل کے لیئے کئی سبق آموز باتیں ہوتی ہیں – یہ الگ بات کہ میں ڈائریکٹ وعظ ونصیحت کی بجائے کہانی کے انداز میں بات سمجھاتا ہوں –
کل سے ان شآءاللہ ماضی کی بھُولی بسری باتوں کا ذکر ہوگا –
————————- رہے نام اللہ کا بشکریہ-منورعلی ملک-15اکتوبر2021

میرا میانوالی–

زندگی کتنی پُرسکُون تھی —– !
اکتوبر نومبر میں گندم کی کاشت اور مارچ اپریل میں کٹائی —— سال کے بقیہ آٹھ مہینے لوگ بالکل فارغ – کوئی کام نہ کاج— کام کاج کی ضرورت ہی کیا تھی – کھانے پینے کو سب کُچھ گھر سے مل جاتا تھا – گندم ، خالص دُودھ ، گھی ، مکھن ، لسی ، مُرغیاں ، انڈے سب کُچھ اپنے گھر کا ہوتا تھا – ہفتے میں ایک آدھ دن بڑا گوشت ( ایک روپے کا چار کلو ملتا تھا ) – ایک گھر کے لیئے آدھا کلو ہی کافی ہوتا تھا – بکرے کا گوشت محلہ شریف خیل کا ایک قصاب مہینے میں ایک آدھ بار بناتا تھا – زیادہ تر دال سبزی ہی چلتی تھی – تازہ سبزی لوگ کنؤوں پر جا کر خریدتے تھے – دوچار آنے کی سبزی گھر کے لیے کافی ہوجاتی تھی – ایک گھر کا مہینے بھر کا خرچ پندرہ بیس روپے سے زیادہ نہیں ہوتا تھا – نہ بجلی اور گیس کے بِل ، نہ فون کا ایزی لوڈ ، نہ بچوں کی بھاری بھرکم سکول کی فیسیں –
وقت گذارنے کے لیئے لوگ کسی نزدیکی چونک پہ جابیٹھتے تھے – چوک ، چوپال یا بیٹھک کو ہم چونک کہتے تھے – داؤڈخٰیل میں بہت سے صاحبِ حیثیت لوگوں نے چونکیں بنائی ہوئی تھیں – گھر سے باہر ایک دوکنال جگہ چونک کے لیئے مختص ہوتی تھی – سب سے مشہور ہمارے داداجی مولوی ملک مبارک علی کی چونک تھی – ہر چونک میں لوگوں کے بیٹھنے کے لیئے چار پانچ چارپائیاں رکھی ہوتی تھیں – ساتھ ہی گھڑونجی پر صاف شفاف ٹھنڈے پانی کے گھڑے رکھے ہوتے تھے – ہماری چونک پر چار پائیوں کے علاوہ چار چار پائیوں کے برابر ایک بھاری بھرکم چارپایہ بھی ہوتا تھا جسے ماچہ کہتے تھے – ماچے پر پانچ سات لوگ بآسانی بیٹھ یا لیٹ سکتے تھے –
صبح سے شام تک چونکیں آباد رہتی تھیں – گفتگو کا موضوع شہر کے حالات یا لوگوں کے ذاتی مسائل ہوتے تھے – کئی بزرگوں کا اندازِگفتگو خاصا مزاحیہ ہوتا تھا – ہماری چونک پر ماسٹر نواب خان ، چاچا سلطان سنگوال اور چاچا مقرب بہرام خیل کا اندازِ گفتگو ایسا ہی تھا – جب بھی یہ لوگ بولتے، محفل میں قہقہے گُونج اُٹھتے تھے-
داؤدخیل میں ہماری چونک کے علاوہ محلہ علاول خیل میں سید گُل عباس شاہ کی چونک ، محلہ لمے خیل میں چاچاچمن خان کی چونک ، محلہ داؤخیل میں شاہ غلام محمد اور حقداد خان نمبردار کی چونکیں ، محلہ شریف خیل میں سید غلام عباس شاہ کی چونک اور ہسپتال کے قریب شیرگُل خان بہرام خیل کی چونک مشہور و معروف تھیں – دن بھر لوگوں کی آمدورفت جاری رہتی تھی –
گُذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ ———————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-16اکتوبر2021

میرا میانوالی–

مخصوص ذوق والے لوگوں کی بھی داؤدخیل میں دو چونکیں ہوا کرتی تھیں – تازی کتوں (شکاری کتوں) کے شوقین حضرات چاچا نُور محمد المعروف نُورُو موچی کی دکان پر بیٹھتے تھے – تازی کُتا بظاہر بہت ڈھیلا ڈھالا مسکین سا جانور ہوتا ہے – کبھی کسی انسان کو نہیں کاٹتا – لیکن خرگوش کو دیکھتے ہی اس میں کرنٹ آجاتا ہے – بجلی کی سی تیزی سے یہ خرگوش کا پیچھا کرکے اُسے پکڑ لیتا ہے – چاچا غُلامُوں ( غلام محمد خان) زَبھرُو خیل ، چاچا غلام رسُول لوہار, چاچا شیر خان لمے خٰیل اور چند دُوسرے بزرگ چاچا نُورو کی دکان پر بیٹھ کردن بھر ان کُتوں کی نفسیات اور اپنے شکار کے کارناموں پر بحث کرتے رہتے تھے –
یہ لوگ سردیوں کے موسم میں ہر ہفتے کچہ کے علاقے میں خرگوش کے شکار کے لیئے جایا کرتے تھے – اکثر تو خالی ہاتھ واپس آتے تھے – کبھی کوئی قسمت کا مارا خرگوش ہاتھ لگ جاتا تو ہفتہ بھر اس شکار کا تذکرہ ان کی محفل کا موضوع ہوتا – خرگوش کو پکڑنے والے کُتے کا مالک سینہ پھُلا کر اپنے کتے کا ایکشن یُوں بیان کرتا جیسے خرگوش نہیں ، شیر شکار کر لائے ہوں –
اس محفل میں کلاشنکوف کی شکل والا حُقہ بھی چلتا تھا – خوددار لوگ تھے ، کسی پر بوجھ نہیں بنتے تھے – حقے کا تمباکُو خود لایا کرتے تھے – کڑوا زہر سبز تمباکُو پینا دِل گُردے والے لوگوں کا کام ہے – عام لوگوں کو تو اس تمباکُو کا پہلا کش ہی لم لیٹ کر دیتا ہے –
دُوسری چونک چاچا گھیبہ سُنارا کے ہاں بٹیر بازوں کی چونک تھی – یہاں داؤدخیل کے سینیئر بٹیر باز ہدایت سُنارا ، غلام مصطفی خان خانے خیل ، ہمارے کزن محمد عظیم ہاشمی ، چاچا سہراب خان اور اُن کے چھوٹے بھائی ماسٹر دراز خان دن بھر بٹیروں کے فضائل اور مسائل پر بحث کرتے تھے – موچھ سے خان چاچا نامی بزرگ بھی اس محفل میں شریک ہوتے تھے-
ان محفلوں کے تمام ارکان اپنی اپنی باری پر اِس دُنیا سے رُخصت ہوگئے –
گُذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ——————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک17 اکتوبر    2021

میرا میانوالی–

انا للہ و انا الیہ راجعون
جا او یار حوالے رب دے ، میلے چار دِناں دے
ہمارے بہت پیارے دوست ، صاحبِ طرز شاعر اور ادیب ، دلیر بے باک صحافی ، دانشور اور اُردو ادب کے نامور استاد ، ڈاکٹر محمد اجمل نیازی بھی چل بسے —- بہت زندہ دِل ، ملنسار ، یاروں کے یار شخصیت تھے –
گورنمنٹ کالج میانوالی میں بہت عرصہ ہمارے کولیگ رہے – پھر گورنمنٹ کالج لاہور چلے گئے – کچھ عرصہ بعد دیال سنگھ کالج لاہور کے شعبہ ءاُردو کی زینت بنے – وہیں سے ریٹائر ہو کر لاہور ہی میں مقیم ہوگئے – آبائی شہر مُوسی خیل تھا – کبھی کبھار آتے جاتے رہتے تھے –
مُلک بھر کے ادبی حلقوں میں میانوالی کا تعارف تھے – ان کی شخصیت کا ایک منفرد پہلو یہ تھا کہ لاہور میں رہ کر بھی لباس خالص میانوالی کے بزرگوں والا ہی پہنتے تھے – سرپہ پشاوری لُنگی (پگڑٰی) آخر دم تک باندھتے رہے –
ڈاکٹر اجمل نیازی کئی کتابوں کے مصنف تھے – میانوالی کالج میں تھے تو “جل تھل “ کے عنوان سے میانوالی کے شعراء کے تعارف پر مشتمل کتاب شائع کروائی – یہ کتاب ضلع میانوالی کی ادبی تاریخ کہلا سکتی ہے – بھارت کے دورے کی داستان “مندر میں محراب“ اجمل نیازی کے خوبصورت اندازِ تحریر کا شاہکار ہے – بہت عرصہ سے روز نامہ نوائے وقت میں “بے نیازیاں“ کے عنوان سے کالم لکھ رھے تھے – ان کالموں کا مجمُوعہ “ بے نیازیاں کے عنوان سے شائع ہوا –
مرحوم پروفیسر محمد فیروز شاہ اور ڈاکٹراجمل کی دوستی مثالی سنگت تھی –
مجھ پر بہت مہربان تھے – میں عیسی خیل کالج میں تھا تو ڈاکٹر صاحب کا خط موصول ہوا – لکھا تھا “ ملک صاحب ، السلام علیکم ، مجھے آپ کا اندازِتحریر بہت پسند ہے ، ہمارے میانوالی کالج کے میگزین “سہیل “ کے لیئے کُچھ لکھ دیں ——- آپ کا ، اجمل نیازی
میں نے حُکم کی تعمیل کردی – جب میں عیسی خیل سے ٹرانسفر ہو کر میانوالی آیا تو ڈاکٹر صاحب نے میرے لیئے ایک شاندار استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا –
کُچھ عرصہ قبل میرے ایک عزیز اپنی کتاب کاتعارف لکھوانے کے لیئے اُن کے ہاں گئے – وہاں میرا ذکر ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے فورا کال کرکے مجھ سے کہا “ بھائی صاحب ، جب بھی لاہور آئیں ، مجھ سے ضرور ملیں ، یار مجھے تُم سے بہت پیار ہے ——
افسوس کہ یہ نہ تھی ہماری قسمت ………—————————— رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-18 اکتوبر2021

میرا میانوالی–

ولادتِ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم —–
کلام حفیظ جالندھری ————–
فرشتوں کی سلامی دینے والی فوج گاتی تھی
جنابِ آمنہ سُنتی تھیں یہ آواز آتی تھی
سلام اَے آمنہ کے لال ، اَے محبُوبِ سُبحانی
سلام اے فخرِ مَوجُودات، فخرِ نَوعِ انسانی-
بشکریہ-منورعلی ملک-19     اکتوبر2021
اَللہم صَلِ عَلی محمد و عَلی آلِ محمد
اپنی نعت ——————-
ہر دعا تیرے وسیلےسے سُنی جاتی ہے
درد جو بھی ہو مدینے سے دوا آتی ہے
سر پہ دُنیا میں رہا سایہ تِری رحمت کا
قبر میں بھی ترے دامن کی ہوا آتی ہے
ہے تِرے در کے گداگر کی صدا صَلِ عَلی
تیرے سائل کو یہی ایک صدا آتی ہے
بے طلب اتنا ملا مجھ کو کہ اب کیا مانگُوں؟
اب تو آقا تِری رحمت سے حیا آتی ہے
جب بھی میں نعت لکھوں ، تیرے کرم کے صدقے
میرے الفاظ سے خوشبوئے وفا آتی ہے

بشکریہ-منورعلی ملک-19اکتوبر    2021

میرا میانوالی–

ایلومینیئم (جست) کا بناہوا ٹرنک (بکس) اس میں تین چارجوڑے کپڑے ، سونے اور چاندی کے دوچار سادہ سے زیورات -( سونے کی قیمت 100 روپے فی تولہ تو مجھے یاد ہے – اللہ معاف کرے آج ایک تولہ سونے کی قیمت ایک لاکھ 18 ہزار روپے ہے ) – دو بستر ، دو چارپائیاں ، لوہے کی بنی ہوئی کڑاہی ، شُپیتا (کڑاہی کا چمچ) تین ٹانگوں والی چُلھ (چُولہا) ایلومینیئم کی دوتین دیگچیاں ، تھالیاں اور دوچار چھوٹے موٹے برتن – بس یہی کُچھ ہوتا تھا بچی کا جہیز – فریج ، ٹی وی ، اوون وغیرہ کا اُس زمانے میں نام و نشان بھی موجود نہ تھا –
شادی والدین کی پسند سے عام طور پر قریبی رشتہ داروں میں ہوتی تھی – رشتے کی تلاش اور ابتدائی مذاکرات دولہا ، دلہن کی مائیں بہنیں بھابھیاں وغیرہ کرتی تھی – بزرگ دعائے خیر کی رسم ادا کرکے بات پکی کر دیتے تھے – منگیوا (منگنی) کی رسم جب ہم نے ہوش سنبھالا ختم ہوچُکی تھی – دُعائے خیر میں دن مقرر کر کے شادی کر دی جاتی تھی – شادی سے پہلے دُولہا دُلہن کے لیئے گھر میں ایک کمرے کا اضافہ بھی کیا جاتا تھا –
مہندی کی رسم بھی برائے نام ہوتی تھی – آج کی طرح شو شا نہیں ہوتا تھا – مائیں بہنیں اور بھابھیاں شادی سے ایک آدھ دن پہلے رات کے پچھلے پہر دُولہا دُلہن کے ہاتھ پاؤں میں مہندی لگا دیتی تھیں – دُولہا کو مہندی لگانے سے پہلے جگانے کے لیئے خواتین مل کر یہ لوک گیت گایا کرتی تھیں –
اُٹھی جاگ لالا نیندرایا وے
تیڈیاں رِیتاں دا ویلا آیا وے —– لالا جاگ
میں تاں کیہڑے ویلے دی کھلی ہاں وے
سڑ گئیاں پیراں دیاں تلیاں وے —– لالا جاگ
یہ گیت تقریبا ہر لوک گلُو کار کی آواز میں ریکارڈ بھی ہوا – سب سے مؤثر یہ گیت ایُوب نیازی کی آواز میں ہے – گھر کی محفل میں ایُوب نیازی روزانہ یہ گیت گایا کرتے تھے , مگر جب اُن کے جواں سال بھائی یُوسف خان فوت ہوئے ، ایوب نیازی نے یہ گیت گانا ترک کر دیا ، کیونکہ گاتے ہوئے رو پڑتے تھے –———————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-20اکتوبر2021

میرا میانوالی–

شادی کی تقریبات کے دوتین دن “سبالوں“ کا حشر نشر دیکھنے والا ہوتا تھا – سبالے ، گبھروُ (دولہا) کے دوتین کزن ہوتے تھے ، جو شادی کی تقریبات کے دنوں میں سائے کی طرح ہر وقت دُولہا کے ساتھ رہتے ، کھانا پینا ، چلنا پھرنا، سونا جاگنا دُولہا ہی کے ساتھ – دُولہا اور دُلہن کی بہنیں ، بھرجائیاں (بھابھیاں) نئے نئے طریقوں سے ان کا مذاق اُڑاتی تھیں – مگر وہ یہ تمام تر بے عزتی ہنسی خوشی برداشت کر لیتے تھے – غیرت مند لوگ بہنوں ، بھابھیوں ، چاچیوں ، ماسیوں کے آگے اُونچی آواز میں بولنا بھی بے غیرتی سمجھتے تھے –
بارات کی روانگی سے پہلے والی رات کے پچھلے پہر دُولہا اور اس کے سبالؤں کی جُوتیاں چرانا بھی ایک مستقل رسم تھی – جُوتے چوری کرنے کے بعد ان لوگوں کو جگا دیا جاتا، جُوتے غائب دیکھ کر وہ جُوتوں کی واپسی کے لیئے بہنوں بھابھیوں کی منتیں کرتے – مگر واپسی کی کُچھ شرائط ہوتی تھی – پہلے تو ان لوگوں کی جیبیں صاف کی جاتی تھیں ، پھر حُکم ہوتا مُرغے بن جاؤ، اس حکم کی تعمیل کے بعد دُوسرا حکم ہوتا تھا ناک سے زمین پر پانچ پانچ لکیریں لگاؤ، یہ سب کُچھ کرنے کے بعد جُوتے واپس مل جاتے تھے ، پیسے بحقِ سرکار ضبط – بڑے بڑے پھنے خان لوگوں کو اس موقع پر مُرغا بنتے اور ناک سے زمین پر لکیریں لگاتے دیکھا –
اُسی رات دُلہن کے گھر میں چُوری کھانا بھی ایک دیرینہ رسم تھی- وہاں داخٰل ہوتے ہی دُلہن کی بہنیں اور سہیلیاں مُکوں اور تھپڑوں سے سبالوں کا استقبال کرتی تھیں – پھر چُوری لائی جاتی ، اس میں چینی یا شکر کی بجائے نمک ، راکھ یا مٹی ڈالی ہوتی تھی – بعض اوقات گھی کی بجائے پانی سے چُوری بنا لی جاتی تھی – یہ چُوری تو ایک دو نوالے سے زیادہ کوئی نہ کھا سکتا- پھر خالص دیسی گھی اور شکر والی اصل چُوری لاکر ان مسکین مہمانوں کو کھلائی جاتی تھی –
کیا زندہ دل لوگ تھے – اب پتہ نہیں یہ رسمیں دُور دراز دیہاتی علاقوں میں باقی ہیں یا نہیں ، واللہ اعلم –
—————————- رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-21اکتوبر    2021

میرا میانوالی–

ولیمہ میں کٹوہ کا سالن اور بھٹی پر پکائی ہوئی روٹیاں ہوتی تھیں – کٹوہ دراصل گھڑے کی طرح مٹی کی بنی ہوئی دیگ ہوتی تھی – اس میں گائے کے گوشت کا سالن گوشت سپلائی کرنے والے قصاب بناتے تھے – بالکل سادہ سے مصالحے ( ثابت مرچ ، خشک دھنیا ، نمک پیاز ) سے بنے ہوئے اس سالن کا ایک مخصوص ذائقہ ہوتا تھا جس کی بنا پر اسے بہت بڑی نعمت سمجھا جاتا تھا – یہ واقعی ایک نعمت تھا – چھوٹے بڑے سب لوگ بڑے شوق سے کھاتے تھے – بن بُلائے مہمان بھی اس کھانے کی خاطر آجاتے تھے –
کٹوے کے سالن میں گھی نہیں ڈالا جاتا تھا بلکہ یہ سالن گوشت کے اندر کی چکنائی سے بنتا تھا – سالن کو گاڑھا کرنے کے لیئے تھوڑا سا آٹا بھی پانی میں حل کرکے اس میں ڈال دیتے تھے – کٹوے کے سالن کا ذائقہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا – جنہوں نے کھایا ہو وہی یہ بات سمجھ سکتے ہیں –
کٹوے کا سالن مٹی کی بنی ھوئی پلیٹوں میں ڈال کر کھایا جاتا تھا۔ ان پلیٹوں کو “ٹھبرا” کہتے تھے۔ ٹھبرے بھی قصاب ساتھ لاتے تھے۔
ہمارے داؤدخیل میں ایک بُرا رواج یہ بھی تھا کہ لوگ شادی والے گھرمیں کھانا کھانے کے بعد سالن ساتھ بھی لے جاتے تھے – خواتین سالن کے لیئے دیگچیاں ساتھ لاتی تھیں – بڑے رولے ہوتے تھے- جس کو سالن نہ ملے وہ ناراض ، منانے کے لیئے بڑے جتن کرنے پڑتے تھے –
ایک دفعہ ایک بزرگ نے ساتھ لے جانے کے لیئے سالن مانگا تو سالن تقسیم کرنے والے قصاب نے کہا بابا جی، سالن کے لیئے برتن تو لے آئیں –
بابا جی قریبی مسجد میں جاکر وضو کے پانی والا ایک خالی کُوزہ اُٹھالائے – جھولی پھیلا کر کہا “ بوٹیاں جھولی میں ڈال دو اور شوربہ کُوزے میں – لوگوں نے مذاق بھی اُڑایا ، مگربابا جی جھولی میں بوٹیآں اور کُوزے میں سالن لے کر ہی گئے –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ-———————– رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-22          اکتوبر2021

میرا میانوالی–

چاول بارانی علاقے کی فصل نہیں ، کیونکہ یہ تو کاشت ہی کھڑے پانی میں ہوتا ہے – شاید اسی وجہ سے چاول ہمارے علاقے میں مقبول خوراک نہ تھا – خوشی اور غم دونوں قسم کے مواقع پر کٹوے کا سالن اور دودھی والا حلوہ ہی چلتا تھا – اب تو ہمارے کلچر کا حُلیہ ہی بدل گیا ہے ، ولیمے میں پلاؤ ، بریانی اور زردے کی دیگیں بنوائی جاتی ہیں – یہ بھی بہت لذیذ چیزیں ہیں – مگر ہم پُرانے دور کی بات کر رہے ہیں – اُس دور میں چاول مریضوں کی خوراک سمجھا جاتا تھا – کھچڑی یا کھیر کی شکل میں مریض کو چاول ہی کھلایا جاتا تھا-
صرف ایک موقع پر چاول بہت مقبول غذا ہؤا کرتا تھا – محرم کی نیاز کے لیئے ہر گھر میں گُڑ والے چاول بنتے تھے – اتنے لذیذ کہ کھاتے ہوئے جی نہیں بھرتا تھا – جس گھر میں بھی نیاز ہوتی محلے بھر کے بچے چاول کھانے کے لیئے وہاں جمع ہوجاتے تھے – گُڑ والے چاول اعلی قسم کے باسمتی ، سیلا وغیرہ نہیں , بلکہ بہت سستے دیسی چاول ہوتے تھے جنہیں دَڑا چاول کہتے تھے – لیکن گُڑ اور گھر کے خالص گھی کی آمیزش سے یہ بہت لذیذ سویٹ ڈِش بن جاتے تھے – اعلی قسم کا چاول دیر سے ہضم ہوتا ہے – زیادہ کھائیں تو پیٹ پر بوجھ محسوس ہوتا ہے ، مگر گُڑ والا سستی قسم کا چاول جتنا بھی کھالیں بوجھ محسوس نہیں ہوتا – اب تو یہ چیزیں خواب و خیال ہوگئیں – گُر والے چاول اب تو کسی کو بنانا ہی نہیں آتا –

———————- رہے نام اللہ کا —

وااااہ ۔۔۔کیا کہنے سرجی !!!آھا ۔۔۔ گڑ والے چاول کی تلچھٹ جسے ھماری زبان میں “کروڈی ” کہتے ھیں ۔بہت مزیدار ھوتی ۔اس کے علاوہ زردہ کی بھی کروڈی بہت مزے کی ھوتی تھیں ۔اب بریانی کی بھی بہت سی قِسمیں آگئی ھیں ۔لیکن جو مزہ بیف بریانی کا ھے وہ دوسری بریانیوں کا نہیں یہ میری فیورٹ ھے ۔اب تو بیف بریانی بڑی عید پہ نصیب ھوتی ھے ۔بڑا گوشت بھی 600روپے کلو ھوچکا ھے ۔چکن بریانی بھی اب آسان نہیں ھے کھانا ۔
کیا وقت تھا جب عید پہ دیسی مرغ کا سالن پکتا تو واقعی عید کا دن محسوس ھوتا تھا ۔شادی بیاہ میں دودھ والا حلوہ اور گھر میں پالا ھوا بچھڑا یا بیل ذبح کیا جاتا اور اسی سے ولیمہ کیا جاتا تھا۔لوہ کی روٹیاں ھوتی تھیں ۔
بہت ھی خوبصورت دور گذرگیا ھے ۔سچا دور تھا ۔
جذبوں میں مٹھاس اور دل میں خلوص تھا

بشکریہ-منورعلی ملک-23اکتوبر2021

میرا میانوالی–

روایتی کھانوں کا ذکر چل رہا ہے تو میانوالی کی منفرد سویٹ ڈِش “ ڈودھی والا حلوہ“ کا ذکر ایک بار پھر – چند سال پہلے بھی اس کے بارے میں کُچھ لکھا تھا ، اب کُچھ مزید باتیں –
یہ حلوہ دراصل ضلع اٹک کے مشہور و معروف قصبے مکھڈ شریف کے لوگوں کی ایجاد ہے – تقریبا ڈیڑھ سو سال پہلے مکھڈ کے کُچھ لوگ دریا کے راستے ہجرت کرکے کالاباغ میں آباد ہوئے تو ڈودھی والا حلوہ کالاباغ میں متعارف ہوا – جلد ہی اس کی شہرت پوُرے ضلع میں پھیل گئی – اس کے بنانے کی ترکیب بالکل سادہ سی ہے ، اس لیئے کالاباغ سے سیکھ کر دوسرے کئی شہروں میں بھی ہوٹلوں اور ڈھابوں پر یہ حلوہ بننے لگا – کالاباغ کے گردونواح میں کوٹ چاندنہ سے کمر مشانی تک اور جنوب میں داؤدخٰیل تک یہ حلوہ گھروں میں بھی بننے لگا –
ترکیب یہ ہے کہ آٹا پانی میں بھگو کر اُسے باریک کپڑے میں چھان لیں – دُودھ کے رنگ کا جو پانی اس سے حاصل ہو اُسے کم ازکم دوگھنٹے پڑا رہنے دیں – دوگھنٹے بعد زائد پانی نتھار کر الگ کردیں تو گاڑھے دُودھ جیسا آٹے کامحلُول بچ جائے گا – دُودھ جیسا یہی محلُول دودھی کہلاتا ہے – پھر کڑاہی میں گُڑ , یا چینی ، تھوڑا سا پانی اور گھی ڈال کر پَت ( گاڑھا شیِرہ) بنا ئیں اور دودھی اُس شیرے میں ڈال کر ہلکی آنچ پر پکا لیں –
تین چار گھنٹے کے اس دردِسر سے بچنے کے لیئے لوگوں نے یہ حلوہ بنانے کا ایک شارٹ کٹ بھی نکال لیا ہے کہ سُوجی پانی میں حل کرکے گُڑ یا چینی کے شیرے میں ڈال کر پکالیتے ہیں – وہ بھی تقریبا یہی چیز بنتی ہے – مگر اصل چیز دودھی والا حلوہ ہی ہے جو بے حد لذیذ ہوتا ہے –
طریقہ جتنا میں جانتا تھا ، آپ کو بتا دیا – آگے اپنے رِسک پہ ٹرائی کرلیں – لیکن یاد رکھیں ہمارے علاقے میں لوگ کہتے ہیں دودھی والا حلوہ اگر درست نہ بنے تو کُتا بھی اِسے نہیں کھا سکتا –
اِس حلوے کے کئی نام تھے – مکھڈ کی نسبت سے اسے مکھڈٰی حلوہ بھی کہتے تھے – بہت پُرانے زمانے کے بزرگ اسے صبُونی حلوہ بھی کہتے تھے – صبُونی کے معنی میں بھی نہیں جانتا ، کسی سے پُوچھ بھی نہیں سکتے کہ
گُذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ————————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-24اکتوبر    2021

میرا میانوالی–

یادیں ۔۔۔۔۔۔۔ 2019
ملک سوہنا خان بے وس کے ساتھ
وتہ خیل سی ڈی سنٹر کے مالک لیاقت علی خان کے ہاں ۔
فوٹو : ملک شہزاد

 

میرا میانوالی–

گُڑ ——–
گُڑ ہمارے کلچر کا ایک اہم جُزو ہوا کرتا تھا – دیہات میں مٹھائی کی دُکانیں تو ہوتی نہیں تھیں ، ہر خوشی کے موقع پر گُڑ بانٹنا ہمارے علاقے کا مستقل رواج تھا – بچوں کی پیدائش ہو یا امتحان میں کامیابی ، خوشی کا اظہار محلے داروں میں گُڑ بانٹ کر ہی کیا جاتا تھا – منگنی کے موقع پر بھی چھوہاروں کی بجائے گُڑ ہی بانٹتے تھے – کسی قریبی رشتہ دار یا دوست کی بیمار پُرسی کے لیے جاتے تو دوچار کلو گُڑ ساتھ لے جاتے ، اور مریض کی طرف سے صدقے کے طور پر لوگوں میں تقسیم کر دیتے تھے –
ہماری امی بہت دریادِل تھیں – ہر دُوسرے چوتھے دن کسی نہ کسی بہانے گُڑ کی بوری گھر میں آئی پڑی ہوتی تھی – اُس زمانے میں گٹُو نہیں ہوتے تھے ، بوریاں ہی چلتی تھیں – اس دریا دِلی کی وجہ سے گھر میں خواتین کا میلہ لگا رہتا تھا – گھر کی صفائی ، برتن اور کپڑے دھونے کاکام وہ خواتین اپنی خُوشی سے کر دیتی تھیں –
یہ چیز جسے ہم آج گُڑ کہتے ہیں اُس زمانے میں نہیں ہوتی تھی – علاقے کی دُکانوں پر شہد جیسا میٹھا پشاوری گُڑ ملتا تھا – اِس گُڑ کی رنگت سُرخی مائل ہوتی تھی اس لیئے اسے رَتا (سُرخ گُڑ) بھی کہتے تھے- اس کا سائیز روٹی کے نوالے جتنا ہوتا تھا – ہم اسے گُڑ نی روڑی کہا کرتے تھے – ویسے تو یہ پشاوری گُڑ کہلاتا تھا لیکن ہمارے علاقے میں یہ گُڑ ضلع مردان کے شہر ہاتھیان کی منڈی سے آتا تھا –
گُڑ سے کئی قسم کی سویٹ ڈِشِز بھی بنتی تھیں – سادہ حلوہ ، دودھی والا حلوہ ، کرکنڑاں ، میٹھے پراٹھے اور وَشِلیاں وغیرہ ہر گھر میں بنتی تھیں ——
گُڑ زبردست ہاضم بھی ہے – اس لیئے لوگ کھانے کے بعد گُڑ کی ایک روڑی ضرور کھایا کرتے تھے – ہمارے گھر میں مظہر بیٹا ابھی تک اس رواج پرعمل کررہا ہے- ورنہ تو اب نہ وہ گُڑ رہا ، نہ وہ لوگ –
———————— رہے نام اللہ کا بشکریہ-منورعلی ملک-26اکتوبر    2021

میرا میانوالی–

گُڑ کا تعارف ابھی مکمل نہیں ہوا – کچھ مزید باتیں یاد آگئیں –
دسمبر جنوری کی برفانی راتوں کے پچھلے پہر کھیتوں کو نہر کا پانی دینے والے کسان گُڑ کی چند روڑیاں جیب میں ڈال کر لے جاتے تھے – کہتے تھے گُڑ کی ایک دو روڑیاں کھا لینے سے سردی کا احساس ختم ہو جاتا ہے – اُن لوگوں کی اپنی سائنس ہوتی تھی جو کافی حد تک درست تھی کیونکہ یہ مشاہدے پر مبنی ہوتی تھی –
گھر میں جب کبھی دوپہر کے کھانے میں ہماری پسند کا سالن نہ بنتا تو ہم لوگ گُڑ کے ساتھ روٹی کھالیتے تھے – گرماگرم تازہ روٹی گُڑ کے ساتھ کھانے کا ایک اپنا لُطف ہے – مگر اب کہاں ، نہ وہ بارانی گندم کی مست خوشبُو والا آٹا رہا ، نہ وہ میٹھا نرم پشاوری گُڑ –
ہمارے محلے کے دکاندار چاچا اولیا گُڑ کی دو مٹھائیاں بناتے تھے – سفید تِلوں والی چپٹی کڑاکے دار ریوڑیاں اور پَت ——- پَت خوشاب کے پتیسے کا دیہاتی ایڈیشن سمجھ لیں – لوہے کے ایک بڑے تھال میں گُڑ کو آگ پر پگھلا کر اُس میں مونگ پھلی کے دانے ڈال دیتے تھے – ٹھنڈا ہونے کے بعد یہ بہت خستہ کراری مٹھائی بن جاتی تھی – انگریزی کا لفظ crunchy پَت کا بہترین تعارف ہے –
گُڑ سے میٹھا روٹ بھی بنتا تھا – گُڑ کے شربت میں آٹا گوندھ کر اس کی موٹی سی روٹی بنالیتے تھے – بہت مزیدار چیز ہوتی تھی – عام طور پر بزرگ خواتین ہر جمعرات کو میاں رِمدی صاحب کے مزار پر روٹ تقسیم کیا کرتی تھیں – روٹ کی خاطر ہم بچہ لوگوں کی فوج اُن کے ہمراہ جایا کرتی تھی —— محرم میں تعزیوں پر بھی روٹ رکھے جاتے تھے –
وقت کے ظالم ہاتھوں نے ہم سے گُڑ بھی چھین لیا ، یہ سب رسم و رواج بھی مٹا دیئے –
———————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-27        اکتوبر    2021

میرا میانوالی–

فیس بُک پہ ہماری محفل کا آغاز جولائی 2015 میں ہوا – روزانہ ایک پوسٹ کے حساب سے اب تک 1500 سے زائد پوسٹس لکھ چکا ہوں – موضوعات کے لحاظ سے ان پوسٹس کی ترتیب کُچھ یُوں بنتی ہے –
آپ بیتی —– خاندان ، تعلیم ، ملازمت ، ادبی خدمات اور زندگی کے اہم واقعات –
2. شخصیات —- ابتدائی دور کے فیس بُک فرینڈز ، اپنے ٹیچرز اور رفقائے کار کا تعارف
3. کلچر —– ضلع میانوالی کے کلچر کے مختلف پہلوؤں کا ذکر —- زبان ، طرزِ زندگی ، رسم و رواج ، تقریبات ، عید، میلے ، محرم کی عزاداری ، کھیل ، اہم شخصیات کا تذکرہ
4. داؤدخیل ، عیسٰی خیل ، میانوالی ، راولپنڈی اور لاہور میں اپنے قیام کی داستانیں –
5. 2019 میں دیارِ حرم میں حاضری کی رُوداد
6. متفرق واقعات
یہ سب کُچھ اگر کتاب کی شکل میں شائع کرایا جائے تو کم از کم تین کتابیں بنیں گی – دعا کریں اللہ کریم ہمت اور مہلت عطا فرما دے تو یہ کام سرانجام دے لُوں گا – کام خاصا محنت طلب ہے ، کیونکہ میں کسی ترتیب کے بغیر لکھتا ہوں ، اکثر تو موضوع کا فیصلہ صبح لیپ ٹاپ آن کرنے کے بعد کرتا ہوں ، جو جی میں آئے لکھ دیتا ہوں —بس اتنی احتیاط کرتا ہوں کہ صرف سچ ہی لکھوں –
بحمداللہ جو کُچھ بھی لکھوں لوگ پسند کر لیتے ہیں – خوش ہوتے ہیں ، دعائیں دیتے ہیں – آپ لوگوں کی دعائیں مجھے یہ کام جاری رکھنے کا حوصلہ عطا کرتی ہیں –
کتاب کی صورت دینے کے لیئے ان تمام تحریروں کو موضوعات کے مطابق مرتب کرنا پڑے گا – اس کام کا آغاز آج سے کردیا ہے – چند ماہ لگ جائیں گے – دعا کرتے رہیں –
———————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-28 اکتوبر    2021

میرا میانوالی–

کیا آپ نے کبھی پراٹھا کھایا ہے —-؟
جی نہیں ، جس چیز کو آپ پراٹھا کہتے ہیں اُسے ہمارے ہاں ستاپڑی کہتے تھے – ناشتے میں تو توے پر پکائی ہوئی سادہ روٹی گھر کے خالص دیسی گھی یا مکھن اور پتلی لسی کے ساتھ کھائی جاتی تھی –
پراٹھا خاصی ٹیکنیکل چیز تھا – یہ صرف شدید سردی کے موسم میں رات کو کھایا جاتا تھا – توے پر روٹی ڈال کر اُس پر گُڑ پِیس کر ڈال دیتے ، پھر اُس کے اُوپر ایک اور روٹی ڈال کر پکالیتے تھے – اس گرما گرم تازہ روٹی کے درمیان میں چُھری یا چاقُو سے چھوٹا سا ٹُکڑا ( ٹاکی) کاٹ کر اس میں گھی بھر دیتے – گھی میں ذرا سی ہلدی بھی ڈالتے تھے – پھر روٹی کے کناروں سے ٹکڑے کاٹ کر گُڑ ، گھی اور ہلدی کے آمیزے میں ڈبو کر کھاتے تھے – بے حد مزیدار غذا تھی – توانائی سے بھرپُور – اسے کھانے کے بعد سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک توانائی کا احساس ہوتا تھا – ہلدی اس لیئے ڈالتے تھے کہ یہ خالص آیئوڈین Iodine ہے – سردی سے جسم میں ہونے والے ہر درد کا علاج ہے –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
———————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-29 اکتوبر    2021

میرا میانوالی–

وسط اکتوبر سے سردی کے استقبال کی تیاریاں شروع ہو جاتی تھیں – لحافوں ، رضائیوں ، کمبلوں اور گرم کپڑوں کی دُھلائی کی جاتی تھی – زیادہ تعداد میں گرم ملبوسات نہ تو میسر تھے ، نہ ہی اُن کی کوئی خاص ضرورت محسوس کی جاتی تھی – سردی کم لگتی تھی – اس کی ایک وجہ توانائی سے بھرپُور خالص غذا تھی – گھر کی گائے یا بھینس کا دُودھ ، مکھن ،گھی ، کیمیائی اثرات سے پاک دیسی گندم ، دیسی مُرغیاں اور انڈے ، پشاوری گُڑ – اس خوراک کے صحتمند اثرات بحمدللہ آج ساٹھ ستر سال بعد بھی برقرار ہیں – جسم میں ہر قسم کی بیماریوں کے خلاف مدافعت کا قدرتی نظام بخیر وخُوبی کام کر رہا ہے –
زیادہ تر بزرگ لوگ کوٹ یا سویٹر کی بجائے لٹھے کی سفید چادر اوڑھ کر سردی کا موسم گذار لیتے تھے – بہت زیادہ سردی لگتی تو اُونی شال (لُکار) اوڑھ لیتے تھے – بچوں کے لیئے حسبِ توفیق سویٹر خریدے یا گھر میں بنالیئے جاتے تھے –
ہمارے گھر میں سردی کا مقابلہ کرنے کا خاص اہتمام ہوتا تھا – بہت بڑا چار کنال کا گھر تھا – اس میں ایک لمبا سا ہال نما کمرہ سردیوں کے لیئے وقف تھا – سرد موسم شروع ہوتے ہی ہم سب کے بستر اور سامان وہاں منتقل ہوجاتا تھا – وہ کمرہ باہر سے پختہ اینٹوں اور اندر سے کچی اینٹوں کا بنا ہوا تھا – یہ اُس زمانے کی خاص ٹیکنالوجی تھی – کچی اینٹیں سردی جذب نہیں کرتیں – کمرے کو گرم رکھنے کے لیئے اس کے مرکز میں بنے ہوئے چوکور چُولہے میں شام سے آدھی رات تک آگ جلائی جاتی تھی –
اس سارے اہتمام کی وجہ یہ تھی کہ مُجھ سے پہلے میرے ایک بھائی اور بہن ایک دوسال کی عمر میں سردی کے بُخار (نمونیہ ) سے مر گئے تھے – ماں تو ماں ہوتی ہے — پھُول جیسے دو بچوں کی موت نے امی کو سردی سے اتنا ڈرا دیا کہ ہم لوگوں کو وہ شام کے بعد کمرے سے باہر قدم نہیں رکھنے دیتی تھیں – پیشاب کے لیئے برتن کمرے کے ایک کونے میں رکھا ہوتا تھا – بارش کے دنوں میں ہمیں سکُول نہیں جانے دیتی تھیں – کہتی تھیں دفع کرو سکُول کو – پڑھنے لکھنے کے لیئے ساری عُمر پڑی ہے ، تمہارے دوچار دن سکُول نہ جانے سے قیامت نہیں آجائے گی – علم کہیں بھاگ نہیں جائے گا —— آہ —-
گھر سُونا کر جاتی ہیں
مائیں کیوں مر جاتی ہیں
———————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-30      اکتوبر    2021

میرا میانوالی–

کمال کر دیا ڈاکٹر صاحب نے —- ! ! !
ذکر ہے ڈاکٹر طارق مسعود خان نیازی شہباز خیل کی آپ بیتی “ میں اور میرا میانوالی“ کا جو ایک خوبصورت کتاب کے رُوپ میں اسی ماہ (اکتوبر 2021 ) میں اوراق پبلیکیشنز اسلام آباد نے شائع کی ہے – اپنی مٹی سے والہانہ محبت کی ایسی مثالیں بہت کم دیکھنے میں آتی ہیں – شہباز خیل سے ڈاکٹر صاحب کی محبت کا یہ عالم ہے کہ کتاب کے ٹائیٹل پر اپنے نام کے ساتھ شہبازخیل لکھنا بھی ضروری سمجھا –
“میں اور میرا میانوالی“ تین حصوں پر مشتمل ہے – پہلے حصے میں ڈاکٹر صاحب نے بچپن سے لے کر اب تک اپنی زندگی کا احاطہ کیا ہے – اس حصے میں شہباز خیل قبیلے کا مختصر تعارف ، بچپن کے واقعات ، ابتدائی تعلیم ، علامہ اقبال میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس ، ہاؤس جاب ، سنٹرل جیل میانوالی سے میڈیکل آفیسر کی حیثیت میں سروس کا آغاز, مختلف مقامات اور عہدوں پر تعیناتی —– ایم ایس ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر پسپتال میانوالی ، ایم ایس بے نظیر شہید ہسپتال راولپنڈی اور دوسرے اہم مناصب کا ذکر ہے –
کتاب کے اس حصے میں سب سے زیادہ دلچسپ تذکرہ اپنے کلچر کے اُن خُوبصورت پہلوؤں کا ہے جو وقت کی گرد میں گُم ہو کر منظر ِعام سے غائب ہوگئے – مثلا شادی بیاہ کے رسم و رواج کے بارے میں یہ عنوانات دیکھیئے —
1. گھڑولی کا فنکشن
2. کپی ٹُکی
3. کانڈھ (باراتیوں کی آمد)
4. لالہ جاگ
5. جنج ( بارات) کی روانگی
علاقائی تہواروں اور تقریبات کی اور بھی بہت سی تفصیلات اس کتاب کی زینت ہیں –
ڈاکٹر صاحب مقامی اور قومی اخبارات میں کالم بھی لکھتے ہیں – کتاب کا دُوسرا حصہ انہی کالموں پر مشتمل ہے –
کتاب کا تیسرا حصہ میانوالی کی معروف کہاوتوں پر مشتمل ہے ، جنہیں ہماری زبان میں اکھانڑں کہتے ہیں –
اتنی دلچسپ اور جامع کتاب کا سرسری تعارف لکھنے کو دل نہیں مان رہا ، کُچھ مزید باتیں ان شآءاللہ کل –
——————— رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-31 اکتوبر    2021

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top