MERA MIANWALI SEP 16

میرا میانوالی 

کالج میں پروفیسر صاحبان کے دو ٹی کلب بھی تھے جہاں چائے کے شوقین حضرات فارغ اوقات میں چائے پیا کرتے تھے- ایک کلب بیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں لیبارٹری کے ساتھ والے سائیڈ روم میں ، دوسرا کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کی لیبارٹری کے سائیڈ روم میں ھؤا کرتاتھا، شعبہ انگریزی کے سربراہ ملک سلطان محمودصاحب- سرور خان، طاھر جہان خان اور میں اس کلب کے ممبرتھے- شعبہ بیالوجی کے سربراہ پروفیسر لالا فاروق صاحب ، پیر اقبال صاحب، عبدالرب خان نیازی صاحب ، ملک مقصوداحمد، سردارخان نیازی، میاں امام رضا اور مطیع اللہ خان، شعبہ سیاسیات کے سربراہ پروفیسر محمد سلیم احسن , ریاضی کے شیخ گل محمد، اور اردو کے پروفیسر محًمد فیروز شاہ صاحب بھی اس ٹی کلب کے ممبر تھے- لیبارٹرٰی اٹنڈنٹ محمد اقبال خان چائے بنانے پر مامور تھے- اقبال خان قضائے الہی سے جوانی ھی میں فوت ھو گئے تو ان کی جگہ ان کے والد چاچا یارن خان ھمارے ٹی کلب کے ساقی بن گئے- چاچا یارن خان پہلے کنٹرولر امتحانات پروفیسر کاظمی صاحب کے دفتر میں کام کرتے تھے-

کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کے ٹی کلب کے ارکان شعبہ کیمسٹری کے سربراہ پروفیسر ملک محمد انور میکن ، پروفیسر عبدالوحید قریشی، پروفیسر مظہر اقبال ، عبدالغفار بھٹی صاحب، ظفراقبال خان نیازی کے علاوہ شعبہ جغرافیہ کے سرپراہ پروفیسر عطاءاللہ خان نیازی، تاریخ کے پروفیسر اقبال قاسمی، احمد حسن خان نیازی اور اردو کے پروفیسراحمد خان نیازی بھی اس ٹی کلب کے ممبر تھے- پرنسپل بننے سے پہلے ڈاکٹر غلام سرورخان نیازی بھی اسی کلب کے ممبر تھے- اس کلب میں ساقی لیبارٹری اٹنڈنٹ حاجی احمد خان اور ان کے ھمنام احمد خان تھے-

دونوں کلبوں کے کچھ ارکان اور بھی تھے- جن کے نام اس وقت ذھن میں نہ آسکے- ان سب دوستوں سے مّعذرت-

عام لوگوں کے لیے ان ٹی کلبوں کے ذکر میں دلچسپی کی کوئی بات ھو نہ ھو ، ھم نے وھاں اپنی جوانی گذاری ھے، ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھا ھے، اس لیے اپنی داستان حیات میں ان کا ذکر تو ھوگا- کچھ مزید باتیں انشاءاللہ کل -1 ستمبر  2016

فیس بک سے دوستی ——–

“ سر، آپ مجھے بیٹا کہتے ھیں ، میرے لیے یہی اعزاز کافی ھے، پلیز مجھ پہ پوسٹ نہ لکھیں “
“ پوسٹ تو میں نے ضرور لکھنی ھے- جو میں کہہ رھا ھوں وہی کرو، اپنی تصویر بھیجو“
“ سر ، پھر نام اور تصویر کے بغیر ‘ میراایک بیٹا لکھ کر میرے بارے میں جوچاھیں لکھ دیں “


یہ گفتگو کل شام شوکت اللہ نیازی اور میرے درمیان فون پر ھوئی- میں نے تصویر مانگی تھی ، آگے سے یہ جواب ملا تو میں نے ذرا سخت لہجے میں کہا “ مجھے تصویر بھیجو“
کچھ دیر بعد تصویر مجھے موصول ھو گئی- حاجی اکرام اللہ نیازی کی طرح شوکت اللہ بھی میرے اولیں فیس بک فرینڈز میںں سے ھیں- میری تمام پوسٹس باقاعدہ پڑھتے اور ان پر لائیکس، کمنٹس یا ری ایکشن دیتے ھیں- ناصرخان کے چھوٹے بھائی اور میرے ایم اے کے سابق سٹوڈنٹ ھیں- اللہ کے فضل سے ایم اے انگلش کر لیا تھا، مگر طبعی رجحان بزنس کا تھا، اس لیے ملازمت کی بجائے بزنس سے وابستہ ھو گئے- کچھ عرصہ اپنے بھائی ناصر خان کا فوٹو سٹوڈیو چلاتے رھے‘ پھر گورنمنٹ ھائی سکول روڈ پہ میڈیکل سٹور بنا لیا-
شوکت نے بھی میری بہت فرمائشیں پوری کی ھیں- میری تصویروں کی کاپیاں بنانے اور انہیں فریم کروانے کاکامم یہی کرتے رھے- ایک دفعہ مجھے اپنے گھر لے جاکر ناصرخان کے باغ میں بھی میری بہت سی تصویریں بنا دیں – اللہ انہیں سلامت رکھے ، میرے بہت پیارے بیٹے ھیں-
ان کے بڑے بھائی عشرت خان بھی ایم اے انگلش میں میرے سٹوڈنٹ رھے- ایم اے کرنے کے بعد سول سروسس میں چلے گئے، مجسٹریٹ اور ڈپٹی سیکریتری بھی رھے، آج کل فیصل آباد میں بہت بڑے افسرھیں- سرکاری معاملات میں اکثر ھماری مشکل کشائی کرتے رھتے ھیں- اللہ ان سب بھائیوں کو بے حساب عزت عطا فرمائے، وتہ خیل کیسیٹ ھاوس والوں کی طرح یہ بھی میرا مان ھیں —–
ستمبر  2016

فیس بک سے دوستی ——–

میری جنوری سے لے کر جولائی کے آخر تک کی کوئی اردو پوسٹ ، اور اپریل سے لے کر جولائی تک کی میری کوئی انگلش پوسٹ آپ دیکھنا چاھیں تو آپ 786mianwali.com اورر 786isakhel.comپر کسی بھی وقت دیکھ سکتے ھیں- انشاءاللہ جلد ھی اگست کی پوسٹس بھی اپ لوڈ ھو جائیں گی- صرف میری پوسٹس ھی نہیں ، ظفرخان نیازی کی دلچسپ معلوماتی پوسٹس، افضل عاجز کی “اے میرے صاحب “ کے عنوان سے پوسٹس، منصؤرآفاق کے مطبوعہ کالم “دیوار پہ دستک“ ڈاکٹر اسد مصطفی کے مطبوعہ کالم ، اور میانوالی کے کچھ دوسرے معروف اھل قلم کی نمائندہ تحریریں بھی آپ کو انہی دو ویب سائیٹس سے مل سکتی ھیں۔ان کے موضوعات ایک نظر دیکھیے- میانوالی کی تاریخ، جغرافیہ، ثقافت، نامور بزرگ۔ تصوف، اور بہت سے دوسرے موضوعات- ھر موضوع پر ایک الگ باب، تحصٰیل عیسی خیل کے معروف خاندانوں کے شجرہ نسب، بے شمار نایاب تصاویر اور بہت کچھ-
یہ سب کچھ کردیا ھے عیسی خیل کے مشہورنیازی قبیلہ بمبرا کے شیر بہادر خا ن نیازی نے – یہ کام ایک ادارے بلکہ ایکک سے زیادہ اداروں کے کرنے کا تھا، مگر اللہ بے حساب اجر خیرعطا فرمائے شیر بہادرخان کو کہ انہوں نے اکیلے یہ کام کردیا اور ابھی اس میں مسلسل اضافے کے لیے مزید کام کر رھے ھیں-

شیر بہادر خان کا مفصل تعارف انشاءاللہ کل کی پوسٹ میں لکھوں گا—–2 ستمبر  2016

MY(SHER BAHADUR KHAN) SPECIAL THANKS

TO PROF MUNAWAR FOR POST

Mianwali Mianwalian

I am thank full to Allah Almighty that he gave me strength to start thinking and work for Mianwali and Mianwalian with aim to post maximum on the internet about mianwali and mianwalian so that every one around the world should know about us and to leave some work for our future generations
Sir Professor Munawar Ali Malik, i am having noo words to thank you because a single word from great even greatest personality like you is enough for person like me who just need love from mianwalian and so many words of sir munawar left me speechless .
i would like to thanks sir munawar over here forr following
* i started 786isakhel.com in 2007 andd 786mianwali in 2011 but due to slow responsee from others i slow done but once i approched you n you open heartly shared your data i got charged up and started again
Thank you for your love for mianwali andd mianwalians
Thank you for saying yes for sharing valuablee data just for mianwali n mianwalians love .
Thank you for your soft, strong shoulder to boostt my moral to work more for786isakhel.com nn 786mianwali,com
Thank you for your creative touch, it adds moree beauty to the world.
Thank you for your presence on facebook too enable us to benefit from your great knowledge
Thank you for your thoughtfulness.
Thank you for your infectious laughter.
Thank you for pushing yourself and others too work for mianwali n mianwalians .
Thank you for being so open and non-judgemental. It makes people feel safe.
Thank you for your hard work and focus, it reallyy makes a difference.
Thank you for your willingness to put yourself outt there.
Thank you for being willing to fail and ready too leap.
Thank you for your passion and dedication.
Thank you for caring about the world around you.
Thank you for being vulnerable, we know it’s nott easy.
Thank you for facing your challenging times withh grace.
Thank you for the great people and ideas you’vee birthed.
Thank you for helping loved ones transition, forr burying them with blessings and honor.
Thank you for being so incredibly compassionate.
Thank you for being YOU.
I could go on and on because your magnificencee and contributions are limitless. Basically, I think you are a treasure and I want to acknowledge what a great person you are and all the wonderful things you do to make this universe a brighter place.
Thanksssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssssss

میرا میانوالی

ایک دفعہ نامور سیاست دان حامد ناصر چٹھہ ھمارے کالج تشریف لائے- چٹھہ صاحب اس وقت قومی اسمبلی کے سپیکر تھے- کالج کادورہ مکمل کرنے کے بعد انہوں نے کہا “میں پورا پنجاب پھرا ھوں، ایسا خوبصورت کالج کہیں نہیں دیکھا“-
کل کالج کے ٹی کلبوں کی بات ھورھی تھی- عام طور پہ تیسرے پیریئڈ میں ھمارے کلب کے اکثر ممبر فارغ ھوتے تھے،، اس وقت چائےاور گفتگو کا بڑا دور چلتا تھا، تعلیم ، سیاست، ثقافت ، اخلاقیات جیسے سنجیدہ موضوعات پر بات چیت کے علاوہ پروفیسرفاروق صاحب اور پروفیسر پیراقبال صاحب کی آپس میں دلچسپ چھیڑ چھاڑ، سرورنیازی صاحب کے سپیشل لطیفے جو صرف زبانی ھی سنائے جا سکتے ھیں- مقصود صاحب کو میں اکثر یہ کہہ کر چھیڑا کرتا تھا کہ آپ یہاں میرے پاس بیٹھے رھا کریں، آپ کی کلاس چاچا یارن خان پڑھا دیا کرے گا- آپ کا مضمون ھی ایسا ھے کہ کوئی بھی پڑھا سکتا ھے- کبھی میں دوستوں سے کہتا تھا مقصود صاحب تو یہاں صرف حاضری لگانے آتے ھیں، ان کی کلاس تو ان کے گھر جاتی ھے ٹیوشن پڑھنے کے لیے- اللہ خوش رکھے مقصود صاحب کو بہت ھنستے تھے میری ان باتوں پر-
تیسرے پیریئڈ کے علاوہ بھی فارغ وقت میں کوئی نہ کوئی دوست ٹی کلب میں پیاس بجھانے آتا رھتا تھا- چاچا یارن خانن موجود نہ ھوتے تو چائے ھم لوگ خود بنا لیتے تھے-
جب کالج میں ایم اے انگلش اور ایم اے سیاسیات کی کلاسز کا آغاز ھوگیا تو انگلش اور سیاسیات ڈیپارٹمنٹ کے اپنے اپنےے ٹی کلب بھی بن گئے، مگر سرورخان، سلیم احسن ، ناصر اقبال اور میں نے بیالوجی ٹی کلب کی رکنیت بھی برقرار رکھی دونوں جگہ چائے پیتے رھے، بلکہ میں تو تین جگہ سے چائے پی لیتا تھا ، سلیم احسن صاحب کے کلب میں بھی میرا حصہ شامل رھا- اوپر نیچے تین کلاسیں پڑھانی ھوں تو تیل پانی تو پورا رکھنا پڑتا ھے-
ستمبر  2016

میرا میانوالی

ڈاکٹر رشید احمد ھمارے پرنسپل تھے- گورنمنٹ کالج برائے خواتین میں ٹیچرزکی کمی تھی- صرف ایک ٹیچر رہ گئی تھیں- خواتین کالج کی پرنسپل صاحبہ نے ڈائیریکٹر کالجز سے بات کی تو انہوں نے ھمارے پرنسپل صاحب سے کہا کہ اپنے ایک ٹیچر کی ڈیوٹی ادھرلگادیں- ھمارے ھاں بھی اس وقت صرف ھم چار لوگ تھے، اس لیے ایک ٹیچر کو بالکل فارغ تو نہیں کیا جا سکتا تھا- پرنسپل صاحب نے مجھ سے کہا“ملک صاحب، آپ مہربانی کریں ، ادھر کی کلاسز کے علاوہ دوکلاسز ادھر بھی پڑھا دیا کریں، “
میں نے یہ ذمہ داری قبول کر لی- اب صورت حال یہ تھی کہ اپنے کالج میں فرسٹ ایئر اور سیکنڈایئر کی کلاسز لینے کے بعد میںں خواتین کے کالج چلا جاتا ان کی سیکنڈائیر اور فورتھ ائیر کی کلاسز کو پڑھانے کے بعد اپنے کالج واپس آکر اپنی فورتھ ائیر کی کلاس لیتا تھا- اللہ نے ھمت دے رکھی تھی ، پڑھانا میرے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا- کچھ لوگوں نے کہا خواتین کالج والوں سے معذرت کر لیں، میں نے کہا وہ بھی تو میری بچیاں ھیں- اللہ خیر کرے گا-

ایک دن میرے اپنے کالج مین فورتھ ائیر کے ایک سٹوڈنٹ نے کہا “ سر، آپ ادھر بھی پڑھاتے ھیں ادھر بھی، کیا فرق ھے ان کے اور ھمارے درمیان ؟“

میں نے کہا “ بیٹا، ایک چیز ھوتی ھے شرم وحیا ، وہ ادھر ھے، ادھر نہیں ھے- کسی بچی کو میں ایک دن ڈانٹ دوں تو وہ دن بھر روئے گی، کھانا بھی نہیں کھائے گی، مگر زندگی میں وہ غلطی دوبارہ نہیں کرے گی- آپ لوگوں کے سر پہ ھم کلاشنکوف لے کر کھڑے ھو جائیں، پھر بھی آپ نے کرنا وھی ھے جو آپ کا دل چاھے -“

یہ جواب سن کر تمام ستوڈنٹ ھنسے بھی بہت، مگر اس دن سے تعلیم کے معاملے میں زیادہ سنجیدہ ھو گئے -3 ستمبر  2016

فیس بک سے دوستی

اپنی کل کی پوسٹ پر شیربہادر خا ن نیازی کے کمنٹ پڑھ کر آنکھیں بھیگ گئیں، کچھ سمجھ میں نہیں آرھا کہ آج کی پوسٹ میں کیالکھوں- الفاظ گرفت میں نہیں آرھے، اتنی محبت، اتنی عقیدت، اتنے احترام کا کیا جواب دوں- دعا کے چار لفظ ذہن میں آ سکے ، وہ رب کریم کی خدمت میں عرض کردیے- یقین ھے یہ دعا انشاءاللہ خالی نہیں جائیگی- پوسٹ میں مزید کچھ کہنے کی کوشش کرتا ھوں، شاید آپ لوگوں کے کام کی کوئی بات نکل آئے-
جب میں عیسی خیل میں محلہ بمبرانوالہ میں رھتا تھا تو پانچ سات سال کے ایک بچے کو سکول آتے جاتے یا اپنے کزنز امیرر خان وغیرہ کے ساتھ دیکھا کرتا تھا- میں نے اس بچے سے نہ کبھی بات کی تھی نہ اس کا نام پوچھا تھا- مجھے کیا خبر تھی کہ وہی بچہ بڑا ھوو کر میری زندگی میں کتنا اھم کردار ادا کرے گا- میری تحریروں کو سلیقے سے سجا کر ساری دنیا کے سامنے رکھ دے گا-

فیس بک پر جب شیر بہادرخان نے آج سے تقریبا ایک سال پہلے مجھ سے رابطہ کیا تو پروفائیل کی تصویرمیں، فوجی وردی میں ملبوس نوجوان کو دیکھ کر یوں لگا کہ میں نے بہت عرصہ پہلے کہیں یہ چہرہ دیکھا ضرور ھے- یہ نہ سمجھ سکا کہ یہ کون ھے اور اسے کہاں دیکھا تھا- فیس بک پر رابظہ بڑھا تو معلوم ھؤا کہ یہ محلہ بمبرانوالہ کا وھی بچہ ھے ، جو میری گلی میں پھرتا نظرآتا تھا-

شیر بہادرخان آج کل فوجی ٍفاؤنڈیشن کے ھیڈ آفس میں متعین ھیں- اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود میانوالی کے غریب لوگوں کی خدمت کے لیے ایک دو رفاھی ورک کرتے رہتے ہیں – مزید بہت کچھ کرنا چاھتے ھیں – اللہ ان کے نیک عزائم کو خیروبرکت سے مالا مال کر دے-

ان کی ویب سائیٹس کے سلسلے میں ، جتنی مصدقہ معلومات اور تصاویر مل سکیں انہیں فراھم کرنا ھم سب کا فرض ھے- یہ میانوالی کے محسن ھیں-

پہلے کہہ دیا تھا کہ آج کی پوسٹ لکھنا میرے لیے آسان نہیں- جو کچھ لکھ سکا لکھ دیا– فی الحال یہی کافی سمجھ لیں-3 ستمبر  2016

میرامیانوالی

خدا جانے اس دنیا کی سرحد کے اس پار کون اس کا منتظر تھا کہ منشی منظور شہرت، مقبولیت اور لاکھوں لوگوں کی والہانہ محبت چھوڑ چھاڑ کر دوسری دنیا میں جا بسا- ابھی تو وہ جوان تھا- خدا جانے کیوں چلاگیا- ابھی تو اس کا جو مختصر سا تعارف اس کی فرمائش پر میں نے لکھ کر دیا تھا، اس تحریر کی سیاھی بھی خشک نہیں ھوئی تھی-

میں لاھور میں تھا، منشی منظور نے فون پر مجھ سے رابطہ کیا- میں نے کہا “بیٹا مجھے ٹھیک سنائی نہیں دیتا میسیج کر دو- ایک آدھ منٹ بعد منظور کا میسیج موصول ھؤا، لکھا تھا میری شاعری کا مجموعہ شائع ھورھا ھے، اس کے لیے آپ کاتعارفیی مضمون چاھیئے- میں ان دنوں بیمار بھی تھا، مگر شکر ھے اللہ نے منظور کی فرمائش کی تکمیل کی ھمت دے دی اور میں نے ایکک مختصر سا مضمون لکھ کر بھیج دیا- یہ منظور کی پہلی اور آخری فرمائش تھی- اگر میں پوری نہ کر سکتا تو زندگی بھر ًاپنے ضمیر کا سامنا نہ کر سکتا-

کچھ لوگوں کی شاعری دلکش ھوتی ھے شخصیت مکروہ ، مگر بر بڑے فن کار کی طرح منظور کی شاعری بھی دلکش تھی، شخصیت بھی- اتنے میٹھے مزاج کا آدمی میں نے بہت کم دیکھا ھے-

“ڈکھی کر کے ٹر گیاھیں“ آج بھی لالا عیسی خیلوی کے مقبول ترین گیتوں میں شمار ھوتا ھے- اسی پہلے گیت نے منشی منظور کو فاروق روکھڑی، ملک سونا خان بے وس اور ملک آڈھا خان جیسے سینیئر شاعروں کی صف میں لا کھڑا کیا-

منظور کی شاعری پر مفصل تبصرہ انشاء اللہ اگلے اتوا ر کو لکھوں گا- 4 ستمبر  2016

فیس بک سے دوستی

فیس بک نے یاددلایا کہ آج محمدضیاءاللہ قریشی سے میری فیس بک فرینڈشپ کی سالگرہ ھے-

محمد ضیاءاللہ قریشی کو میں میانوالی کا شعری مستقبل کہوں تو غلط نہ ھوگا- بہت جان اور امکانات ھیں ان کی شاعری میں- اگر شہرت اور مقبولیت کے چکر میں پڑ کر کچی پکی باتیں نہ کہے لگ گئے توشہرت اور مقبولیت خود آکر ان کے گلے کا ھار بن جائیں گی- جدید لہجے میں نہایت سادہ الفاظ میں شعر کہتے ھیں-

محمد ضیاءاللہ کی شاعری اس لحاط سے بھی منفرد ھے کہ غم جاناں جیسے گھسے پٹے موضوع پر بھی بہت تروتازہ اور بڑے کام کی باتیں کہہ دیتے ھیں- دوسری انفرادیت ان کی شاعری کی یہ ھے کہ ان کی شاعری میں ھجرو فراق کا رونا کم اور وصال کا ذکر نمایاں ملتا ھے-

“ اوڑھ کے کالی شال مرے گھر آیا ھے“

اس قسم کی اور مثالیں بھی میں نے ان کی شاعری میں دیکھی ھیں- مایوسی کا عنصر ان کی شاعری میں بہت کم نظرآتا ھے- ان موضوعات کے علاوہ بہت سے نئے امکانات بھی ان کی شاعری میں دیکھنے میں آتے ھیں-غم دوراں کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ھے-

محمد ضیاءاللہ قریشی نئی نسل کے ھونہار شعراء میں سب سے سینیئر ھیں- تابناک مستقبل کے امکانات عابداللہ ملک اور شاکرخان کی شاعری سے بھی جھلکتے نظر آتے ھیں-اس گروپ میں ایک چوتھا نام بھی ھے ، اس وقت یاد نہ رھنے پر ھزار ھا معذرت- غالبا شاہ صاحب ھیں- ان کا نام ضیائاللہ کمنٹ میں بتا دیں تو اپنے قلم سے اس پوسٹ میں بھی شامل کر لوں گا-

محمد ضیائاللہ قریشی کی ایک خوبی یہ بھی ھے کہ میں کسی تقریب میں حاضری دوں تو اپنی موٹر سائیکل پر مجھے گھر پہنچانے کی خدمت بھی یہی سرانجام دیتے ھیں- آہ ، کسی زمانے میں محمد محمود احمد ھاشمی سرانجام دیا کرتے تھے-انشاءاللہ عنقریب ایک پوسٹ محمود کے بارے میں بھی لکھوں گا- اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور محمد ضیاءاللہ قریشی کو لمبی عمر اور بہت عزت سے مالا مال فرمائے-4 ستمبر  2016

میرا میانوالی

آج میں گورنمنٹ کالج میانوالی کی جس شخصیت کا ذکر کرنے لگا ھوں ان کی تصویر تو میرے پاس نہیں ھے- مگر میرے دل میں ان کی بڑی واضح تصویرھمیشہ رھے گی-(تصویر ابھی مسعود خان نے کمنٹ میں بھیج دی ھے- ان کا بہت شکریہ)


میرے وہ بہت پیارے دوست ھیں محمد ضیاءاللہ خان نیازی- جب میں اس کالج میں آیا تو ضیاءاللہ خان نیازی کالج کے دفتر میں سینیئرکلرک تھے – بعد میں ھیڈکلرک، پھر آفس سپرنٹنڈنت ھوگے-
کالج کے آفس سے میرا ھمیشہ بہت قریبی تعلق رھا، اللہ کے اس خصوصی کرم کی وجہ سے کہ مجھے ارود انگریزی دونوں زبانوں پر مکمل عبورحاصل تھا- جب تک میں اس کالج میں رھا، سرکاری چٹھیوں کے جواب میں ھی لکھتا رھا- ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اھم لیٹرزلکھنے کاکام میرے پاس ھی آتا رھا- اس خدمت کی بنا پر میں ھر پرنسپل صاحب کے بہت قریب رھا-پرنسپل صاحبان سے بھی زیادہ میری دوستی دفتر کے عملے سے رھی- میری ھر بات مانی جاتی تھی کیونکہ میرا رویہ افسرانہ کی بجائے ھمیشہ دوستانہ رھا- آفس سپرنٹنڈنٹ سے لے کر چپراسی تک سب کو لالا کہتا تھا-
اسی حوالے سے ضیاءاللہ خان نیازی میرے قریبی دوست تھے- جونہی میں آفس میں داخل ھوتا چپراسی کو فورا چائےے لانے کا آرڈر دیتے- اگر میرا کوئی کام ھوتا، کسی بچے کو کالج میں داخلہ دلوانا ھوتا یا کسی ملازم کو چھٹی دلوانی ھوتی تومیں بس ایک بار ضیاءاللہ خان سے کہہ دیتا- کام فورا ھو جاتا تھا- بعض کام تو پرنسپل صاحب کی اجازت اور علم کے بغیر بھی کر دیتے تھے-
ایک دفعہ انگلش ڈیپارٹمنٹ کے واش رومز میں صابن اور تولیے ختم ھو گئے- ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین صاحبب سے کہا تو انہوں نے فرمایا ، میں نے پرنسپل صاحب سے کئی دفعہ گذارش کی ھے، لکھ کر بھی درخواست کی ھے، مگر وہ کہتے ھیں ڈیپارٹمنٹ کے فنڈز میں گنجائش نہیں ھے-

میں نے ھنس کر کہا “میں اپنے خصوصی اختیارات استعمال کروں ؟“

انہوں نے حیران ھو کر کہا “وہ کیسے؟َ “

میں نے ڈیپارٹمنٹ کے ملازم سے کہا جاؤ جاکر ضیاءاللہ خان سے کہو ملک صاحب نے کہا ھے بازار سے یہ چیزیں منگوادیں- چند منٹ بعد چیزیں آگئیں- ضیائاللہ خان نے بازار سے منگوانے کی بجائے پرنسپل صاحب کے ذاتی استعمال کے سٹاک میں سے نکال کر دے دیں-

میری سروس بک کئی سال سے غائب تھی- کئی دفعہ تلاش کی ، نہیں ملی- ضیاءاللہ خان سے کہا تو انہؤں نے پورا دن لگا کر تمام پرانا ریکارڈ خود چھان پھٹک کر میری سروس بک اگلی صبح مجھے دے دی-

بہت سے واقعات ھیں- اس وقت یہی یاد آسکے – اصل مقصد تو ایک مثالی دوست کو یاد کرنا تھا- اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے- بہت یاد آتے ھیں- -محمد ضیاءاللہ خان نیازی ( تصویر بشکریہ مسعودخان)-5 ستمبر  2016

فیس بک سے دوستی —

“فیس بک سے دوستی کے عنوان سے آج کل میں ان دوستوں اور عزیزوں کا ذکر کر رھا ھوں جو میرے فیس بک پر سفرکے آغاز سے اب تک مسلسل میرا ساتھ دے رھے ھین، مجھ سے مسلسل رابظے میں رھتے ھیں -فیس بک پہ آنے سے پہلے بھی سٹوڈنٹ یا دوست کی حیثیت میں میرے قریب رھے ھیں- جن کے بارے میں لکھنے کے لیے میرے پاس کم ازکم اتنی معلومات ھیں کہ کم از کم ان پر ایک پوسٹ لکھی جا سکتی ھے- معلومات زیادہ ھوں تو ایک سے زائد پوسٹس بھی لکھ دیتا ھوں-

لکھنے کے لیے ذاتی معلومات جن لوگوں کے بارے میں ھوتی ھیں صرف ان کے بارے میں لکھ سکتا ھوں- یہ ایسے لوگ ھوتے ھیں – جن سے میں نے کچھ سیکھا ھے، یا جنھوں نے مجھ پر کسی بھی قسم کا احسان کیا ھے- اس میں امیر، غریب ، اپنے پرائے کا سوال ھی پیدانہیں ھوتا- میرے لیے آپ سب میرے اپنے ھیں- دوست کی حیثیت میں سب برابر ھیں- جو خدمت مجھ سے ھو سکتی ھے کر دیتا ھوں- اللہ آپ سب کو سلامت رکھے-

ایک اور بات چیٹنگ کے حوالے سے- اکثر جب میں پوسٹ لکھ رھا ھوتا ھو ں یا دوستوں کی پوسٹس پر کمنٹس دے رھا ھوتا ھوں ، تو اس وقت کچھ دوست مجھ سے چیٹ کرنا چاھتے ھیں- جواب نہ دوں تو لوگ مغرورسمجھیں گے- جواب دوں تو اپنے کام پر توجہ نہیں دے سکتا- بعض اوقات تو اکٹھے چار پانچ لوگ مجھ سے رابطہ کر لیتے ھیں- کس کو جواب دوں ، کس کو انکار کروں- اگر کوئی کام ھو تو فوری جواب کا مطالبہ نہ کیا کریں- میں فارغ وقت میں آپ کے میسیج دیکھ کر جواب دے دیا کروں گا- جواب انشاءاللہ ضرور دوں گا—5 ستمبر  2016

میرامیانوالی —

ھر جمعرات کو ٹیوٹوریل میٹنگ ھوتی تھی- کالج میں تقریبا بیس تیوٹوریل گروپ تھے- ھر گروپ کے انچارج دو پروفیسر صاحبان ھوتے تھے- ٹیوٹوریل میٹنگ طلبہ کو اپنی اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراھم کرتی تھی- زیادہ تر گلوکاری اور خطابت (فن تقریر) کے مظاھرے ھوتے تھے-

پہلے سال میرے گروپ میں آج کا نامور گلوکار عطامحمد خان نیازی داؤدخیلوی بھی شامل تھا- عطااس وقت بی ایس سی میں پڑھتا تھا- پہلی بار اس کو گاتے ھوئے سن کر میں حیران رہ گیا- لالا عیسی خیلویکاگیت اسی کے انداز میں- گیت غالبا اظہرنیازی صاحب کا مشہور گیت “بے پرواہ ڈھولا کیوں ڈتاای ساکوں رول“ تھا- عطا کو لالا سے میرے تعلق کا پتہ تھا ، اس لیے اسے اپنی گلوکاری کے بارے میں میری رائے درکار تھی-
عطا محمد نے گیت ختم کیا تو اس پر تبصرہ کرتے ھوئے میں نے کہا “بیٹا، ماشاءاللہ آپ کی آواز بہت خوبصورت ھے- اس آوازز میں کامیاب گلوکاری کے امکانات بہت واضح نظرآرھے ھیں- آپ ایک بہت مقبول لوک کلوکار بن سکتے ھیں، لیکن بیٹا پہلے اپنی تعلیم مکمل کرکے برسرروزگار ھو جائیں- کیونکہ لا لا کو بھی گلوکاری کو ذریعہ معاش بنانے میں بارہ سال لگ گئے- آپ کو بھی تقریبا اتنا عرصہ اپنی آواز پر محنت کرنا ھوگی-”
عطا نے میری بات سمجھ بھی لی، مان بھی لی- وہ پہلے ایم ایس سی کرکے کیمیکل انجینیئر بنا، اس کے بعد کمرشل گلوکاری کی دنیاا میں قدم رکھا،— —
عطابیٹے کے بارے میں مزید کچھ باتیں انشاءاللہ کل شیئرکروں گا —
ستمبر  2016

فیس بک سے دوستی —-

پروفیسر عبدالغفار بھٹی صاحب بھی میرے اولیں فیس بک فرینڈز میں سے ھیں- یہ میری انگلش پوسٹس کی راہ سے میری فرینڈشپ میں داخل ھوئے- میں نے پچھلے سال اگست میں پوسٹس لکھنے کا آغاز انگلش پوسٹس سے کیا تھا- اردو لکھنا بعد میں سیکھا- اگست سے جنوری تک میں پوسٹس کے ذریعے قوم کو انگلش سکھانے کی کوشش کرتا رھا- میرے سب سے پرجوش اورباقاعدہ حاضرسٹوڈنٹ پروفیسر بھٹی صاحب ھی تھے- اس کاان کو یہ فائدہ ھؤا کہ یہ کیمسٹری کے دوسرے پروفیسرز کی ظرح صرف HCl ھی نہیں بلکہHydrochloric Acid بھیی درست سپیلنگ کے ساتھ لکھ سکتےھیں-(ًمذاق میں کہہ رھا ھوں ، کیمسٹری کے تما م پروفیسر صاحبان سےے معذرت-) –
پروفیسر بھٹی صاحب گورنمنٹ کالج میانوالی میں بہت عرصہ میرے ساتھی بھی رھے- کیمسٹری کے بہترین ٹیچرر شمار ھوتے ھیں- (کچھ مہمانوں کے آجانے کی وجہ سے آج یہی کچھ لکھ سکا- انشاءاللہ کل تفصیل سے ان کے بارے میں بہت سی کام کی باتیں لکھوں گا) —
ستمبر  2016

فیس بک سے دوستی 

پروفیسر عبدالغفار بھٹی صاحب 1987 سے 2012 تک 25 سال گورنمنٹ کالج میانوالی میں رھے- یہیں سے ریٹائر ھوئے- آج کل واپڈاٹاؤن لاھور میں اپنے گھر میں رھتے ھیں- فیس بک پر متحرک رھنے کے علاوہ ان کا ایک اور شوق بھی ھے، بلکہ میں تو شوق کی بجائے ان کے اس مشغلے جنون کہوں گا- یہ شوق یا جنون ھے باغبانی کا- اپنا تمام فارغ وقت پودوں اور پھولوں کی دیکھ بھال میں صرف کرتے ھیں- مسلسل کھرپے یا بیلچے سے کام کرنے کی وجہ سے کبھی کمر میں درد، کبھی ٹانگ میں ، کبھی بازو میں ھوجاتا ھے تو ھوتا رھے ، کیونکہ
اس طرح تو ھوتا ھے اس طرح کے کاموں میں
پروفیسر بھٹی نیک، خوش اخلاق اور ملنسار انسان ھیں- پچھلے سال جب انہوں نے مجھے فیس بک پہ بتایا کہ ھم میانوالیی چھوڑ کر لاھور آگئے ھیں تو سچی بات ھے مجھے دکھ سا ھؤا، کیونکہ یہ تو میانوالی کے کلچر میں اس طرح رچ بس گئے تھے، کہ میں ان کو میانوالی سے الگ کر کے دیکھ ھی نہیں سکتا تھا- یہاں کے کلچر نے بھی انہیں دل و جان سے قبول کر لیا تھا- بہت عرصہ پہلے میں چند ماہ میانوالی کی مسلم کالونی میں رھا- بھٹی صاحب بھی وھاں رھتے تھے، اور وھاں کی ایک مقبول و محترم شخصیت شمار ھوتے تھے- گھر کے ساتھ والی مسجد کی بھی ایک معروف شخصیت تھے-
بہر حال ھجرت ھمیشہ مجبوری سے کی جاتی ھے- ھماری عمر میں بچوں اور گھر والوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھنا پڑتاا ھے- جہاں بھی رھیں، اللہ شادوآباد رکھے، اور ھم سے ان کا رابطہ برقرار رھے-اب تک ان کا مجھ سے رابطہ اتنا قریبی ھے، کہ روزانہ فجر کی نماز کے بعد قرآن حکیم کی کسی آیت یا کسی حدیث پاک کا ترجمہ میرے موبائیل فون پہ SMS کی صورت میں مجھے عنایت کرتے ھیں—
7ستمبر  2016

میرامیانوالی


جب پروفیسر سرور نیازی صاحب نے کالج میں ڈراما “بودلا“ سٹیج کرنا تھا، تو اداکاروں کے انتخاب کے لیے امیدواروں کا باقاعدہ انٹرویو لیا- ڈرامے میں دوچار ھی کردار تھے- امیدواروں میں عطا محمد نیازی اور میرے ٹیوٹوریل گروپ کے دوتین اور سٹوڈنٹ بھی شامل تھے- یہ لوگ منتخب نہ ھو سکنے کی وجہ سے خاصے مایوس تھے- میں نے انہیں اداکاری کا موقع فراھم کرنے کے لیے “گھرآیا مہمان“ کے عنوان سے ایک مزاحیہ ڈراما لکھا ، جو “بودلا“ کے ساتھ ھی سٹیج ھؤا، اس ڈرامے میں ایک بزرگ دیہاتی خاتون “گلائی“ کا کردار عطا نیازی نے ادا کیا- کمال کیی اداکاری کی اس نے- ادھر سرور نیازی صاحب کے ڈراما میں خاتون “زیتونی مسیر“ کا مرکزی کردار ھمارے ایک اورر بہت پیارے بیٹے رشیداحمد خان نیازی ایڈووکیٹ نے بہت خوبصورت انداز میں ادا کیا- دونوں ڈرامے بہت پسند کیے گئے-
25 نومبر 2006 کو میرے بیٹے محمد اکرم علی کی شادی کے موقع پر لڑکوں نے محفل موسیقی کا پروگرام بنایا- یہہ محفل شہزاد ھوٹل میں ھوئی- ھوٹل کا مرکزی ھال میرے محترم دوست شہزاد ھوٹل کے مالک امان اللہ خان نیازی نے ھمیں مفت دے دیا- اللہ بھلا کرے میانوالی کے سب گلوکاروں کو، جس کو بھی لڑکوں نے بلایا کسی نے انکار نہیں کیا، اور ایک پیسہ بھی نہیں لیا- یہ کمال میرا نہیں، اللہ کا اس فقیر پہ کرم اور ان لوگوں کی مہربانی ھے- محفل کی کمپیئرنگ افضل عاجز نے کی- گلوکاروں میں سینیئر گلوکار گل تری خیلوی ، عمران پائی خیلوی ، محمد سلیم ھاشمی، طاھر ساقی، مظہربیٹا (علی عمرا ن اعوان) اور عطامحمد نیازی شامل تھے- لالا ان دنوں ملک سے باھر تھا، ایوب نیازی کا اس رات ڈی آئی خان پروگرام تھا، شفاءاللہ روکھڑی کا بھی میانوالی سے باھر پروگرام پہلے سے طے تھا، ورنہ یہ دونوں بھی ضرور آتے-
تمام گلوکاروں نے بہت خوبصورت گایا، مگر محفل عطا بیٹے نے لوٹ لی – اس کا گیت “تیڈے بارے وے پچھدےے نے لوک“ باربار سنا گیا-
دوسری صبح عطا نیازی محمد محموداحمد ھاشمی کے ھمراہ میرے گھر آیا- میں نے کہا “بیٹا، بہت اچھا پرفارم کیا آپ نےَِ“ —عطا بیٹے نے کہا “سر ، وہ تو میرا فرض تھا، ایک اور فرض رہ گیا تھا، وہ ادا کرنے آیا ھوں “ یہ کہہ کر اس نے کچھ پیسے اکرم بیٹے کی جیب میں ڈال دئیے، اور سلام کر کے واپس چلا گیا – اللہ میرے اس بیٹے کو شادوآباد رکھے- —
ستمبر  2016

فیس بک سے دوستی
فیس بک سے میری دوستی کے حوالے سے آج ذکر ھوگا نامور ریڈیو پروڈیوسر، سٹیشن ڈائریکٹر، صاحب کمال شاعر،، صاحب طرز نثرنگار، صاحب فکر دانشور، اور پاؤں تلے سے زمین کھسکا دینے والے افسانہ نگار اور میرے دیرینہ مخلص دوست ظفرخان نیازی کا-

جب میں نے فیس بک کی دنیا میں قدم رکھا تو اجنبی شہر میں راہ بھولے ھوئے بچے کی طرح حیران وپریشان ھوم پیج کی گلی میں جا رھا تھا- اکا دکا اپنے سٹوڈنٹ اور ایک آدھ پروفیسر دوست کے سوا کوئی آشنا چہرہ دور دور تک نظر نہ آیا- میں تو اس شہر میں کسی شاعر ادیب کی تلاش میں آیا تھا- پہلے ایک آدھ دن تو ایک بھی نظر نہ آیا- پھر اچانک ظفر نیازی راہ میں مل گئے- ان کی داسٹان حیات کا ایک ورق تھا- نہایت دلچسپ بھی، حیات آموز بھی- اس سے ایک دودن بعد ایسی ھی ایک اور پوسٹ دیکھی- دونوں پوسٹوں پر لائیکس اور کمنٹس دیکھ کر اندازہ ھؤا کہ اگر بات معقول کہی جائے تو لوگ نثر بھی بڑے شوق سے پڑھ لیتے ھیں-فیس بک کے کلچر کو تبدیل کرنے کی اس مثبت کوشش میں میں نے بھی حسب توفیق اپنا حصہ ڈالنے کا ارادہ کر لیا- کچھ دن بعد اپنے محترم دوست پروفیسر اشرف علی کلیار اور پروفیسر محمد سلیم احسن بھی یہی کام کرتے مل گئے- سب اپنے اپنے انداز میں- مجھے ظفر کا انداز اپنے مزاج کے زیادہ قریب نظرآیا، اور میں نے بھی اپنی یادیں شیئر کرنے کاکام شروع کردیا- الحمدللہ لوگوں کو اچھا لگنے لگا- ظفر خان جیسی خوبصورت نثر نہ سہی، فیس بک کا کلچر بدلنے والوں میں میرا شمار بھی ھونے لگا-

آپ کو اندازہ ھو گیا ھوگا کہ ظفرخان ایک پوسٹ میں سمانے والی شخصیت نہیں- آج کی با ت تو فقط تمہید تھی – تعارف انشاءاللہ کل کی پوسٹ میں ھوگا –8 ستمبر  2016

میرا میانوالی

اب کچھ ذکر پرنسپل صاحبان کا-

گورنمنٹ کالج میانوالی کے پہلے پرنسپل پروفیسر باری صاحب تھے- پورا نام نہیں سنا- باری صاحب ھی کہلاتے تھے- ھم تو اس وقت سکول کی پانچویں کلاس میں پڑھتے تھے- ان کے بارے میں زیادہ جاننے کا موقع نصیب نہیں ھؤا- اس زمانے کے لوگوں میں سے عربی کے پروفیسر سید انتصار مہدی رضوی صاحب ان کے بارے میں بتایا کرتے تھے کہ بہت باوقار شخصیت ، بہت باکمال ایڈمنسٹریٹر اور بے حد شفیق استاد تھے- ان کی شخصیت دیکھ کر لوگوں کو پتہ چلاکہ پروفیسر کیا ھوتا ھے- ایک دور افتادہ علاقے میں ایک نوزائیدہ کالج کو کامیابی سے چلانا آسان نہیں ھوتا٠اس مشکل کام کا تجربہ عیسی خیل میں ھمیں بھی ھؤا- لیکن وھاں کی فضا اور تھی- ھم پروفیسر صاحبان کے علاوہ کسی کو کالج سے کوئی دلچسپی نہ تھی- اللہ کا شکر ھے کہ ھم نے اپنی ذمہ داری اچھی نبھالی-

میانوالی میں لوگ بچوں کو پڑھانا چاھتے تھے- انہیں ڈاکٹر، انجینیئر ، وکیل اور افسر بنانا چاھتے تھے- وسائل کی کمی کے باوجود پروفیسر باری صاحب نے اس کالج کو ایک کامیاب تعلیمی ادارہ بنا کر لوگوں کی توقعات پوری ھونے کا امکان پیدا کر دیا- نامورماھر تعلیم پروفیسر سید محمد عالم اور پروفیسر انتصار مہدی رضوی جیسی قد آور شخصیات کی تعمیر باری صاحب کاکارنامہ تھا-

پروفیسر باری صاحب کے بارے میں کچھ معلومات میرے خیال میں میرے محترم بھائی حاجی محمد اسلم خان کے پاس ھوں گی- وہ اگر علی بیٹے کی معرفت مجھ سے ایک آدھ واقعہ شیئر کر سکیں تو کل کی پوسٹ میں بتا دوں گا- انشاءاللہ-9 ستمبر  2016

فیس بک سے دوستی —–

ظفر خان کو یہ شکوہ ھے کہ میں نے ان کے بارے میں لکھتے ھوئے مبالغہ آرائی کی ھے- ان کو جاننے والا کوئی آدمی میری کل کی تحریر پر معترض نہیں ھؤا- ظفر ھوتے ھیں تو ھوتے رھیں- لکھنے کا میرے رب کریم نے مجھے ایک اپنا اندازعطا کیا ھے، اس کے علاوہ کسی اور انداز میں لکھنا مجھے نہیں آتا، کوشش یہی کرتا ھوں کہ کم ازکم قلم سے جھوٹ نہ بولوں-

آج کی پوسٹ ظفرخان کے بارے میں تقریبا دوسال پہلے لکھے ھوئے میرے مضمون سے اقتباسات پر مشتمل ھے-

“ ظفرخان نیازی سے میری محبت کی ایک توانا وجہ یہ بھی ھے کہ میری طرح یہ بھی داؤدخیلوی ھیں- ان کے والد محترم داؤد خیل کے ایک مشہورنیازی قبیلہ شریف خیل کی معززشخصیت تھے- داؤدخیل کچہ میں نہر کے پل دس ھزار کے پارظفر کی آبائی زمین دریائے سندھ کے پانی سے سیراب ھوتی ھے- شاید اسی وجہ سے ظفر کی شخصیت میں بھی دریائے سندھ کے اوصاف واضح نظرآتے ھیں، وھی خاموشی، وسعت، گہرائی اور انسان دوستی ادھر بھی نظرآتی ھے- ظفر بھی اپنے قریب رھنے والے لوگوں کی زندگی آسان بنانے کی ھر ممکن کوشش کرتا ھے-

ظفر MSc Mathematics ھونے کی بنا پر ایک مستند ریاضی دان ھے، مگر دوستوں کی خاطر 5=2+2 بھی کر لیتا ھے- مطلب یہ کہ اپنی مرضی کے خلاف کام بھی کر دیتا ھے-

ظفر کو اچھی چیزوں کا بہت شوق ھے- قلم، گھڑی ، چشمہ، سگریٹ کیس اور ذاتی ضرورت کی دوسری چیزیں مہنگی اور اعلی قسم کی خریدتا رھتا ھے- اور جب کوئی دوست کہتا ھے “واہ یار !!! کیاخوبصورت چیز ھے“ تو ظفر کہتا ھے “اچھا؟ تمہیں پسند ھے؟ لے لو یار ، میرے پاس اور بھی پڑی ھیں-“

آپ لاکھ انکار کریں ، وہ چیز اب آپ کی ھو گئی، ظفر کبھی واپس نہیں لے گا –

درویشی یہ نہیں تو اور کیا ھوتی ھے ؟ بات درویشی تک آپہنچی – ظفرخان کی درویشی کے بارے میں مزید کچھ کہنے کے لیے اس سے اجازت لینی پڑے گی، جو وہ ھرگز نہیں دے گا- اس لیے کل ظفرخان کے بار ے میں کچھ اور باتیں آپ سےشیئر کر لوں گا –9 ستمبر  2016

فیس بک سے دوستی —————
ظفرخان کی ریڈیو سروس کے حوالے سے میں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا-

“وہ آواز کے روپ میں دلوں میں اترا اور لاکھوں دلوں کی دھڑکنوں کا ھمراز بن گیا- ظفرخان ریڈیو کا وہ پروڈیوسر تھا جو ادارے کے مفادات سے زیادہ سامعین کے جذبات کا خیال رکھتا تھا- جب بھی اس کے دفتر میں جانے کا اتفاق ھؤا اسے اپنے چاھنے والوں کے خطوط کے ڈھیر سے نمٹتے دیکھا – ظفر کا پروگرام “سوغات“ ریڈیو کے مقبول ترین پروگراموں میں شمار ھوتا تھا- اس پروگرام میں ظفر سامعین کے خطوط کے جواب دیتا اور ان کی فرمائشوں کی تکمیل کیا کرتا تھا- ایک دن ظفرنے ایک خط کھول کر پڑھنے کے بعد مسکرا کر میری طرف بڑھادیا- چکوال کے ایک صاحب کا خط تھا- لکھا تھا، خان صاحب، سلام- تین دن پہلے آپ نے وہ جو غزل مظہر علی ملک کی آواز میں سنوائی تھی ( شام ھوئی پنچھی لوٹ آئے اس سے کہنا ) ، اسے سنتے ھوئے میری حالت غیر ھوگئی ، مرتے مرتے بچا- ھسپتال میں رھنا پڑا – میں دل کا مریض ھوں ، اتنا دکھ برداشت نہیں کر سکتا- پلیز آئندہ ریڈیو پر یہ غزل نہ لگایا کریں- “
خطوط کے جواب ظفر اتنی محبت سے دیتا تھا کہ اس کے الفاظ دلوں میں اتر جاتے تھے-

ظفرخان کی مطبوعہ کتابوں کی تعداد میرے علم کے مطابق 5 ھے- تفصیل کچھ یوں ھے-

چوکورپہیئے افسانچے، 1982 یہ کتاب ایئرفورس اکیڈیمی رسالپور کے کورس میں بھی شامل رھی

خواب کنارے (شاعری) 1992

خوابشار (شاعری) 1996

پیوند (حکایات ایک نئے روپ میں) 2004

برف پوش چمنی (غزلیں) 2012

ان کتابوں کے علاوہ ظفر کے 13 قسطوں پر مشتمل تین ڈرامے بھی ٹیلی ویژن پر چل کر خراج تحسین وصول کر چکے ھیں- ان میں این ٹی ایم پر ظفر خان کا چائیلڈ لیبر کے موضوع پر ڈراما “ مستقبل ِ“ بے حد مقبول ھؤا- ظفر کی تخلیقات پر فنی زاویہ نظر سے اپنی رائے ان کی پوسٹس پر دیتا رھتا ھوں-

آپ لوگوں کو صرف یہ بتانا کافی ھوگا کہ شیکسپیئر کے ڈرامے “ھیملٹ‘ کے بارے میں ادب کے ایک مؤرخ نے لکھا تھا کہ اس ایک ڈرامے پر چارسو سے زیادہ کتابیں لکھی گئی ھیں- مگران چار سو کتابوں کی بجائے اگر آپ اصل ڈراما پڑھ لیں تو آپ زیادہ لطف اندوز بھی ھوں گے ، اور اس ڈرامے کو زیادہ اچھئ طرح سمجھ بھی لیں گے- یہی بات ظفر کی تحریروں کے بارے میں بھی میرا مشورہ سمجھ لیجیے-

آخر میں یہ خوشخبری کہ ظفر اپنی تازہ غزلوں کا مجموعہ عنقریب شائع کروا رھے ھیں -10 ستمبر  2016

میرا میانوالی —-

منشی منظور کی شاعری دوقسم کی ھے- اس کے گیت غم جاناں کے اظہار کے دلکش نمونے ھیں- جیسے
اج وی سانول یارنہ آیا
قرار میڈاتوں لٹ گھداھے
ھتھ ڈیکھ کے جوگیا ڈس مینوں ——- اور اس کا پہلا گیت
ڈکھی کر کے ٹر گیاھیں
یہ تمام گیت لالا کے مقبول ترین گیتوں میں شمار ھوتے ھیں-

منظور کی غزل اس کے گیتوں سے بالکل الگ ، غم دوراں کی شاعری ھے- جس میں وہ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام پر سخت تنقید اور غریبوں اور مزدوروں کے حقوق کی پرزور وکالت کرتا نظرآتا ھے- کہیں کہیں احتجاج بغاوت کی حدوں کو چھونے لگتا ھے ، جیسے اس کی ایک غزل کے ان اشعار میں ،

ظالماں کیتے اے دھرتی تنگ کر ڈیسوں اساں

ول شروع ھک وار نویں جنگ کر ڈیسوں اساں

ساڈا وعدہ ھے ایہو منظور ھر کوئی ڈیکھسی

ختم ایں دھرتی توں بکھ تے ننگ کر ڈیسوں اساں

اسی رنگ کے یہ شعر دیکھیے

قدم قدم تے کیوں اے خوف دے پہرے ھن

آخر ساکوں کیا سمجھایا ویندا ھے

تیڈاوعدہ ھا جو ڈیساں روٹی کپڑا تے مکان

ساڈے جیندیں بس ایہو وعدہ وفا کیتا ونجے

منظور کی شاعری کایہ دوسرا رنگ اسکی شاعری کے پہلے اور (آہ) آخری مجموعے “اکھیں بھالی رکھو“ میں نمایاں نظر آتا ھے- اس سے ظاھر ھوتا ھے کہ وہ اپنی ذات کے علاوہ اپنے وسیب کے دکھوں سے بھی بہت دل آزردہ تھا- آزردگی کا یہ احسا س اتنا شدید تھا کہ بلآخر یہی احساس اس کی بے وقت موت کا سبب بن گیا-

“اکھیں بھالی رکھو “ کے تعارف میں ڈاکٹر طاھر تونسوی نے کہا کہ

“ سئیں منشی منظور دے لب و لہجے وچ جیہڑااعتماد نظردئے او بہوں گھٹ شاعراں وچ ڈسدئے“

لالا عیسی خیلوی نے لکھا

منشی منظور تھل دے علاقے دا ھک باکمال شاعر ھے، جئیں اپنڑیں محنت نال پوری دنیا اچ آپنڑیں شناخت بنڑائی ھے-“

ڈاکٹر سید قاسم جلال نے اپنے مضمون میں منظور کی اپنے پیارے دیس پاکستان سے والہانہ محبت کو خراج تحسین پیش کیا ھے-

تنویر شاھد محمد زئی نے منظور کے بارے میں بڑی کام کی بات کہی ھے- لکھتے ھیں

“ ایہ رب دا انہاں تے خاص کرم اے جو دل وی دماغ دا ساتھ ڈیندئے“

یہ تھا منشی منظور کی شاعری اور شخصیت کا ایک مختصر سا جائزہ- اور اب ھم سب کی طرف سے اس کے نام پیغام ، کہ —

ڈکھی کر کے ٹر گیا ایں–11 ستمبر  2016

فیس بک سے دوستی ———-

سردار امیراعظم خان صرف میرے اولیں فیس بک فرینڈ ھی نہیں، میرے بہت پیارے بیٹے بھی ھیں- میرے سٹوڈنٹ رھے- ٹیچرز کا احترام کوئی سیکھنا چاھے تو ان سے سیکھے- کالج کے نمایاں سٹوڈنٹ تھے- 1988-1989 میں سٹوڈنٹس یونین کے صدر بھی رھے- پہلے ڈسٹرکٹ پولیس میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر بھرتی ھوئے، پھر موٹروے پولیس میں آگئے- آج کل موٹروے پولیس میں انسپکٹرھیں- فیس بک کے علاوہ موبائیل فون پر بھی مجھ سے رابطے میں رھتے ھیں- اردو ، سرائیکی کے اشعار کا ان کا انتخاب لاجواب ھوتا ھے– کل میں نے موبائیل فون پہ میسیج کیا کہ بیٹا آپ پر پوسٹ لکھنی ھے- اپنی تصویر بھی بھیجو اور یہ بھی بتاؤ کہ آج کل کہاں ھو اور کیاکر رھے ھو؟
امیر اعظم خان کا جوابی SMSS یہ تھا- یہ ان کے اپنے الفاظ ھیں :

” سر، میں 1988-1989 میں کالج یونین کا صدر رھا- 1990 میں پولیس میں ASI بھرتی ھوگیا- سات سال ڈسٹرکٹ پولیس میں بڑی صاف ستھری سروس کی- سر، میں اپنے آپ کو پولیس میں ایڈجسٹ ھی نہیں کر سکا- سر، جب 1998 میں موٹروے بنی تو اس پولیس میں آگیا- اللہ پاک کو حاضروناظرجان کے کہتا ھوں کہ آج تک ایک رتی بھی حرام کی اپنے وجود میں نہیں ملائی- میں موٹروے پولیس میں انسپکٹر ھوں ، اور اللہ پاک کے کرم، والدین اور آپ کی دعاؤں سے ضمیر مطمئن ھے “

اگر پولیس کے کچھ لوگ میری یہ پوسٹ پڑھ رھے ھیں ، تو اس مثالی پولیس افسر کو اپنا آئیڈیل بنائیں- ھمارے پاک وطن کو ایسے لوگوں کی شدید ضرورت ھے-

امیر اعظم خان کے کزن بیرم خان بھی میرے بہت پیارے بیٹے ھیں- وہ بھی ھمارے سٹوڈنٹ رھے- ان دونوں کزنز کی مجھ سے خصوصی محبت کی ایک وجہ یہ بھی ھے کہ یہ بھی لالاعیسی خیلوی کے بہت قریبی دوست ھیں- بیرم خان نے تو اپنی زندگی لالا کے لیے وقف کر رکھی ھے- -11 ستمبر  2016

میرا میانوالی

بہت سے دوستوں کی خواھش اور فرمائش ھے کہ میں اپنی ان پوسٹس کو کتاب کی شکل میں شائع کروادوں- پہلے تو میں اس بات کو زیادہ اھمیت نہیں دیتا تھا، مگر اب سوچتا ھوں کہ بات تو ٹھیک ھے- لوگ میری تحریریں پڑھنا چاھتے ھیں- کچھ تو میرے انداز تحریر سے لطف اندوز ھونے کے لیے، اور کچھ معلومات کے لیے- کچھ میرے مشاھدات اور تجربات سے بہتر زندگی بسر کرنے کا راز سیکھنے کی بات کرتے ھیں-

اندازتحریر کے حوالے سے میں کسی بناوٹی کسرنفسی کا نقاب اوڑھے بغیر بحمداللہ پورے اعتماد سے یہ کہہ سکتا ھوں کہ اچھاھے یا برا، کم ازکم میرا اندازتحریر منفرد ضرور ھے- بعض اوقات میں اپنی کوئی تحریر دیکھ کر خود بھی حیران ھوتا رھتا ھوں کہ یہ میں نے کیسے لکھ لیا- لیکن ایک بات جو بار بار کہتا ھوں اور ھمیشہ کہتا رھوں گا، اب بھی کہوں گا کہ اس میں میرا کوئی کمال نہیں- یہ خالص میرے رب کا کرم ھے- اس نے جس کو جو چاھا دے دیا ، مجھے اس نے اردو، انگریزی لکھنے کا منفرد انداز عطا کردیا- کچھ لوگوں کی زبان میں تاثیر ھوتی ھے، بولنا شروع کردیں تو جی چاھتا ھے بولتے ھی رھیں- یہی تاثیر میرے رب کریم نے میرے قلم کو عطا کردی – سبحان اللہ العظیم-
کچھ نہ کچھ معلومات بھی میری ان تحریروں سے ملتی ھیں- جوزمانہ اور جو لوگ میں نے دیکھے ھیں، ان کے ذکر سے اچھیی روایات اور اقدار کا معیار سامنے آتاھے- میری اپنی زندگی یا کردار میں تو کوئی قابل تقلید خوبی مجھے نظر نہیں آتی، البتہ جن لوگوں کا ذکر کرتا ھوں ، ان کی کچھ خوبیاں ایسی ضرور ھوتی ھیں جنہیں اپنا کر ھم معاشرے میں عزت اور لوگوں کی محبت حاصل کر سکتے ھیں-
کتاب چھپوانے کی ضرورت اس لیے بھی محسوس کررھا ھوں کہ میرے ھزاروں سٹوڈنٹ اور جاننے والے ایسےے بھی ھیں ، جنہیں فیس بک کی سہولت میسر نہیں ، کتاب کے ذریعے وہ بھی میری یہ تحریریں پڑھ سکیں گے-اور اس خدمت کے صلے میں مجھے کچھ دعاؤں سے وہ بھی نواز دیں گے-
مجھے کوئی جلدی نہیں ، دیکھتا ھوں کوئی پبلشر یہ کتاب چھاپنے پر آمادہ ھو گیا تو انشاءاللہ “میرا میانوالی“ کتاب کی شکل میںں منظر عام پر آجائے گا- —
12 ستمبر  2016

اپنے لیپ ٹاپ کے نام — تو بہت دیر سے ملا ھے مجھے

ویسے قصور لیپ ٹاپ کا نہیں ، میرا اپنا تھا- یہ بچارا تو پانچ سال میرے انتظار میں پڑارھا- میرا اکاؤنٹ تو اکرم بیٹے 2010 نے میں بنا کر یہ لیپ ٹاپ میرے نام کردیا تھا- اس کے پاس دو تھے- وہ باربار کہتا رھا، مگر میں نے فیس بک کو ھاتھ نہ لگایا- میں سمجھتا تھا کہ یہ بچوں کاکام ھے – اس عمر میں میں بچوں کی محفل میں بیٹھ کر کیا کروں گا- پچھلے سال اکرم نے ناراضگی کے انداز میں شکوہ کیا تو میں فیس بک استعمال کرنے لگا- یہاں آکر پتہ چلا کہ یہ تو مجھے بہت بڑا کلاس روم مل گیا- لوگ میری پانچ دس منٹ کی کلاس (پوسٹ) باقاعدگی سے اٹینڈ کرتے ھیں، اور بعض دفعہ میرے اس تحریری لیکچر کے بعد اپنے اندر ایک خوشگوار مثبت تبدیلی محسوس کر کے مجھے دعائیں دیتے ھیں – مجھے اور کیا چاھیے – ٹھیک کہا نا میں نے ؟ ——14 ستمبر  2016

بچارا چکور ————- چاند نکلنے کا انتظار ھو رھا ھے-15 ستمبر  2016

فیس بک سے دوستی —

فیس بک پہ میں روزانہ ایک پوسٹ انگلش میں بھی لکھتا ھوں- شاید کچھ لوگوں کومیرا یہ شغل بے کار بھی لگتا ھو- لیکن میری نظر میں میری انگلش پوسٹس اھمیت میں میری اردو پوسٹس سے کم نہیں- بلکہ سچ پوچھیے تو میں نے اردو سے زیادہ انگلش میں لکھا ھے- ایم اے انگلش سے متعلق درجن بھر کتابوں کے علاوہ 13 سال انگریزی اخبارات، پاکستان ٹائیمز۔ دی نیشن اور دی نیوز میں کالم نگاری بھی کرتا رھا- 1996 میں پاکستان ٹائیمز بند ھؤا تو میں نے کالم نگاری ترک کر دی- البتہ کبھی کبھار ایڈیٹر کے نام کو ئی خط لکھ دیتا ھوں- 2011 اور2012 کے دوران سیاسی اور سماجی مسائل کے حوالے سے میرے سو سے زائد خطوط شائع ھوئے- اب مصروفیات کچھ زیادہ ھو گئی ھیں ، اس لیے بہت کم لکھتا ھوں-

میں ھمیشہ یہ کہتا ھوں کہ انگریزی نثر میں وھی حسن ھے جو اردو شاعری میں نظر آتا ھے- لکھنا آتا ھو تو لکھنے میں مزا آتا ھے- ایک اور سچی بات یہ بتا دوں کہ میری اردو نثر بھی انگریزی نثر سے متاثر ھے- اس لیے یہ مختلف بھی ھے زیادہ پر لطف بھی-

اپریل سے میں نے اپنی جوانی اور بچپن کے کچھ دلچسپ واقعات اپنی انگلش پوسٹس میں سلسلہ وار لکھنا شروع کر رکھا ھے- میری جوانی آپ کی طرح حسینوں کے پیچھے بھاگتے نہیں گذری- اپنی انگلش پوسٹس میں میں اپنے ماموں زاد بھائی ممتازحسین ملک کے ساتھ گذرے پچپن کی شرارتوں اور جوانی کی شوخیوں کا ذکر لکھ رھا ھوں- اب بہت سے لوگ ان پوسٹس میں بھی دلچسپی لینے لگے ھیں- کل کی “ فیس بک سے دوستی“ پوسٹ میں ممتازبھائی کا ذرا مفصل تعارف لکھوں گا- اس کے بعد کسی اور موضوع پر لکھنے کا سلسلہ انشاءاللہ جاری رکھوں گا —16 ستمبر  2016

میرا میانوالی

گورنمنٹ کالج میانوالی میں میری آمد سے بہت پہلے کی بات ھے، پروفیسر مختار محمود قریشی صاحب یہاں پرنسپل مقرر ھوئے- بہت سادہ، مگر باوقار شخصیت تھے- انگریزی کے پروفیسر تھے- شلوار قمیض، شیروانی اور سرپہ جناح کیپ پہنتے تھے- خوبصورت سفید ڈاڑھی اور ھاتھ میں چھڑی ( نکی سکی چھڑی نہیں اچھی خاصی ڈانگ سمجھ لیں) – یہ تھا ان کا ظاھری سراپا٠ بہت شفیق استاد اوراچھے منتظم تھے- وہ براہ راست گریڈ 19 میں تقرر کے لیے منتخب ھوئے تھے- پورے پنجاب میں انگلش کے پروفیسر کی گریڈ 19 کی صرف ایک خالی پوسٹ پر تقرر کے لیے پبلک سروس کمیشن نے مقابلے کا امتحان منعقد کیا- پروفیسر مختارمحمود قریشی کے مقابلے میں سرپہ ھیٹ اور آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگانے والے صاحب بہادر قسم کے لوگ تھے، مگر سیلیکٹ یہ ھو گئے- قریشی صاحب بتایا کرتے تھے کہ جب پبلک سروس کمیشن کے ریزلٹ کا اعلان ھؤا تو ان کے ایک صاحب بہادر قسم کے ساتھی نے کہا “ افسوس، کیا معیاررہ گیا ھے پبلک سروس کمیشن کا- شلوار والے کو انگلش کا پروفیسر منتخب کر لیا -“

ان صاحب کو کیا خبر کہ اس شلوار والے کے مقابلے میں ان کا علم ایک پرائمری سکول کے بچے جتنا ھوگا-

اپنے مضمون ( انگریزی ادب ) سے پروفیسر مختارمحمود قریشی صاحب کی والہانہ محبت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ میانوالی سے گورنمنٹ کالج بھکر ٹرانسفر ھونے کے کچھ عرصہ بعد ھارٹ اٹیک ھؤا تو شیکسپیئر کے ڈراموں کی کتاب Complete Works of Shakespeare بھی ھسپتال کے ICU/CCU میں اپنے ساتھ لے گئے- رات کے پچھلے پہر اس میں سے کوئی ڈراما (غالباKing Lear) پڑھ رھے تھے کہ بلاوا آگیا- کھلی کتاب الٹ کر میز پہ رکھ دی اور “لبیک“ کہہ کر اپنے خالق کے دربار میں حاضر ھو گئے- -16 ستمبر  2016

میرا میانوالی

مجھے اس سانحے کا علم نہ تھا- کل ظفر نیازی کی انگلش پوسٹ سے معلوم ھؤا کہ ایک سٹوڈنٹ نے اپنے ٹیچر کو قتل کردیا- بھکر سے ایک صاحب نے طعنہ دیا کہ سر جی یہی ھے آپ کا میانوالی جسے آپ “میرا میانوالی“ کہتے ھیں ؟ اس سوال کا جواب میں اپنے میانوالی سے مانگتا ھوں-

جرم تو کہیں بھی ھو سکتا ھے، اس میں میانوالی کا کوئی قصور نہیں- قصور بچوں کے والدین، اور ھم ٹیچرز کا ھے، کہ ھم بچوں کی صحیح تربیت نہیں کرتے- جب ٹیچرز ھی ایک دوسرے کا احترام نہ کریں تو بچوں کو ٹیچرس کا احترام کون سکھائے گا-

میں اپنی پوسٹس میں اپنے ذاتی مشاھدات اور تاثرات بیان کرتا ھوں- واقعات بھی سچے کردار بھی ھمارے سامنے موجود ھیں- میں نے اپنی ایک پوسٹ میں پولیس افسر سردار امیراعظم خان کا حلفیہ بیان آپ کو دکھایا کہ میانولی کا یہ بچہ رشوت سے کتنی نفرت کرتا ھے- عظا محمد نیازی کے بارے میں آپ نے پڑھا کہ وہ ٹیچرز کا کتنا فرماں بردار ھے- پروفیسر اقبال کاظمی کے حوالے سے میں نے لکھا کہ میانوالی سے ان کے ٹرانسفر پر احتجاج کرنے والے سٹودنٹ لیڈرز نے یہ کہہ کر جیل سے نکلنے سے انکار کردیا کہ جب تک ھمارا باپ ھمیں واپس نہیں ملے گا، ھم جیل سے باھر نہیں آئیں گے- اس قسم کے بے شمار واقعات میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ھیں- لیکن پھر بھی موجودہ واقعہ میرے لیے تشویش ناک ھے- کیا میرا میانوالی ایک مظلوم مقتول ٹیچر کی حمایت کرکے قاتل کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کر سکتا ھے ؟ کم از کم اس قتل کی وجہ ضرور سامنے آنی چاھیے ———- منورعلی ملک —18 ستمبر  2016

 I have got the answer to my question. Please see Aziz Niazi’s comment on this post. Thank you, Aziz Beta

یس بک سے دوستی –

خدا کرے آج کی یہ پوسٹ آپ سمجھ سکیں-
بڑی توقعات وابستہ کر رکھی ھیں اس محرم سے ، سعودی عرب اور ایران کو آپس میں لڑانے والوں نے- ادھر سعودیی عرب اور ایران دونوں کو یہ احسا س نہیں ھو رھا کہ انہیں استعمال کیا جا رھا ھے- امریکہ بہادر کا ایک منصوبہ تو یہ ھے کہ پاکستان حسب معمول سعودی عرب کی حمایت کرکے ایران سے تعلقات خراب کرلے- بھارت اور افغانستان سے ھمارے تعلقات کا درجہ حرارت پہلے ھی برھا یا جا رھا ھے- ایران بھی دشمن ھو گیا تو پاکستان دشمنوں میں گھرا ھؤا ایک جزیرہ بن جائے گا، اس جزیرے کو اندر سے کمزور کرنے کوششیں بلوچستان اور کراچی میں پہلے ھی جاری ھیں- عرب ایران جنگ کے حوالے سے محرم میں شیعہ ، سنی دونوں جانب سے شعلہ بیانی ھو گئی، تو شیعہ سنی فسادات کی آگ بھی بھڑک اٹھے گی-
مقصد ان منصوبوں کا صرف یہ ھے کہ عالم اسلام میں ایک ایٹمی طاقت کا وجود امریکہ بہادر کو ھضم نہیں ھو رھا-
عرب ایران جنگ میں مصالحت کا کردار ادا کر کے پاکستا ن ان دونوں مسلم ممالک کو بھی تباھی سے بچا سکتا ھے، خود کو بھیی محفوظ تر بنا سکتا ھے-
دونوں طرف کے علمائے کرام سے گذارش ھے کہ خدارا اسلام دشمنوں کی اس گیم کو سمجھیں- اور متنازعہہ موضوعات محرم میں چھیڑنے سے گریز کریں- —–
18 ستمبر  2016

میرا میانوالی ——

Pictures : Left Prof Abdul Ali Khan,

Right,President of Pakistan, Gen Muhammad Ayub Khan

ایک دفعہ صدرپاکستان جنرل محمد ایوب خان نے میانوالی میں جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا- ا گورنمنٹ کالج میانوالی کے پرنسپل عبدالعلی خان کے صدر ایوب خان سے ذاتی دوستانہ مراسم تھے- خان صاحب نے صدرمملکت کو بتا دیا کہ آپ میرے مہمان ھوں گے- صدر مملکت ان کی دعوت ٹال نہیں سکتے تھے- وہ فورا مان گئے-

خان صاحب نے ضلعی انتظامیہ کو بتا دیا کہ صدرمملکت میرے ذاتی دوست ھیں – اس لیے وہ میرے مہمان ھوں گے- ان کا جلسہ سرکاری ھے سیاسی نہیں – اس لیے یہ جلسہ میرے کالج ھی میں ھوگا- آپ لوگوں کی جہاں ضرورت پڑے گی میں آپ کو بتادوں گا-

صدر مملکت کے جلسے اور کھانے پینے کے تمام انتظامات پروفیسرعبدالعلی خان نے اپنی نگرانی میں مکمل کرائے- جلسہ کالج کے گراؤنڈ میں منعقد ھؤا- یاد رھے کہ اس زمانے میں گورنمنٹ کالج میانوالی ، موجودہ گورنمنٹ کالج برائے خواتین والی عمارت میں ھوتا تھا-

کیا منظر تھا- دنیا نے دیکھا کہ صدرپاکستان ایک ٹیچر کے ھاتھ میں ھاتھ دیئے، مسکراتے ھوئے جلسہ گاہ پہنچے اور سٹیج پر اپنی نشست پہ تشریف فرما ھوگئے- ضلعی اور صوبائی انتظامیہ کے افسران دور کھڑے رشک بھری نگاھوں سے اس باوقار ٹیچر, پروفیسر عبدالعلی خان کی شان دیکھ رھے تھے- آپ کو یاد ھوگا کہ صدرایوب صدارتی نظام حکومت کے تحت مکمل طور پر بااختیارصدر تھے-

یوں پروفیسر عبدالعلی خان نے دنیا کو یہ دکھا دیا کہ ٹیچر اپنے علم اور کردار سے کوئی بھی بلند مقام حاصل کر سکتا ھے-

کل خان صاحب کے حوالے سے انشاءاللہ کچھ اور باتیں بھی شیئر کروں گا- —

فیس بک سے دوستی —

انشاءاللہ کل سے آئندہ دو تین پوسٹس میں ان عزیز دوستوں کا ذکر کروں گا جو پچھلے سال سے میرے اشعار کی آرائش اور فنی معلومات فراھم کر کے میری مدد کرتے رھے ھیں- یہ وہ لوگ ھیں جن سے میری آج تک ملاقات بھی نہیں ھوئی- انہیں مجھ سے کوئی غرض یا لالچ بھی نہیں- یہ میرے سٹوڈنٹ بھی نہیں رھے- ان سے رابطہ فیس بک پر ھی رھتا ھے- شروع میں میری فرمائش کے بغیر میرے یہ بچے میرے اشعار آراستہ کر کے بھیجتے رھے- بعد میں کبھی میں خود انہیں کوئی شعر بھیج دیتا تھا- انشاءاللہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رھے گا- چونکہ ان سے براہ راست ملاقات نہیں ھوئی، ان کے بارے میں تفصیل سے لکھنا تو ممکن نہ ھوگا- تاھم ایسے بے لوث لوگوں سے آپ کو متعارف کرانا ضروری ھے- ایک ایک پوسٹ میں دوتین لوگوں کا تعارف کرادوں گا- ان کے نام یہ ھیں-
1.۔شاھد انور خان نیازی داؤد خیل
2.۔ قدرت اللہ نیازی داؤدخیل
3۔ عدنان احمد ملک لاھور
4.۔ میر ثناءاللہ خان و میر ولی محمد خان بجارانی بلوچ, فورٹ منرو، ڈی جی خان
5. ۔ سید محمد شعیب شاہ پیل ( خوشاب)
6.۔ ذکاء ملک ( مری)
7. مناظر گوندل ( چک سیدا، ملک وال، حال سعودی عرب)
8. سہیل ملک،, یو ای ٹی، ٹیکسلا
صرف شاھد انور خان اور قدرت اللہ سے داؤد خیل میں ایک مختصر سی ملاقات کچھ عرصہ قبل ھو ئی تھی-
اللہ ان سب بچوں کو سلامت اور خوش رکھے- بے لوث خدمت کر رھے ھیں میری —-
19 ستمبر  2016

فیس بک سے دوستی ———————


میرے اشعار کی آرائش کا کام سب سے پہلے داؤدخیل کے مشہور قبیلہ عالمشیری خیل کے نوجوان شاھد انور خانن نیازی نے شروع کیا- ًمیں لاھور میں تھا- ایک دن مسنجر سے اپنا ایک شعر شاھد انور خان کی آرائش کے ساتھ موصول ھؤا- میں شعر کے پس منظر کی تصویر دیکھ کر حیران رہ گیا- کمال کی آرائش تھی- اس کے بعد میں خود کوئی شعر بھیج دیتا اوریہ آراستہ کر دیتے-شاھد انور خان داؤدخیل میں نیشنل بنک کے قریب اپنے کمپوزنگ اینڈ فوٹو سروس میں کام کرے ھیں- ماشاءاللہ بہت ذہین نوجوان ھیں-، —20 ستمبر  2016

میرے شعر پر شاھد انور خان کی آرائش کا ایک نمونہ

21 ستمبر  2016

فیس بک سے دوستی —–

قدرت اللہ خان نیازی داؤد خیل میں ھمارے محلے کے معروف قبیلے انزلے خیل کے قابل فخر نوجوان ھیں- یہ اپنی فیملی کو اپنے والد محترم مظفر خان کے نام پر مظفر خیل لکھتے ھیں- والد سے اتنی محبت اہنی مثال آپ ھے-
قدرت اللہ نیازی داؤدخیل کی فرٹیلائزر فیکٹری کی لیبر یونین کے جنرل سیکرٹری اور مزدوروں کے محبوب رھنماا ھیں- مزدوروں کو ان کے تمام حقوق دلوانا ان کا مشن ھے- اس جدوجہد کو وہ اپنے ایمان کا جزو سمجھتے ھیں-
اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود قدرت اللہ خان کبھی فارغ وقت ملے تو میرے شعروں کی آرائش کر کے اپنے پاسس محفوظ کر لیتے ھیں- ان میں سے دوتین شعر پچھلے سال میں اپنی فیس بک پہ شیئر کر چکا ھوں- کل جب میں نے فون پر انن سے اپنی پکچر بھجوانے کو کہا، تو انہوں نے اپنی چند پکچرز کے ھمراہ میرے کچھ اشعار بھی بھیج دیئے جو ان کے پاس محفوظ تھے، مگر مجھے ان کا علم نہ تھا- یہ پکچرز اور نئے آراستہ اشعار انشاءاللہ کل سے ایک ایک کرکے شام کے بعد آپ سے شیئر کرتا رھوں گا- آج اس پوسٹ سے اوپر والی پوسٹ میں ان کی آرائش کے ساتھ ایک شعر لگا رھا ھوں یہ پچھلے سال بھی لگایا تھا- —-

میرے ایک شعر پر قدرت اللہ خان کی آرائش کا ایک نمونہ ———-


میں کوئی بہت بڑا شاعر نہیں ھوں- بہت کم لکھتا ھوں- البتہ میری شاعری میں ایک اھم بات یہ ھے کہ میرے اکثرر اشعار کے پیچھے سے ایک اداس سا منظر جھانکتا دکھائی دیتا ھے- قدرت اللہ خان اور شاھد انور خان کا کمال یہ ھے کہ وہ اس منظر کو سمجھ کراسے اپنی فیس بک پہ منتقل کردیتے ھیں او ر پھر اپنی یہ کاوش مجھے بھیج دیتے ھیں- یہ بہت بڑا کمال ھے ان کا– یہی کام کبھی کبھی ملک عمران احمد- میر ثناءاللہ بلوچ میر ولی محمد بلوچ اور مناظر گوندل بھی کر دیتے ھیں- اللہ میرے ان تمام بچوں کو اس محبت کا اجر عظیم عطا فرمائے-21 ستمبر  2016

میرا میانوالی

مجھے پروفیسر عبدالعلی خان صاحب سے ایک ھی ملاقات کا اعزاز نصیب ھؤا- 1978 کی بات ھے – میں اس وقت گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں تھا- چھٹی کا دن تھا، دوپہر کا وقت- پروفیسر حسین احمد ملک ، میں اور کچھ دوسرے پروفیسر صاحبان محلہ بمبرانوالہ میں میر ے گھر کے ساتھ والے مکان میں بیٹھے ادھر ادھر کی باتیں کر رھے تھے، کہ کالج کا چوکیدار دوڑتا ھؤا آیا ، اور ھانپتے ھوئے کہنے لگا ، “سر، کالج میں وزیر تعلیم آئے ھیں – وہ آپ لوگوں سے ملنا چاھتے ھیں- “
بچارے چوکیدار کو کیا خبر کہ وزیر تعلیم توان دنوں کوئی تھا ھی نہیں، جن صاحب کو وہ وزیر تعلیم کہہ رھا تھا وہ علمی مرتبے میں کسی بھی وزیر تعلیم سے بڑی شخصیت تھے- چوکیدار تو کچھ نہ بتا سکا- ھم نے خود ھی یہ اندازہ لگا لیا کہ وزیر تعلیم نہ سہی، کچھ نہ کچھ تو ھوگا- چل کر دیکھ لیتے ھیں-
ھم کالج پہنچے تو میلشیا کے شلوار سوٹ میں ملبوس ،دائیں ھاتھ میں بریف کیس تھامے پروفیسر عبدالعلی خان کالج کےے برآمدے میں کھڑے تھے- مسکرا کر بڑے تپاک سے ھم سے ملے ، اور پٹھانوں کے مخصوص لہجے میں فرمایا “ یارا، میں لکی مروت جا رھا تھا ، تو سڑک کے کنارے آپ کے کالج کا بورڈ دیکھ کر ادھر آگیا کہ آپ لوگوں کو سلام کر لوں، کیونکہ کسی زمانے میں میرا بھی کالجوں سے کچھ تعلق رھا ھے- ویسے میرا نام عبدالعلی خان ھے – اس وقت وفاقی سیکریٹری ایجوکیشن ھوں-“

یہ سن کر پہلے تو ھمیں دن میں تارے نظرآنے لگے۔ مگر خان صاحب کے شفیق روئیے نے فورا ھمیں بے وجہ خوف و ھراس سے نجات دلادی- حیرت کی بات ھے کہ گریڈ– 22 کا اعلی افسر ، گریڈ–17 کے لیکچررز کو سر، سر اور بیٹا کہہ کر مخاطب کرتا رھا-

ھم لوگوں سے ھمارے مسائل اور عیسی خیل کی معاشرت کے بارے میں چند سوالات پوچھنے کے بعد خان صاحب نے ھمیں خداحافظ کہا، اور جیپ میں بیٹھ کر لکی مروت روانہ ھو گئے-

یوں چند منٹ کی ملاقات میں پروفیسر عبدلعلی خان ھمارے دلوں پر دائم رھنے والے خوبصورت نقوش ثبت کر گئے- -22 ستمبر  2016

عزیز دوستو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ –

آج بہت اداس ھوں
آج میرے پوتے محمدعلی ملک کی چوبیسویں سالگرہ ھے- علی بیٹا تو 18 سال کی عمر میں 20 دسمبر 2010 کوو اس دنیا سے رخصت ھو گیا تھا، مگر ھرسال 22 ستمبر کو لاھور میں اس کا اکرم چاچو (میرا بیٹا محمد اکرم علی ملک) اس کی سالگرہ کا اھتمام اب بھی کرتا ھے-

یہ پکچر شیزان ریسٹورنٹ (فورٹریس سٹیڈیم لاھور) میں 22 ستمبر 2012 کو علی بیٹے کی بیسویں سالگرہ کی ھے-

میرا رب ھی جانتا ھے، وہ بچہ میرے لیے کیا تھا- وہ منورعلی ملک بننا چاھتا تھا، بن بھی سکتا تھا – مگر- – بہرحال —

سرتسلیم خم ھے میرے مالک ، جو تری مرضی—–22 ستمبر  2016

شعر میرا آرائش عدنان احمد ملک کی ———-
وطن کی محبت کا ایسا ھی اظہار ایک اور شعر میں بھی ملتا ھے-وہ شعر یہ ھے-
موسم بے شک غیر ھے لیکن گھر تو اپنا ھے
سوکھی شاخ پہ ایک پرندہ اب تک بیٹھا ھے

(یہ  شعر  کراچی میں پاکستان مردہ باد کہنے والوں کے منہ پر ایک زوردار تھپڑ ھیں)–23 ستمبر  2016

میرا میانوالی

یوں تو گورنمنٹ کالج میانوالی میں بہت سے پرنسپل مختلف اوقات میں رھے، مگر میں صرف ان کا ذکر کررھا ھوں جن کے دور میں اس ادارے نے ترقی کی کچھ منازل طے کیں- میں خود تو اس کالج میں ١٩٨٠ میں آیا، اس سے پہلے سٹوڈنٹ یا ٹیچر ، کسی بھی حیثیت میں میرا اس ادارے سے کوئی تعلق نہیں تھا- یہاں آنے کے بعد بعض پرنسپل صاحبان کی تعریف ساتھیوں سے سنی تو یاد رہ گئی- ان دنوں وہی آپ سے شیئر کر رھاھوں-
میرے آنے سے چند ماہ پہلے تک یہاں پروفیسر چوھدری محمد نوازکچھ عرصہ پرنسپل رھے- وہ جغرافیہ کے پروفیسر تھے، اور گورنمنٹ کالج لاھورسے یہاں پرنسپل بن کر آئے تھے- بہترین ایڈمنسٹریٹر تھے- ان کا نظریہ یہ تھا کہ بچوں کا پیسہ بچوں پر ھی خرچ ھونا چاھیے- بچے جو فیس دیتے ھیں اس میں سپورٹس فند ، یونین فنڈ، ریڈکراس فنڈ ، میگزین فنڈ وغیرہ بھی ھوتے ھیں- عام طور پر یہ فنڈ ز بنک میں ھی پڑے دھتے ھیں- اکثر پرنسپل صاحبان انہیں پڑا ھی رھنے دیتے ھیں-

پروفیسر چوھدری محمد نواز صاحب نے متعلقہ پروفیسر صاحبان سے کہہ دیا کہ بچوں کی ضروریات کے مطابق جتنی رقم درکار ھو میں ان فنڈز میں سے دیتا رھوں گا- میں بچوں کے پیسوں پر سانپ بن کر نہیں بیٹھنا چاھتا- آپ یہ فنڈز استعمال کریں-

پرنسپل صاحب کی اس پالیسی کے مطابق کرکٹ، ھاکی، فٹ بال وغیرہ کو بہت فروغ ملا- کالج ٹائیم کے بعد کالج کے پلے گراؤنڈ میں بڑی چہل پہل ھوتی تھی- بچے یہ گیمز بڑی خوشی سے کھیللتے تھے-

کالج ڈسپنسری میں بچوں کی ضرورت کی دوائیں وافر مقدار میں دستیاب ھوگئٰں – ڈسپنسر کو باقاعدہ ڈیوٹی کا پابند کر دیا گیا- بچوں کی ضرورت کی اھم کتابیں لائبریری میں فراھم کر دی گئیں- سائنس کا سامان بڑی مقدار میں مہیا ھوگیا-

کالج میں ادبی سرگرمیوں کا اھتمام ھونے لگا- سرور نیازی صاحب کا لکھا ھؤا پہلا ڈراما “غڑوبا ” اسی دور میں سٹیج ھؤا- کالج کاخبرنامہ کالج بلیٹن کے نام سے ھرماہ شائع ھونے لگا- طلبہ علمی، ادبی اور کھیلوں کی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لینے لگے- وہ دن کا زیادہ حصہ کالج ھی میں گذارنا پسند کرتے تے- ورنہ عام طور پر تویہ ھوتا ھے کہ طلبہ سوتے جاگتے پانچ پیرئیڈز پورے کرکے کالج سے فورا بھاگ جاتے ھیں-

پروفیسر چوھدری محمد نواز صاحب نے اس کالج کو ایک زندہ و متحرک ادارہ بنا دیا- پروفسر صاحبان اس دور کو کالج کی تاریخ کا سنہری دور کہا کرتے تھے-

کل انشاءاللہ ذکر ھوگا ایک اور مقبول و محترم پرنسپل، پروفیسر سید محمد عالم کا- جواپنی جگہ ایک مکمل ادارہ تھے–23 ستمبر  2016

فیس بک سے دوستی –

ملک عدنان احمد کا گھر میانوالی میں ھے- ملازمت کے سلسلے میں لاھور میں رھتے ھیں- چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ ھیں، اور چارٹرڈ اکاؤنٹینسی کے ایک مشہورومعروف ادارے سے وابستہ ھیں-
شاھد انورخان اور قدرت اللہ خان کی طرح ملک عدنان بھی میری شاعری کی آرائش کے راستے سے میری زندگیی میں داخل ھوئے- مصوری (پینٹنگ) بھی کرتے ھیں- معیاری ادب کا مطالعہ بھی ان کے مشاغل میں شامل ھے- اللہ تعالی نے انہیں بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ھے- میری شاعری کے پس منظر کو ایک پینٹر کی نظر سے دیکھ کر کیمرے سے کلک کرتے ھیں- شعر کی روح میں اتر کر تصویر بناتے ھیں- ان کی آرائش میں منفرد بات یہ ھے کہ اس میں فوٹو اور پینٹنگ دونوں کا تاثر محسوس ھوتا ھے- اوپر والی پوسٹ میں میرے ایک شعر پر ان کی آرائش کا ایک نمونہ دیکھیے- —-23 ستمبر  2016

فیس بک سے دوستی

بعض اوقات میں بلوچ رنگ کے عنوان سے اپنے شعروں کی آرائش شیئر کرتا رھتا ھوں- یہ آرائش فورٹ منرو (ڈی جی خان) کے میرثناءاللہ بلوچ اور میر ولی محمد بلوچ کرتے ھیں –

نیچے سامنے والی پکچر میرثناءاللہ خان کی ھے- آج ان کا تعارف کراتا ھوں کل ان کے کزن میر ولی محمد بلوچ کو آپ سے متعارف کراؤں گا-
میرثناءاللہ بجرانی بلوچ قبیلے کے نوجوان ھیں- یہ قبیلہ پنجاب اور بلوچستا ن دونوں صوبوں میں آباد ھے- یوں سمجھئے کہہ یہ ان بلوچ قبائل میں سے ھے ، جن کی وجہ سے پنجاب اور بلوچستان کے درمیان ًمحبت کا رشتہ برقرار ھے-
میر ثناءاللہ ، لالاعیسی خیلوی کے کیسٹس پر درج میرے نام سے آشنا ھوءے- جب میں فیس بک پہ آیا تو انہؤن نےے میرے ایک شعر کی خوبصورت آرائش کر کے مجھے ارسال کی- یوں ان سے دوستی کا سلسلہ چل نکلا = کچھ عرصہ بعد ان کے کزن میر ولی محمد بھی ھماری دوستی میں شامل ھو گئے- وہ بھی میرے شعروں کی آرائش کرتے رھتے ھیں-
میر ثناء بہت سادہ اور مخلص انسان ھیں- مرحوم نواب اکبر خان بگتی ان کے آئیڈیئل ھیں- مجھے مسلسل فورٹ منروو آنے کی دعوت دیتےرھتے ھیں- میرا مسئلہ یہ ھے کہ اکیلا سفر نہیں کر سکتا- کبھی کوئی ادھر آنے جانے والا دوست مل گیا تو چکر لگا لوں گا،

اللہ ان بلوچ برادران کو سلامت رکھے- ان کی محبت میرا سرمایہ ھے-24 ستمبر  2016

میرا میانوالی

پروفیسر سید محمد عالم گورنمنٹ کالج میانوالی میں سب سے طویل قیام اورسب سے دیرپا اثرات ثبت کرنے والے پرنسپل تھے- اپنی شخصیت کا سارا حسن و جمال وہ اس ادارے کو دے گئے– یہ کالج ان کی حسین شخصیت کا عکس جمیل ھے- جو لوگ ان کے زمانے میں یہاں سٹوڈنٹ یا ٹیچر رھے ان کی نظر میں یہ کالج آج بھی پروفیسر سید محمد عالم کا کالج ھے-
سید محمد عالم اس کالج میں انگلش کے پہلے لیکچرر کی حیثیت میں آئے اور پرنسپل کی حیثیت میں یہاں سے رخصتت ھوئے- یہاں سے وہ کسی اور کالج جانے کی بجائے، کسی اور دنیا میں جابسے-
سید محمد عالم انگلش لٹریچر کے بے مثال ٹیچر تھے- پوئٹری اور ڈراما پڑھانے میں ان کا ایک اپنا انداز تھا جس کے اثرات انن کے سٹوڈنٹ اپنی شخصیت میں آج بھی ًمحسوس کرتے ھیں-
پروفیسر عالم نہایت نفیس مزاج، شائستہ، خوش لباس اور شفیق انسان تھے- ان کے ساتھی کہا کرتے تھے کہ ھم نےے آداب مجلس اورشائستہ گفتگو کا انداز انہی سے سیکھا- اور سچی بات یہ ھے کہ ان سب لوگوں کی شخصیت میں ایک عجیب سی دلکشی نظر آتی تھی- فارسی کے ایک شاعر نے کہا تھا—
جمال ھم نشیں در من اثر کرد
(ساتھ بیٹھنے والے کا حسن مجھ میں بھی آگیا)
کچھ ایسی ھی بات تھی ان سب لوگوں میں—- گفتگو اور لوگوں سے برتاؤ میں ان کا ایک اپنا معیار تھا- دیکھنے میں بھیی پروفیسر لگتے تھے-
عام طور پر پرنسپل صاحبان سٹوڈنٹس سے دور ھی رھتے ھیں- ان سے ملنے کے لیے سوڈنٹس کو پہلے بہت کچھ سوچنا پڑتاا ھے- لیکن پروفیسر عالم ایسے پرنسپل تھے جن کے آفس کا دروازہ ھر ستوڈنٹ کے لیے ھر وقت کھلا ھی رھتا تھا- سٹوڈنٹ اپنے مسائل کے سلسلے میں بلا تکلف ان سے مل سکتے تھے- وہ ایسے پرنسپل تھے جو ٹچرز اور سٹوڈنٹس میں یکساں مقبول تھے-

کچھ باتیں انشاءاللہ کل شیئر کروں گا- اگر کسی دوست کے پاس پروفیسر عالم صاحب کی پکچر ھو تو مجھے ارسال کر دیں- شکریہ پیشگی وصول کر لیں —24 ستمبر  2016

فیس بک سے دوستی —

میر ولی محمد بجارانی میر ثناء اللہ بلوچ کے کزن ھیں (BS _ (IT کے چوتھے سیمیسٹر کے سٹوڈنٹ ھیں- بلوچ روایت کے مطابق یہ بھی ٹوٹ کر محبت کرنے والے انسان ھیں- جس کو دوست کہہ دیا اس کی ھر بات گوارا کر لیتے ھیں- تعلیم کے سلسلے میں ان دنوں ڈی جی خان میں رھتے ھیں- چھٹیوں میں فورٹ منرو آتے ھیں- میرے کئی اشعار کی آرائش کر چکے ھیں – ایک نمونہ چند منٹ بعد اوپر کی پوسٹ میں دیکھیں- -25 ستمبر  2016

میرا میانوالی

ھر اتوار کو کسی نہ کسی سینیئر شاعر کا ذکرکرنا چاھتا تھا – بے وس صاحب اور مرحوم منشی منظور کے بارے میں لکھ دیا- بات بری نظامی پہ پہنچ کر رک گئی- ان کے بارے میں کچھ معلومات مجھے درکار تھیں – کچھ معلومات میرے بہت پیارے بیٹے ذکاءملک نے فراھم کی ھیں – ان کی مدد سے آج کچھ کہنے کی کوشش کرتا ھوں, اس مظلوم شاعر کے بارے میں-
بری نظامی کو کون نہیں جانتا ؟ بری وہ شاعر ھے جس کا کلام چار بین الاقوامی شہرت کے گلوکاروں، نصرت فتح علی خان، ملکہہ ترنم نورجہاں، غلام علی صاحب اورھمارے لالا عیسی خیلوی نے گا کر اپنی شپرت و مقبولیت میں اضافہ کیا- یہ اعزاز کسی اور گیت نگار شاعر کو نصیب نہیں ھؤا- لیکن میں پھر بھی بری نظامی کو بد نصیب ھی کہتا ھوں- اس کی شاعری کا کوئی مجموعہ اس کی زندگی میں شائع نہیں ھو سکا- اپنے ماموؤں بھانجوں کو صدارتی ایوارڈ دینے والے اس پرائمری پاس شاعر کو کیوں ایوارڈ کیوں دیتے ؟ اس کے گیتوں پر جھومنے اور ناچنے والی قوم کو یہ پتہ ھی نہیں کہ وہ کون تھا، کیا کرتا تھا، کہاں رھتا تھا ؟

نصرت فتح علی خان قوالیاں تو ایک عرصے سے گا رھے تھے، لیکن انہیں عالمی شہرت “دم مست قلندر، مست مست “ اور “وگڑ گئی اے تھوڑے دناں توں “ جیسے لازوال نغموں سے ملی-

بری نظامی 1946 میں گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ھوئے- پرائمری سکول سے آگے تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے- رزق کی تلاش میں فیصل آباد آگئے- کپڑا پیچ کر دووقت کی روٹی کماتے تھے- کوئی باقاعدہ دکان نہ تھی- یوں سمجھ لیں کہ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کپڑا بیچتے تھے- فیصل آباد کے سمن آباد میں کرائے کے مکان میں رھتے تھے-

گیت نگاری کی صلاحیت خداداد تھی -گیت لکھتے رھے- اسی سلسلے میں نصرت فتح علی خان سے ملاقات ھوئی- بری نظامی کے بارے میں بہت سی باتیں انشاءاللہ اگلے اتوار کو لکھوں گا- فی الحال ایک اھم بات یہ بتا دوں کہ بری 51 سال کی عمر میں 1997 میں اس دنیا سے رخصت ھو گئے-

بری کی موت کی وجہ بھی بتا دوں ؟؟؟

غربت !!!

علاج کے پیسے نہیں تھے اس کے پاس !!!

باقی باتیں انشاءاللہ اگلے اتوار کو ——— نی سسیئے جاگدی رئیں —

بری کی کوئی پکچر نہ مل سکی- وکی پیڈیا سے اس کی پکچر ڈاؤن لوڈ کر کے اپ لوڈ کی تویہ سیاہ پٹی بن گئی- شاید گناہ گار بری نظامی اس فرشتہ سیرت معاشرے کا سامنا کرنے سے شرما گیا – کوئی اور پکچر مل گئی تو لگا دوں گا-25 ستمبر  2016

میرا میانوالی
پروفیسر سید محمد عالم اتر پردیش (بھارت) کے مشہور شہر شاہجہان پور کے ایک معروف و معزز سید گھرانے کے چشم وو چراغ تھے- قیام پاکستان کے وقت ھجرت کر کے میانوالی آگئے- علی گڑھ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ تھے- یہ اس زمانے میں علی گڑھ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ رھے جب وھاں انگریز پروفیسر انگلش پڑھاتے تھے- اپنی خداداد ذھانت سے انہوں نے ان ماھر اساتذہ کی تدریس سے بھرپور استفادہ کیا ، اور انگریزی ادب کے بے مثال ٹیچر بن گئے- میانوالی کی خوش نصیبی کہ یہ یہاں آگئے
علی گڑھ ھی سے ھاکی کھیلنے کا آغاز کیا- یہاں آکر بھی یہ شوق برقرار رکھا- ڈسٹرکٹ ھاکی ایسوسی ایشن سے وابستہہ رھے- ھاکی سے میانوالی کا ایک خصوصی تعلق پہلے سے موجود تھا- یہاں کے طارق خان نیازی (خنکی خیل) ھاکی کی عالمی چیمپین ٹیم کے کپتان تھے- بہت عرصہ تک میانوالی کی ڈسٹرکٹ ھاکی ٹیم ملک کی نامور ٹیموًں میں شمار ھوتی رھی- پروفیسر سید عالم بھی یہاں کے نامور کھلاڑی رھے-
پروفیسر عالم صاحب مچھلی کے شکار کے بھی بہت شوقین تھے- ھر اتوار کو شکار پہ جایا کرتے تھے- یوں پروفیسر عالمم صاحب نے علم اور سپورٹس دونوں میدانوں میں اپنی اھلیت کا لوھا منوا لیا- اسی وجہ سے وہ میانوالی کی ایک محبوب ومحترم شخٰصیت بن گئے-
پروفیسر سید عالم صاحب بہت مہمان نواز اور دوست نواز بھی تھے- اس زمانے میں یہاں ھوٹلوں میں دعوتوں کا رواجج نہیں تھا- پروفیسر عالم صاحب اپنے گھر میں دوستوں کی پر تکلف دعوتیں منعقد کیا کرتے تھے- دریا دل اتنے تھے کہ اپنی اچھی چیزیں، گھڑیاں، قلم، ٹایئاں وغیرہ اکثر دوستوں میں تقسیم کرتے رھتے تھے-
اتنے مقبول و محبوب تھے کہ جب دنیا سے رخصت ھوئے تو ان کا جنازہ میانوالی کی تاریخ کا ایک بہت بڑا جنازہ بن گیا – پوراا شہر امڈآیا تھا انہیں شایان شان طریقے سے رخصت کرنے کے لیے- کچھ عرصہ بعد ان کی یاد میں کالج میں ایک تعزیتی مشاعرہ منعقد ھؤا – اس میں شاعر کی حیثیت میں شرکت کا اعزاز مجھے بھی نصیب ھؤا- میں نے چند قطعات لکھے تھے- ان میں سے ایک یاد رہ گیا – قطعہ یہ تھا—-

اک مسافر تھا میرے شہر میں تو

بن گیا آبروئے شہر مگر

تلخیوں سے سدا گریز کیا

پی لیا زندگی کا زھر مگر

شاعری سے عظیم تر خراج عقیدت وہ آنسو تھے جو اس دن میں نے کالج کے ٹیچرز اور سٹوڈنٹس کی آنکھوں میں دیکھے-

دل میں ایک حسرت سی ھے کہ کاش میں بھی پروفیسر عالم صاحب کا سٹوڈنت یا کولیگ (colleague) رھا ھوتا- —

گذشتہ پوسٹ میں پروفیسر عالم صاحب کی پکچر کا مطالبہ کیا تھا- افسوس کہ کہیں سے نہ مل سکی-

فیس بک سے دوستی ——


اللہ سلامت رکھے ذکاء ملک بھی میرے بہت پیارے بیٹے ھیں- میرے کئی شعروں پر آپ ان کی آرائش اس پیج پر دیکھ چکے ھیں- ذکاء شعر اپنی مرضی سے منتخب کرتے ھیں- میں اس نوجوان کا انتخاب دیکھ کر حیران ھوتا رھتا ھوں- ھمیشہ چونکا دینے والا یا تڑپا دینے والا شعر ھی منتخب کرتے ھیں- موبائیل فون پر مجھے دوسرے شاعروں کے اشعار بھی بھیجتے رھتے ھیں- ھر شعر لاجواب ھوتا ھے-
ذکاء نے ایک اور اھم کام یہ کیاھےکہ میری شاعری کی کتاب “جوتم سےکہہ نہ سکا“ آن لائین کردی ھے-

پچھلے چند ماہ میں میں نے جن شعراء پر پوسٹس لکھیں ان کے لیے مجبور صاحب، آڈھاخان صاحب ، اظہر نیازی صاحب ۔ تلوک چند محروم اور دوسرے شعراء کی پکچرز مجھے ذکاءملک ھی نے فراھم کی تھیں- کل مجھے بری نظامی کی کچھھ پکچرز بھی انہوں نے بھیج دیں- انشاءاللہ اگلے اتوار کو اپنی پوسٹ میں لگادوں گا-
ذکاء ملک کا گھر چاہ میانہ (ضلع میانوالی ) میں ھے- پی اے ایف کی ملازمت کے سلسلے میں مری میں مقیم ھیں- پچھلےے دنوں شدید بیمار رھے- ھماری دعائیں کام کر گئیں ، اور اللہ نے ان کی صحت بحال کردی- آج آنہوں نے میرے چند شعر آراستہ کر کے بھیجے ھیں- ان میں سے ایک دیکھیے کچھ دیر بعد اسی پیج پر – باقی شعر بعد میں لگاتا رھوں گا- —-

اس دور کا میرا ایک شعر ، جب اس ملک میں مساوات کا نعرہ چل رھا تھا ، اور لوگ اس کو سچ سمجھ رھے تھے —————– آرائش، ذکاء ملک

26 ستمبر  2016

میرا میانوالی —-

آج لکھنا تو گورنمنٹ کالج میانوالی کے ایک اور پرنسپل صاحب کے بارے میں تھا، مگر اچانک انتخاب نیازی نے ایک ایسی پکچر بھیج دی جس کو دیکھ کر —

“دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں“ —

انتخاب نے تو یہ پکچر پوسٹ لکھنے کے لیے نہیں، بلکہ مجھے گفٹ کے طور پہ بھیجی تھی، مگرمیری نظریں اس پکچر پہ ھی رک گئیں ، اس لیے آج اس شخصیت کا ذکر ضروری ھو گیا-

یہ پکچر ھے میرے لالو نورخان نیازی قتالی خیل کی – لالو نور خان 1963-64 میں سنٹرل ٹرینیگ کالج لاھور میں ھمارے بی ایڈ کے کلاس فیلو تھے- میانوالی کے اور بھی کچھ لوگ ھمارے کلاس فیلو تھے، مگر لالو نورخان سب سے زیادہ ھمارے قریب تھے- خاص طور پہ میرے بھائی ممتاز حسین ملک کے تو یہ جگر تھے- ممتاز بھائی کی طرح یہ بھی مجھ سے ایک آدھ سال بڑے تھے، اس لیے مجھے اپنا چھوٹا بھائی سمجھتے تھے- میں انہیں لالو کہتا تھا ، اور یہ پیار سے مجھے کالو کہتے تھے-

ممتاز بھائی اور یہ دونوں صاحب دل تھے (مطلب آپ سمجھ گئے ھوں گے) اس لیے اکثر اپنے اپنے دکھ ایک دوسرے کو سنا کر آھیں بھرا کرے تھے- میں ان کا مذاق اڑاتا تو لالو کہتے “ اوئے کالو، تمہیں کیا پتہ ان باتوں کا- تمہارے سینے میں تو انسان کا دل ھے ھی نہیں- تم سے انگریزی سیکھنے کا لالچ نہ ھوتا تو ھم چائے میں زھر ڈال کر تم سے جان چھڑا لیتے-“

کالج سے فارغ ھو کر ھم ملازمت سے وابستہ ھوگئے٠ ممتاز بھائ کینٹ پبلک سکول راولپنڈی میں انگلش ٹیچر مقرر ھوگئے، لالو گورنمنٹ ھائی سکول میانوالی میں انگلش ٹیچر متعین ھوئے، اور میرے نصیب میں ٹھٹھی سکول میں ھیڈماسٹر کی کرسی لکھی تھی- کچھ عرصہ بعد ممتاز بھائی اپنے سکول کے پرنسپل بن گئے- لالو گورنمنٹ ھائی سکول میانوالی کے ھیڈماسٹر – سروس کےآخری ایک دو سال ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر بھی رھے- مگر زیادہ سروس گورنمنٹ ھائی سکول میانوالی ھی میں گذاردی-

جب یہ ھیڈماسٹر تھے تو ایک دن میں ان سے ملنے کے لیے ان کے سکول گیا- نورخان صاحب سکول کے لان میں دسویں کلاس کو انگلش پڑھا رھے تھے- مجھے دیکھا تو ایک لڑکے کو بھیج کر مجھے ادھر ھی بلا لیا٠اور کلاس سے کہا “ ملک صاحب ھیں تو میرے کلاس فیلو، مگرانگریزی میں ھم نے بھی ان سے بہت کچھ سیکھا ھے- آج یہ آپ کی کلاس کو پڑھائیں گے، اور آپ کی طرح میں بھی ان کی کلاس اٹینڈ کروں گا- “ یہ کہہ کر مجھے یہ بتادیا کہ کیا پڑھانا ھے اور کلاس میرے سپرد کر دی-

یہ لالو کی مجھ سے محبت تھی، ورنہ لالو خود بھی انگلش کے بہترین ٹیچر تھے- چوھدری رضی صاحب اور عبدالغفور خان نیازی کے علاوہ لالو نور خان کے برابر کا انگلش ٹیچر میانوالی میں کوئی نہ تھا- شاید آج بھی ان جیسا ٹیچر یہاں کے کسی سکول میں نہ ھو-

لالو نے سیاست میں بھی بھرپور حصہ لیا- اپنے علاقے کے لوگوں کے تھانے کچہری کے کام بھی یہی کروا دیتے تھے- ھر سرکاری آفس میں ان کا احترام کیا جاتا تھا- ایک دن میں نے کہا “یار یہ نمبرداری تم چھوڑ کیوں نہیں دیتے ؟“

لالو نے کہا “ اللہ نے مجھے جو عزت اور اثرورسوخ دیا ھے، اس سے غریب لوگوں کے فائدے کاکام کرنا کوئی جرم تو نہیں ۔ میں یہ کام کرتا رھوں گا ؛“

اللہ مغفرت فرمائے بہت پیارے انسان تھے- بہت یاد آتے ھیں-27 ستمبر  2016

فیس بک سے دوستی —–

فیس بک کے کام میں میری مدد کرنے والے میرے ایک اور بہت پیارے بیٹے مناظر گوندل ھیں- مناظر گوندل کا گھر چک سیدا (ملکوال) میں ھے، ملازمت کے سلسلے میں عرب امارات میں مقیم ھیں- ان سے بھی ابھی تک میری ملاقات تو نہیں ھو سکی لیکن فیس بک پر میری خدمت کے لیے ھر وقت حاضر رھتے ھیں – مجھے “باباجانی“ کہتے ھیں-

اگرچہ سمندرپار بیٹھے ھیں مگر میں جونہی کوئی فرمائش کروں چند منٹوں میں تعمیل کردیتے ھیں- اپنے پیج پہ میں جو عید کارڈ لگاتا ھوں ، وہ بھی یہی بناکر بھیجتے ھیں- میرے بہت سے اشعار کی آرائش کر چکے ھیں- میں فرمائش کرتے وقت مذاق کے طور پہ ان سے کہتا ھوں بیٹا شعر میں کسی خاتون کی تصویر نہ لگانا- ایک دفعہ انہوں نے میرے ایک شعر میں ایک ایسی تصویر لگائی تھی، لیکن وہ نہایت مناسب اور شعر کے مزاج کے عین مظابق تھی، اس لیے میں نے اپنے پیج پہ لگا دی تھی-
اللہ مناظر گوندل کو سلامت رکھے، بہت خدمت کر رھے ھیں میری – میرے ایک شعر پر مناظر کی سادہ مگر حسینن آرائش دیکھیے چند منٹ بعد – یہ آرائش انہوں نے کل کر کے دی ھے—-
اس پوسٹ کے ساتھ والی پکچر مناظر نے مسجد نبوی میں بنوا کر بھیجی ھے-

میرے ایک شعر پر مناظر گوندل کی پہلی آرائش–27 ستمبر  2016

فیس بک سے دوستی —

میرے اشعار کی آرائش کے حوالے سے میرے ایک اور پیارے بیٹے ملک عامر سہیل ھیں- یہ بھی میرے فیس بک پہ آنے سے پہلے صرف میرے نام سے آشنا تھے- فیس بک پہ میرے اشعار کی آرائش دیکھی تو یہ بھی یہ خدمت سر انجام دینے لگے- ان کے آرٹ کے کچھ نمونے آپ پہلے میرے پیج پہ دیکھ چکے ھیں-
عامر یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا میں انڈسٹریل انجینیئرنگ کے تھرڈ ایئر کے سٹوڈنٹٹ ھیں- ان کا گھر چوک اعظم لیہ میں ھے- ماشاءاللہ بہت ذھین نوجوان ھیں- اس پوسٹ سے اوپر والی پوسٹ میں کچھ دیر بعد دیکھیے عامر بیٹے کی آرائش کا ایک تازہ نمونہ —

میرا شعر ، ملک عامر سہیل کی آرائش–28 ستمبر  2016

میرا میانوالی

گورنمنٹ کالج میانوالی کو یہ اعزاز بھی نصیب ھؤا کہ پروفیسر ڈاکٹر رشید احمد اس ادارے کے پرنسپل رھے- ڈاکٹر رشید احمد بین الاقوامی شہرت یافتہ ریاضی دان تھے- انہوں نے کینیڈا سے ریاضی میں ایم ایس سی کرنے کے بعد ریاضی ھی میں پی ایچ ڈی کیا- ڈاکٹر رشید ریاضی کےپروفیسروں کی متعدد بین الاقوامی تدریسی اکیڈیمیوں کے رکن بھی رھے- گورنمنٹ کالج اصغرمال راولپنڈی سے لیکچرر کی حیثیت میں ملازمت کا آغاز کیا- ًمختلف کالجوں کے پرنسپل کے علاوہ ڈائریکٹر آف ایجوکیشن ، اور راولپینڈی بورڈ کے چیئرمین بھی رھے- زبردست ایڈمنسٹریٹر تھے- ڈسپلن کے خود بھی سخت بابند تھے، اپنے ماتحتوں کو بھی پابند رکھتے تھے-
گورنمنٹ کالج میناولی میں ڈاکٹر رشید 1983-84 میں چند ماہ پرنسپل رھے- سٹوڈنٹس کے غیرحاضری نامہہ Absentee Slip کا رواج انہوں نے یہاں متعارف کرایا- Absentee Slip ایک فارم ھے جس میں ھر ٹیچر اپنی ھر کلاس کے غیرحاضر سٹوڈنٹس کے رول نمبر درج کرکے روزانہ پرنسپل آفس کو دیتاھے- یہ ایک قسم کا ٹیچرز کا حاضری نامہ بھی ھوتا ھے- جو ٹیچر Absentee Slip نہ دے اس کا صاف مطلب یہ ھے کہ اس نے آج کوئی کلاس نہیں لی-

اسی دور میں ڈاکٹر رشید صاحب نے مجھے اپنے کالج میں تین کلاسز کے علاوہ گورنمنٹ کالج برائے خواتین کی دو کلاسز پڑھانے کی ڈیوٹی بھی دے دی- ایک دن میں خواتین کے کالج سے واپس آیا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا “ ملک صاحب، آپ کی Absentee Slip نہیں ارھی- “

میں نے کہا“ سر، میں دوکلاسیں یہاں پڑھاکر خواتین کالج چلا جاتا ھوں ، وھاں دو کلاسز پڑھا نے کے بعد یہاں آکر اپنی بی اے کی کلاس کو پڑھاتا ھوں- اتنی مصروفیت میں-Absentee Slip بنانا میرے لیے مشکل ھے-“

ڈاکٹر صاحب نے مسکرا کر فرمایا “ ھاں، آپ کو رعایت دی جا سکتی ھے-“

ڈاکٹر صاحب تقریبا 7 ماہ یہاں رھے- پھر بہاولپور ڈویژن کے ڈائریکٹر آف ایجوکیشن مقرر ھو گئے-

ڈاکٹر صاحب1994 میں اصغرمال کالج کے پرنسپل کی حیثیت میں رٰیٹائر ھونے کے بعد COMSATS سے وابستہ ھو گئے- ایٹمی توانائی پر ریاضیاتی ریسرچ کے اداروں میں بھی کام کرتےرھے-

بنیادی ظور پر ڈاکٹر صاحب ایک بے مثا ل ٹیچر تھے- ایم ایس سی کو مشکل ترین پیپر یہی پڑھاتے تھے- پنجاب یونیورسٹی سے بھی وابستہ رھے- زندگی کے آخری چند سال اپنی فیملی کے پاس جنوبی افریقہ میں بسر کیے 2011 میں وفات سے ایک سال پہلے تک کینسر کی بیماری کے باوجود وھاں بھی پڑھاتے رھے- مارچ 2011 میں اس دنیا سے رخصت ھو گئے- 28 ستمبر  2016

میرا میانوالی —

میرا خیال تھاکہ ڈاکٹر رشید احمد کا ذکر ایک ھی پوسٹ میں مکمل ھو جائے گا- مگر جب کل کی پوسٹ لکھ چکا تو ان کی شخصیت کے حوالے سے کچھ اور اھم باتیں یاد آگئیں، جو آج کے ٹیچرز ، پرنسپل صاحبان اور صاحب احساس لوگوں کے لیے مشعل راہ ثابت ھو سکتی ھیں- اس لیے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں ایک اور پوسٹ لکھنا ضروری سمجھا-
کالج میں ڈاکٹر صاحب کی تمام تر توجہ کالج ھی کے معاملات پر رھتی تھی- ھنسی مذاق بھی اسی حوالے سے کرتے تھے– اپنی ذاتی زندگی، علمی مرتبے اور بین الاقوامی شہرت کا انہوں نے کبھی نام بھی نہیں لیا- یہاں رھے تو ان کا سب کچھ گورنمنٹ کالج میانوالی ھی رھا- جہاں بھی رھے وھیں کے ھو کر رھے-
ڈسپلن کے معاملے میں بہت سخت تھے، لیکن سختی کی کبھی نوبت ھی نہ آتی تھی- ان کی شخصیت میں کوئی ایسی بات تھی کہہ ان کے حکم کی تعمیل کرکے ھمیں خوشی محسوس ھوتی تھی- انہوں نے ھمارا کردار بدل کے رکھ دیا- ھم اپنے فرض کو فرض سمجھنے لگے- خوش دلی سے محنت کرتے تھے-
میانوالی کا مفاد انہیں اتنا عزیز تھا کہ گورنمنٹ کالج برائے خواتین میں انگلش کے ٹیچرز کی کمی ھوئی تو انہوں نے اپنے کالجج کے ایک ٹیچر کو (مجھے) وھاں پڑھانے پر مامور کردیا- وہ بھی اس طرح کہ اپنے کالج کا نقصان بھی نہ ھونے دیا- یہاں بھی میں اپنی تمام کلاسیں پڑھاتارھا-
ایک دن پروفیسر پیر اقبال صاحب کے ھاں چند دوستوں کی دعوت کے دوران میں نے برف والے پانی کی بجائے یہ کہہہ کر سادہ پانی مانگا کہ ٹھنڈا پانی میرے دانتوں کو لگتا ھے- ڈاکٹر صاحب نے کہا “ملک صاحب، میرا بھی یہ مسئلہ رھا ھے- آپ Sensodyne ٹوتھ پیسٹ استعمال کیا کریں- یہی اس مسئلے کا مستقل حل ھے-“
جب ڈاکٹر صاحب بہاولپور میں ڈائریکٹر آف ایجوکیشن تھے تو میرے ایک دوست کسی کام کے لیے مجھ سے ڈاکٹرر صاحب کے نام کا خط لے گئے- ڈاکٹرصاحب نے فورا ان کا کام بھی کردیا، اور انہیں میرے نام خوبصورت انگلش میں ایک مفصل خط بھی لکھ کر دے دیا – خط میں لکھا تھا کہ میانوالی میں میرا قیام میری زندگی کا ایک بہت خوشگوار تجربہ تھا- میں ذرا سخت مزاج ھوں، مگر آپ لوگوں نے مجھ سے بھرپور تعاون کر کے سختی کرنے کا موقع ھی نہ دیا- میں آپ سب کا شکر گذار ھوں- بچے بھی بہت اچھے تھے- ان کا بھی شکریہ ادا کردیں- میں اپنا یہ خوشگوار تجربہ کبھی نہین بھلا سکوں گا-
ریاضی اور سائنس میں مہارت کی بین الاقوامی شہرت کے باوجود ڈاکٹر صاحب بہت عبادت گذار بھی تھے- ان کےے ماتھے پر داغ سجدہ اس پوسٹ کی پکچر میں بھی نظر آرھا ھے- اللہ ان کی تمام نیکیاں اور عبادات قبول فرمائے-
مارچ 2011 میں پاکستان کے افق کا یہ تابناک ستارا جنوبی افریقہ کی زمین میں غروب ھوگیا – مگر اس کی روشنیی یہان اب بھی موجود ھے، اور ھمیشہ رھے گی–
29 ستمبر  2016

فیس بک سے دوستی

میرے شعروں کی آرائش کرنے والے مہربانوں کا ذکر مکمل ھؤا، ان کے تازہ فن پاروں کی نمائش کا سلسلہ انشاءاللہ جاری رھے گا- آج سے ان شاعر دوستوں کا ذکر شروع کر رھا ھوں، جو فیس بک پر ھمیشہ میرے ساتھ رھے ھیں- ان حضرات کے اسمائے گرامی یہ ھیں-
سید نجف علی شاہ بخاری
محمد ظہیر احمد مہاروی
صابر بھریوں


آج بات ھوگی بھکر کے سید نجف علی شاہ بخاری کے بارے میں- نجف بخاری فیس بک سے بہت پہلے اس زمانے میں مجھ سے متعارف ھوئے جب میانوالی کے سینیئر شعراء بھکر کے مشاعروں میں شریک ھؤاکرتے تھے- میں بھی دوتین مشاعروں میں ان کے ساتھ شریک ھؤا-
نجف بخاری بھکر کے ایک مشہورومعروف سید گھرانے کے چشم و چراغ ھیں- ان کے دادا محترم علی شاہ اور والد گرامیی سیدصادق حسین اس علاقے کے مشہور پیرومرشد تھے- نجف بخاری نے بھی ان سے دست شناسی اور علم الاعداد وغیرہ سیکھنے کے بعد دنیاوی تعلیم کی طرف رجوع کیا، ایم اے اردو کے بعد ایم فل بھی کر چکے ھیں- ٢٣ سال ریڈیوپاکستان ڈی آئی خان سے، سکرپٹ رائیٹر، اناؤنسر، کمپیئر ڈراما نگار اور پروڈیوسر کی حیثیت میں وابستہ رھے- آج کل درس وتدریس کا کام کر کے اپنے علاقے کے لوگوں کی خدمت کر رھے ھیں-
شاہ جی زیادہ تر رومانوی شاعری کرتے ھیں- بہت خوبصورت شعر کہتے ھیں- ان کی پانچ کتابیں شائع ھو چکی ھیں ،، کتابوں کے نام ھیں، اشکوں میں رعنائی، برف میں لپٹی آگ، بستیاں آباد، اور صحرا میں اذان (اردو) اور منوتی (سرائیکی) – اسم اعظم پڑھ لیا کرتا ھوں میں ، کے عنوان سے کلیات عنقریب شائع ھونے والی ھے-
شاہ جی بہت مخلص دوست ھیں- سمارٹ لباس میں قلندرانہ مزاج کا عمدہ نمونہ ھیں- بھکر کی معروف و مقبولل شخصیت ھیں —-
29 ستمبر  2016

فیس بک سے دوستی ———


محمدظہیراحمد مہاروی میانوالی کے نوجوان سرائیکی شعراء میں اس لحاظ سے منفرد ھیں کہ پروفیسرمحمد سلیم احسن کی طرح یہ بھی خالص غزل کے شاعر ھیں- ورنہ مجھ سمیت یہاں کے باقی سب شعراء گیت نگاری کی راہ سے سرائیکی شاعری کے میدان میں داخل ھوئے- دوسری اھم بات یہ کہ یہ بہت معیاری غزل لکھتے ھیں- زندگی کے ھر موضوع پہ شعر لکھتے ھیں- اس حوالے سے ظہیر سلیم احسن، اقبا ل سوکڑی اور شاکر شجاع آبادی کی صف میں کھڑے نظرآتے ھیں- تیسری اھم بات یہ کہ ظہیر میانوالی کی مخصوص سرائیکی زبان کے الفاظ اور تراکیب دھڑلے سے اپنی شاعری میں استعمال کرتے ھیں- حالانکہ ھم جیسے سینیئر لوگ بھی یہ جراءت کرنے سے شرماجاتے ھیں- لیکن میرے خیال میں ظہیر کی یہ جراءت مندی بہت اچھی بات ھے- ھماری اپنی زبان معنویت کے لحاظ سے کسی سے کم تونہیں- اسے کوزے میں بند کر کے رکھنااس زبان پر ظلم ھے-
مزے کی بات یہ ھے کہ ظہیر سرائیکی وسیب کی ھر بولی میں لکھ سکتے ھیں- یہ نہیں کہ انہیں کوئی اور بولی آتی ھی نہیں-
مجھے یہ اعزازحاصل ھے کہ ظہیر کے پہلے شعر کی اصلاح میں نے کی تھی- ظہیرکے اپنے الفاظ پتہ نہیں کیا تھے، اصلاحح کے بعد وہ شعر یوں بن گیا تھا-
ھک رات اس زلفاں کیا چھنڈیاں
ھررات دا بوچھنڑں کالا ھے
دوسرا اعزاز یہ بھی میرے حصے میں آیا کہ ظہیر کے پہلے شعری مجموعے کا نام “ھنجو، ریت، ھوا“ میں نے رکھا- یہہ مجموعہ 2006 میں منظر عام پر آیا- ظہیر کو یہ اعزاز بھی نصیب ھؤا کہ سلیم احسن انہیں اپنا جانشین قرار دیتے ھیں-
کچھ باتیں انشاءاللہ کل شیئر کروں گا —
30 ستمبر  2016

No shortCode found

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top