میرا میانوالی – منور علی ملک کی  اگست  2016کی  فیس بک پر پوسٹ

میرا میانوالی

عزیز دوستو، السلام علیکم ————-
ناصر کاظمی نے کہا تھا ——–
شہر لاھور ، تری رونقیں دائم آ با د
تیری گلیوں کی ھوا کھینچ کے لائی ھم کو

کچھ دوست کہیں گے کہ سر ، آپ میانوالی کے ھیں ، لاھور کی اتنی تعریف کیوں ؟

میرا جواب یہ ھے کہ آپ یہ ثابت کر دیں کہ لاھور پاکستان سے باھر ھے ، تو میں کبھی لاھور کا نام بھی نہیں لوں گا-

جی ھاں ، میانوالی ھو، لاھور ھو یا کوئٹہ سب شہر ھم سب کے ھیں ، کیونکہ یہ سب ھمارے پیارے دیس پاکستان میں واقع ھیں- اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ سنیئے-

ھمارے محترم دوست جی ایم شاہ ، فیڈرل بورڈ آف ایجوکیشن کے چیئرمین تھے- ایک دفعہ انہوں نے بورڈ میں کلرک کی تینوں اسامیوں پر میانوالی کے تین نوجوان بھرتی کر لیے – کسی نے کہا شاہ جی، آپ نے تینوں بندے اپنے ھی ضلع کے بھرتی کر لیے ؟ شاہ جی نے کہا ، میرے بھائی، آپ یہ ثابت کر دیں کہ میانوالی پاکستان سے باھر ھے ، تو میں ابھی ان تینوں آدمیوں کو ملازمت سے نکال دیتا ھوں- آپ یہ نہ سوچیں کہ میں نے میانوالی کے آدمیوں کو ملازمت دی ھے- یہ دیکھیں کہ میں نے تین پاکستانیوں کو ملازمت دی ھے- دوسری بات یہ کہ یہ تینوں آدمی میرٹ کے معیار پر بھی پورے اترتے تھے-

اس حوالے سے دیکھیں تو لاھور میرا شہر بھی ھے ، آپ کابھی- کیونکہ یہ ھمارے پاکستان کا شہر ھے-

لاھور میں میں اپنے پیٹے پروفیسر محمد اکرم علی کے ھاں رھا- الحمدللہ، دو ماہ بہت اچھے گذر گئے- میں زیادہ سوشل آدمی نہیں ھوں- فیملی ساتھ ھو تو دوستوں کے ھاں آتاجاتا نہیں- گھر پر ھی بیٹھ کر پڑھنے لکھنے کا کا م کرتا رھتا ھوں- ھر شام فیملی کے ساتھ سیروتفریح کر لیتا ھوں- ھماری سیر گاہیں جلوپارک سفاری پارک، ماڈل ٹاؤن پارک وغیرہ ھیں- پہلے جب ھم چوبرجی کے علاقےشام نگر میں رھتے تھے تو جناح باغ، شاھی مسجد ، شالامارباغ اور ریلوے سٹیشن جایا کرتے تھے- ھر سنیچر کی شام فورٹریس سٹیڈیم میں ھائیپرسٹار پہلے بھی جاتے تھے اب بھی-

لاھور میں رہ کر بھی “میرا میانوالی“ میں روزانہ آپ سے ملاقات ھوتی رھی- اپ واپس آ گیا ھوں تو بھی یہ سلسلہ انشاءاللہ جاری رھے گا- ——— کل پھر سرورصاحب سے آپ کی ملاقات کرواؤں گا ———-منورعلی ملک —–1اگست 2016

علمائے کرام کی طرح ھم انگلش کے پروفیسروں کے بھی آپس میں اختلافات ھوتے ھیں ، لیکن ھم ایک دوسرے پر کفر کے فتوے نہیں لگاتے بلکہ ایک دوسرے کے مؤقف کا احترام کرتے ھیں -سرور نیازی صاحب اور میرے درمیان بھی کچھ اختلافات ھیں، مثال کے طور پر وہ عالمانہ انداز کی انگلش لکھتے ھیں، میں روزمرہ استعمال کی زبان – اپنی اپنی جگہ دونوں درست ھیں- 
کلاسیکل ناول میں وہ جین آسٹن کے شیدائی ھیں ، میں چارلس ڈکنز کا- وہ وکٹورین ناول کو حرف آخر سمجھتے ھیں ، میںں ماڈرن ناول کو- اسی لیے جب ھمارے ھاں ایم اے پارٹ ٹو کی کلاس کا آغاز ھؤا تو سرور خان نے کہا، ملک صاحب اس کلاس کو ناول کا پیپر آپ پڑھائیں گے ، کیونکہ ماڈرن ناول آپ ھی کو اچھا لگتا ھے-

رومینٹک شاعروں میں مجھے کولرج سب سے اچھا لگتا ھے ، سرور خان کو ورڈسورتھ، سرور خان کا دیو مالائی داستانوں (Mythology)کا مطالعہ بہت وسیع ھے، میں اس سمت میں گیا ہی نہیں-

ٹیچر کی حیثیت میں ھم ایک دوسرے کے مد مقابل کبھی نہیں ھوئے- انجینیئر اور ڈاکٹر بننے کے امیدوارسرور صاحب کے پاس ٹیوشن پڑھنے کے لیے جاتے تھے، اگر کوئی میرے پاس آتا بھی تو میں اسے سرور خان کے پاس بھیج دیتا تھا ، اسی طرح بی اے کے طلبہ کو سرور صاحب میری طرف بھیج دیتے تھے- ایم اے کے پرائیویٹ طلبہ کو کچھ پیپر سرورخان پڑھا دیتے تھے، کچھ میں ———-منورعلی ملک —2اگست 2016

سرور خان صاحب کا یہ احسان میں کبھی نہیں بھلا سکوں گا کہ انہوں نے میری ریٹائرمنٹ کی تقریب کو میری زندگی کی سب سے حسین یاد بنا دیا- یہ تقریب 20 نومبر 2000 کو انگلش ڈیپارٹمنٹ کے پرانے کیمپس میں منعقد ھوئی-

تقریبا ایک ماہ سرورخان اس تقریب کی تیاریوں میں مصروف رھے، سٹوڈنٹس اور سٹاف کو بھی اسی کام میں لگائے رکھا- بچوں اور بچیوں کی اس موقع کےلیے لکھی ھوئی تقریروں کی اصلاح سرور خان خود کرتے رھے، کچھ سوڈنٹس کو مکمل تقریریں خود لکھوائیں- ان تقریروں کی روزانہ ریہرسل سرورخان کے آفس میں ھوتی تھی- مجھ سے یہ سارا اہتمام خفیہ رکھا گیا- جونہی میں سرورخان کے کمرے میں قدم رکھتا، سرورخان مسکرا کر سٹوڈنٹس کو وھاں سے کھسک جانے کا اشارہ کرتے اور مجھ سے ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف ھو جاتے-

گفٹس کی خریداری اور کھانے کا اھتمام پروفیسر ناصراقبال اور پروفیسر عبدالغفارخان خٹک پر مشتمل کمیٹی کی ذمہ داری تھی- آن دونوں دوستوں نے بھی نہایت خلوص اور خوش اسلوبی سے یہ فرض ادا کیا-

تقریب کی روداد بیان کروں تو لوگ کہیں گے اپنی تعریف کر رھا ھوں – اگر اس دور کا کوئی سٹوڈنٹ تقریب کی روداد لکھ دے تو پوسٹ کر دوں گا-

اس تقریب میں میں نے جو الوداعی نظم پڑھی تھی اس کے دو شعر آپ کے ساتھ شیئر کرتا ھوں-

نہ اتنے پیار کا عادی بنائیے مجھ کو

یہاں سے اٹھ کے کہیں اوربھی توجاناھے

یہ پھول اپنی محبت کے کچھ بچا رکھنا

ھمارے بعد کسی اور نے بھی آنا ھے

ایک انوکھی بات یہ بھی ھوئی کہ یکم فروری کو میری ریٹائرمنٹ کے بعد 12 فروری کو اسی اھتمام کے ساتھ میرا برتھ ڈے بھی منایا گیا- 3اگست 2016

سرور خان سے مجھے ایک سخت شکایت بھی ھے- یہ شکایت آپ کو بھی ھونی چاھیے- شکایت یہ ھے کہ انہوں نے اب تک کوئی کتاب کیوں نہیں لکھی- جب بھی میں نے انہیں اس طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی انہوں نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ “ ھاں ، لکھوں گا ، ضرور لکھوں گا “

میں نے کئی دفعہ مثال بھی دی کہ سرورخان، دیکھیں، سوفوکلیز نے آج سے اڑھائی ھزار سال پہلے ( حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے بھی پانچ سو سال پہلے ) Oedipus Rex کے عنوان سے ڈراما لکھا جو ھم آج بھی ایم اے میں پڑھا رھے ھیں- صرف ھم ھی نہیں، پوری دنیا کی یونیورسٹیوں میں سوفوکلیز کا یہ ڈراما آج بھی پڑھایا جا رھا ھے- بعض جگہ اس کے دوسرے ڈرامے بھی یونیورسٹی کی سطح پر کورس میں شامل ھیں- کہنے کا مقصد یہ ھے کہ سوفوکلیز کی لکھی ھوئی کتابوں کی وجہ سے اس کا نام آج اڑھائی ھزارسال بعد بھی زندہ ھے- اس لیے پلیز آپ بھی کم از کم ایک کتاب تو لکھ دیں- پہلے کہا کرتے تھے ناول لکھوں گا، مگر آج تک تو کچھ لکھ کر نہیں دیا-

میری طرح سرور خان بھی اردو، انگلش، سرائیکی ، تینوں زبانوں میں لکھ سکتے ھیں، ان سے کچھ لکھوانے کا ایک کارگر طریقہ یہ ھوگا کہ پہلے تو ھم سب مل کر ایک دو احتجاجی ریلیاں نکالیں، اگر ریلیوں سے کام نہ بنا تو پھر باقاعدہ ان کے درپر دھرنا دیں گے- اس کا یہ فائدہ ھوگا کہ حضرت جب گھر سے نکل ھی نہ سکے توگھر میں پڑے پڑے کچھ تو لکھ ھی دیں گے- سو، آپ سب لوگ دھرنے کی تیاری کریں- احتجاجی بینرز وغیرہ لکھوائیں ، اور کچھ بھی نہ کر سکیں تو کم ازکم میری یہ پوسٹ تو بھائی صاحب کی خدمت میں پیش کردیں ، اس کے بعد دیکھیں گے کہ اور کیا کچھ کرنا ھوگا- واللہ اعلم—— منورعلی ملک ——-4اگست 2016

ویسے تو الحمدللہ گورنمنٹ کالج میانوالی کے سب پروفیسر صاحبان میرے بہت مہربان دوست تھے- ان میں سے میرے سب سے زیادہ قریب پروفیسرمحمدسلیم احسن رھے- ھم دونوں تقریبا 20 سال سلیم صاحب کے سکوٹر پر ایک ساتھ کالج آتے جاتے رھے- کالج میں ھم دونوں ایک ھی ٹی کلب کے ممبررھے- جب سلیم صاحب کالج کے شعبہ سیاسیات کے چیئرمین بن گئے، تو انہوں نے وھاں بھی ایک ٹی کلب بنا کر مجھے اس کا اعزازی رکن بنا دیا-
سلیم صاحب کی اھلیہ بی ایڈ میں مجھ سے رھنمائی لیتی رھیں ، ان کے بچے بھی مجھ سے کچھ نہ کچھ سیکھتے رھے- یوں میں ان کے گھر کا ایک فرد بن گیا-

سلیم صاحب کے بہت سے حلقہ احباب ھیں ، ان میں سے چند ایک محفلوں میں میں بھی باقاعدہ شریک ھوتا رھا- ایک محفل معروف گلوکارایوب نیازی کے ھاں ھوتی تھی- ھم دونوں ھر شام وھاں حاضری دیا کرتے تھے- ھمارے علاوہ نامور موسیقار استاد امیرحسین امیر، لالا شیرایا زرگر، محمدافضل خان شیرمان خیل، پی اے ایف کالونی سے عبداللہ شاہ تونسوی، عبید عرف منا، ایکسائیز انسپکٹر ندیم حیدر بلوچ اس محفل کے مستقل رکن تھے- بعد میں لطیف ساجد اور واصف بھی شریک محفل ھو گئے-

ایوب نیازی بہت منفرد انداز کا گلوکار اور بہت پیارا انسان ھے- سادگی اور معصومیت اس کی شخصیت کے نما یاں اوصاف ھیں جن کی وجہ سے سب لوگ اس سے محبت کرتے ھیں- ایوب نیازی کمرشل گلوکار صرف اس لیے نہ بن سکا کہ اس نے میانوالی چھوڑنا گوارا نہ کیا ، ورنہ اس کی منفرد آواز کے لیے میڈیا اور فلمی دنیا میں شہرت اور مقبولیت حاصل کرنا کچھ مشکل نہ ھوتا-

ایوب نیازی کی بیٹھک کو ایک اعزاز یہ بھی حاصل ھؤا کہ وھاں پاکستان کے مایہ ناز شاعر شہید محسن نقوی کے ساتھ ایک شام منائی گئی- ان کے علاوہ ڈاکٹرطاھر تونسوی، قائم نقوی اور شوکت واسطی جیسی بلند قامت ادبی شخصیات نے بھی ایک سے زیادہ مرتبہ اس محفل کو رونق بخشی-

تقریبا دوتین سال سلیم صاحب اور میں ایوب نیازی کی خوبصورت گلو کاری سے محظوظ ھونے کے لیے اس محفل میں باقاعدہ شریک ھوتے رھے- پھر دوسری مصروفیات میں الجھ کر رہ گئے-

سلیم صاحب پر بھی میں ایک اچھی خاصی کتاب لکھ سکتا ھوں ، مگر اتنی فرصت کہاں سے لوں؟ بہر حال دوچار پوسٹوں میں جو کچھ ھو سکا وہ ضرور کروں گا، انشاءاللہ، -5اگست 2016

موسیقی سے سلیم صاحب اور میری دلچسپی کا اندازہ اس بات سے کیجیئے کہ ایک دفعہ ھم کالج کینٹین کے ٹھیکیدار’ اور اپنے زندہ دل دوست محمد انور خان پنوں خیل سے ان کا الیکٹرانک ھارمونیم مانگ کر لے آئے، اور ھر صبح کالج جانے سے پہلے تقریبا آدھ گھنٹہ اس ھارمونیم پر اپنے گیتوں کی دھنیں بنایا کرتے تھے- سلیم صاحب ھارمونیم تو نہیں بجا سکتے تھے، لیکن دھنوں کے زبردست آئیڈیاز یہی دیا کرتے تھے-

سلیم بھائی ناراض ھوں تو ھوتے رھیں ، آج آپ کو یہ راز کی بات بھی بتا دوں کہ اللہ تعالے نے دوسری خوبیوں کے علاوہ انہیں اچھی خاصی سریلی آواز بھی عطا کی ھے- پبلک میں گانے سے تو شرماتے ھیں، مگر دھنیں بنانے کے دوران بڑے زوروشور سے بہت خوبصورت انداز میں گایا کرتے تھے- میرا خیال ھے ان کے اس کمال کا چشم دید گواہ میں ھی ھوں، ممکن ھے ظفرخان نیازی بھی ان کی اس صفت سے آشنا ھوں کہ جوانی میں یہ دونوں حضرات بہت کچھ کرتے رھے ھیں-

سلیم بھائی کو راگ مالکونس بہت پسند ھے، وہ اس لیے کہ یہ راگ ان کے والد محترم کو بہت پسند تھا- راگ مالکونس میں دھنیں بنانا تو ھمارے بس کی بات نہ تھی ، کیونکہ یہ خاصا مشکل راگ ھے، مگر سلیم بھائی کے ذخیرے میں نایاب فلمی نغموں کے بعض کیسٹس میں سے مالکونس میں نغمے اور بھجن ھم بڑے شوق سے سنا کرتے تھے-

آدھ گھنٹہ دھنیں بنانے کی مشقت کے بعد میری تھکاوٹ دور کرنے کے لیے سلیم بھائی اپنے دست مبارک سے میرے اور اپنے لیے چائے بنایا کرتے تھے- چائے پی کر ھم کالج روانہ ھو جاتے- وھاں یہ سیاسیات پڑھایا کرتے ، میں انگلش، بچارے سٹوڈنٹس کو کیا خبر کہ ان کے یہ دونوں “سر“ سیاسیات اور انگلش کے علاوہ بھی بہت کچھ جانتے ھیں —— باقی باتیں کل ھوں گی، انشاءاللہ –بھولنے لگے تھے اب دن وہ داستاں جیسے
لفظ لفظ چنتا ھوں ، اپنی کرچیاں جیسے —6اگست 2016

(Me and Prof Muhammad Saleem Ahsan)

سلیم احسن صاحب اور ھماری ایک محفل ھر شام مین بازار میں حافظ سویٹ شاپ کی بالائی منزل پر منعقد ھوتی تھی- اس محفل کے مسقل رکن مہرزمان خان ھزارے خیل، حیات اللہ خان بہرام خیل، صوفی حمیداللہ خان (ایکسپریس نیوز اور وولٹا بیٹری والے)، مرحوم عبدالمالک عبدل اور چند دوسرے دوست تھے، (ان دوستوں کے نام اس وقت یاد نہیں آرھے، معذرت)

اس محفل میں ادب، سیاست اور صحافت پر گفتگو ھوتی تھی- ایک مشاعرہ بھی ھؤا تھا جس میں ھمارے علاوہ مرحوم پروفیسر محمد فیروز شاہ، اور مرحوم محمد محمود احمد ھاشمی بھی شریک تھے- ایک آدھ مرتبہ منصورآفاق بھی تشریف لائے- پھر خدا جانے ان سے کس بات پر رنجش سی ھوگئی- یہ دلچسپ رنجش دوچار سال چلتی رھی، پھر صلح صفائی ھو گئی-

ھماری یہ محفل یوں سمجھیے کہ صحافت کی تربیت گاہ تھی- حمیداللہ خان ان دنوں اسلام آباد سے شائع ھونے والے اخبار روزنامہ “مرکز“ کے رپورٹر تھے- حیات اللہ خان اور عبدالمالک عبدل بھی مقامی اخبارات میں مشق صحافت کر رھے تھے- مہرزمان خان سیاسی تربیت کے مراحل طے کر رھے تھے- دن کو سابق وفاقی وزیر مرحوم ڈاکٹر شیرافگن خان کی کلاس attend کرتے تھے، رات کو ھماری-

تقریبا دس بجے یہ محفل ختم ھوتی تو باقی لوگ اپنے اپنے گھروں کارخ کرتے، میں، سلیم صاحب ، مہر زمان اور حمیداللہ خان ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم کا ایک آدھ چکر لگا کر ریلوے ٹی سٹال سے چائے پینے کے بعد گھروں کی راہ لیتے- –7اگست 2016

جب میانوالی میں لاثانی چرغہ کاکاروبار شروع ھؤا تو سلیم صاحب کی قیادت میں ھم چند پروفیسروں نے ایک چھوٹی سی عیاشی کا پروگرام بنایا- یہ عیاشی ھر ھفتے ھوتی تھی، اس کے شرکاء سلیم صاحب اور اس فقیر کے علاوہ پروفیسر فاروق ، پروفیسر پیر اقبال شاہ، پروفیسر مقصود، پروفیسر شیخ گل محمد، اور ھمارے بہت پیارے دوست مرحوم چوھدری مختار (ایکٹرک سٹور والے) تھے- 25 روپے میں چرغے کا ایک پیس piece ملتا تھا- ھم سب اپنے اپنے حصے کے پیس کی قیمت پروفیسر پیر اقبال شاہ اور پروفیسر مقصؤد پر مشتمل ٹیم کو دے دیتے اور یہ حضرات مطلوبہ تعداد میں چرغے کے پیس لے آیا کرتے تھے-

ھم لوگ یہ عیاشی غریب ھوٹل پر کیا کرتے تھے- غریب ھوٹل بس نام کا غریب تھا، ورنہ یاد رھے کہ کھانے کے لحاظ سے یہ میانوالی کا پہلا وی آئی پی ھوٹل تھا- اس ھوٹل کے مالک سلیم بھائی کے والد محترم حافظ صاحب تھے- مالک ھونے کے باوجود کھانابنانے کا کام اپنے ھاتھ سے کرتے تھے- غریب ھوٹل میں صرف دیسی گھی کے کھانے بنتے تھے- جب تک سلیم بھائی کے والد زندہ رھے اس روایت پر سختی سے عمل ھوتا رھا-

جس زمانے کا قصہ میں بیان کر رھا ھوں ، اس وقت سلیم صاحب کے بڑے بھائی کے صاحبزادے احسان غریب ھوٹل چلا رھے ھے- روٹیاں ھمیں ھوٹل سے مل جاتی تھیں، ان کے ساتھ دال کی ایک پلیٹ مفت میں بھی ملتی تھی- خالص دیسی گھی میں بنی ھوئی اس دال کا بھی ایک اپنا لطف ھوتا تھا-

کھانا تو ایک بہانہ تھا مل بیٹھنے کا، اصل مزا تو ھماری دلچسپ بے تکلف گفتگو کا ھوتا تھا جس میں شامل قہقہے آج بھی کانوں میں گونج رھے ھیں- خاص طور پر پروفیسر فاروق اور پروفیسر پیر اقبال شاہ کی آپس میں چھیڑچھاڑ بہت ھی پر لطف ھوتی تھی- –8اگست 2016

رمضان المبارک میں حافظ سویٹ شاپ کی بالائی منزل پہ ھونے والی محفل افطاری کے وقت حافظ سویٹ شاپ کے اندر ھوتی تھی- حافظ سویٹ شاپ کے مالک حافظ عبدالحلیم افظار کا خصوصی اھتمام کرتے تھے- مگر اس وقت ھم سب لوگ باقاعدہ حاضر نہیں ھو سکتے تھے، کہ اکثر لوگ افطار گھر میں کرنا زیادہ پسند کرتے تھے- میں بھی کبھی کبھار حاضر ھو سکتا تھا- البتہ سلیم بھائی بلاناغہ افطار کی اس محفل میں شریک ھوتے تھے-

عشاء کی نماز اور تراویح ھم ریلوے سٹیشن کی مسجد میں پڑھتے تھے- مسجد کے خطیب قاری اللہ وسایا ھمارے دوست تھے- ھر جمعرات کی شب وھاں ایک محفل ذکر بھی ھوتی تھی ، کچہری بازار کے اکثر دکاندار اس محفل میں شریک ھوتے تھے- محفل کے اختتام پہ نعت خوانی بھی ھوتی تھی- جس میں قاری اللہ وسایا، ھمارے کالج کے ساتھی عربی کے پروفیسر تورمحمد سیالوی صاحب، سلیم صاحب کے بھائی کلیم ،اور ان کے بھانجے احمد رضا نعتوں کی خوشبو سے فضا کو عطر بیز بنادیتے تھے- اس محفل میں نعت خوانی کی سعادت مجھے بھی نصیب ھوتی رھی-

مسجد سے فارغ ھو کر میں ، سلیم صاحب , مہرزمان خان اور وتہ خیل کیسٹ ھاؤس کے مالک لیاقت علی خان کبھی ریلوے ٹی سٹال سے، کبھی ارد گرد کے ھوٹلوں سے چائے پیا کرتے تھے- اس کے بعد میں تو تھک ھار کر گھر چلاجاتا تھا، بھائی صاحب سحری کے اعلان تک بازار ھی میں گھومتے رھتے تھے- ایک آدھ بار مجھے بھی ھمسفر بننے کی دعوت دی مگر میں نے ھاتھ جوڑ کر معذرت کرلی -9اگست 2016

ھمارے زمانے میں پروفیسر صاحبان کھانے پینے اور مل بیٹھنے کے بہت شوقین تھے- ھم یہ دونوں کام ایک ساتھ کیا کرتے تھے- چرغہ پارٹی کے علاوہ ھمارا ایک پروفیسرزکلب بھی تھا- اس کلب کے زیراھتمام مہینے میں ایک آدھ بار اچھی خاصی پرتکلف دعوت کبھی پروفیسر مقصود کے گھر پر ، کبھی چشمہ جھیل کے کنارے کبھی کہیں اور منعقد ھؤا کرتی تھی- پروفیسرز کلب میں سلیم صاحب اور میرے علاوہ پروفیسر لالا فاروق، پیراقبال شاہ ، مقصودصاحب، شیخ گل محمد صاحب، مظہر صاحب، مرحوم محمد فیروز شاہ صاحب، سرور نیازی صاحب، احمد حسن خان نیازی صاحب ، ملک اسلم صاحب ، انجینیئر سرفرازشفیق صاحب اور ان کے کزن ڈاکٹر عبدالخالق صاحب شامل تھے-

ان دعوتوں کے لیے کھانا میانوالی کے مشہورکک حاجی ثناءاللہ بنایا کرتے تھے- کھانے میں زیادہ تر باربی کیو ھوتا تھا- کبھی کبھار ھم کسی مقامی سیاسی شخصیت کو کلب میں مدعو کرکے ان سے میانوالی کے مسائل پر غیر سیاسی گفتگو بھی کیا کرتے تھے- ان دعوتوں میں مرحوم ڈاکٹر شیرافگن خان نیازی، حمیر حیات خان روکھڑی اور انعام اللہ خان نیازی سے یادگار گفتگو ھوئی-

کلب کی ایک دعوت ( شاید پیراقبال شاہ صاحب کی الوداعی دعوت تھی) کندیاں کے قریب علی والا میں دریا کے کنارے منعقد ھوئی تھی- یہ غالبا ھماری آخری دعوت تھی ، کیونکہ اس کے بعد ھم سب لوگ ایک ایک کر کے ملازمت سے ریٹائر ھوگئے—— رھے نام اللہ کا -10اگست 2016

آج سے تقریبا 45 سال پہلے میانوالی شہر میں ذہین اور اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ایک گروپ 4 سال بے روزگاری کی تلخیوں میں مبتلا رھا – اس گروپ میں دوسرے لوگوں کے علاوہ سلیم احسن اور ظفرخان نیازی بھی شامل تھے- سلیم صاحب ڈبل ایم اے (ایم اے سیاسیات اور ایم اے تاریخ) تھے- ظفرخان نیازی ایم ایس سی ریاضی تھے- مرحوم انجم جعفری بھی اس گروپ میں شامل تھے، وہ ایم اے اردو تھے- کچھ اور لوگ بھی تھے نام اس وقت یاد نہیں آرھے- ملازمت کے لیے یہ سب لوگ مسلسل درخواستیں دیتے رھے، مگر ان کے حصے کا رزق کہیں بھی موجود نہ تھا-

اس لیے اپنی مدد آپ کے تحت ان نوجوانوں نے مسلم کالج کے نام سے میانوالی کا پہلا پرائیویٹ کالج قائم کیا- یہ کالج خاصا کامیاب ثابت ھؤا- پھریوں ھؤا کہ اللہ تعالی نے ان لوگوں کے صبر ، ھمت اور محنت کاصلہ ان کی توقعات سے بھی بڑھاکر دے دیا- ظفرخان نیازی ریڈیو پاکستان میں پروڈیوسر ھوگئے- سلیم صاحب نے سیاسیات اور تاریخ کے لیکچرر کی اسامی کے علاوہ پاکستان ٹیلی ویژن کے پروڈیوسر کی اسامی کے لیے بھی درخواست دے رکھی تھی، اللہ کے فضل سے تینوں جگہ منتخب ھو گئے – انجم جعفری محکمہ تعلیم میں سینیئر انگلش ٹیچر متعین ھوئے- اس طرح باقی لوگوں کو بھی ان کی پسند کی ملازمتیں مل گئیں –

سلیم صاحب کے سنائے ھوئے اس قصے سے یہ سبق حاصل ھوتا ھے کہ رزق کی فراھمی کا وقت اور وسائل اللہ کریم خود متعین کرتا ھے- رزق کے دنیاوی اسباب (تعلیم، ھنر وغیرہ) کا حصول اور صبر انسان کا فرض ھے- انسان اپنا فرض ادا کر دے تو باقی کام اللہ تعالی خود کر دیتاھے- —11اگست 2016

سلیم صاحب پہلے جو وقت کالج میں گذارتے تھے، ریٹائر منٹ کے بعد کچہری بازار میں حاجی محمد شفیع نسوار ڈیلر کی دکان کی بالائی منزل پر خورشید انورخان نیازی اور ملک نیک محمد کے لاء چیمبر میں گذارتے ھیں- اس بیٹھک میں سیاست اور صحافت کے علاوہ تصوف بھی ایک مستقل موضوع گفتگو رھتا ھے- اس محلے کے ایک محترم بزرگ میجر سلطان اکبر صاحب تو یہاں آتے ھی تصوف پر گفتگو کے لیے ھیں- اکثر سلیم صاحب اور میجرصاحب صوفیانہ ماھیے بھی آپس میں شیئر کرتے ھیں- پہاڑ کے پار ڈھوک علی خان کے علاقے کے ایک بزرگ شاہ صاحب بھی تشریف لایاکرتے تھے- سناھے اب اس دنیا میں نہیں رھے- اللہ مغفرت ورحمت فرمائے، بہت نیک انسان تھے-
خورشید انورخان نیازی، ملک نیک محمد اورسلیم صاحب کی یہ دوستی خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پرر حاضری کے لیے ھمسفری سے شروع ھوئی- حاجی رفیع اللہ خان شادی خیل (جانی موٹرز اور پٹرول پمپ والے) بھی ان کے ھمسفر ھؤا کرتے تھے، یہ لوگ ھر سال خواجہ چشتی کے دربار میں حاضری کے لیے اجمیر شریف جاتے ھیں- دلی میں ان کے مستقل میزبان میانوالی کے شیدائی لالہ روشن لال چکڑ ھوتے ھیں- وہ بھی بڑی باغ و بہار شخصیت ھیں-

ان لوگوں کے سفر کی روداد بہت دلچسپ بھی ھوتی ھے معلومات افزا بھی- تفصیلات پھر کبھی بتاؤں گا–

(تصویر میں میرے بائیں جانب خورشید انور خان نیازی اور دائیں جانب سلیم صاحب تشریف فرما ھیں-

ملک نیک محمد بھی ادھر ھی کہیں ھوںگے، کیمرے کی زد میں نہیں آسکے)-

سلیم احسن صاحب بہت دنوں سے راولپنڈی میں مقیم ھیں- وھاں کرائے کا گھر بھی لے لیا ھے- کچھ لوگ کہتے ھیں پکے پکے وھاں شفٹ ھوگئے ھیں- دل نہیں مانتا- ھاں ممکن ھے میری طرح بچوں کے پاس ایک آدھ سال گذارنے کے لیے گئے ھوں- یہ تو جائز بات ھے- پھر ھماری عمر میں صحت کے بعض مسائل بھی ھوتے ھیں ، جن کا حل بڑے شہروں میں ھی ملتا ھے – بہرحال یہ تو نہیں ھو سکتا کہ سلیم بھائی میانوالی چھوڑ دیں- جب تک میانوالی سے باھر ھیں ، یہاں کئی جگہوں پر کئی لوگ ان کے منتظر رھیں گے- بہت سی محفلیں ویران پڑی ھیں- فی الحال تو یار لوگ یہ کہہ کر دل کو تسلی دے لیتے ھیں کہ —-

دلا ھنڑں بس چا کر ڈھولا کتھے کتھے نال ھووے

سلیم صاحب کی شاعری کا ذکر انشاءاللہ اگلی پوسٹ میں ھوگا- اس کے لیے کچھ معلومات لینی ھیں – اس لیے اس سلسلے کی اگلی پوسٹ پرسوں ھوگی- کل کی پوسٹ کا موضوع کچھ اور ھوگا- کچھ دیر بعد بتاؤں گا—13اگست 2016

فاروق روکھڑی ، گلزار بخاری اور میں نے شاعری کا آغاز ایک ساتھ کیا٠ ھم تینوں اردو غزل لکھتے تھے اور تینوں مترنم شاعر تھے، اس لیے مشاعرے لوٹا کرتے تھے- وہ دور میانوالی میں مترنم شعراء کا دور تھا- ھمارے علاوہ مرحوم سلیمان اختر، تاج محمد تاج ، حتی کہ 80 سالہ بزرگ شاعر سوززیدی بھی ترنم سے پڑھا کرتے تھے-

مرحوم شرر صہبائی، انجم جعفری ، سالار نیازی اور موسی خیل کے ظفراقبال خان نیازی تحت اللفظ ( ترنم کے بغیر ) پڑھتے تھے- ان کا بھی ایک اپنا مؤثر انداز تھا- ظفر کے سوا باقی تینوں حضرات بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے-

فاروق روکھڑی انقلابی غزل لکھتے تھے ، جس میں سرمایہ دارانہ نظام پرتنقید اور غریبوں کے حقوق کی بات ھوتی تھی- مزدوروں کے استحصال پر احتجاج ھوتا تھا- ان کی یہ شاعری بھی بہت مقبول تھی- میانوالی کے ایک بزرگ (نام یاد نہیں آرھا) ھر مشاعرے میں فاروق روکھڑی کو نقد انعام دیا کرتے تھے-

پھر ایک ایسا دور آیا کہ فاروق صاحب نے غزل لکھنا تقریبا چھوڑ کر سرائیکی میں گیت نگاری شروع کر دی- گلزار بخاری اور میں اردو غزل ھی لکھتے رھے- میں نے لالاعیسی خیلوی کی فرمائش پر سرائیکی گیت بھی لکھے ، مگر غزل لکھنا ترک نہیں کیا-

گیت نگار کی حیثیت میں فاروق روکھڑی لاکھوں لوگوں کے محبوب شاعر بن گئے- ان کا ھر گیت بہت مقبول ھؤا-

” کنڈیاں تے ٹر کے آئے ، ” اور ” اساں گھٹ پیتی اے تے مچ گیا شور وے ” نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے-

گلزار بخاری کی طرح فاروق روکھڑی کا بھی پسندیدہ راگ “ایمن“ تھا- لالا کی آواز میں راگ ایمن کے اندر کا سارا درد سننے والوں کے دلوں میں اتر جاتا ھے، –

فاروق روکھڑی بلاشبہ ایک منفرد شخصیت بھی تھے، شاعر بھی- مشاعروں میں ان کی کمی ھم لوگ آج بھی محسوس کرتے ھیں–14اگست 2016

شاعر کی حیثیت میں سلیم احسن کسی تعارف کے محتاج نہیں- انہیں ان کے پہلے شعری مجموعے “جکھڑ جھولے“ پر قومی صدارتی ایوارڈ ملا- اس حوالے سے وہ میانوالی کے پہلے اور اب تک آخری شاعر ھیں جنہیں یہ اعزاز نصیب ھؤا-
“جکھڑ جھولے“ کے تعارف میں عہدحاضر کے بلند مرتبت شاعر شہید محسن نقوی نے لکھا کہ

“ سلیم احسن دا فن اوندے اندر دی سوچ دے سچ دا عینی شاھد بن کے اوندے ھر شعر کوں ھمیشگی دا سراغ ڈیندا اے، تے اوندے لفظیں کوں زمانے دے نال نال زندہ رھن دا ھنر سکھیندااے-َ“

محسن نقوی جیسے شہنشاہ سخن کے قلم سے نکلے ھوئے یہ الفاظ اپنی جگہ اتنا بڑا اعزاز ھیں جو صدارتی ایوارڈ سے کم نہیں-

“جکھڑ جھولے “ کے فلیپ میں میں نے لکھا ———– “ جکھڑجھولیاں دا تھل نال اوھا رشتہ اے جیہڑا ڈینہہ دے نال پچھانویں دا — موسم گرمی دا ھووے یا سردی دا تھل دی کملی ریت کوں کہیں پاسے قرار نئیں آندا- ریت تے ھوا دی ایں چھیڑ چھاڑ جکھڑ جھولے بن کے تھل دی حیاتی داحصہ بن گئی اے -“

سلیم صاحب کا دوسرا شعری مجموعہ “چیتے چنتےَ “ بھی منظرعام پر آکراھل علم و قلم سے خراج تحسین حاصل کر چکا ھے- “چیتے چنتے “ کی شاعری زیادہ mature اور موضوعات زیادہ وسیع و عریض و عمیق ھیں-

آج کل سلیم صاحب نثر کی طرف زیادہ متوجہ ھیں۔ تاریخ پر ریسرچ کر رھے ھیں ، اور اپنی تازہ معلومات مضامین کی شکل میں شیئر کرتے رھتے ھیں- کالم نگاری بھی کرتے ھیں-

ان سے جب بھی ملاقات ھوتی ھے میں اپنی یہ فرمائش یاددلاتا ھوں کہ لالا اپنی نعتوں کا مجموعہ بھی شائع کروائیں- جواب میں سرورخان کی طرح یہ بھی بس یہی کہہ دیتے ھیں “ھاں، ضرور ، ضرورَ ، ضرور —“ ——منورعلی ملک —-****کل کی پوسٹ انشاءاللہ میرے بچپن کے کلاس فیلو اور بے تکلف دوست پروفیسر محمد فاروق (لالا فاروق) کے بارے میں ھوگی -15اگست 2016

فیس بک سے دوستی —-

الحمد للہ، فیس بک پر آپ لوگوں سے دوستی کا پہلا سال مکمل ھو رھا ھے- پچھلے سال انہی دنوں میں اپنے بیٹے محمد اکرم علی کے ساتھ مری سے ھوتا ھؤا لاھور آیا تو اکرم بیٹے نے لینووو کا لیپ ٹاپ مجھے لا کر دیا اور کہا

“ ابو، سارے شاعر ادیب لوگ فیس بک پہ خود کو متعارف کرا رھے ھیں، مگر آپ گھر میں چھپ کر بیٹھے ھیں، حالانکہ اللہ کے فضل سے آپ کسی سے کم شاعر ادیب نہیں- اور پھر آپ کے ھزاروں سٹوڈنٹ، اور چچا ّعیسی خیلوی کے حوالے سے ھزاروں فین بھی ھیں- میں پانچ سال سے آپ کا فیس بک اکاؤنٹ آپریٹ کر رھا ھوں- مجھے پتہ ھے لوگ آپ سے کتنی محبت کرتے ھیں- اب مہربانی فرما کر اپنی یہ امانت خود سنبھالیں، مجھے اور بھی بہت سے کام کرنے ھوتے ھیںَ “

پروفیسر بیٹے کا لیکچر خاصا مؤثر تھا- میں نے کہا “ بیٹا، آپ کی بات تو درست ھے، مگر آپ جانتے ھیں کہ میں فیس بک کی الف بے بھی نہیں جانتا – اس کے لیے مجھے آپ سے ٹیوشن لینی پڑے گیَ“

اکرم بیٹے نے ہنس کر مجھے کچھ بنیادی باتیں بتا دیں ، اور میں نے اللہ کا نام لے کر کام شروع کر دیا- ابتدا میں اردو کمپوزنگ میں ھاتھ رواں نہیں تھا، اس لیے صرف اپنا ایک آدھ شعر ھی لکھ سکتا تھا- اس پر بھی آپ لوگوں کا جو والہانہ رسپانس ملا، اسے دیکھ کر دل خوش ھو گیا ، اور میں نے فیس بک کو زیادہ وقت دینا شروع کردیا-

بحمدللہ ، جنوری میں میرے دوستوں کی تعداد پانچ ھزار ھو گئی، اور فیس بک نے ھاتھ کھڑے کر دیے کہ صاحب ۔ بس یہی کافی ھیں- پندرہ سو سے اوپر فالوورز بھی ھیں- اور ابھی اور لوگ آرھے ھیں- یقین نہیں آتا کہ اس دور میں اتنی محبت بھی مل سکتی ھے، وہ بھی مفت میں- اللہ کا خصوصی کرم اور آپ لوگوں کی خصوصی مہربانی ھے،

( یہ کہانی ابھی کچھ دن اور چلے گی- ابتدائی دور کے دوستوں کا ذکر بھی ھوگا، انشاءاللہ- صبح کی پوسٹ “میرا میانوالی“ اور انگلش پوسٹ بھی انشاءاللہ جاری رھیں گی، )

17اگست 2016

حاجی محمد اسلم خان نیازی گورنمنٹ کالج میانوالی میں لائبریرین تھے- ان سے میری دوستی کا آغاز آج سے پنتالیس سال قبل اس وقت ھؤا جب میں ٹھٹھی سکول میں ھیڈماسٹر تھا، اور ان کا بھانجا محمد آصف خان میرا سٹوڈنٹ تھا- ایک دن وھاں ان سے ملاقات ھوئی تو میں نے بتایا کہ میں ایم اے انگلش کی تیاری کررھا ھوں، حاجی صاحب نے کہا “آپ کسی وقت کالج آجائیں- لائبریری میں اپنے کام کی جتنی کتابیں ملیں، اٹھا کر لے آئیں اور جتناعرصہ چاھیں ان سے استفادہ کریں-“
یہ بہت بڑی آفر تھی، اور میں نے اس سے پوراپورا فائدہ بھی اٹھایا کیونکہ ایم اے انگلش کی تمام کتابیں میں اپنی جیب سےنہیں خرید سکتا تھا- اللہ اسلم خان کا بھلا کرے کہ انہوں نے میری مشکل آسان کر دی-

جب میں لیکچرر کی حیثیت میں گورنمنٹ کالج میانوالی آگیا تو حاجی صاحب سے دوستی کچھ اور گہری ھوگئی- مجھے انگلش لٹریچر پڑھنے کا شوق تھا اس لیے اکثر لائبریری میں آتا جاتا رھتا تھا- حاجی صاحب کی مہربانی سے مجھے وھاں کتابوں کے علاوہ چائے بھی مل جاتی تھی-

فرض شناسی میں حاجی صاحب اپنی مثال آپ تھے- بیس سال کے عرصے میں میں نے انہیں کبھی فارغ بیٹھے نہ دیکھا- ھر وقت اپنے کام میں مشغول رھتے تھے- یہ کہوں تو بے جا نہ ھوگا کہ یہ اپنے کام کو عبادت سمجھتے تھے-

لائبریری اور ریڈنگ روم کا ڈسپلن مثالی ھوتا تھا- سٹوڈنٹ حاجی صاحب کا احترا م بھی کرتے تھے، ان سے ڈرتے بھی تھے، کہ آخر یہ غلبلی بھی تو تھے-

حاجی صاحب اپنے کام کے اتنے ماھر تھے کہ ھم پروفیسر حضرات کسی کتاب کا نام بتاتے تو یہ کہتے فلاں الماری کے فلاں خانے میں دیکھیں”——— واقعی کتاب وھیں موجود ھوتی تھی- ھزاروں کتابوں کی لائبریری میں ایک ایک کتاب کا ٹھکانہ یاد رکھنا کوئی معمولی کام نہیں-

کچھ اور باتیں انشاءاللہ کل –18اگست 2016

ھر سال کالج لائبریری کے لیے کتابوں کی خریداری کے سلسلے میں حاجی محمداسلم خآن اور میں لاھور جایا کرتے تھے- انگریزی اور اردو ادب کی کتابوں کا انتخاب میں کرتا تھا- باقی مضامین کے پروفیسر صاحبان اپنے اپنے مضمون کی چند کتابوں کے نام لکھ کر ھمیں دے دیا کرتے تھے- کبھی کبھار کوئی اور دوست بھی ھمارا ھمسفر بن جاتا- ایک آدھ مرتبہ سرورخان بھی ھمارے ھمراہ تھے-

حاجی صاحب کا اور میرا یہ سفر بہت پر لطف ھوتا تھا- لائبریری میں اپنے آفس سے باھر حاجی صاحب اچھے خاصے زندہ دل انسان ھوتے ھیں- سفر میں یہ دوستوں کا بہت خیال رکھتے ھیں- میری وقت بے وقت چائے کی فرمائش انہوں نے کبھی رد نہیں کی- سب سے بڑی بات یہ کہ کتابوں کے انتخاب میں انہوں نے مجھے مکمل آزادی دے رکھی تھی- کہا کرتے تھے آپ کو یہ آزادی اس لیے حاصل ھے کہ آپ کو کتابوں کی پہچان ھے، اور کتابیں پڑھتے بھی ھیں – سائنس اور ریاضی کی کتابیں کون پڑھتا ھے-

اس آزادی کا فائدہ اٹھاتے ھوئے میں نے انگلش ڈیپارٹمنٹ کی لائبریری کو بہترین کتابوں سے مالامال کر دیا -ھمارے ھاں ادگلش لٹریچر پر تنقید اور تحقیق کی تازہ ترین کتابیں موجود ھیں- لائبریری کی گرانٹ کے پیسے زیادہ نہیں ھوتے تھے- تھوڑے سے پیسوں میں جو کچھ ممکن تھا میں کرتا رھا- اس سلسلے میں حاجی صاحب کا ھمیشہ ممنون رھوں گا-

لاھور میں ھمارا قیام دربار داتا صاحب کے سامنے پائلٹ ھوٹل پہ ھوتا تھا- ( آج کل وھاں پائلٹ پلازا بن رھاھے) – پائلٹ صرف رھائشی ھوٹل تھا- کھانا ھم ساتھ والے شیراز ھوٹل سے کھایا کرتے تھے- ان کا کھانا بہت اچھا ھوتا تھا-

سیکرٹیریئٹ کے قریب ایک ریڑھی والا کالے رنگ کا شربت بیچتا تھا- خدا جانے وہ کس چیز کا شربت تھا، حاجی صاحب کہتے تھے بڑی زبردست چیز ھے-اس لیے وہ شربت بھی ھم ضرور پیا کرتے تھے———- باقی باتیں انشاءاللہ کل ھوں گی- –19اگست 2016

فیس بک سے دوستی —————

“ھماری ویب“ سے اردو کمپوزنگ اکرم بیٹے نے سکھادی- میانوالی آیا تو تصویریں ڈاؤن لوڈ کرنا اور کچھ دوسری اھم باتیں شاہ جی (اپنے ایم اے انگلش کے سابق سٹوڈنٹ محمداحسن شاہ کاظمی ) سے سیکھ لیں- ھر اتوار کو شاہ جی سے کچھ نہ کچھ میں سیکھتا ھوں- اور انگلش کے بارے میں کچھ نہ کچھ وہ مجھ سے سیکھتے ھیں-

گرافکس کا کام سکھانے والا تو کوئی نہ مل سکا، بہر حال میری شاعری کی آرائش کرنے والے بہت سے عزیز میرے فرینڈز میں شامل ھیں- داؤدخٰیل سے شاھد انور خان نے سب سے پہلے یہ خدمت شروع کی، پھر داؤدخیل ھی کے قدرت اللہ خان نے بھی میرے بعض مقبول اشعار کو تصاویر کا روپ دینا شروع کر دیا، پھر ملک عدنان احمد نے بھی بہت خوبصورت کام میری فرمائش پر کر کے دیا- فورٹ منرو (ڈی جی خان) کے میر ثناءاللہ بجرانی بلوچ اور ان کے کزن ولی محمد بھی بڑی محبت سے میرے شعروں کو مزین کرتے رھتے ھیں- مری سے ذکاء ملک، انجینیئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلا سے ملک عامر سہیل، اور چک سیدا (ملکوال) سے مناظر گوندل اکثر مہربانی کرتے رھتے ھیں- گوندل تو ھر وقت حاضر رھتے ھیں- جب بھی کام کہوں دوچار منٹ میں کرکے بھیج دیتے ھیں- اللہ میرے ان سب بیٹوں کو سلامت رکھے-

پہلے میں صرف اشعار اور انگلش پوسٹس ھی پوسٹ کرتا رھا- ایک دن ذائقہ بدلنے کے لیے اردو پوسٹ لکھ کر لگائی تو آپ لوگوں نے کمنٹس میں کہا کہ ھمیں اردو میں بھی آپ کی ایک پوسٹ روزانہ چاھیے- سو جنوری سے “میرا میانوالی“ کے عنوان سے یہ سلسلہ بھی جاری ھے-

(Picture, me with Lala Isakhelvi and my son Muhammad Akram Ali

فیس بک سے دوستی کے سلسلے میں کل کی پوسٹ بہت اھم ھوگی ، انشاءاللہ- —-19اگست 2016

حاجی محمد اسلم خان اور  علی بیٹا (محمدعلی خان)

کتابوں کی خریداری کے ابتدائی دنوں میں حاجی محمد اسلم خان اور میں نے ایک دفعہ علی بیٹے کے ھاں قیام کیا- علی بیٹا (محمدعلی خان) حاجی صاحب کا سب سے لاڈلا بیٹا ھے- اس پوسٹ کے ساتھ والی تصویر بھی یہی بتا رھی ھے- علی بیٹا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ھے- ان دنوں یہ شیخوپورہ کی کسی فیکٹری میں کام کرتا تھا، اور لاھور میں ماڈل ٹاؤن آور فٰیصل ٹاؤن کے درمیان نوجوانوں کی بستی کوٹھا پنڈ فلیٹس میں رھتا تھا-
کوٹھا پنڈ فلیٹس ایک عجیب بستی ھے- یہاں ملک کے مختلف حصوں سے تعلیم اور ملازمت کے سلسلے میں لاھور آئے ھوئے نوجوان رھتے ھیں- یہاں صرف نوجوان ھی رھتے ھیں- بزرگ اورخواتین نہ ھونے کی وجہ سے یہ بستی امن و سکون کا گہوارہ ھے- (مذاق میں کہہ رھا ھوں ، بزرگوں اور خواتین سے معذرت)-

اس بستی میں رھنے والے نوجوانوں کی ضرورت کی چیزیں بستی میں موجود دکانوں سے مل جاتی ھیں – کھانے پینے کے لیے بہت سے صاف ستھرے ھوٹل بھی ھیں- میانوالی کے بھی بہت سے نوجوان یہاں رھتے ھیں- اس وقت نجیب شاہ کاظمی اور تنویر شاہ کاظمی بھی علی بیٹے کے ساتھ ھی رھتے تھے- ان نوجوانوں نے ھماری بہت خدمت کی ، مگر ھم ایک ھی دفعہ وھاں جا سکے کیونکہ اردو بازار ، مال روڈ وغیرہ سے یہ علاقہ بہت دور تھا- اس لیے ھم نے آئندہ دوروں کے دوران پائلٹ ھوٹل میں قیام مناسب سمجھا، کہ پائلٹ ھوٹل سے اردو بازار بہت قریب پڑتا تھا-

اردو بازار صبح گیارہ بجے کھلتا ھے- حاجی صاحب اور میں گیارہ بجے پائلٹ ھوٹل سے نکلتے ، اور بھاٹی چوک کراس کرکے مداریوں اور سانپ کا تماشا دکھانے والوں کو بائی پاس کرتے ھوئے سرکلر روڈ پہ اردو بازار کی جانب روانہ ھو جاتے- باقی قصہ انشاءاللہ کل —

********** اب یاد آیا- اس سلسلے کی اگلی پوسٹ انشاءاللہ سوموار کو ھوگی- کل آپ سے کیے گئے وعدے کے مطابق محترم سوھنا خان بے وس صاحب کے بارے میں لکھوں گا-20اگست 2016

میرا میانوالی —

ملک سوھنا خان بے وس

تھل کے تپتے جھلستے صحرا میں ٹھنڈے میٹھے پانی کا چشمہ کہوں یا مسافرنواز چھتنار شجر سایہ دار، میرے محترم بھائی ملک سوھنا خان بے وس کچھ اسی قسم کی شخصیت ھیں- ایم ایم روڈ (میانوالی، ملتان روڈ) پر دلیوالہ بےوس صاحب کی وجہ سے ایک مشہور و معروف ، شادوآباد جھوک ھے- ملک کے ھر حصے سے لوگ بےوس صاحب سے ملنے کے لیے آتے ھیں- اس کی وجہ وہ بے پناہ درد ھے جو بے وس صاحب کی شاعری کی جان بھی ھے پہچان بھی- فیض صاحب نے کہا تھا

بڑا ھے درد کا رشتہ ، یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسارچلے

یہی درد کا رشتہ دکھی لوگوں کو دور دراز سے دلیوالہ کھینچ لاتا ھے- سوھنا خان دوست نواز بھی ھیں ، بہت مہمان نواز بھی- نئے لکھنے والے شاعروں کی حوصلہ افزائی اور تربیت کرتے ھیں- اس لیے ان کے ھاں لوگوں کی آمدو رفت ھر وقت لگی رھتی ھے-

بے وس صاحب کے لکھے ھوئے بے شمار گیت لالا عیسی خیلوی نے گائے ھیں – ان کا ھر گیت بہت مقبول ھؤا- مجھے ان کے یہ گیت بہت پسند ھیں ———————-

——- اللہ دی امان ھووی

——- بہوں تڑپایاای ڈھول ناداناں

——- قسمت چنگی جو ناھی

——-میکوں اپنڑیں لٹی زندگی دا نئیں ارمان

——- دلاں دے تاجراو دنیا والو

بے وس صاحب کے ھمراہ مشتاق دلیوالوی سے بھی ملاقاتیں ھوتی رھتی تھیں ، مگر اب وہ اس دنیا میں نہیں- اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور بے وس کی جھوک شاد و آباد رھے- -21اگست 2016

یس بک سے دوستی —

آج آپ کو یہ بتانا ھے کہ مجھے آخر ضرورت کیا ھے فیس بک پہ کام کرنے کی ———

صحت کے بعض مسائل، بالخصوص، سماعت (سننے کی حس) کی کمزوری کی وجہ سے میں نے آج سے تقریبا پانچ سال پہلے پڑھانا چھوڑ دیا- پڑھانا ھی میری زندگی تھا- کلاس میں میں ایک اور منورعلی ملک ھوتا تھا، جو کلاس سے باھر مجھے بھی کبھی نہیں ملا- یہ بات میرے سٹوڈنٹ ھی جانتے ھیں- کلاس میں پڑھانے کے دوران مجھے ایک عجیب سا سکون اور خوشی محسوس ھوتی تھی ، کیونکہ مجھے میرے رب نے پیدا ھی اسی کام کے لیے کیا تھا- کلاس میں بچوں کے چہروں پر اطمینان کا تاثر اور ان کی آنکھؤں میں تشکر کی چمک دیکھ کر میں اللہ کا شکر ادا کرتا تھا کہ اس نے مجھے یہ صلاحیت عطا کی- میں کلاس پر پوری طرح حاوی ھوتا تھا- میرا ایک ایک لفظ ان کے دماغ کے راستے دل میں اتر جاتا تھا- ایک عجیب سی کامیابی کا احساس ھوتا تھا ، جسے الفاظ میں بیان کرنا میرے لیے ناممکن ھے-

فیس بک پہ پوسٹ لکھتے ھوئے وہ احساس کبھی کبھی لمحہ بھر کے لیے لوٹ آتا ھے ، مجھے یوں لگتا ھے جیسے میں کلاس میں اپنے سٹوڈنٹس کے سامنے کھڑا انہیں پڑھا رھا ھوں- لمحہ بھر کے لیے مجھے اس منور علی ملک کی ایک جھلک نظر آجاتی ھے، جسے میں نے کھو دیا تھا- فیس بک پہ میرا لہجہ وھی ٹیچر والا ھوتا ھے- جوکچھ کہنا چاھتا ھوں سیدھے سادہ الفاظ میں کہہ دیتا ھوں ، اور آپ اس سے کچھ نہ کچھ سیکھ لیتے ھیں- مجھے بس یہی چاھیے- اسی لمحہ بھر کی خوشی کے لیے میں روزانہ تین کبھی چار پوسٹس بھی لکھ دیتا ھوں- جیسے کالج میں ایک کلاس سے نکل کر دوسری کلاس میں جایا کرتا تھا ——- باقی باتیں انشاءاللہ کل ھوں گی —21اگست 2016

حاجی محمد اسلم خان

اردوبازار میں ھم سب سے پہلے ایم اے انگلش کی کتابوں کے پبلشر ادارے کتاب محل جاتے- کتاب محل کے مالک سید سردار جاوید سے تعارف بھی حاجی محمد اسلم خان کی مجھ پر ایک یادگار مہربانی ھے- کیونکہ یہ تعارف بعد میں مستقل اور پائدار دوستی بن گیا- ایک پوسٹ کتاب محل کے بارے میں بھی لکھوں گا، کیونکہ کتاب محل سے تعلق بھی میری زندگی کا ایک اھم باب ھے-
کتاب محل سے فارغ ھوکر ھم گورنمننٹ کالج کے ساتھ والی گلی (چیٹرجی سٹریٹ) کے راستے کچہری روڈ پر پنجابب یونیورسٹی اور اوریئنٹل کالج کے سامنے گذرتے ھوئے انارکلی میں پبلشرز یونائیٹڈ پہ کچھ دیر رکتے- وھاں کلاسیکل انگلش لٹریچر اور تاریخ کی مشہورومعروف کتابیں ملتی تھیں- وھاں سے ھم مال روڈ پہ انگریزی ادب کی مزید کتابیں خریدنے کے لیے بک سنٹر، مرزابک ایجنسی ، پیراماؤنٹ بک کارپوریشن وغیرہ کاچکر لگا کر اردو ادب کی کتابوں کی تلاش میں فیروزسنز، مقبول اکیڈیمی ، سنگ میل پبلشرز، اور مزنگ میں واقع نگارشات ، بک مارک وغیرہ کا دورہ کرتے اور اپنے کام کی کتابیں منتخب کرتے-
سکول کے بچوں کی طرح ھنہستے کھیلتے ھم یہ پانچ سات کلومیٹر کا سفر بڑی آسانی سے پیدل طے کر لیتے تھے-
کتابوں کی خریداری کے ان سالانہ دوروں میں ایک دفعہ کالج کے ھیڈ کلرک مرحوم شیخ محمد حسین بھی ھمارے ھمراہہ تھے- پائلٹ ھوٹل کے قریب ایک سینما تھا- شیخ صاحب کو فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا- وہ بضد ھوگئے کہ فلم دیکھنی ھیے- مہمان کے ساتھ ھمیں بھی فلم دیکھنے جانا پڑا- فلم تھی “شعلے ھی شعلے“ —— اتنی بکواس فلم تھی کہ ھم آدھی چھوڑ کر وھاں سے بھاگ آئے —
اس سلسلے کے دوروں کا سب سے دلچسپ واقعہ انشاءاللہ کل سناؤں گا- –22اگست 2016

فیس بک سے دوستی —–

بحمداللہ میری کل کی پوسٹ کو خوب رسپانس ملا- آج اور کل کچھ دوستوں کاذکر ھوگا، جو مجھ سے مسلسل رابطے میں رھتے ھیں- ویسے تو 5000 دوست اور 1575فالوورز سب کے سب میرے دل کے قریب ھیں – ان سب کے صرف نام ھی لکھوں تو کئی پوسٹس بن جائیں گی – یہ تو ناممکن ھے، یہی دعا کرسکتا ھوں کہ اللہ آپ سب کو بےحساب عزت اور رحمتیں عطا فرمائے-

پچھلے سال جب سے میں نے فیس بک پہ کام شروع کیا، سب سے پہلے میرے فرینڈ حاجی اکرام اللہ نیازی (کیو فون والے) نے مجھ سے فیس بک پہ رابطہ کیا اور کسی نہ کسی طرح روزانہ مجھ سے رابطے میں رھتے ھیں – ان سے میری دلچسپ چھیڑ چھاڑ بھی چلتی رھتی ھے- ان کے بارے میں اسی ھفتے انشاءاللہ ایک الگ پوسٹ لکھوں گا-

میرے چار بیٹوں کے علاوہ میرے مرحوم بھائی ملک اعجاز حسین سابق ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ کے صاحبزادے ملک شہباز حسین، میرے بھائی (ان کومرحوم لکھتے ھوئے ھاتھ کانپتاھے) ملک ممتازحسین کے صاحبزادے ملک ایاز ممتاز حسین اور ملک سرفراز ممتاز حسین اور میرے چھوٹے بھائی مظفر علی ملک کے بیٹے رضوان علی ملک مجھ سے روزانہ رابطے میں رھتے ھیں-

میرے ساتھی پروفیسر اشرف علی کلیار، پروفیسر محمد سلیم احسن، پروفیسر حسین احمد ملک کا ذکر پہلے ھی الگ پوسٹس میں ھوچکا-

شاعر ادیب دوستوں میں سے نامور شاعر اور افسانہ نگار ظفر خان نیازی، معروف شاعر اور کالم نگار منصورآفاق، افضل عاجز، ڈاکٹر محمد آصف مغل، صابر بھریوں ، راحت امیر تری خیلوی ، ّعاصم بخاری اور بھکر سے نامور شاعر نجف بخاری سے بھی مسلسل رابطہ رھتا ھے-

میرے سٹوڈنٹس میں سب سے پرانے سٹوڈنٹ میجر (ر) میاں محمد قریشی ھیں- انہوں نے میری ایک پوسٹ پر کمنٹ میں کہا تھا “سر، آپ کی پوسٹ پڑھ کر یوں لگتا ھےوقت پچاس سال پیچھے پلٹ گیا ھے – میں آپ کی کلاس میں ھوں ، اور آپ ھمیں انگلش پڑھا رھے ھیں-

اب تھک گیا ھوں ، باقی دوستوں کا ذکر انشاءاللہ کل ھوگا- میری کوشش ھوگی کہ مسلسل مجھ سے رانطے میں رھنے والا کوئی نام رہ نہ جائے –22اگست 2016

میرا میانوالی ——–

لائبریری کی کتابیں ھم اپنے ساتھ لے کر نہیں آتے تھے- ھم تو صرف کتابیں منتخب کر کے ان کی قیمت کا بل بنوا لیتے تھے- کتابیں بک سیلرز کارگو( ٹرک) سروس یا ڈاک سے بھجوا دیتے تھے- ھم واپس ماڑی انڈس ٹرین سے آتے تھے، جو لاھور ریلوے سٹیشن سے تقریبا شام پانچ بجے روانہ ھوتی تھی- ٹرین میں سفر سے حاجی محمد اسلم خان صاحب پوراپورا فائدہ اٹھاتے تھے- شام ھوتے ھی اوپر کی برتھ پر لیٹ کر آرام سے سو جاتے تھے- مجھے ٹرین میں نیند نہیں آتی، اس لیے میں سگریٹ اور چائے سے دل بہلاتا رھتا تھا- چائے فیصل آباد اور سرگودھا میں مل جاتی تھی ، کیونکہ گاڑی وھاں کچھ دیر رکتی تھی-

ایک دن حاجی صاحب اور میں واپس جانے کے لیے بھاٹی گیٹ تانگہ سٹینڈ سے ریلوے ستیشن کے لیے تانگے میں سوار ھوئے- اگلی سیٹ پر ایک آدمی پہلے سے بیٹھا تھا- میں اس کے ساتھ بیٹھنے لگا تو میں نے حاجی صاحب سے کہا آپ بھی آ جائیں، ایک اور آدمی یہاں بیٹھ سکتا ھے-

حاجی صاحب نے بڑے نخرے سے جواب دیا “ نئیں یار، پچھلی سیٹ خالی پڑی ھے- میں مزے سے ٹانگیں پھیلا کر بیٹھوں گا-“ یہ کہہ کر صاحب پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے-

لاھور تو لاھور ھے- جونہی تانگہ روانہ ھؤا ، دو خواتین بھاگتی ھوئی آئیں- ایک حاجی صاحب کے دائیں طرف، ایک بائیں طرف بیٹھ گئیں- انہوں نے بھی ریلوے سٹیشن جانا تھا-

ھنسی کے مارے ھم دونوں کا برا حال ھونے لگا- بلند آواز میں ھنس بھی نہیں سکتے تھے کہ خواتین رولا نہ کر دیں- میں نے ھنسی روکنے کے لیے سگریٹ سلگا لیا- حاجی صاحب نے منہ پر رومال لپیٹ لیا- ھنسی چھپانے کے علاوہ ان کا مسئلہ یہ بھی تھا کہ راستے میں کسی میانوالی کے آدمی نے یہ فلمی سا منظر دیکھ لیا تو وہ کیا کہے گا- اس لیے منہ چھپانا ضروری تھا-

حاجی صاحب سے جب بھی ملاقات ھوتی ھے ھم یہ قصہ یاد کر کے خوب قہقہے لگاتے ھیں- میں حاجی صاحب کو چھیڑنے کے لیے کہتا ھوں ، یار مجھے صاف بتادینا تھا کہ آپ کے ھمسفر دو اور بھی ھیں- اللہ حاجی صاحب کو سلامت رکھے، بہت اچھا وقت گذارا ھے ھم لوگوں نے-

23اگست 2016

فیس بک سے دوستی ——————خاصا مشکل کام شروع کربیٹھا ھوں کل سے، لیکن ضمیر کا تقاضا ھے کی جو لوگ ایک سال سے مسلسل میری ھر پوسٹ پر لائیکس اور کمنٹس دے رھے ھیں ، ان کے نام

لے کر شکریہ ادا کردوں- ان میں کچھ دوست ایسے بھی ھیں ، جن کے میں صرف نام ھی سے آشنا ھوں، ان سے کبھی ملاقات بھی نہیں ھوئی ، پھر بھی وہ میری ھر پوسٹ پڑھتے اور اس پر لائیک ضرور دیتے ھیں- تصویر ھو، شعر ھو یا تحریر کم ازکم ایک سو لائیکس ضرور آجاتی ھیں- مجھے ان دوستوں کے نام بھی یاد ھو گئے ھیں- وہ دوست یہھیں :

شاعر، ادیب ——– احمدخلیل جازم، اسلام آباد، محمدضیاءاللہ قریشی، محمد ظہیراحمد مہاروی

میرے سابق سٹوڈنٹ —— پروفیسرطاھرجہان نیازی،پروفیسر ڈاکٹر اشفاق احمد، پروفیسر کلیم ملک , کرنل مسعود نیازی، سردار امیراعظم خان انسپکٹر پولیس، ایڈووکیٹ اقبال احمد خان نیازی، ملک رفیع اللہ ، ملک شفیع اللہ کسٹم آفیسرز کراچی، سید نجیب اللہ شاہ کاظمی، سید امیر ملک ٹیکسلا، غلام مصطفی

فرینڈز ——— معروف ماھر تعلیم ظفر نیازی، اورنگذیب نیازی، معین سیالوی، انجینیئر رمضان شاھین، مجیداللہ خان، ذیشان ملک، شکیل ملک، عرفان حیدر چکوال،عطاءاللہ شاھین، شکیل ملک، رومان خان بنوں، ناصر عباس ، قاضی داور شکیل علیگ انڈیا، منور اقبال خان پیرس،

پروفیسر عارف نیازی، پروفیسر شکیل امجد صادق اوکاڑہ

ڈاکٹر محمد ظہیرالدین، ڈاکٹر لیاقت حسین گیلانی ، فضل رحمان، علی ھمایوں، لیاقت علی خان لیاقت، وسیم سبطین، ساجد خان وتہ خیل کیسیٹ ھاؤس-

اللہ آپ سب کو شادوآباد رکھے- فی الحا ل اتنا ھی لکھ سکتا تھا، کچھ نام رہ گئے ھیں، وہ انشاءاللہ کل لکھوں گا- —23اگست 2016

فیس بک سے دوستی —

چراغ تلے اندھیرا اسی کو کہتے ھیں، کل کی پوسٹ میں چند ایسے نام شامل نہیں ھوئے، جو ھر لمحہ میرے قریب رھتے ھیں- قریب کا مطلب یہ ھے کہ میری ھر پوسٹ پر رسپانس دیتے ھیں- ان میں ایک تو میرے محترم بھائی پروفیسر عبدالغفاربھٹی ھیں ۔ جو فیس بک کے علاوہ موبائیل فون پر بھی روزانہ صبح سویرے ایک حدیث پاک یا قرآن کریم کی کسی آیت کا ترجمہ عنایت کرتے ھیں- دوسرے شوکت اللہ خان نیازی ھیں جنھوں نے آج تک میری کوئی پوسٹ مس نہیں کی- شوکت اللہ خان میرے بہت پیارے بیٹے ھیں- ایم اے اگلش میں میرے سٹوڈنت بھی رھے ھیں- میرا ایک اور پیارا بیٹا اشفاق خان نیازی ھے- وہ بھی ھر وقت لائیک یا کمنٹ کے ذریعے میرے سامنے رھتا ھے- اپنی شاعری کے بارے میں بھی مجھ سے مشورہ کرتا رھتا ھے- اولیں دوستوں میں محمد ایان امیربھی ھیں ، جو کراچی میں رھتے ھیں- ان کے علاوہ ایم این اے ا امجدعلی خان بھی میری بعض پوسٹس پر محبت بھرے کمنٹس دیتے رھتے ھیں، اللہ انہیں سلامت رکھے-
میرے داؤدخیل سے عبالستار خان نیازی اور عبدالغفار خان نیازی، اور رحمت اللہ خان بھی میری کاوشوں کیی تحسین کرتے رھتے ھیں- خان نیازی سرمت خیل، سلیم اللہ خان ایڈووکیٹ، سمیع خان، محمد احمد، تنویر شاہ، شیر اقبال خان، لالہ جی، بشیر پرنس، شاہ عالم، طارق محمود اعوان، طارق محمود تلوکر، میر ے ایم اے کے لاڈلے سٹوڈنٹ مہر عباس ھرل، قدرت اللہ خان، خرم خان نیازی، ظفرخان نیازی، فرحان سلیم احمد خان، محمد فیاض، انیس نیازی، مہران سانول عیسی خیلوی، غنڈی سے محمد اکرم خان، ضمیر حسین، اویس کاظمی، سید بلو کاطمی، فیض محمد خان نیازی، عصمت اللہ شاہ، احمد حسن خان، میرے ایم اے کے بہت نمایاں سٹوڈنٹ ںاصر عبدالرحمان، محمد فرحت اللہ خان، محمد رمیز، بہت ھی پیارے بیٹے معظم عباس سپرا،عرفان سرور نیازی، محمد علی نیازی اور بھی بہت سے لوگ ھیں، اللہ آپ سب لوگوں کو شادوآباد رکھے-
24اگست 2016

فیس بک سے دوستی ——–

پرانی پوسٹس کی لائیکس اور کمنٹس میں کچھ ایسے نام نظر سے گذرے جو مسلسل میری پوسٹس پر رسپانس دیتے رھتے ھیں، وہ نام یہ ھیں-
امداد حسین نیازی، محمد اجمل، بلاول تنولی، فردوس حسین نقوی، محمدساجد خان، نیاز محمد بھمب ، عبدالجبار اباخیل،، اسداللہ خان ، رسول بخش میتلا، چوھدری زاھد قدوس، شاھد اشرف کلیار، عصمت اللہ نیازی ‘اصل نام پتہ نہیں کیاھے، لکھتے ڈاکٹر ںائیٹ رائیڈر ھیں، پاکستانی ڈاکٹر ھیں، جرمنی میں رھتے ھیں، فیصل آباد کے ایک بہت پیارے دوست چوھدری صاحب ھیں، اکثر مجھے فیصل آباد آنے کی دعوت بھی دیتے رھتے ھیں، نام ذھن میں اس وقت نہیں آرھا، اسلام آباد سے تنویر حسین ملک, ممتازشاہ اور سلیم شہزاد ھیں- اگر کوئی نام رہ گئے ھوں تو ان سے معذرت،اللہ ان سب کو اور آپ سب کو ھمیشہ خوش اور آباد رکھے-

فیس بک کے حوالے سے میری بہت سی بیٹیاں بھی ھیں، جو بی اے اور ایم اے میں میری سٹوڈنٹ رھی ھیں- ان میں سے کئی مجھے بابا جانی کہتی ھیں، اس لقب کے حسن کو ایک باپ ھی سمجھ سکتا ھے- کچھ میانوالی سے باھر کی بچیاں ھیں ، جو میری سٹوڈنٹ تو نہیں رھیں، بیٹیاں بہرحال ھیں- فیس بک کے حوالے سے مجھ سے رابطے میں رھنے والی بیٹیوں کے نام تو نہیں لکھ سکتا، شکریہ ادا کرنا ضروری ھے- اللہ ان سب کو شادوآباد رکھے، اور انہیں ھر مصیبت سے محفوظ رکھے-

کل سے “فیس بک سے دوستی“ کی کہانی آگے بڑھے گی- کل کی پوسٹ میرے فیس بک کے اولیں دوست حاجی اکرام اللہ نیازی (کیو موبائیل والے) کے بارے میں ھوگی۔ انشاءاللہ- —-25اگست 2016

پروفیسراقبال حسین کاظمی

پروفیسر کاظمی صاحب کالج کے وائس پرنسپل بھی تھے، کنٹرولر امتحانات بھی ، مہتمم تقریبات بھی، کالج میگزین کے انچارج بھی- اور بھی کئی ذمہ داریوں کا بوجھ انہیوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا- اور ھر ذمہ داری احسن طریقے سے نبھاتے رھے- ان تھک انسان تھے- حاجی اسلم خان کی طرح انہیں بھی میں نے ھر وقت مصروف ھی دیکھا- امتحانات کے دنوں میں کالج کی چھٹی کے بعد بھی دیر تک کام میں مشغول رھتے تھے-

کاظمی صاحب کا آبائی گھر موچھ میں تھا- ملازمت کے سلسلے میں ساری زندگی میانوالی میں گذاردی، لیکن موچھ کی تعمیروترقی میں بھی بھر پور حصب لیتے رھے- موچھ ویلفیئر آرگنائزیشن کے صدر یا سیکریٹری بھی رھے-

مجھے انہوں نے کالج کی بزم اقبا ل کا انچارج اور کالج میگزین کے حصہ اردو کا ایڈیٹر بنادیا تو میں نے کہا “سر، یہ کام اردو کے پروفیسر صاحبان کا ھے، کہیں وہ ناراض نہ ھو جائیں-“

کاظمی صاحب نے کہا “وہ بھی جانتے ھیں کہ آپ یہ کام بہتر کر سکتے ھیں- مجھے تو کام چاھیے- “

کالج کی تقریبات کی کمپیئرنگ بھی مجھ سے کرواتے تھے، تقریبات کی اردو رپورٹنگ بھی مجھ سے لکھواتےتھے-

ایک دن میں اپنی کلاسز سے فارغ ھو کر گھر جانے سے پہلے کسی کام سے کالج کے آفس میں گیا تو کاظمی صاحب وھاں آئے – بہت جلدی میں تھے، انہوں نے بھی گھر واپس جانا تھا- مجھ سے کہنے لگے، “منور، یار مجھے شکریئے کا ایک لیٹر ٹائیپ کر دو“

میں نے کہا صبح لکھ لیں گے-

کاظمی صاحب نے کہا نہیں یار میں آج ھی یہاں سے جاتے ھوئے راستے میں پوسٹ کر دوں گا-

میں نے کہا بھیجنا کس کو ھے؟

کاظمی صاحب نے کہا “ اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب نے میری تنخواہ کی فکسیشن کے لیے میری سروس بک منگوائی تھی- وہ آج ھی واپس آئی ھے“

میں نے کہا “ اس ذرا سی بات کا شکریہ ادا کرنا ضروری تو نہیں “

کاظمی صاحب نے کہا “ یار میری یہ عادت ھے کہ کوئی میرا ذرا سا کام بھی کر دے تو میں اس کا شکریہ ضرور ادا کرتا ھوں “-

موڈ تو بالکل نہیں تھا، مگر میں نے لیٹر خود ٹائیپ کر کے دے دیا- کاظمی صاحب بہت خوش ھوئے- لیٹر لے کر چلے گئے-

اگلی صبح یہ اعلان سنا کہ کاظمی صاحب اب کھبی نہیں آئیں گے-

اللہ کا بہت شکر ادا کرتا ھوں کہ میں نے بھائی کی آخری فرمائش پوری کردی- اگر میں وہ لیٹر نہ لکھتا تو ضمیر زندگی بھر ملامت کرتا رھتا- آہ !!!

لوگ آتے رھیں گے دنیا میں

میرا بھائی مگر نہ آئے گا —-25اگست 2016

کل جب پروفیسر اقبال حسین کاظمی کا ذکر لکھ چکا تو اپنے استاد محترم ممتازحسین کاظمی یاد آگئے-
مجھے انگلش سے بچپن ھی سے دلچسپی تھی- سکول کی تعلیم کے دوران تین ٹیچرز نے اس دلچسپی کو جنون میں بدل دیا- اسیی جنون نے انگلش کو میرا ذریعہ معاش بناکر پروفیسر، انگریزی اخبارات کا کالم نگار اور ایم اے انگلش کی متعدد کتابوں کا مصنف بنا دیا-

میرے ان تین ٹیچرز میں پہلے داؤدخیل کے سر گل خان نیازی تھے- وہ ھمیں پانچویں کلاس میں انگلش پڑھاتے تھے- ھمارے زمانے میں انگلش کی تعلیم پانچویں کلاس سے شروع ھوتی تھی- میرے دوسرے محسن ٹیچر ممتازحسین کاظمی تھے، اور تیسرے ھمارے ھیڈماسٹر راجہ الہی بخش-

سرممتازحسین پروفیسر اقبال حسین کاظمی کے چھوٹے بھائی اور پروفیسر عامرکاظمی کے والد تھے- وہ آٹھویں کلاس میں ھمارے انگلش ٹیچر تھے- اس زمانے میں انگلش کی تعلیم میں گرامر کو بنیادی حیثیت حاصل تھی- سر ممتاز حسین گرامر کے لاجواب ٹیچر تھے- بہت خوبصورت انگلش بولتے اور لکھتے تھے- یہ بھی بتادوں کہ وہ گورنمنٹ کالج میانوالی کی تاریخ میں پہلے فرسٹ ڈویژن بی اے تھے- اور اس زمانے کا بی اے آج کے ایم اے سے کم نہیں ھوتا تھا-

سرممتازحسین داؤدخیل میں ھمارے گھر کے قریب ھی ایک کرائے کے گھر میں رھتے تھے- میں سکول ٹایئم کے بعد بھی دن بھر ان کی خدمت میں حاضر رھتا اور گرامر کا کچھ نہ کچھ کام کرکے ان سے رھنمائی حاصل کرتا رھتا تھا- جب میں خود ٹیچر بنا تو کلاس میں اکثر انہی کے انداز میں پڑھانے کی کوشش کرتا رھا-

سر ممتاز سے قریبی تعلق کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کے بڑے بھائی پروفیسر اقبال حسین کاظمی میرے بڑے بھائی کے دوست تھے-

ذریعہ معاش کے فیصلے اللہ تعالی خود کرتا ھے- ٹیچر کی حیثیت میں سر ممتاز کا تقرر عارضی تھا- اگر بی ایڈ کر لیتے تو ملازمت مستقل ھو جاتی، مگر جلد ھی انہیں محکمہ لوکل گورنمنٹ میں ملازمت مل گئی ، اور وہ ادھر چلے گئے- وھاں جلد ھی اسسٹنٹ ڈائریکٹر ھو گئے- بہت عرصہ میانوالی اور خوشاب میں ADLG رھے- اب اس دنیا میں نہیں- اللہ انہیں بے حساب رحمتوں سے نوازے- میرے بہت بڑے محسن تھے-

سر ممتا ز بہت زندہ دل انسان تھے- بڑا جاندار قہقہہ لگاتے تھے- ھر وقت ھنستے ھنساتے رھتے تھے- دل میں ایک حسرت سی ھے کہ کاش وہ ٹیچر ھی رھتے، کیونکہ اس قوم کو اچھے انگلس ٹیچروں کی بھی اتنی ھی ضرورت ھے، جتنی ڈاکٹروں اور انجینیئروں کی، مگر افسو س کہ ایسے ٹیچر بہت کم ملتے ھیں -26اگست 2016

فیس بک سے دوستی —

حاجی اکرام اللہ نیازی میرے سب سے پہلے فیس بک فرینڈ ھیں- میری کسی پوسٹ کی لائیکس پہ کلک کر کے دیکھیں ، سب سے اوپر اکرام اللہ نیازی کا نام ملے گا-
حاجی اکرام سابق ڈی آئی جی پولیس حبیب اللہ خان نیازی کے بھتیجے، اور میرے بہت پیارے دوست سردار رفیقق خان کے قریبی رشتہ دار ھیں- میانوالی میں فیس بک کی سب سے متحرک شخصیت ھیں، روزانہ کئی پوسٹس لگاتے ھیں ، ان کی ھر پوسٹ معیاری ھوتی ھے، اس سے ھم کوئی نہ کوئی اچھی بات سیکھ لیتے ھیں- اشعار کی کمپوزنگ میں بعض اوقات غلطی ھو جاتی ھے، مگر وہ قابل معافی ھوتی ھے، کیونکہ یہ شاعر تو ھیں نہیں کہ قافیہ ردیف کا سر پکڑ کے بیٹھے رھیں-
کچھ عرصہ پہلے حاجی اکرام رنگ برنگے تازہ کھانوں کی تصویریں فیس بک پہ لگایا کرتے تھے- میں کمنٹ میں کہا کرتا تھا کہہ کمال ھے صاحب ۔ آپ دکان بھی چلاتے ھیں ، گھر میں کچن بھی- کسی کھانے کی پکچر پہ میں کمنٹ دیتا تھا “ یہ آپ کا تازہ کرتوت ھے ؟“
کچھ عرصہ سے کھانوں کی پکچرز نظر نہیں آرھیں، لگتا ھے کچن سے ان کی چھٹی ھو گئی- کھانے میں نمک یا مرچ زیادہ ڈالل دی ھوگی-
آج کل حاجی اکرام دعوتوں کی پکچرز لگاتے رھتے ھیں- ھر دوسرے تیسرے دن دوستوں کو کھانا کھلاتے ھیں– چھوٹا موٹا کھانا نہیں، ولیمے جیسا لمبا چوڑا کھانا ھوتا ھے- مجھے بھی بہت دن سے کھانے کی دعوت دے رکھی ھے- میں نے کہا بھی کہ بیٹا میں کھاتا کچھ نہیں، کسی وقت آکر آپ سے چائے پی لوں گا، یہ کہتے ھیں نہیں کھانا تو ضرور ھوگا- اب سوچ رھا ھوں کسی وقت کھاناکھانے کے دس پندرہ ماھرین کی ٹیم ان کے ھاں لے جا کر ان کے شوق کی تکمیل کردوں-

حاجی اکرام میرے سٹوڈنٹ بھی رھے ھیں- سٹوڈنٹ بھی ایسے کہ ایک دفعہ میری ایک پوسٹ پر کمنٹ میں کہا “ سر، ھم تو صرف آپ کی کلاس اٹینڈ کرنے کے لیے کالج آتے تھے- “

اللہ سلامت رکھے بہت پیار ے انسان ھیں- خوش رھنے اورخوش رکھنے کے عادی ھیں- —26 اگست 2016

انگریزی ادب ، بالخصوص کلاسیکل ڈراما پڑھانے والے ٹیچرکو عجیب آزمائشوں سے گذرنا پڑتا ھے- میں ایم اے انگلش پارٹ ون کو ڈراما پڑھاتا تھا- ڈرامے میں دو مواقع نازک ھوتے ھیں، جن میں ٹیچر کو بہت محتاط رھنا پڑتا ھے- ایک تو المیہ مناظر، دوسرے بعض مقامات پر فحش ڈائیلاگ-

ان ڈراموں کے بعض المیہ مناظر ناقابل برداشت حد تک دردناک ھوتے ھیں- ایسے مناظر پڑھاتے وقت اپنے جذبات کو بھی قابو میں رکھنا پڑتا ھے، بچوں کے جذبات کی تربیت بھی کرنی پڑتی ھے- 
ایک دفعہ میں شیکپیئر کا ڈراما The Winter’s Tale پڑھا رھا تھا- جب میں اس منظر پہ پہنچا جہاںں بادشاہ بےقصور ملکہ کو جیل میں ڈالنے کا حکم دیتا ھے، تو اچانک کلاس کی ایک بچی نغمانہ کھوکھر نے بلندآواز میں زارو قطار رونا شروع کر دیا – نغمانہ ایک مجسٹریٹ کی اھلیہ تھیں- بہت لائق سٹوڈنٹ تھیں- صرف وھی نہیں بقیہ سٹوڈنٹس کی آنکھوں میں بھی آنسو چمک رھے تھے- مظلوم ملکہ کے الفاظ پڑھتے ھوئے میری آواز بھی بھرا گئی تھی-
نغمانہ کو تو میں نے اجازت دے دی کہ کلاس سے باھر پلاٹ میں بیٹھ کر جتنا جی چاھے رو لیں- کیونکہ میں جانتا تھا کہ ایسیی حالت میں کسی بچے کو روکنے یا ڈانٹنے سے اس کی شخصیت پر منفی اثر پڑتا ھے-
ڈرامے کا بقیہ منظر تیزی سے پڑھا کر میں ، کلاس سے نکل آیا-
کچھ ایسے ھی تجربات انشاءاللہ سوموار کو بتاؤں گا- مقصد یہ ظاھر کرنا ھے کہ ادب کا مطالعہ سراسرفضول کام نہیں- یہہ ھمارے کردار کی تشکیل میں بھی مدد دیتا ھے- ھم دوسروں کے دکھوں کو محسوس کرنا اور ان کی ممکن مدد کرنا بھی اسی سے سیکھ سکتے ھیں —27 اگست 2016

فیس بک سے دوستی ——

وتہ خیل کیسیٹ ھاؤس بھی میرے اولیں فیس بک فرینڈز میں شامل ھے- فیس بک تو اب کی بات ھے، اس خاندان سے میرا تعلق تقریبا تیس سال پہلے کا ھے- یہ تعلق اس وقت قائم ھوا جب لیاقت خان میرا سٹوڈنٹ تھا- اس وقت یہ میرے اور پروفیسر سلیم احسن صاحب کے اتنا قریب ھؤا کہ ھمارے بیٹوں میں شمار ھونے لگا- اس وقت لیاقت خان کو گلوکاری کا بہت شوق تھا- لالا عیسی خیلوی کے انداز میں بہت خوبصورت گا لیتا تھا- پھر اس خیال سے اس نے گلوکاری چھوڑ دی کہ کہیں لالا ناراض نہ ھو جائے- لالا سے بھی اس کا باپ بیٹے والا تعلق ھے- اس تعلق کی تفصیل میں درد کا سفیر میں لکھ چکا ھوں-
لیاقت نے آج سے پچیس سال پہلے کیسیٹس کا کاروبار میرے اور سلیم صاحب کے مشورے اور اجازت سےے شروع کیا- واپڈا آفس کے سامنے ایک دکان کرائے پرلی- دکان کا نام “سرائیکی سر سنگت “ میں نے تجویز کیا، افتتاح سلیم صاحب نے کیا- اللہ نے ان کے کاروبار میں اتنی برکت دی کہ جلد ھی انہوں نے تین دکانیں بنا لیں- سرائیکی سر سنگت لیا قت نے اپنے بھائی کوثر خان کو دے دی، سانول کیسیٹ ھاؤس کے نام سے ایک دکان نیشنل بنک سامنے اپنے دوسرے بھائی شوکت خان کوکرائے پر لے دی اور خود چھوٹے بھائی رمضان خان کے ساتھ مل کر وتہ خیل کیسیٹ ھاؤس کے نام سے موجودہ دکان بنالی – اس وقت یہ دکان لیاقت اور اس کا بیٹا ساجدعلی خان چلارھے ھیں- لیاقت تو مرضیاں والا ڈھولا ھے- دکان کا زیادہ تر کام ساجد بیٹا ھی کرتا ھے- کچھ باتیں انشاءاللہ کل شیئر کروں گا –
27 اگست 2016

حسب وعدہ آج بے وس صاحب کا کچھ مزید تذکرہ ———————
میرے لیے یہ ایک اعزاز ھے کہ میرے مقبول ترین گیت “ نت دل کوں آھدا ھاں کل ماھی آسی “ کا آغاز بے وسس صاحب کے ڈوھڑے سے ھوتا ھے جس کے پہلے دو مصرعے یہ ھیں-

بہوں ظلم کتوئی راہ وچ چھوڑ ڈتوئی متھے کوئی الزام تاں لیندوں ، چھوڑ نہ ویندوں
بالفرض جے کوئی مجبوری ھاوی میکوں کلہیاں باہ سمجھیندوں ، چھوڑ نہ ویندوں

میرے اس درد ناک گیت کا ماحول انہی پہلے دو مصرعوں سے بن جاتا ھے، اس کے بعد آنسوؤں کی برسات گیت ختم ھونے تک جاری رھتی ھے- یوں لگتا ھے لالا نے میرے اور بےوس صاحب کے الفاظ کا سارا درد اپنی آواز کے درد میں سمو کر اس گیت کو ایک یادگار گیت بنا دیا – لالا نے خود مجھے بتایا تھا کہ میں یہ گیت ریکارڈ کراتے ھوئے بار بار رو پڑتا تھا، اس لیے ریکارڈنگ کئی بار دوبارہ کرنی پڑی-

شکوہ بے وس صاحب کی شاعری کا سب سے اھم موضوع اور ان کا سب سے بڑا کمال ھے- مثال کے طور پر

بہوں تڑپایا ای ڈھول ناداناں ھجر فراق دے ماراں نوں

میکوں آپنڑیں لٹی زندگی دا نئیں ارمان چن سجناں

قسمت چنگی جو ناھی

بےوس صاحب کا ھر مقبول ترین گیت شکوے کا گیت ھے- جیسے میرے زیاد ہ تر گیتوں کا موضوع انتظار ھے- اس حوالے سے ایک دفعہ لالا کے دفتر میں ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ ملک صاحب کیا وجہ ھے ، آپ کے زیادہ تر گیت انتظار کے گیت ھیں- جیسے

توں نئیں آیا

آ تیڈے آؤںڑں دے ویلے آگئے

نت دل کوں آھدا ھاں کل ماھی آسی

میں نے کہا بھائی صاحب وجہ یہ ھے کہ مجھے زندگی میں میرے مزاج کا کوئی بندہ ملا ھی نہیں، اس لیے ھمیشہ انتظار ھی کرتا رھا ھوں-

بے وس صاحب کو اپنے مزاج کا بندہ تو مل گیا تھا مگر ——– قسمت چنگی جو ناھی

انشاءاللہ اگلے اتوار کو منشی منظور صاحب کے بارے میں لکھوں گا-28 اگست 2016

فیس بک سے دوستی —-

کل کی پوسٹ میں میں نے کہا تھا کہ وتہ خیل کیسیٹ ھاؤس کا سارا کام لیاقت خان کا بیٹا ساجد علی خان کرتا ھے- اس کی وجہ یہ ھے کہ اللہ کے فضل سے ساجد بیٹا، آج کے دور کی ٹیکنالوجی کو سمجھتا اور اس سے کام لے سکتا ھے٠ لیاقت تو اتنا سادہ آدمی ھے کہ شاید آڈیو کیسیٹ کی کاپی کرنا بھی نہ جانتا ھو
آج کل کیسیٹ اور سی ڈی وغیرہ کی بجائے لوگ یو ایس بی اور میموری کارڈ میں اپنی پسند کی چیزیں ریکارڈ کرواتے ھیں– یہ بالکل نئی ٹیکنالوجی ھے- ساجد بیٹے نے اس ٹیکنالوجی کو دو طرح استعمال کیا ھے – ایک تو لالا عیسی خیلوی کے نئے پرانے تمام گیتوں کا مکمل ذخیرہ محفوظ کر کے اس کی لسٹ مرتب کردی ھے- دوسرے یہ کہ یو ایس بی اور میموری کارڈ میں ریکارڈنگ کاکام شروع کردیا ھے- آپ کسی گیت کا نام بتا کر ایک منٹ میں اسے یو ایس بی یا میموری کارڈ میں ریکارڈ کروا لیں- اس وجہ سے وتہ خیل کیسیٹ کا کاروبار ماشاءاللہ بہت اچھا چل رھا ھے-

یہ باتیں میں کل کی پوسٹ میں بھی کہہ سکتا تھا، لیکن دوسری پوسٹ لکھنا اس لیے ضروری سمجھا کہ ایک بہت پیارے بیٹے کا ذکر ذرا زیادہ تفصیل سے کرنا چاھتا تھا- میرا یہ بیٹآ لیاقت کا چھوٹا بھائی ظفر خان ھے- ظفر بھی لیاقت کی طرح میرا سٹوڈنٹ رھا- اس لیے اسے میرے قریب رھنے کا زیادہ موقع ملا- ظفرباقی بھائیوں سے اس لیے مختلف ھے کہ اس کی طبیعت اور کچھ اچھی عادتیں بھی میرے جیسی ھیں- اسے بھی پڑھنے لکھنے کا شوق تھا، اب بھی ھوگا- یہ بھی جتنی ھو سکے لوگوں کی خدمت کرتا رھتا ھے٠ اس وجہ سے اپنے محکمہ سوئی گیس میں بھی اللہ نے اسے بہت عزت عطا کی ھے- مجھ سے بے پناہ محبت کرتا ھے اور میرے ھر حکم کی تمعمیل کرنا اپنا فرض سمجھتا ھے-

اللہ ان تمام بھائیوں کو سلامت رکھے، یہ لوگ میرا مان ھیں –28 اگست 2016

پچھلے سنیچر کو میں نے ادب ( ڈراما، ناول، افسانہ، شاعری) پڑھنے پڑھانے کی بات کرتے ھوئے یہ کہا تھا کہ ادب کامطالعہ ھمارے کردار کی اصلاح کا ذریعہ بن سکتا ھے- جی ھاں , شیکسپیئر کا المیہ ڈراما ھو یا صابر بھریوں کا ڈوھڑا، اسے سن کر اگرآپ رو دیتے ھیں تو یہ بھی ایک ا اچھی بات ھے کیونکہ رونے سے دل کا میل اترتا ھے- اسی لیے کسی شاعر نے کہا تھا —
ھر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

ایم اے انگلش کی کلاس کو ڈراما پڑھاتے ھوئے رونے کا ایک واقعہ بھی میں نے آپ کو بتایا تھا- ڈراما پڑھانے والے ٹیچر کو ایسی آزمائشوں سے اکثر گذرنا پڑتا ھے- شیکسپیئرکا ڈراما King Lear پڑھاتے ھوئے تو ایسا اکثر ھوتا تھا- ٰیہ ڈراما ایم اے کے پرائیویٹ سٹوڈنٹس کے کورس میں شامل تھا- میں نے کئی دفعہ پڑھایا اور ھر بار سٹوڈنٹس کو بھی آنسو بہاتے دیکھا، ضبط کی کوشش کے باوجود اپنے آنسو بھی روک نہ سکا- یہ وہ ڈراماھے جس کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ اگر شیکسپیئر کے باقی تمام ڈرامے اس دنیا سے اٹھ جائیں اور صرف King Lear رہ جائے توپھر بھی شیکسپیئر کا قدوقامت وھی رھے گا، وہ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا ڈراما نگار ھی کہلائے گا-

اس ڈرامے میں خاص طور پروہ منظر نہایت دردناک ھے جب تخت و تاج اور ذھنی توازن سے محروم بوڑھا بادشاہ اندھیری رات میں جنگل میں بھٹکتا پھر رھا ھوتا ھے، تو اچانک اوپر سے گرج چمک کے ساتھ شدید بارش شروع ھو جاتی ھے- بادشاہ بادل سے مخاطب ھو کر کچھ اس قسم کی بات کہتا ھے کہ تو بھی آگیا، یہی کسر رہ گئی تھی میری بد بختی میں، یہ بجلی جو چمک رھی ھے گرادے میرے بوڑھے سر پر، میں گناہ گار ھوں ، گرادے بجلی مجھ پر “

یہ تو میں نے آپ کی آسانی کے لیے بات کو بہت نرم کر دیا ، بادشاہ کے اصل الفاظ پڑھ سن کر تو سخت سنگ دل آدمی بھی آنسو ضبط نہیں کر سکتا – اسی ڈرامے کے بارے میں کچھ مزید باتیں انشاءاللہ کل بتاؤں گا-

یس بک سے دوستی —

آج فیس بک نے میرے Home Page پہ میری آج سے ایک سال پہلے کی 29 اگست 2015 کی پوسٹ شیئر کی ھے – یہ پوسٹ صرف میرا یہ شعر تھا –

شکر ھے آپ مل گئے ورنہ 
شہر میں کون جانتا تھا ھمیں

اس وقت میں فیس بک پہ صرف اتنا ھی پڑھ لکھ سکتا تھا- پھر آپ کی محبت نے مجھے بھی اچھا خاصا پڑھا لکھا بنا دیا، اور میں روزانہ ایک اردو اور ایک انگلش کی اچھی خاصی لمبی چوڑی پوسٹیں لکھنے لگا- اپنے دو پہلے فیس بک ٹیچرز (اکرم بیٹے اور احسن کاظمی) کی مدد سے پکچرز اپ لوڈ اور ڈاؤن لوڈ کرنا بھی سیکھ لیا- آج کی پوسٹ کے ساتھ والی پکچر میری پہلی پروفائیل پکچر تھی- یہ میرے کہنےپر اکرم بیٹے نے فیس بک پہ لگا دی تھی- یہ پکچر اکرم ھی نے چند سال پہلے مری میں بنائی تھی-

اوپر دیا ھؤا میرا شعر بھی پرانا تھا، مگر پچھلے سال آج کےدن اس لیے لگایا تھا کہ دوستوں کی تعداد میں بے حد تیزی سے اضا فہ ھو رھا تھا دوستوں کی موجودہ تعداد چند روز پہلے آپ کو بتا دی تھی – فالوورز پچھلے ھفتے 1575 تھے آج اللہ کے فضل سے 1651 ھو گئے ھیں- کبھی کبھی دوستوں اور فالوورز کی مسلسل بڑھتی ھوئی تعداد دیکھ کر پریشان ھو جاتا ھوں کہ یہ کیا ھو رھا ھے میرے ساتھ

میں اس کرم کے کہاں تھا قابل ؟؟؟

صرف یہ سوچ کر دل کی تسکین کر لیتا ھوں کہ یہ سب کچھ میرے رب کریم کا فضل ھے- جب چاھے گا واپس لے لے گا- میرا اپنا تو کچھ بھی نہیں- سب کچھ اسی کا ھے- جو کچھ مل رھا ھے اس پہ شکر ادا کرتا رھتا ھوں -29 اگست 2016

یس بک سے دوستی—

آج صبح فیس بک نے بتایا کہ آج میری اور ظفر نیازی کی دوستی کی پہلی سالگرہ ھے- جی ھاں پچھلے سال طفر نیازی اور میری دوستی کا آغاز30 اگست کو ھؤا- یہ آغاز ایک لڑائی سے ھؤا، لڑائی علمی تھی اس لیے بہت جلد صلح صفائی ھوگئی-


ھماری دوستی کا آغاز میری ایک انگلش پوسٹ پر ظفر کے تنقیدی کمنٹ سے ھؤا- میں نے اس پوسٹ میں یہ کہا تھا کہہ خوبصورت انگلش سادہ اور مؤثر ھوتی ھے- ظفر نے کہا جی سادہ انگلش مؤثر ھو ھی نہیں سکتی- تکرار میری ایک دو پوسٹوں پر کمنٹس تک جاری رھی- کچھ دوستوں نے کہا جی اس بندے کو ان فرینڈ کر دیں کہ یہ آپ جیسے ٹیچر سے اختلاف کی جسارت کر رھا ھے- کچھ نے کہا اس کو بلاک کر دیں- میں نے کہا علمی بحث پر میں کسی کو بلاک نہیں کر سکتا، اس بحث میں اپنی اپنی جگہ دونوں کا مؤقف درست ھے- ظفر ملٹن اور ڈاکٹر سیموئیل جانسن کے انداز میں لکھنا پسند کرتے ھیں، میں ورڈسورتھ اور جین آسٹن کے انداز میں-
فیصلہ یہ ھؤا کہ ظفر نے میرا مؤقف تسلیم کرلیا، میں نے تو ان کا مؤقف کبھی غلط کہا ھی نہیں تھا، ملٹن اور جانسن کو نکما کیسے کہہہ سکتا تھا- ظفر نے بھی مان لیا کہ ورڈسورتھ اور جین آسٹن اپنی جگہ بے مثال تھے-

ظفر نیازی تعلیمی اداروں کی ایک معروف چین سے منسلک میانوالی کے ایک معیاری تعلیمی ادارے کے ایڈمنعٹریٹر ھیں- اور بہت کامیاب ایڈمنسٹریٹر ھیں- ایم اے انگلش ھیں- یہ ان ایم اے انگلش میں سے ھیں جنہیں انگلش آتی بھی ھے- ایم اے انگلش میں ھمارے سٹودنٹ تھے-بہت اچھی انگلش لکھتے اور بولتے ھیں- آئی ٹی پر بھی مکمل عبور ھے- تعلیم کی جدید ترین ٹیکنالوجی کے زبردست ماھر ھیں- اپنے ادارے کی پروموشن میں بھی ٹیکنالوجی سے کام لیتے ھیں- نہایت مصروف زندگی گذار رھے ھیں-

ظفر کا ذوق شعر بہت معیاری ھے- اشعار کا برمحل استعمال ان کا خصوصی کمال ھے- ذوق جمالیات سے مالا مال ھیں- ان بے شمار خوبیوں کے علاوہ میری میرٹ لسٹ میں ظفر کے دس نمبر ھزارے خیل ھونے کے بھی ھیں- سو میں سے ایک سو دس نمبر اس لیے دے رھا ھوں کہ ھزارے خیلوں سے میری دوستی بہت پرانی ھے- —30 اگست 2016

اس ڈرامے کا آخری منظر انتہائی دردناک ھے- تخت و تاج اور ذھنی توازن سے محروم بوڑھے بادشاہ کو اس کا تخت وتاج واپس دلوانے کی کوشش میں اس کی بیٹی کورڈیلیا اپنی جان سے بھی ھاتھ دھو بیٹھتی ھے- جنگ میں شکست کے بعد کوڈیلیا اور اس کے باپ کو جیل میں ڈال دیا جاتا ھے- پھر تخت پر قابض غاصب کورڈیلیا کو سزائے موت دلوا دیتا ھے- پھانسی کے بعد اس کی لاش اس کے باپ کے سامنے لائی جاتی ھے تو اس وقت بد نصیب باپ کی جو حالت بیان کی گئی ھے اور جو درد بھرے الفاظ وہ کہتا ھے، کمزوردل آدمی برداشت نہیں کر سکتا- اتنا درد بھر دیا ھے شیکسیئر نے اس منظر اور ان الفاظ میں کہ کئی لوگ یہ ڈراما دیکھتے ھوئے شدت غم سے یا تو پاگل ھو جاتے تھے یا مر جاتے تھے- اسی لیے ایک اور ڈراما نگار نے اس ڈرامے کا اختتام تبدیل کر کے اسے ایک خوشگوار ڈراما بنا دیا- مگر کہاں شیکسپیئر اور کہاں کوئی اور ، لوگوں نے اس مسخ شدہ نقل کو مسترد کر دیا اورKing Lear اصل شکل میں دوبارہ منظر عام پہ آگیا –

اس ڈرامے میں عام آدمی کے کام کی بات یہ ھے کہ والدین کو اپنے بچوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں جلدبازی اور ھٹ دھرمی نہیں کرنی چاھیے، بلکہ ان کے کردار کو سمجھ کر فیصلے کرنے چاہیئیں- بادشاہ نے جن دو بیٹیوں کو تخت و تاج کا وارث بنادیا تھا، انہوں نے اسے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا- اور جس بیٹی کی صاف گوئی سے ناراض ھو کر اسے گھر سے نکال دیا تھا اسی بیٹی نے باپ کو تخت و تاج واپس دلوانے کی کوشش میں اپنی جان بھی قربان کر دی-30 اگست 2016

گورنمنٹ کالج میانوالی میں اپنے ساتھیوں کا ذکر کر رھا تھا، باتوں باتوں میں آپ کو اہنے کلاس روم لے گیا،وھاں شیکسپیئر سے آپ کی ملاقات کروائی- آج پھر واپس سٹاف روم چلتے ھیں-
اب تک میں نے جن دوستوں کا ذکر کیا یہ وہ لوگ تھے جنھیں میں نے بہت قریب سے دیکھا- ان کی شخصیت ، کردار اورر عادات کے بارے میں کچھ اھم باتیں آپ کے ساتھ شیئر کرتا رھا-
جب میں کالج میں تھا، اس وقت پروفیسر صاحبان کی تعداد 63 تھی- اللہ کے فضل سے سب لوگ میرے مہربانن دوست تھے- پروفیسر صاحبان اس وقت بھی دو نظریاتی گروپس میں تقسیم تھے- لیکن نظریاتی اختلافات کبھی ذاتی رنجشوں میں تبدیل نہ ھوئے- ان اختلافات کے باوجود باھمی احترام اور تعاون کی فضا ھمیشہ برقرار رھی-تنظیم اساتذہ اور انجمن اساتذہ سے وابستہ لوگ بھائیوں کی طرح مل جل کر رھتے اور ایک دوسرے سے تعاون کرتے تھے- اللہ کرے احترام اور تعاون کی وہ فضا ابھی تک برقرار ھو-
پروفیسر صاحبان میں سے کئی میرے سابق سٹوڈنٹ تھے- سب سے سینئر سٹوڈنٹ فزکس کے پروفیسرر عبدالرحیم نقشبندی تھے- وہ ھائی سکول داؤدخیل میں میرے سٹوڈنٹ رھے- شعبہ انگریزی کے سربراہ ناصر اقبال کا ذکر پہلے ھو چکا- شعبہ سیاسیات کے سربراہ پروفیسر اشفاق خان نیازی ، اسلامیات کے قاری ظفراقبال، کیمسٹری کے ظفراقبال خان نیازی ، نفیسات کے پروفیسر ملک محمدکلیم، جو آج کل کینیڈا میں ھیں- انگلش کے طاھر جہان خان نیازی کا ذکر بھی پہلے ھو چکا، وہ اب گورنمنٹ کالج ٹاؤن شپ لاھور میں متعین ھیں- فیس بک پر مجھ سے مستقل رابطے میں رھتے ھیں- کالج میں موجود پروفیسر صاحبان میں سے فیس بک پر صرف شعبہ سیاسیات کے عارف خان نیازی اورشعبہ تاریخ کے میاں ساجد شاہ میانہ سے ملاقات ھوتی رھتی ھے- میں اپنی پوسٹس میں کالج کی جو پکچرز لگاتا ھوں ، عارف نیازی نے مجھے عنایت کی ھیں- باقی باتیں انشاءاللہ کل کریں گے-31 اگست 2016

فیس بک سے دوستی —
ناصر خان میرے دیرینہ فیس بک فرینڈ کے علاوہ بھی بہت کچھ ھیں- صاف ستھرے، نفیس مزاج، صاحبب ذوق،خوش گفتار، نہایت مخلص دوست ناصرخان میانوالی کی مقبول ترین شخصیات میں شمار ھوتے ھیں- شاعرادیب لوگوں سے بہت محبت کرتے ھیں- ان میں سے کچھ لوگوں سے ٹوٹ کر پیار کرتے ھیں- مرحوم فاروق روکھڑی ان کے ھاں آیا کرتے تھے- گلزار بخاری اب بھی اکثر آتے ھیں، ملکی سطح پر معروف افسانہ نگار پروفیسر حامد سراج بھی اکثر ان سے ملنے آتے ھیں- الحمد للہ میں بھی ان خوش نصیبوں میں سے ھوں جن سے یہ ٹوٹ کر پیار کرتے ھیں- جب بھی ان کے ھاتھ لگ جاؤں پکڑ کر بٹھاتے ھیں اور تصویر بنادیتے ھیں- اور تصویر بھی ایسی جسے دیکھ کر میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو آجاتے ھیں- پتہ نہیں کس طرح یہ تصویر میں میری اس شخصیت کو لے آتے ھیں ، جسے دیکھنے کو میری اپنی آنکھیں بھی ترستی رھتی ھیں-


اس پوسٹ میں شامل میری دونوں تصویریں ناصر نے بنائی ھیں- 1982 میں میں ایک دوست کے ساتھ ناصر کے سٹوڈیو میں گیا- دوست نے تصویر بنوانی تھی- وہ بن گئی تو ناصر نے مجھ سے کہا “ سر میرا دل چاھتا ھے اج ایک تصویر آپ کی بھی ھوجائے، میں نے کہا میرے بھائی میں تو کبھی سر پہ کنگھی بھی نہیں پھیرتا ، جس حال میں اٹھتا ھوں ، اسی حا ل میں کالج چلا جاتاھوں- ناصر نے کنگھا شیشہ لادیا اور پھر وہ بلیک اینڈ وائیٹ تصویر بنا دی جو آپ دیکھ رھے ھیں-
ایک دن میں نے کہا ناصر بندہ دوسرا خوبصورت تھا، اور تصویر آپ نے میری خوبصورت بنا دی، یہ کیسے ھؤا- ناصر نے کہاا َ“ سر، وہ تصویر پیسوں کے لیے بنائی تھی، آپ کی تصویر آپ سے محبت کے اظہار کے لیے“
کچھ اور کہنے کی ضرورت رہ گئی اس پوسٹ میں ؟؟؟ ——–منورعلی ملک –  31 اگست 2016

 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top